خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:155)

  • (بتاریخ: جمعۃ المبارک 24 جون 2022ء بمطابق 24ذیقعد1443 ھ)
    تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
خدا نے ہر ايك چيز كونظم كى بنيا دپر خلق فرمايا ہے، اس بھرى كائنات ميں ہر چيز كا اپنا ايك مقام ہے اور اس كى مخصوص ذمہ دارى ہے۔ يہ كائنات شكل وصورت اور چشم وابرو كى مانند ہے جس كى ہر ايك چيز اپنى اپنى جگہ پر نہايت ہى مناسب اور موزوں ہے۔ خدائے عالم وقادر نے اپنى پورى كائنات ميں حیران کن نظ و ضبط م كو جارى وسارى فرمايا ہے اور اس بات كو پسند كرتا ہے كہ بنى نوع انسان بھى اپنى نجى اور معاشرتى زندگى منظم انداز میں گزاریں۔ اللہ نے آسمانى مذاہب كے ذريعے خصوصاً دين اسلام كے ذريعہ نظم وضبط كى اہميت بيان فرمائي ہے اور اس كى پابندى كا حكم ديا ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر آج کے اس خطبے مٰیں ہم آیات و روایات کی مدد سے نظم و ضبط اور اس کی اہمیت و ضرورت اور اس کے فوائد کے بارے میں گفتگو کریں گے تاکہ ہم اپنی زندگی کو دینی تعلیمات کے مطابق منظم گزار سکیں۔
مسلمان كى فردى زندگى ميں نظم وضبط كا تعلق’ صحت وصفائي، لباس كى وضع و قطع ‘ سر اور چہرے كى اصلاح ‘ بالوں كو سنوارنا اور مسواك وغيرہ كرنے سے ہوتا ہے۔ہم مختصرا ان موارد پر گفتگو کرتے ہیں۔
صفائی میں نظم وضبط:
لباس ‘ بدن اور زندگى كے دوسرے امور ميں پاكيزگى اور صفائي كے حوالے سے اسلام نے بہت زور ديا ہے چنانچہ رسالتمآب ﷺ كا ارشاد ہے:
إنَّ اللہَ طَـيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ ، نَـظيفٌ يُـحِبُّ النَّظافَةَ
خداوند عالم پاك و پاكيزہ ہے اور پاكيزگى ‘ طہارت اور صفائي كو پسند کرتا ہے۔(میزان الحکمۃ ح: ۶۱۵۱)
ایک اور مقام پر مزید تاکید کے ساتھ فرمایا:
تَـنَظَّفوا بكُلِّ مـا استَطَعتُم ؛ فإنَّ اللہَ تـعالى بَنَى الإسلامَ علَى النَّظافَةِ ، ولَن يَدخُلَ الجَنَّةَ إلاّ كُلُّ نَظيفٍ
جہاں تک ہو سکے صاف ستھرے رہا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد ہی صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں بھی صرف وہی شخص جائے گا جو صٖاف ستھرا ہو گا۔(میزان الحکمۃ ح: ۶۱۶۳)
اسی طرح امام علی رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
مِن أخلاقِ الأنبياءِ التَّنَظُّفُ
صفائی ستھرائی کا شمار انبیاء ع کے اخلاق میں سے ہوتاہے ۔ (تحف العقول : ۴۴۲)
اعضائے بدن کو آراستہ کرنا:
سر’ بدن ‘ لباس اور جوتوں وغيرہ كو آراستہ اور صاف ركھنا’ اسلام كا ايك اخلاقى دستور ہے _ اس كا تعلق ايك پكّے اور سچے مومن كى نجى زندگى كے نظم وضبط سے ہے۔
اسلامى تعليمات كى رو سے ايك مسلمان كو اپنى وضع و قطع ميں پاكيزگى كا خيال ركھنے كے علاوہ اپنے لباس اور جسمانى وضع و قطع كو بھى سنوارنا چاہیے۔ بالوں ميں كنگھى کرنا’ دانتوں كى صفائي ‘ اور وقار اور ادب سے چلنا چاہئے _
اسی حوالے سےجابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے کہ :

أتـانـا رسـولُ اللهﷺفرأى رجُلاً شَعِثا قد تَفَرَّقَ شَعرُهُ ، فقالَ : أما كانَ يَجِدُ هذا ما يُسَكِّنُ بهِ شَعرَهُ ؟! ورأى رجُلاً آخَرَ (و) علَيهِ ع يابٌ وسِخَةٌ فقالَ : أما كانَ هذا يَجِدُ ماءً يَغسِلُ بهِ ع وبَهُ ؟
ایک مرتبہ حضرت رسول پاک ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ایک شخص کے بال بکھرے ہوئے پریشان حالی کی غمازی کر رہے تھے۔تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے ایسی کوئی چیز نہیں ملی تھی جس سے وہ اپنے بالوں کو سنوارتا؟ ساتھ ہی ایک اورآدمی کو دیکھا جس کے بدن پر میلے کچیلے کپڑے تھے تو فرمایا!آیا اس کو پانی نہیں ملا تھا کہ جس سے اپنے کپڑے ہی دھو لیتا۔‘‘ (میزان الحکمۃ ح: ۶۱۵۸)
عباد بن كثير نے ‘ جو ايك ريا كار زاہد تھا اورلوگوں کو دکھانے کے لیے كھردرا لباس پہنا كرتا تھا تاکہ لوگ اسے نیک اور سادگی پسند بندہ سمجھیں’ ايك دن اس نے حضرت امام جعفر صادق عليه السلام پر اعتراض كيا كہ :
”آپ كے دو جد امجد ”حضرت رسول خدا ﷺاور اميرالمومنين عليه السلام ” تو كھردرا لباس پہنا كرتے تھے”_
تو امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمايا :
” وائے ہو تم پر كيا تم نے قرآن مجيد كى وہ آيت نہيں پڑھى جس ميں خداوند عالم نے اپنے پيغمبر كو حكم ديا ہے كہ :
قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ
کہدیجئے: اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق کو کس نے حرام کیا ؟ کہدیجئے: یہ چیزیں دنیاوی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی، ہم اسی طرح اہل علم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔ (سورہ اعراف ، آيت 32)
وہ شخص اپنے اس فضول اعتراض پر نادم ہوا او رسرجھكا كر چلاگيا۔( فروع كافي، ج 6، ص 444 )
عبادت اور نماز کے وقت اچھا لباس پہننا اور خود کو آراستہ کرنے کے بارے قرآن نے خصوصی حکم دیا ہے:
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ
اے بنی آدم!ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو ۔۔۔
ہر طرح کی زینتوں سے استفادہ کے بارے میں اسلام نے جیسا کہ اس کا رویہ دوسری چیزوں میں ہے راہ اعتدال کو اختیار کیا ہے ۔ نہ تو بعض لوگوں کی طرح یہ کہا ہے کہ زینت کرنا اور اپنے کو آراستہ کرنا چاہے وہ حدّ اعتدال میں ہو، زہد و پاسائی کے خلاف ہے اور نہ ہی ان لوگوں کی تائید کی ہے جو جذبہٴ تجمل پرستی کی و جہ سے طرح طرح کی زینتوں میں غرق ہیں اور اس غیر معقول امر کے لئے ہر ناشائستہ عمل بجالاتے ہیں ۔
دین اسلام میں فطرت کے حُسن و جمال، خوبصورت و مناسب لباس ، طرح طرح کی خوشبوئیں اور اسی طرح کے دیگر جمالیات سے لطف اندوز ہونا نہ صرف جائز و مباح قرار دیا گیا ہے بلکہ ان امور کی ترغیب بھی دی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں کثیر روایات کتب معتبرہ میں وارد ہوئی ہیں ۔ چند ایک ہم بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں:
امام حسن علیہ السلام کے حالات میں ہے کہ آپ جس وقت نماز کے لئے مصلہ پر کھڑے ہوتے تھے اپنا بہترین لباس زیبِ تن فرماتے تھے ۔ جب حضرت سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا:
ان اللّٰہ جمیل یحب الجمال فاتجمل لربی و ہو یقول خذوا زینتکم عند کل مسجد“۔
خدا جمیل ہے جمال کو پسند کرتا ہے ۔ اسی لئے میں حسین لباس اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرنے کے لئے پہنتا ہوں اور خود اس نے یہ حکم دیا ہے کہ مسجد جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو ۔
یہ تعبیر کہ خداجمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، یا یہ کہ خدا نے اچھی چیزوں کو پیدا کیا ہے، ان سب سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر ہر طرح کے جمال سے استفادہ کرنا ممنوع ہوتا تو خدا ہرگز ان کو پیدا نہ کرتا ۔ اس جہاں میں ہر طرف حُسن فطرت کا پایا جانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ خالق حُسن، حُسن کو پسند کرتا ہے ۔
مذکورہ آيت كى تفسير ميں حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمايا :
"ان زينتوں ميں سے ايك زينت ‘ نماز كے وقت بالوں ميں كنگھى كرنا ہے۔” (فروع كافي، ج 6، ص 489)
صفائی و پاکیزگی کا ایک اہم حصہ دانتوں کی صفائی ہے اور دانتوں کو مسواک کرنے کے بارے میں احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
ما زالَ جَبرئيلُ يُوصِيْنِيْ باِلسِّوَاكِ حَتّى ظَنَنتُ أَ نَّهُ سَيَجْعَلُهُ فَريضَةً .(بحارالانوار : ۷۶ / ۱۲۶ / ۲)
جبرائیل علیہ السلام مجھے بار بار مسواک کی تاکید کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ عنقریب اسے فریضہ قرار دے دیں۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے ایک مقام پہ فرمایا:
في السِّواكِ اثنَتا عَشرَةَ خَصلَةً : هُو مِنَ السُّنَّةِ ، و مَطهِّرَةٌ لِلفَمِ ، ومَجلاةٌ لِلبَصَرِ ، ويُرضِي الرحمنَ ، ويُبَيِّضُ الأسنانَ ، ويَذهَبُ بِالحَفرِ ، ويَشُدُّ اللِّثَّةَ ، ويُشَهِّي الطَّعامَ ، ويَذهَبُ بِالبَلغَمِ ، ويَزيدُ فِي الْحِفْظِ ، وَيُضَاعَفُ بِهِ الْحَسَنَاتُ ، وتَفْرَحُ بهِ الْمَلَائِكَةُ
مسواک میں بارہ خوبیاں ہیں :۱۔اس کا استعمال سنت ہے۔ ۲۔منہ کو پاک و پاکیزہ کرتی ہے۔ ۳۔نگاہوں کو تیز کرتا ہے۔ ۴۔رب رحمان کو راضی کرتا ہے۔ ۵۔دانتوں کو چمکدار بناتا ہے۔ ۶۔دانتوں کی پیلاہٹ کر دور کرتا ہے۔ ۷۔مسوڑھوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ۸۔کھانےکی خواہش پیدا کرتا ہے۔ ۹۔بلغم کو دور کرتی ہے۔ ۱۰۔حافظہ کو تیز کرتا ہے۔ ۱۱۔نیکیوں کو دوگنا کرتا ہے۔ ۱۲۔ملائکہ کو خوش کرتا ہے۔ (الخصال : ۴۸۱ / ۵۳)
حضرت على عليه السلام نے مناسب جوتا پہننے كے بارے ميں فرمايا :
”اچھا جوتا پہننا اور بدن كى حفاظت و طہارت نماز كے لئے مددگار ہونے كا ايك ذريعہ ہے” (فروع كافي، ج 6 _ ص 462)
رسول خدا ﷺ جب بھى گھر سے مسجد يا مسلمانوں كے اجتماع ميں تشريف لے جانا چاہتے تھے تو آئينہ ديكھتے،داڑھی اور بالوں كو سنوارتے، لباس كو ٹھيك كرتے اور عطر لگايا كرتے تھے اور فرمايا كرتے تھے :
”خداوند عالم اس بات كو پسند فرماتا ہے كہ جب اس كا كوئي بندہ اپنے دينى بھائيوں كى ملاقات كے لئے گھر سے باہر نكلے تو خود كو بناسنوار كر باہر نكلے” (مكارم اخلاق ، ص 35)
لہذا اگر اس حساب سے ديكھاجائے تو پريشان حالت’ آلودگى اور بدنظمى دين اسلام كى مقدس نگاہوں ميں نہايت ہى قابل مذمت او رموجب نفرت ہے ‘ اور رسول خدا ﷺ كے ايك پيروكار مسلمان سے يہى توقع ركھى جانى چاہئے كہ وہ ہميشہ بن سنور كر رہے گا اور خود كو معطر اور پاك وپاكيزہ ركھے گا۔
امور زندگى اور كاروبار ميں نظم وضبط كى اس قدر اہميت ہے كہ حضرت اميرالمومنين عليه السلام نے اپنى آخرى وصيت ميں كہ جو بستر شہادت پر ارشاد فرمائي ‘ اس بات پر زور ديا اور حسنين ؑسے مخاطب ہوكر فرمايا :
‘اُوصيكما وجميع ا هلى وَ ولدى ومَن بَلَغَهُ كتابى بتقوى الله ونظم امركم ”
”ميں تم دونوں كو اور تمام افراد خاندان كو اور اپنى تمام اولاد كو اور جن لوگوں تك ميرى تحرير پہنچے سب كو خدا كے تقوى اور امور ميں نظم وضبط كى وصيت كرتا ہوں”_
حضرت امام موسى كاظم عليه السلام فرماتے ہيں كہ اپنے دن رات كے اوقات كو چار حصوں ميں تقسيم كرو:
1_ايك حصہ خدا كى عبادت اور اس كے ساتھ راز و نيازكے لیے
2_ايك حصہ ذاتى كاموں اور ضروريات زندگى كے پورا كرنے كے لیے
3_ايك حصہ دوست واحباب اور رشتہ داروں كے ساتھ ملنے جلنے اور ملاقات كے لیے
4_اور ايك حصہ آرام و تفريح اور گھر ميں اہل خانہ كے ساتھ رہنے كے لیے( تحف العقول ص481)
وعدہ پورا کرنے میں نظم و ضبط:
وہ امور كہ جہاں سختى كے ساتھ نظم وضبط كى رعايت كرنا چاہئي’ عہدوپيمان اور اقرار ناموں كى پابندى ہےمثلاً قرض دينے ‘ قرض لينے اور دوسرے لين دين ميں تحريرى سند كا ہونا ضرورى ہے تاكہ بعد ميں كسى قسم كى كوئي مشكل پيدا نہ ہونے پائے اور ايسا كرنے سے مشكلات كا راستہ بند اور اختلاف كى راہيں مسدود ہوجائيں_ يہ عہدوپيمان اور لين دين كے بارے ميں ايك طرح كا نظم وضبط ہے۔
قرآن مجيد ميں ارشاد ہوا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ ؕ وَ لۡیَکۡتُبۡ بَّیۡنَکُمۡ کَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ ۪
اے ایمان والو! جب کسی معینہ مدت کے لیے قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ دیا کرو اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارے درمیان انصاف کے ساتھ تحریر کرے،،،،( سورہ بقرہ آيت 282)
ايك اور آيت ميں ارشاد ہوتا ہے :
اَوفوا بالعَهد انَّ العَهد كانَ مسئولاً اور عہد کو پورا کرو، یقینا عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (سورہ بنى اسرائيل _ آيت 34)
اسلامی تعلیمات میں وفا بعہد، معاہدوں کی پابندی کرنا ایک انسانی مسئلہ ہے۔ دوسرا فریق مسلم ہو یا غیر مسلم، ہر صورت میں معاہدہ توڑنا جائز نہیں ہے جب تک دوسرا فریق نہ توڑے۔
ايك واضح عہد و پیمان مقررّ كرنے سے بہت سے اختلافات كا سدّ باب ہوسكتا ہےاور اس پر صحيح طريقہ سے عملدرآمد لوگوں كى محبت اور اعتماد حاصل كرنے كا موجب بن جاتا ہے _ چنانچہ روايت ہے كہ ايك دن حضرت امام على ابن موسى الرضا عليه السلام نے ديكھا كہ آپ كے ملازمين ميں ايك اجنبى شخص كام كر رہا ہے’ جب آپ نے اس كے بارے ميں دريافت كيا تو بتا يا گيا كہ اسے اس لئے لے آئے ہيں تاكہ ہمارا ہاتھ بٹاسكیں تو امام نے پوچھا: كيا تم نے اس كى اجرت بھى طے كى تھي؟ كہا گيا كہ نہيں تو امام سخت ناراض ہوئے اور ان كے اس عمل كو ناپسند فرماتے ہوئے كہا :
”ميں نے بارہا كہا ہے كہ جب تم كسى كو مزدورى كے لئے لاتے ہو تو پہلے اس سے اجرت طے كرليا كرو’ ورنہ آخر ميں تم اسے جس قدر بھى مزدورى دوگے وہ خيال كرے گا كہ اسے حق سے كم ملا ہے ليكن اگر طے كرلوگے اور آخر ميں طے شدہ اجرت سے جتنا بھى زيادہ دوگے خوش ہوجائے گا اور سمجھے گا كہ تم نے اس كے ساتھ محبت كى ہے۔( بحارالانوار _ ج 49_ ص 106)
پس اپنی بات پر قائم رہنا اور وعدہ وفاء کرنا انبياء اور اولياء خدا كا شيوہ ہے، ان كے پيروكاروں كو اس سلسلے ميں ان كى اقتدا كرنى چاہئے۔
عبادت ميں بھى نظم وضبط كا اہتمام كرنا چاہئے اور وہ يوں كہ ہر عبادت كو بروقت اور بموقع بجالائيں’ نماز كو اس كے اول وقت ميں اور جماعت كے ساتھ ادا كريں’ ماہ رمضان ميں روزے ركھيں’ اگر سفر يا بيمارى كى وجہ سے كوئي روزہ قضا ہوجائے تو اس كى قضا كريں ‘ خمس وزكوة ادا كريں’ اور عبادت ميں افراط وتفريط سے اجتناب كريں بلكہ عبادت ميں اعتدال كو ملحوظ ركھنا چاہئے كيونكہ اعتدال پسندى عبادت ميں مفيد ہے۔
عبادت اس وقت مفيد اور كار آمد ہوتى ہے جب وہ رضا ورغبت اور شوق و محبت كے ساتھ انجام دى جائے _ اُس مسلمان كى داستان مشہور ہے كہ جس نے اپنے غير مسلم ہمسائے كو اسلام قبول كرنے كى دعوت دى تھى ‘ جب اس كا وہ ہمسايہ مسلمان ہوگيا تو وہ اسے مسجد لے گيا اور صبح سے ليكر مغرب تك مسجد ميں نماز ودعائيں پڑھتا رہا ‘ قران كى تلاوت كرتا رہا ، غرض اسے صبح سے شام تك ان امور ميں مصروف ركھا_ چنانچہ جب وہ دوسرے دن اس كے پاس گيا كہ اسے عبادت كے لئے اپنے ہمراہ مسجد لے چلے تو اس نے ساتھ چلنے سے صاف انكار كرديا اور كہا :
”ميرے يہاں بيوى بچے بھى ہيں’ ان كے اخراجات كے لئے بھى كچھ كرنا ہے،مجھے ايسا دين قبول نہيں جائو اپنى راہ لو_،،

 

تاریخی مناسبت: یوم دحو الارض
25 ذیقعد کو یوم دحواالارض کہا جاتا ہے۔دحو الارض کے معنی زمین کو پھیلانے کے ہیں چونکہ لغت میں دحو کے معنی پھیلانے کے ہیں اور بعض اہل لغت نے اس کے معنی پھینکنے کے کئے ہیں اور چونکہ یہ دونوں معنی لازم اور ملزوم ہیں لہذا ایک ہی مطلب کی طرف پلٹتے ہیں، اس بنا پر دحو الارض کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا میں سطح زمین طوفانی بارشوں سے بھری ہوئی تھی اس کے بعد یہ پانی دھیرے دھیرے زمین کے سوراخوں میں چلا گیا اور زمین کی خشکی سامنے آگئی یہاں تک کہ موجودہ حالت میں آگئی[تفسیر نمونہ]۔
سورہ نازعات کی ۳۰ویں آیت میں«وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا[سورہ نازعات، آیت:۳۰]اور اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا »، زمین کے پھیلائے جانے کی طرف اشارہ ہے، بعض روایات میں آیا ہے کہ زمین کو سب سے پہلے کعبہ کے نیچے سے پھیلانا شروع کیا گیا، جیسا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس حدیث میں فرمایا: «دُحِیَتِ الْأَرْضُ مِنْ مَكَّةَ وَ كَانَتِ الْمَلَائِكَةُ تَطُوفُ بِالْبَیْتِ وَ هِیَ أَوَّلُ مَنْ طَافَ بِهِ وَ هِیَ الْأَرْضُ الَّتِی قَالَ اللَّهُ إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً زمین مکہ سے بچھنا شروع ہوئی، فرشتہ خانہ کعبہ کے اطراف طواف کررہے تھے، وہ سب سے پہلی جگہ ہے جہاں پر طواف کیا گیا»۔(بحار ج‏۵۴، ص۲۰۶)
امام رضا(علیہ السلام )نے جب خراسان کا سفر کیا، اس سفر کے دوران پچیس ذیقعدہ کو آپ مرو میں پہنچے اور آپ نے فرمایا: آج کے دن روزہ رکھو میں نے بھی روزہ رکھا ہے، راوی کہتا ہے ہم نے پوچھا اے فرزند رسول آج کونسا دن ہے؟ فرمایا: وہ دن جس میں اللہ کی رحمت نازل ہوئی اور زمین کا فرش بچھایا گیا[اقبال الاعمال]۔
اس دن کے اعمال
یہ دن بہت بابرکت دن ہے اور اس کے کچھ مخصوص اعمال ہیں:
۱: روزہ رکھنا(اس دن کا روزہ ستر سال کا کفارہ ہے)[اقبال الاعمال]۔
۲: شب دحوالارض کو بیدار رہنا۔
۳: اس دن کی مخصوص دعائیں پڑھنا۔
۴: اس دن غسل کرنا اور ظہر کے نزدیک اس طریقے سے نماز پڑھنا۔
ہررکعت میں سورہ حمد کے بعد پانچ مرتبہ سورہ الشمس پڑھے اور سلام کے بعد کہے: لا حَوْلَ و لا قوَّهَ اِلّا بِالله العلي العظيم” اور اس دعا کو پڑھے ” يا مُقيلَ الْعَثَراتِ اَقِلْني عَثْرَتي يا مُجيبَ الدَّعَواتِ اَجِبْ دَعْوَتي يا سامِعَ الْاَصْواتِ اِسْمَعْ صَوْتي وَ ارْحَمْني و تَجاوَزْ عَنْ سَيئاتي وَ ما عِنْدي يا ذَالْجَلالِ وَ الْاِکْرام(مفاتیح)
۵: مفاتیح الجنان میں موجود اس دن کی دعا پڑھنا جو ان کلمات سے شروع ہوتی ہے: اللّهمّ يا داحِي الْکعبهَ وَ فالِقَ الْحَبَّه.. "

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button