شخصیاتمحافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا تمام فضائل کا مجموعہ

استاد حسین انصاریان
ہم کچھ جملے خدا کی ان کی پیاری کنیز کی زیارت میں پڑھتے ہیں جو حیرت انگیز ہیں مثلا آپ کے سلسلے میں ارشاد ہے:”۔۔۔۔تفاحۃ الفردوس و الخلد ۔۔۔۔”[مفاتیح الجنان/زیارت حضرت فاطمہ زہرا(س)]جنتی سیب جو کہ شب معراج ارمغان سفر کے عنوان سے حبیب خدا مرسل اعظم کو دیا گیا ہے کیونکہ جب کوئی پہلے سے دعوت کی بنا پر کسی بزرگ سے ملنے جاتا ہے تو واپسی کے وقت ایسا کوئی ہدیہ ارمغان سفر کے عنوان سے فریقین کی شان کے مطابق اسکودیا جاتا ہے اب رسول اکرم(ص)خدا کی دعوت کی بناپر جبریل امین(ع)کے ساتھ زمین سے آسمان پر تشریف لے گئے ہیں اور عرش اعلی پر”ثم دنا فتدلّی- فکان قاب قوسین او ادنی”[سورہ نجم/8،9] کے مقام پر پہونچ گئے ہیں اور جب پلٹنا چاہتے ہیں تو قدرتی بات ہے کہ بہت عظیم تحفہ حضرت رب العرش کے برتر اور مقدس مقام کی طرف سے نہایت محبوب اور مقرب مخلوق کو دیا جائے اس طرح کے دونوں فریق کی شان کی عظمت کا خیال رکھا جائے اور اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک سیب پیغمبر اسلام(ص) کے دست مبارک میں دیا جاتا ہے اور وہی سیب روئے زمین پر جناب سیدہ(س) کے نطفے سے انعقاد کا اولین مادہ قرار پاتا ہے۔اسلئے جناب سیدہ(س) رسول اکرم(ص) کو خدا کا بلا واسطہ ہدیہ ہیں جسکو حضور(ص) اپنے آسمانی سفر کے ارمغان کے عنوان سے زمین پر لائے ہیں اور پھر انکو خدا کے حکم سے مولائے کائنات کے حوالے کیا ہے۔ اسی لئے پیغمبر اکرم(ص)فرمایا کرتے تھے کہ میں جب اپنے اندر بہشت کے شوق کا احساس کرتا ہوں تو فاطمہ(س) کو چومتا ہوں۔اور ہم جو زیارت میں"تفاحۃ الفردوس و الخلد”کہتے ہیں اس کا یہی مطلب ہے۔ایک اور جملہ”۔۔۔۔۔ارخیت دونہا حجاب النبوۃ۔۔۔”[مفاتیح الجنان/زیارت حضرت فاطمہ زہرا(س)]”۔۔۔خدا نے انکے سامنے نبوت کا پردہ ڈال رکھا ہے۔۔۔۔”اور انکو پردہ نبوت کے پیچھے قرار دیا ہے۔اگر کوئی انکو پہچاننا چاہے اور خدا سے انکے قرب کے مقام سے آگاہ ہونا چاہے تو اسکو پہلے نبوت کے درجات طے کرنا ہونگے اور تقرب کے پردوں کو ایک کے بعد دوسرے کو مٹانا ہوگا تا کہ پردہ نبوت کے پیچھے جناب زہرا(س) کے اعلی جمال سے واقف ہو جائے اور یہ تمام انبیا(‌ع) کو نصیب نہیں ہوتا کیونکہ انبیا(ع) کے بھی درجات ہیں۔صرف رسولوں کی آخری فرد جس نے نبوت کے آخری مرحلے کو طے کرلیا ہے آخری پردے کو ہٹا کر اس الہی امانت کے بے مثال جمال سے آگاہ ہوسکتا ہے۔
ایک اور جملہ:”۔۔۔۔۔سللت منہا انوارالائمۃ ” "۔۔۔ائمہ (ع)کے انوار نے آپ کے وجود سے نشات حاصل کی ہے”خداوند حکیم نے جناب سیدہ(ص) کے مقدس وجود کو ائمہ کے انوار کی پیدائشی کا منبع قرار دیا ہے اور ائمہ(ع) کے پاکیزہ انوار کو جناب سیدہ(ص) کے نور اطہر کا مولود بنایا ہے۔ائمہ (ع) کو بھی فخر حاصل ہے کہ جناب سیدہ(ص) کی اولاد ہیں اور جناب سیدہ(ص) کو بھی فخر حاصل ہے کہ ائمہ کی ماں ہیں کہ معصومین (ع) نے فرمایا ہے:”ولہا امومۃ الائمۃ”ائمہ(ع) دین کی ماں ہونے کا امتیاز آپ سے مخصوص ہے۔آئمہ(ع) دین کی ماں ہونا جناب صدیقہ کبری کی فخرآمیز خصوصیت ہے البتہ دوسری خواتین کو بھی ائمہ کی ماں ہونے کا فخر تھا مثلا حضرت فاطمہ بنت اسد جناب امیر المومنین کی مادر گرامی ہیں ساسانی یزد جرد کی بیٹی شہربانو(س)امام زین العابدین کی ماں ہیں۔جناب نرجس(س) امام زمانہ کی والدہ ہیں لیکن ان مستورات کا ائمہ کی ماں ہونا جناب صدیقہ کبری(ص) کے ماں ہونےسے بہت مختلف ہے۔وہ ائمہ(ع) کی جسمانی ماں تھیں یعنی ائمہ(ع) کا جسم ان کی ماؤں سے وجود میں آیا لیکن جناب صدیقہ کبری ائمہ(ع) کی روحانی ماں ہیں یعنی ائمہ(ع) کی ارواح کی نورانی حقیقت اور انکی ولایت و امامت کا مقام،جناب سیدہ(ص) کی آسمانی نورانیت اور مطلقہ ولایت سے وجود میں آیا ہے:
جوہرۃ القدس من الکنز الخفی/ بدت فابدت عالیت الاحرف/ام ائمۃ العقول الغرّ بل/ام ابیھا و ھو علت العلل
ترجمہ:پاکیزگی کا گوہر مخفی خزانے سے رونما ہوا اور اس نے (اخلاقی) بلندیوں کو آشکار کردیا۔(جناب سیدہ(س)) ائمہ(ع) عقول کی ماں بلکہ اپنے باپ کی ماں ہیں اور آپ(س) اسباب کی علت بھی ہیں۔
آپ کی زیارت میں آپ کے منجملہ صفات:۔۔۔مبشرۃ الا ولیاء۔۔۔”
"۔۔۔آپ(س) اولیا کو بشارت دینے والی ہیں۔۔”آپ نے اپنی آمد کے ذریعے تمام اولیا اور انبیاء(ع) کو ابدیت کی خوشخبری سنائی یعنی آپ نہ ہوتیں تو انبیا(ع) اور اولیا کی آسمانی شخصیت ختم ہوگئی ہوتی۔
انبیا(ع) کی نبوت کے آثار کی محافظ جناب سیدہ(س) ہیں یہاں تک کہ اپنے پدر گرامی حضرت ختمی مرتبت(ص) کی نبوت اور رسالت کی محافظ ہیں کہ خود آپ کے بابا نے آپ کو "ام ابیہا”کہا ہے!کیونکہ جس طرح ماں اپنے فرزند کی شخصیت کے بننے میں مؤثر ہوتی ہے فاطمہ بھی اپنے بابا کی آسمانی شخصیت کے جاری اور باقی رہنے میں مؤثر ہیں۔
اور اگر فاطمہ اور آپ کے فرزند سرکار سیدالشہدا امام جعفر صادق(ع) اور امام زمانہ (عج )نہ ہوتے تو مسلم طور پر نبوت اور رسالت کی بنیاد دنیا میں منہدم ہو چکی ہوتی۔نبوت اور امامت کی بنیاد کی محافظ فاطمہ زہرا ہیں۔ جنہوں نے انپی آمد کے ذریعے تمام اولیائے خدا کو ابدیت کی خوشخبری دی ہے۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button