اخلاقیاتدعا و مناجاتمکتوب

"شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

دوسرا درس
بسم الله الرحمن الرحيم
اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاسْمَعْ دُعائِي إذا دَعَوْتُكَ وَاسْمَعْ نِدائِي إِذا نادَيْتُكَ وَاقْبِلْ عَلَيَّ إِذا ناجَيْتُكَ ، فَقَدْ هَرَبْتُ إِلَيْكَ وَوَقَفْتُ بَيْنَ يَدَيْكَ مُسْتَكِيناً لَكَ مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ راجِياً لِما لَدَيْكَ ثَوابي وَتَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَتَخْبُرُ حاجَتِي وَتَعْرِفُ ضَمِيرِي، وَلايَخْفى عَلَيْكَ أَمْرُ مُنْقَلَبِي وَمَثْوايَ وَما اُرِيدُ أَنْ أُبْدِيَ بِهِ مِنْ مَنْطِقِي وَأَتَفَوَّهُ بِهِ مِنْ طَلِبَتِي وَأَرْجُوهُ لِعاقِبَتِي ، وَقَدْ جَرَتْ مَقادِيرُكَ عَلَيَّ يا سَيِّدِي فِيما يَكُونُ مِنِّي إِلى آخِرِ عُمرِي مِنْ سَرِيرَتِي وَعَلانِيَّتِي وَبِيَدِكَ لا بِيَدِ غَيْرِكَ زِيادَتِي وَنَقْصِي وَنَفْعِي وَضَرِّي.
ترجمہ: خدایا! درود بھیج محمد و آل محمد پر اور جب میں تجھ سے دعا کروں تو میری دعا سن جب میں تجھے پکاروں تو میری پکار کو سن جب میں تجھ سے مناجات کروں تو مجھ پر توجہ فرما کہ تیرے ہاں تیزی سے آیا ہوں میں تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں اپنی بے چارگی تجھ پر ظاہر کر رہا ہوں تیرے سامنے نالہ و فریاد کرتا ہوں اپنے اس ثواب کی امید میں جو تیرے ہاں ہے اور تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے تو میری حاجت سے آگاہ ہے اور تو میرے باطن سے باخبر ہے دنیا اور آخرت میں میری حالت تجھ پرمخفی نہیں اور جو کچھ میں زبان پر لانا چاہتا ہوں اور جو حاجتیں میں بیان کرنا چاہتا ہوں، اور جس چیز کی میں اپنے انجام و عاقبت کے لئے امید رکھتا ہوں، وہ تجھ پر مخفی نہیں ہے؛ اور یقینا اے میرے سید! مجھ پر تیری تقدیر جاری ہوئی ہے ، ان امور کے بارے میں جو آخرِ عمر تک مجھ سے سرزد ہوگا، میرے رازدارانہ اور اعلانیہ اعمال میں سے؛ اور صرف تیرے ہاتھ میں ہے نہ کہ تیرے بغیر کسی اور کے ہاتھ میں، میری بیشیاں اور کمیاں، اور میرا سود و زیاں؛
تشریح:
مناجات شعبانیہ امام علی علیہ السلام کی مناجات ہے ۔ دعا اور مناجات میں فرق یہ ہے کہ دعا میں پکارا جاتا ہے جبکہ نزدیک والے سے انسان نجویٰ، سرگوشی اور مناجات کرتا ہے اور یہ وہ مناجات ہیں جو امام علی ؑ کی نسبت سے مشہور ہے آپ کے بعد تمام آئمہ علیھم السلام نے اس مناجات کا زم زمہ کیا ہے اور ان مناجات کے ذریعے سے خدا کو پکارا ہے۔
وَتَعْلَمُ ما في نَفْسي:
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے دل میں کیا ہے ۔
وَتَخْبُرُ حاجَتي
اور میرے دل کی حالت اور حاجت سے بھی باخبر ہے اور تو میرے ضمیر کی حالت بھی جانتا ہے۔
وَلا يَخْفى عَلَيْكَ اَمْرُ مُنْقَلَبي وَمَثْوايَ
اس جملہ کی دو طرح کے ترجمے ہوے ہیں تیرا امر پوشیدہ نہیں ہے ، نہ میرا آج کا حال پوشیدہ ہے اور نہ میرا کل کا حال پوشیدہ ہے، نہ میری دنیا کا حال پوشیدہ ہے اورنہ میری اخرت کا حال پوشیدہ ہےتو جانتا ہے کہ اس دنیا میں میرے ساتھ کیا ہوگا اور آخرت میں میرے ساتھ کیا ہوگا، یا میں ابھی کیا ہوں اور آئندہ کیا ہوں گا ان سب باتوں کا تجھے علم ہے۔
وَما اُريدُ اَنْ اُبْدِئَ بِهِ مِنْ مَنْطِقي، واَتَفَوَّهُ بِهِ مِنْ طَلِبَتي
اور جو حاجت میری زبان پر آنے والی ہے ابھی تک وہ میری زبان پہ نہیں آئی کہ اسے میری لبوں پہ آنے سے پہلے تو جانتا ہے
وَاَرْجُوهُ لِعاقِبَتي
اور جو میں امید و رجا رکھتا ہوں اورمیرے دل کی امید نےوہ شکل ابھی نہیں پائی ہوتی ان تمام باتوں کوتواس سے پہلے جانتا ہے۔
وَقَدْ جَرَتْ مَقاديرُكَ عَليَّ يا سَيِّدي۔۔۔
اے میرے رب اے میرے مالک تیری تقدیر مجھ پر نافذ ہے میری آخر عمر تک ان تمام چیزوں کو تو جانتا ہے جو میں پوشیدہ یا اعلانیہ انجام دیتا ہوں، میرے سِر(مخفی باتوں) کو بھی جانتا ہےاور آشکار کرنے والے اعمال کو بھی جانتا ہے۔
وَبِيَدِكَ لا بِيَدِ غَيْرِكَ :
سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے تیرے بغیر کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے نہ میرا نفع کسی کے ہاتھ میں ہے اور نہ میرا نقصان، نہ کوئی مجھے سود ( زیادہ) دے سکتا ہے اور نہ کم کرسکتا ہے۔ نہ کو ئی صحت دے سکتا ہے نہ کوئی مرض دے سکتا ہے، نہ کوئی ضرر دے سکتا ہے اور نہ فائدہ دے سکتا ہے۔
تقدیر الہی :
اللہ عالم ہے ،تمام اسرار بندگان سے آگاہ ہے۔ اس کے بعد تقدیر الٰہی ہے ، تمام امور تقدیر الٰہی کے مطابق چل رہے ہیں۔
آج ہم تقدیر کے بارے میں گفتگو کریں گے ۔ اور تیسری بات تمام نفع نقصان تیرے ہاتھ میں ہے تیرے علاوہ کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ اس ضمن میں ہم نے سب سے پہلے اس جملے کی تلاوت کی ہے ( وَتَعْلَمُ ما في نَفْسي،) تو میرے دل سے آگاہ ہے، میری ضرورت سے آگاہ ہے اور ان ضرورتوں کو دعا بن کر لب پر آنے سے پہلے یا اس تمنا کو دل میں آنے سے پہلےان تمام چیزوں سے باخبر ہے جیساکہ آیہ مجیدہ ہے:
وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ (یونس؛ 61)
"زمین اور آسمان میں موجود تما م ذرات اللہ کے علم میں ہیں اس سےکچھ پوشیدہ نہیں ہے۔”
"فَاِنَّکَ تَعْلَمُ خَائِنَة الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ”
خدا وہ ہے جو خائنۃ الاعین کو جانتا ہے۔ خائنۃ الاعین کیا ہے؟ یعنی وہ وائرس جو آنکھوں سے نظر نہیں آتا ہے خدا اس کو بھی جانتا ہے۔
یہاں خدا کے ہر چیز سے آگاہ ہونےکے بارے میں بات ہورہی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ایک داستان سب کو معلوم ہے ، جب آپ کو آتش نمرود میں پھینکا جارہا تھا تو جبرائیل آئے اور انہوں نے پوچھا ، کوئی حاجت ہے ؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا رب میری حاجت کو جانتا ہے:
حسبي من سؤالي علمه بحالي (البحار: 71 / 155 / 170.)
کیونکہ و ہ عالم ہے اس لئے مجھے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ آیا ہمیں مانگنا چاہیے یا نہیں ؟
یہ ایک الگ موضوع ہے ہم یہاں تک یہ بات کررہےتھےکہ جب امیرالمومنیؑن مناجات کررہےتھے ، وہ شخص جو اللہ کے انتہائی قریب اور معرفت والاہے ، اس ہستی کے لئے یہ صحیح ہے کہ (حسبي من سؤالي علمه بحالي)۔پھر وہ ہستیاں حتی کہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہر موقع پر اللہ سے سوال کرتے ہیں ، معلم بشریت کی زبان پر ہر وقت یہ جملہ ہوتا ہے
( رب زدنی علما) جس ہستی کو دنیا میں سب سے زیادہ علم عطا ہواپھر بھی ہر وقت یہ ذات سوال کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ہر چیز کا اللہ سے سوال ہونا چاہیے ۔ لیکن خدا وہ ہے جو علمه بحالي ہے یعنی سوال زبان پر لانے سے پہلے اس کے علم میں ہے ، اسی وجہ سے میں دوبارہ اس سے نہیں مانگ رہا۔ یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ہے لیکن ان باتوں کو اپنی جگہ رکھ کر سمجھنا ہو گا۔
قضا وقدر
وَقَدْ جَرَتْ مَقاديرُكَ عَليَّ يا سَيِّدي فيما يَكُونُ مِنّي اِلى آخِرِ عُمْري مِنْ سَريرَتي وَعَلانِيَتي
تیری تقدیر مجھ پر نافذ ہے میری زندگی کے آخر تک تمام معاملات کو تیری تقدیرچلارہی ہے ۔ پس( سوال یہ پیدا ہوتا ہے) اگرسب کچھ تقدیر سےچل رہاہے، ایک دن اس دنیا نے ختم ہونا ہے ، وائرس نے پھیلنا ہے اور خوف میں مبتلا کرنا ہے،پھر میری دعا کا فائدہ ہی کیا ہے؟ میں دعا کیوں کروں ؟ آیا قضا و قدر اور تقدیر الٰہی ہے یا نہیں اور اگر ہے تو میرا اس میں کیا کردار ہے؟ آج اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
تقدیر الٰہی قضا و قدر کو آپ ایک درخت کی مثال لیجئے، ایسا درخت جس کی شاخیں بہت زیادہ ہیں۔اوردعا بھی ان شاخوں میں سے ایک ہے۔ خود دعا بھی تقدیر الٰہی ہے۔ پس لوگ جب ان حالات میں مبتلا ہونگے تو احتیاط کریں گےتو اس سے محفوظ رہیں گے۔ اور وہ لوگ جو احتیاط نہیں کریں گے وہ محفوط نہیں رہیں گے۔ اسی طرح جو دعا کرینگے وہ محفوظ رہیں گے، اور جو دعا نہیں کریں گے وہ محفوظ نہیں رہیں گے( کیونکہ )پہلی بات دعاخود مصداق تقدیر الٰہی ہے۔
دوسری بات کہ دعا ، یعنی فلاں شخص کی موت ہونی ہے ، فلاں تاریخ کو اس نے مرنا ہے ، یہ تقدیر الٰہی ہے ۔ (احادیث میں ہے)
"إن الدعاء يرد القضاء، ينقضه كما ينقض السلك وقد ابرم إبراما” (الكافي -ج ٢ – الصفحة ٤٦٩)
دعا حتمی قضا کو اٹھا لیتی ہے ۔ میری ساری زندگی تقدیر الہی پر چل رہی ہے ، لیکن وہ مقادیر الٰہی بہت سی شاخیں رکھتی ہے اور ان میں سے اکثر ” اگر” ہے اگر احتیاط کروں تو بچ جائے گا اگر احتیاط نہ کروں تو نہیں بچوں گا، اگر سماجی فاصلہ رکھوں تو بچ جاوں گا اگر لوگوں سے ملتا رہوں تو وائرس میں مبتلا ہوجاوں گا۔ اسی طرح اگر تقوی اختیار کروں تو مجھے نجات ملے گی اگر تقوی اخیتار نہ کروں تو ہلاک ہوجاوں گا۔ ان تمام "اگر” میں کس کو اختیار کرنا ہے وہ علم الہی میں ہے لیکن آپ مجبور نہیں ہیں۔ اگر لکھا ہوا بھی ہو کہ اس نے یہ کام نہیں کرنا ، احتیاط نہیں کرنی،تو احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے یہ مرجائے گا، لیکن اگریہ دعا کرتا ہے ، دعا خود کرتا ہے یا والدین یا کوئی مومن وغیرہ تو دعا سے یہ قضا ء حتمی بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا (حدیث میں ہے) کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب لکھا ہوا ہے تو پھر دوا اور دعا کا کیا فائدہ ہے؟ میں دعا اور دوا کیوں کروں؟ کیونکہ جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ اس طرح کی باتیں کچھ علماء کرتے ہیں جبکہ یہ جہالت کی باتیں ہیں۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں جو کچھ ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا احتیاط کی ضرورت نہیں ہے، ہم اجتماعات کریں گے۔ جبکہ ایسا نہیں کرنا چاہیے ہمیں احتیاط کرنے کہ ضرورت ہے اور دعاکرنے کی بھی ضرورت ہے اس لئے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دعا فرمایا،جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ دوا اور دعا کی کیا ضرورت ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ” دعا ہی تقدیر الٰہی ہے” یہاں ایک سوال ہے کہ ایک عالم بالا ہے جہاں تقدیر لکھی جاتی ہےجہاں لوح محفوظ ہے وہاں پر فیصلے ہورہے ہیں۔ اور دوسرا یہ عالم سفلیٰ جو پست ہے جس میں ہم لوگ موجود ہیں۔ آیا یہ عالم سفلیٰ جو پست ہے یہ اثر گزار ہے اس عالم بالا پر جہاں کوئی فیصلہ ہوا ہے اور یہاں سے اس فیصلے کے خلاف کوئی درخواست، دعا و مناجات کی صورت میں جاتی ہے تو کیا اس درخواست کی بنا پر فیصلہ تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ یعنی آیا انسان کا ارادہ اس کی خواہش و تمنا اس عالم میں تبدیلی لاسکتی ہے یا نہیں؟ یہاں آپ قضا و قدر سمجھ جائیں گے۔
بداء
قضا و قدر کے ساتھ بداء بھی ہے ۔ بداء کے بارے میں بہت سارے لوگوں نے پڑھے بغیر بہت کچھ بولا ہے ۔
تقدیر یعنی قضا و قدر جو اللہ نے لکھ دیا ہے وہ حتمی بھی کیوں نہ ہو دعا تبدیل کرسکتی ہے۔ اور اگر ایک چیز کا فیصلہ ہوگیا ہے کہ مثلا فلاں شخص کو فلاں دن موت آنی ہے اس کے بعد دعا کے ذریعے اس کی موت ٹل جائے تو اسے بداء کہتے ہیں۔
آیا بداء ممکن ہے؟
جیساکہ نسخ ہے کہ ایک حکم آنے کے کچھ عرصہ بعد وہ حکم منسوخ ہوگیا اس کہ جگہ نیا حکم آگیا، یہ قرآن، امور تشریعی اور احکام میں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تکوینیات میں( زندگی اور موت، صحت اور بیماری وغیرہ میں ) جب خدا نے لکھ دیا ہے کہ یہ مریض ہوگا اور ایک سال مریض رہے گا پھر یہ دعا کرے اس دعا کی وجہ سے مریض شفایاب ہوجائے گا، اس طرح سے میری چاہت اور تمنا اس چیز کو تبدیل کرسکتی ہے۔تو کیا بداء ممکن ہے ؟
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَعِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ (سورہ رعد: 39)
اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔
(یعنی) ام الکتاب میں لکھ دیا ہے ، لکھنے اور حتمی کرنے کے بعد بھی خدا جسے چاہے مٹاسکتا ہے اور جسےچاہےبرقرار رکھے۔
خدا کیسے چاہے گا اور کیسے نہیں چاہے گا؟
یہ آپ کی دعا کے مطابق ہو گا یعنی آپ کی دعا کے مطابق خدا ارادے میں تبدیلی کرتا ہے، تقدیر، قضا و قدر میں تبدیلی کرتا ہے۔ اسی لئے سید الشھدا امام حسین علیہ السلام دعا عرفہ میں فرماتے ہیں:
"إِلـهِي إِنَّ اخْتِلافَ تَدْبِيرِکَ، وَ سُرْعَةَ طَواءِ مَقادِيرِکَ”
ائے اللہ جب عارفین تیری تدبیر میں اختلاف، تقدیر میں دگر گونی کو دیکھتے ہیں کہ تیری تقدیر ایک انسان کے تڑپنے، مضطر ہونے اور دعا و مناجات کرنے سے تبدیل ہوتی ہے تقدیر بدل جاتی ہے تو پھر تو عارف سکوت میں آجاتا ہے کہ ساری کائنات کا مدبر تو ہے تقدیر لکھنے والا تو ہے ، لیکن تقدیر ساز فیصلے انسان کے ارادے اور عمل کے حوالے کردیا ہے۔ انسان کو ناامیدی نہیں رہتی ۔ سب سے بڑی ناامیدی کیا ہے کہ خدا نےجو لکھ دیا ہے بس وہی ہونا ہے ایسا نہیں ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو وہی ہوگا جو تو چاہتا ہے ۔ وہ ہوگا جو میں چاہوں گا اور یہ مشیت الٰہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میری چاہت اللہ کی مشیت پر بھاری آجائے گی ، جیساکہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ علم دو طرح کے ہیں:
ایک علم غیب ہے جو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسی میں سے بداء ہے۔اس بات کو کوئی نہیں جانتا کہ جو فیصلے ہوگئے ہیں وہ کس کی التماس ،دعا و مناجات پر گریہ و زاری پر کب تبدیل ہونگے ،خدا کس کو مہلت دے گا کس کو نہیں دے گا یہ سب علم غیب ہے جسے کوئی نہیں جانتا۔
علم کا دوسرا حصہ: جو خدا نے ملائکہ ، رسولوں، اور انبیاء کو عطا کیا ہے ۔
پس کائنات میں دو قسم کے فیصلے ہیں ایک وہ جو ناقابل تغیر ہیں اور کچھ فیصلے ایسے ہیں جس میں تغیر اور تبدیلی ممکن ہیں ۔ جس میں تغیر ممکن نہیں ہے وہ یہ ہے :
"وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّة اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا” (احزاب: ۶۲)
دستور الہی میں کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، دوسرا وہ فیصلے کہ جس میں تبدیلی ممکن ہے ۔ یہاں پر ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے مشکل پیش آئے۔مگر اس آیہ کریمہ کو سب مانتے ہیں :
إِنَّ اللَّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلاَ مَرَدَّ لَهُ (رعد: 11)
خدا اس قوم کی تقدیر کو نہیں بدلتا جسے اپنی تقدیر بدلنے کا خیال نہ ہو۔ یعنی میں نے اپنی تقدیر کو بدلنا ہے تو میں بدل سکتا ہوں ، اس کے لئے مجھے ارادہ کرنا ہوگا، خود ہمت کرنی ہوگی، عمل کرنا ہوگا ۔ جب یہ سب کریں گے تو خدا تقدیر بدل دے گا۔ پس اگر خود عمل کریں، محنت کریں تو تغیر ہوگا اگر نہیں کریں گے تو نہیں ہوگا۔
مکتب اہلبیت بداء کا قائل ہے، مکتب اہل بیت نے بدا ء کا تعارف کرایا ہے ۔ باقی لوگ بداء کا قائل نہیں ہیں ، بداء کو سمجھا ہی نہیں ہے، اور بغیر سمجھے انکار کیا ہے۔ یہ احسان عظیم اہل بیت علیھم السلام نے ہم پر کیا ہے کہ انہوں نے بداء سمجھائے ہیں، بدا سمجھنے کا مطلب یہی ہے کہ انسان مایوس نہیں ہوسکتا۔ آج کل اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں کہ اس وباء سے لوگ مرجائیں گے، انسانی زندگی رک جائےگی وغیرہ وغیرہ ۔۔ اور یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ جو بداء کا قائل ہوگا وہی دعا کرے گا وہ کبھی بھی اور کسی بھی مرحلے میں مایوس نہیں ہوگا کیونکہ اس کو یقین ہے کہ اللہ کسی بھی مرحلے میں فیصلہ تبدیل کرسکتا ہے، کسی کو موت کےدہانے سے بھی واپس لاسکتا ہے ۔ خدا قادر مطلق ہے ، اس کا اختیار تمام چیزوں پر ہے ۔ دعاہمارے خیالات میں آنے سے پہلے اس کے علم میں ہوتی ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ جیساکہ صحیح ترمذی میں ہے:کہ قضا کو دعا ہی رد کر سکتی ہے اور نیکی کے بغیر کوئی بھی چیز عمر کو تبدیل نہیں کرسکتی۔
لا يرد القضاء إلا الدعاء، ولا يزيد في العمر إلا البر وإن الرجل ليحرم الرزق بخطيئة يعملها (سنن ترمذي ، باب مَا جَاءَ لاَ يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلاَّ الدُّعَاءُ، حدیث نمبر: 2139)
دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی اگر کسی رزق سے کوئی محروم ہوجائے تو اپنے عمل کی وجہ محروم ہوتا ہے۔
اسی کا نام بداء ہے ۔ یعنی نیکی ہی عمر کو بڑھا سکتی ہے۔ پس موجودہ حالات میں اگر آپ نے اپنی عمر کو بڑھانا ہے توپھر نیکی کرنی ہوگی، صدقہ و خیرات دینے ہونگے غریبوں کا خیال رکھنا ہوگا۔
یہاں جب ہم کہتے ہیں کہ خدا کو بداء ہوا ہے تو خدا کا فیصلہ کرنا کچھ اور ہے اور ہمارا فیصلہ کرنا کچھ اور ہے ہمیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح خدا کا علم ہونا کچھ اور ہے اور ہمارا عالم ہونا کچھ اور ہے یعنی تمام امور میں خدا عالم ہے۔اور خدا کا فیصلہ ہمارے فیصلے سے مختلف ہے۔
کچھ لوگ سوجھتے ہیں کہ جس طرح ہمارے فیصلے تبدیل ہوتے بلکل اسی طرح خدا کےفیصلے بھی تبدیل ہوتے ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کو تبدیلی کا علم شروع سے ہوتا ہے۔ جبکہ ہمیں تبدیلی کا علم نہیں ہوتا۔
نوٹ:( مناجات شعبانیہ کی تشریح و توضیح پر مشتمل یہ دروس علامہ انور علی نجفی نے ان ایام میں آن لائن دئیے تھے جب دنیا کرونا وائرس کی مشکل سے ہر طرف سے دو چار تھی۔ اس وجہ سے درمیان میں بعض اوقات کچھ جملے انہی ایام کی مناسبت سے بیان ہوئے ہیں۔)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button