مناقب امام حسین عمناقب و فضائل

مناقب امام حسین علیہ السلام

ڈاکٹر طاہر القادری
حسنین علیھما السلام جنت کے جوانوں کے سردار
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’الحسن و الحسين سيد اشباب اهل الجنة‘‘
’’حسن اور حسین علیھما السلام جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘۔
(جامع الترمذی، ۲ : ۲۱۸)
خاتون جنت کے فرزندان ذی حشم علی کرم اللہ وجھہ الکریم کے لخت جگر حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمایا گیا ہے اور یہ فرمانا ہے تاجدار کائنات نبی آخر الزمان رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔
حسنین کی محبت، محبت رسول ہے
ایک حدیث پاک میں آتا ہے :
’’عن أبی هريرة رضي اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من أحبهما فقد أحبني و من أبغضها فقد أبغضني يعني حسنا و حسيناً‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
’’جس نے حسن اور حسین علیھما السلام دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا‘‘۔
(مسند احمد بن حنبل، ۲ : ۲۸۸)
تاجدار عرب و عجم حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین علیھما السلام سے جس نے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ ذرا غور کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھنے والے کا کہاں ٹھکانہ ہے؟ اس کے دین اور ایمان کی کیا وقعت ہے؟
باری تعالیٰ حسنین کریمین علیھما السلام سے تو بھی محبت کر
’’عن عطاء ان رجلاً اخبره أنه رأی النبی صلی الله عليه وآله وسلم يضم اليه حَسَناً و حسيناً يقول اللهم أني أحبها فأحبها‘‘
حضرت عطاء سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین کو اپنے سینے سے چمٹایا اور فرمایا
’’اے اللہ میں حسن اور حسین علیھما السلام سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر‘‘۔
(مسند احمد بن حنبل، ۵ : ۳۶۹)
بارگاہ خداوندی میں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں معطر اور معتبر لبوں پر دعائیہ کلمات مہک رہے ہیں کہ باری تعالیٰ تو بھی حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو اپنی محبت کا سزاوار ٹھہرا، یہ دعائیہ کلمات بھی حضور رحمت عالم کے لب اقدس سے نکلے کہا
’’اللهم انی احبهما فاحبهما فمن احبهما فقد احبنی‘‘
’’ مولا ! مجھے حسن اور حسین علیھما السلام سے بڑا پیار ہے تو بھی ان سے پیار کر۔ جو حسن اور حسین علیھما السلام سے پیار کرتا ہے گویا وہ مجھ سے پیار کرتا ہے‘‘۔
دوش پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سواری
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے لاڈلے نواسوں سے کتنی محبت تھی وہ انہیں کتنا چاہتے تھے شاید آج ہم اس کا اندازہ نہ کرسکیں کیونکہ ہم جھگڑوں میں پڑگئے ہیں، حقیقتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکی ہیں، حقائق کا چہرہ گرد آلود ہے، آئینے دھند میں لپٹے ہوئے ہیں حالانکہ خلفائے راشدین اور اہل بیت نبوی رضی اللہ عنھم اخوت اور محبت کے گہرے رشتوں میں منسلک تھے۔ خاندان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام کی فضائے نور قلب و نظر پر محیط تھی۔ علی علیہ السلام کے نور نظر، اصحاب رسول کی آنکھوں کا تارا تھے۔
’’عن عمر يعني ابن الخطاب قال رأيت الحسن والحسين علي عاتقي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقلت نعم الفرس تحتکما فقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونعم الفارسان‘‘
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حسن اور حسین علیھما السلام دونوں کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہیں میں نے کہا کتنی اچھی سواری تمہارے نیچے ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں‘‘۔
(مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۲)
(رواه ابو يعلي في الکبير ورجاله رجال الصحيح)
وہ منظر کیا دلکش منظر ہوگا۔ جنت کے جوانوں کے سردار شہزادہ حسن اور شہزادہ حسین علیھما السلام اپنے نانا جان کے مقدس کندھوں پر سوار ہیں، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ یہ روح پرور منظر دیکھتے ہیں اور شہزادوں کو مبارکباد دیتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے ہیں، شہزادو! تمہارے نیچے کتنی اچھی سواری ہے۔ فرمایا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے : عمر! دیکھا نہیں سوار کتنے اچھے ہیں؟ وہ حسن اور حسین علیھما السلام ، جنہیں آقائے دوجہاں کے مقدس کندھوں پر سواری کا شرف حاصل ہوا اور وہ حسن اور حسین علیھما السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنہیں چوسنے کے لئے اپنی زبان مبارک عطا کی، جنہیں اپنے لعاب دہن سے نواز، جنہیں اپنی آغوش رحمت میں بھلایا۔
حالت نماز میں پشت اقدس کے سوار
’’عن ابی هريرة رضي اﷲ عنه قال کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء فاذا سجد وثب الحسن والحسين علي ظهره فاذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه أخذاً رقيقاً و يضعهما علي الارض فاذا عاد عادا حتي قضي صلوته. فاقعدهما علي فخذيه‘‘
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے (دیر سے) عشاء کی نماز آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے حسن اور حسین علیھما السلام دونوں بھائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سجدے سے اٹھایا تو دونوں کو اپنے ہاتھوں سے آرام سے تھام لیا اور زمین پر بیٹھا لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی۔ پھر دونوں شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھایا‘‘۔
(مسند احمد بن حنبل، ۲ : ۵۱۳)
یہ سجدہ خدا کے حضور ہو رہا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں ہیں، سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے دونوں شہزادوں کو تھام لیا کہ کہیں یہ معصوم شہزادے نیچے نہ گر جائیں اور بڑی احتیاط سے انہیں زمین پر بٹھا دیا۔ حسن اور حسین نماز کے دوران پشت مبارک پر چڑھے رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں احتیاط سے انہیں اتارتے رہے حتی کہ نماز مکمل ہوئی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں شہزادوں کو اپنے آغوش محبت میں سمیٹ لیا۔
جن کے لئے سجدہ طویل کردیا گیا
’’عن أنس قال کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يسجد فيحبئي الحسن و الحسين فيرکب ظهره فيطيل السجود فيقال يا نبي اﷲ أطلت السجود فيقول ارتحلني ابني فکر هت ان اعجله‘‘
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں سجدے میں تھے کہ حسن اور حسین آئے اور پشت مبارک پر چڑھ گئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان کی خاطر) سجدہ طویل کردیا (نماز سے فراغت کے بعد) عرض کیا گیا۔ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا سجدہ طویل کرنے کا حکم آگیا۔ فرمایا نہیں میرے دونوں بیٹے حسن اور حسین علیھما السلام میری پشت پر چڑھ گئے تھے میں نے یہ ناپسند کیا کہ جلدی کروں‘‘۔
(مسند من حديث عبدالله بن شداد، ۳ : ۴۹۵)
(مجمع الزواند، ۹ : ۱۸۱)
یعنی حسن اور حسین علیھما السلام جب حالت نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصداً سجدہ طویل کردیا تا کہ حسن اور حسین علیھما السلام گر نہ پڑیں ان کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔
یہ دونوں شہزادے حضرت علی شیر خدا اور خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا علیھا السلام کے فرزندان ارجمند تھے۔ لیکن یہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی بھی ٹھنڈک تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری دنیا کو اپنے قول و عمل سے بتا دیا کہ علی اور فاطمہ سلام اللہ علیھما، حسن اور حسین علیھما السلام میرے بھی لخت جگر ہیں یہ میری نسل سے ہیں، یہ میری ذریت ہیں اور فرمایا ہر نبی کی اولاد کا نسب اپنے باپ سے شروع ہوکر دادا پر ختم ہوتا ہے مگر اولاد فاطمہ کا نسب بھی میں ہوں وہ میرے بھی لخت جگر ہیں۔
’’فاطمة مضغة منی يقبضني ماقبضها ويبسطني ما بسطها و ان الانساب يوم القيامة تنقطع غير نسبي و سببي و صهري‘‘
’’فاطمؑہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں مجھے بے چین کر دیتی ہے ہر وہ چیز جو اسے بے چین کرتی ہے اور مجھے خوش کرتی ہے ہر وہ چیز جو اسے خوش کرتی ہے قیامت کے روز تمام نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے ما سوا میرے نسبی، قرابت داری اور سسرالی رشتے کے‘‘۔
(مسند احمد بن حنبل، ۴ : ۳۲۳)
(المستدرک، ۳ : ۱۵۸)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے مشابہت
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لخت جگر ہونے کے ناطے حضرت امام حسین علیہ السلام کو چونکہ قربانی مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر بنایا گیا تھا اور انہیں ذبح عظیم کی خلعت فاخرہ عطا کی گئی تھی اس لئے امام حسین علیہ السلام کے جسم کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے قریبی مشابہت کے اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد جب لوگوں کو اپنے عظیم پیغمبر کی یاد ستاتی، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کی یاد دلوں میں اضطراب پیدا کرتی تو وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے در دولت پر حاضر ہوتے اور حسین علیہ السلام کی زیارت کر کے اپنی آنکھوں کی تشنگی کا مداوا کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس نظروں میں سما جاتا۔ صحابہ یہ بھی جانتے تھے کہ نواسہء رسول کو خلعت شہادت سے سرفراز ہونا ہے کیونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے حسین علیہ السلام کی شہادت کا تذکرہ سن چکے تھے اس حوالے سے بھی حضرت امام حسین علیہ السلام اصحاب رسول کی نگاہوں کا مرکز بن گئے تھے۔
حسین علیہ السلام کی محبت اللہ کی محبت
’’عن يعلي بن مره قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسين مني و انا من حسين احب اﷲ من احب حسيناً‘‘
’’حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسیؑن مجھ سے ہے اور میں حسیؑن سے ہوں اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسیؑن سے محبت کرتا ہے‘‘۔
(جامع الترمذی، ۲ : ۲۱۹)
وہ حسین علیہ السلام ابن علی علیہ السلام جن کے بارے میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ حسین علیہ السلام مجھ سے اور میں حسین ؑ سے ہوں اور یہ کہ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین علیہ السلام سے محبت کرتا ہے اب جس سے اللہ محبت کرتا ہے۔ اس سے عداوت رکھنا اور اس کا خون ناحق بہانا کتنا بڑا جرم ہے؟ استقامت کے کوہ گراں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کے دست پلید پر بیعت کرلے گا بالکل فضول سی بات ہے۔ اہل حق راہ حیات میں اپنی جان کا نذرانہ تو پیش کردیتے ہیں لیکن اصولوں پر کسی سمجھوتے کے روادار نہیں ہوتے اگر کربلا کے میدان میں حق بھی باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتا تو پھر قیامت تک حق کا پرچم بلند کرنے کی کوئی جرات نہ کرتا، کوئی حرف حق زبان پر نہ لاتا، درندگی، وحشت اور بربریت پھر انسانی معاشروں پر محیط ہوجاتی اور قیامت تک کے لئے جرات و بیباکی کا پرچم سرنگوں ہوجاتا اور نانا کا دین زاغوں کے تصرف میں آ کر اپنی اقدار اور روح دونوں سے محروم ہوجاتا۔
اسی طرح ایک اور روایت ہے :
’’عن ابی هريرة رضي اﷲ عنه قال رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و هو حامل الحسين بن علي و هو يقول اللهم اني احبه فاحبه‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسین علیہ السلام کو اٹھایا ہوا تھا اور یہ فرما رہے تھے۔
’’ اے اللہ میں اس (حسیؑن) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر‘‘۔
(المستدرک للحاکم، ۳ : ۱۷۷)
اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا دم بھرتے ہیں، اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتے ہیں، اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا تشخص گردانتے ہیں تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس سے محبت کرتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ میں حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض عداوت کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آنا چاہیے بلکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس محبوب سے والہانہ محبت کا اظہار کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گہری وابستگی کو مزید مستحکم بنانا چاہئے کہ قصر ایمان کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کا یہ ایک موثر ذریعہ ہے۔
اہل بیت کی محبت اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دراصل ایک ہی محبت کا نام ہے۔ ان محبتوں کو خانوں میں تقسیم کر نا، امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے، اس ملت اسلامیہ کو دوئی کے ہر تصور کو مٹا کر اخوت و محبت اور یگانگت کے ان سرچشموں سے اپنا ناطہ جوڑ لینا چاہیے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز اور شوکت و عظمت اسلام کا مظہر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا گویا حسین سے نفرت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی عملاً نفی ہے اور کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
’’عن علی رضی اﷲ تعالی عنه قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم للحسين بن علي ’’من احب هذا فقد أحبني‘‘
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین بن علی علیھما السلام کے بارے میں فرمایا
"جس نے اس (حسینؑ) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی”۔
(المعجم الکبير، ۳، ح : ۲۶۴۳)
(اقتباس از ’’ذبح عظیم‘‘)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button