اخلاقیاتدعا و مناجاتمکتوب

"شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

نواں درس
"إِلهِي انْظُرْ إِلَى نَظَرَ مَنْ نادَيْتَهُ فَأَجابَكَ وَاسْتَعْمَلْتَهُ بِمَعُونَتِكَ فَأَطاعَكَ يا قَرِيباً لايَبْعُدُ عَنْ المُغْتَرِّ بِهِ يا جَواداً لايَبْخلُ عَمَّنْ رَجا ثَوابَهُ ، إِلهِي هَبْ لِي قَلْباً يُدْنِيهِ مِنْكَ شَوْقُهُ وَلِساناً يُرْفَعُ إِلَيْكَ صِدْقُهُ وَنَظَراً يُقَرِّبُهُ مِنْكَ حَقُّهُ ، إِلهِي إِنَّ مَنْ تَعَرَّفَ بِكَ غَيْرُ مَجْهُولٍ وَمِنْ لاذَ بِكَ غَيْرُ مخْذُولٍ وَمَنْ أَقْبَلْتَ عَلَيْهِ غَيْرُ مَمْلُوكٍ "
خدایا! مجھ پہ وہ نظرفرما جو تو پکارنے والے پر کرتا ہے اس کی دعا قبول کرتا ہےپھر اس کی یوں مدد کرتا ہے گویا وہ تیرا فرمانبردار تھا اے قریب! کہ جو نافرمان سے دوری اختیار نہیں کرتا اے بہت زیادہ عطا کرنے والی ذات ! جو ثواب کے امیدوار کے لئے کمی نہیں کرتا، میرے خدا! مجھے وہ دل دے جس میں تیرے قرب کاشوق ہو۔ وہ زبان عطا فرما جو تیرے حضور سچی رہے وہ نظر دے جس کی حق بینی مجھے تیرے قریب کردے، میرے خدا! بے شک جسے تو جان لے وہ نامعلوم نہیں رہتا جو تیری محبت میں آجائے وہ بے کس نہیں ہوتا اور جس پر تیری نگاہ کرم ہو وہ کسی کا غلام نہیں رہتا۔
مناجات شعبانیہ کے اس جملے میں امیر المومنین ؑ ارشاد فرمارہے ہیں:
"إِلهِي انْظُرْ إِلَى نَظَرَ مَنْ نادَيْتَهُ فَأَجابَكَ "
اے میرے معبود اس شخص پر نظر کر، جس نے تجھے بلایا،تجھے ہی پکارا،تونے کچھ کہا،تو نے کوئی حکم دیا اور اس نے لبیک کہا جس نگاہ سےتو اسے دیکھتا ہے مجھے اسی نگاہ سے دیکھ۔
میں یہاں آپ کو ایک اہم اور قابل فہم بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں اگر کوئی آپ سے ناراض ہوجائے اور حالت غضب میں ہو تو ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم اس کے ساتھ ایسا کلام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی حالت تبدیل ہو جائے،اس کا دل نرم ہو جائے،اسے ہمارے حال پر رحم آجائے،ہم التماس کرتے ہیں،ہم سفارش کراتے ہیں ہم اس سے معافی مانگتے ہیں،ہم عفو و درگزر کا تقاضا کرتے ہیں تاکہ جلدی راضی ہوجائے کچھ لوگ دیر سے راضی ہوتے ہیں لیکن راضی تب ہوتے ہیں جب غصہ اور دل کی کدورت ختم ہو جاتی ہے ،اس کی حالت کو ہم اپنے الفاظ کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب اس کی حالت اپنے ان الفاظ کے ذریعے تبدیل کر دیں ،تو وہ الفاظ معافی کے بھی ہو سکتے ہیں تعریف کے بھی ہو سکتے ہیں خوشامد کے بھی ہو سکتے ہیں، اس کے کسی عزیز کا واسطہ بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال جس طریقے سے بھی ہواسے راضی کر لیتے ہیں۔ راضی کا مطلب یہ ہے کہ جس بھی طریقے سے آپ اس کے دل میں رحم پیدا کرسکیں جس بھی طریقے سے آپ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوجائیں کہ وہ حالت غضب سے نکل آئے اور حالت ترحم میں آجائے پھر آپ کی بات سنتا ہے آپ کا مطالبہ مانتا ہے۔یہاں تک تو ہمارے روز مرہ کا مشاہدہ ہے لیکن ہم خدا کے سامنے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ ہم خدا کے سامنے دعا و مناجات کرتے ہیں ،حمد کرتے ہیں شکر کرتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، توبہ کرتے ہیں یہ سب کیوں کرتے ہیں؟ یہ سب اس لئے کرتے ہیں کہ خدا کا غضب رحمت میں بدل جائے ،اس لئے کہ خدا جس حال میں ہے حال غضب سے حال رحمت میں آجائے۔
لیکن ذرا سوچیں یہ انسان محل حوادث ہے ایسا انسان جو ایک حال سے دوسرے حال میں تبدیل ہو جاتا ہے حال غضب سے حال ترحم میں آجاتا ہے لیکن خدا میں کوئی تغییر نہیں آتی، خدا میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، خدا کی حالات مختلف نہیں ہوتیں۔
اسے سمجھنے کے لئے مثال پیش کرتے ہیں سورج نے طلوع کیا سورج غروب ہوا،آج دن گرم ہے ابھی دن ہے ابھی رات ہے یہ ساری چیزں جو ہم نسبت دیتے ہیں آیا سورج میں یہ ساری تبدیلیاں ہو رہی ہوتی ہیں یا یہ زمین میں تبدیلیاںوقوع پذیر ہوتی ہیں تبدیلی ساری زمین میں ہور ہی ہوتی ہے اور اس کی نسبت ہم سورج کو دیتے ہیں ہم کہتے ہیں یہاںسورج نے غروب کیا وہاں سورج نے طلوع کیا جب کہ یہ محاورہ درست نہیں سورج جہاں ہے وہیں رہتا ہے ۔ ۔پھر ہم کیوں نسبت دیتے ہیں کہ سورج غروب ہو گیا ،سور ج طلوع ہو گیا؟اس لئے کہ ہمارے اور سورج میں جو نسبت ہے وہ تب تبدیل ہوگی جب سورج تبدیل ہوجائے یا ہم تبدیل ہو جائیں ،ان دونوں میں سے ایک صورت ہوگی یا زمین کو تبدیل ہونا ہوگاتبھی یہ نسبت ختم ہوگی یا سورج کو وہاں سے ہٹنا ہوگا تب جا کر یہ نسبت تبدیل ہو گی،یہاں ان دونوں میں سے اگر سورج میں تبدیلی ممکن نہیں ہے تو زمین خود کو تبدیل کر لیتی ہے اور رات کی طرف چلی جاتی ہے زمین اپنے آپ کو تبدیل کر لیتی ہے اور سورج کی طرف نسبت دی جاتی ہے کہ سورج نے غروب کیا۔
اللہ محل حوادث نہیں ہے اللہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ۔اللہ ہمیشہ اپنا فیض بے کراں دے رہا ہوتاہے وہ فیاض ہے۔ وہ رحمت کی بارشیں نازل کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی آبشار رحمت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رواں ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہے ہم جو اس رحمت سے دور ہو گئے تھے اپنے آپ کو اس رحمت کے قریب کر ناہے ہم نے تبدیل ہونا ہے خدا قابل تبدل و تغیر نہیں ہے،پس ہم جو مناجات کر رہے ہیں یہ کہاں اثر انداز ہوتی ہے یہ کدھر تبدیلی لاتی ہے اس سے کہاں تبدیلی آنی چاہیے ۔کیا آپ کہتے ہیں کہ میں نے اتنی دعائیں کی لیکن خدا نے قبول نہیں کیا۔ بلکہ تو نے اس تبدیلی کو قبول نہیں کیا اللہ سےتو جو دور ہو گیا تھا اس دعا کے نتیجے میں نزدیک ہونا ہے خدا تو دور ہوتا ہی نہیں ۔خدا کی نسبت سے دیکھو تو وہ تمہاری شہ رگ سےزیادہ نزدیک ہے تو مومن ہے یا کافر ہے وہ عبادی کہتا ہے۔میرے بندو،میرے بندوں میں کافر بھی شامل ہے اس کی بھی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہے یہ کافر ہے یہ منافق ہے یہ عاصی ہے یہ گنہگار ہے جو خدا سے دور ہے تبدیلی ہم نے اپنے اندر لانی ہے اور ہم نے اپنے آپ کو اس معرض رحمت میں قرا ر دینا ہے۔
بس یہی سمجھ سکیں تو یہ مناجات شعبانیہ کا بہت بڑا درس ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنے اندر تبدیلی لائیں ہم دوسرے کو تبدیل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں ہماری سوشل لائف میں بھی بہت سی مشکلا ت کا حل یہی ہے کہ آپ خود اپنے اندر تبدیلی لائیں جو بہت آسانی سے لاسکتے ہیں اور آپ کے ایک ارادے کی مانگ ہے اس تبدیلی کو نہیں لاتے اور پوری دنیا کو تبدیل کرنے چلتے ہیں اور پوری دنیا تبدیل نہیں ہوسکتی۔ آپ آج اسی وقت پوری دنیا سے کرونا ختم نہیں کر سکتے لیکن جو آپ کر سکتے ہیں اپنے اندر تبدیلی لائیں ،گھر سے باہر کم سے کم نکلیں ،سماجی فاصلے کا خیال رکھیں تو آپ نے وائرس کو شکست دی ہے وائرس کو شکست دینے کے لئے خود کوتبدیل کرنا ہو گا ۔آپ نے اگر خود کو تبدیل نہ کیا تو آپ وائرس کو شکست نہیں دے سکتے،بات آگئی ہے تو عرض کر دیتاہوں،کہ اس کو جو ہم آجکل کہہ رہے ہیں ،ہم نے لڑنا ہے۔ہم کیسے ایک وائرس سے لڑیں گے؟ کوئی بات ہمیں سمجھ میں نہیں آتی ،ہماری وائرس سے لڑائی ہے تو ہمیں وائرس پر حملہ کرنا چاہیے ،وائرس پہ حملہ کیا ہے کیسا کرنا ہے ؟
وائرس کا ہدف ہم ہیں جب ہماری طرف آرہا ہو اور ہم بچ جائیں تو وائرس پہ ہم نے حملہ کیا ہے اور وائرس جو ہماری طرف آرہا ہے یہ ہمارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے اگر وائرس کے راستے سے ہٹ جائیں تو یہ اس کی موت ہے ،آپ نے اگر داستانے پہنے ہیں آپ نے اگر ماسک لگائے ہوئے ہیں اگرآپ سیناٹائیزر استعمال کرتے ہیں اگر آپ ہاتھ دھوتے ہیں تو آپ نے اس وائرس کے حملہ کو پسپا بھی کیا ہے اس مقام پر وائرس کی موت واقع ہو جاتی ہے آپ نے اس کو مارا ہے آپ وائرس کو مارسکتے ہیں ،اس چین کوتب توڑ سکتےہیں جب آپ احتیاط کریں ۔آپ احتیاط کریں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تقوی اختیار کریں گے اگر آپ کو تقوی اختیار کرنے کی عاد ت ہوگئی تو آپ کے نفس میں بھی تبدیلی آگئی ہے ۔آپ میں اگر تبدیلی آگئی تو آپ ادھر نہیں ہیں جہاں غضب الہی ہے آپ ادھر آگئے ہیں جہاں رحمت الہی ہے او روہ رحمت الہی ہمیشہ ہمیشہ برس رہی ہے۔
پس میں دنیا کو تبدیل کرنا چاہتا ہوں ،دنیا تبدیل نہیں ہوگی جب تک میں اپنے آپ کو تبدیل نہ کروں،دنیا تو پھر بھی قابل تغیر ہے تبدیل ہو سکتی ہے ہم نعوذ باللہ خدا کو تبدیل کرنا چاہتےہیں اور پھر کہتے ہیں کہ خدا تبدیل نہیں ہوا خدا ابھی تک حالت غضب میں ہے حالت رحمت میں نہیں ہے،نہیں خدا کے ہاں کوئی تغیر و تبدل نہیں ۔اسےسمجھنے کے لئے امیر المومنینؑ کے کلمات کو پڑھنے کی ضرورت ہے نہج البلاغہ میں غوطہ ور ہونے کی ضرورت ہے صحیفہ سجادیہ سے شغف لگانے کی ضرورت ہے اب جو یہ میلاد مبارک آرہی ہے اور کل رات شب ولادت امام زمانہؑ ہے اس ہستی سے زمانے کے امام سے اپنے آپ کو قریب کریں۔ پس خدا کو ہم تبدیل نہیں کر سکتے ، خدا سمجھنے کےلئے خورشید،سورج تبدیل نہیں کر سکتے اسی طرح حرارت برساتا رہے تو سب کچھ جل جائے گا کیا کرنا ہوگا؟خود تبدیل ہونا ہوگا،سورج کو تبدیل نہیں کر سکتے آپ کو بھی کرونا سے لڑنے کےلئے خود تبدیل ہونا پڑے گا۔خود انسان کیسے تبدیل ہو سکتا ہے ؟خود بھی انسان تبدیل نہیں ہو سکتا اگر آپ نے اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہے تو سب سے پہلے آپ کو اپنے افعال کو تبدیل کرنا ہوگا،تبدیلی آ پ نے اپنے کردار،افعال اور گفتار میں لے آنی ہے اگر آپ کے افعال تبدیل ہو گئے جو آج کل تبدیل ہو گئے ہیں اسی طرح اگر آپ تقوی الہی اختیار کریں اور آپ کے اعمال تبدیل ہو جائیں تو آپ کی شخصیت تبدیل ہو جائے گی۔ آپ اگر تبدیل ہو گئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہاں چلے گئے جہاں سے رحمت الہی ملتی ہے اور یہ رحمت الہی کی برسات ہو رہی ہے اسے ہر شخص محسوس تو کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ حمد اور شکر کرتا ہے ہر انسان اس رحمت کو بھی محسوس کرتا ہے حتی کہ ملحد بھی اس رحمت کو محسوس کرتا ہے وہ بھی اس رحمت کے زیر سایہ ہے وہ بھی اس رحمت کو وصول کرتا ہے ،ملحد جو کہ خدا کا انکار کرتاہے وہ بھی خدا کو مانتا ہے یعنی خدا کا منکر کوئی بھی نہیں ہے قرآن جگہ جگہ مشرکین سے استفسار کرتا ہے تمہیں کس نے خلق کیا؟کہتے ہیں خدا نے خلق کیا،تمہیں رزق کون دیتا ہے ؟خدا ہمیں رزق دیتا ہے ۔یہ تو مشرکین کی بات ہے ابھی ملحدین کا ٹیسٹ ہوا ایک تجربہ کار کے ساتھ ایک ملحد کو بٹھایا گیا اور کہا :فرض کرو یہ شیر ہے اور آپ سے کہو مجھے کھا لو،میں نے فرض کر لیا شیر مجھے کھا لو،کوئی مشکل نہیں ہوئی،کہا اچھا فرض کر لو کہ ایک اژدھا ہے ،نہیں ہے نا؟شیر بھی نہیں تھا ؟ ۔لیکن فرض تو کر سکتے ہیں تصور تو کر سکتے ہیں۔آپ نے فرض کیا کہ یہاں پر ایک اژدھا ہے اس اژدھا سے کہو کہ اے اژدھا مجھےنگل لو،سب نے بڑی آسانی سے کہا” اے اژدھا مجھے نگل لو” کیوں یقین ہے یہاں کوئی اژدھا نہیں ہے ۔پھر کہا گیا ایک جملہ اور کہو:اے خدا ہم پر عذاب نازل کر دے” اگر خدا کا ہونا بھی ایسا ہو کیونکہ وہ خدا کو نہیں مانتے تھے جب وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کو نہیں مانتے ان سے کہتے ہیں کہ چلیں تم فرض کرو اگر خدا ہے تو ہم اس سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں عذاب دے شیر اور اژدھا والی دونوں مثالوں میں کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی ،سارے کہہ دیتے ہیں،لیکن جب عذاب خدا کی بات ہوتی ہے تو اکثریت ملحدین کہتے ہوئے ڈر جاتے ہیں کس سے ڈرتے ہیں؟اپنے تصور سے ڈرنا ہے تو شیر اور اژدھا سےبھی ڈریں خداسے کیوں ڈرتے ہیں؟ اس لئے کہ خدا ان کے قلب و فطرت میں موجود ہے۔ ہم نے پہلے بھی کہا ہے ان ایام میں جو آپ کو وقت ملا ہے اس میں قرآن کی تلاوت کریں قرآن کا مطالعہ کریں قرآن کو سمجھیں۔جب مشرکین معجزات مانگتے ہیں در حقیقت یہ عذاب مانگ رہے ہیں،ابھی بھی بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر خدا معجزہ دکھائےاورکرونا کا علاج نکل آئے تو ہم خدا کو ما نیں گے اس پر ہم کلام کر چکے ہیں یہ فیلڈ سائنس کی ہے اس فیلڈ میں سائنس نے ہی ویکسین بنانی ہے مذہب نے ویکسین نہیں بنانی ۔ اس لئے وہ خلط کر جاتے ہیں نا فہمی میں یہ بات کر جاتے ہیں ۔پس ایسے لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ کوئی معجزہ دکھا،تمام معجزات آنے کے بعد ان تمام آیات الہی کے آنے کے بعد ان تمام انبیاء ،اولیاء اور قرآن و اہلبیتؑ کے آنے کے بعد جو سب معجزہ الہی ہیں انہیں تسلیم نہیں کرتےپھر معجزہ مانگنے کا مطلب جانتے ہو قرآن کیا کہتا ہے ؟ قرآن کہتا ہے کہ یہ عذاب مانگتے ہیں یہ پھر معجز ہ نہیں مانگتے ہیں جب خدا کو تحدی کرتے ہیں تو پھر یہ عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو تے ہیں یہاں پر وہ جملہ کتنا خوبصورت تھا جس سے ہم نے شروع کیا ۔ اور زیادہ آگے نکل گئے اس جملے میں خدا سے جو چیز مانگی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ خد ایا مجھ پر وہ نظر کرم فرما جو ان پر کرتا ہے جن کو تو کچھ کہے تو فورا لبیک کہتے ہیں کتنے اچھے عباد خدا ہیں جو تیری ہر بات کو مان رہے ہیں ان پر تو جو نظر کرم کرتا ہے وہی نظر کرم اور نظر لطف مجھ پر بھی کر کیوں کہ میری بھی دو حسیں ہیں میری ایک حس میراعصیان ہے اس کو نہ دیکھ،دوسری حس تیری دعوت ہے” ادعونی استجب لکم” تو نے کہا تھا؟ مجھے پکارو میں قبول کروں گا میں نے تجھے پکارا ہے میری معصیت پر نگاہ نہ کر میرے اس عمل پر نگاہ کر، کہ اس عمل میں تیرے ان بندوں کی طرح ہوں جنہیں تو جو کہتا ہے وہ مانتے ہیں یہاں بھی تو نے جو کہا وہ میں نے مانا ہے ،تو نے کہا ہے ناامیدی کفر ہے میں نے کہا: میں نا امید نہیں ہوں میں تیری درگاہ میں امید لے کر آیا ہوں تیرے کہنے پر پس مجھ پر وہ نگاہ کر اللہ اکبر!
الحمد للہ آپ لوگوں کے احکام کے بارے میں سوالات بہت زیادہ آرہے ہیں ۔بہت خوش آئند ہے ۔جس طرح ہم نے کہا تھا کہ اپنی تبدیلی کا آغاز عمل سے ہوگا اگر آپ اپنا عمل تبدیل کریں گے تو خود بخود تبدیل ہو جائیں گے یہ عمل اور تبدیلی احکام کی بجاآوری ہے جنہیں انجام دینا انتہائی آسان ہے مشکل نہیں ہے یہ دین بہت آسان دین ہے ۔احکام کو بہت ہی آسانی سے انجام دے سکتے ہیں۔ سب سے پہلے احکام اس کے بعد اخلاق کی باری آتی ہے جہاں ہم ابھی ہیں۔ہم امیر المومنینؑ سے اخلاق سیکھ رہے ہیں اخلاق اپنا تبدیل کرنے کے بعد پھر عقائد کی باری آتی ہے اور یہاں پر اخلاق اور عقائد دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں،عقائد میں تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ عقائد میں خود کو تبدیل کرنا چھوڑ دو اسباب پر بھروسہ کرنا چھوڑ دو،یہ نہ کہو کہ یہ پانی میری پیاس بجھا رہاہے یہ دیکھو کہ خدا نے اس پانی کو خلق کیا او روہی موثر حقیقی ہے اور وہی میری پیاس کو بجھانے والا ہے او رہر چیز میں اسے خدا کی نشانی نظر آئے اور ہر چیز کو وہ خدا سے طلب کرے مسبب الاسباب سے طلب کرے اسباب پر اس کا تکیہ نہ ہو۔پھر توفیق الہی کا مطالبہ ہے کہ اس طرح مجھ پر نگاہ کر جس طرح تیرے خاص بندے ہیں کہ ،
"از تو ئے یک اشارے از ما بسر دویدن”
تو اگر ایک اشارہ کرے تو ہم سر کے بل چل کر تیری بات کو ماننے کے لئے آجائیں ،اچھا جب تیری بات کو مانا مجھے کیا ملا اور تجھے کیا ملا؟ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ (انفال : 24)
جب بھی خدا اور رسول تجھے کسی کام کو کہیں تو اس کا جواب عمل سے دو لبیک کہو” لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ” یہ تمہیں حیات ابدی دینے کے لئے تمہیں تکلیف دے رہے ہیں ،تمہیں جو نماز روزہ اور باقی احکام و اخلاق دے رہے ہیں اس لئے کہ تمہیں حیات ابدی مل جائے۔
آید از غیب این نداهردم به روح خاکیان
سوی بزم عشق آید هرکه میجوید خدا
"وَاسْتَعْمَلْتَهُ بِمَعُونَتِكَ فَأَطاعَكَ "
” تو نے ان کے مدد کی” ایاک نعبد و ایاک نستعین” میں عبادت تک بھی تیری مدد کے بغیر نہیں کر سکتا ۔تیری عبادت کے لئے بھی مجھے جس چیز کی ضرورت ہے تیری مدد ہے پس میں صرف اور صرف تیری مدد کے ذریعے ہی تیر ی عبادت کر سکتا ہوں ،جب تیری عبادت تیری مدد کے بغیر نہیں کر سکتا تو کوئی بھی ایسا کام نہیں ہے جس کو میں تیری مدد کے بغیر انجام دے سکوں۔
يا قَرِيباً لايَبْعُدُ عَنْ المُغْتَرِّ بِهِ يا جَواداً لايَبْخلُ عَمَّنْ رَجا ثَوابَهُ ، إِلهِي هَبْ لِي قَلْباً
آپ جب اللہ کو پکارتے ہیں اور اللہ کے اسماء کو پکارتے ہیں تو آپ کی جو حاجت ہوتی ہے اس میں اور جن اسمائے حسنی سے آپ خدا کو پکارتے ہیں ، تناسب ہوتا ہے مثلا اگر آپ کو رزق مانگنا ہے تو آپ رزق کس طرح مانٓگیں گے۔ آپ رزق مانگتے ہوئے یہ نہیں کہیں گے
” یا جبار یا قہار،یا ستار ارزقنی” مجھے رزق دے مجھے کھانا دے مجھے روزگار دے ،نہیں ۔آپ اگر رزق مانگ رہے ہیں روزگار مانگ رہے ہیں تو پھر آپ ” یا رازق طفل الصغیر یا راحم الشیخ الکبیر” اس قسم کے اسماء کو واسطہ دے کر آپ خدا سے دعا کرتے ہیں ،یہاں پر بھی "یا قریبا لا یبعد” آپ واسطہ دے رہے ہیں کس کا؟ اے وہ ذات جو نزدیک ہے ،نزدیک کو حوالہ کیوں دے رہے ہیں؟ کیوں یہاں پر خدا کو یا قریب کہہ رہے ہیں ؟ اس لیے کہ بات ہو رہی ہے کہ میں عاصی ہوں اور میرے عصیان کی وجہ سے تجھے مجھ سے بہت دور چلا جانا چاہیے تھا جیسے میں تجھ سے بہت دور چلا گیا ہوں لیکن پھر بھی تو مجھ سے بہت قریب ہے” یا قریب” کاش اس جذبات کو میں منتقل کر سکوں” یا قریب” کس حال میں قریب؟اس حا ل میں جس میں تیرے بات نہیں مان رہا ہے میں تیری ندا پہ لبیک نہیں کہہ رہا ہے اور تو مجھے بچانا چاہتا ہے تو مجھے حیات دینا چاہتا ہے تو مجھے جنت دینا چاہتا ہے تو مجھے قرآن دینا چاہتا ہے تو مجھے ہدایت دینا چاہتا ہے ، میں ان تمام چیزوں سے دور جا رہا ہوں اس کے با وجود بھی ” یا قریب” تو پھر بھی قریب ہے۔تو نے مجھے ابھی تک دور نہیں کیا” یا جواد” پھر جواد کیوں” يا جَواداً لايَبْخلُ عَمَّنْ رَجا ثَوابَهُ ” اے سخی ذات،جو بخل نہیں کرتی ،بخل ، کنجوسی تو نہیں ہے اللہ کے پاس تو فقط سخاوت ہے اور سخاوت بھی اس مرتبے کی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔سخاوت کس کے لئے ہے؟ اس کے لئے جو نیک عمل کرتا ہے یا جس کا استحقاق ہے ۔استحقاق کی بنیاد پر دینا جود نہیں بلکہ عدل ہے۔ یا عدل نہیں کہا یا عادل بھی نہیں کہا یا جواد کہا ہے۔وہ جو جواد ہے اے جود و سخا اور کرم رکھنے والی ذات تو مجھے بھی دے کیوں دے؟ اس لئے میری امید کی وجہ سے تو مجھے دے میری آرزو کی وجہ سے مجھے دے میری آرزو یہ ہے کہ تو مجھے ثواب دے میرے اعمال ایسے نہیں ہیں لیکن تو جواد ہے ”
إِلهِي هَبْ لِي قَلْباً يُدْنِيهِ مِنْكَ شَوْقُهُ "
ایک ایسا قلب دے ،جو مجھے تجھ سے نزدیک کر دے اس میں تیرا شوق آجائے”
وَلِساناً يُرْفَعُ إِلَيْكَ صِدْقُهُ ” اور ایسی زبان عنایت کر جس کی سچائی مجھے اٹھا کر رفعت دے اور تیرے نزدیک کر دے : وَنَظَراً يُقَرِّبُهُ مِنْكَ حَقُّهُ ” جب آپ اللہ سے کسی بھی ثواب کی امید رکھیں اور کسی بھی ثواب کی امید خدا سے طلب کرتے ہیں توآپ کو جو بھی امید ہوگی خدا وہ آپ کو دے گا،خدا را صرف دنیا طلب نہ کرو صرف دنیا کی خیر طلب نہ کرو یہ دنیا گزر جائے گی جس کے پاس مال ہے جس کے پاس مال نہیں ہے دونوں ابھی کرونا سے خوفزدہ ہیں۔
وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الۡاٰخِرَۃ نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا
” جسے دنیا کا ثوب چاہیے اسے ہم دنیا کا ثواب دیتے ہیں ” و من یوتہ ثواب الاخرہ” اگر آخرت چاہتے ہیں تو تجھے اللہ سے مانگنا ہے اللہ سے امید رکھنی ہے ” نوتہ منھا” ہم ثواب آخرت دیتے ہیں” و سنجزی الشاکریں ” الہی ھب لی قلبا” ایسا قلب اور اس میں شوق عطا فرماکہ ہم فقط آخرت کی بھلائی طلب کریں۔رسالت مآب ؐ سے مروی ہے کہ ” ناجی داود ربہ فقال " مناجات شعبانیہ امیر المومنینؑ جو ہم پڑھ رہے ہیں یہ حضرت داودؑ نے نجوی کیا ہے یہ مناجات حضرت داودؑ ہیں ۔
نوٹ:( مناجات شعبانیہ کی تشریح و توضیح پر مشتمل یہ دروس علامہ انور علی نجفی نے ان ایام میں آن لائن دئیے تھے جب دنیا کرونا وائرس کی مشکل سے ہر طرف سے دو چار تھی۔ اس وجہ سے درمیان میں بعض اوقات کچھ جملے انہی ایام کی مناسبت سے بیان ہوئے ہیں۔)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button