اخلاق رذیلہاخلاقیاتمقالات قرآنی

قطع رحمی کی مذمت

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
1۔ الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ (البقرۃ:27)
جو (فاسقین) اللہ کے ساتھ محکم عہد باندھنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جس (رشتے) کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے اسے قطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
تشریح کلمات
نقض:( ن ق ض ) عمارت کا گرانا۔ہڈی توڑنا۔ رسی توڑنا۔ نیزعہد توڑنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔
میثاق( و ث ق ) وثاقت سے ماخوذ ہے۔ وثاق : وہ رسی جس سے کسی بوجھ کو بآسانی اٹھانے کے لیے گٹھا باندھا جاتا ہے۔ بنا بر ایں یہ لفظ اس عہد کے لیے بھی استعمال ہونے لگا جو آپس میں باندھا جاتا ہے۔
تفسیر آیات
اس آیت میں فاسقین کی تین علامات بتائی گئی ہیں۔
۱۔ عہدشکنی:
اس عہد سے مراد فطرت کا عہد بھی ہو سکتا ہے، جس کی توثیق انبیاء علیہم السلام کی طرف سے اتمام حجت کے طور پر ہوئی ۔چنانچہ روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام، انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے بارے میں فرماتے ہیں:
"لِیَسْتَأْدُوْھُمْ مِیْثَاقَ فِطْرَتِہِ "(نہج البلاغۃ ۔ ترجمہ مفتی جعفر حسینؒ ص ۷۶)
وہ اللہ کے ساتھ کیے گئے فطری عہد و میثاق کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے مبعوث ہوئے ۔
۲۔ قطع رحمی:
جن سے تعلق اور رشتہ قائم رکھنے کا حکم ہے ، فاسقین ان سے تعلق توڑتے ہیں۔ چنانچہ ایک اور جگہ ارشاد قدرت ہے:
اِنَّہُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۔۔۔ ( ۷ اعراف: ۳۰)
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا آقابنا لیا ہے۔
۳۔ فساد فی الارض:
زمین پر بسنے والوں کا امن و سکون برباد کرنا ان کا شیوہ رہا ہے اور آج بھی کرۂ ارض پرجہاں کہیں فتنہ و فساد برپا ہے اس میں درپردہ یا ظاہری طور پر فاسقین ہی کا عمل دخل ہے۔
اہم نکات
۱۔ فاسق عہد خداکو توڑنے اور فساد فی الارض کے نتیجے میں گمراہ ہوکر خسارے میں پڑ جاتا ہے۔
تحقیق مزید:( الکافی ۲ : ۶۴۱)
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 254)
قطع رحمی برے لوگوں کی خصوصیت
2۔ فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ (محمد:22)
پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔
تفسیر آیات
۱۔ فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ: جب تمہارے ایمان کا یہ حال اور حکم عدولی کا یہ عالم ہے تو سے فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ اور قطع رحمی کے سوا کیاتوقع کی جا سکتی ہے۔ دوسری تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ تم کبھی برسر اقتدار آئے تو تم سے فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ اور قطع رحمی کے علاوہ کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ بعض نے تَوَلَّیۡتُمۡ کے معنی منہ پھیرنے اور بعض نے برسراقتدار آنے کے کیے ہیں۔
تَوَلَّیۡتُمۡ: التولی ولایت و حکومت کے معنوں میں زیادہ قرین سیاق ہے چونکہ حکمرانوں سے فساد فی الارض کا ارتکاب ہوا کرتا ہے اور اپنی کرسی و اقتدار کے لیے قریبی ترین رشتہ داروں کا بھی خون کرتے ہیں۔
چنانچہ چشم جہاں نے دیکھ لیا جب حکومت بنی امیہ کے ہاتھ آئی تو انہوں نے نہ کسی چھوٹے پر رحم کیا، نہ بڑے پر، نہ صلہ رحمی کا خیال رکھا۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نشاندہی فرمائی کہ فساد پھیلانے اور قطع رحمی کرنے والے کون ہیں:
"ھم ھذا الحی من قریش اخذ اللہ علیہم ان ولوا الناس ان لا یفسدوا فی الارض ولا یقطعوا ارحامہم
( تفسیر قرطبی وغیرہ)
"یہ مفسدین قریش کا ایک قبیلہ ہے۔ ان سے اللہ نے عہد لیا ہے کہ اگر وہ لوگوں کے حاکم بن جائیں تو زمین پر فساد نہ پھیلائیں اور قطع رحمی نہ کریں”۔
دیگر متعدد روایات میں اس قبیلے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
"رأی رسول اللہ بنی امیۃ ینزون علی منبرہ نزو القردۃ فساء ہ فما استجمع ضاحکاً حتی مات”
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے منبر پر بنی امیہ اس طرح چھل کود کر رہے تھے جس طرح بندر اچھل کود کرتے ہیں۔ آپ پر یہ بات اتنی دشوار گزری کہ اس کے بعد تاحیات آپ نے تبسم نہیں فرمایا”۔
اس مضمون کی روایات کے راوی ہیں: سھل بن سعد، سعید بن المسیب، یعلی بن مرۃ، ابن عمر ۔
حضرت عائشہ نے مروان بن حکم سے فرمایا:
"سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لابیک وجدک انکم الشجرۃ الملعونۃ فی القرآن”
( روح المعانی، الدرالمنثور ذیل آیت ۶۰، سورہ بنی اسرائیل )
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیرے باپ اور تیرے دادا کے بارے میں یہ کہتے سنا ہے تم وہ شجرہ ملعونہ ہو جو قرآن میں مذکور ہے”۔
واضح رہے کہ مروان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے شہر بدر کیا تھا۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھے یہی مروان بعد میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی جاگیر فدک کا مالک بن جاتا ہے۔ بعد میں تو یہی لوگ منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مالک بن گئے۔
"رأیت الدھر یرفع کل وغد و یخفض کل ذی شیم شریفہ "
( ابن الرومری۔ شرح نہج البلاغۃ ۳: ۳۴۷)
"میں نے دیکھا ہے کہ زمانہ ہر نالائق کو بلند کرتا اور ہر شریف صفت کو گراتا ہے”۔
اہم نکات
۱۔ سچ فرمایا صادق آل محمد علیہ السلام نے کہ سورہ محمد کی ایک آیت ہماری شان میں اور ایک آیت ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 263)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button