اخلاق حسنہاخلاقیات

نہج البلاغہ سے جوان نسل کی فکری اور ذہنی تربیت کے اصول

محمد حسنین امام
مقدمہ:
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انسان کی ترقی کا دارومدار فکری استعداد اور ذہنی صلاحیتوں پر ہے اوروسعت نظری کی وجہ سے علوم و فنون کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں بلکہ نہایت سرعت کے ساتھ کامیابی کی منازل طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ مدبر کائنات نےقرآن مجید میں کئی مقامات پر تدبر و تفکر کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ انفس و آفاق میں اس غور و خوض کے پس پردہ تربیت کا عنصر پروان چڑھ رہا ہوتا ہے۔ پیدائش کے مرحلے سےلیکر ادھیڑ عمر تک انسان جس دور میں اپنی نمو ،فکر اور طاقت کے کمال درجے پر ہوتا ہے وہ جوانی کی عمر ہےجو کہ انسانی تربیت کی سیڑھی کا پہلا زینہ ہے۔ چناچہ اسی بات کی اہمیت کے پیش نظر امیر المومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
إنما قلب الحدث كالأرض الخالية ما ألقي فيها من شيء قبلته
جوان کا دل اس خالی زمین کی مانند ہوتا ہے جس میں جو بیج ڈالا جاتا ہے اسے قبول کر لیتا ہے ۔
نہج البلاغہ،مکتوب31
لغوی معنیٰ:
علامہ زبیدی تاج العروس میں لفظ تربیت کے متعلق رقمطراز ہیں :
"تربیت” یعنی رب ،یرب، ربا سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی انتظام کرنا ، پرورش کرنا، پالنا اور بالادست ہونا ہے ، اور باب تفعیل سے ربا، یربی، تربیۃ اسی سے کہا جاتا ہے ۔
ورب ولده والصبی یربه ربا رباء رباه أی أحسن القیام عليه ووليه حتی أدرک أی فارق الطفولية کان ابنه أو لم یکن
” اس نے اپنے بچے کی نگرانی دیکھ بھال اور اس وقت تک پرورش کی کہ وہ جوان ہوگیا ”
رب الولد
تاج العروس ، جلد 1 ، ص 506
سے مراد لڑکے کے سن بلوغت پہنچنے تک پرورش کرنا ہے۔
تربیت کا اصطلاحی معنیٰ:
اصطلاح میں تربیت سے مراد انسان کی پوشیدہ اور چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔
اسے پستی سے نکال کر بلندی اور تکامل کی راہ پر گامزن کرنا اور اسے آگے بڑھنے کے لیے جن صفات کی ضرورت ہو ان کی دیکھ بھال کرکے پروان چڑھانے کا نام تربیت ہے ۔
یعنی کسی چیز میں مناسب رفتار پیدا کرنے اور اس کو اچھے ہدف تک پہنچانے اور اس کی استعداد کو اجاگر کرنے کے لئے کمالات کی طرف حرکت دینے کا نام تربیت ہے۔
جوانوں کی تربیت کی اہمیت از نظر نہج البلاغہ:
انسان ہمہ وقت نت نئی ایجادات اور سہولیات کا خواہاں ہے۔وہ جمود سے جلداکتا جاتا ہےاور لمحہ بہ لمحہ اپنی ترقی اور افزائش کے بارے میں سوچ بچار کرتا ہے۔پس اس طرح ہر لحظہ اس کی فکر ایک نئے مقصد کی تخلیق کرتی ہے اور اس کا ذہن غیر شعوری طور پر تربیت پاتا رہتا ہے۔ بالفاظ دیگر تربیت کو اس پیکر خاکی کی فطرت میں ہی خداوندعالم نے ودیعت کر دیا ہے ۔ چناچہ انسان کو اختیار ہے کہ اچھے معاشرے اور بہترین ماحول کا انتخاب کرے یا غیر متمدن سماج میں رچ بس جائے اور بری تربیت کے نقصانات سے دو چار ہو۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر انسان مجبور نہیں ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے۔
اِنَّا ھَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا
الانسان:03
ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔
انسان کی ہدایت اور تربیت کی دو نوں راہوں میں خود مختاری ہے۔ مگر یاد رہےکہ ہر ذی روح نے بارگاہ ایزدی کی عدالت عظمیٰ میں بہر حال ایک نا ایک دن ضرور حاضرہوناہے جہاں اس کا دفتر عمل پیش ہوگا اور ذرے ذرے کا حساب لیا جائے گا۔ کیااس فیصلے میں اہل عقل و خرد کو کوئی دشواری ہو سکتی ہے کہ اخلاق الہٰی سے آراستہ ہو کر ابدی و سرمدی کامرانی سے ہمکنار ہو یا پھر شیطان کےراستے پر چل کر ہمیشہ کی ذلت و رسوائی والا عذاب اپنے سر لےلے۔ پس یہی انسان کی فکری نمو اور تربیت کو پرکھنے کا پیمانہ ہے۔ جسےہم امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
وَ وَلِیْدًا وَّ یَافِعًا ثُمَّ مَنَحَهٗ قَلْبًا حَافِظًا، وَ لِسَانًا لَّافِظًا، وَ بَصَرًا لَّاحِظًا، لِیَفْهَمَ مُعْتَبِرًا، وَ یُقَصِّرَ مُزْدَجِرًا
طفل (نوخیز) (پھر) پورا پورا جوان ہوا۔ (پھر) اللہ نے اسے نگہداشت کرنے والا دل اور بولنے والی زبان اور دیکھنے والی آنکھیں دیں تاکہ عبرت حاصل کرتے ہوئے کچھ سمجھے بوجھے اور نصیحت کا اثر لیتے ہوئے برائیوں سے باز رہے۔
نہج البلاغہ،خطبہ 81
خداوندعالم نے انسان کے لیے کس قدر اہتمام کیا کہ ہماری جسمانی نشو ونما کے ساتھ ساتھ روحانی پرورش کے لیے دو راہیں ایک انفس اور دوسری آفاق میں کھولیں ۔ یہاں نگہداشت کرنے والے دل سے مراد انسان کے وجدان کے اندر موجود ادراک و شعور کا عطا کردہ وہ منبع ہے۔ جس کے ذریعے انسان اچھے اور برے کی تمیز کرتا ہے اور دیکھنے والی آنکھوں سےمراد آفاقی نگاہ اور بصیرت ہے۔ جسے علامہ اقبال نے کچھ یوں بیان کیا ہے
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
تاکہ انسان تاریخی آثار اور قدیم ملتوں کے حالات کو دیکھیں اور ان سے عبرت حاصل کریں ۔اس ضمن میں امام علی علیہ السلام نے اپنے جوان بیٹے امام حسن علیہ السلام سے ارشاد فرمایا:
فبادرتك بالأدب قبل أن يقسو قلبك ويشتغل لبك لتستقبل بجد رأيك من الأمر ما قد كفاك أهل التجارب بغيته وتجربته
لہذا قبل اس کے کہ تمہارا دل سخت ہوجائے اور تمہارا ذہن دوسری باتوں میں لگ جائے میں نے تعلیم دینے کے لیے قدم اٹھایا تاکہ تم عقل سلیم کے ذریعے ان چیزوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجاو کہ جن کی آزمائش اور تجربہ کاری نے تمہیں بچا لیا گیاہے۔
نہج البلاغہ،مکتوب 31
تربیت کے راہنما اصول:
یوں تو کلام معصوم کا ہر لفظ انسان کی ذہن سازی اور فکری تربیت میں موثر کردار ادا کرتا ہے جبکہ اس مختصر مقالے میں ان تمام پہلوؤں کا احاطہ اور تربیت کے تمام اصولوں کو بیان کرنا ممکن بھی نہیں لہذاہم چیدہ چیدہ اصولوں کو سپرد قلم کریں گے۔
1۔ خود سازی اور خود شناسی:
امام علی علیہ السلام نے لوگوں کی چار اقسام بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَ لَبِئْسَ الْمَتْجَرُ اَنْ تَرَى الدُّنْیَا لِنَفْسِكَ ثَمَنًا، وَ مِمَّا لَكَ عِنْدَ اللهِ عِوَضًا
انہوں نے اپنے نفسوں کا سودا کر دیا ہے اور دین کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ کتنا ہی بُرا سودا ہے کہ تم دنیا کو اپنے نفس کی قیمت اور اللہ کے یہاں کی نعمتوں کا بدل قرار دے لو۔
نہج البلاغہ،خطبہ32
امیر المومنین علیہ السلام ہمارے اذہان کو اس بات پر آمادہ کررہے ہیں کہ انسان کو اپنی ذات کی قدر و وقعت سے آشنا اور اپنے نفس کی قیمت سے بخوبی آگاہ ہونا چاہے اس قیمتی اور گراں بہا شئے کو بے مایہ کے بدلے میں فروخت نہ کرے ۔ بلکہ اس کی قیمت فقط جنت اور اس کی ابدی نعمات ہیں لہذا اس دنیا کی مشکلات برداشت کرکے اخروی نعمتوں کے حصول کو یقینی بنائے۔ تاکہ ان لوگوں میں سے نہ ہوجائے جنہوں نے آخرت کے کاموں سے دنیا کمائی اور ظاہری طور پر سکون و اطمینان حاصل کرلیا۔انہوں نے دنیاوی زندگی میں ظاہری وقار بھی حاصل کیا مگر پھر جیسے ہی پس پردہ گناہ کا موقع فراہم ہوا تواس کی انجام دہی میں خوف خدا کا احساس تک نہ رہا ۔ کیونکہ انہوں نے لباس تقویٰ عوام کے لیے اوڑھا تھا جبکہ نہ تو انہوں نے اپنی تربیت کی تھی اور نہ ہی انہیں خدا کی عظمت کا احساس تھاحالانکہ حدیث مبارک ہے۔
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
مصباح الشریعۃ ص13
جیسے خدا وندعالم ہم پر لوگوں کے مابین نگاہ رکھے ہوئے ہے اسی طرح جب کوئی موجود نہ ہو اللہ تعالیٰ تعالی تب بھی دیکھ رہا ہوتا ہے اسی طرح جن کاموں کو انسان کسی کے سامنے انجام نہیں دے سکتا اور ہتک عزت سمجھتا ہے ان افعال کو اکیلے میں انجام دینے سے بھی ڈرے کہیں اس کے اثرات بزم عام میں رسوائی کی صورت میں نمودار نہ ہوں ۔اس بابت ایک عقل مند اور خود دار جوان کو ہمہ وقت ہوشیار اور خود ساز ہونا چاہیے۔
2۔ بصیرت اور دور اندیشی:
مولائے کائنات نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں۔
فَاَمَّا اَوْلِیَآءُ اللهِ فَضِیَآئُهُمْ فِیْهَا الْیَقِیْنُ، وَدَلِیْلُهُمْ سَمْتُ الْهُدٰی، وَ اَمَّا اَعْدَآءُ اللهِ فَدُعَآئُهُمْ فِیْهَا الضَّلَالُ
وہ جو دوستانِ خدا ہوتے ہیں ان کیلئے شبہات (کے اندھیروں) میں یقین اجالے کا اور ہدایت کی سمت رہنما کا کام دیتی ہے اور جو دشمنانِ خدا ہیں وہ ان شبہات میں گمراہی کی دعوت و تبلیغ کرتے ہیں اور کوری و بے بصری ان کی رہبر ہوتی ہے۔
نہج البلاغہ،خطبہ38
بابصیرت انسان کو خدا کے دوست جبکہ بصیرت سے عاری شخص کو گمراہ اور اندھیرے میں تیر چلانے والے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ وقتی طور پر مواقع سے فائدہ اٹھانا ہمیشہ اور مستقل بنیادوں پر کام کرنے سے بے فکر رہنا عقل مند انسان کی علامت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ بصیرت اور دوراندیشی سے منصوبے بنانا اور اور ان لمبے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک لے جانا لمبی آرزوئیں اور طولانی خواہشات سے یکسر جدا ہے کیونکہ آرزو اور خواہشات میں شخصی مفادات جیسے عناصر کارفرما ہوتے ہیں لیکن بصیرت سے جو فیصلے کیے جاتے ہیں معاشرہ ان کے اثرات سے صدیوں تلک فائدہ اٹھاتا رہتا ہے۔ تاریخ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاصلح حدیبیہ کا فیصلہ ہو یا ائمہ معصومین علیہم السلام کی دو سو پچاس سالہ زندگی ان سب کے بغور مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ معصومین کے ہر قدم پر بصیرت افروز فیصلوں سے تشیع کی بقا اور ترویج کس طرح عمل میں آئی کہ جن کے نتیجے میں آج تشیع اپنے علمی اور عملی جوبن کے ساتھ موجود ہے۔
پس جہاں ایک با بصیرت اور دوراندیش فیصلہ سماج کے طویل عرصے پہ محیط مسائل کو حل کرتاہے اسی طرح بےغیر بصیرت اور عجلت میں کیے گئے کام ایک معاشرے کی صدیوں پہ محیط مشکلات کوجنم دیتے ہیں اور اسے ایک نئی برائی کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ لہذاابتداء سے ہی بصیرت جیسے راہنما اصولوں سے کام لینا چاہیے ۔جیسے آپؑ کا فرمان ہے۔
رَاْیُ الشَّیْخِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلَامِ او من مشھد الغلام
بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے۔
بحار الانوار ج71 ص178
اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَ اللّٰہُ اَخۡرَجَکُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّھٰتِکُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا ۙ وَّ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ۙ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ
اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ شاید تم شکر کرو۔
النحل:78
اللہ نے انسان کو کلام کے ادراک کے لیے کان، رنگوں کے ادراک کے لیے آنکھیں ، اور ان حواس سے نتائج اخذ کرنے کے لیے دل یعنی عقل کی طاقت عنایت فرمائی ہے۔پس ان نعمتوں کے شکر کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ: کانوں سے کلام الٰہی سن لیں ، آنکھوں سے آیات الٰہی دیکھ لیں اور عقل و فکر کے ذریعے ان سے نتیجہ اخذ کریں کہ ان کا ایک خالق ہے جس نے یہ نعمتیں عنایت کی ہیں۔ پس وہی رب ہے۔ وہی ہماری زندگی رواں دواں کیے ہوئے ہے۔ جبکہ کان، آنکھ اور دل انسان کی عقل و فکر کے مآخذ ہیں۔
الکوثر فی تفسیر القرآن ج4 ص447
3۔ استقامت اور ثبات قدمی:
امام علی علیہ السلام نے اپنے فرزندجناب محمد حنفیہؒ کہ جنہوں نے ابھی دہلیز جوانی پہ قدم رکھا ہی تھا انہیں جنگ جمل کے میدان کارزارمیں بھیجنے سے پہلے پند و نصائح کرتے ہوئے فرمایا:
تَزُوْلُ الْجِبَالُ وَ لَا تَزُلْ، عَضَّ عَلٰى نَاجِذِكَ، اَعِرِ اللهَ جُمْجُمَتَكَ، تِدْ فِی الْاَرْضِ قَدَمَكَ
پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں مگر تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، اپنے دانتوں کو بھینچ لینا، اپنا کاسۂ سر اللہ کو عاریت دے دینا، اپنے قدم زمین میں گاڑ لینا۔
نہج البلاغہ،خطبہ11
حضرت محمد حنفیہؒ کی دلیری ، بہادری، جوانمردی اور شجاعت خطہ عرب میں شہرہ آفاق تھی تمام صغیر و کبیر آپؒ کی داد شجاعت سے بخوبی آگاہ تھے اور امیر المومنین علیہ السلام بھی آپ پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے ہمیشہ جنگوں میں آپ کو بھیجتے اور آپ ہمیشہ کامیاب و کامران لوٹتے۔ لیکن جب جنگ جمل کا میدان لگا تو امام علی علیہ السلام نےاپنے اس جواں سال پسر کو نصیحت کرتے ہوئے ثابت قدمی اور استقامت کا بطور خاص درس دیا۔ اگرچہ بعض شارحین نے یہاں کاسہ سر رعایت دینےسے محمد حنفیہ کے زندہ جنگ سے پلٹنے کی بشارت اور پیش گوئی مراد لی ہے۔
واضح رہے کہ یہاں امیرالمومنین علیہ السلام نے جنگ میں استقامت کی بات کی ہے جبکہ ایک مومن جوان تو ہر وقت شیطان کے ساتھ برسرپیکار ہوتا ہےاور اس کے ساتھ افکار کی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔ اس تناظر میں امیر المومنین نے ایک جگہ ارشاد فرمایا:
المومن کالجبل الراسخ لا تحرکہ العواصف
مومن آدمی اس پہاڑ کی طرح جم جاتا ہے جسے تند و تیز طوفان اور ہوائیں نہیں ہلا سکتیں۔
کلام امیر المومنین ج1 ص391
یعنی ایک مومن جوان جبل مستقر سےزیادہ مضبوط اور ارادے میں قوی ہونا چاہے اس میں ہر قسم کی مشکلات برداشت کرنے اور ان پر صبر کرنے کی ہمت ہونی چاہیے ۔کیونکہ مہم جوئی ظاہری طاقتوں اور قوتوں کی بجائے انسان کے محکم ارادوں اور مستقل فکری صلاحیتوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کربلا کے شہداء یا اسیران کربلا استقامت کی واضح مثالیں ہیں وہ خواتین جن کے بھائیوں، بیٹوں اور مہمانوں کو قتل کردیا جاتا ہے اور جنہیں دار و رسن سے قیدی بنالیا جاتا ہے مگر ان کے پائے ثبات میں ذرہ برابر لغزش نہیں آتی یہ مخدرات عصمت جب کوفہ و شام کے بازار میں خطبہ دیتی ہیں تو لوگ ان کی شجاعت و پامردگی پر ششدر و حیران رہ جاتے ہیں پس یہی وہ صبر و استقامت کے اعلیٰ نمونے ہیں جو انسان کی فکری تربیت کو نتیجہ خیز بنا سکتے ہیں۔
4۔ محاسبہ نفس:
محاسبہ پر ہی معاشرے کی ترقی اور تنزلی کا انحصار ہے محاسبہ کا مطلب سماج کے ذمہ دار افراد کو پرکھنا ہے کہ ان کی تعداد کتنی ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں ہے
قال رسولُ اللَّهِ صلى اللَّه عليه و آله : حاسِبوا أنْفُسَكُم قَبلَ أنْ تُحاسَبوا
اے لوگو! اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔
میزان الحکمۃ حدیث 3999
انسان کو اپنا دفتر عمل کھلنے سے پہلے اپنا حساب کرنا ناگزیرہے ۔ انسان کی فطرت ہے کہ سفر کے لیے روانگی سے پہلے اپنا سامان تیار کرلیتا ہے اسی طرح آخرت کا سفر معلوم نہیں کب شروع ہوجائے لہذا انسان اس کے بارے قلبی میں سکون اور ذہنی اطمینان ضرور رکھے اورروزانہ کی بنیاد پر اپنا احتساب کرے وہ اچھائیوں اور نیکیوں میں اضافے کے لیے فکر مند رہے اور برائیوں کا خاتمہ کرے۔ اگرچہ علماء اخلاق نے یہاں محاسبے کے تین مراتب بھی ذکر کیے ہیں مشارطہ، مراقبہ اور حساب جنہیں اخلاق کی کتابوں میں تفصیلی طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔مگر انسان کی فکری نشوونما اور پرورش کے لیے احتساب نفس کی اہمیت کااندازہ امیرالمومنین علیہ السلام کے اس کلام سے لگایا جا سکتا ہے۔
مَنْ نَصَبَ نَفْسَه لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِه قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِه ولْيَكُنْ تَأْدِيبُه بِسِيرَتِه قَبْلَ تَأْدِيبِه بِلِسَانِه ومُعَلِّمُ نَفْسِه ومُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالإِجْلَالِ مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ ومُؤَدِّبِهِمْ
جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے نفس کو تعلیم دینا چاہیے اور زبان سے درس اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینی چاہیےاور جو اپنے نفس کی تعلیم و تادیب کرلے وہ دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے والے سے زیادہ احترام کا مستحق ہے۔
نہج البلاغہ حکمت 73
اس سلسلے میں مولائے کائنات ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں
مودب لنفسہ ومعلمھا احق بالاجلال من مودب الناس و معلمھم
اپنے نفس کو ادب سکھانے اور تعلیم دینے والا لوگوں کو آداب سکھانے اور تعلیم دینے والے سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ہے۔
مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ ج4 ص57
5۔ وسعت فکری:
امیر المومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔
الحکمۃ ضالۃ المومن، فخذ الحکمۃ ولو من اھل النفاق
حکمت مومن کی ہی گمشدہ چیز ہے، اسے حاصل کرو اگرچہ منافق کے سینے سے ہی لینی پڑے۔
نہج البلاغہ،حکمت80
انہی الفاظ کو تھوڑی تبدیلی اور اضافے کے ساتھ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
خذ الحکمۃ انی کانت فان الحکمۃ تکون فی صدر المنافق، فتلجلج فی صدرہ حتی تخرج فتسکن الی صواحبھا فی صدر المومن
حکمت کی بات جہاں کہیں بھی ہو اسے حاصل کرو، حکمت منافق کے سینہ میں بھی ہوتی ہے، لیکن جب تک اس(کی زبان)سے نکل کر مومن کے سینہ میں پہنچ کر دوسری حکمتوں کے ساتھ بہل نہیں جاتی، تڑپتی رہتی ہے۔
نہج البلاغہ حکمت 79،80
ایک بار حجاج خطبہ دے رہا تھا کہ اس نے کہا:
ان اللہ امرنا بطلب الآخرۃ وکفانا مونۃ الدنیا، فلیتنا کفینا مونۃ الآخرۃ و امرنا بطلب الدنیا
خداوندعالم نے ہمیں آخرت طلب کرنے کا حکم دیا جبکہ دنیا میں فقط ضرورت کا سامان کافی قرار دیا ہے کاش اللہ ہمیں دنیا طلب کرنے اور آخرت میں ضرورت کا سامان کافی سمجھتا۔
پس حسن نے سنتے ہی کہا:
ھذہ ضالۃ المومن خرجت من قلب المنافق
یہ وہ مومن کی گمشدہ متاع تھی جو منافق کے دل سے نکل آئی ہے۔
علامہ ابن الحدید معتزلی رقمطراز ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے اصل کلمات دوسری حدیث والے ہیں اگرچہ پہلی کو سید رضی نے نقل کیا ہے۔
شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج18 ص109
مگر سید عبد الزہراء نے مصادر نہج البلاغہ میں اس پہ سیر حاصل بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے ہے کہ یہ الگ الگ احادیث ہیں بلکہ اس معنی کی اور بھی احادیث امیر المونین علیہ السلام سے وارد ہوئی ہیں۔ اس بات سےقطع نظر امام علیہ السلام کے اس فرمان میں انسان کو اپنے افکار میں وسعت پیدا کرنےکا عظیم درس دیا گیا ہے کیونکہ
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فَبَشِّرۡ عِبَادِ الَّذِیۡنَ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقَوۡلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحۡسَنَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ھدٰىھمُ اللّٰہُ وَ اُولٰٓئِکَ ھمۡ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ
پس آپ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو بات کو سنا کرتے ہیں اور اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی صاحبان عقل ہیں۔
الزمر 17-18
6۔ بہترین نمونہ عمل کا انتخاب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ
بتحقیق تمہارے لیے رسو ل اکرم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
الاحزاب:21
نمونہ عمل کا انتخاب تربیت پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے جس طرح والدین نماز ی ہوں تو بچے بھی نماز کے پابند ہوتے ہیں۔ جبکہ بے نماز شخص کی اولاد بھی نماز سے غافل ہوتی ہے کیونکہ بچہ اپنے والدین کو نمونہ عمل سمجھتا ہے فطرت اور سماج میں بھی نمونہ کی حیثیت اسی طرح ہے۔ ہر شخص اپنے سماج کو نمونہ عمل سمجھتا ہے اور اس کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ اس کی ضرورت وا ہمیت اس فرمان سے لگائی جا سکتی ہے۔نیز یہی عقل و منطق اور دین کا پیغام بھی ہے کہ خدا وند عالم نے ہادیان امت کو ان کے لیے نمونہ کے طور پر بھیجا جیسے امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں
وَ اقْتَدُوْا بِهَدْیِ نَبِیِّكُمْ فَاِنَّهٗ اَفْضَلُ الْهَدْیِ، وَ اسْتَنُّوْا بِسُنَّتِهٖ فَاِنَّهَا اَهْدَی السُّنَنِ
نبیؐ کی سیرت کی پیروی کرو کہ وہ بہترین سیرت ہے اور ان کی سنت پر چلو کہ وہ سب طریقوں سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہے۔
نہج البلاغہ خطبہ 108
امام علیہ السلام کا لوگوں کو بہترین سیرت کی طرف دعوت دینے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ انسان کسی نا کسی ایسی سیرت اور نمونے کی پیروی کرتا ہے جسے وہ مربی اور معلم قرار دیتا ہے۔ البتہ عقل کے نزدیک اس کی روش اور طریقے باقی سب سے اچھے ہونے چاہیں کیونکہ کم درجہ کا انتخاب ذہنی وارفتگی اور سراسیمگی کا سبب بنتا ہے اس لیے خود ہادیان امت بھی اپنے لیے اگر کسی نمونہ عمل کی بات کرتےہیں تو کائنات میں افضل شخصیت کی زندگی کو قابل پیرو ی سمجھتےہیں جیساکہ امام زمانہ ارواحنا لک الفداء فرماتے ہیں
و فی ابنۃ رسول اللہ لی اسوۃ حسنۃ
میرے لیے دختر رسولؐ کی زندگی نمونہ ہے۔
الاحتجاج ج2 ص 466

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button