سلائیڈرمناقب امام حسین عمناقب و فضائل

امام حسین علیہ السلام محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ایک مردمومن کی نظرمیں عظمت امام حسین علیہ السلام کی معرفت کیلئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی یہی احادیث کافی ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرورکائنات نےارشاد فرمایا ہے:
”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْن “
"حسین علیہ السلام مجھ سےہیں اورمیں حسین علیہ السلام سےہوں”۔
یعلی بن مرّہ کاکہناہےکہ پیغمبراسلام صلى‌الله‌علیہ‌وآلہ‌وسلم نےحسین علیہ السلام کوگودمیں اٹھا کر فرمایا:
”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط “
"حسین علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں حسین علیہ السلام سے ہوں اور اللہ اسے محبوب رکھتا ہے جو حسین علیہ السلام کو محبوب رکھتا ہے اور یاد رکھو! حسین علیہ السلام میرے سبطوں میں سے ایک سبط ہے”۔
(سنن ابن ماجه ، ج١، ص ٦٥؛ مصابیح السنة، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی ، ج١٣، ص ١٩٥ و ١٩٦؛ اُسد الغابة، ج ٥، ص ١٣٠ و٥٧٤ و ج٢ ص١٩؛ کنز العمال ، ج٦، ص ٢٣٣ و ج٣ ،ص ٣٩٥ ؛ مطالب السؤل، ص٧١)
بخاری، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے یہی حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے۔
”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط“
حسین علیہ السلام مجھ سےہے اورمیں حسین سےہوں اللہ اسےدوست رکھتاہےجوحسین علیہ السلام سےمحبت رکھتا اوریادرکھوحسن وحسین علیہ السلام میرےاسباط میں سےدوسبط ہیں۔
(الجامع الصغیر، ج١، ص١٤٨؛ کنزالعمال ج٦، ص٢٢٣ ح٢٩٥٣؛ امالی الشریف المرتضیٰ، ج١، ص ٢١٩)
”شرباصی“قاموس سے،حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط و أمَّة من الاّمَمِ حسین علیہ السلام میرے اسباط میں سے ایک سبط اور امتوں میں ایک امت ہے،نقل کرنےکےبعدکہتےہیں:”سِبْطٌ“کےمعنی جماعت وقبیلہ ہیں اورشاید حدیث کےمعنی یہ ہیں کہ مقام ومرتبہ اورعظمت و رفعت کے اعتبار سے ایک امت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یا یہ کہ ان کا اجر وثواب ایک امت کے اجر و ثواب کی مانند ہے۔(حفیدة الرسول، ص ٤٠)
ابن اثیر جذری نے بھی اپنی معروف کتاب ”النِهَايَة“ میں اس حدیث کو مادۂ سبط میں نقل کیا ہے اور جملہ
سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط “کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حسین علیہ السلام کارخیر میں امتوں میں سے ایک امت ہیں۔جبکہ مرحوم طریحی،مجمع البحرین میں ایک دوسرے معنی بھی بیان کرتے ہیں اورکہتے ہیں”ممکن ہےکہ اس حدیث میں”سِبْطٌ“ ”قبیلہ”کےمعنی میں استعمال کیا ہو اوراس سےمراد یہ ہو کہ نسل پیغمبراسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہی سےقائم ودائم رہےگی اس لئے کہ ”سِبْطٌ“کےمختلف معنا میں سےایک یہ بھی ہیں کہ ”سِبْطٌ“ اس درخت کو کہتے ہیں جس کی بے حد شاخیں ہوں۔
ابن عبدالبراورمسلم وشبلنجی نےابوہریرہ سےروایت نقل کی ہےکہ حضؐور سرورکائناتت نےحسن علیہ السلام وحسؑین کےبارےمیں فرمایاہے:”اللَّهمَّ اِنّی اُحِبُّهمٰا وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّهُمٰا “"پروردگار میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان لوگوں سے محبت فرما جو انہیں دوست رکھے”۔(الاستیعاب،ج١، ص ٣٧٦؛ نور الابصار، ص١٠٤؛ السیرة النبویة ، ج٣، ص٣٦٨)
بُغوی،ترمذی،سیداحمدزینی، ابن اثیراورنسائی نےاسامہ سےروایت کی ہےوہ کہتےہیں: میں ایک شب کسی طلب حاجت کیلئے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور گیا۔ حضؐور باہر تشریف لائے اور ان کی عباء میں کوئی چیز تھی لیکن مجھےیہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کیاہے؟ میں نےاپنی حاجت بیان کرنےکےبعدسوال کیااےحبیب خدا یہ کیاہے؟حضؐورنےکچھ کہے بغیر اس کے اوپرسےعباء ہٹادی، دیکھا کہ حسن علیہ السلام وحسین علیہ السلام ہیں؛ فرمایا:
”هذان اِبنَایَ وَ اِبنَا ابنَتِی اللَّهُمَّ اِنّی اُحِبُّهُما فَاَحِبَّهُما و أحِبَّ مَنَ یُحِبُّهُمٰا “
"یہ دونوں میرے اور میری بیٹی کے فرزند ہیں پروردگار یہ مجھے بہت عزیز ہیں جو انہیں عزیز رکھےتو بھی انہیں عزیز رکھ”۔
جناب ترمذی نے اس روایت کو براء سے بھی نقل کیا ہے۔
(مصابیح السنة، ج٢، ص ٢٨٠؛ ترمذی، ج١٣، ص ١٩٢ و ١٩٣ و ١٩٨؛أسد الغابة، ج٢ ، ص ١١؛ خصائص نسائی، ص ٥٢و ٥٣)
ترمذی و بغوی نے أنس سے روایت نقل کی ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال ہوا کہ آپ اپنے اہل بیت علیہم السلام میں زیادہ محبت کس سے کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام سے۔
سیوطی و مناوی نے بھی نقل کیا ہے:
”أحَبُّ أَهْلِ بَیتِی اِلَیَّ الحَسَنُ والحُسَینُ “
(مصابیح السنّة ، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٤؛ الجامع الصغیر، ج١، ص ١١، کنوز الحقایق، ج١، ص١١؛ ذخائر العقبیٰ ، ص ١٤٣؛نورالابصار، ص ١١٤)
ترمذی و بغوی نے جناب أنس سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے فرمایا:”اُدْعِی لِی اِبنَیَّ فَیَشُمُ هُمٰا و یَضُمُ هُممٰا الیهُم “
(مصابیح السنّة ، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٤؛ الجامع الصغیر، ج١، ص ١١، کنوز الحقایق، ج١، ص١١؛ ذخائر العقبیٰ ، ص ١٤٣؛نورالابصار، ص ١١٤)
اے بیٹی میرے بیٹوں حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کو بلاؤ، جب وہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں لپٹا کر پیار کرتے اور استشمام کرتے۔
اسی طرح احمد ابن حنبل، ابن ابی شیبہ، صَبان، محب طبری وغیرہ نے امام حسین علیہ السلام سے پیغمبر گرامی قدر کی محبت وا لفت اور والہانہ عشق و عقیدت کے بارے میں بے حد احادیث نقل کی ہیں۔
یہ تمام وہ روایات ہیں جن میں امام حسین علیہ السلام سے محبت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور محبت کا حکم دیا ہے اِسی طرح کی ایک روایت محب طبری نے ذخائر العقبیٰ میں اس انداز سے نقل کی ہے۔
وہ احمد ابن حنبل یعلی بن مّرہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حسن وحسین علیہما السلام اپنے جدّ بزرگوار سرورکائنات کی خدمت میں مشرف ہونے کیلئے دوڑے دوڑے آئے ان میں ایک دوسرے سے پہلے پہنچ گئے حضور نےفوراً انہیں گودمیں لیکر اپنے سینہ سے لپٹالیا اور پیار کرنےلگے اورپھردوسرے فرزند پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اسی طرح اٹھا کر سینے سے لگا کر پیا رکیا اور پھر فرمانے لگے:
”اِنّی أُحِبُّ هُمٰا فَأحِبُّو هُمٰا“"میں ان دونوں سے پیار کرتا ہوں تم لوگ بھی ان سے اسی طرح محبت کرو”۔
اور دوسری وہ روایات ہیں جن میں امام حسین علیہ السلام سے بغض کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ابن حجر ھیثمی اپنی معروف کتاب صواعق میں ہارون رشید سے اور وہ اپنے بزرگوں اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ حضور سرور کائنات نے ارشاد فرمایا ہے:”مَن أحَبَّ الحسن و الحسین فقد أَحَبَّنِی و مَنْ أَبْغَضَ هُمٰا فَقد أَبْغَضَنِی“
"جو حسن وحسین علیہما السلام سے محبت رکھتا ہے وہ مجھ سے محبت رکھتا اور جو ان سے دشمنی رکھتا ہے وہ مجھ سے دشمنی رکھتا ہے”۔(ابن حجر عسقلانی، صواعق، ص ٩٠؛ بحار الانوار، ج٤٣، ص ٣٠٣)
اس روایت میں دو نکتے قابل فہم ہیں اور وہ یہ ہے:
١۔ گویا پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ محبت حسین ، محبت رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی علامت ہے۔ اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو حسین علیہ السلام سے محبت رکھنا اس لئے کہ مجھ سے محبت و عقیدت کا دارو مدار حسین علیہ السلام کی محبت پر ہے۔
اسی طرح حسین علیہ السلام سے دشمنی، پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی کی علامت ہے، جو بھی حسین علیہ السلام کا دشمن ہے، حسین علیہ السلام کے مشن کا دشمن ہے ، حسین علیہ السلام کی عزاداری کا دشمن ہے اور حسین علیہ السلام کی تعلیمات کا دشمن ہے وہ گویا پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشن اور ان کی تعلیمات کا دشمن ہے لہٰذا اگر محبت رسول صلى‌الله‌عليہ‌وآلہ ‌وسلم کا دعویٰ ہے تو یہ دیکھ لو کہ دل میں حسین علیہ السلام کی کتنی محبت ہے!؟
٢۔ در حقیقت امام حسین علیہ السلام سے دشمنی پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی ہے لہٰذا خبردار کیا گیا ہے کہ دشمنان حسین سے بھی محبت نہیں رکھنی چاہیے جو لوگ حسین علیہ السلام کے دشمن ہیں چاہے وہ تاریخ کے کسی دور میں بھی ہوں خود ان سے بھی محبت نہیں رکھنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک طرف حسین علیہ السلام سے محبت کا دعویٰ ہو اور دوسری طرف امام حسن و حسین علیہما السلام کے دشمنوں کی محبت کو دلوں میں جگہ دے رکھی ہو یہ دونوں متضاد چیز ہیں محبت حسؑین نور ہے اور بغض حسین علیہ السلام تاریکی ہے، محبت حسین علیہ السلام ہدایت ہے اور بغض حسین علیہ السلام گمراہی ہے۔ لہٰذا محبت حسؑین کے ساتھ ساتھ اس بات کا خیال رہے کہ دل میں ان کے دشمنوں کی محبت نہ آنے پائے۔
مسند احمد میں ہارون رشید کی بیان کردہ دو احادیث میں سے ایک کی عبارت کچھ اس طرح نقل ہوئی ہے:
”الحسنُ والحسینُ مَنْ أحَبَّ هُما فَفِی الجَنَّة و مَنْ أَبغَضَ هُما فَفِی النَّار“
جس نے حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کو دوست رکھا وہ اہل بہشت میں سے ہے اور جس نے ان سے عداوت و دشمنی کی وہ اہل جہنم سے ہے۔(مسند احمد، ج٢ ، ص٢٨٨)
محبت حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت اور بغض حسین علیہ السلام کی مذمت:
محبت و بغض حسین علیہ السلام کے سلسلہ میں وارد ہونے والی ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت حسین علیہ السلام کی فضیلت یہ ہے کہ ان کی محبت پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت ہے، ان کی محبت خدا کی محبت ہے اگر کوئی خدا پر یقین رکھتا ہے اس کی توحید کا اقرار کرتا ہے، پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لایا ہے اور ان سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ امام حسین علیہ السلام سے محبت رکھے ان کا مطیع و فرمانبردار رہے ان کی پاکیزہ سیرت کو اپنے لیے نمونہ حیات قرار دے ورنہ محبت حسین علیہ السلام سے دل کو خالی رکھ کر اعلان توحید و رسالت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقط ایک دعویٰ ہی رہے گا اور اس کی کوئی حقیقت نہ رہے گی اور نہ ہی یہ عقیدہ توحید و رسالت اس شخص کو کوئی فائدہ ہی پہنچا سکے گا۔
اسی طرح ان تمام روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بغضِ حسین علیہ السلام اور ان سے عداوت و دشمنی کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
حسین علیہ السلام سے عداوت و دشمنی کرکے ان روایات کی روشنی میں وہ مسلمانوں کا سربراہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے اسلام و قرآن کریم اور مزاجِ توحید و لسان وحی کے مطابق مسلمان کہلائے جانے کے قابل بھی نہیں ہے بلکہ دشمن حسین ، دشمن پیغمبر اسلام صلى‌الله‌علیہ‌وآلہ‌وسلم اور دشمن خدا ہے اور روز محشر اس کا وہ ہی انجام ہونے والا ہے جو خدا رسول کے دشمنوں کا ہوگا۔
(امام حسن‌ علہہ السلامعلیہ السلام قرآن وسنت کےآئنے مںم سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button