اخلاقیاتدعا و مناجاتمکتوب

"شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

پانچواں درس
بسم الله الرحمن الرحيم
"إِلهِي كَأَنِّي بِنَفْسِي وَاقِفَةٌ بَيْنَ يَدَيْكَ وَقَدْ أَظَلَّها حُسْنُ تَوَكُّلِي عَلَيْكَ فَقُلتَ ما أَنْتَ أَهْلُهُ وَتَغَمَّدْتَنِي بِعَفْوِكَ، إِلهِي إِنْ عَفَوْتَ فَمَنْ أَوْلى مِنْكَ بِذلِكَ وَإِنْ كانَ قَدْ دَنا أَجَلِي وَلَمْ يُدْنِنِي "
ترجمہ: اے میرے معبود! گویا میں اپنا تمام تر وجود لے کر تیرے سامنے آکھڑا ہوا ہوں؛ جبکہ تیری ذات پر توکل کا سایہ مجھ پر چھایا ہوا ہے، کیونکہ تو نے فرمایا ہے [پس تو نے کیا] وہی جس کا تو ہی اہل ہے، اور تو نے مجھے دامن عفو میں پناہ دی”
تشریح:
سکون و توکل کا سایہ جو میرے بدن پر آتا ہے مجھ پر آتا ہے اور مجھے سکون دیتا ہے۔
فَقُلتَ ما أَنْتَ أَهْلُهُ
میری حالت کو دیکھ کر لوگ مجھ سے کلام نہیں کرتا۔ ایک تو ہی مجھ سے کلام کرتا ہے اور کلام کرنے کے بعد جس کا تو اہل ہے وہ کلام کرتا ہے
وَتَغَمَّدْتَنِي بِعَفْوِكَ،
اور صرف کلام ہی نہیں بلکہ میری کوتاہیوں اور گناہوں کی طرف نہیں دیکھتا۔ بلکہ اپنے عفو کی چادرمیں مجھے لپیٹ دیتا ہے۔ مجھے اعزاز دیتا ہے "اللہ اکبر” کون سمجھ سکتا ہے؟ توکل کی اس اہمیت کو میں نے امیر المومنین ؑ سے سیکھا ہے۔ خصوصا آج کل کے دور میں یہ توکل کس قدر قیمتی ہے؟ ہم اسباب پر توکل نہیں کرسکتے ہم تجھ پر توکل کرتے ہیں ۔
تو چو جانی ما مثال دست و پا
قبض و بسط دست از جان شد روا
تو چو عقلی ما مثال این زبان
این زبان از عقل دارد این بیان
کچھ بھی ہمارے پاس نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یاایھا الناس انتم الفقراء "
اے لوگو تم سب کے سب ، تما م بشریت اللہ کے محتاج ہو ۔
ھو اللہ ھو الغنی الحمید۔
ایک طولانی حدیث ہے جو پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔امام جعفر صادق ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے میری عزت و جلال کی قسم جس نے بھی میرے علاوہ کسی اور سے امید باندھی تو میں اس کے ساتھ تین کام کروں گا۔
1: اس کی امید کو ناامیدی میں بدل دوں گا۔
2 : اس کو لوگوں کے سامنے ذلیل و خوار کروں گا کیونکہ اس کی امید غیر اللہ سے ہے اللہ کو چھوڑ کر غیر سے دست دراز کرتا ہے تو اس کا دست دراز کرنا اس کی ذلت اور خواری ہے۔ اسی حدیث میں ہے کہ اگر لوگوں کو پتاہوتا کہ مانگنے میں عیب ہے تو وہ مانگنے کی بجائے اپناحصہ بھی دے دیتے اور کسی سے کوئی سوال نہ کرتے۔ کوئی کسی سے نہ مانگتا، اگر کوئی میرے علاوہ کسی سے امید رکھے اورسوال نہ بھی کرے تو اس کی امید پوری نہیں ہوگی اور وہ ذلیل خوار ہوگا۔اور میں اس کو اپنے تقرب سے دور کردوں گا۔آخر ہم اس خدا سے کیوں امید نہیں رکھتے جو کہہ رہا ہے کہ میرے پاس آؤ میں تمھاری ساری امیدیں پوری کردوں گا۔
3:اور میری درگاہ سے بھی دور ہوجائے گا۔ جب میرے علاوہ کسی اور کے در پہ جائے گا اسے یہ نہیں معلوم وہ تمام دروازے بند ہیں اور ان بند دروازوں کی چابی میرے پاس ہے، یہ انسان کتنا ناشکرا ہے۔یہ میرے پاس نہیں آتا جبکہ میرے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔اور بند دروازوں کی چابی ان کے پاس نہیں بلکہ میرے پاس ہے۔ان دروازوں کو کھٹکھٹا رہاہے لیکن اللہ کے در پر نہیں آتا اس لیے کہ اللہ کے در پر جو آتا ہے اسے دروازہ کھٹکھٹا نے کی ضرورت نہیں پڑتی اس کے لیے دروازہ کھلا ہے اور اگر کوئی اللہ کےپاس آئے تو اس کی امید کو پورا کرے گا ۔ اے میرے بندے ! اگرکوئی حادثہ ایسا آیا ہو جس نے تجھے ضرب لگائی ہو، تجھے بٹھا دیا ہو،تیری کمر توڑ دی ہو، تو جان لینا کہ میرے علاوہ کوئی اس کو تجھ سے اٹھا نہیں سکتا۔اس مشکل سے میرے علاوہ کوئی نہیں نکال سکتا۔ اور اس کے بعد آخری جملہ کتنے بلند معارف پرمشتمل ہے کہ اگر اہل آسمان و زمین اور زمین پر جتنے لوگ ہیں وہ سب مجھ سے امید رکھیں اور میں ان کی امید کے مطابق عطاء کروں توبھی میرے خزانے میں ذرہ برابر کمی نہیں ہوگی۔
تما م انسانوں کو اللہ کی طرف سے یہ دعوت ہے کہ اللہ سے ہی امید رکھو اگر تمھاری بگڑی سنور نہیں رہی تو مجھ سے امید رکھو۔ تمہاری امید کے مطابق میرے پاس خزانہ ہے اگر امید خدا پر ہو، تو کل خدا پر ہوتو دنیا میں تو بہت کچھ ملےگا، لیکن قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے تو اسی توکل کی وجہ سے خدا کی رحمت ، عفو ، بخشش اور درگزر کرنے کی چادرنصیب ہوگی اورمعاف کرکے تجھے جنت کی طرف روانہ کردےگا۔ سب اسی توکل کی وجہ سے ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسباب سے غافل ہوجائیں۔ اور محنت نہ کریں۔
رمز الکاسب حبیب الله شنو
از توکل در سبب کاهل مشو
حدیث "الکاسب حبیب اللہ ” کا مطلب بھی یہی ہے کہ محنت کرنی ہے۔ توکل سےمراد یہ نہیں کہ محنت نہ کریں۔
‘الٰہی” میں لفظ اِلٰہی کو نہیں سمجھا سکتا اگر محسوس کرسکیں تو محسوس کیجئے۔ الٰھی میرے پروردگار۔
إِنْ عَفَوْتَ فَمَنْ أَوْلى مِنْكَ بِذلِكَ
اگر تو مجھے معاف کردے تو تجھ سے بہتر معاف کرنے والا کون ہے؟
وَإِنْ كانَ قَدْ دَنا أَجَلِي وَلَمْ يُدْنِنِي
’’اگر میری موت نزدیک آگئی ہے اور میرا عمل ایسا نہیں کہ اس نے مجھے تیرے نزدیک کردیا ہو‘‘۔ آج کل موت کو سب نے قریب سے دیکھا ہے، اور سب موت کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ دنیا سے جارہے ہیں ایک ایسے مرض کی وجہ جو کسی بھی وقت کسی کو بھی لگ سکتا ہے۔
دو نزدیکیاں تصور کی جاسکتی ہیں۔ اگر عربی سمجھ میں آئے تو عربی کو پڑھیں اوراسی عربی کو سمجھئے گا۔
وَإِنْ كانَ قَدْ دَنا أَجَلِي
اگر میری موت قریب آگئی ہے اور میرے عمل نے مجھے تیرے قریب نہیں کیا ہے۔
فَقَدْ جَعَلْتُ الاِقْرارَ بِالذَّنْبِ إِلَيْكَ وَسِيلَتِي
” اللہ اکبر” میں دنیا میں تیرا قرب حاصل کرنے کے لیے آیا تھا ۔ میں اگر اپنے اعمال کی وجہ سے اپنی عبادات کی وجہ سے تیرا قرب حاصل نہیں کرسکا۔ اب مزید عمل کی بھی فرصت نہیں اورکسی کو معلوم بھی نہیں اس کے پاس کتنی فرصت ہے "ان کان” تو، تو جانتا ہے میری موت میرے نزدیک آچکی ہے۔
میں تجھ سے تیرے قریب آنے کے لیے آخری وقت میں یہ کام کرسکتا ہوں کہ میں اپنے گناہوں کا اقرار کروں اور اس اقرار کے ذریعے تیرا عفو در گزر حاصل کروں تیراقرب حاصل کروں۔ کتنی عظیم ذات ہے جو تجھے عمل کی فرصت دے رہی ہے اپنے قرب تک آنے کے لیے تجھے سارا راستہ دکھارہی ہے۔ تیرے گناہوں کو معاف کرتی ہے اگر پھر بھی نہیں ہوا توآخر میں اپنے گناہوں کا اقرار کرلو۔
العفو العفو العفو بہت سی جگہوں پر بہت بار بار العفو آیا ہے مناجات میں دعاؤں میں اور قنوت وتر میں تین سو مرتبہ مستحب ہے العفو پڑھیں یہ اس لیے ہےکہ جب تک دل میں غبار گناہ ہو جمال یار نہیں آسکتا اس میں خدا نہیں آسکتا اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے دل کو گناہوں سے پاک کرلیں۔
والله ما ينجو من الذنب إلا من أقر به 0 الشيخ الكليني – الكافي ج ٢ – الصفحة ٤٢٦ – )
دل گناہوں سے پاک نہیں ہوسکتا جب تک گناہوں کا اقرار نہ کرے اور گناہ کا اقرار کرنا استغفراللہ کہنا العفو کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ گناہ بھی سر زد ہوا ہو۔ معصومین علیھم السلام بھی جب عبادت کرتے تھے تو العفو کا ورد کیا کرتے تھے ۔اس چیزسے عفو و استغفا ر کرتے کہ یہ عبادت تیرے لائق نہیں تُو کہاں اور یہ عبادت کہاں ؟ یہ کون سی عبادت یعنی خاتم الانبیاء کی عبادت بھی خدا کے لائق نہیں وہ بھی اس حق عبادت کو اداء نہیں کرسکتے تو میری اور آپ کی نمازیں میری اور آپ کی عبادتیں کیا کرسکتی ہیں۔ اگر ہم اپنے گناہوں پہ شرمندہ نہ بھی ہو ں تو اپنی عبادتوں پر شرمندہ ضرور ہیں ۔
امام موسی بن جعفر ؑنے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوے فرمایا ۔ تم پر عبادت کرنا اور اس کی کوشش کرنا لازم ہے کبھی بھی یہ نہ سمجھنا کہ تم عبادت میں حدتقصیر سے نکل گئے ہو کیونکہ کبھی بھی کوئی شخص اللہ کی عبادت کا حق ادا نہیں کرسکتا ۔
ایک حکایت ہے بنی اسرائیل میں ایک شخص نےچالیس سال عبادت کی ۔ اس کے بعد قربانی دی اوردیکھا کہ اس کا عمل قبول نہیں ہوا جب اُسے معلوم ہوا تو پشیمان ہوکراپنے اعمال کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ عمل قبول ہونے کے قابل ہی نہیں تھا تو اُس کے تمام اعمال قبول ہو جاتے ہیں ۔
اُس ایک احساس سے یہ کیفیت آئی ۔ انسان کی خدا سے نسبت کی کیفیت ایسی ہو جاے تو اسکی عبادتیں قبول ہوتی ہیں ۔
کسی کے اختیار میں نہیں کہ وہ عمل انجام دے جوخدا کی شان کے مکمل لائق ہو۔
إِلهِي قَدْ جُرْتُ عَلى نَفْسِي فِي النَّظَرِ لَها فَلَها الوَيْلُ إِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَها
امیرالمومنیؑن کو اس انسان کی کتنی دقیق معرفت ہے۔ انسان کو خدا کے ساتھ کیسے مناجات کرنی چاہے ۔
میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ۔
ظلمت نفسی ہر شب جمعہ کو پڑھتے ہیں تقریبا وہی تعبیر ہے ۔
میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ۔کیوں ظلم کیا ہے؟ میں آج اپنے نفس پر ظلم کرلوں گا، کل کرلوں گا، اس رمضان میں کرلوں گا یہ کہتا رہا اور میں نے اُس طرح عبادت نہیں کی، اپنے نفس کو اس طرح تکامل نہیں دیا۔تو پھر ویل ہے، بربادی ہے اس نفس پر جس نے وقت کوضائع کردیا، کل کل کرتا رہا۔ اور تو نہ بخشے تو یہ ظلم میں نے اپنے اوپرخودکیا ہے جس کے نتیجے میں نفس برباد ہوگیا۔
"الٰهی لم یزل برك علی "
اگرمیری موت قریب آگئی ہے تو الہی ایک درخواست ،ایک امید ہےکہ میں اس دنیا میں جتنے دن زندہ رہا،اس دنیوی زندگی میں ہمیشہ تیری طرف سے نیکیاں رحمتیں ،نعمتیں مجھ تک پہنچتی رہیں۔ الہی ان نیکیوں ، رحمتوں اور نعمتوں کو میری موت کے بعد منقطع نہ فرما۔ مجھے ان لوگوں میں قرار نہ دے جن پر یہ رحمتیں، نیکیاں اور نعمتیں دنیا تک ہی ہیں ۔ مجھے ان لوگوں میں سے قرار دےجن پر رحمت رحمانیہ اور رحمت رحیمیہ پہنچتی رہے۔ اس لیے کہ مجھے دنیا سےزیادہ آخرت میں تیری رحمت کی ضرورت ہے۔
الهی کیف۔۔
الہی میں کیسے مایوس ہوجاؤں جبکہ مایوسی گناہ ہے۔میں مایوس نہیں ہوسکتا موت کے بعد بھی تیری رحمت تیرا حسن نظر تیرا لطف مجھ پر رہے گا۔اس لیے کہ تو نے مجھے پوری زندگی میں جمال ہی جمال دیا ہے۔مجھے عذاب نہیں دیا اور اگر کبھی ڈرایا ہے تو بھی میرے فائدے اور بھلے کےلیے ڈرایا ہے۔
آیت میں بھی ارشاد ہوا ہے: "ربنا ظلمنا انفسنا”
ہمارے آباء واجداد اور ابوالبشر حضرت آدم ؑ نے بھی فرمایاتھا اے اللہ ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔
خدا بھی قرآن میں فرماتا ہے: ولکن کانوا انفسهم یظلمون (بقرہ57)
یہ اپنےاوپر خود ظلم کرتے ہیں۔ اللہ کسی کے اوپر ظلم نہیں کرتا۔ جس نے اللہ کی معصیت کی ہے اس نے اپنے اوپرظلم کیا ہے۔
واطاع شیطان۔
اور شیطان کی اطاعت کی جو کہ اللہ کی معصیت ہے جو کہ اپنے اوپر ظلم ہے۔
من اهمل عمل۔۔۔۔۔
جس نے یہ ارادہ کیا کہ میں کل سے نماز شب پڑھوں گا۔ میں پرسوں سے یہ کروں گا۔ میں پھر کرلوں گا۔ ابھی تو میرے پاس وقت ہے۔ اس نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔
جناب ابوذر سے ایک شخص نے کہا اے ابوذرتو رسول خدا ﷺ کے بھی قریب رہا ہے اور امیر المومنینؑ سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے ہمیں ایک کلام ہدیہ کر،تو حضرت ابوذر نے کہا جس کو بہت چاہتے ہو اس کے ساتھ ظلم نہ کر نا تو اس شخص نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہےجس کو میں بہت چاہتاہوں میں اس پر ظلم کروں؟ تو ابوذر نے کہا کہ تو اس کائنات میں سب سے زیادہ اپنے آپ کو چاہتا ہےلیکن خدا کی نافرمانی کرکے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے تو پھر یہ ظلم ہی ہے۔ معصیت ظلم ہے اپنے اوپر جو بھی بُرا کروگے وہ تمھیں اُس کا برا ملے گا کسی اور کو اس کا نقصان نہیں ہوگا۔
ایک درویش یہ کہتا رہتا تھا :جو بھی اچھا کروگے، برا کروگے اچھا یا برا تمھارے ساتھ ہی ہوگا کسی اور کے ساتھ نہیں ہوگا۔ ایک بوڑھی عورت نے سنا اس نے کہا یہ کیا شعر ہےمیں تمہارے ساتھ برا کروں گی اور تمھارے ساتھ ہی برا ہوگا۔اس نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا ۔ ایک دن جب وہ درویش گزر رہا تھا اس نے ایک روٹی پیش کی روٹی میں زہر ڈالا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ اب یہ اس روٹی کو کھائے گا اور اس کو تکلیف ہوگی ، پھر جو یہ کہہ رہا تھا جو برا کرتا ہے اس کے ساتھ برا ہوتا ہے وہ درست نہیں نکلے گا۔ درویش اس کو لے کر اس کے گھر سے نکلا راستے میں جارہا تھا تو آگے سے ایک جوان آرہا تھا اس نے کہا میں سفر سے آرہاہوں کچھ کھانے کو ہےدرویش نے روٹی تھیلے سے نکالی اور اسے دے دی تو اُ س کی موت واقع ہوگئی بعد میں جب جنازہ اس خاتون کے گھر پہنچا تو اس خاتون نے بھی وہی کہنا شروع کردیا کہ جو بھی اچھا کروگے، برا کروگے اچھا یا برا تمھارے ساتھ ہی ہوگا کسی اور کے ساتھ نہیں ہو گا۔
ان فرصت کے اوقات کو ہمیں غنیمت سمجھنا چاہیے ہم کل پرکوئی چیز نہ چھوڑیں۔
حدیث میں ہے: "قد ورد ان اکثر اہل النار۔۔۔
جو اہل نار ہیں وہ وہاں بیٹھ کر سب کو پکار رہے ہوں گے، فریا د کر رہے ہوں گے کہ کس نے ہمیں مار ڈالا ہے ، اطاعت کل کرلیں گے ، اس کل نے ہمیں مار ڈالا ۔
جو وقت ابھی ہے اُسے غنیمت سمجھو اُس کے مطابق عمل کرو کل کا وقت تمھیں ملتا ہے یا نہیں ملتا ہے اُس کی خبر نہیں ہے ۔
امام علی ؑ فرماتے ہیں
ماضي يومك فائت و آتيه متهم و وقتك مغتنم فبادر فيه فرصة الإمكان و إياك أن تثق بالزمان
"جو گزشتہ کل ہے وہ جاچکا اور جو آنے والا کل ہے وہ مشکوک ہے ۔ پتہ نہیں وہ تمھیں ملتا ہے یا نہیں جو آج کا دن تیرے پاس ہے اس سے فائدہ اُٹھاو ”
سعديا دي رفت و فردا همچنان موجود نيست
در ميان اين و آن فرصت شمار امروز
کل بھی نہیں ہے کل جاچکا ہے آنے والا کل بھی پتانہیں آتا ہے یا نہیں آتا ۔ان دو کے درمیان تیرے پاس جووقت ہے اسے غنیمت جان اس سے اپنا فائدہ اُٹھا۔
إِلهِي لَمْ يَزَلْ بِرُّكَ عَلَيَّ أَيَّامَ حَياتِي فَلا تَقْطَعْ بِرِّكَ عَنِّي فِي مَماتي
اس دنیا میں مجھ پر ترا بہت احسان رہا ، رحمتیں رہیں لیکن اُس سے زیادہ رحمت ، فضل آخرت میں چاہیے ۔ اس لئے اگروہاں فضل نہ ملا تو میں کیا کروں گا، وہاں تیرے فضل کے بغیر کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا کوئی جنت نہیں جا سکتا یہاں کوئی سختی مجھ پہ آگئی ، میری عیب کسی نے دیکھ بھی لیا تو کچھ دن دیکھے گا کوئی توجہ کرے گا کوئی توجہ نہیں کرے گا ، پھر گزرجاے گا ، کیونکہ یہ تو گزر جانے والی دنیا ہے ۔ کیونکہ یہ گزرجائےگا اس لئے اس کا غم نہیں ہے، غم اُس کا ہے جو نہیں گزرے گا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے اُس ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں مجھے تیری رحمت درکا رہے اور اس روایت میں خوش خبری ہے
إن لله -تعالى- مائة رحمة، أنزل منها رحمة واحدة بين الجن والإنس والبهائم والهوام، فبها يتعاطفون، وبها يتراحمونو فمنها رحمة يتراحم بها الخلق بينهم، وتسع وتسعون ليوم القيامة
اللہ کے سو رحمتیں ہیں ان میں صرف ایک رحمت انسان وجن اور پرندے اس دنیا میں موجودہر چیزپر نازل کی ہے ۔ لیکن 99 رحمتوں کو اُس نے موخر کر رکھا ہے ، اصل رحمت تو وہاں ملنے والی ہے لیکن یہاں سے مانگ کے جانا ہے۔ جانے سے پہلے خدا سے یہ امید رکھ کے جاناہے کہ جیسے تو نے یہاں مجھے ہمیشہ اپنی رحمت کا سایہ دیا یہاں اپنی آغوش رحمت میں مجھے پالا ، پروان چڑھایا ، مجھے تمام نعمتیں دیں جن کا میں شمار نہیں کرسکتا جب میں وہاں محتاج ہوں تو وہاں بھی مجھے اپنی رحمت سے محروم نہ رکھنا ۔
مناجات شعبانیہ کے دیگر جملے
اِلـهي تَوَلَّ مِنْ اَمْري ما اَنْتَ اَهْلُهُ، وَعُدْ عَلَيَّ بِفَضْلِكَ عَلى مُذْنِب قَدْ غَمَرَهُ جَهْلُهُ. اِلـهي قَدْ سَتَرْتَ عَلَيَّ ذُنُوباً في الدُّنْيا وَاَنَا اَحْوَجُ اِلى سَتْرِها عَلَيَّ مِنْكَ في الآخْرةِ، اِذْ لَمْ تُظْهِرْها لاَِحَد مِنْ عِبادِكَ الصّالِحينَ، فَلا تَفْضَحْني يَوْمَ الْقِيامَةِ عَلى رُؤُوسِ الأشْهادِ.
میرے معبود! میرے امور و معاملات کو کچھ اس طرح سے اپنے ہاتھ میں لے کہ جس طرح تیرے شایان شان ہیں، اور میری طرف اپنے فضل کے ساتھ پلٹ آ، ایسے گنہگار کی جانب جس کی جہل و نادانی نے اس کے سراپے کا احاطہ کرلیا ہے
اے میرے معبود! تو نے دنیا میں میری گناہوں کو پوشیدہ رکھا لیکن ان کی پردہ پوشی کا میں آخرت میں کہیں زیادہ محتاج ہوں؛ [اے میرے معبود بےشک تو نے مجھ پر احسان کیا کہ] تو نے دنیا میں اپنے کسی بھی نیک بندے پر میرے گناہ ظاہر نہیں کیا، تو مجھے روز قیامت لوگوں کے سامنے رسوا نہ فرما؛
امیر المومنین ؑ کے اس جملے میں کتنی زیادہ تاکید ہے :
اِلـهي تَوَلَّ مِنْ اَمْري ما اَنْتَ اَهْلُهُ، وَعُدْ عَلَيَّ بِفَضْلِكَ عَلى مُذْنِب قَدْ غَمَرَهُ جَهْلُهُ
خدا یا میرے ساتھ وہ کر جس کا تو اہل ہے اور میرے ساتھ ( یعنی میں وہ گناہ گار ہوں جو اپنی جاہلیت کی وجہ سے گناہوں میں ڈوبا ہوا ہوں ۔اُسکے ساتھ اپنا فضل فرما ) اللہ اکبر۔ اللہ پر چھوڑ دو سب کچھ کہ اللہ میرے ساتھ وہ کر جس کا تو اہل ہے۔
امام حسین ؑ دعاے عرفہ میں فرماتے ہیں
اِلهى اَغْنِنى بِتَدْبیرِکَ لى امعَنْ تَدْبیرى وَبِاخْتِیارِکَ عَنِ اخْتِیارى وَاَوْقِفْنى عَلى مَـراکِـزِ اضْطِرارى
میرے اللہ اپنے تدبراور پسند کے ذریعے مجھے میرے تدبر اور پسند سے بے نیاز کردے اور پریشانی کے عالم میں مجھے ثابت قدم رکھ۔
وَبِاخْتِیارِکَ عَنِ اخْتِیارى
تو نے مجھے اختیار دیا ہے میں اپنے اختیار کو سلب کرتا ہوں مجھے بے نیاز کردے ، نہ مجھے خود پتا ہے نہ کسی اور کو پتاہے
وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ (بقرہ : 216)
اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو، (جیسا کہ) ممکن ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو مگر وہ تمہارے لیے بری ہو، (ان باتوں کو) خدا بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
نوٹ:( مناجات شعبانیہ کی تشریح و توضیح پر مشتمل یہ دروس علامہ انور علی نجفی نے ان ایام میں آن لائن دئیے تھے جب دنیا کرونا وائرس کی مشکل سے ہر طرف سے دو چار تھی۔ اس وجہ سے درمیان میں بعض اوقات کچھ جملے انہی ایام کی مناسبت سے بیان ہوئے ہیں۔)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button