اخلاق رذیلہاخلاقیات

چُغل خوری

وہ گناہ جس کا کبیرہ ہونا قرآن اور حدیث میں کیے ہوئے عذاب کے وعدے سے ثابت ہوتا ہے چغل خوری ہے۔ چنانچہ شہید ثانی "کشف الریبہ” میں اور شیخ انصاری "مکاسب محرمہ” میں اس کے کبیرہ ہونے کی صراحت کرتے ہیں اور انہوں نے قرآن مجید کی کئی آیتیں بھی بطور دلیل پیش کی ہیں۔ مثلاً خداوند عالم سورہ رعد آیت ۲۵ میں فرماتا ہے: "اور جو لوگ اس کو جدا کرتے ہیں جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے اور زمین میں خرابی پھیلاتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے خدا کی رحمت سے دُوری اور آخرت کی بُرائی یعنی آخرت کا عذاب ہے۔
ظاہر ہے کہ چغل خور جو ایک شخص سے کسی کے بارے میں کوئی بات سن کر اس کے سامنے جا کر اسے سنا دیتا ہے اور خدا نے جس کے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے الگ کر دیتا ہے اور زمین میں خرابی پھیلاتا ہے کیونکہ بجائے اس کے کہ مومنوں میں باہمی محبت پیدا کرے اور ان کے اتفاق اور اتحاد کو پکا کرے ان میں تفرقہ اور جدائی دشمنی ڈالتا ہے پس اس پر خدا کی لعنت اور آخرت کا عذاب ہو گا۔سورہ بقرہ میں فرمایا گیا ہے: "فتنہ قتل سے بھی زیادہ شدید ہے۔” اور ایک اور آیت کے مطابق زیادہ بڑا گناہ ہے اور ظاہر ہے کہ چغل خور اپنی چغل خوری سے فتنوں کی آگ بھڑکاتا ہے۔
سورہ نون میں کفار کی صفات کے سلسلے میں جو جہنم کی آگ میں ڈالے جانے کے مستحق ہیں خداوندعالم فرماتا ہے: "مشاءٍ بنمیم” سفر کرتے ہیں چغل خوری کے لیے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام جادو کی قسمیں بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "بلاشبہ جادو کی سب سے بڑی قسم چغل خوری ہے جس سے دوستوں میں جدائی ڈال دی جاتی ہے اور ان لوگوں میں صلح صفائی کی جگہ دشمنی پیدا کر دی جاتی ہے جو آپس میں ہم آہنگ اور ہم خیال تھے، چغل خوری کی وجہ سے خون بہائے جاتے ہیں، گھر برباد کیے جاتے ہیں اور پردے کھولے جاتے ہیں اور چغل خور زمین پر چلنے والے لوگوں میں بدترین لوگ ہوتے ہیں۔”
(الاحتجاج)
جادو کا کبیرہ ہونا پہلے ہی ثابت ہو چکا ہے اس لیے چغل خوری جو اس کی سب سے بڑی قسم ہے قطعی گناہ کبیرہ ہے۔
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "کیا میں تمہیں تم میں سے سب سے بدترین آدمیوں سے آگاہ نہ کروں؟” لوگوں نے کہا: "ضرور! اے پیغمبر گرامی۔” آنحضرت نے فرمایا: "جو چغل خوری کرتے، دوستوں میں تفرقہ ڈالتے اور پاک لوگوں کے عیب ڈھونڈتے ہیں۔”
(الکافی)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "بہشت ان جھوٹ بولنے والوں پر حرام ہے جو چغل خوری کرتے ہیں۔”
(الکافی)
رسول خداؐ سے روایت ہے: "جو دو انسانوں میں چغل خوری کے لیے سفر کرتا ہے خداوندعالم اس پر قبر میں آگ کو مسلط فرمائے گا، جو اسے جلا ڈالے گی اور جب وہ اپنی قبر سے نکلے گا تو اس پر ایک بڑے اور کالے سانپ کو مسلط کر دے گا، جو اس وقت تک اس کا گوشت کھاتا رہے گا جب تک وہ جہنم میں نہیں ہو جاتا۔”
(ثواب الاعمال و عقاب الاعمال)
آنحضرت نے یہ بھی فرمایا: "جب میں معراج کے لیے گیا تھا تو میں نے ایک عورت دیکھی تھی جس کا سر سور کا سا اور بدن خچر کا سا تھا اور اس پر ہزاروں قسم کی سختیاں ہو رہی تھیں۔”پھر آنحضرت سے پوچھا گیا: "اس عورت کا کام کیا تھا؟”آپ نے فرمایا: "چغل خوری اور جھوٹ بولنا۔”
(عیون الاخبار)
وسائل الشیعہ کی کتاب حج میں چغل خوری کے حرام ہونے سے متعلق بارہ حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور ان سب میں بتایا گیا ہے کہ چغل خور پر بہشت حرام ہے۔خداوندعالم سورہ ہمزہ میں فرماتا ہے کہ "ویل لکل ھمزة لمزة” ویل جہنم کے ایک درجے یا غار کا نام ہے یا اس کے معنی سخت عذاب کے ہیں اور ہمزہ کے معنی چغل خور کے ہیں۔ جیسا کہ شہید ثانی "کشف الریبہ” میں اس کی صراحت فرماتے ہیں اور بعض علماء نے بھی آیت "ھماز مشاء بنمیم عتل بعد ذلک زنیم"کے معنی اپنے آپ سے وابستہ یعنی حرام زادہ کیے ہیں کہ جس کے باپ کا پتا نہیں ہے اور وہ اسے زبردستی اپنے آپ سے وابستہ کرتا ہے۔ یہ دوسروں کا راز پوشیدہ رکھنے والے اور چغل خور کے لیے ہے۔
چغل خور کی وجہ سے بارش نہیں ہوتی
بنی اسرائیل میں قحط پڑا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے بارش کی دعا کی۔ وحی آئی کہ میں تمہاری اور ان لوگوں کی جو تمہارے ساتھ ہیں دعا قبول نہیں کروں گا کیونکہ تم میں سے ایک ایسا چغل خور شخص موجود ہے جو چغل خوری سے باز نہیں آتا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: "اے خدا! وہ شخص کون ہے؟ تاکہ ہم اسے اپنی جماعت سے نکال دیں۔”
خداوندعالم نے فرمایا: "میں خود تمہیں چغل خوری سے منع کرتا ہوں، پھر دوسرے کا راز میں کیوں کر کھولوں۔”
اس پر ان سب نے مل کر توبہ کی اور اس چغل خور نے بھی ان سب کے ساتھ توبہ کی۔ اس کے بعد ان کے لیے پانی برسا۔
(وسائل الشیعہ کتاب الحج)
چغل خوری کے معنی
شیخ انصاری  نے مکاسب میں فرمایا ہے کہ چغل خوری قرآن، سنت، اجماع اور عقل کی رو سے حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور ایسی بات بیان کرنا ہے جو کسی نے کسی شخص کے بارے میں کہی ہو۔ چنانچہ سُننے والا اس شخص کو خبر دیتا ہے اور اس کے سامنے وہ بات دُہراتا ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تک بات کرنے والا اس بات پر رضا مند نہ ہو کہ اس کی بات دوسرے شخص تک پہنچائی جائے ایسا کرنا چغل خوری کے علاوہ غیبت بھی ہے اور اس کا کرنے والا سزا کا بھی مستحق ہے اور جس قدر چغل خوری کا فساد زیاد ہ ہو گا اس کی سزا بھی زیادہ ہی ہو گی۔
شہید ثانی  کشف الریبہ میں فرماتے ہیں: "چغل خوری ایسے بھید کا کھول ڈالنا ہے جس کا کھلنا بات کرنے والے کے نزدیک بُرا ہے یا اس شخص کے نزدیک بُرا ہے جس کے بارے میں وہ بات کہی گئی ہے اور جس سے بیان کی جاتی ہے یا تیسرے شخص کی نظر میں بُرا ہے چاہے یہ انکشاف زبانی ہو یا تحریری ہو یا اشارے کنارے سے ہو یا عمل سے ہو یا عیب اور بُرائی کی بات ہو یا نہ ہو کیونکہ درحقیقت چغل خوری چھپے ہوئے بھید کا انکشاف اور چھپی ہوئی باتوں کی توہین ہے جن کے ظاہر ہو جانے سے دو بڑے نتیجے برآمد ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کو جو حال نظر آتا ہے مناسب یہ ہے کہ اس میں سے اتنا ہی بیان کیا جائے جتنا کسی مسلمان کے حق میں مفید ہو یا جس سے گناہ دُور ہو۔ چنانچہ اگر یہ دیکھے کہ کسی نے دوسرے کا مال اڑا لیا اور اس سے گواہی طلب کی جائے تو اسے چھپانا نہیں چاہیئے اور اگر یہ دیکھے کہ کسی نے اپنا مال کسی جگہ چھپا دیا تو دوسرے شخص سے اس کا بیان چغل خوری اور بھید کھول دینا ہے اور اگر اس کے بیان سے بھید والے کا کوئی نقص یا عیب بھی سامنے آ جاتا ہے تو پھر یہ غیبت بھی ہو جاتی ہے۔”آپ  یہ بھی فرماتے ہیں کہ چغل خوری کے کئی اسباب ہوتے ہیں:
اوّل: اس شخص سے بُرائی کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کی نیّت جس کی بات دُہرائی جاتی ہے۔
دوم: اس شخص سے دوستی اور اپنی خیر خواہی ظاہر کرنا جس سے یہ بات کہی جاتی ہے۔
سوم: خوش مزاجی ظاہر کرنا اور زیادہ باتیں بنانا۔
اس کے بعد اس شخص کے جس سے چغل خوری کی جاتی ہے چھ فرائض ہوتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص تم سے یہ کہے کہ فلاں شخص نے تمہارے متعلق ایسا ایسا کیا ہے یہ وہ تمہارا کام بگاڑنے اور حالت تباہ کرنے کے در پے ہے تو تم پر اس کے مقابلے میں چھ چیزں لازم ہیں:
اوّل: یہ کہ اس کی بات کا یقین ہی نہ کرو اور اس کی بات ہی نہ مانو کیونکہ چغل خور گناہگار ہوتا ہے اور خدا فرماتا ہے کہ اگر کوئی گناہگار تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم اسے نہ مانو بلکہ اِدھر اُدھر سے اس کی جانچ پڑتال کرو۔
دوم: اسے چغل خوری سے منع کرو اور نصیحت کرو اور اس کے کام کو بُرا سمجھو کیونکہ خدا فرماتا ہے امر بہ معروف اور نہی از منکر کرو۔
سوم: خدا کے لیے اس کی گفتگو کی وجہ سے اسے دشمن سمجھو کیونکہ خدا چغل خور کو دشمن سمجھتا ہے اور خدا کے دشمن سے دشمنی رکھنا واجب ہے۔
چہارم: چغل خور کے کہنے کی وجہ سے اسے اپنے دینی بھائی سے بدگمانی نہ کرو کیونکہ خدا فرماتا ہے کہ بہت سے شکوک سے بچو۔ دراصل بعض شکوک وخیالات گناہ ہوتے ہیں۔ اجتنبوا کثیراً من الظن ان بعض الظن اثم
پنجم: اس کی بات پر تحقیق اور جستجو شروع نہ کرو کیونکہ خدا فرماتا ہے: "ولا تجسسوا"یعنی شبہے کی وجہ سے جستجو نہ کرو بلکہ اسے ایسا جانو جیسے سنا ہی نہیں۔
ششم: چغل خور کا کام اپنے لیے اچھا نہ سمجھو یعنی اسے اختیار نہ کرو اور اس کی گفتگو دوسرے سے بیان نہ کرو کہ اس سے تم بھی کہیں چغل خور اور غیبت کرنے والے نہ بن جاؤ۔
کتاب کشف الریبہ میں لکھا ہے کہ کسی عالم کا کوئی دوست تھا جو ایک دن اس سے ملنے آیا اور اس نے گفتگو کے دوران میں اس سے ایک ایسی بات بھی بیان کر دی جو کسی دوسرے نے اس عالم کے لیے کہی تھی۔ اس پر اس عالم نے کہا: "تم ایک مدت کے بعد مجھ سے ملنے آئے تو تین خیانتیں بھی ساتھ لیتے آئے۔ ایک یہ کہ تم نے میرے اور اس شخص کے درمیان میں دشمنی پیدا کر دی۔ دوسرے یہ کہ میرے بے فکر اور آزاد دل کو اس کی باتوں میں میں الجھا دیا۔ اس کے علاوہ تیسرے یہ کہ تم اپنے آپ کو میرے نزدیک خیانت کا مرتکب بنا دیا۔”
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص دوسرے کی باتیں تم سے لگاتا ہے وہ تمہاری باتیں بھی دوسرے سے لگائے گا۔ اس لیے اس کا اعتبار مت کرو۔
"جس نے دوسروں کے عیب تمہارے سامنے گن ڈالے وہ یقینا تمہارے عیب بھی دوسروں سے جا کر بیان کرے گا۔اس سے تو سخت پرہیز کرنا چاہیئے۔ اس کے بعد حکایت بیان فرمائے ہیں:
ایک شخص غلام بیچ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اس میں کوئی عیب نہیں ہے بجز اس کے کہ یہ چغل خور ہے گاہک کہنے لگا: "کوئی بات نہیں۔” اور اس نے اسے مول لے لیا۔ غلام نے مالک کی بیوی سے کہا: "آقا تمہیں پسندنہیں کرتے وہ ایک لونڈی خریدنا چاہتے ہیں۔ جب وہ سو جائیں تو تلوار لے کر ان کے گلے کے نیچے کے چند بال کاٹ کر مجھے دے دینا تاکہ میں جادو کروں جس سے وہ تم پر عاشق ہو جائیں۔” ادھر خواجہ سے اس نے کہا کہ یہ عورت کسی اور پر عاشق ہے اور آپ کو قتل کرنا چاہتی ہے۔ ذرا اپنے کو سوتے میں ڈال کر دیکھئے تو کہ یہ آپ کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔شوہر سوتا بن گیا۔ اس نے دیکھا کہ بیوی تلوار ہاتھ میں لیے آئی۔ جب قریب پہنچی تو اس نے اس کی ڈاڑھی پکڑ لی۔ شوہر کو یقین آ گیا کہ وہ اس مار ڈالے گی اس لیے وہ کود کر الگ جا کھڑا ہوا اور اس نے اسی تلوار سے اپنی بیوی کو قتل کر ڈالا۔ بیوی کے رشتے دار آئے اور انہوں نے شوہر کو مار ڈالا اور شوہر کے رشتے دار آ گئے ان میں لڑائی چھڑ گئی اور بہت خون خرابا ہو۔
(اقتباس از: گناہان کبیرہ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button