اخلاق حسنہاخلاقیات

اسلام میں صلہ رحمی کی اہمیت

’’الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ ویقطعون ما امر اللہ بہاان یوصل و یفسدون فی الارض اولئک ھم الخسرون‘‘
’’(فاسق وہ ہیں) جو خدا سے محکم عہد و پیمان باندھنےکے بعد اسے توڑ دیتے ہیں وہ تعلق جنہیں خدا نےبرقرار رکھنے کا حکم دیا اسے توڑتے ہیں اور زمیں میں فساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ خسارے میں ہیں‘‘۔
(سورہ بقرہ، آیت ۲۷)
گذ شتہ آیت اگرچہ تمام خدائی ناتوں کے احترام کے متعلق گفتگو کرتی ہے لیکن بلا شک وتردد رشتہ داری کاناتا اور تعلق اس کا واضح اور روشن مصداق ہے ۔
اسلام صلہ رحمی ، عزیزوں کی مددو حمایت اور ان سے محبت کر نے کی بہت زیادہ احمیت کا قا ئل ہے او ر قطع رحمی اور رشتہ داروں اور عزیزوں سے رابطہ منقطع کر نے کو سختی سے منع کر تا ہے ۔
صلہ رحمی کی اتنی اہمیت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ۔
’’صلةالرحم تعمرالدیار وتزیدفی الاعماروان کان اهلهاغیراخیار‘‘
’’رشتہ داروں سے صلہ رحمی شہروں کی آبادی کاباعث ہے اور زندگیاں اس سے بڑھتی ہیں اگر چہ صلہ رحمی کرنے والے لوگ اچھے نہ ہوں ‘‘۔
(سفینۃ البحار ،جلد ۱ ،ص۵۱۴)
امام صادق علیہ السلام کے ارشاد میں سے ہے ۔
’’صل رحمک ولوبشربةمن ماء وافضل مایوصل به الرحم کف الاذی عنها‘‘
’’رشتہ داری کی گرہ اور نا تے کو مضبوط کرو چاہے پانی کے ایک گھونٹ سے ہوسکے اور ان کی خدمت کابہترین طریقہ یہ ہے کہ (کم ازکم )تم سے انہیں کوئی تکلیف واذیت نہ پہنچے‘‘۔
(سفینۃ البحار ،جلد ۱ ،ص۵۱۴)
قطع رحمی کی قباحت اور گناہ اس قدر ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے فرزندکو نصیحت کی کہ وہ پانچ گروہوں کی صحبت سے پرہیز کریں اور ان پانچ گروہوں میں سے ایک قطع رحمی کرنے والے ہیں :
’’وایاک ومصاحبةالقاطع لرحمه فانی وجدته ملعونافی کتاباالله‘‘
’’قطع رحمی کر نے والے کی معاشرے سے پر ہیزکرو کیونکہ قرآن نے ا سے ملعون اور خدا کی رحمت سے دور قرار دیا ہے‘‘۔
(سفینۃ البحار ،جلد ۱ ص۵۱۶ ،مادہ رحم )
سورہ محمدآیہ ۲۲،۲۳ میں ارشاد ہے:
’’فهل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوافی الارض وتقطعواارحامکم اولئک الذین لعنهم الله ‘‘
’’پس اسکے سوا تم سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ اگر اقتدار تمہا ر ے ہاتھ آجائے تو زمین میں فساد برپا کردو اور قطع رحمی کرو ۔ایسے ہی لوگ خداکی لعنت کے سزاوار ہیں‘‘ ۔
خلاصہ یہ کہ قر آن میں قطع رحمی کرنے والو ں اور رشتے داری کے پیوندکوتوڑنے والوں کے لئے سخت احکامات ہیں اور احادیث اسلامی بھی ان کی شدید مزمت کر تی ہیں ۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ خدا کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مغضوب کون ساعمل ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا :
’’خداسے شرک کرناپوچھا ا س کے بعد کون سا عمل زیادہ باعث غضب الہی ہے تو فرمایا:
’’قطع رحمی‘‘۔
(سفینۃ البحار ،مادہ رحم )
اسلام نے جو رشتہ داری کی اس قدر حفاظت ونگہداری کی تاکید کی ہے اس کی وجہ یہ ہے ایک عظیم معاشر ے کا استحکام ترقی ، تکامل اور اسے عظیم تر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کام چھوٹی اکائیوں سے شروع کیا جائے یہ عظمت اقتصادی اور فوجی لحاظ سے درکار ہویا روحانی و اخلاق لحاظ سے ،جب چھوٹی سے چھوٹی اکائیوں میں پیش رفت اورخود بخود اصلاح پزیر ہو جا ئیگا۔
اسلام نے مسلمانو ں کی عظمت کے لئے اس روش سے پورے طور پر فائدہ اٹھایا ہے ۔اس نے اکائیو ں کی اصلاح کاحکم دیا ہے اور عموماََ لوگ ان کی مدد ،اعانت اور انہیں عظمت بخشنے سے روگردانی نہیں کرتے کیونکہ ایسے افراد کی بنیادوں کو تقویت پہنچانے کی نصیحت کرتا ہے جن کا خون ان کے رگ وریشہ میں گردش کررہا ہے اور جو ایک خاندان کے ارکان ہیں ۔واضح ہے کہ جب رشتہ داری کے چھوٹے گروپ کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو بڑا گروپ بھی عظمت حاصل کر ے گا اور ہر لحاظ سے قوی ہو گا ،وہ حدیث جس میں ہے کہ ”صلہ رحمی شہروں کی آباد ی کا باعث ہے “غالباََ اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔
جوڑنے کے بجائے توڑنا
یہ قابل غور ہے کہ آیت کی تعبیر میں اس طرح ہے کہ خدانے جس چیز کو جوڑ نے کا حکم دیا ہے فاسق اسے توڑتے ہیں ۔یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا قطع کرنا وصل سے پہلے ممکن ہے ؟جواب میں ہم کہتے ہیں کہ وصل سے مقصد ان رو ا بط کو جاری رکھناہے جو خد ا وند عالم نے اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان یا بندوں میں سے ایک دوسرے کے درمیان طبعی طور پرا ور فطری طور پر قائم کئے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں خدا نے حکم دیا ہے کہ ان فطری اور طبعی رابطوں کی محافظت وپاسداری کی جائے لیکن گنہ گار انہیں قطع کردیتے ہیں ۔
(تفسیر نمونہ جلد اول سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button