اخلاق حسنہاخلاقیات

رازداری

(حصہ اول)

آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
أَنْجَحَ الْاُمُوْرُ مٰا اَحٰاطَ بِهِ الْکِتْمٰانُ
نتیجہ بخش ترین امور وہ ہیں جو پوشیدہ ہوں۔
کتمان راز
خدا کے حقیقی بندے ،خود ساختہ اور مہذب افراد اپنے اخلاص اور اصلاح نفس کی وجہ سے اپنے رفتار و کردار اور دوسری شائستگی میں خلقت کائنات کے اسرار سے آشنائی حاصل کرکے نظام خلقت کے کچھ انجانے رموز سے آگاہ ہوتے ہیں۔
اہلبیت علیھم السلام کے زمانۂ حضور میں ایسے اسرار ان ہستیوں کے ذریعے رحمانی الہامت کے توسط سے سکھائے گئے ۔یہ بزرگ ہستیاںاپنے اصحاب اور قریبی افراد کوایسے مسائل کی تعلیم دیتے اور انہیں اس کی حفاظت کا حکم دیتے۔
پیغمبر اکرم(ص) نے ایک مفصل روایت کے ضمن میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا:
یاجٰابِرُ اُکْتُمْ مٰا تَسْمَعُ فَاِنَّهُ مِنْ سَرٰائِرِ اللّٰه
(بحار الانوار :ج۳۵ص۱۰۳)
اے جابر!تم جو کچھ سنتے ہو اسے چھپاؤ کیونکہ وہ اسرار خدا میں سے ہیں۔
اس بنیاد پر جابر اور دوسری بزرگ شخصیات کہ جنہیں اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے اسرار و معارف تعلیم فرمائے ،وہ اسرار کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتے۔ایسے مسائل کی حفاظت ان کیلئے بہت مشکل تھی جس کے لئے انہوں نے بڑی زحمتیں برداشت کیں۔اسی وجہ سے اس موضوع کے بارے میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے:
کِتْمٰانُ سِرِّنٰا جِهٰاد فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ
(بحار الانوار:ج۷۵ص۷۰)
ایک دوسری روایت میں آپ فرماتے ہیں:
مَنْ کَتَمَ الصَّعْبَ مِنْ حَدِیْثِنٰا جَعَلَهُ اللّٰهُ نُوْراً بَیْنَ عَیْنِهِ وَ رَزَقَهُ اللّٰهُ الْعِزَّةَ فِی النّٰاسِ
(بحار الانوار ج۲۵ص۳۸۱،اختصاص۳۲۱)
جو کوئی ہماری سخت گفتار کو مخفی رکھے خدا وند اسے دو آنکھوں کے درمیاں نور کی طرح قرار دے گا اور لوگوں میں اسے عزت و احترام عطا کرے گا۔
راز کو چھپانے کے لئے ہر موضوع کو غور و فکر کے بعد بیان کیا جائے اورغور و فکرکے بغیر افکار کو زبان پر نہ لایا جائے ۔اگر انسان سوچے اور سوچنے کے بعد بولے تو اسے اپنی باتوں پر پشیمانی نہیں ہو گی۔کیونکہ تفکر اور تأمل سے کچھ راز مخفی رہ جائیں تو وہ مخفی ہی رہ جاتے ہیں۔کیونکہ سوچنے سے انسان کے لئے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سب باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
لاٰ تَقُلْ مٰا لاٰ تَعْلَمْ بَلْ لاٰ تَقُلْ کُلَّ مٰا تَعْلَمُ
(بحار الانوار:ج۲ص۱۲۲)
جو بات نہیں جانتے وہ نہ کہو بلکہ ہر جاننے والی بات بھی نہ کہو۔
کیونکہ کسی بھی چیز کو جاننا اسے بیان کرنے کی دلیل نہیں ہے۔کیونکہ بہت ایسی چیزیں ہیں جنہیں جانتے تو ہیں لیکن وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔اس بناء پر ایسی باتوں کو بیان کرنے میں اپنی اور دوسروں کی عمر ضائع کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔انسان کی کچھ معلومات مفید ہوتی ہیں لیکن لوگوں کا ظرف انہیں ہضم نہیں کر سکتا ۔ایسے مطالب بیان کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے کیونکہ ایسے مطالب کے بیان سے دوسروں کے اظہار یا انکارکے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اسی لئے کائنات کے سب سے پہلے مظلوم امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:
لاٰ تَقُلْ کُلَّ مٰا تَعْلَمُ
تم جو کچھ جانتے ہو وہ سب بیان نہ کرو۔
آپؑ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
مَنْ کَتَمَ سِرِّهِ کٰانَتِ الْخِیَرَةُ بِیَدِهِ
(نہج البلاغہ کلمات قصار:۱۶۲)
جو کوئی اپنے راز چھپائے ،اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔
کیونکہ جب بھی وہ اصلاح دیکھے تو اسے دوسروں کے سامنے بیان کر سکتاہے ؛لیکن اگر اس نے اپنا راز فاش کر دیا تو اسے اس کا نقصان ہو گا اس کے بعد وہ اپنے فاش راز کو نہیں چھپا سکتا۔
بلکہ کبھی کبھار اپنے راز کو فاش کرنے کے علاوہ اپنے روحانی حالات بھی کھو دیتا ہے کیونکہ بعض افراد کو زحمتیں برداشت کرکے کچھ معنوی نتائج حاصل ہوتے ہیں لیکن اِدھر اُدھر کی باتیں کہنے سے وہ اپنی معنوی حالت کھو بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے غرور تکبر اور تمام منفی روحانی بیماریوںمیں مبتلا ہو جاتاہے اور اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایسے امور سے بچنے کا بہترین ذریعہ اپنی زبان کی حفاظت کرناہے۔
تا نشانسی گھر بارِ خویش طرح مکن گوھر اسرار خویش
لب مگشا گر چہ در و نوش ھاست کز پس دیوار بسی گوش ھاست
بزرگوں کی رازداری
اہلبیت اطہار علیھم ا لسلام کی نورانی زندگی اور نشست و برخواست کی روش پر مختصر نگاہ کرنے سے یہ معلوم ہو جاتاہے کہ وہ اپنی مجلس میں شرفیاب ہونے والے لوگوں اور ان کی دلنشین گفتارر اور روح پرور اقوال سے استفاہ کرنے والوں پر خاص عنایت فرماتے اور وہ فرد یا افراد کو اپنا صاحب اسرار سمجھتے اور ان کے لئے خلقت کائنات کے اسرار و رموزسے پردہ اٹھاتے ۔خلقت کے اسرار و رموز (جن سے دوسرے ناواقف تھے)سے پردہ اٹھانے سے ان کے دل منور ہو جاتے ۔لیکن وہ اپنے اسرار نااہل لوگوں سے چھپاتے اور انہیں ان لوگوں کے سامنے بیان نہ کرتے جن میں انہیں ہضم کرنے کی صلاحیت و لیاقت نہ ہوتی ۔ہمارے بزرگ بھی اپنے اسرار کی حفاظت کی کوشش کرتے ۔اب ہم نمونے کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
مرحوم شیخ بہائی نے سنا کہ ایک حلیم پکانے والا شخص بعض گیاہی چیزوںمیں تصرف کی قدرت رکھتا ہے اور غیر معمولی روحانی تونائیوں کا مالک ہے ۔ آپ اس سے ملاقات کے خواہاں تھے ؛لہذا آپ اس کے پاس گئے اور اس سے اصرار کیا کہ وہ عالم ِ وجود کے اسرار میں سے انہیں کوئی چیز سکھائے!
حلیم پکانے والے شخص نے منع کیا اور کہا:یہ اسرار آپ سے بالا ہیں!
مرحوم شیخ بہائی نے اس کی بات ردّکرتے ہوئے کہا:میں ان اسرار کو سیکھنے کے لئے آیا ہوں ۔ حلیم پکانے والے نے جب یہ دیکھا کہ شیخ بہائی اس کی بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور خود کو اسرار قبول کرنے کے لئے تیار سمجھتے ہیں۔
لہذا اس نے شیخ بہائی کو یہ دکھانے کے لئے کہ ان میں بعض اسرار کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ،اس لئے انہوں نے عملی طور پر ایک کام کو انجام دینا شروع کیا۔ایک دن وہ حلیم پکانے میں مشغول تھا اور شیخ بہائی بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تا کہ شاید اس سے کوئی اسرار سیکھ لیں ۔اچانک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی ۔وہ حلیم پکانے والا شخص اور شیخ بہائی دونوں باہر گئے ،دیکھا تو دروازے کے پیچھے کھڑا ایک شخص کہہ رہا ہے:اس شہر کا سلطان فوت ہو گیا ہے اور اب تمہں اس سلطنت کے شاہ کے طور پر منتخب کرنا چاہتے ہیں ۔حلیم پکانے والا شخص اور شیخ بہائی دونوں دربار کی طرف چلے گئے۔
اس نے شیخ بہائی سے کہا:تمہیں چاہئے کہ تم بادشاہ بن جاؤ اور میں تمہارا وزیر۔وہ انکارکرتے رہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور بالآخر شیخ بہائی شہر کے بادشاہ بن گئے اور وہ حلیم پکانے والا ان کا وزیر۔کچھ مدت گزرگئی تو شیخ نے کوئی کام انجام دینا چاہا جو ان کے لائق نہیں تھا!اچانک حلیم پکانے والے نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا:میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میں قابلیت نہیں ہے؟!جب شیخ نے دیکھا تو وہ حلیم کی دیگ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ وہی وقت تھا جب وہ وہاں سے گئے اور دیگ ابل رہی تھی۔
(تذکرة العلماء ص۱۷۳)
فرض کریں کہ اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہے تو یہ عالم کشف میں ایک طرح کی قدرت نمائی تھی جو ہماری اس دنیامیں خارجی واقعیت نہیں رکھتا۔لیکن مرحوم شیخ بہائی کو یہ منوانے کے لئے کہ وہ کچھ اسرار کو کشف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، یہ ایک مؤثرنمائش تھی۔
مرحوم شیخ بہائی امور غریبہ میں اس فن کے استاد تھے لیکن ہر ہاتھ سے اوپر بھی ایک ہاتھ ہے
وَفَوْقَ کُلِّ ذِْی عِلْمٍ عَلِیْم
(یوسف،۷۶)
ایک دن مرحوم شیخ بہائی اورمرحوم فیض کاشانی اور بہت سے دوسرے علماء کے استاد اور علماء شیعہ میں سے ایک بزرگ شخصیت ”سید ماجد بحرانی”ایک نشت میں حاضر ہوئے۔شیخ بہائی کے ہاتھ میں خاک شفاء کی تسبیح تھی جس پر وہ کوئی ورد پڑھ رہے تھے کہاس تسبیح سے پانی جاری ہو گیا!
انہوں نے سید سے پوچھا:کیا اس پانی سے وضو کرنا جائز ہے یا نہیں؟
سید نے جواب دیا: جائز نہیں ہے۔کیونکہ یہ پانی خیالی ہے نہ کہ آسمان سے نازل ہونے والا یا زمین سے نکلنے والا حقیقی پانی ۔مرحوم شیخ کو ان کا یہ جواب بہت پسند آیا۔
(فوائد الرضویہ ص۳۷۰)
راز کی حفاظت کرنا نہ کہ خیالات کو چھپانا
خاندان وحی ونبوت علیھم السلام کے کلمات و فرامین میں رازداری کے بارے میں جو کچھ وارد ہوا ہے اس کا یہ مقصد ہے کہ کامیاب اور بزرگ افرادجن موضوعات سے آگاہ ہوئے ہوں اور دوسرے اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو ان موضوعات کی حفاظت کریں اور انہیں ان کے اختیار میں نہ دیں۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسےقبول کرنا چاہئے لیکن کچھ لوگ ایسے حقائق کو چھپانے کے بجائے تخیلات کی حفاطت کرتے ہیں ،جن کے وہ سختی سے پابند ہوتے ہیں اور انہیں بہترین راز کی طرح چھپاتے ہیں۔انہیں رحمانی الہامات اور نفسانی تخیلات کے درمیان فرق معلوم نہیں ہوتا۔اسی لئے وہ اپنے شیطانی اعمال کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور راز کی طرح ان کی حفاظت کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ خیالات کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے ۔اب اس بارے میں ایک بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں:
ایک دن مرحو م شیخ بہائی، شاہ عباس کی محفل میں داخل ہوئے ۔روم کے دربار کا سفیر بھی وہیں تھا ، شاہ نے شیخ بہائی سے کہا: بادشاہ روم کے سفیر کی باتوں کو سنیں۔روم کے سفیرنے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور کہا:ہمارے ملک میں دانشوروں کا ایک گروہ ہے جوکہ علوم غریبہ سے آشنا ہے اور وہ بہت عجیب و غریب کام انجام دیتے ہیں اور اس نے ان میں سے کچھ واقعات بیان کئے۔ پھر اس نے کہا: لیکن ایران میں علماء میں سے کوئی بھی ایسے علوم سے آشنا نہیں ہے۔
شیخ بہائی نے دیکھا کہ یہ باتیں بادشاہ پر بہت اثرانداز ہوئی ہیں اسی لئے انہوں نے روم کے سفیر کی طرف دیکھ کر کہا:صاحبان کمال کے پاس ایسے علوم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی انہوں نے جلدی سے اپنی جوراب ہاتھ میں پکڑی جوسانپ میں تبدیل ہو گئی۔ دربارمیں روم کے سفیر اور اس محفل میںبیٹھے ہوئے تمام افراد پر خوف طاری ہو گیا اور سب بھاگنے کے لئے تیار ہو گئے؛مرحوم شیخ بہائی نے سانپ کوپکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ اپنی پہلے والی حالت میں تبدیل ہو گیا ۔پھر انہوں نے شاہ عباس سے کہا: ایسے کام بابصیرت افراد کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور میں نے تویہ چیزیں اصفہان میں کرتب دکھانے والوں سے سیکھی ہیں ۔یہ تو شعبدہ بازی ہے۔ کرتب دکھانے والے لوگوں سے درہم و دینار لینے کے لئے یہ کام کرتے ہیں ۔سفیر روم نے سر جھکا لیا اور باتوں پر بہت پشیمان ہوا۔(فوائد الرضویہ ص۵۱۳)
بعض لوگ شیطانی وسوسوں اور خیالات کی طرح ایسے ہی بے ارزش کاموں کو اہمیت دیتے ہیں اور اپنے خیال میں وہ علوم و حقائق کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ رازداری کی بجائے انہیں یہ چیزیں اپنے صفحہ دل سے نکال دینی چاہئیں۔
اس بناء پرپہلے تو انسان کو راز کی حقیقت اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہونا چاہئے ؛اور اس کے بعد اسے اس کی راز داری کرنی چاہئے ،نہ کہ وہ اپنے دل کو شیاطین کا ٹھکانہ قرار دے اور خودد کو رازدار سمجھے!
اسرار کی حفاظت میں، مخالفین کا کردار
اب دنیاکی سامراجی طاقتیںاپنے سیاسی راز و اسرار نہ صرف یہ کہ دوسرے ملکوں بلکہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی بہت سی سیاسی شخصیات سے بھی چھپاتی ہیں اور انہیں صرف چند مخصوص افراد تک ہی محدود رکھتی ہیں۔اسی طرح بڑے صنعتی دفاتر اور کمپنیاں اپنی کامیابی کا سبب رازداری کو قرار دیتے ہیں اور اپنے راز فاش ہونے کو اپنی شکست اور رقیبوں کی فتح مانتے ہیں۔
لیکن مکتب اہلبیت علیھم السلام میں لوگوں کو رازداری کا حکم ایسے چھوٹے مقاصد کے لئے نہیں دیا گیا کیونکہ ان ہستیوں کی نظر میں اگر راز بتانا مومن بھائیوں کی ترقی و پیشرفت کا باعث ہو اور اس میں کسی طرح کے فساد کا کوی خوف نہ ہوتو اس میں کوی مضائقہ نہیں ہے۔اسی لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے حضرت کمیل سے فرمایا:
یٰا کُمَیْلُ لاٰ بَأْسَ أَنْ تُعْلِمَ اَخٰاکَ سِرِّکَ
(بحار الانوارج۷۷ص۴۱۶، تحف العقول ص۱۷۱)
اے کمیل!اپنا راز اپنے (دینی)بھائی کو بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس بناء پر انسان اسے اپنا راز بتا سکتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ بھائیوں کی طرح باقی رہے۔
اب یہ سوال درپیش آتاہے:اگر نزدیکی دوستوں کو راز بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے تو پھر روایات میں اپنا راز چھپانے کی اتنی تاکید کیوں کی گئی ہے؟(حضرت علی علیہ السلام نے ایسے بھائیوں کے کچھ شرائط بیان فرمائے ہیں جنہیں جاننے کے لئے بحار الانوار ج۷۷ص۴۱۶ کی طرف رجوع فرمائیں)
اس کے جواب میں یہ کہنا چاہئےکیونکہ:
اولاً:تو لوگوں میں فطری طور پرپیدا ہونے والی فکری تبدیلیوں کی وجہ سے ایسے بھائیوں اور ان کے آئندہ رویے کی پہچان بہت مشکل ہے۔اس بناء پر دینی بھائیوں کو پہچان کر ہی ان سے راز بیان کرنا چاہئے۔
ثانیاً: اہلبیت اطہار علیھم السلام کے فرامین میں راز کو چھپانے کا حکم مادّی اور شخصی اغراض و مقاصد کے لئے نہیں ہے جیسا کہ دنیا کے سیاستدان اور دولت مند حضرات اپنے راز چھپاتے ہیں۔بلکہ وہ لوگوں کی علمی وسعت کے کم ہونے اور ان کے نہ ماننے کی وجہ سے ہے۔جب غیبت کے تاریکی کے بادل چھٹ جائیں گے اور پوری کائنات پر ولایت کے تابناک انور چمک رہے ہوںگے تو حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے توسط سے دنیاکے حیرت انگیز اسرار سب لوگوں کے لئے واضح و آشکار ہو جائیں گے۔کیونکہ اس زمانے میں لوگ فکری تکامل کی وجہ سے ان اسرار کو سننے کے لئے تیار ہوں گے اور اس وقت دنیا میں ظالموں اور ستمگروں کا وجود نہیں ہو گا جو ان اسرار کو بیان کرنے سے روک سکیں۔
ہمیشہ ہر ظلم و ستم کا سرچشمہ اور تمام ملتوں کے لئے ناکامی کا باعث اہلبیت اطہار علیھم السلام کے حقوق کے غاصب اور ظالم افراد ہیں۔وہ نہ صرف خاندان وحی علیھم السلام کی حکومت کے لئیرکاوٹ بنے بلکہ انہوں نے معاشرے کو اس طرح سے جہل کے اندھیروں میں رکھاکہ اہلبیت عصمت وطہارت علیھم السلام کو اسرار و رموذ بیان کرنے کی راہوں کو مسدود کر دیا۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
کٰانَ لِرَسُوْلِ اللّهِ سِرّ لاٰ یَعْلَمُهُ اِلاّٰ قَلِیْل
پیغمبر(ص) کے لئے ایک راز تھا جسے کوئی نہیں جانتا تھا مگر بہت کم لوگ۔
پھر آپ پیغمبر اکرم(ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(ص) نے فرمایا:
لَوْلاٰ طُغٰاةُ هٰذِهِ الْاُمّةِ لَبَثَثْتُ هٰذَا السِّرِّ
(بحار الانوار:ج۹۵ص۳۰۶)
اگر اس امت کے باغی و سرکش افراد نہ ہوتے تومیں یہ راز لوگوں کے درمیان بیان کرتا۔
ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:
لَوْلاٰ طُغٰاةُ هٰذِهِ الْاُمَّةِ لَبَیِّنَتْ هٰذَا السِّرِّ
(بحار الانوار: ج۹۱ص۲۶۷)
اگر اس امت کے باغی و سرکش افراد نہ ہوتے تومیں یہ رازبیان کر دیتا۔
اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کی راز داری اور ان کا کائنات کے حقائق کو مخفی رکھنے کی وجہ معاشرے کے ظالم و جابر اور آل محمد علیھم السلام کے حقوق کے غاصب افراد تھے۔
وہ لوگ اسلامی ممالک کے سر کودیکھنا تو دور کی بات بلکہ وہ حضرت فاطمۂ زہراء علیھا السلام کی جاگیر ”فدک”بھی مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے پاس نہیں دیکھ سکے!توپھر وہ لوگ کس طرح آرام سے بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے کہ لوگ اہلبیت عصمت علیھم السلام کی طرف جا کر ان کے علوم سے آسمانوں،خلاؤں ،کہکشاؤں اور عالم غیب کی اور نامرئی دنیا کی عظیم قدرت سے آشناہوں؟!
ان کی خیانت کی وجہ سے نہ صرف اسی زمانے میں بلکہ اب تک انسانی معاشرہ ایسے بنیادی اور حیاتی مسائل سے آشنا نہیں ہوسکا۔
(اقتباس از کامیابی کے اسرار جلد۲)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button