اخلاقیاتدعا و مناجاتمکتوب

"شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

گیارہواں درس
"إِلهِي أَنا عَبْدُكَ الضَّعِيفُ المُذْنِبُ وَمَمْلُوكُكَ المُنِيبُ فَلا تَجْعَلْنِي مِمَّنْ صَرَفْتَ عَنْهُ وَجْهَكَ وَحَجَبَهُ سَهْوُهُ عَنْ عَفْوِكَ ، إِلهِي هَبْ لِي كَمال الاِنقطاعِ إِلَيْكَ وَأَنِرْ أَبْصارَ قُلُوبنا بِضِياءِ نَظَرِها إِلَيْكَ حَتَّى تَخْرِقَ أَبْصارُ القُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ فَتَصِلَ إِلى مَعْدِنِ العَظَمَةِ وَتَصِيرَ أَرْواحُنَا مُعَلَّقَةً بِعِزِّ قُدْسِكَ.”
یہاں تک چالیس دفعہ حضرت امیر المومنینؑ نے إِلهِي کہہ کر پکارا ہے۔ جن کے پاس وقت ہے وہ بیٹھ کر ان معارف کا مطالعہ کریں اور بار بار ان مطالب پر غور ورفکر کریں ۔ یہ صرف شعبان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ ساراسال پڑھنے کے مناجا ت ہیں۔ " إِلهِي أَنا عَبْدُكَ الضَّعِيفُ " اب اپنی حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں میں تیرا بندہ ہوں مملوک ہوں اور میں منیب ہوں میں توبہ کرنے والا ہوں” فَلا تَجْعَلْنِي ” مجھے ان لوگوں میں سے قرار نہ دے جن سے تو نے اپنا چہرہ پھیر دیا ہے اور ان کی غلطیوں نے تیرے عفو کو ان تک پہنچنے سے روک دیا ہے ،تو کتنا کریم ہے تو کبھی اپنا چہرہ اپنے عبد سے نہیں پھیرتا ۔ تو کافروں کو بھی عبادی کہہ کر خطاب کرتا ہے۔ لیکن صرف مومن ہے جو تجھے الہی کہہ کر خطاب کرتا ہے اسی واسطے ، ان کلمات کے واسطے مجھے بخش دے۔ میں مملوک ہوں ،میں عبد ہوں، میں توبہ کر رہا ہوں، میں ضعیف ہوں یہ گناہ جو مجھ سے سرزدہوئے، یہ جو سہو ہوگئی ہے میرے سہو اور گناہ کی وجہ سے تیرے عفو سے محروم رہوں یہ نہیں ہو سکتا۔ مجھ سے کوتاہی ہوگئی اس لئے کہ میں ممکن الوجود ہوں ۔ممکن الوجود کا مطلب کیا ہے؟
ممکن الوجود کا مطلب ہی سیاہ روی ہے ”
سیاہ روی ممکن در دوعالم چدا ہرگز نہ شود و اللہ عالم ”
یہ ہو ہی نہیں سکتا ممکن الوجود کا مطلب ہی سیاہ روہی ہے ممکن الوجود کا مطلب ہی خطا ہے اور تو واجب الوجود ہے واجب الوجود کا مطلب عفو ہے، درگزر ہے، معاف کرنا ہے”
در بہاراں کے شود سر سبز سنگ”
ہم سر سبز وادی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔خدا کے حضور میں آئے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم خاک ہیں” در بہاراں کے شود سر سبز سنگ” کبھی کوئی پتھرآپ نے دیکھا ہے کہ بہار میں سر سبز ہو گیا ہو؟
"خاک شو تا گل بروید رنگ برنگ”
خاک ہو جاو اعتراف کرو اپنے ضعف کا تاکہ پھر یہ سبزہ اور رنگ برنگی پھول کھلیں گے انشاء اللہ۔
"گز ہزاراں دام باشد در قدم چوں با مائی نا باشد ہیچ غم”
ہمیں کسی چیز کا غم اس لئے نہیں ہے کہ تو ہمارا ساتھ ہے۔
” إِلهِي هَبْ لِي كَمال الاِنقطاعِ إِلَيْكَ وَأَنِرْ أَبْصارَ قُلُوبنا بِضِياءِ نَظَرِها إِلَيْكَ ”
یہ کمال معرفت ہے۔ ہر کلمہ معرفت کی بلند یوں پر محو پرواز ہے لیکن سمجھنے کی بات ہے جو جہاں پہنچے ،جتنے بھی مناجات امیر المومنینؑ ہیں وہ آپ کو یہاں لے کے آنا چاہتے ہیں” إِلهِي هَبْ لِي ” مجھے موھبت عطا کر، مجھے دے،کیا؟؟، هَبْ لِي كَمال الاِنقطاعِ " میں ہر چیز سے کٹ کر صرف تیرا ہوجاوں ،میرے دل میں صرف تیری محبت ہو۔( یہ معرفت مجھے دے)
” وَأَنِرْ أَبْصارَ قُلُوبنا بِضِياءِ نَظَرِها إِلَيْكَ حَتَّى تَخْرِقَ أَبْصارُ القُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ فَتَصِلَ إِلى مَعْدِنِ العَظَمَةِ وَتَصِيرَ أَرْواحُنَا مُعَلَّقَةً بِعِزِّ قُدْسِكَ.
” کمال انقطاع آگیا ،تمام اسباب کو میں نے چھوڑ دیا ہے ،اب میں صرف اور صرف تیرا ہوگیا ہوں اور تجھے دیکھنے کی وجہ سے تیرا ہونے کی وجہ سے میرا دل تیرے نور سے منور ہو گیا اور پھر نور کے پردے میرے سامنے سے ہٹ جائیں گے ،ظلمت کے پردوں کو میں نے ہٹایا، تیرے پاس ہر چیز چھوڑ کر آیا ہوں اب نور کے پردے بھی ہٹ جائیں گے” فَتَصِلَ إِلى مَعْدِنِ العَظَمَةِ ” پھر تیری عظمت کے خزانے تک میری رسائی ہوجائی گی اور ہماری ارواح تیرے عز قدس تک پہنچ جائیں گے اس کو کون سمجھے ؟ وہی سمجھے جو ان تمام مراحل کو طے کرے مناجات امیر المومنینؑ ( مناجات شعبانیہ) کےساتھ منزل بہ منزل چلے تو پھر (همه چیز را تا نجویی نہ یابی ، جز این دوست را تا نہ یابی نجویی)
تمام چیزیں دنیا میں ایسی ہیں کہ جب تک آپ جویندہ نہ ہو وہ آپ کو نہیں ملے گی ، جب تک تمہیں وہ دوست مل نہ جائے تم اس کے پیچھے نہیں جائیں گے ۔جب مجھے کمال انقطاع مل گیا تب میں تجھ تک آوں گا” جوئندہ یابندہ است ” اس کے بجائے "یابندہ جوئندہ است ” ہو جاتا ہے جسے خدا مل جائے وہ خدا کی تلاش میں جاتا ہے اور جسے خدا نہ ملے وہ خدا کی تلاش میں نہیں نکل سکتا اسی لئے خود خدا سے ہی ہمیں دعا کرنی ہوگی کہ وہ خود اپنا دیدار( کمال معرفت) دے دے اور ہمیں اپنے تک پہنچے کے لئے اس کی عز قدس تک ہماری رسائی حاصل ہونے کے لئے ہماری مدد کرے۔
امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں:” ان الراحل الیک قرب المسافة” تجھ تک آنے کی مسافت انتہائی کم ہے ؛ انَّکَ لَا تَحْتَجِبُ عَنْ خَلْقِکَ إِلَّا أَنْ تَحْجُبَهُمُ الْأَعْمَالُ دُونَک "تو کسی کو نہیں روکتا یہ انسان خود ہے جس نے اپنے آپ کو تجھ تک پہنچے سے روک رکھا ہے۔ ”
جمالِ یار ندارد نقاب و پردہ ولی غبارِ راہ بنشاں، تانظر توانی کرد
تمہیں ان ظلمانی پردوں کو ہٹا نا ہے ، تاریک پردوں کو تم نے خود ہٹا نا ہے اس طرف سے کوئی حجاب نہیں ہے اس طرف سے کوئی پردہ نہیں ہے اور یہ جو ظلمانی پردے ، جو کہ دنیاوی پردے ہیں ،دنیا میں گناہ کی آلودگیوں کی وجہ سے میں ان حجاب میں گرا ہو ہوں یہ ہٹ جائے تو وہ نورانی پردے بھی ہٹ جائیں گے اور اگر میں اس دنیا سے کٹ جاوں اور انقطاع کامل ہو جاوں اور ظلمانی حجاب کو ہٹا دوں اور پھر نورانی حجاب کو بھی ہٹا دوں تو ” من انقطع الی اللہ کفاہ اللہ مؤنته و رزقه من حیث لا یحتسب و من انقطع الی الدنیا وکّله الیھا”
جو شخص خدا کے لئے دنیاسے قطع تعلق ہوتا ہے خدا اسکے اخراجات کو مہیاکرتا ہے. اوراسے ایسے راستہ سے رزق عطا کرتا ہے جس کا وہ گمان تک نہ کرتا ہو اور جو دنیا سے دل لگا لیتا ہے تو خدا اسے اسی کے حوالے کر دیتا ہے ۔
اگر کوئی منقطع ہو جائے اور انقطاع الی اللہ ہو جائے تو اس کے لئے اللہ ہی کافی ہے ۔
و رزقه من حیث لا یحتسب، پھر نہیں معلوم کہاں اس کا رزق زمین سے آسمان سے دائیں سے بائیں سے ہر طرف سے اسے رزق ملے گا۔
إِلهِي وَاجْعَلْنِي مِمَّنْ نادَيْتَهُ فَأَجابَكَ وَلاحَظْتَهُ فَصَعِقَ لِجَلالِكَ فَناجَيْتَهُ سِرَّاً وَعَمِلَ لَكَ جَهْراً
مناجات جب شروع ہوئی کہا کہ میں تجھے پکاروں گا، تو مجھے جواب دیں، یہاں کہہ رہے ہیں کہ اے معبود! آپ مجھے ان میں سے قرار دےکہ جنہیں تو پکار تا ہے تو وہ لبیک کہتے ہیں " و لاحظته” اور تو ان پر نظر کرم کرتا ہے تو وہ مدہوش ہوجاتے ہیں وہ تیرے ہوجاتے ہیں اور جب تو ان سے نجوی کرتا ہے (یہ نجوی تو نے یعنی خدا نے نجوی کیا ) اب خدا سے تیری طرف نجوی شروع ہوا اور تو مخفی طور پر نجوی کرتا ہے یہ تیرے لئے اعلانا پھر عمل کرتے ہیں۔ جس کے دل میں خدا کی طرف سے نجوی آجائے تو پھر وہ سر بازار آکر اپنے عشق کا اظہار کرتا ہے اور یہ جو مدہوشی جمال خدا ہے یہ تمام ہوش اور شعور سے بہتر ہے۔
"إِلهِي لَمْ اُسَلِّطْ عَلَى حُسْنِ ظَنِّي قُنُوطَ الاَياسِ”
اے اللہ !میرے اللہ ،میرے معبود، مجھ پر مایوسی کو مسلط نہ کر دے ،میرے کس پر ؟ میرے حسن ظن پر اور حسن ظن کے بارے میں پہلے بتا چکا ہوں ۔ اللہ سے حسن ظن رکھو ار اللہ سے یہ دعا کرے کہ اے اللہ اس حسن ظن پر کبھی مایوسی نہ چھائے۔
وَلا انْقَطَعَ رَجائِي مِنْ جَميلِ كَرَمِكَ ” اور میری رجا میری امید تیرے جمیل کرم سے کبھی منقطع نہ ہو ۔
إِلهِي إنْ كانَتِ الخَطايا قَدْ أَسْقَطَتْنِي لَدَيْكَ "اےا للہ اگرچہ میری گناہوں نے مجھے تیری نظروں سے بہت گرا دیا ہے۔"فَاصْفَحْ عَنِّي بِحُسْنِ تَوَكُّلِي عَلَيْكَ”تو سب کچھ درگزر کرنے ولا ہے میرے گناہوں کو نہیں دیکھنا میرے حسن توکل کو دیکھنا ہے میں کتنا خوش گمان ہوں میرا کتنا حسن ظن ہے اس حسن ظن کی بناء پر مجھے معاف فرمادے ۔
” قُلْ يَا عِبَادِىَ الَّـذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْـمَةِ اللّـٰهِ (سورہ الزمر:53)
"کہدیجئے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔”
” اس میں تو کافروں کو بھی شامل کیا ہوا ہے میرے گناہوں کو کیوں دیکھتا ہے میں نے جو اسراف کیا ہے اس کو کیوں دیکھ رہاہے ” لاتقنطو من رحمت اللہ ” میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں خدا یا میرے اس رجاء اور اس امید کی بناء پر مجھے بخش دے۔ "اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ "
باز آ،باز آ،ہر آں چہ ہستی باز آ”
گر کافر و گر بت پرستی باز آ”
جو مرضی ہو جیسے بھی ہو باز آ جا، کافر ہو بت پرس ہو تو بھی تجھے درگاہ الہی میں آنے کی اجازت ہے راہ رحمت کھلا ہے ۔ رحمت کے تمام دروازے سب کے لئے کھلے ہیں۔
"این درگاہ درگہ ناامیدی نیست”
ہے صد بار تو بشکتسی باز آ”
یہ درگاہ الہی نا امیدی کی درگاہ نہیں ، ہزار مرتبہ بھی تو نے توبہ کیا ہے توبہ توڑا ہے پھر بھی تجھے دعوت ہے تو آجا۔
إِلهِي إِنْ حَطَّتْنِي الذُّنُوبُ مِنْ مَكارِمِ لُطْفِكَ فَقَدْ نَبَّهَنِي اليَّقِينُ إِلَى كَرَمِ عَطْفِكَ
پہلے بھی ہم نے پڑھا تھا اسی مناجات میں وہ کافی سخت تھا اب بہت نرم کافی لطیف نکتے کی طرف اشارہ ہے وہاں کہا تھا اگر تو مجھے میرے گناہوں کی وجہ سے پکڑے گا تو میں تیرے دامن عفو کو پکڑ لوں گا یہاں بھی کہہ رہا ہے کہ اگر میرے گناہ میں تیرے لطف کو مجھ تک نہیں پہنچنے دے تو میرا یقین ایسا ہے تیرے کرم پر، تیرے لطف پر ، کہ میں اس یقین کے ذریعے تجھ تک پہنچ جاوں گا ۔میں اپنی کوئی بات نہیں کر رہا میں اللہ کے صفات جمالیہ، کو صفات قہریہ کے مقابلہ میں رکھ رہا ہوں اور خدا کے دامان رحمت کو طلب کر رہا ہوں اور یہ بار بار کہہ رہاہوں میرے گناہوں سے اگرچہ میں نے اپنی ساری زندگی ساری تقدیر خراب کردی ہے لیکن میں تجھ پر یقین رکھتا ہوں تیرے فضل پر یقین رکھتا ہوں تیرے لطف پر یقین رکھتا ہوں تیرے کرم پر یقین رکھتا ہوں۔ امام کاظم ؑ فرمارہے ہیں:
إن العقلاء تركوا فضول الدنيا فكيف الذنوب، وترك الدنيا من الفضل، وترك الذنوب من الفرض (ميزان الحكمة – محمد الريشهري – ج ٤ – الصفحة ٣٥٩٥)
عاقل تو وہ ہے جو دنیا کی فضول چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ گناہوں کو نہ چھوڑ دے ” وترك الدنيا من الفضل،” دنیا کی فضول چیزوں کو چھوڑنا فضل ہے۔ وترك الذنوب من الفرض ” جبکہ گناہوں کو چھوڑنا فرض ہے ۔معصوم ؑ کا فرمان ہے
” نوم علی الیقن افضل من صلاۃ فی شک”
اگر ہم شک میں مبتلا ہو جائے کہ نہ جانے خدا مجھے معاف کرے گا نہیں کرے گا میرا عمل کیسا ہے قبول ہوگا یا نہیں ہوگا،اس شک میں مبتلا ہو کر نماز پڑھنے سے اللہ پر حسن ظن رکھ کر سو جانا بہتر ہے۔
بس آب آخری دو جملے رہ گئے ہیں مناجات شعبانیہ میں۔
إِلهِي إِنْ أَنامَتْنِي الغَفْلَةُ عَنِ الاِسْتِعْدادِ لِلِقائِكَ فَقَدْ نَبَّهَتْنِي المَعْرِفَةُ بِكَرَمِ آلائِكَ
میں تیر ی لقاء کے لئے آمادہ تھا مجھ میں استعداد تھی آمادگی تھی اور میں اس عظمت پر فائز ہو سکتا تھا لقاء اللہ کی منز ل پر فائز ہو سکتا تھا لیکن غفلت نے مجھے سلا دیا ۔اگر چہ غفلت نے مجھے سلا دیا اور میں تجھ سے بہت دور ہوگیا ” فَقَدْ نَبَّهَتْنِي المَعْرِفَةُ” لیکن معرفت نے مجھے جگادیا ہے” بِكَرَمِ آلائِكَ ” مجھے معرفت نے جگا دیا ہے۔
” إِلهِي إِنْ دَعانِي إِلى النَّارِ عَظِيمُ عِقابِكَ”
اے اللہ ایک طرف جب میں تیرے عقاب کو دیکھتا ہوں تیرے بہت عظیم عقاب کو ، تو وہ مجھے جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔
"فَقَدْ دَعانِي إِلى الجَنَّةِ جَزِيلُ ثَوابِكَ "
لیکن جب تیر ی رحمت رحمانی کو دیکھتا ہوں تیری صفات کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے جنت کی طرف لے جاتی ہے وہ مجھے جنت کی طرف دعوت دیتی ہے۔
إِلَهِي فَلَكَ أَسْأَلُ وَإِلَيْكَ أَبْتَهِلُ وَأَرْغَبُ وَأَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَجْعَلَنِي مِمَّنْ يُدِيمُ ذِكْرَكَ
اے خدا میں تجھ سے ہی سوال کرتا ہوں میں تیری طرف ہی گریہ و زاری کرتاہوں میں تیری طرف رغبت اور اشتیا ق رکھتا ہوں اور میں صرف اور صرف تجھ سے مانگتاہوں۔
یہ مناجات شعبانیہ محمد و آل محمد علیھم السلام پر درود سے شروع ہوا تھا ابھی اپنے اختتامی مراحل پر ہے وہ جو آپ کو ٹیک آف کر رہا ہے اب وہ مناجات لینڈ کر رہی ہے۔ لیکن یہ جو آپ کو فرش سے ٹیک آف کر رہا تھا اب لینڈینگ عرش پر ہو رہی ہے اور اس لینڈینگ کے لئے جو دعا پڑھی جا رہی ہے وہ یہ ہے” اَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍؐ” درود سے شروع ہے اور درد پر ہی ختم ہوگا لیکن ابھی ختم نہیں ہوا ،ابھی لینڈینگ ہو رہی ہے لینڈینگ درود کے ذریعے ہو رہی ہے اور وہ لینڈینگ کیا ہے” وَأَنْ تَجْعَلَنِي مِمَّنْ يُدِيمُ ذِكْرَكَ " مجھے جب اس منزل پر لے آیا مجھے جب اپنی مناجات کا شرف دیا ۔پہلے میں نے کہا میری سن لے۔ لیکن امیر المومنینؑ مجھے اس منزل پر لے آئے ہیں کہ میں کہوں خدا یا اب میں تیری سنوں گا تم مجھے پکار تو جو کہے گا میں کرنے کے لئے تیار ہوں اور اب کہہ رہا ہوں” وَأَنْ تَجْعَلَنِي مِمَّنْ ” مجھے ان لوگوں میں سے قراد دیں جو دائما تیرا ذکر کرتے ہیں” وَلَايَنْقُضُ عَهْدَكَ” تیرے عہد کو اور جو وعدہ تیرے ساتھ کیا ہے اسے نہیں توڑتے” وَلَايَغْفَلُ عَنْ شُكْرِكَ ” اور تیرے شکر سے کبھی غافل نہیں ہوتے” وَلَا يَسْتَخِفُّ بِأَمْرِكَ "تیرے حکم کو تیرے احکام کو وہ سبک شمار نہیں کرتے وہ ہلکا نہیں لیتے ابھی رمضان آرہا ہے شعبان کے آخری ایام ہے ہمیں رمضان کے احکام کو ہلکا نہیں لینا ہے ہمیں اس دوران جو احتیاط کے احکام ہیں احکام الہی ہیں ، ان پر عمل کرنا ہے۔
ان ایام میں اگر حکومت کہتی ہے کہ فلاں جگہ نہ جاو پھر آپ کے لئے حکومت کے اس حکم عدولی کی وجہ سے کوئی مشکلات پیش آتی ہے تو آپ کو احتیاط کرنی چاہیے اور ان مشکلات سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے لیکن اگر حکومت کہے کہ جاو نما ز پڑھو تو آپ کے اوپر وہاں جاکر نماز پڑھنا نہ فقط واجب نہیں ہے بلکہ احتیاط اگر اس میں ہے کہ نہ پڑھی جائے تو حکومت کی اجازت کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ حکومت کیسی کے پریشر میں آکر یہ بات کر رہی ہے۔ پریشر میں آکر آحکام الہی کو تبدیل نہیں کر سکتا ،بات یہی ہو رہی ہے کہ میں احکام الہی کو ہلکا نہ لوں میں نہ حکومت کے پریشر میں آوں میں نہ کسی معاشرے کے پریشر میں آوں میں نہ کسی اور کے پریشر میں آوں بلکہ صرف اور صرف احکام الہی کے تابع رہوں۔
"وَأَنْ تَجْعَلَنِي مِمَّنْ يُدِيمُ ذِكْرَكَ ” یہاں پر جو بات انتہائی اہم ہے اور جدھر لے جا کے آپ کو پہنچا یا ہے اور آپ کے دماغ میں اس بات کو رکھنے کی امیر المومنینؑ کوشش کر رہے ہیں اور خدا کرے کہ ہمارے ذہن میں یہ بات ذہن نشین ہو جائے،ہمیں مداومت چاہئے ،مسلسل ایک کام کر سکے زیادہ نہیں ۔زیادہ کی کوشش نہ کرے بلکہ مسلسل کی کوشش کرے۔
یک چشم زدن غافل از آن ماه نباشم شاید که نگاهی کند آگاه نباشم
ہمیشہ خدا کی طرف متوجہ رہنا ہے ” اما م سجاد ؑ فرماتے ہیں:
إني لأحب أن أداوم على العمل وإن قل ( الكافي – الشيخ الكليني – ج ٢ – الصفحة ٨٢)
جس چیز کو سید الساجدین پسند کرتے ہیں جس سے محبت رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کسی بھی عمل کو مسلسل کیا جائے اگر چہ کم ہی کیوں نہ ہو وہ کم مطلوب ہے۔دیکھیں ابھی ہم قرآن کی طرف آئے ہیں مناجات اور دعاوں کی طرف آتے ہیں ایک دن میں جتنا پڑھ سکتے ہیں آپ پڑھے یا ایک مہینے میں جتنی بھی دعائیں ہیں آپ پڑھیں اور بارہ مہینے غافل رہیں تو اس کااثر نہیں ہوتا ہے۔ اگر آپ پانی کے قطرے کو دیکھیں پتھر پہ ایک چھوٹا سا قطرہ مسلسل گرتا رہے تو پھر اس میں سوراخ ہو جاتا ہے لیکن اس پتھر پر آپ ایک پورا دریا بہا دے پوری بالٹی گرادے جتنی مرضی پانی گرا دیں اس پتھر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا،نہ وہ کھستا ہے نہ اس میں سوراخ ہوتا ہے سوراخ مسلسل ٹپکنے سے ہوتا ہے یہاں پر بھی ہمیں عمل مسلسل چاہیے بھلے قطرہ ہی کیوں نہ ہو وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ امام باقر ؑ فرماتے ہیں
"احب الاعمال الی اللہ ماداوم علیہ العبد و ان قل”
خدا کو زیادہ عمل نہیں ،خدا کو وہ عمل پسند ہے جو عبد انجام دے اور مسلسل انجام دے ،پھر وہ کم نہیں ہوتا اگر چہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔” ولا ینقض عهدك” ایک تو مجھے ان میں لوگوں میں سے قرا دے جو مسلسل تیری بندگی میں رہے بندگی تھوڑی ہو یا بڑی ہو کم ہو یا زیادہ ہو وہ جو قبول ہو وہ کم نہیں ہوا کرتا دوسرا میں عہد شکنی نہ کروں۔
اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یٰــبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ (سورہ یس: 61)
کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پرستش نہیں کرو گے اور وہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے” و ان اعبدونی ھذا صراط المستقیم” یہ بھی ہم نے عہد کیا ہوا ہے کہ ہم راہ راست پر ،اور صراط مستقیم پر قائم رہیں گے” ولا یغفل عن شکرک” بس ہم نے یہ ساری مناجات پڑھی ہے اس کا ایک اثر مداومت ہے میں ہمیشہ ذکر میں رہوں۔
دوسرا یہ ہے کہ میں خدائے واحد و قھار کا شکر ادا کروں” ولا یغفل عن شکرک” تیرے سپاس گزار لوگوں میں میرا شمار ہو” من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ” اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے لوگوں کا بھی شکر ادا کرنا ہے ان کو بھی شکریہ کہنا ہے ۔اگر آپ یہ کوالٹی اپنے اندر پیدا کریں تو یہ بہت بڑی بات ہے۔
ولا یستخف باامرک”
ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے امر خدا کو ہلکا نہیں لینا ہے ہم نے سیریس لینا ہے۔ ابھی دیکھیں آپ کو باہر نکلنے سے چیزوں کو ہاتھ لگانے سے اور سوشل انٹریکشن سے منع کیا گیا ہے اس لئے کہ شاید کوئی وائرس ہو،کتنا چانس ہے وائرس ہونے کا؟ وائرس ہونے کا فیصد ننانوے سے بھی کم ہے پھر بھی ہم نے اس کو سیرئز لیا ہوا ہے اور سیرئیس لینا بھی چاہیئے۔ اور دوسری طرف ہم کہتے ہیں کہ اس ہاتھ کو بچا کے رکھو نامحرم سے ،کسی نامحرم کو لگے تو ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ شائد وائرس ہو ،یہ بچھو ہے امیر المومنینؑ عورت کو جو بچھو فر مارہے ہیں اس سے مراد نا محرم عورتیں ہیں۔ اور اس کا جو زہر ہے وہ شروع میں شیریں ہوگا اور بعد میں وہ تمہیں ہلاک کرنے والا ہوگا ہمیں احکام الہی کو ہلکا نہیں لینا ہے اور اگر یہ وائرس وہاں (چین )سے چلا ہے اور وہاں چمگاڈر کھانے کی وجہ سے چلا ہے تو یہ بھی وہی ہے کہ احکام الہی کو ہلکا لیا گیا جو درندوں کو کھانے سے منع کیا تھا ان کو لوگ کھاتے رہیں۔ تو انشاء اللہ اللہ ہمیں ان لوگو ں میں سے قرار نہ دیں جو ڈاکٹر کے کہنے پر دنیاوئی مختصر زندگی کی بہتری کے لئے مکمل تقوی اختیا ر کریں اور اخروی ہمیشہ ہمیشہ کی عافیت کے لئے تقوی الہی اختیا ر نہ کریں۔
” إِلَهِي وَأَلْحِقْنِي بِنُورِ عِزِّكَ الاَبْهَجِ ” نہیں پہنچا سکا، میں اعتراف کرتا ہوں کہ ان کلمات کو سرے سے میں آپ تک نہیں پہنچا سکا ،کلمات، کلمات امیر المومنینؑ ہیں” اِلَهِي وَأَلْحِقْنِي بِنُورِ عِزِّكَ الاَبْهَجِ ” خدایا مجھے ملحق کردے اپنی عزت کے نور سے، اس نور سے جو کہ عزت والا ہے اور و ہ بھی ابھج ہے، میں انتہائی مسرور اور لطف کے ساتھ ،انجوائی کرتے ہوئے اس نور سے ملحق ہو جاوں ۔ یہ مشکل راستہ نہیں ہے یہ لوگوں کو مشکل لگتا ہے لیکن ادھر آجاو، ادھر کیف و سرور ہے اگر نور الہی تمہیں حاصل ہو جائے اور شعبان میں تیار کر کے لے کے جارہے ہیں، شعبان میں تمہیں نورانی کر کے اس سفر پہ بیٹھایا جا رہا ہے ( جس سے رمضان المبارک تک پہنچنا ہے)، شعبا ن میں تمہیں اکرام دے کر تمہیں کرامت دے کر اللہ کی مہمانی میں لے کے جا رہے ہیں ۔یہ نہیں ہے کہ وہاں جب اللہ کی مہمانی میں جب دسترخوان الہی پر جاو تو تمہیں دھتکارا جائے،یہ کہا جائے کہ تم گندے ہو ،کثافت والے ہو ،نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ، تمہیں عزت والا بنا کر دسترخواں الہی پر لے جایا جا رہا ہے ” فَأَكُونَ لَكَ عارِفاً ” اس پہ بیٹھ کر تین چیزیں ہوجائیں گیں، اگر یہ نور حاصل ہو گی تو تجھے عزت ملے گی” فَأَكُونَ لَكَ عارِفاً ” تو عارف ہوجائے گا ، تجھے معرفت خدا مل جائے گی” وعن سواک منحرفا” اگر میں خدا کا عارف ہو گیا معرفت الہی حاصل ہوگئی تو ممکن نہیں کہ میں غیر اللہ کی طرف نگاہ بھی کروں ” وَعَنْ سِواكَ مُنْحَرِفاً " تیرے علاوہ کوئی بھی ہو سب سے میں منہ موڑ لوں گا صرف اور صرف میں تیرا ہو جاوں گا” وَمِنْكَ خائِفاً ” میں تیرا ہوگیا تو تیرا خوف میرے دل میں بیٹھ جائے گا” ُراقِباً” اور میں پھونک پھونک کر قدم رکھوں گا میں ہمیشہ تیرے ساتھ رہنے کی کوشش کروں گا تیرے قرب میں رہنے کی کوشش کروں گا تیرے رضوان کو حاصل کرنے کی کوشش کروں گا” يَا ذَا الجَلالِ وَالاِكْرامِ ” اس کے بعد ہم نے کہا جب دعا ختم ہوگئی تو درود پر ختم ہوئی۔
وَصلَّى الله عَلى مُحَمَّدٍ رَسُولِهِ وَآلِهِ الطَّاهِرينَ وَسَلَّمَ تَسْلِيماً كَثِيراً
یہاں صرف چند منٹ آپ کا مزید لے رہا ہوں یہاں پر ہمیں جب وہ عزت مل گئی ہے جو نور معرفت الہی سے حاصل ہوئی ہے اس معرفت کا بھی ہم نےخدا سے بھیک مانگے ہیں، معرفت کی بھیک ہم مانگ رہے ہیں کیوں؟اس لئے کہ ہمیں اگر معرفت حاصل ہوجائے تو معرفت کی دوقسمیں ہیں ایک معرفت استدلالی ہے دوسرا معرفت شہودی ہے۔اور اس مناجات سے معرفت حاصل ہونی بھی چاہیے کہ ہم اللہ کے بھی قریب ہو جائے او رمومنین کے بھی قریب ہو جائیں۔انشاءاللہ ہمیں معرفت استدلالی بھی حاصل ہو گی اور معرفت شہودی بھی حاصل ہو گی،کتنا فرق ہے ان دومعرفتوں میں؟ زمین و آسمان جتنا فرق ہے
معرفت استدلالی یہ ہے کہ آپ علم کے ذریعے استدلا ل کے ذریعے اور آثار کو دیکھ کر خدا تک پہنچتے ہیں، اسے معرفت استدلالی کہتے ہیں۔اور معرفت شہودی یہ ہے کہ آپ خود نور عزت الہی کو دیکھے اور اس سے ملحق ہو جائے اور امیر المومنینؑ آپ کو اس معرفت تک لے گئے ہیں یعنی خود اللہ تک لے کے گئے ہیں۔ معرفت شہودی کو اگر میں اور سمجھا سکوں تو بطور مثال، کوئی بھی چیز دروازے کے پیچھے آئی ہے ، فرض کر لیں کہ وہ انسان نہیں ہے جس کو آپ بہت جانتے ہیں وہ نہیں ہے۔اور آپ پوچھ رہے ہیں کہ کون ہے ؟ اس کے آثار سےآپ اس کو پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور دروازے کے پیچھے رہ کر آپ کے معرفت کی حد اور ہوگی اور اگر اس دروازے کواور اس رکاوٹ کو ختم کر کے جا کر اسے بلمشافہ دیکھ لے تو جو آپ کی معرفت ہوگی اس کا مقام کچھ اور ہوگا۔
یہاں پر امام علیؑ کے فرزند امام حسینؑ فرماتے ہیں:
فَاجْمَعْنى عَلَيْكَ بِخِدْمَة تُوصِلُنى اِلَيْكَ، كَيْفَ يُسْتَدَلُّ عَلَيْكَ بِما هُوَ فى وُجُودِهِ مُفْتَقِرٌ اِلَيْكَ،
کہ اے میرے معبود،میں یہ نہیں چاہتا کہ میں آثار کے ذریعے تیری معرفت حاصل کر لوں میں معرفت شہودی چاہتا ہوں تاکہ میں تیرے قریب ہو جاوں ،ہماری دعا ہے کہ آپ سب کو خدا اس مناجات کی بدولت معرفت شہودی عنایت کرے اور اگر معرفت شہودی آگئی اور آپ نے اپنی آنکھوں سے کمال و جمال الہی کو دیکھ لیا تو آپ کی معرفت وہی ہوگی جو آپ کے مولا کا مطلوب ہے۔ امیر المومنینؑ کہتے ہیں کہ میں اس ذات کی عبادت کر ہی نہیں سکتا جس کو میں نے دیکھا نہ ہو ،آنکھ سے دیکھنا مرا د نہیں ہے چشم قلب سے اگر آپ نے شہود کر لیا تو پھر عن سواک منحرفا ہو ہی نہیں سکتا کہ اس نور اس جمال اور اس محبت کو دیکھنے کے بعد آپ کا دل کسی اور پر آجائے۔
” نیست در لوح دلم جز الف قامت یا ر چی کنم حرف دیگر یاد نہ داد استاد
سید الشہداء ؑکے دعائے عرفہ سے آخری کلما ت ہیں:
انت الذی ازلت اغیار عن قلو ب احبائک”
تو ہی ہے وہ ذات جس نے اپنے احباء اپنے اولیاء کے دلوں سے اغیار کی محبت کو نکال دیا ہے ۔
” حتی لم یحبو سواک”
اس میں بھی میرا کوئی کمال نہیں ہے۔قربان جاوں ! ان کلمات پر میں صرف تیرا ہوا ہوں اور سجدہ آخر میں میں خنجر کے تلے اپنا پورا خاندان دے کر بھی ” رضا برضاک” کہہ رہا ہوں او رتیری طرف ہی متوجہ ہوں اور تجھ سے ہی محبت کر تا ہوں اس میں بھی میرا کمال نہیں ہے یہ بھی تو نے کیا ہے”لم یحبو سواک” تیری لطف و کرم کی وجہ سے ہے اس لئے کسی بھی مرحلے میں تیرے علاوہ کسی کو تیرا محبوب تیرا ولی تیرا دوست تیرا محب نہیں چاہ سکتا ہے۔
” اہم یلجء الی غیرک” وہ تیرے غیر کی طرف نظر کر ہی نہیں سکتا ” و منک خائفا مراقبا” ایک اور اثر یہ ہے کہ اس کے دل میں خوف پیدا ہوجائے گا ہم نے خوف پہ اسی دروس میں بھی بولا ہے کہ یہ وہ خوف ہے جو امن لے کر آتا ہے یہ وہ خوف ہے جو محبت لے کر آتا ہے یہ وہ خوف ہے جو معرفت لے کر آتا ہے۔
ان اللہ اذا جمع الناس نادی فیھم منادی۔
جب محشر کے دن تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا، تو ایک منادی آواز دے گا” ایھا الناس ان اقربکم الیوم من اللہ اشدکم منہ خوفا” تم میں سے اکرم و اقرب کون ہے؟ وہ جو جتنا خدا سے زیادہ خائف تھا ۔ خف اللہ خوف من شغل بالفکر قلبہ” اللہ کا خوف پیدا کرو کونسا خوف؟
اس شخص کا خوف جس کا دل اللہ کی محبت سے مالا مال ہے ۔”فان الخوف منة الامن” خوف جائے گاہ امن ہے"وسجن النفس عن المعاصی” یہ خوف تجھے اللہ سے نہیں روکتا بلکہ تیرے قلب سے نفس کو قید کر دیتا ہے اور اس کو معصیت کی طرف جانے نہیں دیتا ”
"و صل اللہ علی محمدؐ رسولہ و آلہ الطاھرین و سلم تسلیما کثیرا”

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button