امام حسینؑ کی زیارت اور سیرت آئمہ معصومینؑ

امام حسینؑ کی زیارت اور سیرت آئمہ معصومینؑ
حصہ اول
مقدمہ:
روایات شیعہ میں جس چیز کے بارے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے،وہ امام حسینؑ کی زیارت کرنا ہے۔ اس بارے میں آئمہ اہل بیتؑ نے لوگوں کو فقط زبان سے ہی شوق نہیں دلایا بلکہ خود بھی جس امام کو جب بھی زمانے کے حالات کے مطابق فرصت ملی ہے،تو اس امامؑ نے عملی طور پر کربلا جا کر امام حسینؑ کی زیارت کی اہمیت کو لوگوں کے لیے ثابت کیا ہے کہ اس بارے میں روایات بھی بہت ہی بلند و عالی معنی و مفہوم کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض آئمہ معصومینؑ نے اپنی بیماری کی شفاء کے لیے کسی کو کربلا امام حسینؑ کی قبر کے نزدیک بھیجا ہے تاکہ وہ وہاں جا کر اس امام معصوم کی شفاء کے لیے دعا اور زیارت کرے اور بعض آئمہ معصومینؑ نے امام حسینؑ کی زیارت کرنے کو اس طرح سے بیان کیا ہے کہ بعض علماء شیعہ نے ان الفاظ سے امام حسینؑ کی زیارت کرنے کے واجب ہونے کو سمجھا اور استنباط کیا ہے۔
امام حسینؑ کی زیارت کے بارے میں آئمہ معصومینؑ سے نقل ہونے والی روایات ایک طرح کی نہیں ہیں، بلکہ ہر امام معصوم کے زمانے کے حالات کے مطابق روایات بھی کئی طرح کی ہیں۔ اس لیے کہ جب ہم روایات و احادیث کی کتب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آئمہ سے اس بارے میں زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں اور بعض سے اس بارے میں روایات کم نقل ہوئی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امام حسینؑ کی زیارت کے بارے میں روایات بھی کم ہیں کیونکہ اس بارے میں روایات اس قدر زیادہ نقل ہوئی ہیں کہ یقینی طور پر تواتر کی حد سے بھی بالا تر ہیں۔
اس تحریر میں آئمہ معصومینؑ کی سیرت میں امام حسینؑ کی زیارت کے موضوع کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حضرت رسول اکرم (ص) اور زیارت امام حسینؑ
شیعہ کی احادیث کی کتب میں کچھ روایات امام حسین ؑ کی زیارت کے بارے میں رسول خدا (ص) سے ذکر کی گئی ہیں کہ ان روایات سے امام حسین ؑ کی اہمیت کو رسول خدا (ص) کے نزدیک سمجھاجاسکتا ہے:
حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو مُحَمَّدٍ هَارُونُ بْنُ مُوسَى التَّلَّعُكْبَرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زَكَرِيَّا الْعَدَوِيُّ النَّصْرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُنْذِرِ الْمَكِّيِّ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ الْهَيْثَمِ قَالَ حَدَّثَنِي الْأَجْلَحُ الْكِنْدِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَفْلَحُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ طَاوُسٍ الْيَمَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلي الله عليه و آله و سلم وَ الْحَسَنُ عَلَى عَاتِقِهِ وَ الْحُسَيْنُ عَلَى فَخِذِهِ يَلْثِمُهُمَا وَ يُقَبِّلُهُمَا وَ يَقُولُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُمَا وَ عَادِ مَا [مَنْ] عَادَاهُمَا ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ كَأَنِّي بِهِ وَ قَدْ خُضِبَتْ شَيْبَتُهُ مِنْ دَمِهِ يَدْعُو فَلَا يُجَابُ وَ يَسْتَنْصِرُ فَلَا يُنْصَرُ قُلْتُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ شِرَارُ أُمَّتِي مَا لَهُمْ لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَنْ زَارَهُ عَارِفاً بِحَقِّهِ كُتِبَ لَهُ ثَوَابُ أَلْفِ حَجَّةٍ وَ أَلْفِ عُمْرَةٍ أَلَا وَ مَنْ زَارَهُ فَكَأَنَّمَا زَارَنِي وَ مَنْ زَارَنِي فَكَأَنَّمَا زَارَ اللَّهَ وَ حَقُّ الزَّائِرِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُ بِالنَّار۔
عبد اللہ بن عباس کہتا ہے کہ: میں رسول خدا (ص) کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ امام حسن ؑحضرت کے کندھے پر اور امام حسینؑ حضرت کے زانو پر بیٹھے تھے، رسول خدا ان کے بوسے لے رہے تھے اور فرما بھی رہے تھے کہ خداوندا ان سے محبت کر جو ان سے محبت کرے اور ان سے دشمنی کر جو ان سے دشمنی کرے۔ پھر فرمایا کہ اے ابن عباس میں اپنے اس بیٹے حسین کو دیکھ رہا ہوں کہ اس کی ریش مبارک اس کے خون سے رنگین ہوئی ہے اور یہ لوگوں کو اپنی مدد کے لیے پکارے گا،لیکن کوئی بھی اس کی مدد نہیں کرے گا۔
ابن عباس کہتا ہے کہ میں نے پوچھا کہ کون لوگ اس امام کی مدد نہیں کریں گے ؟ فرمایا کہ میری امت کے برے لوگ کہ پتا نہیں ان کو کیا ہو گیا ہے ؟ خداوند ان لوگوں کو میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔
اے ابن عباس جو بھی میرے بیٹے حسینؑ کی صحیح معرفت کے ساتھ زیارت کرے گا،اس کے لیے ایک ہزار حج اور ایک ہزار عمرے کا ثواب لکھا جائے گا، اور جس نے اس کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی،اور جس نے میری زیارت کی گویا اس نے خداوند کی زیارت کی اور زائر کا خداوند پر یہ حق ہے کہ خدا اس کو جہنم کی آگ سے دور رکھے۔
خزاز رازی، علی بن محمد، الوفاۃ: القرن الرابع، کفایۃ الأثر فی النصّ علی الأئمۃ الاثنی عشر، محقق: حسینی کوھکمری، عبد اللطیف،
ناشر: بیدار1401 ق
امام امیر المؤمنین علیؑ اور زیارت امام حسینؑ
مولا امیرؑ سے امام حسین ؑ کی زیارت کے بارے میں بہت ہی بہترین روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت امیر نے امام حسینؑ کی زیارت پر نہ جانے کو اس بندے کی طرف سے جفا قرار دیا ہے کہ یہ تعبیر خودامام حسین ؑ کی زیارت کی اہمیت کو بیان کرنے کےلیے کافی ہے:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الصَّفَّارِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي دَاوُدَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أَبِي عُمَرَ الْجَلَّابِ عَنِ الْحَرْثِ [الْحَارِثِ] الْأَعْوَرِ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ عليه السلام بِأَبِي وَ أُمِّي الْحُسَيْنَ الْمَقْتُولَ بِظَهْرِ الْكُوفَةِ وَ اللَّهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْوَحْشِ مَادَّةً أَعْنَاقَهَا عَلَى قَبْرِهِ مِنْ أَنْوَاعِ الْوَحْشِ يَبْكُونَهُ وَ يَرْثُونَهُ لَيْلًا حَتَّى الصَّبَاحِ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَإِيَّاكُمْ وَ الْجَفَاءَ ۔
حضرت علیؑ نے فرمایا کہ: حسینؑ کوفہ کے نزدیک قتل کیا جائے گا،خدا کی قسم میں دیکھ رہا ہوں کہ وحشی حیوانات اس کی قبر پرگردن رکھ کر اس پرگریہ کر رہے ہیں اور رات سے صبح تک اس پر نوحے پڑھتے ہیں، جب حیوانات کا یہ حال ہے تو تم اے انسانوں اس امام پرجفا کرنے سے بچو۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص291، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضويۃ
حضرت فاطمہ زہراء (س) اور زیارت امام حسینؑ
امام حسینؑ کی زیارت صدیقہ کبریٰ (س) کی نظر میں اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ وہ خود اپنے بیٹے کی قبر پر حاضر ہوتی ہیں اور اس مبارک قبر کی زیارت کرنے والوں کے لیے طلب مغفرت کرتی ہیں۔
حتی اہل سنت کی بعض کتب میں نقل ہوا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے خواب میں بعض علمائے اہل سنت کو حکم دیا ہے کہ بعض ذاکروں سے کہیں کہ امام حسین کے مصائب کو پڑھیں۔
ان دونوں موارد کے بارے میں ایک ایک روایت کو ذکر کیا جاتا ہے:
روایت اول:
حَدَّثَنِي حَكِيمُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه و آله و سلم تَحْضُرُ لِزُوَّارِ قَبْرِ ابْنِهَا الْحُسَيْنِ عليه السلام فَتَسْتَغْفِرُ لَهُمْ ذُنُوبَهُمْ۔
حضرت امام صادق ؑ نے فرمایا کہ: حضرت فاطمہ(س) بنت حضرت محمّد(ص) اپنے بیٹے حسینؑ کی قبر کی زیارت کرنے والے زائرین کے پاس حاضر ہوتی ہیں اور ان کے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کرتی ہیں۔
ابن قولویہ، جعفر بن محمد، الوفاۃ: 367، کامل الزیارات ج1 ص118، محقق: امینی، عبد الحسین، چاپ اول، ناشر: دار المرتضویہ،
روایت دوم:
کتب اہل سنت میں صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ حضرت زہرا (س) اہل سنت کے عالم کی خواب میں آتی اور اس سے کہا کہ کربلا جاؤ……
أنبأنا أحمد بن أزهر بن السباك قال أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي الأنصاري في كتابه عن أبي القاسم علي بن المحسن التنوخي عن أبيه أبي علي قال حدثني أبي قال خرج إلينا أبو الحسن الكرخي يوما فقال تعرفون ببغداد رجلا يقال له ابن أصدق فلم يعرفه من أهل المجلس غيري و قلت أعرفه فكيف سألت عنه قال أي شيء يعمل قلت ينوح على ابن علي عليهما السلام قال فبكى أبو الحسن و قال عندي عجوز تزينني من أهل كرخ جدان يغلب على لسانها النبطية و لا يمكنها أن تقيم كلمة عربية فضلا عن أن تحفظ شعرا و هي من صوالح النساء و تكثر من الصلاة و الصوم و التهجد و انتبهت البارحة في جوف الليل و منامها قريب من منامي فصاحت أبو الحسن أبو الحسن قلت ما لك قالت إلحقني فجئتها و وجدتها ترعد وقلت ما أصابك قالت رأيت في منامي و قد صليت وردي و نمت كأني في درب من دروب الكرخ فيه حجرة محمرة بالساج مبيضة بالأسفيداج مفتوحة الباب و عليه نساء وقوف فقلت لهم ما الخبر فأشاروا إلى داخل الدار و إذا امرأة شابة حسناء بارعة الجمال و الكمال و عليها ثياب بياض مروية من فوقها إزار شديد البياض قد التفت به و في حجرها رأس يشخب دما ففزعت و قالت لا عليك أنا فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه و سلم و هذا رأس الحسين صلوات الله على الجماعة فقولي لابن أصدق حتى ينوح
لم أمرضه فأسلو *** لا و لا كان مريضا *** و انتبهت مذعورۃ
قال أبو الحسن و قالت العجوز ( أمرظه ) بالظاء لأنها لا تتمكن من إقامة الضاد فسكنت منها إلى أن عاودت نومها و قال أبو القاسم ثم قال لي مع معرفتك بالرجل فقد حملتك الأمانة في هذه الرسالة فقلت سمعا و طاعة لأمر سيدة النساء رضوان الله تعالى عليها قال و كان هذا في شعبان و الناس في إذ ذاك يلقون أذى شديدا و جهدا جهيدا من الحنابلة و إذا أرادوا زيارة المشهد بالحائر خرجوا على استتار و مخافة فلم أزل أتلطف في الخروج حتى تمكنت منه و حصلت في الحائر ليلة النصف من شعبان و سألت عن أصدق فدللت عليه و دعوته و حضرني فقلت له إن فاطمة عليها السلام تأمرك أن تنوح بالقصيدة التي فيها
لم أمرضه فأسلوا لا و لا كان مريضا
فانزعج من ذلك و قصصت عليه و على من كان معه عندي الحديث فأجهشوا بالبكاء و ناح بذلك طول ليلته و أول القصيدة
أيها العينان فيضا و استهلا لا تغيضا۔
میرے والد نے نقل کیا ہے کہ ایک دن ابو الحسن کاتب کرخی ہمارے پاس آیا اور کہا کہ کیا تم بغداد میں ابن اصدق نامی ایک بندے کو جانتے ہو ؟ اس محفل میں اس کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں نے کہا میں اس کو جانتا ہوں، کیوں کیا ہوا ہے کہ اس کے بارے میں اس طرح پوچھ رہے ہو ؟ ابو الحسن نے کہا: یہ ابن اصدق کیا کام کرتا ہے ؟ میں نےکہا امام حسین ؑ کے لیے نوحہ خوانی کرتا ہے۔یہ سن کر ابو الحسن نے گریہ کیا اور کہا میرے پاس ایک بوڑھی عورت ہے کہ بچپن سے اس نے ہی مجھے پالا ہے۔ وہ کرخ کے محلے جدان کی رہنے والی ہے اور اس کی زبان اب اس قابل نہیں رہی کہ عربی کا ایک لفظ بھی صحیح طریقے سے بول سکے، کوئی شعر یا کوئی روایت اس کے لیے پڑھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ایک رات وہ اچانک بیدار ہو گئی کیونکہ اس کے سونے کی جگہ میرے سونے کی جگہ کے نزدیک تھی،اس نے اونچی آواز سے کہا کہ اے ابو الحسن اٹھو میرے پاس آؤ۔ میں نے کہا کیا ہوا ہے ؟ میں اس کے پاس گیا دیکھا کہ وہ کانپ رہی ہے۔ میں نے کہا کیا ہوا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں کرخ کے دروازوں میں سے ایک دروازے کے سامنے ہوں۔ میں نے ایک خوبصورت کمرے کو دیکھا کہ جس کی دیواریں سفید اور سرخ رنگ کی تھیں، اس کمرے کا دروازہ کھولا ہوا تھا اور عورتیں دروازے کے سامنے کھڑی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کون فوت ہوا ہے ؟ یہاں پر کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے کمرے کے اندر کی طرف اشارہ کیا۔ میں بھی کمرے کے اندر چلی گئی۔ میں نے دیکھا کہ کمرہ بہت ہی خوبصورت ہے اور اس کے وسط میں جوان عورت بیٹھی ہے کہ میں نے اس جیسی خوبصورت عورت آج تک نہیں دیکھی تھی اور اس نے سفید رنگ کا لمبا سا لباس پہنا ہوا تھا کہ اس لباس کے ایک کونے سے خون نکل رہا تھا۔
میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ فرمایا میں رسول خدا (ص) کی بیٹی فاطمہ ہوں اور یہ میرے بیٹے حسینؑ کا سر ہے۔ میری طرف سے ابن اصدق سے کہو کہ اس شعر کو نوحے کے طور پر پڑھے کہ: میرا بیٹا بیمار نہیں تھا کہ بیماری کی وجہ سے دنیا سے گیا ہو حتی واقعہ کربلا سے پہلے بھی بیمار نہیں ہوا تھا۔ ابو الحسن نے کہا اے ابو القاسم اب کہ تم ابن اصدق کو جانتے ہو۔ امانتداری کے ساتھ اس خبر کو اس تک پہنچا دو۔ میں نے کہا بی بی فاطمہ(س) کی خاطر میں یہ خبر ضرور ابن اصدق تک پہنچاؤں گا۔
ابو القاسم تنوخی کہتا ہے کہ: یہ ماہ شعبان کا واقعہ ہے اور جب لوگ امام حسینؑ کی زیارت کے لیے جاتے تھے تو راستے میں ان کو حنبلی مذہب کے لوگ بہت تنگ کیا کرتے تھے۔ میں نے کوشش اور تلاش کر کے آخر کار خود کو 15 شعبان کی شب کربلا پہنچا ہی لیا۔ ادھر پہنچ کر ابن اصدق کا معلوم کرتے کرتے میں نے اس کو ڈھونڈ ہی لیا اور اس سے کہا کہ حضرت زہرا (س) نے تم کو حکم دیا ہے کہ تم اس مرثیے کو پڑھو کہ جس کا عنوان امام حسین کا نوحہ ہے۔ میں نے ابن اصدق سے کہا کہ مجھے اس واقعے سے پہلے اس مرثیے کا پتا نہیں تھا۔ یہ سن کر ابن اصدق کی عجیب سی حالت ہو گئی۔ میں نے اس خواب کو اس کے لیے اور محفل میں حاضر سب لوگوں کے لیے مکمل طور پر بیان کیا۔ سب نے بہت ہی زیادہ گریہ کیا اور ساری رات اسی مرثیے کے ساتھ نوحہ خوانی ہوتی رہی۔ اس مرثیے کا پہلا شعر یہ ہے:
اے میری دو آنکھو اشک بہاؤ، بہت ہی شدید گریہ کرو، اس طرح گریہ کرو کہ تمہارے اشک کبھی خشک نہ ہوں،
ابن العدیم نے لکھا ہے کہ: ابو الحسن کرخی ابو حنیفہ کے بزرگترین اصحاب میں سےہے۔
كمال الدين عمر بن أحمد بن أبي جرادة الوفاة: 660، بغية الطلب في تاريخ حلب ج 6 ص 2655، دار النشر : دار الفكر ، تحقيق : د. سهيل زكار
امام حسنؑ اور زیارت امام حسینؑ
بعض روایات میں امام حسنؑ کا امام حسین ؑ کی زیارت کو بہت زیادہ اہمیت دینے کے بارے میں اشارہ ہوا ہے۔
وَ بِالْإِسْنَادِ عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ: كُنْتُ نَازِلًا بِالْكُوفَةِ وَ كَانَ لِي جَارٌ كَثِيراً مَا كُنْتُ أَقْعُدُ إِلَيْهِ وَ كَانَ لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا تَقُولُ فِي زِيَارَةِ الْحُسَيْنِ، فَقَالَ لِي: بِدْعَةٌ وَ كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ، فَقُمْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ أَنَا مُمْتَلِئٌ غَيْظاً وَ قُلْتُ: إِذَا كَانَ السَّحَرُ أَتَيْتُهُ فَحَدَّثْتُهُ مِنْ فَضَائِلِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مَا يَشْحَنُ اللَّهُ بِهِ عَيْنَيْهِ قَالَ: فَأَتَيْتُهُ وَ قَرَعْتُ عَلَيْهِ الْبَابَ، فَإِذَا أَنَا بِصَوْتٍ مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ إِنَّهُ قَدْ قَصَدَ الزِّيَارَةَ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، فَخَرَجْتُ مُسْرِعاً فَأَتَيْتُ الْحَيْرَ، فَإِذَا أَنَا بِالشَّيْخِ سَاجِدٌ لَا يَمَلُّ مِنَ السُّجُودِ وَ الرُّكُوعِ، فَقُلْتُ لَهُ: بِالْأَمْسِ تَقُولُ لِي بِدْعَةٌ وَ كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ وَ الْيَوْمَ تَزُورُهُ، فَقَالَ لِي: يَا سُلَيْمَانُ لَا تَلُمْنِي فَإِنِّي مَا كُنْتُ أُثْبِتُ لِأَهْلِ هَذَا الْبَيْتِ إِمَامَةً حَتَّى كَانَتْ لَيْلَتِي هَذِهِ فَرَأَيْتُ رُؤْيَا أَرْعَبَتْنِي فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتَ! أَيُّهَا الشَّيْخُ. قَالَ: رَأَيْتُ رَجُلًا لَا بِالطَّوِيلِ الشَّاهِقِ وَ لَا بِالْقَصِيرِ اللَّاصِقِ، لَا أُحْسِنُ أَصِفُهُ مِنْ حُسْنِهِ وَ بَهَائِهِ، مَعَهُ أَقْوَامٌ يَحُفُّونَ بِهِ حَفِيفاً وَ يَزِفُّونَهُ زَفّاً، بَيْنَ يَدَيْهِ فَارِسٌ عَلَى فَرَسٍ لَهُ ذَنُوبٌ، عَلَى رَأْسِهِ تَاجٌ، لِلتَّاجِ أَرْبَعَةُ أَرْكَانٍ، فِي كُلِّ رُكْنٍ جَوْهَرَةٌ تُضِيءُ مَسِيرَةَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا، فَقَالُوا: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ و سلم، فَقُلْتُ: وَ الْآخَرُ، فَقَالُوا: وَصِيُّهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ، ثُمَّ مَدَدْتُ عَيْنِي فَإِذَا أَنَا بِنَاقَةٍ مِنْ نُورٍ عَلَيْهَا هَوْدَجٌ مِنْ نُورٍ تَطِيرُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ، فَقُلْتُ: لِمَنِ النَّاقَةُ، قَالُوا: لِخَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ وَ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: وَ الْغُلَامُ، قَالُوا: الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، قُلْتُ: فَأَيْنَ يُرِيدُونَ، قَالُوا: يَمْضُونَ بِأَجْمَعِهِمْ إِلَى زِيَارَةِ الْمَقْتُولِ ظُلْماً الشَّهِيدِ بِكَرْبَلَاءَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، ثُمَّ قَصَدْتُ الْهَوْدَجَ وَ إِذَا أَنَا بِرِقَاعٍ تَسَاقَطُ مِنَ السَّمَاءِ أَمَاناً مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ لِزُوَّارِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ هَتَفَ بِنَا هَاتِفٌ: أَلَا إِنَّنَا وَ شِيعَتَنَا فِي الدَّرَجَةِ الْعُلْيَا مِنَ الْجَنَّةِ، وَ اللَّهِ يَا سُلَيْمَانُ لَا أُفَارِقُ هَذَا الْمَكَانَ حَتَّى يُفَارِقَ رُوحِي جَسَدِي۔
سلیمان اعمش کہتا ہے کہ: میں کوفے میں رہتا تھا۔ میرا ایک ہمسایہ تھا میں اس کے پاس آیا جایا کرتا تھا۔ایک دن میں شب جمعہ کواس کے پاس گیا اور کہا کہ تمہارا امام حسین ؑکی زیارت کرنے کے بارے میں کیاعقیدہ ہے ؟ اس نے کہا: بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہ انسان جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اعمش کہتا ہے کہ میں غصے کی حالت میں اس کے پاس سے اٹھ کر اپنے گھر آ گیا اور میں نے ارادہ کیا کہ صبح کے اس کے پاس آ کر اس کے لیے امام حسین (ع) کے کچھ فضائل اور کرامات بیان کروں گا۔ اگر پھر بھی اس نے اپنے عقیدے پر اصرار کیا تو میں اس کو قتل کر دوں گا۔ صبح کے وقت میں اس ہمسائے کے گھر گیا، دروازے پر دستک دی اور اس کا نام لے کر آواز دی۔ اچانک اس کی بیوی کی آواز آئی اور اس نے کہا کہ میرا شوہر کل شام سے امام حسین ؑکی زیارت کے لیے گیا ہوا ہے۔ یہ سن کر میں بھی اس کے پیچھے امام حسینؑ کی قبر کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ وہ نماز و دعا و گریہ و توبہ و استغفار کرنے میں مصروف ہے۔ جب اس نے سجدے سے سر اٹھایا تو مجھے اپنے قریب بیٹھا ہوا دیکھا۔ میں نے اس سے کہا کہ کل تو تم امام حسینؑ کی زیارت کو بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہ انسان جہنم میں ڈالا جائے گا، کی بات کر رہے تھے اور آج آ کر اسی امام کی زیارت بھی کر رہے ہو !؟ اس نے کہا اے سلیمان مجھے ایسا مت کہو کیونکہ میں اہل بیت کی امامت کا عقیدہ نہیں رکھتا تھا لیکن کل میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ جس نے مجھے بہت ڈرا دیا ہے۔ میں نے کہا کیا خواب دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: میں نے خواب میں بہت محترم شخص کو دیکھا ہے کہ جس کا قد بہت بلند یا بہت چھوٹا نہیں تھا۔ مجھ میں یہ جرات نہیں کہ اس کی عظمت، جلال، ہیبت اور کمال کو بیان کر سکوں۔ وہ چند لوگوں کے ساتھ تھا کہ جو اس کے ارد گرد تھے کہ جو اسکو بہت تیزی سے لائے اور ان کے سامنے ایک سواری تھی کہ جس کے سر پر تاج تھا اور جس کے چار کونے تھے کہ جس کے ہر کونے پر ایک گوہر تھا کہ جو تین دن تک کے فاصلے کے راستے کو نورانی کر رہا تھا۔ میں نے ان میں سے ایک خادم کو کہا کہ یہ کون ہیں ؟ اس نے کہا یہ حضرت محمّد مصطفی(ص) ہیں۔ میں نے کہا وہ اس کے ساتھ دوسرا بندہ کون ہے ؟ اس نے کہا وہ علی مرتضیٰؑ ہیں کہ جو ان کے وصی ہیں، پھر میں نے ایک نورانی سواری کو دیکھا کہ اس پر ایک نورانی ہودج تھا۔ اس ہودج میں دو خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ سواری زمین اور آسمان کے درمیان پرواز کر رہی تھی۔ میں کہا یہ سواری کس کی ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ حضرت خدیجہ کبریٰ(س) اور انکی بیٹی فاطمہ کبریٰ(س) کی ہے۔ پھر میں نے کہا یہ بچہ کون ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ حسن ابن علی(ع) ہیں۔ پھر میں نے کہا کہ یہ سب اکٹھے مل کر کہاں جا رہے ہیں ؟ اس نے کہا وہ سب امام حسینؑ کہ جو کربلا میں شہید ہوئے تھے، کی زیارت کے لیے جا رہے ہیں۔ پھر میں نے حضرت فاطمہؑ کے ہودج کی طرف دیکھا کہ کچھ کاغذ کہ جن پر کچھ لکھا ہوا تھا آسمان سے زمین کی طرف گر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کاغذ کیا ہیں ؟ اس نے کہا یہ ان زائرین کے لیے جہنم کی آگ سے امان نامہ ہے کہ جو شب جمعہ امام حسینؑ کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ جب میں نے آگے ہو کر ان میں سے ایک کاغذ لینا چاہا تو اس نے مجھ سے کہا تم تو کہتے ہو کہ امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کرنا بدعت ہے۔ تم کو یہ کاغذ تب ہی ملے گا کہ جب تم امام حسینؑ کی زیارت کرو گے اور اس امام کی عظمت اور شرافت کے قائل ہوں گے۔میں اس اضطراب اور پریشانی کی حالت میں نیند سے بیدار ہو گیا اور اسی وقت گھر سے امام حسینؑ کی زیارت کرنے کے لیے نکل پڑا ہوں۔اب میں نے توبہ کر لی ہے۔ اے سلیمان اب میں مرتے دم تک امام حسینؑ کی قبر سے دور نہیں ہوں گا۔
ابن مشهدى، محمد بن جعفر، الوفاة: 610 ق، المزار الكبير ج1 ص330،محقق: قيومى اصفهانى،جواد،چاپ: اول،ناشر: دفتر انتشارات اسلامى جامعه مدرسين حوزه علميه قم،
امام حسینؑ اور زیارت امام حسینؑ
بہت سی روایات بہت ہی بلند اور عالی مفہوم و معانی کے ساتھ امام حسینؑ کی مبارک زبان سے زیارت کربلا کے بارے میں کہ جو بھی کربلاکی زیارت کرے گا خداوند اس کو جہنم کی آگ سے دور رکھے گا۔ اس بارے میں دو روایت کو ذکر کیا جا رہا ہے:
روایت اول:
رَوَيْنَاهُ بِإِسْنَادِنَا إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ دَاوُدَ الْقُمِّيِّ، مِنْ كِتَابِ الزِّيَارَاتِ تَصْنِيفِهِ، بِإِسْنَادِهِ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ دَاوُدَ بْنِ عُقْبَةَ قَالَ: كَانَ لَنَا جَارٌ يُعْرَفُ بِعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: كُنْتُ أَزُورُ الْحُسَيْنَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي كُلِّ شَهْرٍ، قَالَ: ثُمَّ عَلَتْ سِنِّي وَ ضَعُفَ جِسْمِي وَ انْقَطَعَتْ عَنْهُ مُدَّةٌ، ثُمَّ وَقَعَ إِلَيَّ أَنَّهَا آخِرُ سِنِي عُمُرِي، فَحَمَلْتُ عَلَى نَفْسِي وَ خَرَجْتُ مَاشِياً، فَوَصَلْتُ فِي أَيَّامٍ، فَسَلَّمْتُ وَ صَلَّيْتُ رَكْعَتَيِ الزِّيَارَةِ وَ نِمْتُ، فَرَأَيْتُ الْحُسَيْنَ عليه السلام قَدْ خَرَجَ مِنَ الْقَبْرِ. فَقَالَ لِي: «يَا عَلِيُّ، لِمَ جَفَوْتَنِي وَ كُنْتَ بِي بَرّاً؟» فَقُلْتُ: يَا سَيِّدِي، ضَعُفَ جِسْمِي وَ قَصُرَتْ خُطَايَ، وَ وَقَعَ لِي أَنَّهَا آخِرُ سِنِي عُمُرِي فَأَتَيْتُكَ فِي أَيَّامٍ، وَ قَدْ رُوِيَ عَنْكَ شَيْءٌ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْكَ. فَقَالَ: «قُلْ». قَالَ: قُلْتُ: رُوِيَ عَنْكَ «مَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِهِ زُرْتُهُ بَعْدَ وَفَاتِهِ». قَالَ: «نَعَمْ». قُلْتُ: فَأَرْوِيهِ عَنْكَ «مَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِهِ زُرْتُهُ بَعْدَ وَفَاتِهِ». قَالَ: «نَعَمْ ارْوِ عَنِّي: مَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِهِ زُرْتُهُ بَعْدَ وَفَاتِهِ، وَ إِنْ وَجَدْتُهُ فِي النَّارِ أَخْرَجْتُهُ۔
داود ابن عقبہ کہتا ہے کہ میرا ایک ہمسایہ تھا کہ جس کا نام محمد ابن علی تھا، محمد ابن علی کہتا ہے کہ میں ہر مہینے امام حسینؑ کی زیارت کے لیے جاتا تھا لیکن جب میری عمر زیادہ ہو گئی اور بدن ضعیف ہو گیا تو تھوڑا عرصہ میں زیارت کے لیے نہ جا سکا۔ جب میں نے احساس کیا کہ اب میری زندگی کے آخری ایام ہیں تو میں پیدل امام حسین ؑکی زیارت کرنے کے لیے چل پڑا۔ چند دنوں کے بعد میں آخر کار کربلا پہنچ گیا۔ میں نے امام حسینؑ کو سلام کیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور پھر سو گیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ امام حسینؑ قبر سے باہر آئے ہیں اور مجھ سے فرمایا کہ تم تو مجھ پر نیکی کرنے والے تھے پس اب کیوں تم نے مجھ پر جفا کرنا شروع کر دیا ہے ؟ میں نے کہا اے میرے مولا میرا بدن کمزور اور ٹانگیں ضعیف ہو گی ہیں اس لیے تھوڑا عرصہ زیارت کے لیے نہیں آ سکا لیکن اب زندگی کے آخری ایام میں پیدل چلتا ہوا آپ کی زیارت کے لیے آیا ہوں۔ میں نے آپ سے منسوب ایک روایت کو سنا ہے میں چاہتا ہوں کہ اب اس روایت کو آپ کی مبارک زبان سے سنوں۔ اس پر امام حسینؑ نے فرمایا کہ بولو کون سی روایت ہے ؟ میں نے کہا آپؑ سے نقل ہوا ہے کہ آپؑ نے فرمایا ہے کہ جو بھی میری زیارت کے لیے آئے گا تو میں بھی اس کی وفات کے بعد اسکی زیارت کے لیے آؤں گا۔ امام حسینؑ نے فرمایا ہاں تم نے ٹھیک سنا ہے۔ میں نے عرض کیا: کیا اس روایت کو آپؑ سے نقل کروں ؟ امامؑ نے فرمایا ہاں اس روایت کو میری طرف سےنقل کرو کہ: جو بھی میری زیارت کے لیے آئے گا تو میں بھی اس کے مرنے کے بعد اس کی زیارت کے لیے آؤں گا اور اگر میں نے دیکھا کہ وہ جہنم کی آگ میں ہے تو اس کو وہاں سے باہر نکالوں گا۔
ابن طاووس، على بن موسى، الوفاة: 664 ق، الدروع الواقية ج1 ص75، چاپ اول، ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام
روایت دوم:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْمُتَوَكِّلِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ السَّعْدَ آبَادِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ هَارُونَ بْنِ خَارِجَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عليهما السلام أَنَا قَتِيلُ الْعَبْرَةِ قُتِلْتُ مَكْرُوباً وَ حَقِيقٌ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يَأْتِيَنِي مَكْرُوبٌ إِلَّا أَرُدَّهُ وَ أَقْلِبَهُ إِلَى أَهْلِهِ مَسْرُوراً۔
امام حسینؑ نے فرمایا کہ میں اشکوں سے شہید کیا گیا ہوں، میں غم و حزن کی حالت میں قتل کیا گیا ہوں، اب خداوند کا کام ہے کہ جو بھی جس مصیبت میں مبتلا بندہ میری زیارت کے لیے آئے گا، خداوند اس کو خوشحالی کی حالت میں اس کے گھر واپس پہنچائے گا۔
ابن بابويه، محمد بن على، الوفاة: 381 ق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ج1 ص98، چاپ دوم، ناشر: دار الشريف الرضي للنشر۔
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=403