اخلاق رذیلہاخلاقیات

نفاق کی اجمالی شناخت (حصہ اول)

مؤلف: سید  احمد خاتمی
1۔ نفاق شناسی کی ضرورت
2۔ نفاق کی لغوی و اصطلاحی معانی
3۔ اسلام میں نفاق کے وجود آنے کی تاریخ
نفاق شناسی کی ضرورت
دشمن شناسی کی اہمیت صاحبان ایمان کے وظائف میں سے ایک اہم وظیفہ خصوصاً
اسلامی نظام و قانون میں دشمن کی شناخت و معرفت ہے۔
اس میں کوئی تردید نہیں کہ اسلامی نظام کو برقرار رکھنے اور اس کے استحکام،
پائداری کے لئے اندرونی (داخلی) و بیرونی (خارجی) دشمنوں نیز، ان کے حملہ ور
وسائل کی شناخت لازم و ضروری ہے، دشمن اور ان کے مکر و فریب کو پہچانے بغیر
مبارزہ کا کوئی فائدہ نہیں ہیں، بعض اوقات دشمن کے سلسلہ میں کافی بصیرت و
ہوشیاری نہ ہونے کے سبب، انسان دشمن سے رہائی حاصل کرنے کے بجائے دشمن ہی
کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہر اقدام سے ہیں بصیرت و ہوشیاری کو بنیادی شرط
بتایا ہے، آپ فرماتےہیں:
العامل علی غیر بصیرة کالسائر علی غیر الطریق، لا یزیده سرعة السیر الا بعداً عن
الطریق
بغیر بصیرت و آگاہی کے عمل کو انجام دینے ولا ایسا ہی ہے جیسے راستہ کو بغیر
پہچانے ہوئے چلنے والا، کہ اس صورت میں اصل ہدف و مقصد اور راہ سے دور ہوتا
چلا جاتا ہے۔(اصول کافی، ج1، ص43)
اسی ضرورت کی بنا پر قرآن میں پندرہ سو آیات سے زیادہ دشمن کی شناخت کے سلسلہ
میں نازل ہوئی ہیں، خدا وند عالم ان آیات میں، مومنین اور نظام اسلامی کے مختلف
دشمنوں کی (جن و انس میں سے) نشاندہی کی ہے نیز ان کی دشمنی کے انواع و اقسام
حربے اور ان سے مقابلہ کرنے کے طور و طریقہ کو بتایا ہے، اور اس بات کی مزید
تاکید کی ہے کہ مسلمان ان سے دور رہیں اور برائت اختیار کریں:

یا ایها الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی و عدوکم اولیاء
اے صاحبان ایمان اپنے اور میرے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔
آیات قرآن کی بنا پر مومنین کے دشمنوں کو بنیادی طور پر چار نوع و گروہ میں تقسیم
کیا جاسکتا ہے
نوع اوّل:شیطان اور اس کے اہل کار
انّ الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدوا
یقیناً شیطان تم سب کا دشمن ہے، تم بھی اسے دشمن بنائے رکھو۔
بعض قرآن کی آیات میں، خداوند عالم نے انسان خصوصاً مومنین کے سلسلہ میں شیطان
کے آشکار کینے اور دشمنی کو عدو مبین (آشکار دشمن) سے تعبیر کیا ہے، اللہ انسان کو
منحرف کرنے والے شیطان کے مکر و فریب، حیلے کو شمار کرتے ہوئے، مومنین سے
چاہتا ہے کے وہ شیطان کے راستے پر نہ چلیں۔
یا ایها الذین آمنوا لا تتبعوا خطوات الشیطان
اے صاحبان ایمان شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو۔
نوع دوّم:
قرآن کی نظر میں مومنین کے دشمنوں میں ایک دشمن کفار ہیں۔
انّ الکافرین کانوا لکم عدوا مبینا
کفار تمہارے آشکار و عیاں دشمن ہیں۔
نوع سوم:
بعض اہل کتاب صاحبان ایمان و اسلام کے دشمنوں میں بعض اہل کتاب خصوصاً یہودی
دشمن ہیں، شہادت قرآن کے مطابق، صدر اسلام سے اب تک اسلام و مسلمان کے کینہ
توز، عناد پسند دشمن یہودی رہے ہیں، قرآن ان سے دوستانہ روابط برقرار کرنے کو منع
کرتا ہے۔
لتجدنّ اشدّ الناس عداوة للذین آمنوا الیہود
یقیناً آپ مومنین کے سلسلہ میں شدید ترین دشمن یہود کو پائیں گے۔

نوع چہارم:
منافقین قرآن مجید نے منافقین کے اصلی خدو خال اور خصوصیت نیز ان کی خطرناک
حرکتوں کو اجاگر کرنے کے سلسلہ میں بہت زیادہ اہتمام اور بندوبست کیا ہے، تین سو
سے زیادہ آیات میں ان کے طرز عمل کو افشا کرتے ہوئے مقابلہ کرنے کی راہ اور
طریقہ کو پیش کیا گیا ہے۔
یہ قرآنی آیتیں جو تیرہ سوروں کے ذیل میں بیان کی گئی ہیں بحث حاضر، قرآن میں
چہرۂ نفاق کا اصلی محور و موضوع ہیں۔
گرچہ اہل بیت اطہار علیہم السلام ارواحنا لہم الفداء کے زرین اقوال بھی روایات و
احادیث کی شکل میں تناسب مباحث کے اعتبار سے پیش کئے جائیں گے۔
قرآن میں نفاق و منافقین
منافقین کی خصوصیت و صفات کی شناخت کے سلسلہ میں، قرآن اکثر مقام پر جو تاکید
کر رہا ہے وہ تاکید کفار کے سلسلہ میں نظر ہیں آتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار علی
الاعلان، مومنین کے مد مقابل ہیں، اور اپنی عداوت خصوصیت کا اعلانیہ اظہار بھی
کرتے ہیں، لیکن منافقین وہ دشمن ہیں جو دوستی کا لباس پھن کر اپنی ہی صف میں
مستقر ہوتے ہیں، اور اس طریقہ سے وہ شدید ترین نقصان اسلام اور مسلمین پر وارد
کرتے ہیں، منافقین کا مخفیانہ و شاطرانہ طرز عمل ایک طرف، ظواہر کی آراستگی
دوسری طرف، اس بات کا موجب بنتی ہے کہ سب سے ہیں ان کی شناخت کے لئے
خاص بینایی و بصیرت چاہیے، دوسرے ان کا خطرہ و خوف آشکار دشمن سے کہیں
زیادہ ہوتا ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
کن للعدو المکاتم اشدّ حذر منک للعدو المبارز
آشکار و ظاہر دشمن کی بہ نسبت باطن و مخفی دشمن سے بہت زیادہ ڈرو۔
(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج20ص311)
آیت اللہ شہید مطہری، معاشرہ میں نفاق کے شدید خطرے نیز نفاق شناسی کی اہمیت کے
سلسلہ میں لکھتے ہیں۔
میں پہلے سمجھتا کہ کوئی نفاق کے خطرے اور نقصان جو کفر کے خطرے اور ضرر
سے کہیں زیادہ شدید تر ہے، تردید کا شکار ہو، اس لئے کہ نفاق ایک قسم کا کفر ہی ہے،

جو حجاب کے اندر ہے جب تک حجاب کی چلمن اٹھے اور اس کا مکروہ و زشت چہرہ
عیاں ہو، تب تک نہ جانے کتنے لوگ دہوکے و فریب کے شکار اور گمراہ ہوچکے ہوں
گے، کیوں مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام کی پیش قدمی کی حالت، رسول
اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرق رکھتی ہے، ہم شیعوں کے عقیدہ کے مطابق امیر
المومنین علی علیہ السلام کا طریقۂ کار، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا
ہیں ہے، کیوں پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش قدمی اتنی سریع ہے کہ ایک
کے بعد ایک دشمن شکست سے دوچار ہوتے جارہے ہیں، لیکن جب مولائے کائنات امیر
المومنین علی علیہ السلام دشمنوں کے مد مقابل آتے ہیں، تو بہت ہی فشار و مشکلات میں
گرفتار ہوجاتے ہیں، ان کو رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی پیش رفت حاصل
ہیں ہوتی، صرف یہی ہیں بلکہ بعض مواقع پر آپ کو دشمنوں سے شکست کا بھی سامنا
کرنا پڑتا ہے، ایسا کیوں ہے؟!
صرف اس لئے کہ پیامبر عظیم الشان کا مقابلہ کافروں سے تھا اور امیر المومنین علیہ
السلام کا مقابلہ منافقین گروہ سے تھا۔
(مسئلہ نفاق: بنابر نقل نفاق یا کفرپنہان، ص52)
سورۂ توبہ کی آیت نمبر 101 سے استفادہ ہوتا ہے کہ کبھی چہرۂ نفاق اس قدر غازۂ ایمان
سے آراستہ ہوتا ہے کہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی عادی علم کے
ذریعہ اس کی شناخت مشکل ہوجاتی ہے، اللہ ہے جو وحی کے وسیلہ سے اس جماعت کا
تعارف کراتا ہے۔
وممّن حولکم من الاعراب منافقون و من اهل المدینة مردوا علی النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم
سنعذّبهم مرّتین یردّون الی عذاب عظیم
اور تمہارے گرد دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق
میں ماہر اور سرکش ہیں تم ان کو ہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں ہم عنقریب ان
پر دہرا عذاب کریں گے اس کے بعد وہ عذاب عظیم کی طرف پلٹادئے جائیں گے۔
مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام، اسلامی معاشرہ میں نفاق کے
آفات و خطرات کا اظہار کرتے ہوئے نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
ولقد قال لی رسول الله: انی لا اخاف علی امتی مومنا ولا مشرکا امّا المؤمن فیمنعه الله
بایمانه و امّا المشرک فیقمعه الله بشرکه ولکنی اخاف علیکم کل منافق الجنان، عالم اللسان
یقول ما تعرفون و یفعل ما تنکرون
رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے:

میں اپنی امت کے سلسلہ میں نہ کسی مومن سے خوف زدہ ہوں اور نہ مشرک سے،
مومن کو اللہ اس کے ایمان کی بنا پر برائی سے روک دے گا اور مشرک کو اس کے
شرک کی بنا پر مغلوب کر دے گا، سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم اور
دل کے منافق ہیں کھتے وہی ہیں، جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہ ہیں جسے تم برا
سمجھتے ہو۔
(نہج البلاغہ، نامہ27)
اسی نفاق کے خدو خال کی پیچیدگی کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام کی زمام داری
کی پانچ سال کی مدت میں دشمنوں سے جنگ کی مشکلات کہیں زیادہ پیامبر اسلام صلی
اللہ علیہ آلہ وسلم کی مشکلات و زحمات سے تھیں۔
پیامبر عظیم الشان ان افراد سے بر سر پیکار تھے جن کا نعرہ تھا بت زندہ باد لیکن امیر
المومنین حضرت علی علیہ السلام ان افراد سے مشغول مبارزہ و جنگ تھے جن کی
پیشانیوں پر کثرت سجدہ کی بنا پر نشان پڑے ہوئے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام ان افراد سے جنگ و جدال کر رہے تھے جن کی رات گئے
تلاوت قرآن کی صداء دلسوز حضرت کمیل علیہ السلام جیسی فرد پر بھی اثر انداز
ہوگئی تھی۔
(بحار الانوار، ج33، ص399)
آپ کا مقابلہ ایسے صاحبان اجتہاد سے تھا جو قرآن سے استنباط کرتے ہوئے آپ سے لڑ
رہے تھے۔
(سفینۃ البحار، ج1، ص380)
وہ افراد جو راہ خدا میں معرکہ و جہاد کے اعتبار سے درخشاں ماضی رکھتے تھے یہاں
تک کہ بعض کو تمغہ جانبازی و فدا کاری بھی حاصل تھا، لیکن دنیا پرستی نے ان
صاحبان صفات و کردار کو حق کے مقابل لاکھڑا کیا۔
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر کو (سابقہ، فداکاری و معرکہ آرائی دیکھتے
ہوئے) سیف الاسلام کے لقب سے نوازا تھا اور طلحہ جنگ احد کے جانباز و دلیر تھے،
ایسے رونما ہونے والے حالات و حادثات کا مقابلہ کرنا علوی بصیرت ہی کا کام ہے۔
قابل توجہ یہ ہے کہ مولائے کائنات نے نہج البلاغہ میں ایسے افراد سے جنگ کرنے کی
بصیرت و بینائی پر افتخار کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرے علاوہ کسی بھی فرد کے اندر
یہ صلاحیت نہ تھی جو ان سے مقابلہ و مبارزہ کرتا۔

ایها الناس انی فقات عین الفتنة ولم یکن لیجتری علیها احد غیری
لوگو! یاد رکہو میں نے فتنہ کی آنکھ کو پہوڑ دیا ہے اور یہ کام میرے علاوہ کوئی دوسرا
انجام ہیں دے سکتا ہے۔
(نہج البلاغہ، خطبہ93)
قرآن مجید حکم دے رہا ہے کے اپنے آشکار و مخفی دشمنوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے
پوری طاقت سے مستعدر ہو اور طاقت حاصل کرو تاکہ تمہاری قدرت و اقتداران کی
خلاف ورزی روکنے کا ذریعہ ہوجائے۔
واعدّوا لهم ما استتطعتم من قوة و من رباط الخیل ترھبون به عدّو الله و عدوکم آخرین من
دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم
اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو
جس سے اللہ کے دشمن اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم ہیں جانتے ہو اور اللہ
جانتا ہے (منافقین) سب کو خوفزدہ کردو۔
اس آیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام میں طاقت و قدرت کا حصول تجاوز و قانون
کی خلاف ورزی روکنے کا وسیلہ ہے نہ تجاوز گری کا ذریعہ۔
منافقین ان افراد میں سے ہیں جو ہمیشہ اسلامی نظام و سر زمین پر تعرض و تجاوز کا
خیال رکھتے ہیں لہذا نظامی و انتظامی اعتبار سے آمادگی اور معاشرہ کا صاحب بصارت
و دانائی ہونا سبب ہوگا کہ وہ اپنے خیال خام سے باز رہیں، اس نکتہ کا بیان بھی
ضروری ہے کہ قوت و قدرت کا حصول (آمادگی) صرف جنگ و معرکہ آرائی پر
منحصر نہ ہو اگر چہ جنگ ورزم میں مستعد ہونا، اس کے ایک روشن و واضح مصادیق
میں سے ہے، لیکن دشمن کی خصوصیت، اس کے حملہ آور وسائل کی شناخت و پہچان
کے لئے بصیرت کا وجود، حصول قدرت و اقتدار کے ارکان میں سے ہے۔
جب کہ منافقین کا شمار خطرناک ترین دشمنوں مں ہوتا ہے لہذا، نفاق اور اس کی
خصوصیت و صفات کی شناخت ان چند ضرورتوں میں سے ایک ہے جسے عالم اسلام
ہمیشہ قابل توجہ قرار دے۔
اس لئے کہ ممکن ہے ہزار چہرے والے دشمن (منافق) سے غفلت ورزی، شاید اسلامی
نظام و مسلمانوں کے لئے ایسی کاری ضرب ثابت ہو جو التیام و بہبود کے قابل ہی نہ ہو۔
نفاق کے لغوی و اصطلاحی معانی

لفظ نفاق کا ریشہ اور اس کے اصل لفظ نفاق کے معنی، کفر کو پوشیدہ، اور ایمان کا
ظاہر کرنا ہے، نفاق کا استعمال اس معنی میں پہلی مرتبہ قرآن میں ہوا ہے، عرب میں
اسلام سے قبل اس معنی کا استعمال ہیں تھا، ابن اثیر تحریر کرتے ہیں:
وهو اسم لم یعرفه العرب بالمعنی المخصوص وهو الذی یستر کفره و یظهره ایمانه
(نہایۃ، ابن اثیر، بحث ;نفق; و نیز: لسان العرب، ج10، ص359)
لفظ نفاق کا اس خاص معنی میں استعمال لغت کے اعتبار سے چار احتمال ہوسکتا ہے:
پہلا احتمال:
یہ ہے کہ نفاق بمعنی اذھاب و اہلاک کے ہیں، جیسے (نفقت الدّابۃ) کہ حیوان کے برباد و
ہلاک ہوجانے کے معنی میں ہے۔
نفاق کا اس معنی سے تناسب یہ ہے کہ منافق اپنے نفاق کی بنا پر اس میت کے مثل ہے
جو برباد و تباہ ہوجاتی ہے۔
دوسرا احتمال:
نفاق ذیل عبارت سے اخذ کیا گیا ہے:
نفقت لسلعة اذا راجت و کثرت طلابها
وہ سامان جو بہت زیادہ رائج ہو اور اس کے طلب گار بھی زیادہ ہوں تو یہاں پر لفظ
نفق; کا استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر اہل لغت کا اصطلاحی مفہوم سے مرتبط ہوتے
ہوئے، نفاق یہ ہے کہ منافق ظاہر میں اسلام کو رواج دیتا ہے، کیوں کہ اسلام کے طلب
گار زیادہ ہوتے ہیں۔
تیسرا احتمال:
نفاق، زمین دوز راستہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
النفق سرب فی الارض له مخلص الی المکان
اس اصل کے مطابق منافق ان افراد کے مثل ہے جو خطرات کی بنا پر زمین دوز راستہ
(سرنگ) میں مخفی ہوجائے، یعنی منافق بھی اسلام کے لباس کو زیب تن کرکے خود کو
محفوظ کرلیتا ہے اگر چہ مسلمان ہیں ہوتا ہے۔
چوتھا احتمال:

نفاق کا ریشہ;نافقاء ہے، صحرائی چوہے اپنے گہر کے لئے دو راستہ بناتے ہیں ایک
ظاہر و آشکار راستہ، اس کا نام;قاصعاء; ہے، دوسرا مخفی و پوشیدہ راستہ، اس کا نام
;نافقاء; ہے، جب صحرائی چوھا خطرہ کا احساس کرتا ہے تو، قاصعاء سے داخل ہوکر
نافقاء سے فرار کرتا ہے۔
اس احتمال کی بنا پر، منافق ہمیشہ خروج کے لئے دو راستہ اپناتا ہے، ایمان پرکبھی بھی
ثابت قدم ہیں رہتا اگر چہ اس کا حقیقی راستہ کفر ہے لیکن اسلام کا ظاہر کر کے اپنے کو
خطرے سے بچا لیتا ہے۔
ابتدا میں دو احتمال یعنی، نفاق بمعنی ہلاک ہونے اور ترویج پانے کے سلسلے میں علماء
لغت کی طرف سے کوئی تائید ہیں ملتی ہے، لہذا ان معانی سے اعراض کرنا چاہیے،
لیکن تیسرے اور چوتھے احتمال میں سے کون سا احتمال اساسی و بنیادی ہے اس کے
لئے مزید بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔
تمام مجموعی احتمالات سے ایک نکتہ ضرور سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ نفاق کے معانی
میں دو عنصر قطعاً موجود ہے۔
1۔ عنصر دورخی 2۔عنصر
پوشیدہ کاری
اس بنا پر نفاق کے معانی میں دو رخی و پوشیدہ کاری کا بھی اضافہ کردینا چاہیے،
منافق وہ ہے جو دو روئی کا حامل ہوتا ہے، اور اپنی صفت کو پوشیدہ بھی رکھتا ہے۔
قرآن و احادیث میں نفاق کے معانی روایات و قرآن میں نفاق دو معانی اور دو عنوان سے
استعمال ہوا ہے
1۔ اعتقادی نفاق
قرآن و حدیث میں نفاق کا پہلا عنوان اسلام کا ظاہر کرنا، اور باطن میں کافر ہونا، اس
نفاق کو اعتقادی نفاق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
قرآن میں جس مقام پر بھی نفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے یہی معنی منظور نظر ہے، یعنی
کسی فرد کا ظاہر میں اسلام کا دم بھرنا، لیکن باطن میں کفر کا شیدائی ہونا۔
سورہ منافق کی پہلی آیت اسی معنی کو بیان کر رہی ہے۔
اذا جاءک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله والله یعلم انک لرسوله والله یشهد ان المنافقون
لکاذبون

پیغمبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ
کے رسول ہیں، اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے
کے یہ منافقین اپنے قول میں جھوٹے ہیں۔
سورہ نساء میں منافقین کی باطنی وضعیت اس طریقہ سے بیان کی گئی ہے۔
و دّو لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء
یہ منافقین چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ہوجاؤ اور سب برابر ہوجائیں۔
اس بنیاد پر امکان ہے کہ مسلمانوں میں بعض افراد ایسے ہوں جو اسلام کا اظہار کرتے
ہوں اور باطن میں دین اور اس کی حقانیت پر اعتقاد نہ رکھتے ہوں۔
لیکن ان کے اس فعل کا محرک کیا ہے؟ اس کا ذکر تاریخ نفاق کی فصل میں بیان ہوگا،
اس نوعیت کے افراد کا فعل نفاق ہے اور ان کو منافق کہا جاتا ہے۔
یقیناً بعض افراد کا اسلام، جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے اسی زمرہ میں آتا
ہے، مثال کے طور پر ابوسفیان کا اسلام، پیامبر عظیم الشان کے بعد کے واقعات،
خصوصاً عثمان کے دورہ خلافت میں ظاہر ہوجاتا ہے کہ، ان کا اسلام چال بازی اور
مکاری سے لبریز تھا، آہستہ آہستہ خلافتی ڈھانچے میں اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے اسلام
کے پردے میں کفر ہی کی پیروی کرتے تھے، یہاں تک کہ عثمان کے عصر خلافت میں
ابوسفیان، سید الشہداء حضرت حمزہ علیہ السلام کی قبر کے پاس آکر کھتا ہے، اے
حمزہ! کل جس اسلام کے لئے تم جنگ کر رہے تھے، آج وہ اسلام گیند کے مثل میری
اولاد میں دست بدست ہو رھا ہے۔
(قاموس الرجال، ج10، ص89)
ابوسفیان، خلافت عثمان کے ابتدائی ایام میں خاندان بنی امیہ کے اجتماع میں اپنے نفاق کا
اظہار یوں کرتا ہے، خاندان تمیم وعدی (ابوبکر و عمر کے بعد) خلافت تم کو نصیب
ہوئی اس سے گیند کی طرح کھیلتے رہو اور اس گیند (خلافت) کے لئے قدم، بنی امیہ
سے انتخاب کرو، یہ خلافت صرف سلطنت و بشر کی سرداری ہے اور جان لو کہ میں ہر
گز جنت و جہنم پر ایمان ہیں رکھتا ہوں ۔
(الاصابہ، ج4، ص88)
جس وقت ابوبکر نے امور خلافت کو اپنے ہاتھ میں لیا ابوسفیان چاہتا تھا کہ مسلمانوں
کے درمیان اختلاف و تفرقہ پیدا ہوجائے اور اسی غرض کے تحت مولائے کائنات علی
ابن ابی طالب علیہ السلام سے حمایت و مساعدت کی پیشکش کرتا ہے لیکن حضرت علی

علیہ السلام اس کو اچھے طریقہ سے پہچانتے تھے، پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا: تم
اور حق کے طرفدار؟! تم تو روز اوّل ہی سے اسلام و مسلمان کے دشمن تھے آپ نے
اس کی منافقانہ بیعت کے دراز شدہ دست کو رد کرتے ہوئے چہرہ کو موڑ لیا۔
(تفسیر سورہ توبہ و منافقون)
بہر حال اس میں کوئی شک ہیں کہ ابوسفیان ان افراد میں سے تھا جن کے جسم و روح،
اسلام سے بیگانے تھے اور صرف اسلام کا اظہار کرتا تھا۔
(اقتباس از قرآن اور چہرۂ منافق)
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button