اخلاقیاتدعا و مناجاتمکتوب

"شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

دسواں درس
قال امیر المومنین علیہ السلام ” إِلهِي إِنَّ مَنْ تَعَرَّفَ بِكَ غَيْرُ مَجْهُولٍ وَمِنْ لاذَ بِكَ غَيْرُ مخْذُولٍ وَمَنْ أَقْبَلْتَ عَلَيْهِ غَيْرُ مَمْلُوكٍ "
"اے میرے معبود! بےشک جو تیرے واسطے سے پہچانا گیا وہ گمنام نہیں رہتا، اور جو تیری پناہ میں آیا وہ بےیار و مددگار نہیں رہتا، اور جس کی طرف تو نے رخ کیا وہ غلام نہیں بنتا”
شب نیمہ شعبان ولادت امام مھدی عج:
سب سے پہلے شب ولادت امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی مناسبت سے آپ تمام حاضرین و ناظرین کی خدمت میں ہدیہ تبریک عرض کرتا ہوں۔ یہ شب انتہائی با برکت ہے ۔ یہ وہ رات ہے جس کی نظیر نہیں ہے وہ رات جو شب قدر کی نظیر ہے۔ اگرچہ تقدیر شب قدر میں ہی لکھی جاتی ہے لیکن آج کی رات یہ تقدیر لکھی جاتی ہے کہ کون اصحاب و انصار اما م زمانہ ؑ میں سے ہوگا۔ آ ج کی رات ہم اپنے وقت کے امام سے استغاثہ کرتے ہیں کہ اے امام زمان عج ! ہمیشہ مسلما نوں کی اور مومنین کی یہ خواہش ہے کہ تیرا ظہور جلد از جلد ہو جائے ۔ العجل کی صدا بلند ہے، انسانیت پکار اٹھی ہے لہذا اگر تیرا اس سال میں ظہور ہونا ہے اور ہماری دعا بھی یہی ہے۔ تو اس مبارک رات میں ہمارا نام بھی ان لوگوں میں لکھ دیں جنہیں تیرے اصحاب و انصار بننے کا شرف حاصل ہوگا۔
آج کی رات (شب 15 شعبان) جہاں جشن ہے وہاں خوشی بھی ہے اور ساتھ میں گریہ بھی ہے ،گریہ اس لئے بھی ہے کہ گڑ گڑا کر اپنے وقت کے امام کو طلب کرے اور امام ؑ سے یہ استدعا کریں کہ وہ ہمیں اپنے اعوان و انصار میں شامل کریں اور رب سے یہ دعاکریں کہ اپنے آخری ولی اور حجت خدا کا جلد ظہور جلد فرمائے۔” الھم عجل لولیک الفرج”۔
ہم مناجات شعبانیہ پڑھ رہے ہیں ۔( آج ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ نئے آئے ہو، جو شروع سے ہمارے ساتھ نہیں ہیں یا وہ لوگ جو درمیان میں کچھ قسطوں کے بعد آئے ہیں ان کو ساتھ ملانے کے لئے کہ ہم کہاں ہیں ہم نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا ہے، سابقہ دروس کا خلاصہ بیان کرتے ہیں)۔ہم من حیث الانسان جو بھی جس منزلت پر ہے اس کا مقام وہی ہے جو امیر المومنین ؑ یہاں ( مناجات شعبانیہ میں ) ارشاد فرمارہے ہیں۔ جو انسان تقرب الہی حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اللہ سے دور ہے اس مقام قرب میں نہیں ہے جہاں اس کو ہونا چاہیے تھا۔ اس کو سمجھنے کے لئے اگر ہم ایک مثال بیان کرتے ہیں،صرف مثال ہے، اور مثال صرف ہمیں مطلب کے قریب کرنے کے لئے ہوتی ہے ورنہ دونوں مثالوں میں کوئی وجہ اشتراک اس طرح کا نہیں ہے کہاں یہ مثا ل اور کہاں وہ حقیقیت جس کی طرف امیر المومنین ؑ ہمیں پہنچانا چاہ رہے ہیں ۔میں صرف اس کو سمجھانے کے لئے کہ مناجات میں امیر المومنین ؑ ہمیں کس عالی ترین سفر پر لے کے گئے ہیں اور ہمارے لئے اس سفر کو اس طرح درک کرنا اور ہضم کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے میں اس کو ٹھوڑا نیچے لے کر آتا ہوں اور ایک مثال سے مطلب کو واضح کرنا چاہتا ہوں۔
ایک باپ اور اس کا ایک بچہ ہے او روہ بچہ نافرمان ہے اس کی نافرمانی کی وجہ سے اسے یہ مشکل پیش آئی ہے کہ باپ اس سے ناراض ہو گیا ہے اب تصور کیجئے گا یہ باپ ناراض ہے اور بیٹا نافرمان ہے ۔ اور اس نافرمان بیٹے کو اب پچھتاواہوا ہے کہ اسے اب باپ کی طرف واپس آنا ہے اسے راضی کرنا ہے ۔ تو سب سے پہلے اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ میں نے غلطی کی ہے اپنے غلطیوں کو ماننا پڑے گا اور غلطیوں کو ماننے کے بعد اپنا مدعا بیان کرنا پڑے گا اب باپ ناراض ہے اس کی بات سننا نہیں چاہتا اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا ۔ اس نے اسے عاق کر دیا ہے ، اسے نکال دیا ہے ،اسے بھلا دیا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو یہ بیٹا کیا کرےگا ؟۔ہر اس طریقے سے کوشش کرے گا کہ کسی طرح سے اس کی آواز ،اس کی بات اپنے باپ تک پہنچے اور اس کے بعد صرف باپ سے کہے گا کہ مجھے سن تو لو اس کے بعد جو فیصلہ کر نا ہے کر لے ۔ پہلے میرا مدعا سن لو اور میرا مدعا اور کچھ نہیں ہے بلکہ صرف اپنی معافی پیش کرناہے۔ بالکل اسی طرح ایک بندہ عاصی ہے جو گناہ کر رہا ہے ،ہماری طرح کا ایک انسان ہے جو خدا کی بارگاہ میں شعبان میں واپس آیا ہے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہے اور اعتراف کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے۔
اسمع ندائی اذا نادیت” خدایا میری بات سن لے ”
و اسمع دعائی اذا دعوت” اور جب میں دعا کروں میری دعا سن لے۔ یہ دعا کر ر ہا ہے،گڑ گڑا رہا ہے ،یہ آرہا ہے خدا کی توجہ حاصل کر نا چاہتا ہے۔و اقبل علی اذا ناجیت” میں سر گوشی کر رہا ہوں تو میری طرف رخ کرے۔ تعبیرات کی طرف مت جائے گا، تعبیرات یقینا رساں نہیں ہے، جو میری تعبیرات ہے۔” فقد ھربت الی” پہلی میں تجھ سے بھاگ گیا تھا اور اب میں بھاگ کے تیرے طرف آرہا ہوں۔ اگر ہم اپنی مثال پہ آجائے تو اس نافرمان بیٹے نے عذر خواہی کی اور باپ کی توجہ کوجذب کر دیا۔ اور جب اسے نے جذب کر دیا تو باپ کو ترحم میں لانے کے لئے ، اس کو غصہ کی حالت سے نکالنا ہوگا، اس کے دل میں اپنے لئے رحم پیدا کرنا ہو گا اور ایسے الفاظ استعمال کرنے ہوں گے اور ایسے تعبیرات استعمال کرنی ہوگی کہ اس کا دل اس نافرمان بیٹے کی نسبت مہربان ہو جائے،ہم نے عرض کیا کہ خدا کی نسبت یہ باتیں درست نہیں ہے اس لئے کہ خدا ہمیشہ حالت رحمت میں ہوتا ہے یہ ہم ہیں جو دور ہوئے ہیں۔اب میں کچھ فرق پیش کرنے لگا ہوں،آپ مفاتیح سامنے رکھیے گا ۔مناجات شعبا نیہ کو مختلف مقامات میں سے پیش کر رہے ہیں۔
” وَوَقَفْتُ بَيْنَ يَدَيْكَ مُسْتَكِيناً لَكَ مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ راجِياً لِما لَدَيْكَ ثَوابي وَتَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي”
” خدا کو راضی کر رہا ہے ۔خدا یا !میں ذلیل ،میں حقیر،میں مسکین میں صرف امید لے کر تمہارے پاس آیا ہوں۔ اب ہماری مثال کی طرف واپس آتا ہوں۔ یہ صرف سمجھانے کے لئے ہے کیونکہ ہم زمینی ہیں، عرش والی باتیں سمجھ نہیں سکتے ،میں اپنی بات کر رہا ہوں،باپ کا دل نرم ہو گیا اب وہ آپ کی با ت سننے کے لئے تیار ہو گیا ۔ آپ نے تھوڑا اپنا عذر پیش کیا آپ نے گریہ کیا آپ نے زاری کی اور آپ نے اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا کر دیا۔” الہی فان عفوک فمن اولی منک بذالک” اے اللہ تیری بارگاہ میں آیا ہوں عفو درگزر کا طالب ہوں اور تو معاف نہیں کرے گا تو میں کہاں جاوں گا، تو میرا مالک ہے تو میرا خالق ہے تو میرا رازق ہے تو ہی میراقیوم بھی ہے ،تو ہی میرا سب کچھ ہے ۔ تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہےتو نے ہی میری پرورش کی تو نے ہی مجھے اتنی ساری نعمتیں دی تو نے ہی یہ سب کچھ عطا کرنے کے بعد جب میں یہاں پہنچا ہوں اگر چہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے لیکن غلطیوں سے جب میں معافی کا طالب ہوں اور تیری درگاہ میں آیا ہوں تو ” الہی فان عفوک فمن اولی منک بذالک”مطلب فرض یہ لے رہا ہے کہ تو نے معاف کر دیا ہے اگر تو نے معاف نہیں کیا تو کون معاف کرے گا،اب اپنی مثال میں آتے ہیں ۔ ان کو مکس نہ کیجئے گا،صرف سمجھنے کے لئے ہم یہ مثال پیش کر رہے ہیں۔
ہماری مثا ل میں باپ ناراض ہے پھر ہم نے اس کو راضی کیا اس کے دل کو نرم کیا اس کو ترحم آیا اس سے معافی مانگی اور معافی مانگنے کی وجہ سے باپ نے بیٹے کا سر اپنے دامن میں لے لیا ، اس کے سر پر اپنا دست شفقت رکھ لیا وہ باپ جو بیٹے کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا اس کو سننا بھی نہیں چاہتا تھا ،اب اتنا ہوگیا کہ بولا بھی کچھ نہیں ہے ،لیکن سر پہ اس نے ہاتھ رکھ دیا اب یہ بچہ کیا کرے گا؟ آغوش پدر میں چلا جائے گا سینہ میں اپنا سر رکھ لے گا، اس کو تھوڑا سا ناز کرنے کا ،فخر کرنے کا موقع ملے گا کہ آخریہ میرا باپ ہے نا۔ ( یہ مجھ سے کیسے ناراض رہ سکتا ہے جب میں نے اس کی طرف رجوع کیا ہے)،اب چلیے جائیں عرش پر۔امیر المومنینؑ آپ کو عرش پہ لے کے جا رہے ہیں اور میں آپ کو فرش پہ لے کر آرہا ہوں "الہی فلک الحمد ابدا ابدا دائما سرمدا"پھر باپ کی تعریف ( مثال میں)، پھر اللہ کی تعریف پھر اللہ کی حمد کہ اے اللہ تو نے مجھے معاف کر دیا کہ تو کتنا عظیم ہے ،تیرا میں حمد کرتا ہوں تیرا میں شکر کرتا ہوں میں ہمیشہ تیری حمد کروں گا میں ہر حال میں تیری ثناء کروں گا، جب تو راضی ہے۔اب ہماری مثال میں آجائیں،آپ نے جب باپ کی تعریف کی اس کی بزرگی کا اعتراف کیا اور اس کے بعد اگر باپ کہے کہ تو نے وہ گناہ کیا تھا ،تو نے میرا دل دکھایاتھا۔تو آپ کہیں گے ،بابا چھوڑ دیں میں ذکر نہیں کروں گا تو بھی ذکر کرنا چھوڑ دیں۔ بس تو معاف کر دینا غلطیوں کا تو ذکر نہ کرے ۔ یہ کہہ سکتا ہے کہ بیٹا اب کچھ ناز کر سکتا ہے اس لئے کہ باپ کا دل نرم ہو گیا ہے،کچھ جملے بول سکتا ہے ۔ اب امیر المومنینؑ کے ساتھ خدا کے پاس عرش پر چلیں۔
"إِلهِي إِنْ أَخَذْتَنِي بِجُرْمِي أَخَذْتُكَ بِعَفْوِكَ وَإِنْ أَخَذْتَنِي بِذُنُوبِي أَخَذْتُكَ بِمَغْفِرَتِكَ وَإِنْ أَدْخَلْتَنِي النَّارَ أَعْلَمْتُ أَهْلَها أَنِّي اُحِبُّكَ”
اللہ اکبر، خدایا !میرے گناہوں کا ذکر نہ کرنا ۔ اب اگر میری نافرمانیوں کا ذکر کیا تو میں تیرے عفو و درگزر کا ذکر کروں گا، اگر میرے گناہوں کا ذکر کرے گا تو میں تیری مغفرت کا ذکر کروں گا،اور ذکر میں کر رہا ہوں اگر تو نے مجھے پکڑ لیا تو میں بھی تجھے پکڑ لوں گا ،تیرے دامان عفو کو پکڑ لوں گا،یہ باتیں زیادہ دیر نہیں کی جا سکتی، پھر واپس آیا اپنے معذرت خواہانہ لہجے کی طرف”
"إِلهِي إِنْ كانَ صَغُرَ فِي جَنْبِ طاعَتِكَ عَمَلِي "
خدایا! میرا عمل کم ہے اور تیرا حق عبادت بہت زیاد ہ ہے ، میرا عمل کم ہے لیکن میری امیدیں بہت زیادہ ہیں ۔ میں تجھ سے امید کی وجہ سے اور حسن ظن کی وجہ سے مجھ سے غلطی ہوئی ہے نہ کہ میں نے تجھے اھون الناظرین سمجھ لیا تھا،میں نے تجھے اہمیت نہ دے کر اور یہ سمجھ کر کیونکہ اس کے دیکھنے کی کیا حیثیت ہے وہ دیکھتا رہے میں گناہ کر تا رہوں گناہ نہیں کیا،کیونکہ تو ستار و غفار ہے،اب جبکہ یہ سب کچھ ہو گیا ۔اب اس نے اطاعت کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر ثابت قدم رہنا ہے اب اس نے معصیت نہیں کرنی ہے تو اس کو اپنے دل میں محبت الہی چاہیے تاکہ اس پر باقی رہ سکے اور راہوار شوق چاہیے تاکہ وہ تکامل کے سفر میں گامزن رہ سکے۔ یہاں تک ہم آگئے جہاں ہم نے کل چھوڑتھا ،ہم نے ایک خلاصہ بیان کیا۔
” إِلهِي هَبْ لِي قَلْباً يُدْنِيهِ مِنْكَ شَوْقُهُ ” ا سکے بعد حضرت داود کی مناجات ہے ر ب کے ساتھ اور بہت ہی اچھی و غریب ہے اصلا انسان کو ہلا کر رکھ دیتی ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے۔ حضرت داودؑ سے حدیث قدسی ہے،اےداود،میرے ان بندوں کو جو مجھ سے دورچلے گئے ہیں جو عاصی ہیں جو مجھ سے روگردان ہیں ان کو بتاو میں ان کا کتنا مشتاق اور ان کا کتنا منتظر ہوں۔میں ہمیشہ ان کی راہ دیکھتا رہتا ہوں کب واپس آئے ۔ایک بچہ جو اپنی ماں کو چھوڑ کے گیا ہو وہ عاصی ہو گیا ہو،لیکن ماں کا تو دل ہے ماں ہمیشہ دروازے کو تکتی رہتی ہے کہ کب میرا بیٹا واپس آئے گا ۔ خدا فرماتا ہے جو مجھے چھوڑ گیا ہے جو مجھے پشت کر گیا ہے اس کے لئے میں منتظر ہوں میں کتنا شوق رکھتا ہوں کہ وہ واپس آئے اگر اسے بھی میرے شوق کا اندازہ ہو جائے تو پھر میرے شوق کے علم سے اس کا بدن پارہ پارہ ہو جائے گا وہ اپنے آپ میں سمو نہیں پائے گا ۔اگر ان کے ساتھ میرا یہ شوق ہے جو مجھ سے رو گردان ہے تو جن کا شوق میری طرف ہے جو میرا شوق اپنے دل میں لئے ہوئے ہیں تو جان نہیں سکتا اے انسان تو خیال بھی نہیں کر سکتا کہ خدا تیرے ساتھ کیا کرے گا جب تو مرکب شوق پر سوار ہو کر اس کی طرف جائے گا تو وہ تیرا کیسے استقبال کرے گا وہ رحمتوں کے دروازے کو کیسے کھولے گا۔ اور آج کی رات تمام رحمت کے دروازے کھلے ہیں تمام انبیاء تمام اوصیا ءتمام فرشتے آج کی رات کربلا میں زیارت امام حسینؑ کرنے میں مشغول ہیں اور اس جد کو اس والد کو جس کے ہاں یہ بچہ ہوا ہے یہ اولاد حسینؑ میں سے ہیں اور منتقم خون حسینؑ ہیں مبارک بادی کے لئے آتے ہیں رحمتیں لے کے آتے ہیں ۔ ان رحمتوں کے نزول کے سبب تمام لوگوں کو تمام ہمارے سننے والوں کو دیکھنے والوں کو، مسلمین و مسلمات کو تمام انسانوں کو بحق امام زمانہ ؑ اس مشکل اور مصیبت سے نجات عطا فرما!آمین ( کرونا کے ایام میں خصوصی دعا)
دعائے رسالت مابؐ " اسئلک شوق الی لقائک” خاتم الانبیاء شکر طلب کر رہے ہیں کہ وہ براق جس پر وہ سوار ہو کر سدرۃ المنتہی کی طرف گئے۔”ولذہ النظر الی وجھک الکریم” تیرے وجہ کرم دیکھنے کی تمنا ہے۔ رؤیت الٰہی ممکن نہیں ہے یہ وجہ کریم کیا ہے انشاء اللہ کبھی بیان کریں گے”طال الشوق ابراری الی لقائ وانی الی لقائھم لااشد شوقا” جو ابرار ہیں وہ میری لقاء کے لئے تڑپتے ہیں لیکن میں ان سے بہت زیادہ "اشد شوقا” میرا شوق ان سے بہت زیادہ ہے ابرار سے بھی زیادہ ہے تاکہ میں اپنے بندوں کا استقبال کروں ” و لسانا یرفع الیک الصدق” اور کیا مانگتا ہوں تجھ سے شوق مانگتا ہوں اور لسان مانگتا ہوں ۔اس لسان کے ذریعے کیا کرتا ہوں سچ کے ذریعے میں رفعت پیدا کروں گا۔ایک دعا جو سب کو آتی ہے اور آنی بھی چاہیے اور سب کی زبان پر ہونی چاہیے” رب ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق و اجعلنی من لدنک سلطانا نصیرا” صدق لسان کتنا اہم ہے اس کے بارے میں آپ کو صرف یہ عرض کرتا ہوں ۔افتخار عارف صاحب کے جناب ابوذر کی شان میں یہ اشعار عرض کرتا ہوں۔
سلام اُنؐ پر درود اُنؐ پر
وہ کہہ رہے تھے
زمیں نے بوجھ ایسے آدمی کا نہیں اُٹھایا جو تم سے سچا ہو اے ابوذرؓ
وہ کہہ رہے تھے
فلک نے سایہ نہیں کیا ایسے آدمی پر جو تم سے سچا ہو اے ابوذرؓ
سبھی یسارویمین تصدیق کر رہے تھے
تمام اہلِ یقین تصدیق کر رہے تھے
سلام اُنؐ پر درود اُنؐ پر
مگر زمانے نے یہ بھی دیکھا
وہی مدینہ ہے اور ابو ذر ؓ ہیں اور منبر ہے اور منبر کا فیصلہ ہے
اور اب جو منبر کا فیصلہ ہے وہ قولِ صادقؐ سے مختلف ہے
جو قولِ صادقؐ سے مختلف ہے وہ فیصلہ میرے اور منبر کے درمیان
اک سوال بن کر ٹھہر گیا ہے
بُہت زمانہ گزر گیا ہے مگر ابوذرؓ نگاہ میں ہیں۔
"یاایھاالذین آمنو اتقو اللہ و کونو مع الصادقین” اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور قول صادق کے ساتھ رہو جو قول، قول صادق سے مختلف ہو اس کے ساتھ تم جا کر جنت حاصل نہیں کر سکتے ۔کتنا اہم ہے قول صادق!سچ،جو سچا نہ ہو وہ امام نہیں ہو سکتا ہے۔جو سچا نہ ہو وہ ظالم ہوتا ہے اور امامت ظالم کو نہیں ملتی ہے۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں” لا تنظر الی طول رکوع الرجل و سجودہ”
ایک شخص کو پہچاننا ہے کہ وہ صحیح ہے کہ نہیں ہے اس کے ساتھ معاملہ کرنا ہے یا نہیں اس کے ساتھ رشتہ کرنا ہے یا نہیں کچھ بھی کرنا ہے آپ کو پہچاننے کی ضرورت ہے کہ یہ شخص ٹھیک ہے کہ نہیں ہے امام ؑ فرمارہے ہیں:
” لاتنظرو الی طول رکوع الرجل و سجودہ”
یہ نہ دیکھو کہ یہ کتنا لمبا رکوع کرتا ہے کتنی لمبی لمبی نمازیں پڑھتا ہے لمبے سجدے کرتا ہے ۔” فانہ ذالک شیئ اعتادہ” یہ ہو سکتا ہے کہ یہ اس کی عادت ہو ،نماز اول وقت پر پڑھنا اس کی عادت ہو "فانہ استوحش لذالک”اگر یہ نہ کرے تو تڑپ اٹھے کیوں ؟ اس کی عادت ہے ۔ سگریٹ پینا انتہائی مضر ہے لیکن جب عادت بن جاتی ہے تو اچھی چیز ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کو اپنی عادت کی وجہ سے کر نا پڑتا ہے ۔ پھر میں کیا کروں کہاں سے پہچانوں؟لیکن انظرو الی صدق حدیثه واداء امانته یہ دیکھووہ صد ق حدیث میں کیسا ہے وہ ادائے امانت میں کیسا ہے۔مجھے یہ صدق حدیث چاہیے ۔ میں رفعت چاہتا ہوں اور رفعت کے لئے مجھے صدق حدیث چاہیے ۔
حضرت سلیمان ہے اور ان کی سلطنت ہے ،دو چڑیاں ہیں ،مادہ اور نر آپس میں باتیں کر رہی ہیں۔نر مادہ کو پرپوز کر رہی ہے مگر مادہ نہیں مان رہی ،نر کہہ رہا تھا۔اگر تو مان جائے تو میں تخت سلیمان کو اپنی چونچ میں اٹھا کر دریا میں پھینک دوں۔ جب حضرت سلیمان نے یہ بات سنی ہے تو پوچھا ایسا کیوں کہ رہا ہے تو اس نے جواب دیا” المحب یلام علی مام یقال” جو عاشق ہوتا ہے ،عاشق اپنے عشق میں جو کہہ جائے اس کی کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہے ۔اس استدلال کو حضرت سلیمان ؑ نے مان لیا۔پھر مادہ سے پوچھا : تو کیوں نہیں مان رہی؟”قالت یا نبی اللہ انہ لیس محبا” یہ محب نہیں ہے یہ سچا نہیں ہے ” لیکن یہ مدعی ہے” یہ ادعائے حب کر رہا ہے ،مجھے سچ چاہیے۔ میں جو ادعائےحب امامؑ وقت کر رہا ہوں یہ دعوی ٰسچا ہونا چاہیے تب مجھے رفعت ملے گی، اگر میں اپنے دعوے میں سچا نہ ہو تو مجھے رفعت نہیں ملے گی۔خدایا مجھے صدق عنایت فرما،میں سچ کی بھیک مانگ رہا ہوں” یا نبی اللہ انہ لیس محبا و لکنہ مدعی لانہ یحب معی غیرہ” یہ میرے ساتھ اور بھی بہت سے لوگوں کو بہت سے چڑیاؤں کو چاہتا ہے۔ اب غیری کونسا ہے؟ دانہ ہے اور دیگر چیزیں ہیں۔ اس نے کہا ایسا نہیں ہے کہ یہ میرا محب ہو۔ جب سلیمانؑ نے اس بات کو سنا تو اس بات نے آپ کے قلب پر اتنا اثر کیا” و بکی بکاء شدیدا” وہ شہنشاہ عالم گریہ کرتا ہے اور ” واحتجب عن الناس اربعین یوما” یہ چالیس دن کے لئے خلوت میں چلے گئے اور اکیلے ہو گئے ” یدعواللہ ان یفرغ قلبہ لمحبتہ” اور چالیس دن تنہائی میں جا کر دعا کر تا رہا ۔کون ؟ وہ جو اس وقت سارے عالم کا بادشاہ تھا،چرند پرند، جن اور سب پر ان کی حکومت تھی۔سب کچھ چھوڑ دیا اور تنہائی اختیار کی کہ میرے دل میں بھی اللہ تیرے علاوہ کسی اور کی محبت تو نہیں ہے اور اگر کسی اور کی محبت دنیا کی محبت، سلطنت کی محبت،اقتدار کی محبت،اولاد کی محبت، مال کی محبت اگر خدا کی محبت کے علاوہ کسی اور کی محبت میرے دل میں ہو تو میں محب نہیں ہوں میں مدعی ہوں مجھے سچ چاہیے، مجھے سچ عنایت کر” و نظرا یقرب حقہ” مجھے وہ نظر کرم چاہیے جس کے ذریعے میں تیرا تقرب حاصل کر سکوں” الہی ان من تعرف بک غیر مجھول” اے میرے رب ،”ان من تعرف بک” جس نے تجھے جان لیا تو وہ پھر مجھول نہیں رہ سکتا وہ مشہور ہو جاتا ہے۔عجب!اب یہاں پر شہرت،مجھے شہرت چاہیے میں تیرے ذریعے شہرت حاصل کرنا چاہتا ہوں میں شہرت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔شہرت طلبی رزائل اخلاق میں سے ہے۔شہرت طلبی کوئی اچھی صفت نہیں ہے۔ اور اسی شہرت طلبی کی وجہ سے بہت سے لوگ دیگر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ان کو ویوز مل جائے ،ان کو نام مل جائے اور اس شہرت طلبی میں خود بھی گمراہ ہو رہے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔یہ شہرت طلبی جو اچھی چیز نہیں ہے اسے ہم خدا سے کیوں طلب کر رہے ہیں میں مجھول نہیں رہنا چاہتا میں مشہو ر ہونا چاہتا ہوں۔اس شہرت کی کوئی اچھی شہرت بھی ہوگی ۔اس کا مطلب یہ ہے جس کی وجہ سے کہ رہا ہے میں تجھے پہچان کر مجھولیت سے نکل کر شہرت میں آنا چاہتا ہوں۔اگر کوئی شخص شہرت کو اس لئے چاہے تاکہ اس کے ذریعے وہ اللہ کی عبادت کر سکے اللہ کی عبادت کی خدمت کر سکے پھر یہ شہرت رزائل میں سے نہیں ہے یہ شہرت پھر اس صفات حمیدہ میں سے ہے میں اپنے بارے میں نہیں کہہ سکتا کہ میں اگر شہرت طلب ہوں تو میں کس لئے شہرت مانگتا ہوں۔
اسلام نے کبھی آپ سے یہ نہیں کہا کہ آپ ہمارے پیج کو سبسکرائب کریں آپ ہماری ویڈیوز کو لائک کریں آپ کیا کریں جو یہ تمام آنلائن والے لوگوں کی زبان پر ہوتے ہیں ہمیشہ کہتے ہیں۔خوف آتا ہے کہ واقعا اگر یہ شہرت اس لئے ہو تاکہ بات آگے پہنچ جائے۔ہم نے یہ کہا ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں ہے اس سے اگلے کو فائدہ ہوتا ہے تو اس کو آگے پہنچایئے،میری نیت جو بھی ہو اللہ بہتر جانتا ہے اگر آپ صدق نیت سے اس کو آگے پہنچاتے ہیں تو آپ کو وہ شہرت ملے گی جس کے بعد آپ مجھول نہیں ہوگے۔ تھوڑا سا غور کیجئے۔جب تک انسان ہے تب تک اس کا نام بھی ہے اس کا پیج بھی ہے اس کے کمنٹس بھی ہے اس کے رشتہ دار بھی ہے کہیں نہ کہیں اس کا کوئی نہ کوئی نام ہے لیکن آج سے آپ سو سال بعد کا فرض کریں کہ سو سال بعد کیا ہوگا،دو سو سال بعد کیا ہوگا؟ دو سو سال بعد آپ کا کہیں بھی کوئی نام نہیں ہے میرا بھی کوئی نام بھی نہیں ۔ہماری اولاد بھی ہمارے نام بھول جائیں گے۔ابھی پوچھ لیجئے کس کو پر دادا کا نام کیا ہے۔ اصلا کوئی نام و نشان نہیں ہے ان کے گھروں پر اغیار نے قبضہ کر لیا ہے ان کی اولاد وں کے پاس بھی یہ چیزیں رہتی ہیں نہیں رہتی کچھ پتہ نہیں ہے۔ یعنی سو سال بعد آپ مجھول ہونگے،دو سو سال بعد آپ مجھول ،پچاس سال بعد آپ مجھول،آپ کا کوئی نام و نشان نہیں ہے لیکن آپ کا نام کب باقی رہے گے؟اگر آپ خدا کے ذریعے پہچانے جائیں اگر آپ الغدیر لکھ کر جائیں اگر آپ جواہر لکھ کر جائیں۔اگر آپ صحیفہ سجادیہ کی تدوین کر کے جائیں اگر آپ کوئی الہی کام کر جائیں۔ ہدایت کا یہ جو سلسلہ ہے یہ جو روشن مینار ہے ہدایت ہے ان روشن ستاروں کے درمیان کہیں آپ کا بھی کوئی چھوٹا موٹا نام رہ جائے تو آپ مجھول نہیں ہوتے ہیں۔یہ دعا ہے کہ خدایا،میں مجھول نہیں رہنا چاہتا ،میں چاہتا ہوں میرا نا م رہے نہ کہ میرا نام، میں نے نام کو کیا کرنا ہے اس نام نے بھی مجھے کوئی فائدہ نہیں دیا ہے قیامت میں مجھے یہ نام کیا فائدہ دے گا اس لئے میری کتابوں سے میرے علم سے میری باتوں سے کوئی ہدایت کا سلسلہ چلتا رہے ” و من لاذ بک غیر مخذول” جو اللہ کی پناہ میں آئے ،اچھا اب تعارف الہی میں ، میں اپنے آپ کو مجھولیت سے نکال کر شہرت کی طرف لا رہا ہوں وہ کیوں لا رہا ہے تعارف الہی کی خاطر۔” کنت کنزا مخفیا فاحبب ان اعرف فخلقت الخلق کئی اعرف” یہ حدیث مشہور بھی ہے سب اس کو جانتے بھی ہے ۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں” یا ایھا الناس ما خلق العباد الا لیعرفوہ فاذا عبدوہ” اللہ نے خلائق کو صرف اس لئے خلق کیا ہے کہ وہ اللہ کی معرفت حاصل کریں جب اللہ کی معرفت حاصل کریں گے تو اس کی عبادت کریں گے” فاذاعبدوہ” جب وہ اللہ کی عبادت کریں گے تو وہ بے نیاز ہو جائیں گے” بعبادہ عن عبادۃ سواہ” اگر ایک اللہ کی عبادت نہ ہو تو متعدد الہ کے سامنے جھکنا پڑے گا ان تمام خداوں کے سامنے جھکنے سے ایک اللہ کی عبادت آپ کو بے نیاز کرتی ہے” نبی اکرم ؐ فرماتے ہیں” کونو ینابیع الحکمہ” ایسی مجھول ہو کر مر کر چلے مت جاو کچھ کر جاو ،کیا کرناہے؟ میں نے ینابیح حکمت بننا ہے ہے میں نے مصابیح ھدی بننا ہے ،میں مصباح ھدی کے کنارے میں چھوٹا سا چراغ بننا چاہتا ہوں” و اخلاص بیوتی تعرفون فی اھل السماء” ایسے ہو جااگر ینابیع حکمت بن جاو مصابیح ھدی بن جاو تو تم آسمانوں میں پہچانے جاوگے پھر تو تم مجھول نہیں رہو گے۔عجب میں شہرت چاہتا ہوں لیکن اپنی شہرت طلبی کو منفی میں نہیں چاہتا میں مثبت شہرت طلبی چاہتا ہوں امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں
” من تعلم العلم و عمل بہ و علم با اللہ دعی فی ملکوت السماوات عظیما”جو علم حاصل کرے اور اس پر عمل کر اس کے بعد دوسروں کو تعلیم دے تو آسمانوں میں اسے عظیم کا خطاب دیا جائے گا۔اللہ اکبر! اگر مجھول نہیں رہنا چاہتے مشہور ہونا چاہتے ہو تو شہرت یہاں نہیں ہے اصل شہرت یہ ہے کہ علم حاصل کرو اس علم پر عمل کرو اور اس علم کو آگے پھیلاو ،ملکوت سماوات میں عظیم کہلاو گے ” ومن لاذ بک غیرک مخذول” اس دنیا میں آج کل کے حالات میں احساس ہمیں آج ہوا ہے و للہ ! ہم ہمیشہ خطرے میں ہیں ہر طرف سے دشمن کا خطرہ ہے۔ ہر نت نئے طریقوں سے،دائیں بائیں اور ہر طرف سے دشمن حملہ آور ہے ان حملوں سے ان طاقتور دشمنوں سے ہم نہیں بچ سکتے اس لئے کہ ہم انتہائی کمزور ہیں انتہائی بزدل ہیں انتہائی عجول ہیں اور اس حملے سے صرف ایک صورت سے بچ سکتے ،اللہ کی پناہ میں چلے جائیں۔اگر اللہ کی پناہ میں چلے جائے تو پھروہ” لا حول ولا قوۃ الا بااللہ” ہے وہ "علی کل شئی قدیر” ہے وہ قادر مطلق ہے ۔ اسی صورت میں ہم عزت پا سکتے ہیں،خطرات سے ہم نجات حاصل کر سکتے ہیں” من کان یرید العزۃ فللہ العزۃ جمیعا و اقبلت علیہ غیر مملوک” اور جو تیری طرف متوجہ ہو گیا جو تیرا ہو گیا پھر وہ آقا ہو گیا وہ سردار ہو گیا۔باقی سب مملوک ہیں،باقی سب اپنے مالک نہیں ہیں باقی سب شیطان کے، استعمار کےاور باقی سرداروں کے غلام ہو جاتے ہیں کوئی پیسے کا غلام ہو جاتا ہے کوئی اقتدار کا غلام ہو جاتا ہے کوئی علم کا غلام ہو جاتا ہے کوئی شہرت کا غلام ہو جاتا ہے کوئی شہوت کا غلام ہو جاتا ہے سب غلام ہیں اگر غلامی سے آزاد ہو کر سردار بننا ہے تو پھر تیری طرف آنا ہوگا،جو تیرا ہوا وہ سردار ہوا۔
نوٹ:( مناجات شعبانیہ کی تشریح و توضیح پر مشتمل یہ دروس علامہ انور علی نجفی نے ان ایام میں آن لائن دئیے تھے جب دنیا کرونا وائرس کی مشکل سے ہر طرف سے دو چار تھی۔ اس وجہ سے درمیان میں بعض اوقات کچھ جملے انہی ایام کی مناسبت سے بیان ہوئے ہیں۔)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button