اخلاق رذیلہاخلاقیات

قطع رحمی اور اس کے اثرات و نتائج

قطع رحمی اور رشتہ داروں سے بد سلوکی:
قطع رحمی گناہ کبیرہ ہےیہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا نتیجہ آخرت سے پہلے دنیا میں ظاہر ہونے لگتا ہے جبکہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک ایسی نیکی ہے جو بخشش اور خدا کی خوشنودی کا سبب ہے صلہ رحمی سے عمر اور رزق دونوں بڑھتے ہیں اور دنیاو آخرت کی مشکلات آسان ہوتی ہیں۔
قرآن مجید میں قطع رحمی کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے ارشاد خداوندی ہے:
’’والذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ و یقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل ویفسدون فی الارض اولئک لھم لعنۃ ولھم سوء الدار‘‘
’’وہ لوگ جو خدا سے پختہ عہد کے بعد اس کوتوڑتے ہیں اور جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں ان کے لیے لعنت اور بدترین گھر ہے‘‘۔
(سورہ رعد ، آیت ۲۵)
’’فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ‘‘
’’پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے‘‘۔
(سورہ محمد آیت ۲۲،۲۳)
’’وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ‘‘
’’اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)‘‘۔
(سورہ نساء آیت۰۱)
قطع رحمی کے متعلق معصومین علیھم السلام کے ارشادات:
۱۔ حذیفہ بن منصور بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
’’اتقواالحالقۃ فانھا تمیت الرجال، قلت و ما الخالقۃ؟ قال قطیعۃ الرحم‘‘
’’آپؑ نے فرمایا کہ حالقہ سے ڈرتے رہو حالقہ مردوں کو قبل از وقت موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے، میں نے عرض کیا حالقہ کیا ہے آپ نےفرمایا اس کا مطلب قطع رحمی ہے‘‘۔
۲۔ عثمان بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی نے امام کی خدمت میں عرض کیا:
مولا میرے بھائیوں اور چچا زادبھائیوں نے مجھ پر ظلم کیا ہےانہوں نے پورے مکان پر جو میری اور ان کی مشترکہ ملکیت ہے اس پر قبضہ کر لیا ہے اور مجھے ( مع اہل خانہ) ایک کمرے میں رہنے پر مجبور کردیا ہے اگر میں ان کی شکایت کروں تو اپنا حق لےسکتا ہوں( آپ فرمائیں میں کیا کروں)؟
امام علیہ السلام ے فرمایا:
’’ تم صبر کرو اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لیے آسانیاں پیدا کردے گا‘‘
اس نے امام کا فرمان سنا اور چلا گیا پھر اسی سال سن ۱۳۱ھ میں طاعون پھیلا اور میرے سارے رشتہ دار اس وبا سے ہلاک ہوگئے۔
’’میں جب دوبارہ امام کی خدمت میں پہنچا تو امام نے پوچھا تمہارے رشتہ داروں کا کیا حال ہے۔
میں نے عرض کیا وہ سب طاعون میں مر گئے ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
انہوں نے قطع رحمی کی تھی اور تمہارا حق غصب کیا تھااس لیے وہ ہلاک ہوگئے کیا تم چاہتےتھے کہ وہ ظلم کر کے بھی زندہ رہیں؟
میں نےعرض کیا
مولا ، مگر میں ان کی موت کا خواہش مند نہیں تھا‘‘۔
۳۔امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا :
’’ کتاب علی علیہ السلام میں لکھا ہے کہ تین عادتیں ایسی ہیں جن کا وبال آدمی آخرت سے پہلے دنیا میں ہی دیکھ لیتا ہے۔
لوگوں کا حق مارنا
قطع رحمی کرنا
جھوٹی قسم کھانا‘‘
پھر آپؑ نے فرمایا:
’’ کوئی بھی نیکی عمل صلہ رحمی سے بڑھ کر انسان کو فائدہ نہیں پہنچا تا۔ بعض اوقات بدکار افراد صلہ رحمی کرتے ہیں تو خدا ان کے مال میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں مالا مال کردیتا ہے جھوٹی قسم کھانااور قطع رحمی کرنا شہروں کو ویران کر دیتا ہے اور قطع رحمی نسلوں کو منقطع کردیتی ہے‘‘۔
۴۔ عنبسہ بن عابد بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اس نے اپنے رشتہ داروں کے ظلم کی شکایت کی۔
آپ علیہ السلام نے اسے فرمایا:
’’صبر کرو اور اپنےکام میں مشغول رہو‘‘۔
اس نے کہا مولا کیسے صبر کروں انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا ہے وہ ظلم کیا ؟
آپؑ نے فرمایا:
’’ کیا تم بھی ان جیسا بننا چاہتے ہو۔ اگر تم بھی ان جیسے بن گئے تو خدا تم میں سے کسی کی طرف بھی نگاہ کرم نہیں کرے گا‘‘۔
۵۔ ابو حمزہ ثمالی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیرالمومنین علیہ السلام نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’میں ایسے گناہوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو فوری بربادی کاموجب بنتے ہیں‘‘۔
خارجیوں کا ایک سردار عبد اللہ بن کواء کھڑا ہوا اور بولا:
اے امیر المومنین ۔!کیا کوئی گناہ ایسا بھی ہے جو فوری بربادی لاتا ہے؟
آپؑ نے فرمایا:
’’ قطع رحمی۔ یاد رکھو کچھ لوگ گنہ گار ہوتے ہیں مگر آپس میں تعلقات کوبڑی اہمیت دیتے ہیں اور اس صلہ رحمی کےنتیجے میں خدا ان کو وسیع رزق دیتا ہے اور کچھ لوگ پرہیز گارہوتے ہیں مگر آپس میں میل ملاپ نہیں رکھتے اور ایک دوسرے سے تعلقات توڑ لیتے ہیں۔خدا اس قطع رحمی کی وجہ سے ان کو وسعت رزق سے محروم کر دیتا ہے‘‘۔
( مذکورہ تمام روایات اصول کافی ج ۲، ص ۳۴۸،۳۴۹ پر مرقوم ہیں)
۶۔ محاسن برقی مین مرقوم ہے کہ قبیلہ خثعم کا ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا :
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل ناپسند ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ اللہ کو شرک سب سے زیادہ ناپسند ہے‘‘۔
اس نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سے عمل ہے؟
آپ نے فرمایا:
’’شرک کے بعد قطع رحمی اللہ کو نا پسند ہے‘‘۔
اس نےپوچھا کہ قطع رحمی کے بعد کون سے عمل اللہ کو ناپسند ہے؟
آپ نے فرمایا:
برائی کا حکم دینا اور نیکی سے روکنا‘‘۔
(محاسن برقی ج۱، ص۲۹۵)
۷۔امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کہ مجھ سے میرے والد ماجد نے بیان فرمایا:
’’ پانچ قسم کے لوگوں سے دوستی نہ کرنا، بات نہ کرنا اور اس کو اپنا ہم سفر نہ بنانا‘‘۔
میں نے عرض کیا باباجان! وہ کون لوگ ہیں؟
آپ نے فرمایا:
’’جھوٹے سے دوستی نہ کرناوہ سراب کی مانند ہوتا ہےوہ جھوٹ بول کر قریبی چیز کو بعید بتائے گا اوردور کی چیز کو نزدیک بتائے گا۔
فاسق سے دوستی نہ کرنا، وہ تجھے ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا۔
کنجوس سے دوستی مت کرنا وہ مشکل وقت میں تمہاری مدد نہیں کرےگا۔
احمق سے دوستی نہ کرنا،وہ اپنی طرف سے تمہارےلیے بھلائی چاہے گا لیکن حماقت کی وجہ سے نقصان پہنچائے گا۔
قاطع رحم سے دوستی نہ کرنا، کیوں کہ میں نے قرآن کریم میں اسے ملعون پایا ہے‘‘۔
(اصول کافی ج۲، ص۳۷۶)
۸۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرائیل نے خبر دی ہے کہ
’’ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے لیکن والدین کا نافرمان، قاطع رحم اور بوڑھا زانی اس خوشبو کو نہیں سونگھ سکے گا‘‘۔
(بحار الانوار ج۷۶، ص۴۴ بحوالہ معانی الاخبار ص۲۰۰)
ایسے گناہ جن سے عمر کم ہوجاتی ہے
۱۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:
’’والذنوب التی تعجل الفناء: قطیعۃ الرحم، والیمین الفاجرۃ والاقوال الکاذبۃ والزنا و سد الطرق المسلمین وادعا الامامۃ بغیر حق‘‘
’’قطع رحمی کرنا،جھوٹی قسم کھانا،جھوٹی بات کرنا،زنا کرنا،مسلمانوں کے راستے بند کرنا، امامت کا جھوٹا دعوی کرنا، یہ وہ گنا ہیں جن کی وجہ سے عمریں گھٹ جاتی ہیں‘‘۔
(معانی الاخبار ص۲۷۱)
۲۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے منصور دوانیقی سے فرمایا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
’’جب کوئی انسان صلہ رحمی کرتا ہےتو اگر اس کی عمر تین سال باقی ہو تو اللہ اس کو تیس سال میں بدل دیتا ہے اور جب کوئی شخص قطع رحمی کرتا ہے اگراس کی عمر تیس سال باقی ہو تو اللہ اس کی عمر تین سال میں بدل دیتا ہے‘‘۔
جب امام نے یہ حدیث بیان کی تو اس نے کہا یہ نہایت عمدہ حدیث ہے لیکن میں اس موضوع کی اور حدیث سننا چاہتا تھا۔
۳۔تو امام علیہ السلام نے فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صلۃ الرحم تعمر الدیار وتزید فی الاعماروان کا اھلھا غیر اخیار‘‘
’’صلہ رحمی سے شہر آباد ہوتے ہیں اور عمریں بڑھتی ہیں اگرچہ صلہ رحمی کرنے والے نیکوکار نہ بھی ہوں۔‘‘
منصور نے کہا یہ حدیث بھی نہایت عمدہ ہے لیکن میں اس موضوع میں کوئی اور حدیث سننا چاہتا تھا۔
۴۔آپؑ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے
’’صلۃ الرحم تھون الحساب و تقی میتۃ السوء‘‘
’’صلہ رحمی آخرت کے حساب آسان بناتی ہےاور بری موت سے بچاتی ہے‘‘۔ منصور نے کہا میں یہی حدیث سننا چاہتاتھا۔
(سفینۃ البحار ج۱، ص۲۱۴)
۵۔امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
’’صلہ رحمی سے عبادت میں پاکیزگی ہوتی ہے۔ اموال کی نشونما ہوتی ہے،بلائیں دور ہوتی ہیں،حساب آخرت میں آسانی پید اہوتی ہے اورعمریں بڑھ جاتی ہیں‘‘۔
۶۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے:
’’اوصی الشاھد من امتی والغائب ومن فی اصلاب الرجال ارحام النساء الی یوم القیامۃ،ان یصل الرحم وان کانت منہ علی مسیرۃ سنۃ فان ذلک من الدین‘‘
’’میں اپنی امت کے موجودہ اور غائب بلکہ جو قیامت تک باپوں کے صلب اور ماوں کے رحم میں ہیں اس سب کو صلہ رحمی کی سفارش کرتا ہوں اگرچہ رشتہ دار ایک سال کی مسافت پر بھی کیوں نہ رہتا ہو۔صلہ رحمی دین کا حصہ ہے‘‘۔
امام وقت سے قطع رحمی کا نتیجہ
ہارون نے جعفربن محمدبن اشعث کو اپنے بیٹے امین کا تالیق مقرر کیا تو ہاروں کے وزیر یحیی بن خالد بر مکی کو حسد ہوا کہ اگر ہارون کے بعد خلافت امین کو ملی تو مجھے لازمی برطرف کرکے جعفر بن محمد بن اشعث کووزیر بنا دیا جائے گا چناچہ یحیی بن خالد نے جعفر سے راہ و رسم بڑھائی تاکہ اس کے راز جان کرہارون کو اس کے خلاف لگائی بجھائی کرسکے اور ہارون کو اس سے بد گمان کردے۔
جب اسے معلوم ہوا کہ یہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا شیعہ ہے اور ان کی امامت کا قائل ہے تو اس نے ہارون کو جا کر یہ بات بتا دی۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حالات کا پتا چلانے کے لیے یحیی نےاپنے بھروسے کےآدمی سے کہا کیا تم آل ابی طالب کے کسی ایسے فرد کو جانتے ہو جو تنگدست ہو اور مجھے اطلاعات فراہم کرے جو میں چاہتا ہوں۔ اس آدمی نے یحیی سے کہا کہ علی بن اسماعیل سے رابطہ کروجو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا بھتیجاہے۔ چناچہ یحیی نے اسے کچھ رقم بھیجی حالانکہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام بھی اس پر شفقت فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقاتاس کو اپنا ہم رازز بھی بنایا کرتے تھے۔
یحیی بن خالد برمکی نے اپنے آدمی سے کہا علی بن اسماعیل کو بغداد بھیج دو۔ اس وقت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے محسوس کیا کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے انہوں نے اپنے بھتیجے کو بلا کر پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ اس نےکہا بغداد جارہا ہوں۔ امام علیہ السلام نے کہا وہاں کیا کام ہے؟ اس نے کہا مقروض اور تنگدست ہوں شاید اللہ وہاں فضل کردے اور میرا قرض ادا ہوجائے۔ آپؑ نے فرمایا میں تمہارا قرض اد اکردوں گا اس کے علاوہ بھی جو کچھ ہوسکا کروں گا لیکن علی بن اسماعیل اپنےارادے پر قائم رہا اور آمادہ سفرہوا۔ امام نے دوبارہ اس سے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ اس نے جواب دیا اس کے سوا میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ تب امام علیہ السلام نے فرمایا:
’’ بھتیجے خیال رکھنا بغداد جاکر میری اولاد کو یتیم نہ کرنا۔‘‘
یہ تمہارے لیے انتہائی خطر ناک ثابت ہوگا۔ یہ کہہ کر آپ نے اسے تین سو دینار اور چار ہزار درہم دئیے۔ جب وہ رخصت ہوا تو آپ نے حاضرین مجلس سے کہا:
’’بخدا! یہ میرا خون بہانے کی کوشش میں کامیاب ہوجائے گا اور میرے بچے یتیم ہوجائیں گے‘‘۔
لوگوں نے کہا جب آپ کو یہ بات معلوم ہے تو آپ نے اتنی نوازش کیوں فرمائی؟ آپؑ نے فرمایا کہ ہمارے آبائے کرام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی ہے:
’’رشتہ داری جب ایک طرف سے کاٹ دی جاتی ہےتو اسے دوسری طرف سے جوڑا جائے پھر بھی اسے کاٹا جائے تو کاٹنے والا برباد ہوجاتا ہے‘‘۔
علی بن اسماعیل سیدھا وہاں سے نکل کر یحیی بن خالد کے پاس آیا ۔ یحیی نے اس سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے متعلق معلومات حاصل کیں اوراس سے کہیں بڑھا چڑھا کر ہارون کےکان بھرے پھر علی بن اسماعیل کو لے کر ہارون کے پاس آیا ۔ ہارون نےاس سے سوال کیا تو اس نے کہا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پاس ملک کے طول و عرض سے اموال آتے ہیں حال ہی میں انہوں نے مدینہ میں تیس ہزار دینار میں ایک کھیت خریدا ہے ادئیگی کے وقت کھیت کے مالک نے کہا کہ میں ان سکوں میں سےقیمت نہیں لوں گا مجھے فلاں سکوں میں ادائیگی کریں تو انہوں نے وہ سکے منگوائے اورادائیگی کی۔
یہ سن کر ہارون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قید کرنے کا حکم دیا اوربعد میں شہید کردیااس نے علی بن اسماعیل کو دو لاکھ درہم کا انعام دیا تاکہ وہ بغداد میں اپنے لیے گھر خرید سکے علی بن اسماعیل نے بغداد کے مشرق میں ایک گھر کو پسند کیا اوراس کے آدمی دو لاکھ درہم لینے ہارون کےگھر گئے۔ علی ان کی واپسی کے انتظار میں دن گنتا رہا۔ ایک دن اسے پیٹ میں پیچش کا مروڑ اٹھا۔ وہ بیت الخلاء میں گیا اورزور لگایا تو اس کی ساری آنتیں باہر نکل آئیں۔ وہ گر پڑا ۔ لوگوں نے ہر چندکوشش کی کہ آنتیں اندر واپس چلی جائیں مگر ممکن نہ ہوسکا وہ نزع کے عالم میں تھا کہ اس کے دو آدمی دو لاکھ درہم لے کر آئے اس نے کہا اب اس رقم کو لے کر کیا کروں گا میں تو مرر رہا ہوں۔ یہ کہا اورمر گیا۔
(الارشاد، بحار االانوار)
کتاب "محرمات اسلام "سے اقتباس

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button