قرآنیاتمقالات قرآنی

قرآن و اہل بیتؑ کا باہمی تعلق (حدیث ثقلین کی روشنی میں) حصہ ششم

آغا ثاقب علی ساقی(ایم فل اسلامک سٹڈیز سکالر)

باب ششم
قرآن و اہل بیت کا باہمی تعلق

قرآن و اہل بیتؑ
انفرادی طور پر اللہ تعالی کے فضل و کرم سے قرآن و اہل بیتؑ سے متعلق بحث گزر گیا لہذا اب چاہتے ہیں کہ قرآن و اہل بیتؑ کے درمیان جو باہمی تعلق ہے وہ بیان کریں کہ جس کی وجہ سے رسول اللہؐ نے قرآن و اہل بیتؑ کو ایک دوسرے کا ہم پلہ قراردیا۔
رسول اللہ ؐنے اس دنیا سے کوچ کرنے سے پہلے مسلمانوں کے سامنے قرآن و اہل بیتؑ کی صورت میں قیامت تک ہدایت کا ایک نظام متعارف فرمایا۔اس نظام ہدایت کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم انفرادی طور پر بھی ان دونوں گراں قدر چیزوں کی معرفت حاصل کریں اور ساتھ ان دونوں کے درمیان باہمی تعلق کو سمجھ کر مجموعی طور پر بھی دونوں کی معرفت حاصل کریں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ان دونوں کو چھوڑ دیں یا ان میں سے ایک کو چھوڑ دیں اور ہمیں علم بھی نہ ہو۔
حدیث ثقلین
جس حدیث کے اندر رسول اللہؐ نے قیامت تک انسانوں کیلئے ہدایت کا نظام متعارف فرمایا ہے اس حدیث کا نام حدیث ثقلین ہے۔حدیث ثقلین وہ حدیث ہے کہ شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں ان متواتر احادیث میں سے ہے کہ جن کے سلسلے سب سے زیادہ بنتے ہیں فقط اصحاب میں سے 34 اصحاب نے اس حدیث کو نقل فرمایا ہے۔لہذا اس حدیث کے تواتر پر مسلمین کا اجماع ہے اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس حدیث کا انکاری نہیں ہے۔اس حدیث کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ رسول اللہؐ نے اس حدیث کو ایک مقام پر نہیں بلکہ کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے حتی کہ غدیر خم کے مقام پر خطبہ غدیر کہ جو رسول اللہؐ کا سب سے طولانی خطبہ ہے اس میں بھی یہ بیان موجود ہے۔صحابی رسول ؐحضرت زید ابن ارقم سے نقل ہے کہ:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَالْأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، ‏‏‏‏‏‏أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ، ‏‏‏‏‏‏كِتَابُ اللّٰهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي،‏‏‏‏ وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا(1)
رسول اللہؐ نے فرمایا: ”میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری «عترت» یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو۔
حدیث ثقلین میں موجود غور طلب نکات
قرآن و اہل بیتؑ سے متعلق رسول اللہ ؐسے مروی حدیث ثقلین میں بہت سارے غور طلب نکات ہیں۔اگر یہ نکات ہمارے سامنے ہوں اور ہم ان نکات کو سمجھیں تو قرآن و اہل بیتؑ کی عظمت و اہمیت ہمارے سامنے بالکل واضح ہوجائے گی۔اگر اہل بیتؑ کی عظمت و فضیلت سے متعلق قرآن مجید کی کوئی آیت اور رسول اللہؐ کی اس حدیث کے علاوہ اصلا حدیث ہی نہ ہوتی تب بھی یہ ایک حدیث اہل بیتؑ کی عظمت و فضیلت اور امت کے اندر اہل بیت کے مقام و مرتبے کیلئے کافی ہوتی کیونکہ اس حدیث میں اہل بیتؑ کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا گیاہے لہذا ہر پڑھنے والے کے ذہن میں آتا ہے کہ جن کو رسول اللہؐ قرآن کا ہم پلہ قرار دے رہے ہیں وہ کوئی عام لوگ ہوہی نہیں سکتے۔
قرآن و اہل بیتؑ ہدایت کے دو مینار
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کیلئےایک سلسلہ بنایا اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری ہے۔سلسلہ نبوت کے بعد ہدایت کی یہ ذمہ داری اہل بیتؑ کے کھاندوں پر آجاتی ہے۔قرآن مجید کتاب ہدایت ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس کتاب کو مفسرین حقیقی و مخاطبین حقیقی کی ضرورت ہے کہ جو قرآن کے علم سے آشنا ہوں ورنہ ہر کوئی قرآن کے کسی آیت کا اپنی طرف سے ترجمہ کرکے ہدایت کے بجائے اسی قرآن کی وجہ سے گمراہ ہوجائے گا کیونکہ قرآن میں محکمات کے ساتھ ساتھ متشابہات بھی موجود ہیں، کہیں عام کی تخصیص ہوئی ہے تو کہیں مطلق کیلئے کوئی آیت قید بنتی ہے،کہیں ناسخ آیا ہوا ہے تو کہیں منسوخ موجود ہےلہذا اسی وجہ سے اللہ تعالی نے قرآن و اہل بیت ؑکی صورت میں ہدایت کا نظام بنایا کہ جو قیامت تک جاری رہے گا۔تاکہ اگر کوئی قرآن کے کسی آیت کو نہ سمجھے تو اہل بیت ؑکی طرف رجوع کرے۔باالفاظ دیگر اللہ تعالی نے فقط کتاب کی صورت میں ہدایت کا آئین و دستور نہیں بھیجا بلکہ اس آئین و دستور کو صحیح طرح سمجھانے اور اس کو عملی صورت دینے کیلئے رہبروں کا سلسلہ بھی مقرر فرمایا۔
قرآن مجید انسانوں کے لیے ہدایت ہے اس حوالے سے اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَان(2)
(رمضان و ہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگو ں کے لیے ہدایت ہے ا ور ایسے د لائل پر مشتمل ہے جو ہدایت ا ور (حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں۔ )
اہل بیتؑ انسانوں کے لیے ہادی و رہنما ہیں اس حوالے سے امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں۔
عن برید بن معاویۃ عن ابی جعفر فی قول اللّٰہ "اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہاد” فقال قال رسول اللّٰہ علیہ و آلہ السلام انا المنذر و فی کل زمان امام منا یھدیھم الی ما جاء بہ نبی اللّٰہ،و الھداۃ من بعدہ علی،ثم الاوصیاء من بعدہ واحد بعد واحد(3)
(امام باقر علیہ السلام نے اس آیت اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہاد کے بارے میں فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا میں منذر ہوں اور ہر زمانے میں ہم اہل بیتؑ میں سے ایک امام ہوگا جو رسول اللہؐ کی طرف سے جو کچھ اس کے پاس ہے اسے لوگوں کی ہدایت کرے گا،آپؐ کے بعد ہادی علی ہیں اور پھر وہ اوصیاء کہ جو یکے بعد دیگر ان کے بعد ہیں۔)
قرآن و اہل بیتؑ دونوں سے تمسک کا کہا گیا ہے
اس حدیث کے اندر ایک بہت ہی غور طلب نکتہ یہ ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ دونوں سے تمسک کا کہا گیا ہے ان دونوں سے جڑے رہنے کا کہا گیا ہے فقط ان دونوں کے ماننے یا ان دونوں کے اوپر اعتقاد رکھنے کا نہیں کہا۔اگر ایک خوبصورت گاڑی یہاں کھڑی ہے اور وہ کچھ وقت بعد یہاں سے پشاور کی طرف روانہ ہورہی ہو تو اب اگر ہم فقط اس گاڑی کی تعریفیں کرتے رہیں یا یہ یقین و اعتقاد رکھیں کہ یہ گاڑی واقعا بہت اچھی ہے خوبصورت ہے لیکن اس گاڑی کے اندر بیٹھیں نہیں بلکہ فقط دور سے کھڑے ہوکر تعریفیں کرتے رہیں لہذا اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا اگر ہم چاہیں کہ پشاور پہنچ جائیں اور یہ گاڑی ہمارے لئیے پشاور پہنچنے میں فائدہ مند ثابت ہو تو ضروری ہے کہ ہم اس گاڑی کے اندر بیٹھ جائیں۔لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن و اہل بیتؑ سے جوڑ جائیں فقط ان کی تعریفیں نہ کریں۔
آج کے دور کے ایک معروف محقق کو یہ سنتے ہوئے بہت تعجب ہوا کہ جب اس نے یہ کہا کہ درست ہے رسول اللہؑ نے غدیر کے مقام پر علیؑ کے ولایت کا اعلان کیا ہے لیکن حضرت ابوبکر ہمارے ظاہری مولا ہیں اور علیؑ ہمارے باطنی مولا ہے۔اگر ہم ظاہری ولایت و حکومت کسی اور کے حوالے کریں جن سے متعلق رسول اللہؐ نے فرمایا ہے ان کے حوالے نہ کریں بلکہ ان کے حوالے فقط اعتقاد کریں کہ ٹھیک ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ معنوی مولا یہی ہے تو کیا فائدہ کوئی فائدہ نہیں۔ رسول اللہ نے بغیر کسی قید کے علیؑ کیلئے مولا کا لفظ استعمال کیا ہے لہذا اگر رسول اللہؐ ہمارے ظاہری و باطنی دونوں طرح کا مولا ہے تو مولا علیؑ بھی ہمارا دونوں طرح کا مولا ہے جو تقسیم بندی مولا علی ؑسے متعلق وہ محقق کرتے ہیں اس کی کوئی جواز نہیں لہذا اہل بیتؑ سے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیتؑ جیسا کہیں ہم ویسا انجام دیں اگر اہل بیتؑ سے متعلق فقط ہم اعتقاد رکھیں تو یہ کافی نہیں ہے بلکہ عملا ولایت اہل بیتؑ میں آنا لازمی ہے،اہل بیت ؑ اولی الامر سمجھ کر ان کی پیروی کرنا لازمی ہے۔فقط یہ نہ ہو کہ بس اہل بیتؑ سے محبت کے دعوے کرتے پھریں۔ولایت ظاہری و ولایت معنوی کی جو تقسیم ہے نہ تو یہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ یہ کسی حدیث سے ثابت ہے بلکہ وہ محقق بھی اس تقسیم پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل لیکر نہیں آئے اپنے استاد کا نظریہ بطور دلیل بیان کیا کہ یہ وہ مطلب ہے کہ میں نے اپنے استاد سے سیکھا ہے۔اس طرح کے تاویلات میرے نظر میں علمی چڑیل ہیں۔جیسے چھوٹے بچوں کو چڑیل سے ڈرایا جاتا ہے اسی طرح لوگوں کو ایسے بے بنیاد دلائل دے کر خاموش کیا جاتا ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ فلاں بات میرے استاد نے کی ہے بس یہ درست ہے سامنے والے کو کہنا چاہئے کہ تیرے استاد نے یہ بات کہاں سے کی ہے کس دلیل کی بنیاد پر یہ بات کی ہے ہر استاد اپنے شاگردوں کو کوئی نا کوئی نظریہ یا کوئی نا کوئی دلیل دیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ بس وہ درست بھی ہو۔
قرآن و اہل بیتؑ سے جڑنے کا مطلب یہ ہے ہم تمام مسائل میں قرآن و اہل بیتؑ کی طرف رجوع کریں کسی اور کی طرف رجوع نہ کریں انہیں کو اپنا رہنما سمجھیں اور انہیں سے رہنمائی حاصل کریں اور ان کے ہر فیصلے کو تسلیم کرکے اس پر عمل کریں۔
قرآن و اہل بیتؑ میں سے ایک دوسرے سے عظیم
حدیث ثقلین کہ جو رسول اللہؐ نے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے اور بہت سارے اصحاب رسولؐ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ حضرت زید ابن ارقم سے جو منقول عبارت ہے اس کے اندر ایک نکتہ یہ بھی ملتا ہے کہ:
أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ(4) (ان میں سے ایک دوسرے سے عظیم ہے۔)یعنی رسول اللہؐ نے قرآن و اہل بیتؑ میں سے ہر ایک کو دوسرے سے عظیم قرار دیا ہے۔یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن اہل بیتؑ سے افضل ہے یا اہل بیتؑ قرآن سے افضل ہیں اور نہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ یہ کہیں قرآن اہل بیتؑ پر فوقیت رکھتا ہے پس ہم حسبنا کتاب اللہ کہہ کر نعوذ باللہ اہل بیتؑ کو چھوڑ دیں یا ہم یہ تصور کریں کہ اہل بیتؑ قرآن پر فوقیت رکھتے ہیں لہذا ہمارے لیے اطاعت اہل بیتؑ کافی ہے اور ہمیں قرآن مجید کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم واضح طور پر گمراہ ہوجائیں گے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ دونوں میں سے ہر ایک نظام ہدایت میں ایک دوسرے پر فوقیت رکھتا ہے کیا مطلب ایک دوسرے پر فوقیت رکھتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان میں سے ہرایک کو اپنے لیے رہبر و رہنما بنانا اور اس سے متمسک ہونا لازم ہے بعینہ اسی طرح دوسرے سے بھی متمسک رہنا اور اس کو اپنا رہبر و رہنما بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ان میں سے ایک اگر ہادی و رہنما ہے تو دوسرا اس سے بڑھ کر ہادی و رہنما ہے لہذا ہمیں ان دونوں کے درمیان تقریق کا حق کسی بھی مقام پر اور کسی بھی زمانے میں حاصل نہیں ہے اور نہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں رکھنے کا حق ہے۔
قرآن و اہل بیتؑ دونوں سے بیک وقت تمسک میں نجات ہے
ایک اور غور طلب نکتہ اس حدیث میں یہ ہے کہ ہمیں چاہئے کہ ہم بیک وقت قرآن و اہل بیتؑ دونوں سے تمسک رکھے۔اگر ہم قرآن سے متمسک ہوں اور اہل بیتؑ کو چھوڑ دیں تب بھی ہم گمراہ ہوجائیں گے اور اگر ہم اہل بیت ؑسے تو متمسک ہوں لیکن قرآن کو ترک کریں تب بھی ہم گمراہ ہوجائیں گے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اہل بیتؑ کے بغیر قرآن سے تمسک اصلا قرآن سے بھی تمسک نہیں ہے اور قرآن کے بغیر اہل بیتؑ سے تمسک اصلا تمسک ہی نہیں ہے پس نجات اس میں ہے کہ ہم ان دونوں سے جوڑے رہیں۔قرآن و اہل بیتؑ کی مثال پرندے کے دو پروں کی طرح ہے اگر ان میں سے پرندے کا ایک پر بھی نہ ہو تو وہ اڑان نہیں بھر سکے گا لہذا اگر ہم چاہیں کہ ابدی کامیابی حاصل کریں تو ہمارے لیےضروری ہے کہ ان دونوں گراں قدر چیزوں کو مضبوطی سے تھامے رکھیں یہ نہ کہیں کہ حسبنا کتاب اللہ یا حسبنا اہل بیتؑ۔
قرآن سے تمسک اہل بیتؑ سے تمسک ہے اور اہل بیتؑ سے تمسک قرآن سے تمسک ہے
ایک اور نکتہ کہ جس کی طرف رسول اللہؐ ہمیں متوجہ کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ یعنی یہ دونوں ہدایت کے دو مینار ہیں قرآن سے تمسک درحقیقت اہل بیتؑ سےتمسک ہے اور اہل بیتؑ سے تمسک دوحقیقت قرآن سے تمسک ہے۔ یہ دونوں ہدایت و رہنمائی کے حوالے سے ایک ہی ہیں اور ان میں سے ایک کا تمسک حقیقی معنوں میں دوسرے کا بھی تمسک ہے یعنی اگر ایک انسان حقیقی معنوں میں قرآن سے متمسک ہے تو ایسا نہیں ہے کہ اہل بیتؑ سے متمسک نہ ہو اور اگر کوئی حقیقی معنوں میں اہل بیتؑ سے متمسک ہے تو ایسا نہیں ہے کہ وہ قرآن سے متمسک نہ ہو بلکہ قرآن سے حقیقی تمسک ہی وہی ہے کہ جب انسان قرآن کے ساتھ اہل بیتؑ سے متمسک ہو اور اہل بیتؑ کے ساتھ حقیقی تمسک وہی ہے کہ جب انسان اہل بیتؑ کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے ساتھ بھی متمسک ہو۔پس ہمارے لیے اس بات کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ ہم یہ کہیں کہ ہم ہر معاملے میں قرآن کی طرف رجوع کررہے ہیں بس ہمارے لیے یہ کافی ہے یا ہم ہر معاملے میں اہل بیتؑ کی طرف رجوع کررہے ہیں پس ہمارے لیے یہ کافی ہے ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہئے وہاں ہم قرآن کی طرف رجوع کریں لیکن اگر ہمیں کسی مسئلے کا حل قرآن سے نہ ملے چونکہ ہم قرآن پر سو فیصد دسترس نہیں رکھتے لہذا وہاں ضروری ہے کہ ہم اہل بیتؑ کی طرف رجوع کریں یا اگر ہمیں قرآن کے کسی آیت سے متعلق علم نہ ہو کہ اس آیت میں اللہ تعالی کا مقصود کونسا معنی ہے تو وہاں ضروری ہے کہ ہم اہل بیتؑ کی طرف رجوع کریں۔اور یہی حقیقی معنوں میں دونوں سے تمسک ہے۔
قرآن و اہل بیتؑ میں تاقیامت جدائی نہیں
اس حدیث کے اندر ایک بہت ہی غور طلب نکتہ یہ بیان ہوا ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ میں تاقیامت جدائی نہیں ہے۔اور یہی وہ اہم و غور طلب نکتہ ہے کہ جس کو بنیاد بنا کر اوپر دو اہم ابحاث حل کرچکے ہیں ایک یہ کہ اہل بیت کون ہیں اور دوسرا نکتہ یہ کہ کیا آئمہ اہل بیت بھی اہل بیتؑ میں شامل ہیں کہ نہیں ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جو اس وقت امام مہدیؑ کے وجود پر بھی دلیل ہے۔جب یہ بات واضح ہے کہ نظام ہدایت کی بنیاد آئین و دستور ہدایت کے ساتھ ساتھ ہادی و رہنما پر استوار ہے تو پس ضروری ہے کہ کتاب خدا یعنی قرآن مجید کہ جو آئین و ستور ہدایت ہے اس کے ساتھ تاقیامت ہادیان دین کا بھی ایک سلسلہ جاری رہے تاکہ قیامت تک نظام ہدایت مستحکم ومضبوط ہو۔ اس بارے میں دوبارہ تفصیل سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں اوپر ہم تفصیل سے بحث کرچکے ہیں اب اسی بحث کو دوبارہ یہاں تکرار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
قرآن منبع تعلیمات اسلامی و اہل بیتؑ محافظین قرآن
تمام مسلمانوں کے نزدیک تعلیمات اسلامی کا بنیادی منبع و سرچشمہ قرآن مجید ہے۔احادیث رسول مقبول و روایات آئمہ اہل بیتؑ درحقیقت قرآن مجید کے آیات کی تشریح و تفسیر ہیں البتہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ روایات حجت ہیں لیکن اگر کوئی ایسی روایت ہے کہ جو قرآن مجید سے تضاد رکھتا ہو تو امام صادق کے بقول کہ اس روایت کو نہ لیں یعنی وہ ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔پس معلوم ہوا کہ قرآن مجید ہی تعلیمات اسلامی کا بنیادی منبع و سرچشمہ ہے اور اہل بیتؑ محافظین قرآن و اسلام ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے یعنی اللہ تعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کیلئے ایک نظام بنایا ہے۔اللہ تعالی نے پہلے اپنے حبیب کو نہیں بھیجا بلکہ اپنے حبیب کیلئے حفاظت کا انتظام کیا اور اللہ نے حضرت ابو طالب و حضرت خدیجة الکبریؑ کی صورت میں رسول اللہؐ کی حفاظت کا انتظام کیا۔آیت خداوندی ہے: اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی ( کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر پناہ دی؟)(5)
کیا یہ حفاظت کا نظام و انتظام ختم ہوا نہیں بلکہ یہ حفاظت کا نظام و انتظام جاری رہا حضرت ابو طالبؑ و حضرت خدیجۃ الکبریؑ کے بعد اللہ تعالی نے مولا علیؑ و جناب فاطمہؑ کی صورت میں اپنے دین و اپنے رسول کی حفاظت کا انتظام فرمایا اور جب یہ دوہستیاں آپس میں مل گئیں تو اللہ تعالی نے اپنے دین و اپنے کتاب کی حفاظت کیلئے قیامت تک حفاظت کا نظام و انتظام فرمایا۔ان ہستیوں نے خود تو ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن دین خدا پر آنچ نہیں آنے دیا۔حضرت امام حسینؑ خود شھادت کیلئے تیار ہوئے ہر قسم کی تکلیف برداشت کی لیکن اپنے جد رسول اللہؐ کے دین اور اللہ کے کتاب کو بچالیا۔اسی طرح کسی بھی امام کا اپنے وقت کے حکومتوں کے ساتھ کوئی ذاتی تنازعہ نہ تھا اور نہ ان کو دنیا کی لالچ تھی اگر تنازعہ تھا تو بس اسی بات پر تھا کہ وقت کے دنیا پرست حکمران دین کو اپنی ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا کرتے تھے،انہوں نے قرآن کو رہنما نہیں بنایا تھا بلکہ قرآنی آیات کی من پسند معانی کیا کرتے تھے جبکہ آئمہ اہل بیتؑ ان کے راہ میں خائل تھے۔جیسے اس دور کے حکمران دین کو اپنی مفاد کیلئے استعمال کرتے تھے آج بھی یہی ہو رہا ہے۔آج کے یہ سیکیولر و لبرل حکمران دین کو اپنی مفاد کیلئے استعمال کررہے ہیں۔آج کے حکمران بھی اسلامی ٹچ دینے کے ماہر ہیں اور آئمہ اہل بیتؑ کے دور کے حکمران بھی یہی کررہے تھے اور آج کے حکمران بھی یہی کررہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ امامت کے سائے میں رہ کر آئمہ اہل بیتؑ کی طرح خدا کے دین کی پاسداری کریں نہ کہ ان کی حکومتوں کو تقویت دیں۔
آئمہ اہل بیت ؑنے دو طرح قرآن مجید کی حفاظت فرمائی۔ایک یہ کہ قرآن مجید کو باطنی و معنوی طور پر تحریف سے بچایا جہاں کہیں دوسروں نے آیات کا غلط معنی و مفہوم بتایا وہیں آئمہ اہل بیت نے ان کی غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے حقیقی معنی و مفہوم بتایا۔اور دوسرا یہ ہے کہ آئمہ اہل بیتؑ نے ظاہری طور پر بھی کسی کو قرآن مجید میں تحریف کی اجازت نہیں دی اور اگر کسی نے یہ کوشش کی تو اہل بیت نے بروقت اقدام کرکے ان کے اس کوشش کو ناکام بنایا۔
قرآن ذکر اہل بیتؑ اہل الذکر
اللہ تعالی نے قرآن مجید کو کئی سارے ناموں سے متعارف فرمایا ہے جن میں سے ایک نام ذکر ہے۔ارشاد باری تعالی ہے کہ:
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ(6)
( اس ذکر )قرآن)کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔)
جیسے قرآن مجید کو اللہ تعالی نے ذکر کہا ہے اسی طرح اہل بیت کو اہل الذکر کہا ہے آیت خداوندی ہے:
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ(7) (اور ہم نے آپ سے قبل صرف مردان (حق) رسول بنا کر بھیجے ہیں جن پر ہم وحی بھیجا کرتے ہیں، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔)
حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام و حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے:
نحن اَہۡلَ الذِّکۡرِ و نحن المسؤلون(8)
(ہم اہل ذکر ہیں اور ہم ہی سے سوال کیا جانا چاہیے۔)
بات ہمارے سامنے بالکل واضح ہے کہ دینی معاملات میں ہمیں اہل بیتؑ کی طرف ہی رجوع کرنا چاہئے اور حق بھی یہی ہے کیونکہ جب اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ساتھ قیامت تک ہدایت کیلئے اہل بیتؑ کو رکھا تو اب ہمارے پاس اہل بیتؑ کے علاوہ کسی اور کی طرف رجوع کا کوئی حق نہیں بنتا۔
یہاں ایک شبہے کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ آج کل اس غیبت کے دور میں بعض افراد عوام کے ذہنوں میں یہ شبہ ڈالتے ہیں کہ احادیث میں واضح طور پر موجود ہے کہ ہمیں اہل بیتؑ کی طرف ہی تمام مسائل میں رجوع کرنا ہے پس یہ فقہاء اور مجتہدین کی طرف رجوع کی بات کہاں سے آئی ہے یہ تو اہل بیتؑ کے علاوہ اوروں کی طرح رجوع ہے۔
یہ ظاہر بین لوگ اس شبہے کے شکار ہو چکے ہیں حقیقت یہ ہے کہ فقہاء و مجتہدین کی طرح رجوع بعینہ اہل بیتؑ کی طرف رجوع ہے کیونکہ فقہاء و مجتہدین نہ تو ہمیں مسائل کا حل اپنی طرف سے بتاتے ہیں اور نہ اہل بیتؑ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے بتاتے ہیں بلکہ جو کچھ اہل بیتؑ سے فقہاء و مجتہدین تک پہنچا ہے اسی کی بنیاد پر ہی وہ ہمارے مسائل کا حل بتاتے ہیں لہذا یہ بعینہ اہل بیتؑ کی طرف رجوع ہے البتہ درمیان میں فقہاء کی صورت میں ایک واسطہ موجود ہے۔جس طرح قرآن کے سمجھنے کیلئے سمجھانے والا ضروری ہے اسی طرح اہل بیتؑ کا کلام فقط ہم تک پہنچ جائے یہ کافی نہیں ہے بلکہ ایسے افراد ہوں جو ان کے پہنچے ہوئے کلام پر دسترس رکھتے ہوں جو ان کے کلام کے پیچ و خم سے آشنا ہوں۔ ایک مریض کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرے اگر ایک مریض ڈاکٹر کے بجائے خود میڈیکل کی کتابوں کی طرف رجوع کرے گا تو ان کتابوں کی باریکیوں کو نہیں سمجھ پائے گا اور نہ ڈاکٹر کے علاوہ کسی اور شعبہ کے ماہر کی طرف رجوع کرے مثلا ایک مریض اگر ایک انجیئیر کی طرف رجوع کرتا ہے تو غلطی کرتا ہے اور دنیاوی معاملات میں ہم بہت سمجھدار ہیں ایسا کرتے بھی نہیں ہے لیکن دینی معاملات میں خود مجتہد بن جاتے ہیں یہ تباہی ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کی آخری وصیت ہمارے لیے یہی ہے کہ:
اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الی رواۃ حدیثنا فانھم حجتی علیکم و انا حجۃ اللّٰہ الخبر۔(9)
(حوادث زمان میں ہمارے احادیث کے راویین(فقہاء و علماء)کی طرف رجوع کریں کیونکہ یہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں اللہ کا حجت ہوں۔)
قرآن اورمخاطبین و مفسرین قرآن
جیسا کہ اس بارے میں پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ قرآن مجید ایک کتاب ہے اور اس کتاب کو سمجھنے کیلئے ہمیں حقیقی مفسرین و مخاطبین قرآن کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا بصورت دیگر ہوسکتا ہے کہ ہم ہدایت کے بجائے گمراہ ہوجائیں۔قرآن مجید کے بعض مطالب ایسے ہیں کہ جن کو سمجھنے میں ایک عام انسان کیلئے بھی کوئی دقت نہیں ہے پس جو کوئی بھی عربی سے آشنا ہے وہ ان مطالب کو سمجھ سکتا ہے۔ بعض مطالب ایسے ہیں کہ جن کے سمجھنے کیلئے ہمیں بعض علوم کا سہارا لینا پڑھے گا ان علوم کے بغیر ہم شاید ان مطالب کو اچھی طرح نہ سمجھ سکیں یا ہوسکتا ہے بالکل بھی نہ سمجھ سکیں۔اسی طرح بعض آیات کے سمجھنے کیلئے ہمیں ان آیات کے شان نزول یا سبب نزول کو جاننا ہوگا ورنہ ہم ان آیات کے سمجھنے میں غلطی کربیٹھیں گے لہذا بعض مطالب قرآن مجید کے اندر ایسے ہیں کہ اگر ہم بعض علوم پر دسترس رکھتے ہوں تو ہم ان مطالب کو سمجھ سکتے ہیں لیکن بعض آیات و بعض مطالب قرآن مجید میں ایسے موجود ہیں کہ جن تک ہمارا پہنچ نہیں ہے ان کے سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اہل بیتؑ کی طرف ہی رجوع کریں بصورت دیگر ہم اس مطلب و معنی تک نہیں پہنچ سکتے جو مقصود خداوندی ہے۔
یہاں ہم اس مطلب کی وضاحت کیلئے زید شحام سے منقول ایک روایت لاتے ہیں ملاحضہ فرمائیں:
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِیهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ زَیْدٍ الشَّحَّامِ قَالَ: دَخَلَ قَتَادَةُ بْنُ دِعَامَةَ عَلَی أَبِی جَعْفَرٍ  فَقَالَ یَا قَتَادَةُ أَنْتَ فَقِیهُ أَهْلِ الْبَصْرَةِ فَقَالَ هَکَذَا یَزْعُمُونَ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ  بَلَغَنِی أَنَّکَ تُفَسِّرُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ قَتَادَةُ نَعَمْ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ  بِعِلْمٍ تُفَسِّرُهُ أَمْ بِجَهْلٍ قَالَ لَا بِعِلْمٍ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ  فَإِنْ کُنْتَ تُفَسِّرُهُ بِعِلْمٍ فَأَنْتَ أَنْتَ وَ أَنَا أَسْأَلُکَ قَالَ قَتَادَةُ سَلْ قَالَ أَخْبِرْنِی عَنْ قَوْلِ اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ فِی سَبَإٍ وَ قَدَّرْنا فِیهَا السَّیْرَ سِیرُوا فِیها لَیالِیَ وَ أَیَّاماً آمِنِینَ فَقَالَ قَتَادَةُ ذَلِکَ مَنْ خَرَجَ مِنْ بَیْتِهِ بِزَادٍ حَلَالٍ وَ رَاحِلَةٍ وَ کِرَاءٍ حَلَالٍ یُرِیدُ هَذَا الْبَیْتَ کَانَ آمِناً حَتَّی یَرْجِعَ إِلَی أَهْلِهِ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ  نَشَدْتُکَ اللّٰهَ یَا قَتَادَةُ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ یَخْرُجُ الرَّجُلُ مِنْ بَیْتِهِ بِزَادٍ حَلَالٍ وَ رَاحِلَةٍ وَ کِرَاءٍ حَلَالٍ یُرِیدُ هَذَا الْبَیْتَ فَیُقْطَعُ عَلَیْهِ الطَّرِیقُ فَتُذْهَبُ نَفَقَتُهُ وَ یُضْرَبُ مَعَ ذَلِکَ ضَرْبَةً فِیهَا اجْتِیَاحُهُ  قَالَ قَتَادَةُ اللَّهُمَّ نَعَمْ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع وَیْحَکَ یَا قَتَادَةُ إِنْ کُنْتَ إِنَّمَا فَسَّرْتَ الْقُرْآنَ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِکَ فَقَدْ هَلَکْتَ وَ أَهْلَکْتَ وَ إِنْ کُنْتَ قَدْ أَخَذْتَهُ مِنَ الرِّجَالِ فَقَدْ هَلَکْتَ وَ أَهْلَکْتَ وَیْحَکَ یَا قَتَادَةُ ذَلِکَ مَنْ خَرَجَ مِنْ بَیْتِهِ بِزَادٍ وَ رَاحِلَةٍ وَ کِرَاءٍ حَلَالٍ یَرُومُ هَذَا الْبَیْتَ عَارِفاً بِحَقِّنَا یَهْوَانَا قَلْبُهُ کَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ- فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِی إِلَیْهِمْ وَ لَمْ یَعْنِ الْبَیْتَ
فَیَقُولَ إِلَیْهِ فَنَحْنُ وَ اللَّهِ دَعْوَةُ إِبْرَاهِیمَ ع الَّتِی مَنْ هَوَانَا قَلْبُهُ قُبِلَتْ حَجَّتُهُ وَ إِلَّا فَلَا یَا قَتَادَةُ فَإِذَا کَانَ کَذَلِکَ کَانَ آمِناً مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ قَالَ قَتَادَةُ لَا جَرَمَ وَ اللَّهِ لَا فَسَّرْتُهَا إِلَّا هَکَذَا فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع وَیْحَکَ یَا قَتَادَةُ إِنَّمَا یَعْرِفُ الْقُرْآنَ مَنْ خُوطِبَ بِهِ(10)
( ایک دفعہ قتادہ بن دعامہ امام باقر کے پاس آئے۔امام نے قتادہ سے فرمایا:آے قتادہ کیا آپ اہل بصرہ کے فقیہ ہیں؟
قتادہ نے جواب دیا کہ:جی لوگ یہی سمجھتے ہیں۔
مولا نے فرمایا:مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہیں۔
قتادہ نے کہا:جی ایسا ہی ہے۔
مولا نے فرمایا:علم کی بنیاد پر تفسیر کرتے ہیں یا جھل کی بنیاد پر؟
قتادہ نے جواب دیا:نہیں علم کی بنیاد پر تفسیر کرتا ہوں۔
مولا نے فرمایا:اگر آپ علم کی بنیاد پر تفسیر کرتے ہیں پھر تو کیا بات ہے۔میں آپ سے سوال کرنا چاہتا ہوں۔
قتادہ نے کہا:جی سوال کریں۔
مولا نے فرمایا:مجھے سورہ سبا میں اللہ تعالی کے اس قول سے متعلق بیان فرمائیں(قَدَّرۡنَا فِیۡہَا السَّیۡرَ ؕ سِیۡرُوۡا فِیۡہَا لَیَالِیَ وَ اَیَّامًا اٰمِنِیۡنَ)
قتادہ نے کہا:اس سے مراد وہ بندہ ہے جو اپنے گھر سے حلال زاد راہ کے ساتھ،سواری و کرایے کے ساتھ امن کے گھر(خانہ کعبہ)کی طرف نکلے اور حتی کہ اپنی اہل کی طرف واپس آجائے۔
مولا نے فرمایا:اے قتادہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ نہیں جانتے کہ جو بندہ بھی اپنے گھر سے حلال زاد راہ کے ساتھ،حلال سواری و حلال کرایے کے ساتھ اس گھر(خانہ کعبہ)کی طرف روانہ ہوجائے ان کو روکھا جاتا ہے ان کا نان نفقہ ان سے چھین لیا جاتا ہے اور ان پر حملہ کرکے ان کو مارا جاتا ہے۔
قتادہ نے کہا:اللہ کی قسم ایسا ہی ہے۔
مولا نے فرمایا:اے قتادہ:تم پر وئے ہو۔اگر تم اپنی طرف سے قرآن کی تفسیر کرتا ہے تو تو خود بھی ہلاک ہوجائے گا اور دوسروں کو بھی ہلاک کرڈالے گا۔اگر تو دوسرے لوگوں سے تفسیر لیتا ہے تو پھر بھی تو خود بھی ہلاک ہوجائے گا اور دوسروں کو بھی ہلاک کر ڈالے گا۔اے قتادہ:تجھ پر وئے ہو۔اس سے مراد یہ ہے کہ جو اپنے گھر ہے حلال زاد راہ،وہ حلال سواری و کرایے کے ساتھ اس گھر(خانہ کعبہ)کی طرف نکلے اور وہ ہمارے حق کو بھی جانتا ہو اور اس کا دل ہماری طرف مائل ہو جیسے قرآن کی آیت ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِی إِلَیْهِمْ۔بیت اللہ مراد نہیں ہے۔پھر مولا فرماتے ہیں کہ بخدا ہم ہی دعوت ابراہیم ہیں،اور جس کا دل ہماری طرف مائل ہو اس کا حج قبول ہے ورنہ نہیں۔آئے قتادہ پس اگر ایسا ہے تو بس وہ قیامت کے دن امن میں ہے جھنم کی عذاب سے۔
قتادہ نے کہا:بخدا میں نے تو یوں تفسیر کی ہے(یعنی جو اوپر بیان ہوا ہے)
مولا نے فرمایا:آئے قتادہ آپ پر وئے ہو قرآن کو اپنے مخاطبین ہی سمجھتے ہیں۔)
یوں تو مخاطین قرآن پوری انسانیت ہے لیکن بلاواسطہ انسان قرآن مجید کے تمام مطالب کو سمجھ نہیں سکتا اور نہ قرآن مجید سے ھدایت حاصل کرسکتا ہے اگر چہ کافی سارے آیات ایسے ہیں کہ جن کو ایک عام انسان کہ جو فقط عربی جانتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے لیکن کیا وہی ھدایت کیلئے بھی کافی ہے ایسا نہیں ہے۔بلکہ قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے مفسرین حقیقی کی طرف رجوع لازمی ہے کہ جو اہل بیتؑ ہیں اور وہی بلا واسطہ مخاطبین قرآن ہی ہیں،وہی اہل الذکر اور تاویل کو سمجھتے ہیں اور وہی ہیں کہ جو تمام قرآنی مطالب پر دسترس رکھتے ہیں اور یہ بات واضح طور پر احادیث میں بیان ہوچکی ہے۔
قیامت کے دن قرآن و اہل بیتؑ کی اللہ تعالی کے حضور حاضری
جس طرح اس دنیا میں قرآن و اہل بیتؑ ساتھ ہوں گے اسی طرح روز قیامت بھی قرآن و اہل بیتؑ ساتھ ہوں گے اور احادیث میں ٓیا ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دو گراں قدر چیزیں یعنی قرآن و اہل بیتؑ ساتھ حاضر ہو جائیں گے۔
حضرت امام محمد باقرؑ اپنے جد رسول اللہ سے نقل فرماتے ہیں کہ:
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ  قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ص‏ أَنَا أَوَّلُ وَافِدٍ عَلَى الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ- يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ كِتَابُهُ وَ أَهْلُ بَيْتِي ثُمَّ أُمَّتِي ثُمَّ أَسْأَلُهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ وَ بِأَهْلِ بَيْتِي.(11)
(ابو جارود سے مروی ہے کہ امام باقر نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا روز قیامت سب سے پہلے خدائے عزیز و جبار کے سامنے میں حاضر ہوں گا اور خدا کی کتاب آئے گی اور میرے اہلبیتؑ پھر میری امت، میں ان سے پوچھوں گا کہ کتاب خدا اور میرے اہلبیت کے ساتھ کیا کیا۔)
یہ حدیث انسان کے جسم پر رونگٹے کھڑی کر دینے والی ہے قیامت کے روز رسول اللہؐ اپنی امت سے پوچھیں گے کہ تو نے کتاب خدا اور میرے اہل بیتؑ کے ساتھ کیا کیا۔یعنی پہلے سے رسول اللہؐ نے اپنی امت کو قرآن مجید اور اہل بیتؑ سے متعلق واضح طور پر تاکید کے ساتھ بار بار متوجہ کیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم قرآن و اہل بیتؑ سے جدا کوئی راستہ اپنے لیے اختیار کرو اور اگر ایسا کرو گے تو میں اللہ کا برگزیدہ رسول ان دو گراں قدر چیزوں سے متعلق اللہ تعالی کے حضور قیامت کے دن تمارے خلاف مقدمہ چلاوں گا۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ رسول اللہ نے جتنا ان دو گراں قدر چیزوں کے تمسک پر زور دیا ہے ہم اتنا ہی ان دو گراں قدر چیزوں سے دور ہیں۔
قرآن و اہل بیتؑ اور حق شفاعت
قرآ ن مجید کے اہم موضوعات میں سے ایک موضوع شفاعت ہے یعنی قیامت کے دن اللہ تعالی کے بارگاہ میں ہستیوں اور اسی طرح بعض اور بھی گراں قدر و اہمیت کے حامل چیزیں ہیں کہ جن کو شفاعت کا حق حاصل ہیں ان میں سے قرآن مجید اور اہل بیتؑ بھی شامل ہیں۔البتہ یہ بات واضح ہے کہ یوں ہرانسان کی شفاعت نہیں کی جائے گی بلکہ ان افراد کی شفاعت کی جائے گی کہ جو اگر چہ گناہ گار ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ شفاعت کے بھی قابل ہیں۔
رسول اللہ سے ایک حدیث میں مروی ہے:
الشفعآء خمسۃ القرآن والرحم و الامانۃ و نبیکم واہل بیت نبیکم(12)
(شفاعت کرنے والے پانچ ہیں: قرآن، رشتہ دار، امانت، تمہارے نبی اور تمہارے نبی کے اہل بیتؑ۔ )
قیامت کے دن شفاعت کرنے والےفقط ان پانچ تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ بعض اور چیزوں کا بھی ذکر بعض احادیث میں موجود ہے کہ جنہیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں گناہ گاروں کی شفاعت کا حق حاصل ہے
ایک اور حدیث میں جناب رسالت مآب سے مروی ہے:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ص‏ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَاحِبَهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ جَمِيلٍ شَاحِبِ اللَّوْنِ فَيَقُولُ لَهُ الْقُرْآنُ‏ أَنَا الَّذِي كُنْتُ أَسْهَرْتُ لَيْلَكَ وَ أَظْمَأْتُ هَوَاجِرَكَ وَ أَجْفَفْتُ رِيقَكَ وَ أَسَلْتُ دَمْعَتَكَ أَئُولُ مَعَكَ حَيْثُمَا أُلْتَ وَ كُلُّ تَاجِرٍ مِنْ وَرَاءِ تِجَارَتِهِ وَ أَنَا الْيَوْمَ لَكَ مِنْ وَرَاءِ تِجَارَةِ كُلِّ تَاجِرٍ وَ سَيَأْتِيكَ كَرَامَةٌ مِنَ اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَأَبْشِرْ فَيُؤْتَى بِتَاجٍ فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ وَ يُعْطَى الْأَمَانَ بِيَمِينِهِ وَ الْخُلْدَ فِي الْجِنَانِ بِيَسَارِهِ وَ يُكْسَى حُلَّتَيْنِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَ ارْقَهْ فَكُلَّمَا قَرَأَ آيَةً صَعِدَ دَرَجَةً وَ يُكْسَى أَبَوَاهُ حُلَّتَيْنِ إِنْ كَانَا مُؤْمِنَيْنِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُمَا هَذَا لِمَا عَلَّمْتُمَاهُ الْقُرْآنَ(13)
حضرت ابو عبد اللہؑ فرماتےہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا قرآن حاصل کرو وہ روز قیامت اپنے پڑھنے والے کے پاس ایک نہایت خوبصورت جوان کی صورت میں آئے گا اور اس سے کہے گا۔ میں وہی قرآن ہوں جس نے راتوں رات تجھے جگایا تھا اور گرم دن کی دوپہر میں تجھے پیاسا رکھا تھا اور تیرا لعاب دہن خشک ہو گیا تھا تیرے آنسو بہہ رہے تھے جہاں تو جائے میں تیرے ساتھ جاؤں گا ہر تجارت میں اپنے نفع میں لگا ہوا ہے اور میں ہر تاجر سے زیادہ ترے نفع کے خیال میں ہوں اللہ کی رحمت تیرے شامل حال ہوگی پس تجھے خوش خبری ہو پھر ایک تاج تیرے سر پر لا کر رکھا جائے گا اور پروانۂ امان داہنے ہاتھ میں ہوگا اور ہمیشہ بہشت میں رہنے کا حکم بائیں ہاتھ میں ہوگا اور دو جنت کے خلے پہنے ہوں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھ اور اوپر کے درجہ میں جا۔ جب آیت پڑھے گا تو اس کی روح بلند ہوگی اور اس کے والدین بھی دو خلے پہنے ہوں گے اگر مومن ہوں گے تو یہ کہا جائے گا یہ نتیجہ ہے اس کا کہ تم نے اپنے بیٹے کو قرآن پڑھایا تھا۔
اس روایت سے ہمیں بخوبی علم ہوجاتا ہے کہ قیامت کے دن جو بھی کوئی اللہ تعالی کی بارگاہ میں کسی کی بھی شفاعت کرے کرسکتا ہے ایسا نہیں ہے بلکہ شفیع بھی کسی خاص وجہ سے شفیع بنے گا اور شفاعت بھی معیار کے مطابق ہوگی۔مثلا ہم نے اگر مسجد کا حق کسی حد تک ادا کیا ہے تو مسجد قیامت کے دن ہماری شفاعت کرے گی ورنہ یوں تو نہیں کرے گی۔ لہذا قیامت کے دن قرآن مجید یا اہل بیتؑ انہیں کی شفاعت کریں گے جو ان کے ساتھ متمسک ہوں، جنہوں نے ان کے محبت و ولایت کا حق کسی حد تک ادا کیا ہو۔ پس ضروری ہے کہ جب ہماری حواہش ہے کہ قیامت کے دن قرآن و اہل بیت ؑجیسے گراں قدر چیزوں کی شفاعت ہمیں روز قیامت نصیب ہو تو ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ ان دو گراں قدر چیزوں کے ساتھ متمسک ہوں ان دو گراں قدر چیزوں کی یاد ہمارے دل میں ہو تاکہ کل یہ ہمیں قیامت کے دن یاد کریں اور اس سخت حالت میں اللہ تعالی کے بارگاہ میں اللہ تعالی کے حضور ہماری شفاعت کرے۔
قرآن مجید و اہل بیتؑ سے ہماری بےتوجہی
قرآن مجید اور اہل بیتؑ کی اہمیت تما م مسلمانوں کے سا منے روز رو شن کی طرح واضح و آشکار ہے لیکن اس کے باوجود اسلامی معاشر ہ ہمیں قرآنی تعلیمات اور اہل بیتؑ کے فرامین سے دور نظر آتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جس کے حل کیلئے معاشرے میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔گھر میں قرآن مجید رکھنے،قرآن مجید چومنے ا ور اسی طرح صرف قرآن کی قرآئت سے قرآن مجید کا حق اد ا نہیں ہوتا۔بلکہ ضروری ہے کہ ہم بطور مسلمان اپنی ذمہ دا ری سمجھ کے قرآنی تعلیمات سمجھنے کی کوشش کریں ا ور سمجھنے کے بعد معاشرے میں ا ن تعلیمات کی تبلیغ و ترویج کرکے ان کو عملی صورت دیں ورنہ یوں ہماری ذمہ دا ری ادا نہیں ہوتی۔ قرآن مجید کی تعلیم و تعلم(سیکھنا ا ور سیکھانا)کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم صرف قرآن مجید کی تلاوت سیکھیں یا قرآن پاک کو حفظ کریں بلکہ یہ قرآن مجید سیکھنے کا ایک ابتدا ئی مرحلہ شمار ہوتا ہے۔درست ہے روایات میں تلاوت قرآن کی ا ہمیت آ ئی ہے ا ور بہت زیادہ ثوا ب کا بھی ذکر ہے لیکن اگر تلاوت غور و فکر کے سا تھ ہو تب، چونکہ روایات میں ایسے قاریوں کی مذمت بھی آ ئی ہے کہ جو قرآن تو پڑ ھتے ہیں لیکن قرآن کے آیا ت میں غور و فکر نہیں کرتے۔
قرآن مجید میں ایک مقام پر ا رشاد باری تعالی ہےکہ: وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا(14)
(ا ور رسول کہیں گے: ا ے میرے پرورد گار! میری قوم نے اس قرآن کو ترک کر دیا تھا۔)
پس ہمارے ا وپر لازمی ہے کہ قرآن مجید کا حق ادا کریں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن رحمت للعالمینؐ ہماری شفاعت کے بجائے اللہ تعالی کے بارگاہ میں ہمارا شکوہ کریں۔
ایک روایت میں رسول اللہؐ سے منقول ہے:
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ص‏ أَنَا أَوَّلُ وَافِدٍ عَلَى الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ- يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ كِتَابُهُ وَ أَهْلُ بَيْتِي ثُمَّ أُمَّتِي ثُمَّ أَسْأَلُهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِكِتَابِ اللّٰهِ وَ بِأَهْلِ بَيْتِي.(15)
(رسول اللہ نے فرمایا روز قیامت سب سے پہلے خدائے عزیز و جبار کے سامنے میں حاضر ہوں گا ا ور خدا کی کتا ب آئے گی ا ور میرے اہل بیتؑ پھر میر ی امت، میں ا ن سے پوچھوں گا کہ کتاب خدا ا ور میرے اہل بیت کے ساتھ کیا کیا؟)
جتنا رسول اللہؐ نے قرآن و اہل بیتؑ کی اہمیت بیان فرما ئی ہے ہم اتنا ہی قرآن و اہل بیتؑ سے دور ہیں۔اسلام کی بنیادی ا ور بہت ہی اہمیت رکھنے والے موضوعات پر ہم نے کام نہیں کیا بلکہ ان کو مناظر وں کے حوالے کیا ہے،خصوصا قرآن مجید،اہل بیت ا ور صحابہ کرا م سے متعلق ہم کچھ ایسے بے بنیاد بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں کہ جن کا نتیجہ معاشرےمیں انتشار کے علا وہ ا ور کچھ بھی نہیں ہے۔ہم اپنے کو اہل بیتؑ کا شیعہ کہتے ہیں تو کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم نے علوم اہل بیتؑ سے کتنا اپنے کو آراستہ کیا ہے ا وراہل سنت کہ جو اصحاب رسول اللہؐ پر مر مٹنے کیلئے تیار ہیں ا نہیں کتنا اصحاب کے سیرت کا پتہ ہےا ور کتنا وہ اصحاب کے سیر ت پر عمل پیر ا ہیں۔کیا اصحاب کی یہ سیر ت تھی کہ ایک مسلمان کو دو چار اختلافات کی وجہ سے قتل کیا جائے بالکل بھی نہیں بلکہ خود اصحا ب کے درمیان بھی اختلاف تھا۔ کسی نے اہل بیتؑ کو لیا تو کسی نے ا صحاب کو لیا وہ عظیم ہستی جس کی وجہ سے ان دونوں کی فضیلت ہے ان کو ہم نے چھوڑ دیا ان کا ذکر ہم نہیں کرتے، ا ور اگر کرتے بھی ہیں تو حاشیے کے طور پر کرتے ہیں مقصود اصحاب یا اہل بیتؑ کا ذکر ہوتا ہے۔یہ وہ موضوعات نہیں ہیں کہ جن پر صرف علمی کام کریں تو بس ہماری ذمہ دا ری ختم ہو جاتی ہے صرف ان کے فضائل پڑھ کر ہماری ذمہ دا ری بالکل بھی ختم نہیں ہو تی،بلکہ یہ وہ موضوعات ہیں کہ جب تک یہ عملی صورت اختیار کر کے معاشرہ کا روح نہ بن جائے تب تک ہماری ذمہ دا ری مکمل نہیں ہوتی۔ تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ اختلاف کی صورت میں قرآن کو اپنا رہنما بنائے چونکہ قرآن مجید ہی تو وہی ثقل اکبر ہے کہ جو ا سلامی تعلیمات کا مرکز و محور ہے۔،اور اہل بیتؑ کو اپنا پیشواء مان کر ان کی پیروی کریں۔
حوالہ جات:

1- ترمذی، محمد بن عیسی، جامع ترمذی،کتاب ابواب المناقب،باب مناقب اہل بیت النبیؐ،ج 5،ص663،رقم الحدیث3788
2- القرآن الکریم /سورۃ البقرہ/185
3-عیاشی،محمد بن مسعود،تفسیر العیاشی،ج2،ص734
4-ترمذی، محمد بن عیسی، جامع ترمذی،کتاب ابواب المناقب،باب مناقب اہل بیت النبیؐ،ج 5،ص663،رقم الحدیث3788
5-القرآن الکریم /سورۃ الضحی/6
6-القرآن الکریم /سورۃ الحجر/۹
7-القرآن الکریم /سورۃ الانبیاء/7
8-عیاشی،محمد بن مسعود،تفسیر العیاشی،ج3،ص/802
9-طبرسی،ابو منصور احمد بن علی،الاحتجاج،ج2،ص543(منظمہ الاوقات و الشؤن الخیریۃ،دار الاسوۃ للطباعۃ و النشر،قم،1422ھ)
10-کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،کتاب الروضہ،باب جوامع المکارم(حدیث الفقہاء و العلماء)ج15،ص706،رقم الحدیث 292
11-کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،کتاب فضل القرآن،ج4،ص589،رقم الحدیث4
12-مجلسی،محمد باقر بن محمد تقی،بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار،ج8، ص43(دار احیاء التراث،بیروت،1403)
13-کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،کتاب فضل القرآن،باب فضل حامل القرآن،ج4،ص606،رقم الحدیث3
14-القرآن الکریم /سورۃ الفرقان/30
15- 87: کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،کتاب فضل القرآن،ج 4،ص 598،رقم الحدیث 4

فہرست منابع

1. القرآن الکریم
2. بائبل
کتب تفاسیر
1. جلال الدین، عبد الرحمن بن ابی بکر سیوطی،الدرالمنثور (دار الفکر، بیروت،س-ن)
2. حسکانی،عبید اللہ بن عبد اللہ،شواہد التنزیل(احیاء الثقافۃ الاسلامیہ،1990ء)
3. حویزی،عبد علی بن جمعہ، تفسیرنور الثقلین(موسسۃ اسماعیلیان، قم،1412ھ)
4. ابو حیان اندلسی،محمد بن یوسف، تفسیر البحر المحیط (دار الفکر،بیروت،2000ء)
5. راغب اصفہانی،ابو القاسم حسین بن محمد،مفردات الفاظ القرآن(دار القلم،بیروت،1996ء)
6. عیاشی،محمد بن مسعود،تفسیر العیاشی (موسسۃ البعثہ،قم،1420ھ)
7. ابن کثیر،حافظ عماد الدین،التفسیر ابن کثیر (دار المعرفہ،بیروت،1992ء)
8. نجفی،محسن علی،الکوثر فی التفسیر القرآن(پاکستان،مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور،2014ء)
9. مکارم،ناصر مکارم،شیرازی، الامثل فی التفسیر کتاب اللہ المنزل، (مدرسہ الامام علی ابن ابی طالبؑ،قم،1421ھ)
کتب احادیث
1. بخاری،ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری(دار ابن کثیر،دار الیمامہ،دمشق،طبع پنجم،1993ء)
2. ترمذی،محمد بن عیسی،سنن الترمذی (شرکۃ مکتبہ و مطبعہ مصطفی البابی الحلبی،مصر،طبع دوم،1975ء)
3. حاکم نیشاپوری،ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ،المستدرک علی الصحیحین(دار الرسالہ العالمیہ،بیروت،طبع اول،2018ء)
4. حمیری،ابو العباس عبد اللہ بن جعفر،قرب الاسناد(مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث،قم،1413ھ)
5. ابن شعبہ،حسن بن علی،تحف العقول (دار الحدیث،قم1383)
6. صدوق،ابن بابویہ،محمد بن علی،عیون اخبار الرضاؑ (موسسہ آل البیتؑ لاحیاء تراث،قم،س-ن)
7. صدوق،ابن بابویہ محمد بن علی،علل الشرایع (مکتبہ الحیدریہ،قم،1425ھ)
8. صدوق،محمد بن علی بن یابویہ،امالی الصدوق (موسسۃ الاعلمی المطبوعات،بیروت،طبع اول،2009ء)
9. صفار،محمد بن حسن،بصائر الدرجات (المکتبہ الحیدریہ،قم،1381)
10. طوسی،محمد بن حسن،امالی الطوسی (مؤسسہ البعثہ،تہران،1385)
11. ابو عبد اللہ،احمد ابن محمد ابن حنبل شیبانی،مسند الامام احمد بن حنبل (مؤسسۃ الرسالۃ،طبع اول،2001ھ)
12. کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی (موسسہ دار الحدیث العلمیہ و الثقافیہ،قم،1430ھ)
13. ابن ماجہ،ابو عبد اللہ محمد ابن یزید، سنن ابن ماجۃ (دار الرسالہ العالمیہ،طبع اول،بیروت،2009ء)
14. متقی ہندی،کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال (مؤسسۃ الرسالۃ،طبع پنجم،1401ھ)
15. مجلسی،محمد باقر بن محمد تقی،بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار (داراحیاءالتراث،بیروت،1403ء)
16. مسلم،ابو الحسین،مسلم بن حجاج قشیری،صحیح مسلم (مطبعہ عیسی البابی الحلبی و شرکاہ،قاہرہ،1955ء)
عربی کتب
1. ابن حجر الہیثمی،احمد بن محمد بن علی بن حجر،الصواعق المحرقہ علی اھل الرفض و الضلال و الزندقہ (مؤسسۃ الرسالۃ،لبنان،1417ھ)
2. شریف الرضی،ابو الحسن سید محمد بن الحسن،نہج البلاغہ (موسسہ دار الھجرۃ،قم،1407ھ)
3. طبرسی،ابو منصور احمد بن علی،الاحتجاج (منظمہ الاوقات و الشؤن الخیریۃ،دار الاسوۃ للطباعۃ و النشر،قم،1422ھ)
4. مکارم، ناصر مکارم شیرازی،العقائد الاسلامیہ (مدرسہ الامام علی بن ابی طالبؑ،قم،1425ھ)
5. مناع القطان،مناع بن خلیل،مباحث فی علوم القرآن (موسسۃ الرسالہ،بیروت،2000ء)
6. ابن منظور،محمد بن مکرم،لسان العرب (دار صادر،بیروت،طبع،سوم،1414ھ)
7. دیملی،ابو محمدحسن بن محمد،ارشاد القلوب (منشورات الشریف الرضی،قم،1409ھ)
8. کشی،محمد بن عمر،اختیار معرفۃ الرجال (موسسۃ آل البیتؑ لاحیاء التراث،قم،1382)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button