اخلاق حسنہاخلاقیاتسلائیڈر

حسن اخلاق کی اہمیت

قرآن کی نظر میں
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ
(القلم۰۴)
اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔
یہ آپ کا عظیم اخلاق ہے کہ آپ کی شان میں انتہائی نامناسب جسارت ہوتی ہے، ان تمام اہانتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کے پاس خلق عظیم ہے۔
اچھا اخلاق، اعلیٰ نفسیات کا مالک ہونے کی علامت ہے اور فکر و عقل میں اعلیٰ توازن رکھنے والا ہی اعلیٰ نفسیات کا مالک ہوتا ہے۔ خلق عظیم کا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عقل عظیم کا مالک ہے۔ اس طرح مخلوق اول، عقل ہو یا نور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، بات ایک ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:
اِنَّمَا بُعْثِتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ
(مستدرک الوسائل ۱۱: ۱۸۷)
میں اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔
لہٰذا جو ذات اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئی ہے وہ خود اخلاق حمیدہ کی تکمیل کا مظہر ہی نہ ہو گی بلکہ الٰہی اخلاق کا بھی مظہر ہو گی۔
(الکوثر فی تفسیرالقرآن)
اِذۡھبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ۖ فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی
(طہٰ۴۳،۴۴)
دونوں فرعون کے پاس جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔پس دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔
فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ
(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں۔
(آل عمران 159)
خُذِ الۡعَفۡوَ وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَ
(اے رسول) درگزر سے کام لیں، نیک کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔
(اعراف 199)
احادیث کی روشنی میں
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِنَّ أَكْمَلَ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَاناً أَحْسَنُهُمْ خُلُقاً
فرمایا ابو جعفر (ع) نے کہ از روئے ایمان سب سے زیادہ کامل وہ ہے جو از روئے خلق سب سے زیادہ اچھا ہو۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ مَا يُوضَعُ فِي مِيزَانِ امْرِئٍ- يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَفْضَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ
فرمایا رسول اللہ صلعم نے روز قیامت میزان میں کسی کا کوئی عمل حسن خلق سے زیادہ افضل نہ ہوگا۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ إِنَّ صَاحِبَ الْخُلُقِ الْحَسَنِ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اچھے اخلاق والے کا اجر خداکے ہاں وہی ہے جو ایک قائم اللیل روزہ دار کا ہے۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْبِرُّ وَ حُسْنُ الْخُلُقِ يَعْمُرَانِ الدِّيَارَ وَ يَزِيدَانِ فِي الْأَعْمَارِ
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
نیکی اور حسن خلق شہروں کو آباد کرتے ہیں اور عمروں کو بڑھاتے ہیں۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: هَلَكَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ص فَأَتَى الْحَفَّارِينَ فَإِذَا بِهِمْ لَمْ يَحْفِرُوا شَيْئاً وَ شَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يَعْمَلُ حَدِيدُنَا فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا نَضْرِبُ بِهِ فِي الصَّفَا فَقَالَ وَ لِمَ إِنْ كَانَ صَاحِبُكُمْ لَحَسَنَ الْخُلُقِ ائْتُونِي بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ فَأَتَوْهُ بِهِ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ ثُمَّ رَشَّهُ عَلَى الْأَرْضِ رَشّاً ثُمَّ قَالَ احْفِرُوا قَالَ فَحَفَرَ الْحَفَّارُونَ فَكَأَنَّمَا كَانَ رَمْلًا يَتَهَايَلُ عَلَيْهِمْ
امام جعفر صادق(ع)فرماتے ہیں:
عہد نبی میں ایک شخص مر گیا گورکن آئے مگر نہ کھود سکے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ زمین اتنی سخت ہے کہ ہمارے اوزار کام نہیں کرتے یہ معلوم ہوتا ہے جیسے ہم پتھر پر مار رہے ہیں فرمایا اگر یہ شخص صاحب حسن خلق ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔ اچھا ایک پیالہ میں پانی لاؤ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں ہاتھ ڈالا اور زمین پر چھڑکا، مٹی ریت کی طرح بھربھری ہوگئی اور گورکنوں نے قبر کھود لی۔
(الکافی، کتاب الایمان والکفر)
حسن خلق کے اخروی فوائد:
1۔ حُسن خُلق كے سبب قيامت كے دن حساب ميں آسانى ہوگى ۔
حضرت اميرالمومنين على علیہ السلام فرماتے ہيں :
”صلہ رحمى كرو كہ يہ تمہارى عمر كو بڑھائے گا ‘ اپنے اخلاق كو اچھا بنائو كہ خدا تمہارا حساب آسان كرے گا ”۔
(بحارالانوار ج 71، ص 338)
2۔ جنت ميں جانے كا موجب بنتا ہے
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہيں:
”ميرى امت ‘ تقوى اور حسن اخلاق جيسى صفت كے زيادہ ہونے كى وجہ سے جنت ميں جائےگي”۔
(اصول كافى ، ج 2، ص 100،مستدرك الوسائل ج 2، ص 82)
3۔بلند درجات كا سبب قرار پاتا ہے۔
چنانچہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا ارشاد ہے:
”بے شك حسن اخلاق كى وجہ سے بندہ آخرت كے بلند درجات اور اعلىٰ مراتب تك جا پہنچتا ہے، اس كا حسن خلق اس كى عبادت كو چار چاند لگا ديتاہے۔
(اصول كافى ، ج 3، ص 157)
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور یہودی عورت کا ارادۂ قتل:
سب سے زیادہ اہم اس یہودی عورت کی داستان ہے جس نے پیغمبر کو زہر دینے کا پختہ ارادہ کیا:
چنانچہ اس نے گوسفند ذبح کیا اور اس کو زہر سے آلودہ کیا اور چونکہ جانتی تھی کہ پیغمبر اگلا دست زیادہ پسند کرتے ہیں اس لئے اس حصے کو زیادہ زہر سے آلودہ کیا اور گوشت لیکر پیغمبر کی خدمت میں آئی ۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لقمہ منہ میں رکھا اور فورا ہی اس کو باہر تھوک دیا اور فرمایا:
"یہ گوشت کہتا ہے کہ میں مسموم ہوں”۔
بشر بن براء نے اس گوشت سے ایک لقمہ کھایا اور ان کی موت واقع ہوگئی۔ یہودی عورت کو حاضر کیا گیا۔ پیغمبر نے اس سے پوچھا:
تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا:
"میں نے سوچا اگر پیغمبر خدا ہونگے تو ان کو زہر کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر بادشاہ ہوئے تو لوگوں کو نجات مل جائے گی”۔ پیغمبر نے اس زن یہودیہ کو معاف کردیا
(بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۶۵، مجمع البیان، ج۹، ص۱۲۲)
مرد یہودی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
حضرت علی علیہ السلام اس طرح نقل فرماتے ہیں کہ ایک یہودی حضرت سے چند دینار کا طلبگار تھا اور اس نے وہ دنیار حضرت سے طلب کئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے مرد یہودی اس وقت تجھے دینے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ یہودی نے کہا: جب ایسا ہے تو میں بھی آپ کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ آپ میرا قرض واپس نہ کریں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کوئی حرج نہیں تیرے پاس بیٹھتا ہوں۔ حضرت وہیں بیٹھ گئے اور اسی جگہ نماز ظھر و عصر و مغرب و عشاء اور دوسرے دن کی صبح کی نماز ادا کی۔ اصحاب نے یہودی کو ڈرایا دھمکایا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ اصحاب پر پڑی اور آپ نے فرمایا:
کیا کر رہے ہو؟ اصحاب نے فرمایا: اے اللہ کے رسول اس یہودی نے آپ کو قید کر رکھا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدا نے مجھے اس لئے مبعوث نہیں کیا کہ میں کسی ذمی یا غیر ذمی پر ظلم ڈھاؤں”۔
ابھی دن کاکچھ ہی حصہ گزرا تھا کہ وہ یہودی اقرار شہادتین کرکے مسلمان ہوگیا اس کے بعد کہا:
میرا آدھا مال راہ خدا میں خرچ کیا جائے ۔
(بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۱۶)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button