سلائیڈرمحافلمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

قرآن مجید میں امام علی علیہ السلام کے فضائل شیخ ضیاء جواھری

قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:
اِنَّماَ وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رسُولُه وَ الَّذِین آمَنُوا الّذِینَ یُقیمُونَ الصَّلوٰة ویُؤتُون الزَّکَاةَ وَهُمْ راکعونَ
"بےشک اللہ اور اس کا رسول اور اس کے بعد وہ تمہاراولی ہے جو ایمان لایا اورنماز قائم کی اور رکوع کی حالت میں زکات ادا کی”۔
زمخشری اپنی کتاب کشاف میں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ نے نما ز پڑھتے وقت حالت رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی عطا کی۔ زمخشری مزید کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اعتراض کرے کہ اس آیت میں تو جمع کا لفظ آیا ہے اور یہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لئے کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جب کسی کام کا سبب فقط ایک ہی شخص ہو تو وہاں اس کے لئے جمع کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے تا کہ لوگ اس فعل کی شبیہ بجا لانے میں رغبت حاصل کریں اور ان کی خواہش ہو کہ ہم بھی اس جیسا ثواب حاصل کرلیں۔
(الکشاف ج۱ ص ۶۴۹)
نیزاللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بینةٍ مِنْ رَبّهِ وَ يَتْلُوْهُ شَاهِد مِنْهُ
"کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلےل پر قائم ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ ہے جواسی سے ہے”۔
سیوطی درمنثور میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور مزیدکہتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"اٴفمن کان علیٰ بینةٍ من ربهِ و يتلوه شاهدٌ منه
"وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلےل پر قائم ہے وہ میں ہوں اور اس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ بھی ہے جو اسی سے ہے اوروہ حضرت علی علیہ السلام ہیں”۔
(سیوطی نے در منثور میں اس آیت کے ذیل میں اس مطلب کو بیان کیا ہے)
نیزاور اللہ کا یہ ارشاد ہے :
اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُون
"کیا ایمان لانے والا اس شخص کے برابر ہے جو بد کاری کرتا ہے ؟یہ دونوں برابر نہیں ہیں”۔
واحدی نے مذکورہ آیات کے اسباب نزول کے بارے میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولید بن عقبہ بن ابی محیط نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کہا۔
میں آپ سے عمر میں زیادہ ،زبان میں گویا تر اور زیادہ لکھنا جانتا ہوں۔ حضرت علی علیہ السلا م نے اس سے کہاکہ خاموش ہو جاؤ تم تو فاسق ہو اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :
"اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ
"کیا ایمان لانے والا شخص اس کے برابر ہے جو کھلی بدکاری کرتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے” ۔
ابن عباس کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ
"حضرت علی علیہ السلام مومن ہیں اور ولید بن عقبہ فاسق ہے "۔
(واحدی اسباب نزول ص۲۶۳)
نیز اللہ کا فرمان ہے :
"إِنْ تَتُوْبَا إِلَی اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللهَ هُوَ مَوْلٰیه وَجِبْرَيْلُ وَصَالِحُ الْمؤمنین وَالمَلٰا ئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِيْرٌ "

"( اے نبی کی ازواج ) اگر تم اللہ کے حضور توبہ کر لو (تو بہتر ہے ) کیونکہ تمہارے دل کج ہو گئے ہیں اگر تم دونوں نبی کے خلاف کمر بستہ ہو گئےں توبےشک اللہ ،جبرئےل اور صالح مومنین اس کے مدد گار ہیں اور ان کے بعد ملائکہ کے بعد ملائکہ ان کی پشت پر ہیں”۔
( تحریم:آیت۴)
ابن حجر کہتے ہیں طبری نے مجاہد کے حوالہ سے نقل کیا ہے صالح المومنین حضرت علی علیہ السلام ‘ ابن عباس ، حضرت امام محمد بن علی ا لباقر اور ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں ۔ ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔
(فتح الباری ،ج ۱۳ ص ۲۷)
اسی طرح خداوندعالم کا یہ ارشاد :
لِنَجْعَلَهَا لَکُمْ تَذْکِرَةً وَتَعِیَهَا اٴُذُنٌ وَاعِیَةٌ
(حاقہ آیت ۱۲)
"اس واقعہ کو تمہارے لیئے یادگار بنا دیں تاکہ یاد رکھنے والے کان اس کو یا د رکھیں”۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی اس آیت وتعیهااٴُذن واعیه کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کے کانوں کو ان خصوصیات کا مالک بنا دے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم سے جس چیز کو بھی سنتا تھااسے فراموش نہیں کرتا تھا۔
(تفسیر طبری ج ۲۹ ص ۳۵)
حضرت علی کے متعلق اللہ تعالی کا ایک اور یہ فرمان ہے:
اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ
"آپ تو محض ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم میں ایک نہ ایک ہدایت کرنے والا ہوتا ہے”۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
"اٴنا المنذر وعلي الهادي وبک یا علی يهتدی المهتدون من بعدی "
” میں ڈرانے والا اور حضرت علی علیہ السلام ہادی ہیں "۔
اس کے بعداسی جگہ فرمایا:
"اے علی علیہ السلام میرے بعد ہدایت چا ہنے والے تیرے ذریعے ہدایت پائیں گے”۔
(کنز العمال ج ۶ ص۱۵۷)
اسی طرح خداوند متعال کا ایک اور فرمان ہے:
الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَهُمْ اٴَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ "
"وہ لوگ جو دن اور رات میں اپنا مال پوشیدہ اور آشکار طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں کسی قسم کا خوف و غم نہیں ہے”۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئی آپ کے پاس چار درہم تھے آپ نے ایک درہم رات میں، ایک درہم دن میں، ایک درہم چھپا کر اور ایک درہم علانیہ اللہ کی راہ میں خرچ کیاتو یہ آیت نازل ہوئی۔
(اس روایت کو اسد الغابہ میں ابن اثیر جزری نے ج ۴ ص ۲۵، ذکر کےہے۔ اور اسی مطلب کو زمحشری نے تفسیرکشاف میں نقل کیا ہے ان کے علاوہ دوسری کتب میں بھی ےہی تفسیر مذکور ہے)
نیزاللہ کا فرمان ہے:
إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَهُمْ الرَّحْمٰنُ وُدًّا "
(مریم آیت ۹۶)
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے عنقریب خدائے رحمن ان کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کرے گا ۔
حضرت علی علیہ السلام کے فضل و کمال کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات میں خداوندمتعال کاارشاد سیجعل لہم الرحمن ودا خصوصی طور پر آپ کی بابرکت شان کی عکاسی کرتا ہے ۔اسی کے بارے میں ابوحنفیہ کہتے ہیں کہ کوئی مومن نہیں ہے جس کے دل میں حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اہلبیت کی محبت قائم نہ ہو۔
(ریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۰۷،الصواعق ص۱۰۲، نور الابصار ص ۱۰۱)
نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ "
(البینہ آیت ۷)
"جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے یہی لوگ مخلوقات میں سب سے بہتر ہیں”۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
یا علي تاتي اٴنت و شيعتک یوم القیامة راضين مرضين و یاٴتي عدوک غضا باً مقمَّحين
"اے علی علیہ السلام وہ خیر البریہ آپ اور آپ کے شیعہ ہیں آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خوشی و مسرت کی حالت میں آئیں گے اور آپ کے دشمن رنج و غضب کی حالت میں آئیں گے”۔
"قال: ومن عدوی؟
"حضرت علی نے کہایا رسول اللہ میرا دشمن کون ہے ؟”
"قال:من تبراٴ منک ولعنک
آپ نے فرمایا:
"جو آپ سے دوری اختیار کرے اور آپ کو برا بھلا کہے وہ آپ کا دشمن ہے”۔
(صواعق محرقہ ص ۹۶،نور الابصار ص ۷۰ اور ص ۱۰۱)
اسی طرح خداوندمتعال کا ایک اور فرمان ہے :
"یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ
"اے مومنین ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ "۔
سورہ تو بہ کی اس آیہ شریفہ کے ذیل میں جناب سیوطی کہتے ہیں:
ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالی کا یہ فرمان :
اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ
"اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ”۔
"اس میں سچوں کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہو جاؤ”۔
نیزاللہ کا فرمان ہے:
اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَیَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ "
( در منثور در ذیل آیت)
"کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کو آبادکرنے کے کام کو اس شخص کی خدمت کے برابر سمجھ لیا ہے جو اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان لا چکا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی کر چکا ہے یہ دونوں خدا کے نزدیک برابر نہیں ہو سکتے اور خدا ظالموں کو سیدہے راستہ کی ہدایت نہیں کرتا”۔
السدی کہتے ہیں کہ
” حضرت علی علیہ السلام ،جناب عباس اور شبیر بن عثمان آپس میں فخر کیا کرتے تھے ،حضرت عباس کہتے تھے میںآپ سب سے افضل ہوں کیونکہ میں بیت اللہ کے حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں ،جناب شبیر کہتے تھے کہ میں نے مسجد خدا کی تعمیر کی”۔
حضرت علی علیہ السلام کہتے ہیں:
” میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور ان کے ساتھ مل کر اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:
الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ اٴَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْفَائِزُونَ یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِیهَا نَعِیمٌ مُقِیمٌ "
( توبہ آیت ۲۰تا ۲۱، تفسیر طبری ج ۱۰ ص ۶۸)
"وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ تعالی کی راہ میں جان ومال کے ذریعہ جہاد کیا اللہ تعالی کے نزدیک ان کا بہت بڑا مقام ہے ،یہی لوگ کا میاب ہیں اللہ تعالی نے انہیں اپنی رحمت کی بشارت دی ہے باغات اور جنت انہیں کے لیئے ہیں اور وہ ہمیشہ وہاں رہیں گے”۔
نیز اللہ تعالی یوں ارشاد فرماتا ہے:
وَقِفُوْهُمْ اِنّهُمْ مَسْؤلُون
‘انہیں روکو ، ان سے سؤال کیاجائے گا”۔
ابن حجر کہتے ہیں کہ دیلمی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجےد کی اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انہیں روکو،کیونکہ ان سے ولایت علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام سے متعلق سوال کیاجائے گا۔
اسی مطلب کو واحدی نے بھی بیان کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے فرمان وقفوہم انہم مسئولون ۔کہ انہیں ٹھھراؤ یہ لوگ ذ مہ دار ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت کی ولایت کے سلسلے میں جواب دہ ہیں کیونکہ اللہ تبارک تعالی نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کو بتاؤ کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا فقط یھی اجر مانگتا ہوں کہ میرے قرابت داروں سے محبت رکھو۔
کیا ان لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہ السلام سے اسی طرح محبت کی جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تھا یا انہوں نے ان سے محبت کرنے کا اہتمام نہیں کیا اور اسے اہمیت نہیں دی لہٰذا اس سلسلہ میں ان لوگوں سے پوچھا جائے گا۔
(الصواعق محرقہ ص ۷۹)
خداوندعالم کا ارشاد ہوتا ہے :
یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِهِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ
(فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ مائدہ کی اس آیت کے ذیل میں یہ تفسیر بیان کی ہے)
"اے ایمان والو! تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے عنقریب اللہ ایسے لوگوں کو ان کی جگہ پر لے آئے گا جنہیں اللہ دوست رکہتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہونگے ،مومنین کے ساتھ نرم اور کافروں کے ساتھ سخت ہونگے اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کے ملامت سے نہیں ڈریں گے،یہ خدا کی مہربانی ہے ،جسے چاہے عطا فرمائے اور خدا صاحب وسعت اور جاننے والا ہے”۔
فخر الدین رازی اور علماء کا ایک گروہ اس آیہ مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ،اور اس پر دو چیزیں دلالت کرتی ہیں پھلی یہ کہ جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن فرمایا:
"لاٴدفعن الرایة غداً الیٰ رجلٍ یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله”
” کل میں یہ پرچم اس شخص کے حوالے کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول کومحبوب رکہتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں”۔
اس کے بعد پرچم حضرت علی علیہ السلام کے حوالے کیا لہٰذا یہ وہ صفت ہے جو آیت میں بیان ہوئی ہے ۔
دوسری یہ کہ ا للہ نے اس آیت کے بعد مندرجہ ذیل آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے حق میں بیان فرمائی:
"إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ
” تمہارا حاکم اور سردار فقط اللہ،اس کا رسول،اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور پابندی سے نماز پڑھتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں "۔
ابن جریر کہتے ہیں:
اگریہ آیت یقینا حضرت علی علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی ہے تو اس سے پہلی والی آیت کا حضرت علی کے حق میں نازل ہونا اولی ہے۔
نیزاللہ تعالی کا یہ فرمان :
فَاسْاٴَلُوا اٴَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ
"اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے سوال کرو”۔
جابر جعفی کہتے ہیں کہ جب یہ آیت
فاُسئلوا اٴهل الذکر ان کنتم لا تعلمون
نازل ہوئی تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے تھے ہم اہل ذکر ہیں۔
(تفسیر طبری ج ۱۷ ص۵)
اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے:
"اٴَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَیْلٌ لِلْقَاسِیَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِکْرِ اللهِ اٴُوْلَئِکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ
"کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیئے کھول دیا ہے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور(ہدایت)پر ہے اس کے برابر ہو سکتا ہے جو کفر کی تاریکیوں میں پڑا رہے پس افسوس ہے ان لوگوں پر جن کے دل یاد خدا کے سلسلے میں سخت ہو گئے ہیں وہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں” ۔
(زمر: ۲۲)
یہ آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بیان کرتی ہے کیونکہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام ،حضرت حمزہ علیہ السلام ‘ابو لہب اور اس کی اولاد کے متعلق نازل ہوئی حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حمزہ وہ ہیں جن کے سینوں کو اللہ تبارک تعالی نے اسلام کے لیئے کھول دیا ہے اور ابولہب اور اس کی اولاد وہ ہے جن کے دل سخت ہیں۔
(ریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۰۷)
ایک اور آیت میں اللہ فرماتا ہے:
مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا
(احزاب :۲۳)
"مومنین میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے خدا سے کیا ہوا عہد سچ کر دکھایا ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنی ذمہ داری پوری کر چکے ہیں اور بعض (شہادت) کے منتظر ہیں اور انہوں نے( ذرا سی بھی)تبدیلی اختیار نہیں کی "۔
حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں منبر پر خطبہ دے رہے تھے وہاں آپ سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
یہ آیت میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھائی عبیدہ بن الحارث بن عبد المطلب اور میری شان میں نازل ہوئی ہے۔ عبیدہ اپنی ذمہ داری بدر کے دن شہید ہو کر پوری کرگئے اور حمزہ احد کے دن درجہ شہادت پر فائز ہو کر اپنی حیات مکمل کر گئے ۔اور میں اس کا منتظر و مشتاق ہوں۔ پھر اپنی ریش مبارک اور سر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ وہ عہد ہے جو مجھ سے میرے حبیب حضرت ابوالقاسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لیاہے ۔
(صواعق محرقہ ص ۸۰)
اس طرح خدا وند عالم کا ارشاد ہے:
وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُتَّقُونَ
(زمر :۳۳)
"اور جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یھی لوگ( تو) پرہیز گار ہیں”۔
ابو ھریرہ کہتا ہے کہ صدق کو لانے والے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت علی علیہ السلام ہیں۔
( در منثور ذیل تفسیر آیہ)
ایضاً اللہ ارشاد فرماتا ہے:
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاَیَبْغِیَان فَبِاٴَیِّ اٰ لآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان
"اس نے آپس میں ملے ہوئے دو دریا بھادئیے ہیں اور دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے جو ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرتا پھر تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوںکو جھٹلاؤ گے ان دونوں سے موتی اور مونگے ( لو لو اور مرجان) نکلتے ہیں”۔
ابن مردویہ نے ابن عباس سے
مرج البحرین یلتقیان
کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ان سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ علیہ السلام ہیں اور برزخ لا یبغیان سے مراد حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور
"یخرج منهما اللؤلؤ و المرجان
سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں۔
( در منثور)
ایضاًاللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
"اٴَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ نَجْعَلَهُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ
"جو لوگ برے کاموں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں کیا انہوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ ہم ان کو ان لوگوں کی مانند قرار دیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کیا ان کا جینا و مرنا مساوی ہے یہ لوگ (کیسے کیسے )برے حکم لگایا کرتے ہیں”۔
( جاثیہ : ۲۱)
کلبی کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ،حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ اور تین مشرکین عتبہ ،شیبہ اور ولید بن شیبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔
یہ تینوں مومنین سے کہتے تھے کہ تم کچھ بھی نہیں ہو اگر ہم حق کہہ دیں تو ہمارا حال قیامت والے دن تم سے بہتر ہو گا۔ جیسا کہ دنیا میں ہماری حالت تم سے بہتر ہے۔لیکن اللہ تبارک و تعالی نے اپنے اس فرمان کے ساتھ ان کی نفی کی ہے کہ یہ واضح ہے کہ ایک فرمانبردار مومن کا مرتبہ و مقام ایک نا فرمان کافر کے برابر ہرگزنہیں ہو سکتا ۔
(تفسیر کبیر ،فخر الدین رازی ذیل تفسیر آیہ)
ایضاً اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنْ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا
"اور وہی قادر مطلق ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو بیٹا اور داماد بنا دیا (اور)پروردگار ہر چیز پر قادر ہے "۔
( فرقان: ۵۴)
محمد بن سرین اس آیت کی تفسیر میں کہتا ہے کہ یہ آیت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و االہ و سلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و االہ و سلم کے چچا زاد اور آنحضرت کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کے شوہر ہیں گویا ”نسباً“اور” صھراً “کی تفسیرےہی ہستی ہے۔
(نور الابصار ص۱۰۲)
ایضاً پروردگار عالم کا ارشاد ہے:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
"وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ”
"زمانے کی قسم بےشک انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور باہم ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور صبر کی تلقین کرتے ہیں”۔
سیوطی کہتے ہیں کہ ابن مردویہ نے ابن عباس سے یہ قول نقل کیا ہے کہ
"وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ
سے مراد ابوجہل بن ہشام ہے اور
إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
سے مرادحضرت علی علیہ السلام اور حضرت سلمان ہیں۔
(درمنثور تفسیر سورہ عصر)
ایضاًاللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے :
وَعَلَی الْاٴَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّا بِسِیمَاهُمْ
اعراف پر کچھ ایسے لوگ (بھی )ھوں گے جولوگوں کی پیشانیاں دیکھ کر انہیں پہچان لیں گے ۔
ثعلبی نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں پل صراط کی ایک بلند جگہ کا نام اعراف ہے اور اس مقام پر حضرت عباس ، حضرت حمزہ اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام موجود ہوں گے وہاں سے دو گروہ گزریں گے یہ لوگ اپنے محبوں کو سفید اور روشن چہروںاور اپنے دشمنوں کو سیاہ چہروں کے ذریعے پہچان لیں گے ۔
(صواعق محرقہ ص ۱۰۱)
قارئین کرام !تھی یہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان اور فضیلت میں نازل ہونے والی آیات کی یہ ایک جھلک ہے کیونکہ آپ کی شان میں نازل شدہ تمام آیات کو اس مقام پر بیان کرنا مشکل ہے۔بھرحال خطیب بغدادی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت اور شان میں تین سو سے زیادہ آیات نازل ہوئی ہیں ۔
(تا ریخ بغدادج۶ ص ۲۲۱)
ابن حجر اور شبلنجی ابن عامر اور ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ کسی کے متعلق بھی اس قدر آیات نازل نہیں ہوئیں جتنی آیات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق نازل ہوئی ہیں ۔
(صواعق محرقہ ص ۷۶ ،نور الابصار ص ۷۳)
ہم حضرت علی علیہ السلام کی بلند و بالا اور اعلیٰ وارفع شان اور آپ کی فضیلت اور اللہ کے نزدیک آپ کی عظیم منزلت کے متعلق نازل ہونے والی آیات کریمہ کا آنے والے ابواب میں تذکرہ کریں گے ۔
(علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button