اخلاق رذیلہاخلاقیات

مومن کی اہانت کی سزا (حصہ دوم)

آیۃ اللہ شہید دستغیب
مومن کو ذلیل اور بے وقار کرنا
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو کوئی کسی مومن کو افلاس اور ناداری کی وجہ سے چھوٹا اور حقیر سمجھے گا خدا اسے قیامت میں خلائق کے سامنے رسوا کرے گا۔”
(الکافی۔ کتاب ایمان والکفر)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "جو کوئی حاجت مند یا غیر حاجت مند مومن کو ذلیل سمجھے گا خدا اسے اس وقت تک ذلیل اور دشمن سمجھے گا جب تک کہ وہ اس مومن کو ذلیل سمجھنے سے باز نہیں آ جاتا۔” آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "جب قیامت کا دن آئے گا تو منادی آواز دے گا کہ میرے دوستوں سے منہ پھیرنے والے کہاں ہیں؟ اس پر کچھ ایسے لوگ کھڑے ہو جائیں گے جن کے چہروں پر گوشت نہیں ہو گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مومنوں کو ستایا، ان کے مقابلے پر کھڑے ہو گئے، ان سے دشمنی برتی اور ان کے دین کے باعث ان پر سختی کی۔ اس کے بعد حکم دیا جائے گا کہ انہیں دوزخ میں ڈال دو۔” آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خدا فرماتا ہے: "جو کوئی میرے کسی دوست کی بے عزتی کرتا ہے اس نے میرے خلاف لڑائی میں پوزیشن سنبھال لی ہے اور میں اپنے دوست کی مدد کرنے میں ہر چیز سے زیادہ پھرتیلا ہوں۔
(الکافی)
ابوہارون کہتا ہے کہ میں حضرت امام صادق (علیہ السلام) کی مجلس میں حاضر تھا جب حضرت نے حاضرین سے فرمایا: "تم ہمیں کیوں ذلیل کرتے ہوں؟” اس پر ایک خراسانی شخص کھڑا ہوا اور بولا: "خدا ہمیں اس بات سے پناہ میں رکھے کہ ہم آپ کو یا آپ سے متعلق کسی چیز کو بھی ذلیل کریں۔” آپ نے فرمایا: "ہاں ہاں واقعی تو خود مجھے ذلیل کرنے والوں میں سے ایک ہے۔” اس نے کہا: "خدا کی پناہ جو میں نے کبھی آپ کو ذلیل کیا ہو۔” آپ نے فرمایا: "تجھ پر افسوس ہے کیا ایسا نہیں ہوا کہ جب ہم لوگ جعفہ کے نزدیک تھے تو ایک شخص نے تجھ سے درخواست کی تھی کہ اسے میل بھر کے لیے سوار کر لے اور کہا تھا کہ خدا کی قسم میں پیدل چلتے چلتے تھک گیا ہوں اور عاجز آ چکا ہوں لیکن تو نے سر اُٹھا کر نہیں دیکھا اور اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ تو نے اسے بے شک حقیر جانا اور مومن کو حقیر جاننے والے نے مجھے ذلیل کیا اور خدا کی عزت کھو دی۔”
(وسائل الشیعہ کتاب الحج باب ۱۸)
مومن کو بُرا بھلا کہنا اور رسوا کرنا
حضرت امام باقر (علیہ السلام) اور حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "وہ طریقہ جو انسان کو کفر کے نزدیک پہنچا دیتا ہے یہ ہے کہ اپنے کسی دینی بھائی کے ساتھ ساتھ رہے اور اس کی غلطیاں اور خطائیں جمع کرتا جائے اور پھر ایک دن ان کی وجہ سے اسے سخت سست کہے۔”
(الکافی کتاب الایمان والکفر)
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: "اے وہ لوگو! جو زبان سے تو اسلام لائے ہو لیکن تمہارے دلوں میں ابھی ایمان نے جڑ نہیں پکڑی ہے مسلمانوں کو جھڑکیاں نہ دو اور ان کی عیب جوئی نہ کرو کیونکہ جو کوئی ان کی عیب جوئی کرے گا خدا اس کی عیب جوئی کرے گا اور جس کی خدا عیب جوئی کرے گا اسے رسوا بھی کر دے گا چاہے وہ اپنے گھر میں ہی رہتا ہو۔”
(الکافی کتاب الایمان والکفر)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو شخص کسی مومن کو برا بھلا کہے گا خدا اسے دنیا اور آخرت میں ملامت کرے گا۔”
(الکافی)
یہی بات پیغمبر اکرمؐ بھی فرماتے ہیں: "جو کوئی کسی بُرے کام کا پردہ کھولتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے وہ کام کیا ہے اور جو کوئی کسی مومن کو کسی بات پر بُرابھلا کہے گا وہ اپنے مرنے سے پہلے خود بھی اس بات کا مرتکب ہو گا۔”
(الکافی)
واضح رہے کہ ملامت کرنے کا حرام ہونا نہی از منکر کے خلاف نہیں کیونکہ دراصل نہی از منکر نصیحت اور ہمدردی ہے ۔
حضرت امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "جو کوئی ایسی حکایت بیان کرتا ہے جو کسی مومن کو نقصان پہنچانے والی ہوتی ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسے گندہ کرے اور آبروریزی کرے جس سے وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہو جائے خدا اسے اپنے آپ سے بے تعلق کر کے شیطان کی طرف دھکیل دے گا لیکن شیطان بھی اسے قبول نہیں کرے گا۔”
(الکافی باب الروایہ علی المومن)
اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے علامہ مجلسی  کہتے ہیں: "یعنی وہ کوئی ایسی حکایت بیان کرے جس سے اس مومن کی کم عقلی اور رائے کی کمزوری ثابت ہوتی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ عمل کی حکایت بھی اس میں شامل ہو۔”
یہاں ثابت ہونے (دلالت) سے محبت اور تائید کرنا مراد ہے اور شاید شیطان کا اس کو قبول نہ کرنا یہ ہو کہ شیطان کی غرض انسان کی گمراہی اور ہلاکت اور خدا سے اس کا جدا ہونا ہے اور چونکہ اس کا یہ مقصد حاصل ہو چکا ہے اس لیے اب اس سے کوئی غرض باقی نہیں رہی اور وہ اس سے دُور رہنا چاہے۔
محمد بن فضیل نے حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے عرض کیا: "قربان جاؤں! میں اپنے دینی بھائی کی کوئی ایسی بات سنتا ہوں جو بُری ہے اور لوگوں کو ناگوار گذرتی ہے اس کے بعد میں اپنے بھائی سے پوچھتا ہوں کہ میں نے تیری بات سنی ہے کیا یہ سچ ہے؟ تو وہ انکار کر دیتا ہے حالانکہ مجھے جن لوگوں نے اطلاع دی تھی وہ معتبر اور ثقہ ہیں۔” آپ نے فرمایا: "اے محمد! اپنے بھائی کے بارے میں اپنے آنکھ اور کان کو جھوٹا سمجھ یعنی یہ کہہ کہ میری آنکھ اور میرے کان نے غلط دیکھا اور غلط سنا۔ اگر پچاس اشخاص بھی تیرے بھائی کے بارے میں کوئی بات کہیں اور وہ انکار کرے تو اپنے بھائی کو ہی سچا سمجھ اور انہیں جھٹلا یعنی یہ کہہ کہ ان سے غلطی ہوئی ہے اور وہ بات ظاہر نہ کر جس کی وجہ سے تو اسے برا، داغدار اور بے آبرو کر سکتا ہے کیونکہ اگر تو ایسا کرے گا تو تیرا شمار ان لوگوں میں ہو گا جن کے بارے میں خدا نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جو مومنوں میں سے کسی مومن کے بُرے کام کو ظاہر کرنا پسند کرتے ہیں دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔”
(وسائل الشیعہ کتاب الحج باب ۱۵۷)
رسولِ خداؐ فرماتے ہیں: "جو کوئی اپنے بھائی کی عیب جوئی اور اس کے چھپے ہوئے عیب کو ظاہر کرنے کی خاطر سفر کرے گا وہ اس راہ میں جو اپنا پہلا قدم اٹھائے گا وہ دوزخ میں رکھے گا اور خدا اسے قیامت میں سب لوگوں کے سامنے رسوا کرے گا اور اس کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کر دے گا۔”
(وسائل الشیعہ کتاب الحج باب ۱۵۲)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو کوئی کسی مومن کے خلاف کوئی حکایت بیان کرے گا تاکہ اسے گندہ کرے اور اس کی آبرریزی کرے خدا اسے ایسی جگہ رکھے گا جہاں جہنم کا خون، پیپ ہو گا (جس جگہ زناکار جنسی اعضاء سے نکلی ہوئی گندگیاں جمع ہوں گی۔)۔”
(مستدرک الوسائل،کتاب الحج باب ۱۳۷)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جس کسی کو کسی مومن کا کوئی گناہ معلوم ہو اور وہ اسے چھپانے کے بجائے ظاہر کر دے اور اس مومن کی بخشش کے لیے دعا نہ کرے وہ شخص خدا کے نزدیک اسی کے برابر گناہگار ہوتا ہے اور اس سے کیے گناہ کی ذمہ داری بھی اسی کے سر آ جاتی ہے اور گناہ کرنے والا بخشا جاتا ہے کیونکہ دنیا میں اس کا بدنام اور رسوا ہونا ہی اس کا کفارہ بن جاتا ہے پھر آخرت میں اس کی رسوائی نہیں ہوتی چونکہ خدا کریم ہے وہ ایک گناہ پر بندے کو دو مرتبہ سزا نہیں دے سکتا اور نہ دو مرتبہ رسوا کر سکتا ہے۔”
(مستدرک الوسائل، کتاب الحج باب ۱۳۷)
غرض اس گناہ کی اُخروی سزا اس کے ظاہر کرنے والے کے ذمے ہے۔ اس کے بارے میں بھی بہت سی روایتیں ملتی ہیں لیکن اتنی ہی روایتوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
مومن کی ہجو شعر یا نثر میں
شیخ انصاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "قرآن، سنت، اجماع اور عقل کی رو سے مومن کی ہجو کرنا حرام ہے کیونکہ مومن کی ہجو میں عیب جوئی، طعنہ زنی، غیبت کرنا، ملامت کرنا اور بھید کھولنا شامل ہے اور ان میں سے ہر ایک ہلاک کرنے والا گناہ کبیرہ ہے اس لیے وہ تمام چیزیں جو ان مذکورہ باتوں میں بیان کی گئیں اس میں بھی داخل ہیں اور اگر کسی ایسی بات کی ہجو کی جائے جو اس شخص میں موجود نہ ہو تو پھر یہ بہتان بھی ہے۔”
گناہگار مومن اور بے گناہ مومن کی ہجو میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کی ہجو یکساں ہے اور جو روایت اس معاملے میں فاسقوں کی مذمت کے متعلق ملتی ہے اس سے بے ایمان لوگ یا وہ لوگ مراد ہیں جو ظاہر میں گناہ کرتے ہیں لیکن غیر مومن کی ہجو حرام نہیں ہے کیونکہ اس کا کوئی احترام نہیں ہے۔ ہر صاحبِ بدعت کی اس بات کی ہجو جو اس میں موجود ہے اس نیت سے جائز ہے کہ اسے پہچنوایا جائے اور کوئی اس کے جال میں نہ پھنسے۔
مومن کو دُ کھ د ینا
خدا سورہ احزاب میں فرماتا ہے: "جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ان کے کچھ کیے بغیر (یعنی ایسا جرم کیے بغیر جس کی سزا میں انہیں اذیت دی جائے) دکھ دیتے ہیں وہ بلاشبہ گناہ اور بہت بڑے جھوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ (یعنی جھوٹے الزام کے عذاب کے مستحق اور ظاہری سزا کے لائق ہیں۔)
(الاحزاب:۵۸)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "خدا فرماتا ہے کہ جو کوئی میرے مومن بندے کو ستاتا ہے وہ میرے خلاف لڑائی کا اعلان کرتا ہے اور جو شخص میرے مومن بندے کا احترام کرتا ہے وہ میرے غصے اور ناخوشی سے آسودہ اور بے خوف رہتا ہے۔”
(الکافی)
رسولِ خداؐ فرماتے ہیں:”جو کوئی کسی مومن کو ستاتا ہے وہ مجھے دُکھ دیتا ہے اور جو مجھے دکھ دے گا وہ خدا کو دیکھ پہنچائے گا اور جو خدا کو دکھ دے گا وہ تورات، انجیل، زبور اور قرآن کی رو سے ملعون ہو گا۔” ایک اور حدیث میں ہے: "اس شخص پر خدا، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی۔”
(مستدرک الوسائل، کتاب الحج باب ۱۲۵)
اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: "جو شخص کسی مومن کو رنجیدہ کرے گا پھر چاہے تمام دُنیا بھی اسے دے دے گا اس کی دل شکنی کے گناہ کی تلافی نہیں ہو سکے گی اور دینے والے کو بھی اس کا اجر نہیں مل سکے گا۔”
آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "جس نے کسی مومن کو ناحق ستایا اس نے گویا دس بارمکہ معظمہ کو اجاڑا، اور ایک ہزار خدا کے مقرب فرشتوں کو قتل کیا۔”
(مستدرک الوسائل،کتاب الحج باب ۱۳۵)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی عزّت مکّہ اور بیت المعمور کی دس گنی اور ملائکہ کی ہزار گنی ہے۔
(اقتباس از:گناہان کبیرہ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button