محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

اسماء و مناقب جناب فاطمہ (س)

کتاب ” منتھی الآمال”/ اردو ترجمہ: احسن المقال” سے اقتباس
ابن بابویہ نے سند معتبر کے ساتھ یونس ظبیان سے روایت کی ہے کہ حضرت صادقؑ نے فرمایا کہ خدا کے نزدیک جناب فاطمہؑ کے نو نام ہیں۔فاطمہؑ۔صدیقہؑ۔مبارکہؑ۔زکیہؑ۔راضیہؑ۔مرضیہؑ۔محدثہؑ۔زہراءؑ۔ پھر آپؑ نے فرمایا: فطمت من الشر یعنی برائیوں سے بچائی گئی ہیں۔پھر فرمایا۔امیرالمؤمنینؑ کے علاوہ روئے زمین پر کوئی ان کا کفو و نظیر نہ تھا نہ آدم اور نہ ان کی اولاد میں سے کوئی۔علامہ مجلسیؒ نے اس حدیث کے ترجمہ کے ذیل میں فرمایاہے کہ صدیقہ کا معنیٰ معصومہ ہے اور مبارکہ کا معنی علم و فٖضل کمالات و معجزات یعنی اولاد کرام کا بابرکت ہونا ہے۔طاہرہ یعنی نقائص سے پاک۔زکیہ یعنی کمالات و خیرات میں نشونما پانے والی ۔ رضیہ یعنی پسند یدہ خدا و دوستان خدا۔محدثہ یعنی فرشتے ان کے ساتھ باتیں کرتے تھے۔زہراء یعنی نور صورت اور معنی دونوں کے اعتبار سے ۔یہ حدیث شریف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جناب امیرالمؤمنینؑ پیغمبر آخر الزمانؑ کے علاوہ تمام انبیاء و اوصیاء سے افضل ہیں۔ بلکہ بعض نے تو جناب سیدہؑ کی افضلیت پر استدلال کیا ہے۔
احادیث متواترہ طریق خاصہ و عامہ میں روایت ہے کہ آنجناب کو فاطمہؑ کا نام اس لیے دیا گیا کہ حق تعالیٰ نے انہیں اور ان کے شیعوں کو جہنم کی آگ سے بچالیا ہے۔روایت ہے کہ رسول خداؐ سے پوچھا گیا کہ فاطمہؑ کو آپؐ کس وجہ سے بتول کہتے ہیں فرمایا چونکہ جو خون دوسری عورتیں دیکھتی ہیں ۔وہ فاطمہؑ نہیں دیکھتیں اور انبیاء کی بیٹیوں میں خو ن دیکھنا اچھی بات نہیں۔
اور شیخ صدوق ؒ نے سند معتبر سے روایت کی ہے کہ جب حضرت رسول خداؐ کسی سفر سے پلٹ کر آتے تو پہلے جناب فاطمہؑ کے گھر میں جاتے اور کچھ دیر وہاں رہتے اور پھر اپنی ازواج کے گھر جاتے۔ پس آپؐ کے ایک سفر کے موقعہ پر جناب فاطمہؑ نے چاندی کےدو کنگن ایک گلو بند اور گوشوارے بنوائے اور ایک پردہ گھر کے دروازے پر لٹکایا ۔جب آپؐ کے گھر کے اندر یہ حالت فاطمہؑ کے گھر میں دیکھی تو ملال کی حالت میں باہر آئے اور مسجد میں منبر کے پاس جاکر بیٹھ گئے جناب فاطمہؑ سمجھ گیئں کہ حضرت ؐ ان زینتوں کی وجہ سے ملول ہوئے ہیں پس آپؑ نے کنگن کا گلوبند گوشوارے اور پردے اتار کر سب آپؐ کی خدمت میں بھیج دئیے اور جس کے ہاتھ بھیجے اس سے کہا کہ حضرت ؐ سے کہنا کہ آپؐ کی بیٹی سلام کہہ رہی ہے اور کہتی کہ انہیں اور تجھے راہ خدا میں دے دیجئے ۔ جب وہ چیزیں حضرت ؐ کے پاس لائیں گیئں تو آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ فاطمہؑ نے وہ کچھ کیا جو میں چاہتا تھا اس کا باپ اس پر قربان جائے۔دنیا محمد وآل محمد ؐ کے لئے نہیں۔اگر دنیا خدا کے نزدیک مچھر کے برابر قدر رکھتی تو کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا۔پھر آپؐ کھڑے ہوگئے اور جناب فاطمہؑ کے گھر تشریف لے گئے۔
شیخ مفید اور شیخ طوسی نے طریق عامہ سے روایت کی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا۔فاطمہؑ میرے بدن کا ٹکرا ہے جو اس کو خوش کرے اس نے مجھے خوش کیا ہے اور جو اس کو ناراض کرے اس نے مجھ کو ناراض کیا ۔فاطمہؑ سب سے زیادہ مجھے عزیز ہے۔ شیخ طوسی نے عائشہ سے روایت کی ہے وہ کہتی تھیں کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو بات کرنے میں رسول خداؐ کے ساتھ فاطمہؑ سے زیادہ شباہت رکھتا ہو۔جب فاطمہؑ رسولؐ کے پاس آتیں تو آپ انہیں مرحبا کہتے اور ان کے ہاتھ کے بوسے لیتے اور اپنی جگہ پر بھٹاتے اور جب حضرت فاطمہؑ کے گھر جاتے تو وہ کھڑی ہوجاتیں اور ان کا استقبال کرتیں۔ مرحبا کہتیں اور آنحضرت ؐ کے ہاتھوں کا بوسہ لیتیں۔
قطب راوندی نے روایت کی ہے کہ جب حضرت فاطمہؑ نے دنیا سے رحلت فرمائی تو میں نے قسم کھائی ۔کہ اب میں مدینہ میں نہ رہوں گی۔کیونکہ وہ جناب سیدہؑ کی مسند کو خالی نہیں دیکھ سکتی تھیں ۔پس وہ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئیں ایک جگہ انہیں سخت پیاس سے ہلاک کردے گا۔ پس باعجاز فاطمہؑ پانی کا ایک ڈول آسمان سے ان کے لیے اترا۔جب انہوں نے اس میں سے پانی پیا تو سات سال برابر کھانے پینے کی انہیں ضرورت محسوس نہ ہوئی ۔لوگ سخت گرمی کے دنوں میں انہیں کاموں کے لیے بھیجتے لیکن انہیں پیاس نہ لگتی۔ابن شہر آشوب اور قطب راوندی نے روایت کی ہے کہ ایک دن امیرالمؤمنین ؑ کو قرض کی ضرورت ہوئی آپ نے جناب فاطمہؑ کی چادر ایک یہودی کے پاس کہ جس کا نام زید تھا رہن رکھی۔وہ چادر ریشم کی تھی کچھ جو قرض لیے اور وہ یہودی چادر اپنے گھر لے گیا اور ایک کمرے میں رکھ دی وہی جب رات ہوئی تو اس کی بیوی اس کمرے میں گئی تو اس نے چادر سے ایسا نور ساطع ہوتے دیکھا کہ جس سے یہ بات بیان کی۔اس یہودی کو بھی تعجب ہوا اور وہ یہ بھول گیا کہ جناب فاطمہؑ کی چادر اس کے گھر میں ہے ۔پس وہ جلدی سے اس کمرے میں گیا تو دیکھا کہ اس خورشید فلک عصمت کی چادر کی شاع نے بدر منبر کی طرح اس گھر کو روشن کررکھا ہے یہودی نے جب یہ دیکھا تو اس کا تعجب اور زیادہ ہوا۔پس وہ یہودی اور اس کی بیوی نے اپنے عزیزوں کی طرف دوڑے اور ان میں سے اسی ۸۰ افراد جمع ہوئے اور جناب فاطمہؑ کی چادر کی شعاع کی برکت سے سب نورِاسلام سے منور ہوئے۔
قرب الاسناد میں سند معتبر کے ساتھ حضرت امام محمد باقرؑ سے روایت ہےکہ رسالت مآب نے فرمایا کہ جو خدمت گھر کے باہر کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔پانی مکڑیاں وغیرہ وہ حضرت علیؑ بجالائیں اور جس خدمت کا تعلق اندرون خانہ سے ہے چکی پیسنا۔روٹی پکانا اور جھاڑو دینا وغیرہ اور حضرت فاطمہ کے ذمہ ہے۔
ابن بابویہ نے سند معتبر کے ساتھ حضرت امام حسنؑ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ شب جمعہ میری والدہ فاطمہؑ محراب عبادت میں کھڑی ہوتیں اور عبادت خدا میں مشغول رہتیں اور ساری رات رکو و سجود وقیام ودعا کرتی رہتیں ۔یہاں تک کہ صبح طلوع ہوتی۔ میں نے سنا کہ وہ ہمیشہ مومنین و مومنات کے لیے نام لےلے کر بہت دعا کرتیں۔ میں نے کہا والدہ گرامی آپؑ ہمیشہ اپنے لیے کیوں نہیں دعا کرتیں جیسا کہ دوسرے لوگوں کے لئے دعا کرتی ہیں۔فرمایا : یا بنی الجارثم الدار۔اے بیٹا پہلے ہمسایہ کا بھلا چاہیئے پھر اپنا۔
ثعلبی نے حضرت صادق سے روایت کی ہے کہ ایک دن رسول خداؐ جناب فاطمہؑ کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ فاطمہؑ نے جل شتر کا لباس پہن رکھا ہے اور اپنے ہاتھ سے چکی پیس رہی ہیں اور اسی حالت میں اپنے بچے کو دودھ بھی پلارہی ہیں جب آپؑ نے انہیں اس حالت میں دیکھا تو آپؑ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور فرمایا ، بیٹی آج کی تخلیاں برداشت کرو۔ کل آخرت کی حلاوتیں تمھارے لیے ہوں گی۔فاطمہؑ نے عرض کیا۔اے رسول خداؐ میں خدا کی نعمتوں اور اس کی کرامتوں پراس کا شکریہ ادا کرتی ہوں ۔اس پر خداوند عالم نے یہ فرمائی۔ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ یعنی خدا وند عالم قیامت کے دن اتنا تجھے دے گا کہ تو ہوجائےگا۔اور حسن بصری سے منقول ہے ۔کہتے تھے کہ حضرت فاطمہؑ اس امت میں سب سے زیادہ عبادت گذار تھیں۔وہ عبادت خدا میں اتنی دیر کھڑی رہتیں کہ ان کے پاؤں متورم ہوجاتے جب پیغمبر اکرمؐ نے ان سے پوچھا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر چیز کیا ہے۔تو فاطمہؑ نے فرمایا یہ کہ نہ وہ کسی مرد کو دیکھے اور نہ کوئی مرد اسے دیکھے ۔آپؐ نے اپنی نور چشم فاطمہؑ کو سینے سے لگایا اور فرمایا:ذریۃ بعضھا من بعض ۔بہ ذریت بعض دوسرے سے بعض سے ہے۔
اور حلیمہ ابو نعیم سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہؑ نے اتنی چکی پیسی کہ ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے اور چکی چلاتے چلاتے ان کے دستہائے مبارک میں گٹے پڑ گئے۔شیخ کلینی نے حضرت صادق ؑ سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا روئے زمین پر کوئی سبزی خرفہ(قلفہ) کے ساگ سے زیادہ نفع مند نہیں ہے اور وہ جناب فاطمہؑ کا ساگ ہے۔پھر فرمایا خدا کی لعنت ہو بنی امیہ پر کہ انہوں نے خرفہ کو بقلۃ الحمقاء کا نام دیا ہے،اس بغض و عداوت لے سبب جو انہیں ہم سے اور جناب فاطمہؑ سے ہے۔
سید فضل اللہ راوندی نے امیرالمؤمنین سے روایت کی ہے کہ ایک نا بینا شخص نے جناب فاطمہؑ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی تو فاطمہؑ پردے میں چلی گئیں۔ پیغمبرؐ خداؐ نے فاطمہؑ سے فرمایا تم نے اپنے آپؑ کو کیوں چھپایا حالانکہ یہ نابینا شخص تمہیں نہیں دیکھ سکتا۔عرض کیا وہ مجھے نہیں دیکھتا میں تو اسے دیکھ سکتی ہوں ۔اگر میں پردہ میں نہ ہوئی تو وہ میرے خوشبو کا استشمام کرے گاآپؑ نے فرمایا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تو میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔
نیز روایت ہے کہ ایک دن حضور اکرم ؐ نے صحابہ سے عورت کی حقیقت وماہیت کے متعلق سوال کیا تو وہ کہنے لگے کہ عورت مستور ہے فرمایا کس وقت عورت خدا کے زیادہ نزدیک ہوتی ہے۔اصحاب جواب نہ دے سکے۔جب جناب فاطمہؑ نے یہ سنا تو عرض کیا کہ عورت سب سے زیادہ خدا کے نزدیک اس وقت ہوتی ہےکہ جب وہ اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر ہواور گھر سے باہر نہ نکلے۔حضرتؐ نے فرمایا بیشک فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے۔
مؤلف کہتا ہے کہ اس محذرہ کے فضائل م ومناقب اس سے زیادہ ہیں کہ یہاں بیان ہوں۔چونکہ ہم مختصر لکھ رہے ہیں۔اسی پر اکتفاء کرتے ہیں جو برکتیں اس بی بی کے سبب ہم تک پہنچی ہیں وہ بہت ہیں ۔ان میں سے ایک تو تسبیح فاطمہؑ مشہور ہے کہ جس کی فضیلت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں اور جو شخص اس تسبیح پر مداومت کرے وہ شقی و بدعاقبت نہیں ہوگا۔اور حضرت امام صادق ؑ کے نزدیک ہر نماز کے بعد اس کا پڑھنا ہر روز ہزار رکعت نماز پرھنے سے بہتر ہے اور زیادہ مشہور طریقہ اس کا یہ ہے۔چونتیس مرتبہ اللہ اکبر تینتیس مرتبہ الحمدا للہ اور تینتیس مرتبہ سبحان اللہ جس کا مجموعہ ایک دعائے نور ہے۔جو اس بی بی نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو تعلیم فرمائی تھی اور فرمایااگر چاہتے ہو کہ تمہیں کبھی بخار نہ آئے تو اس کی مداومت کرو اور اسے کبھی ترک نہ کرو اور وہ دعا یہ ہے۔
بِسْمِ اللهِ النُّورِ، بِسْمِ اللهِ نُورِ النُّورِ، بِسْمِ اللهِ نُورٌ عَلى نُور، بِسْمِ اللهِ الَّذي هُوَ مُدَبِّرُ الاُْمُورِ، بِسْمِ اللهِ الَّذي خَلَقَ النُّورَ مِنْ النُّورِ، الْحَمْدُ للهِ الَّذي خَلَقَ النُّورَ مِنَ النُّورِ، وَاَنْزَلَ النُّورَ عَلى الطُّورِ، فِي كِتاب مَسْطُور،فِیْ رِقٍّ مَنْشُور، بِقَدَر مَقْدُور، عَلى نَبِيٍّ مَحْبُور، الْحَمْدُ للهِ الَّذي هُوَ بِالْعِزِّ مَذْكُورٌ، وَبِالْفَخْرِ مَشْهُورٌ، وَعَلَى السَّرّاءِ وَالضَّرّاءِ مَشْكُورٌ، وَصَلَىّ اللهُ عَلى مُحَمَّد وَآلِهِ الطّاهِرينَ۔
سلمان فارسیؑ کہتے ہیں جب یہ دعا میں نے جناب فاطمہؑ سے سیکھی تو خدا کی قسم میں نے وہ دعا مکہ ومدینہ کے ایسے ایک ہزار سے زیادہ افراد کو سکھائی جو بخار میں مبتلا تھے۔ان سب کو شفاء حاصل ہوئی ۔ایک دن محذرہ کی نماز استغاثہ ہے کہ جس کے متعلق روایت ہے کہ جب تمہیں خدا کے دربار کوئی حاجت ہو میں اور تمہارا سینہ اس سے تنگ ہو تو دو رکعت نماز پڑھو جب سلام پھیرو تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہو اور تسبیح حضرت فاطمہؑ پڑھو پھر سجدہ میں جاکر سو مرتبہ کہو یا مولاتی یا فاطمۃ اغیثنی پھر دایاں رخسار زمین پر رکھ کر یہی کلمات سو مرتبہ کہو پھر سر سجدہ میں رکھ کر سو مرتبہ کہو پھر بایاں رخسار زمین پر رکھ کر سو مربتہ کہو پھر سر سجدہ میں رکھ کر ایک مرتبہ سو مرتبہ کہو اور اپنی حاجت بیان کرو انشاءاللہ خدا تمہاری حاجت پوری کرے گااور ایک چیز محدث فیض نے خلاصہ الاذکار میں نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہؑ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ میرے پاس تشریف لائے جب میں بستر بچھا چکی تھی اور سونا چاہتی تھی تو فرمایا اے فاطمہؑ اس وقت تک نہ سویا کرو جب تک چار عمل بجانہ لاؤ۔ قرآن ختم کرو،انبیاء کو اپنا شفیع قرار دو، مومنین کو اپنے سے خوش کرو اور حج و عمرہ بجالاؤ۔یہ فرما کر آپؐ نے نماز شروع کردی۔میں رک گئی یہاں تک کہ آپؐ نے نماز تمام کی تو میں نے عرض کیا اے خدا کے رسولؐ آپؐ نے ایسے چار امور کا مجھے حکم دیا ہے کہ جن کے بجالانے کی میں اس وقت قدرت نہیں رکھتی۔آنحضرتؐ نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا۔ جب تم تین مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ لو تو گویا قرآن ختم کرلیا ہے اور جب مجھ سے پہلے گذشتہ انبیاء پر صلواۃ بھیجو تو ہم قیامت کے دن تمہارے شفیع ہوجائیں گے اور جب مومنین کے لیے استغفار کرو تو وہ سب تم سے خوش ہوجائیں گے اور جب سبحان اللہ و الحمد اللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہو تو گویا حج و عمرہ بجالائی ہو۔
فقیر کہتا ہے کہ ہمارے شیخ (استاد)مستدرک میں فرمایا کہ ہمارے معاصرین اہل سنت نے کتاب خلاصۃ الکلام فی امر البلد الحرام میں یہ دعا بعض عارفین سے نقل کی ہے۔اللھم رب الکعب وبانیھا و فاطمۃ وابیھا وبعلھا وبنیھا نور بصیرتی و سری و سریرتی بتحقیق۔یہ دعا آنکھوں کی بنائی کے لیے مجرب ہے اور جو شخص سرمہ لگاتے وقت یہ دعا پڑھے خداوند عالم اس کی آنکھوں کو روشنی بخشے گااور نورانی کرے گا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button