اخلاق حسنہاخلاقیات

اطاعت والدین اور اس کی حدود

الکوثر فی تفسیر القران سے اقتباس
"ووَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ حُسۡنًا ؕ وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ لِتُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ فَلَا تُطِعۡہُمَا ؕ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ” (عنکبوت:08)
"اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اگر تیرے ماں باپ میرے ساتھ شرک کرنے پر تجھ سے الجھ جائیں جس کا تجھے کوئی علم نہ ہو تو تو ان دونوں کا کہنا نہ ماننا، تم سب کی بازگشت میری طرف ہے، پھر میں تمہیں بتا دوں گا تم کیا کرتے رہے ہو؟”
تفسیر آیات
۱۔ وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ:
پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنے والی نسل (اولاد) کی محبت تکویناً انسان میں ودیعت فرمائی ہے اور جانے والی نسل (والدین) سے محبت کرنا تشریعاً واجب گردانا ہے چونکہ جانے والی نسل کی جدائی اکثر ہر صورت میں ہونی ہے۔ یہ اللہ کی مہربانی کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے کہ اس جدائی کو سنگین نہیں بنایا۔
والدین پر احسان کے بارے میں سورہ بقرہ آیت ۸۳، النساء آیت ۳۶، الانعام : ۱۵۱، بنی اسرائیل : ۲۳ ملاحظہ فرمائیں۔
۲۔ وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ لِتُشۡرِکَ بِیۡ:
اگر والدین تجھے مشرک بنانے کے لیے تجھ پر دباؤ ڈالیں اور شرک کے ارتکاب کرانے کی کوشش کریں تو ان کی اطاعت نہ کرو۔ جَاہَدٰکَ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ والدین تجھے شرک اختیار کرنے کے لیے صرف حکم نہیں کرتے بلکہ وہ اس میں کوشش کرتے ہیں، تجھ پر دباؤ ڈالتے ہیں تو بھی ان کی اطاعت نہ کر۔
۳۔ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ: شرک ایک موہوم چیز ہے۔ اس کا واقع اور نفس الامر سے کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا اس کا علم بھی نہ ہو گا۔ جس کا وجود نہیں اس کا علم کیسے ہو گا۔
اسی مطلب کو سورہ لقمان ۱۵ میں بھی بیان فرمایا ہے لیکن وہاں فَلَا تُطِعۡہُمَا ان دونوں کی اطاعت نہ کرو کے بعد ایک جملے کا اضافہ ہے:
” وصَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا”
خواہ والدین مشرک ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ انسانی پہلو کے تحت ان مشرک والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اسی لیے آیت میں فرمایا: ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس مسئلے کو انسان کی انسانیت سے مربوط فرمایا۔
۴۔ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ:
ان دونوں مشرک والدین کی اطاعت نہ کرو۔ تمہیں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اللہ کو جواب دینا ہے:
"لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ "
"خالق کی نافرمانی کر کے کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہوتی”۔
(الفقیہ ۴: ۳۸۱)
اہم نکات
۱۔ والدین کو صرف خالق کے مقابلے ترجیح حاصل نہیں ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 292)
2۔”وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا ۫ وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ” ( لقمان:15)
"اور اگر وہ دونوں تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک قرار دے جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کی بات نہ ماننا، البتہ دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا اور اس کی راہ کی پیروی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہے، پھر تمہاری بازگشت میری طرف ہے، پھر میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو”۔
تفسیر آیات
۱۔ اگر یہ دونوں تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک بنائے تو اللہ پر ان کو مقدم نہ کرنا۔
اگرچہ والدین اپنے عقیدے کے مطابق اپنے فرزند پر مہربانی کر کے یہ دباؤ ڈال رہے ہوں گے لیکن والدین کا موقف "مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ” کسی علم، کسی سند کی بنا پر نہیں ہے چونکہ شرک باللہ ایک امر عدمی اور موہوم تصور ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ لہٰذا اس جہالت کو اعتنا میں نہ لاتے ہوئے والدین کی اس جاہلانہ خواہش کو پورا نہیں کرنا ہے۔
۲۔وَصَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا:
البتہ ان مشرک والدین کے ساتھ دنیوی زندگی کے معاملات میں اچھا برتاؤ کرو۔ مذہبی پہلو میں ان کی خواہش پوری نہ کر سکو تو انسانی پہلو میں فرق نہ آنے دینا۔ ان کے نظریے سے بیزاری کرو مگر ان کی ذات سے الفت و محبت برقرار رکھو۔
والدین خواہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں، اسلام کے نزدیک احترام آدمیت اور مقام انسانیت میں پھر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ عقیدے سے ہٹ کر عام انسان خصوصاً والدین کا ایک انسانی مقام ہے۔
۳۔ وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ:
اتباع ہمیشہ اس شخص کی ہو گی جو اللہ کی طرف متوجہ ہو، جس کا رخ اللہ کی طرف ہو۔
اہم نکات
۱۔ مشرک والدین کے بھی انسانی و اخلاقی حقوق ہوتے ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 390)
"وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ وَ لَمۡ یَکُنۡ جَبَّارًا عَصِیًّا” ( مریم:14)
"اور وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش و نافرمان نہیں تھے”۔
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ:
والدین کے ساتھ نیکی کرنا ایک ایسی اچھی خصلت ہے جو بڑے بڑے صاحب فضائل انبیاء کے لیے بھی ممتاز فضیلت ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 104)
"وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا” (مریم:32)
” اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا”۔
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ: مجھے اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کرنے والا بنایا۔ والدین پر نیکی کرنا انبیاء علیہم السلام کا اخلاق ہے۔ یہ ایک ایسی نیک خصلت ہے کہ اولوالعزم انبیاء علیہم السلام کے لیے بھی ایک فضیلت اور امتیاز ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 114)
5۔”وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا” (اسراء:23)
"اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا”۔
"وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا "(اسراء:24)
"اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: میرے رب! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا”۔
تشریح کلمات
قَضٰی:( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولاً یا عملاً کسی کام کا فیصلہ کر دینے کے ہیں۔
اُفٍّ🙁 ا ف ف ) الافُّ اصل میں ہر گندی اور قابل نفرت چیز کو کہتے ہیں۔ میل کچیل، ناخن کا تراشا وغیرہ۔
تَنۡہَرۡ🙁 ن ھ ر ) اَلنَّھرُ و الانتھار ۔ سختی سے جھڑکنا۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا: آیت میں قَضٰى اس امر کے لیے استعمال ہوا ہے جو زیادہ لازم اور واجب ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور ابی بن کعب کی قرائت کے مطابق قَضٰى کی جگہ وَصّٰی ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں : اصل میں وَ وَصّٰی تھا۔ پھر دو واو میں ایک واو وَصّٰی کے صاد کے ساتھ مل گئی تو لوگوں نے قضیٰ سمجھا ہے۔ اس زمانے میں حروف پر نقطے نہیں ہوتے تھے۔ ابن عباس کہتے ہیں :
"اذ لو کان علی القضاء ما عصی احد "
"اگر لفظ قضاء ہوتا تو اللہ کی کوئی نافرمانی نہ کرتا”۔
ابن عباس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ قضیٰ حکم تکوینی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اللہ کے حکم تکوینی کی نافرمانی نہیں ہو سکتی۔ نافرمانی حکم تشریعی میں ہوتی ہے۔
( تفسیر قرطبی ۔ ذیل آیہ)
۲۔ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا:
جس طرح والدین بڑھاپے میں اولاد کے احسان کے محتاج ہوتے ہیں ، اولاد کو بھی بچپنے میں والدین کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس ضرورت کو تکوین و فطرت کے ذریعے پورا کیا کہ والدین کے دل میں اولاد کی محبت اس طرح ودیعت فرمائی کہ وہ اپنی جان سے بھی زیادہ اولاد کو عزیز سمجھتے ہیں۔ حفظ و بقائے نوع انسانی کے لیے ضروری تھا کہ انسان کے دل میں اولاد کی محبت اس قدر جاگزین ہو کہ وہ اولاد سے دست بردار نہ ہو سکے۔ اگر یہ عمل فطرت کے حوالے نہ ہوتا اور تشریع و قانون کے ذریعے والدین کو حکم ملتا کہ اپنی اولاد پرشفقت کریں تو اس پر باقی احکام کی طرح عمل کم ہوتا اور بقائے نوع انسانی خطرے میں پڑ جاتی۔
جب کہ والدین پر احسان کو توحید کے بعد اہم ترین قانون اور دستور الٰہی قرار دیاکیونکہ انسان فطرتاً آنے والی نسل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اولاد والدین کے احسانات کو فراموش کرتی ہے۔ اس لیے اولاد والدین کو وہ مہر و محبت نہیں دے سکتی جو انہوں نے انہیں بچپنے میں دی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس قانون کو اپنی عبادت کے بعد اہم ترین قرار دے کر فرمایا:
اِمَّا یَبۡلُغَنَّ: ان پر احسان کرو۔ وہ عالم ضعف و پیری میں احسان کے محتاج ہوتے ہیں۔
فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ:
ان کو اف تک نہ کہو۔ ان کی خدمت خندہ پیشانی کے ساتھ انجام دیا کرو۔ آداب کے دائرے سے اُف کی حد تک بھی تجاوز نہ کرو۔
۳۔ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا:
ان کو جھڑ کو نہیں۔ ان کے مطالبات کو فراخدلی سے پورا کرو۔
۴۔ وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا: ان سے گفتگو کرو تو عزت و تکریم کے ساتھ۔ یہ ساری باتیں انسان کے امکان میں ہیں۔
۵۔ وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ: والدین کے سامنے تواضع کے ساتھ پیش آؤ۔ ایسی تواضح جس کا سرچشمہ مِنَ الرَّحۡمَۃِ مہر و وفا ہو۔
۶۔ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا: اللہ سے دعا کرو: پروردگار! ان پر رحم کر جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔ جو مہر و شفقت والدین نے بچپن میں اولاد کو دی ہے وہ اولاد والدین کو نہیں دے سکتی۔ لہٰذا یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے والدین پر اسی طرح احسان کرو جس طرح وہ بچپن میں تمہاری پرورش کرتے تھے بلکہ اللہ سے درخواست کرو: وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا ۔۔۔۔
روایت ہے کہ جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:
"الاِحْسَانُ اَنْ تُحْسِنَ صُحْبَتَھُمَا وَ لاَ تُکَلِّفَہُمَا اَنْ یَسْئَلَاکَ شَیْئاً ہُمَا یَحْتَاجَانِ اِلَیْہِ وَ اِنْ کَانَا مُسْتَغْنِیَیْنِ أ لَیْسِ اللّٰہُ یَقُولُ: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔۔۔ وَ اَمَّا قَوْلُہُ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ قَالَ: اِنْ اَضْجَرَاکَ فَلَا تَقُلْ لَھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا اِنْ ضَرَبَاکَ ۔۔۔۔ الآخر”
( مستدرک ۱۵: ۱۷۳ باب وجوب بر والدین )
"والدین پر احسان سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ احسن طریقہ سے رہنا کہ ان کو تجھ سے اپنی ضرورت کی کسی چیز کا سوال کرنے کی نوبت نہ آئے خواہ وہ دونوں بے نیاز ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا اللہ نے نہیں فرمایا: تم نیکی کی منزل پر فائز نہیں ہو سکتے جب ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن کو تم پسند کرتے ہو اور اگر والدین تمہیں تنگ کریں تو اف تک نہ کہو اور اگر وہ تمہیں ماریں تو انہیں مت جھڑکو”۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
"اَدْنَی الْعُقُوقِ اُفٍّ۔ وَ لَو عَلِمَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ شَیْئاً اَھْوَنَ مِنْہُ لَنَھَی عَنْہُ "
( الکافی ۲: ۳۴۸ باب العقوق )
"کم ترین عاق اف کرنا ہے۔ اگر اس سے کمتر کوئی چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس سے بھی منع فرماتا”۔
اہم نکات
۱۔ الٰہی انسان، فطرت کے تحت اولاد سے محبت اور شریعت کے تحت والدین پر احسان کرتا ہے۔
۲۔ اسلام انسانی قدروں (والدین پر احسان) کو توحید کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
۳۔ اسلامی تعلیمات کی فضا میں ایک خوشگوار خاندان تشکیل پاتا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 504)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button