اخلاقیاتدعا و مناجاتمکتوب

"شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

چوتھا درس
بسم الله الرحمن الرحيم
اِلـهي اِنْ حَرَمْتَني فَمَنْ ذَا الَّذي يَرْزُقُني، وَاِنْ خَذَلْتَني فَمَنْ ذَا الَّذي يَنْصُرُني. اِلـهي اَعُوذُ بِكَ مِنَ غَضَبِكَ وَحُلُولِ سَخَطِكَ.
اِلـهي اِنْ كُنْتُ غَيْرَ مُسْتاْهِل لِرَحْمَتِكَ فَاَنْتَ اَهْلٌ اَنْ تَجُودَ عَليَّ بِفَضْلِ سَعَتِكَ. اِلـهي كَأَنّي بِنَفْسي واقِفَةٌ بَيْنَ يَدَيْكَ وَقَدْ اَظَلَّها حُسْنُ تَوَكُّلي عَلَيْكَ، فَقُلْتَ ما اَنْتَ اَهْلُهُ وَتَغَمَّدْتَني بِعَفْوِكَ. اِلـهي اِنْ عَفَوْتَ فَمَنْ اَوْلى مِنْكَ بِذلِكَ، وَاِنْ كانَ قَدْ دَنا اَجَلي وَلَمْ يُدْنِني مِنْكَ عَمَلي فَقَدْ جَعَلْتُ الاِقْرارَ بِالذَّنْبِ اِلَيْكَ وَسيلَتي.
ترجمہ : خدایا! اگر تو مجھے محروم کردے تو کون ہے جو مجھے رزق دے گا؟ اگر تو نے مجھے اکیلا چھوڑا تو کون ہے جو میری مدد کرے گا؟ اے میرے معبود ! میں تیرے غضب سے، اور تیری ناخوشنودی و ناراضگی اتر آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں ، ، اے میرے معبود! اگر میں تیری رحمت کی اہلیت نہیں رکھتا تو تو اہل ہے کہ اپنی زائد فراوانی سے مجھ پر عنایت فرما ئے؛ اے میرے معبود! گویا میں اپنے تمام تر وجود کولے کر تیرے سامنے آکھڑا ہوا ہوں؛ جبکہ تیری ذات پر توکل کا سایہ مجھ پر چھایا ہوا ہے، کیونکہ تو نے فرمایا ہے وہی جس کا تو ہی اہل ہے، اور تو نے مجھے دامن عفو میں پناہ دی ہے۔
تشر یح :مناجات شعبانیہ میں ہم کلمات امام کا سہارا لیتےہوئے مناجات کا سلیقہ سیکھ رہے ہیں۔یہ امام علی علیہ السلام نے اپنی زبان سے جاری کیا اور تمام ائمہ علیھم السلام نے اس کو زم زمہ کیا ہے۔ ہمیں اس کو سمجھ کے پڑھنا چاہیے۔
اِلـهي اِنْ حَرَمْتَني فَمَنْ ذَا الَّذي يَرْزُقُني
اے اللہ اگر تو مجھے محروم کردے تو کہیں اور سے کچھ نہیں ملتا۔ مولائے کائنات علی علیہ السلام نے ہمیں خداسے اتنا نزدیک کردیاکہ فرمایا : اے خدا، اے میرے رب، دعا کا یہ جملہ خدا کے قریب کردیتا ہے۔مناجات کے ان تین جملوں کا حاصل یہ ہے کہ روزی اللہ کے ہاتھ میں ہے، رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے اور عزت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔
اے خدا اگر تو مجھے محروم کردے تو کون ہے جو مجھے معنوی رزق دے آج کے دور میں انسان کہاں پہنچ سکتا ہے ؟
قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ (یونس : 31)
کہدیجئے: تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟سماعت اور بصارت کا مالک کون ہے؟ اور کون ہے جو بے جان سے جاندار کو پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بے جان کو پیدا کرتا ہے؟ اور کون امور (عالم ) کی تدبیر کر رہا ہے؟ پس وہ کہیں گے: اللہ، پس کہدیجئے: تو پھر تم ( محرمات سے) بچتے کیوں نہیں ہو؟
بتاو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟
اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ سماعت اور بصارت کا مالک کون ہے ؟
اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّۃِ الۡمَتِیۡنُ (الزاریات: 58)
یقینا اللہ ہی بڑا رزق دینے والا، بڑی پائیدار طاقت والا ہے۔
اِنْ حَرَمْتَني فَمَنْ ذَا الَّذي يَرْزُقُني : اگر تو مجھے محروم کردے تو کون ہے جو مجھے رزق دے ؟
پس ان حالات میں اللہ کو پکارو۔
تاریخ میں عباسی سلطنت بہت بڑی تھی معتصم باللہ عباسی حکمرانوں میں سے تھا اس نے دو سال حکومت کی لیکن اس کولوٹ لیا جاتا ہے پھر اس کا بھائی اس تخت پر بیٹھتا ہے اور یہ بیچارا بھکاری بن جاتا ہے ۔ یہ مساجد میں جاکر اعلان کرتاتھا کہ میں کل تمہارا حکمران تھا آج آپ لوگوں کی مدد درکار ہے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (العمران: 26)
کہدیجئے: اے اللہ! (اے) مملکت (ہستی ) کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یعنی جسے جو چاہیے سب اللہ کے ہاتھ میں ہے صرف خدا تمہاری مدد کرے گا، دنیا میں فیاضی صرف خداکررہا ہے۔
عباسی خلیفہ کی بیگم ایک دن بازار سے جارہی تھی کہ کسی بھکاری نے کہا کہ اللہ کے فضل سے مدد کردو، اس نے کہا جو ملکہ کے فضل سے مانگے اسے مرغی دے دوتاکہ وہ مالدار ہوسکے۔ جس نے اللہ کے فضل سے مانگا ہےاسے درہم دے دواس خیال سے کہ یہ فقیر اس درہم سے کھانا خرید کے کھائے گا اور مالدار نہیں ہوسکے گا۔لیکن اس نے دو ماہ بعد اسے دیکھا تو معاملہ بلکل مختلف تھا۔ پس ملکہ کے فضل سے مانگنے والے شخص نے مرغی دوسرے شخص کو درہم کے عوض بیچ دی تھی۔اس طرح سے یہ بندہ جس نے اللہ کے فضل سے مانگا تھا تاجر بن گیا کیونکہ اس مرغی کے پیٹ میں جواہر تھےجواس بندے کو ملے۔
وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ( آل عمران:54)
اور ان لوگوں نےتدابیر سوچیں اور اللہ نے (بھی جوابی) تدبیر فرمائی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
"اللھم اعوذ بک من عزتک وحلول سخطک”
لفظ الٰہی کی تعبیر بہت خوبصورت ہے ، الٰہی یعنی اے میرے معبود! میں تیری پناہ میں آیا ہوں میں تیری طرف آرہا ہوں ۔
یہاں ہم یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کا غضب کیا ہے ؟ کیا اللہ کا غضب ہماری طرح کاہے؟
جب امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ غضب الٰہی کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ غضب درحقیقت عقاب اور عذاب الٰہی ہے۔ اور خدا کی ذات ہماری صفات سے پاک ہے ۔ یعنی اللہ کا غضب ہمارےغضب کی طرح نہیں ہے کہ جس طرح لوگ سوچتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام دعائے عرفہ میں فرماتے ہیں:
"اِلهى فَلا تُحْلِلْ عَلَىَّ غَضَبَکَ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ غَضِبْتَ عَلَىَّ فَلا اُبالى سُبْحانَکَ غَیْرَ اَنَّ عافِیَتَکَ اَوْسَعُ لى۔”
اے میرے معبود ! مجھ پر اپنا غضب نازل نہ فرما پس اگر تو ناراض نہ ہو تو پھر مجھے تیرے سوا کسی کی کوئی پروا نہیں تیری ذات پاک ہے تیری مہربانی مجھ پر بہت زیادہ ہے ۔تو مجھ سے غضبناک نہ ہونا اگر تو راضی ہے تو تیرے غیرکی کوئی پرواہ نہیں۔
یا دولتاه . اگر بعنایت کنی نظر .
واخجلتاه . اگر بعقوبت دهد جزا ( کلیات سعدی)
"یَا مَنْ سَبَقَتْ رَحْمَتُهُ غَضَبَهُ”
اے وہ ذات جس کی رحمت غضب سے پہلے ہے۔
اور خدا نے جہنم کو بنایا ہے تو یہ بھی رحمت ہے لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ رحمت کیسے ہے؟
کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے بہت زیادہ ظلم کیا ہے ان پر آج سب لوگ لعنت بھیجتے ہیں ۔ جو لوگ ان کو نہیں پہچانتے اور ان کی پیروی کرتے ہیں تو قیامت کے دن ان پر بھی سب لوگ لعنت بھیجیں گے ۔
پس یہ عذاب جو آجکل آ یا ہوا ہے یہ بھی ایک قسم کی رحمت الٰہی ہے کیونکہ یہ درست سمت دینے کے لئے ہے ۔ ہمارےگناہوں کی وجہ سے جوراستے ہم کھوگئے تھے اس کی طرف واپس لانے کے لئے یہ عذاب ہم پر نازل ہوا ہے۔ جہنم بھی ایسے ہی ہے کہ اگر دنیا میں نہ سدھر سکے تو جب تک آتش جہنم سے نہ پکے جنت نہیں جاسکے گا۔
اگر اس رحمت کو ہم سمجھ سکیں ۔ جو عذاب الٰہی کی شکل میں ہے جس میں ہم سب مبتلا ہیں اس عذاب کا سرچشمہ بھی رحمت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ رحمت نظر نہیں آرہی بلکہ صرف وحشت نظر آرہی ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِیَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحۡتَمَلَ السَّیۡلُ زَبَدًا رَّابِیًا ؕ وَ مِمَّا یُوۡقِدُوۡنَ عَلَیۡہِ فِی النَّارِ ابۡتِغَآءَ حِلۡیَۃٍ اَوۡ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثۡلُہٗ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡحَقَّ وَ الۡبَاطِلَ ۬ؕ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذۡہَبُ جُفَآءً ۚ وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ
ترجمہ: اللہ نے آسمانوں سے پانی برسایا پھر نالے اپنی گنجائش کے مطابق بہنے لگے پھر سیلاب نے پھولے ہوئے جھاگ کو اٹھایا اور ان (دھاتوں) پر بھی ایسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں جنہیں لوگ زیور اور سامان بنانے کے لیے آگ میں تپاتے ہیں، اس طرح اللہ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے، پھر جو جھاگ ہے وہ تو ناکارہ ہو کر ناپید ہو جاتی ہے اور جو چیز لوگوں کے فائدے کی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے، اللہ اسی طرح مثالیں پیش کرتا ہے۔
حق اور باطل کی ایک نہایت قابل توجہ مثال بیان ہورہی ہے کہ باطل اس جھاگ کی مانند ہے جو کسی نالے میں اس کی گنجائش کے مطابق بہنے والے پانی سے پُر ہونے کی صورت میں پورے پانی کو ڈھانپ لیتا ہے اور وقتی طور پر صرف جھاگ ہی نظر آتی ہے، وہ بظاہر اچھل کود کرتا ہے اور پانی کا حیات بخش ذخیرہ اس جھاگ کے نیچے موجود ہوتا ہے مگر وقتی طور پر نظر نہیں آتا۔
وَمِمَّا یُوۡقِدُوۡنَ عَلَیۡہِ:
اسی طرح دھات کو تپا کر جب اسے کارآمد بنایا جاتا ہے تو میل کچیل اوپر آتی ہے اور صرف وہی نظر آتی ہے جب کہ کارآمد دھات اس کے نیچے موجود ہوتی ہے۔
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذۡہَبُ جُفَآءً:
باطل بھی اسی جھاگ اور خس و خاشاک کی مانند وقتی اچھل کود کرتا ہے اور بسا اوقات صرف وہی نظر آتا ہے اور حق دکھائی نہیں دیتا لیکن بصیرت رکھنے والے انتظار کرتے ہیں کہ یہ جھاگ جلد ہی ناپید ہونے والی ہے اور حق ثابت اور پائدار ہے جو باطل کے وقتی ہنگامے اور شورش کے بعد ظہور پذیر ہو گا۔
حقیقت میں یہ سب کچھ آپ کو صحیح راستے پر لے جانے کے لئے ہے۔ یہ مصیبتیں یہ چند دنوں کے لئے ہیں انہیں تم بھول جاوگے ، اور بچوں کو قصے سنارہے ہوگے کہ ایک زمانہ تھا کرونا آیا لاک ڈاون ہوا و غیرہ ۔۔یہ سب قصے ہونگے ، جبکہ در حقیقت یہ تمام مصیبتیں آپ کوصحیح راہ پر چلانے کے لئے ہیں تاکہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہم اس دنیا میں کیوں آئے؟ ہم کیا کررہے تھے ، اور کیا کرنا چاہیے؟
اِلـهي اِنْ كُنْتُ غَيْرَ مُسْتاْهِل لِرَحْمَتِكَ فَاَنْتَ اَهْلٌ اَنْ تَجُودَ عَليَّ بِفَضْلِ سَعَتِكَ
اے میرے معبود! اگر میں رحمت کی اہلیت نہیں رکھتا مگر تو اس اہل ہےکہ مجھ پر اپنی فراوان رحمت عنایت فرما ئے؛ آپ کا فضل تو بےانتہا ہے۔
اِلـهي كَأَنّي بِنَفْسي واقِفَةٌ بَيْنَ يَدَيْكَ وَقَدْ اَظَلَّها حُسْنُ تَوَكُّلي عَلَيْكَ،
اے میرے معبود! گویا میں اپنا تمام تر وجود لے کر تیرے سامنے کھڑا ہوا ہوں جبکہ تیری ذات پر توکل کا سایہ مجھ پر چھایا ہوا ہے، کیونکہ تو نے ہی فرمایا ہے وہی جس کا تو اہل ہے، اور تو نے مجھے دامن عفو میں پناہ دی ہوئی ہے۔
ایک تو یہ کہ ہم رحمت الٰہی کا مستحق نہیں اسی لئے دعا میں کہتے ہیں۔
"اللهم افعل بي ما انت اهله ولا تفعل بي ما أنا أهله”
جس کا میں مستحق ہوں وہ میرے ساتھ نہیں کرنا بلکہ میرے ساتھ وہ کر جو تیرے لئے شائستہ ہو۔ میں کیا ہوں اور میری کیا اوقات ہے۔ ؟
دعا ابو حمزہ ثمالی میں امام فرماتے ہیں:
هَبْنِي بِفَضْلِكَ سَيِّدِي، وَ تَصَدَّقْ عَلَيَّ بِعَفْوِكَ، وَجَلِّلْنِي بِسَتْرِكَ، وَ اعْفُ عَنْ تَوْبِيخِي بِكَرَمِ وَجْهِكَ، سَيِّدِي أَنَا الصَّغِيرُ الَّذِي رَبَّيْتَهُ، وَ أَنَا الْجَاهِلُ الَّذِي عَلَّمْتَهُ، وَ أَنَا الضَّالُّ الَّذِي هَدَيْتَهُ، وَ أَنَا الْوَضِيعُ الَّذِي رَفَعْتَهُ،
اور اے میرے آقا ! میں کیا اور میری اوقات کیا مجھے اپنے فضل سے بخش دے ۔ اے میرے سردار !اپنے عفو کے صدقے میں مجھے اپنے پردے میں لے لے اور اپنے خاص کرم سے میری لغزشوں سے در گزر فرما۔ میرے سردار ! میں وہی بچہ ہوں جسے تو نے پالا میں وہی ہوں جسے تو نے علم دیا میں وہی گمراہ ہوں جسے تو نے راہ دکھائی میں وہ پست ہوں جسے تو نے بلند کیا۔
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:
مَوْلانَا، فَقَدْ عَلِمْنَا مَا نَسْتَوْجِبُ بِأَعْمَالِنَا وَ لَكِنْ عِلْمُكَ فِينَا وَ عِلْمُنَا بِأَنَّكَ لا تَصْرِفُنَا عَنْكَ، وَ إِنْ كُنَّا غَيْرَ مُسْتَوْجِبِينَ لِرَحْمَتِكَ فَأَنْتَ أَهْلٌ أَنْ تَجُودَ عَلَيْنَا وَ عَلَى الْمُذْنِبِينَ بِفَضْلِ سَعَتِكَ ، فَامْنُنْ عَلَيْنَا بِمَا أَنْتَ أَهْلُهُ،
اے ہمارے مولا ! ہماری امیدیں پوری فرما اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اعمال کی سزا کیا ہے لیکن تیرا علم ہمارے بارے میں ہے اور ہمیں اس کا علم ہے کہ تو ہمیں اپنی بارگاہ سےخالی نہیں پلٹائے گا چاہے ہم تیری رحمت کے حقدار نہ بھی ہوں پس تو اس کا اہل ہے کہ ہم پر اور دوسرے گنہگاروں پر اپنے وسیع تر فضل سے عنایات کرے۔ پس ہم پر ایسا احسان فرما کہ جس کا تو اہل ہے۔
وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ (مائدہ : 23)
اور اگر تم مومن ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔
پس ہم خدا پر توکل کرتے ہیں۔ شب معراج پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا سے سوال کیا کہ:
أي الأعمال أفضل؟ فقال الله عز وجل: ليس شئ عندي أفضل من التوكل علي والرضا بما قسمت
آپ کے نزدیک کونسا عمل افضل ہے تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا میرےنزدیک مجھ پر توکل کرنے اور میری قسمت پر راضی ہونے سے بڑھ کر کوئی افضل عمل نہیں ۔
جس کا توکل اللہ پر ہے اس کے لئے درحقیقت کسی قسم کی مشکلات نہیں ہیں۔
نوٹ:( مناجات شعبانیہ کی تشریح و توضیح پر مشتمل یہ دروس علامہ انور علی نجفی نے ان ایام میں آن لائن دئیے تھے جب دنیا کرونا وائرس کی مشکل سے ہر طرف سے دو چار تھی۔ اس وجہ سے درمیان میں بعض اوقات کچھ جملے انہی ایام کی مناسبت سے بیان ہوئے ہیں۔)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button