اخلاق رذیلہاخلاقیاتمقالات قرآنی

غیبت اور طعنہ گوئی کے مفاسد

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ‘‘ (حجرات:12)
’’ اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان یقینا گناہ ہیں اور تجسس بھی نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم نفرت کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، اللہ یقینا بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے‘‘۔
تفسیر آیات
۱۔ اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ:سند اور دلیل کے بغیر کسی قسم کا موقف اختیار کرنا درست نہیں ہے۔ ظن و گمان کسی بھی موقف کی سند اور دلیل نہیں ہیں البتہ کسی ظن کو شریعت نے بطور دلیل تسلیم کیا ہے اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ جیسے دو عادل گواہ کی گواہی، ایک عادل کی روایت، فقیہ جامع الشرائط کا فتویٰ وغیرہ۔
رہے وہ ظن و گمان جو لوگوں کے کردار اور ان کے نجی معاملات سے مربوط ہیں تو ایسے ظن و گمان بعض اوقات حقیقت تک رسائی کا ذریعہ نہیں بنتے۔ لہٰذا ظن و گمان پر عمل کرنے سے اجتناب کرنے کا حکم ہے۔ کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ اس لیے فرمایا ہو گا کہ لوگوں کے درمیان بدگمانیاں زیادہ ہوا کرتی ہیں۔
مومن کے دوسرے کے بارے میں ظن و گمان کے دو اہم مواقع ہیں:
i۔ سوء ظن
ii۔ حسن ظن
ان دونوں میں سوء ظن یعنی بدگمانی سے اجتناب کرنے کا حکم ہے جب کہ حسن ظن کو اپنانے کا حکم ہے۔
سوء ظن: اپنے برادر مومن کے بارے میں بدگمانی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اسلام کی انسان ساز تعلیمات نے سختی سے بدگمانی سے منع فرمایا ہے۔ حدیث نبوی ہے:
’’اِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فِاِنَّہُ اَکْذَبُ الْحَدِیث‘‘
(مستدرک الوسائل ۹: ۱۴۷)
’’تم ظن سے بچا کرو کیونکہ یہ سب سے زیادہ جھوٹی بات کرنے والا ہے‘‘۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
’’مُجَالَسَۃُ الْاَشْرَارِ تُورِثُ سُوئَ الظَّنِّ بِالْاَخْیَارِ‘‘
(مستدرک الوسائل ۔ ۸:۳۲۸)
’’ برے لوگوں کی ہمنشینی اچھے لوگوں سے بدگمانی کا سبب بنتی ہے‘‘۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
’’اِذَا اتَّہَمَ الْمُؤْمِنُ اَخَاہُ انْمَاثَ الْاِیمَانُ مِنْ قَلْبِہِ کَمَا یَنْمَاثُ الْمِلْحُ فِی الْمَائِ‘‘
(الکافی۔ ۲: ۳۶۲)
’’جب مومن اپنے برادر مومن پر بدگمانی کر کے تہمت لگاتا ہے تو ایمان اس کے دل میں اس طرح پگھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں پگلھلتا ہے‘‘۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
’’ضَعْ اَمْرَ اَخِیکَ عَلَی اَحْسَنَۃِ حَتَّی یَاتِیَکَ مَا یَغْلِبُکَ مَنْہُ وَ لَا تُظُنَّنَّ بِکَلِمَۃٍ خَرَجَتْ مِنْ اَخِیکَ سُوء اً وَ اَنْتَ تَجِدُ لَھَا فِی الْخَیْرِ مَحْمِلًا‘‘
(الکافی۔ ۲؍۳۱۲)
’’اپنے بھائی کے معاملے کو بہتر صورت پر حمل کرو اس بہتری کے خلاف دلیل آنے تک۔ اپنے بھائی کے منہ سے نکلے ہوئے جملے کے بارے میں اس وقت تک بدگمانی نہ کرو جب تک اس کے لیے بہتر صورت پر محمول کرنا ممکن ہو‘‘۔
اپنے برادر مومن کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھنا اسلامی تعلیمات میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ دوسروں کے بارے میں حسن ظن رکھنا اپنے باطن کی پاکیزگی کی علامت ہے۔ حسن ظن، اچھی سوچ اور اچھی خصلت کا مالک ہونے کی علامت ہے۔ حدیث نبوی ہے:
’’اَحْسِنُوا ظُنُونَکُمْ بِاِخْوَانِکُمْ تَغْتَنِمُوا بِھَا صَفَائَ الْقَلْبِ وَ نَمَائَ الطَّبْعِ‘‘
( مستدرک الوسائل ۹: ۱۴۵)
’’اپنے بھائیوں کے بارے میں حسن ظن رکھو تو دلوں کی صفائی اور طبیعت میں نمو آ جاتی ہے‘‘۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
’’حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ اَفْضَلِ السَّجَایَا وَ اَجْزَلِ العَطَایَا‘‘
(مستدرک الوسائل ۱۱: ۲۵۲)
’’حسن ظن افضل ترین خصلت ہے اور وافر ترین عنایت ہے‘‘۔
۲۔ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ:
بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ یعنی بدگمانی پر اثرات مترتب کرنا اور اس بدگمانی کی بنیاد پر کسی مومن پر الزام عائد کرنا گناہ ہے۔ مثلاً ایک شخص آپ کے جانی دشمن کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کر رہا ہے۔ اس پر یہ گمان کرنا گناہ ہے کہ وہ آپ کے خلاف باتیں سن رہا ہے۔
۳۔ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا:
اور دوسروں کے راز جاننے کی کوشش نہ کرو۔ دوسروں کے عیوب جاننے اور ان کے نجی معاملات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی شرعاً ممانعت ہے۔ انسان کے نجی معاملات پر جب پردہ پڑا ہوا ہے، اس پردے کو چاک کرنے کی کوشش جرم ہے کیونکہ اس تجسس سے لوگوں کا راز فاش اور وقار مجروح ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ستار العیوب ہے۔ اپنے بندوں کو بھی یہ حکم دیتا ہے کہ لوگوں کی پردہ پوشی کرو، راز فاش نہ کرو اور لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت نہ کرو۔
البتہ اگر کوئی راز کسی شخص یا ایک خاندان کے نجی معاملے سے مخصوص نہ ہو بلکہ اس کا تعلق پورے معاشرے یا اسلامی ریاست کے لیے خطرے سے مربوط ہو تو اس صورت میں دشمنوں کے عزائم کا تجسس لازمی ہے۔
لوگوں کے نجی راز ٹٹولنے کے ناجائز اور حرام ہونے پر اس آیت کے ساتھ احادیث بھی کثرت سے موجود ہیں۔ حدیث نبوی ہے:
’’مَنِ اطَّلَعَ فِی بَیْتِ جَارِہِ فَنَظَرَ اِلَی عَوْرَۃِ رَجُلٍ اَوْ شَعْرِ امْرَأَۃِ اَوْ شَیْئٍ مِنْ جَسَدِھَا کَانَ حَقِیقاً عَلَی اللہِ اَنْ یُدْخِلَہُ النَّارَ مَعَ الْمُنَافِقِینَ الَّذِینَ کَانُوا یَبْحَثُونَ عَوْرَاتِ الْمُسْلِمِینَ فِی الدُّنْیَا‘‘
(مستدرک الوسائل ۱۴: ۲۱۸)
’’کوئی اگر اپنے ہمسایہ کے گھر جھانکتا ہے اور کسی مرد کے راز یا عورت کے بالوں یا اس کے جسم کے کسی حصے پر نظر پڑتی ہے تو اللہ اسے جہنم میں داخل کر سکتا ہے ان منافقوں کے ساتھ جو دنیا میں مسلمانوں کے راز ٹٹولتے تھے‘‘۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
’’من تتبع عورات الناس کشف اللہ عورتہ‘‘
(غرر الحکم حکمت:۹۶۵۷)
’’جو شخص لوگوں کے راز ٹٹولتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا راز فاش کرے گا‘‘۔
۴۔ وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا:
’’تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے‘‘۔ حدیث نبوی میں غیبت کی یہ تعریف آئی ہے:
’’ھل تدرون ما الغیبۃ فقالوا اللہ و رسولہ اعلم۔ قال ذکرک اخاک بما یکرہ‘‘
(بحار ۷۲: ۲۲۲)
’’کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ایسی باتوں کے ساتھ ذکر کرے جو اسے ناگوار گزریں‘‘۔
یعنی غیبت یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے مومن بھائی کے کسی ایسے راز کو فاش کرے یا عیب کا ذکر کرے جس کا ذکر کرنا اسے پسند نہیں ہے۔
غیبت سے انسان کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ ہر شخص کی زندگی میں ناہمواریاں پیش آتی ہیں۔ ان ناہمواریوں میں لغزشیں سرزد ہوتی ہیں جن سے دوسرے لوگ واقف نہیں ہوتے صرف اپنا مہربان رب واقف ہے۔ رب کی مہربانی ہے کہ وہ خود ستار العیوب ہے، اپنے بندوں سے بھی فرمایا ہے کہ وہ بھی دوسروں کے عیوب فاش نہ کریں۔
مروی ہے کہ حضرت ابوذرؓ نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! غیبت کیا ہے؟ فرمایا:
’’ذکرک اخاک بما یکرہہ۔ قلت یا رسول اللہ فان کان فیہ ذاک الذی یذکر بہ۔ قال اعلم اذا ذکرتہ بما ھو فیہ فقد اغتبتہ، و اذا ذکرتہ بما لیس فیہ فقد بھتہ‘‘
(الامالی للطوسی ص ۵۳۷)
’’ غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ایسی بات کے ساتھ ذکر کرے جو اس کو ناگوار گزرے۔ عرض کیا: اگر وہ بات اس میں موجود ہو تو بھی؟ فرمایا اگر وہ بات موجود ہو تو یہ غیبت ہے اگر وہ بات اس میں موجود نہیں ہے تو یہ بہتان ہے‘‘۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ
’’ جو عیب و نقص انسان میں موجود ہے اس کا ذکر کرنا غیبت ہے۔ اگر وہ نقص یا گناہ جو اس سے سرزد ہوا ہے وہ دوسروں کو معلوم نہیں ہے آپ نے بیان کیا ہے تو آپ نے اس کا راز فاش کیاے جس سے اس کا وقار مجروح ہوا۔ اگر وہ نقص ایسا ہے جو راز نہیں ہے جیسے لنگڑا، اندھا، بہرا ہے تو ان عیوب کا ذکر اس مومن کی توہین اور تذلیل ہے‘‘۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ حدیث روایت ہے:
’’لِلّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ فِی بِلَادِہِ خَمْسُ حُرِمٍ حُرْمَۃُ رَسُولِ اللہِؐ وَ حُرْمَۃُ آلِ رَسُولِ اللہِؐ وَ حُرْمَۃُ کِتَابِ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ حُرْمَۃُ کَعْبَۃِ اللہِ وَ حُرْمَۃُ الْمُؤْمِنِ‘‘
(الکافی ۸: ۱۰۷)
’’اللہ کے لیے زمین میں پانچ حرمتیں ہیں: رسول اللہؐ کی حرمت، آل رسول کی حرمت، کتاب اللہ کی حرمت، کعبہ کی حرمت اور مومن کی حرمت‘‘۔
حدیث نبوی ہے:
’’الْمُؤْمِنُ حَرَامٌ کُلُّہُ عِرْضُہُ وَ مَالُہُ وَ دَمُہُ‘‘
(مستدرک الوسائل ۹: ۱۳۶)
’’مومن کو پوری حرمت حاصل ہے اس کے آبرو، مال اور خون سب کو حرمت حاصل ہے‘‘۔
۵۔ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا:
غیبت اس حد تک گناہ کبیرہ اور اہانت مومن ہے جس طرح اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ اس میں دو باتیں مشترک ہیں:
مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا اس فوت شدہ شخص کی انتہائی اہانت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مردہ اپنا دفاع اور صفائی پیش نہیں کر سکتا ہے۔ اسی طرح وہ غائب شخص جس کی غیبت ہو رہی ہے وہ بھی اپنی صفائی پیش نہیں کر سکتا۔
۶۔ فَکَرِہۡتُمُوۡہُ:
مردے کا گوشت کھانے سے تو تم نفرت کرتے ہو چونکہ یہ بات تمہارے محسوسات میں ہے لیکن انسانی قدروں کو تم محسوس نہیں کرتے اور قدروں کی پامالی سے نفرت نہیں کرتے۔
درج ذیل مقامات پر غیبت حرام نہیں ہے:
i۔ ایک شخص علی الاعلان فسق و فجور کرتا ہے۔ لہٰذا جو شخص خود سے فاش ہے اس کی حرمت نہیں ہوتی۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
’’اِذَا جَاھَرَ الْفَاسِقُ بِفِسْقِہِ فَلَا حُرْمَۃَ لَہُ وَ لَا غِیْبَۃَ‘‘
(وسائل الشیعۃ ۱۲: ۲۸۹)
’’جب فاسق اپنے فسق کا کھلے بندوں ارتکاب کرے تو نہ تو اس کی حرمت ہے، نہ اس کی غیبت کرنا حرام ہے‘‘۔
ii۔ ظالم: مظلوم کے لیے جائز ہے کہ اپنی مظلومیت کو بیان کرتے ہوئے ظالم کی برائی کرے۔
’’ لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ‘‘
(نساء: ۱۴۸)
’’اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو‘‘۔
iii۔ مشورہ: مثلاً اگر کوئی رشتہ دینے یا لینے یا کسی اور معاملے میں آپ سے مشورہ طلب کرے تو اس صورت میں ان عیوب و نقائص کا ذکر جائز ہے تاکہ وہ دھوکے میں نہ پڑے۔
حدیث میں ہے:
’’المستشار مُوتَمَنٌ‘‘
(وسائل الشیعہ ۱۲: ۴۳)
’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے‘‘۔
iv۔ گواہی میں جرح کا حق ہے کہ گواہ کے عادل نہ ہونے پر عدالت کے منافی امور کا ذکر جائز ہے تاکہ حقوق ضائع نہ ہو جائیں۔
v۔ راوی پر جرح کرتے ہوئے اس کے ثقہ نہ ہونے پر دلیل دینے کے لیے ثقہ ہونے کے منافی امور کا ذکر جائز ہے تاکہ احکام و حدود معطل نہ ہوں۔
غیبت گناہ کبیرہ: حضرت ابوذرؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’یَا اَبَا ذَرٍّ اَیَّاکَ وَ الْغِیبَۃَ فِاِنَّ الْغِیْبَۃَ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَا۔ قُلْتُ: وَ لِمَ ذَاکَ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: لِاَنَّ الرَّجُلَ یَزْنِی فَیَتُوبُ اِلَی اللہِ فَیَتُوبُ اللہُ عَلَیْہِ وَ الْغِیبَۃُ لَا تُغْفَرُ حَتّٰی یَغْفِرَھَا صَاحِبُھَا‘‘
(الوسائل الشیعۃ۱۲: ۲۸۰)
’’اے ابوذر! غیبت سے بچو چونکہ غیبت زنا سے بدتر ہے۔ میں نے عرض کیا: وہ کیسے یا رسول اللہ؟ فرمایا: آدمی زنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے۔ اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور غیبت کی بخشش نہیں ہے جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی غیبت ہوئی ہے‘‘۔
اہم نکات
۱۔ مومن کی عزت و آبرو کو وہی تحفظ حاصل ہے جو کعبۃ اللہ کو ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 335)
’’وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ‘‘
’’ ہر طعنہ دینے والے عیب گو کے لیے ہلاکت ہے‘‘۔
تشریح کلمات
ہُمَزَۃٍ:( ھ م ز ) طعنہ دینے والا۔
لُّمَزَۃِ:( ل م ز ) عیب گوئی کرنے والا۔
تفسیر آیات
۱۔ وَیۡلٌ: ہلاکت میں ہے وہ شخص جو احترام آدمیت کی قدروں کو پامال کرتا ہے۔ انسان کی عزت و کرامت پامال اور اس کا وقار مجروح کرنا اسلامی تعلیمات میں گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ نے انسان کو عزت و تکریم سے نوازا ہے۔ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دوسروں کی عزت و وقار سے کھیلے۔
دوسروں کو طعنہ دینا اور عیب گوئی کرنا کسی کے وقار کو مجروح کرنا عند اللہ بڑا جرم ہے۔
۲۔ الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا: اس جرم کا ارتکاب وہ لوگ کرتے ہیں جو مالی اعتبار سے خوشحال ہیں۔ وہ لوگ جو مادی قدروں کو انسانی قدروں پر مقدم سمجھتے ہیں، جن کے پاس مال ہے اسے عزیز اور جن کے پاس مال نہیں ہے اسے حقیر سمجھتے اور طعنہ دیتے ہیں اور اس کی عیب جوئی اور عیب گوئی کرتے ہیں جو خود اس طعنہ زن اور عیب گو شخص کا بڑا عیب ہے۔
یہ طعنہ گو شخص مال جمع کرنے اور اسے شمار کر کے لذت حاصل کرنے میں محو ہوتا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 285)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button