خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:306)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 06 جون 2025 بمطابق 09 ذی الحجہ 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: یوم عرفہ/فلسفہء قربانی
یوم عرفہ کی اہمیت:
آج 9 ذی الحجہ کا دن ہے جسے یوم عرفہ کہتے ہیں ۔ یہ ایک بافضیلت ترین دن ہے اور بہت بڑی عید کا دن ہے۔ فقہ جعفریہ کے مطابق حاجیوں کیلئے اس دن ظہر سے لے کر مغرب تک عرفات میں ٹھہرنا(وقوف) ضروری ہے۔ عرفہ کا دن مسلمانوں کے ہاں بافضیلت ترین دنوں میں سے ایک ہے۔ احادیث میں اس دن کے حوالے سے مختلف اعمال ذکر ہوئے ہیں جن میں سے افضل ترین عمل دعا اور استغفار کرنا ہے۔ اس دن امام حسینؑ کی زیارت بھی مستحب موکد ہے۔ اس کے علاوہ دعائے عرفہ بھی اس دن کے مستحب اعمال میں شامل ہے جس پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
"عرفہ” کا مطلب کسی چیز کے آثار میں تفکر اور تدبر کے ساتھ اس کی شناخت اور ادراک کرنا ہے۔ عرفہ اور عرفات کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ دن اور جگہ ایسی ہے جہاں پروردگار کے حضور اپنے گناہوں کے اعتراف کا موقع ملتا ہے ۔ اسلام بندوں کے سامنے گناہ کے اعتراف کی اجازت نہیں دیتا، لیکن خدا کے حضور، اپنی خطاؤں اور گناہوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور توبہ کرنی چاہیے۔
اس دن کی سب سے مشہور دعا دعائے عرفہ امام حسین علیہ السلام ہے ۔ یہ ماثور اور معتبر دعاؤں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ دعا دینی تعلیمات کوسموئے ہوئے ہے۔ یہ اعلیٰ ترین عرفانی اور اعتقادی کلمات پر مشتمل ہے۔ اس دعا کا انداز والہانہ اور عاشقانہ ہے۔ یہ عاشقانہ کلام ہے۔ اس دعا میں معرفت ، حقیقی محبت، خوف الٰہی، شکرگزاری اور عیبوں کی پردہ داری جیسے موضوعات شامل ہیں ۔
روز عرفہ کے بہت زیادہ مستحب اعمال احادیث میں وارد ہوئے ہیں جن میں سے بعض یوں ہیں:
• احادیث کے مطابق دعا اور استغفار روز عرفہ کے بافضیلت ترین اعمال میں سے ہے۔ دعاوں میں دعائے عرفہ کے پڑھنے کی بہت سفارش ہوئی ہے۔
• غسل۔ کرنا۔
• زیارت امام حسینؑ۔
• صدقہ دینا۔
• روزہ رکھنا۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی شخص عرفہ کے دن کھلے آسمان تلے دو رکعت نماز ادا کرے اور اس کے بعد اپنی تمام خطاؤں اور گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے وہی عطا فرمائے گا جو کچھ اہل عرفات کے لیے مقدر فرمایا ہے اور اس کے تمام گناہ بھی بخش دے گا۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے روز عرفہ ایک سائل کو غیر خدا سے سوال کرتے سنا تو فرمایا: افسوس ہے تجھ پر کہ آج کے دن بھی تو غیر خدا سے سوال کر رہا ہے، حالانکہ آج تو یہ امید ہے کہ ماؤں کے پیٹ کے بچے بھی خدا کے لطف و کرم سے مالامال ہو کر سعید و خوش بخت ہو جائیں۔
عرفہ کے دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی کربلا میں زیارت کی روایات میں بہت تاکید ملتی ہے۔ اس دن حضرت کی زیارت کرنا عرش پر خداوند متعال کی زیارت کرنے کے برابر ہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ خداوند متعال عرفہ کے دن اہل عرفات پر عنایت فرمانے سے پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کے زائروں پر تجلی فرماتے ہوئے ان کی حاجات پوری کر دیتا ہے اور ان کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
یوم عرفہ کو حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی شہادت کا دن بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ مسلم بن عقیل امام حسین علیہ السلام کے سفیر کے عنوان سے کوفہ گئے تھے اور عرفہ کے دن 60 ہجری کو عبید اللہ ابن زیاد کے حکم سے شہید ہوئے۔
تاریخی مناسبت
امام حسین علیہ السلام کا حج کے موقع پر مکہ چھوڑنا:
امام حسین علیہ السلام دین اسلام کو بچانے کی خاطر 28 رجب کو مدینہ سے روانہ ہوئے اور 3 شعبان کو مکہ پہنچے۔ آپ مکہ میں 3 شعبان سے 8 ذی الحجہ تک، یعنی چار مہینے سے زیادہ قیام پذیر رہے۔ یزیدیت کو آپ کا مکہ میں قیام ناگوار تھا۔ یزید کی جانب سے عمرو بن سعید بن العاص (جو عمرو بن عاص کے نام سے مشہور تھا) کو مکہ بھیجا گیا تاکہ وہ امام حسین علیہ السلام سے بیعت لے یا

آپ سے لڑے۔ وہ 8 ذی الحجہ یعنی یوم ترویہ کو مکہ پہنچا۔
ذرائع کے مطابق، امام حسین علیہ السلام نے 8 ذی الحجہ کو مکہ چھوڑ دیا ۔ یہ بات مشہور ہے کہ امام نے درمیان حج مکہ کو ترک کر دیا اور حج پورا نہیں کیا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے 8 ذی الحجہ کو مکہ چھوڑا، جو یوم الترویہ ہے ۔ حج کے اعمال جو مکہ میں احرام کے ساتھ اور عرفات میں وقوف کے ساتھ شروع ہوتے ہیں، ان کا آغاز 9 ذی الحجہ کی شب سے ہوتا ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ امام علیہ السلام حج میں وارد ہی نہیں ہوئے تھے کہ یہ کہا جائے کہ آپ نے درمیان حج مکہ ترک کر دیا اور حج کو ادھورا چھوڑ کر چلے گئے ۔امام علیہ السلام نے حج تمتع کا احرام باندھ رکھا تھا، جسے آپ نے عمرہ مفردہ میں تبدیل کر لیا ۔ آپ نے طواف کیا، نماز طواف ادا کی، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی اور تقصیر فرمائی (سر کے کچھ بال کٹوائے) ۔ اس طرح، آپ نے حج تمتع کو عمرہ مفردہ میں بدل دیا اور کوفہ کی جانب روانہ ہو گئے۔
امام حسین علیہ السلام کے مکہ چھوڑنے کے اصل محرکات:
حرمت کعبہ کی پاسداری: امام علیہ السلام کو مکہ اور اللہ کے حرم امن کے تقدس کی فکر تھی۔ آپ جانتے تھے کہ یزید کے دشمنانِ خدا، اللہ کے حرم کے لیے حرمت کے قائل نہیں ہیں۔ آپ واضح لفظوں میں بیان کرتے تھے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ حرم امن الٰہی میں ان کا خون بہے اور خانہ خدا کی حرمت پامال ہو۔
جان کا خطرہ اور حرم کی بے حرمتی کا خوف: امام علیہ السلام کو خوف تھا کہ یزید انہیں حرم میں ہی قتل نہ کر دے اور ان کی وجہ سے کعبہ کی حرمت پامال نہ ہو جائے۔ آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو فرمایا کہ انہیں خوف ہے کہ یزید انہیں حرم میں ہی قتل کر دے اور ان کی وجہ سے اس گھر کی حرمت پامال نہ ہو جائے۔ آپ نے محمد بن حنفیہ کے جواب میں صراحت کے ساتھ بیان کیا کہ یزید حرم الٰہی میں آپ کے قتل کا ارادہ رکھتا ہے۔ آپ کا یہ کہنا تھا کہ ان لوگوں (یزیدیوں) کے نزدیک حرم کی کوئی حرمت نہیں ہے۔ بعد میں جب عبداللہ بن زبیر نے بنو امیہ کے خلاف قیام کیا اور بنو امیہ نے کعبہ کو منجنیقوں کا نشانہ بنایا اور بیت اللہ کی حرمت پامال کیا، تو سب کو معلوم ہوا کہ امام حسین علیہ السلام مستقبل کو کتنا واضح دیکھ رہے تھے۔
پس امام کو قتل ہونے کا خوف نہیں تھا بلکہ حرم خدا کے اندر قتل ہونے کا خوف تھا کیونکہ اس طرح ہوجاتا تو ایک طرف کعبہ کی حرمت پامال ہوجاتی اور دوسرا آپ کے اصل قاتلوں کے بارے بھی کسی کو پتا نہ چلتا ہوں یزید کے خریدے ہوئے قاتل احرام میں تلواریں چھپائے ہوئے تھے۔

فلسفہء قربانی
10 ذی الحجہ کے دن پوری دنیا میں مسلمان قربانی کرتے ہیں۔ قربانی سے پہلے فلسفہء قربانی کو سمجھنا بہت ضروری ہے:ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ:
اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے، پس اسے کھڑا کر کے اس پر اللہ کا نام لو پھر جب یہ پہلو پر گر پڑے تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو کھلاؤ، یوں ہم نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔(الحج 36)
قربانی حج کے اعمال میں سے ایک واجب عمل ہے اور غیر حاجیوں کے لیے سنت عمل ہے کہ جس کی حقیقت اور اس کا فلسفہ بطور کامل مشخص نہیں ہے لیکن احادیث اور روایات میں اس بارے میں جو چیز آئی ہے اس کے مطابق اس کے فلسفے کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
1. قربانی نفسانی خواہشات سے مبارزہ کرنے کی علامت ہے:
عید قربان کے دن قربانی کرنا، حقیقت میں اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی اور نفس امارہ کو ذبح کرنے کی علامت ہے- جس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام کے لیے خداوند متعال کی طرف سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم اس لئے تھا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اس عمل کی روشنی میں اپنے نفسانی تعلقات کے انتہائی اہم ترین عامل ، یعنی بیٹے کی محبت کے ساتھ مبارزہ کر کے خدا کی اطاعت کریں اورنفسانی خواہشات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں- اس بنا پر جس طرح اس حکم کی اطاعت نے، حضرت ابراھیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے نفس امارہ کے زندان سے رہا ئی پانے میں ایک اہم تربیتی رول ادا کیا اور ان کے مقام و منزلت کو خدا کے پاس عظمت و بلندی بخشی، اسی بنا پر حجاج کے لئے قربانی بھی حقیقت میں ، دنیوی تعلقات اور مادی وابستگی سے آزاد کرانے میں ایک قسم کا جہاد نفس ہے-
2. غریبوں کی مدد
قرآن مجید کی آیات سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ قربانی کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے گوشت سے صحیح استفادہ کیا جائے، قربانی کرنے والا بھی اس سےفائدہ اٹھانے اور فقیروں و محتاجوں تک بھی پہنچا یا جائے-
اسی طرح حج کے علاوہ جو لوگ پوری دنیا میں قربانی کرتے ہیں انہیں بھی یہ قربانی فقط اللہ کی خاطر خلوص سے انجام دینی چاہیے اور اپنے ارد گرد غریبوں کا خاص خیال کرنا چاہیے۔
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: "خداوند عالم نے قربانی کو واجب قرار دیا تاکہ مساکین اس کے گوشت سے استفادہ کیا جا سکے(بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸)
اسی بنا پر تاکید کی گئی ہے کہ قربانی کا حیوان موٹا اور تازہ ہو اور اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے دوسرا حصہ فقراء اور نیاز مندوں کیلئے اور تیسرا حصہ صدقہ دیا جائے۔قرآن کریم میں بھی اس حوالے سے ارشاد ہے
وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ:
اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے، پس اسے کھڑا کر کے اس پر اللہ کا نام لو پھر جب یہ پہلو پر گر پڑے تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو کھلاؤ، یوں ہم نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔(الحج 36)
اس آیت سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
۱۔ وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ: قربانی کے اونٹ شعائر اللّٰہ میں سے ہیں کیونکہ اللہ نے انہیں شعائر میں سے قرار دیا ہے۔ جَعَلۡنٰہَا: لہٰذا کسی چیز کے شعائر اللہ میں سے ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعین ضروری ہے۔
۲۔ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ: اسی شعائر اللّٰہ میں قرار دیا ہے کہ تم اس چیز کو راہ خدا میں قربان کرو جس میں تمہارے لیے بھلائی اور خیر ہے جس کی وجہ سے اونٹ کی قربانی میں زیادہ ایثار کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسی ایثار کی بنیاد پر شاید اسے شعائر اللّٰہ میں سے قرار دیا گیا ہے تاکہ انسان میں ایثار کا جذبہ موجزن رہے۔
۳۔ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ: انہیں ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لو جو اس ذبح کے عبادت ہونے کی بنیادی شرط ہے۔
۴۔ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا: واضح رہے اونٹ کو باندھ کر کھڑا کیا جاتا ہے پھر اس کے حلقوم میں نیزہ مارا جاتا ہے۔ جب زمین پر گر جاتا ہے، اس کی روح نکل جاتی ہے تو خود بھی کھاؤ اور محتاج کو بھی دو۔
۵۔ وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ: اس کا گوشت قانع اور معتر کو کھلاؤ۔ قانع: وہ شخص ہے جو، جو کچھ آپ نے اسے دیا ہے اس پر راضی ہوتا ہے اظہار ناراضی نہیں کرتا۔ الۡمُعۡتَرَّ: وہ شخص ہے جو دست سوال دراز کرتا ہے۔ (الکافی ۳: ۵۶۵)
۶۔ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ: ان اونٹوں کو اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ ان سے اپنی دنیوی زندگی کے لیے استفادہ کرو اور قربانی کر کے قرب الٰہی بھی حاصل کرو۔
3۔ گناہوں کی بخشش کا وسیلہ:ابوبصیر نےامام صادق علیہ السلام سے قربانی کی حکمت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: "جب قربانی کے حیوانی کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر ٹپکتا ہے تو خدا قربانی کرنے والی کی تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور قربانی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ کون پرہیزگار اور متقی ہے۔ (بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸،) قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے: لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ
ترجمہ: نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اور (اے رسول) آپ نیکی کرنے والوں کو بشارت دیں ۔(الحج 37)
بہ الفاظ دیگر، قربانی کو واجب کرنے کا خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ آپ تقوی کے مختلف منازل طے کر کے ایک انسان کامل کی راہ میں گامزن ھو جائیں اور روز بروز خداوند متعال کے قریب تر ھو جائیں، تمام عبادتیں، تربیت کے کلاس ہیں- قربانی انسان کو جاں نثاری ، فدا کاری ، عفو و بخشش اور راہ خدا میں شہادت پیش کرنے کے جذبے کا درس دیتی ہے اور اس کے علاوہ حاجتمندوں اور محتاجوں کی مدد کرنے کا سبق سکھاتی ہے-
اگرہم حج کی قربانی کی صرف مذکورہ حکمتوں کو مد نظر رکھیں، اور قربانی کے گوشت سے کوئی استفادہ بھی نہ کیا جائے، پھر بھی یہ حکمتیں حاصل ھو سکتی ہیں-
4. موجب خیر و برکت: قربانی خدا کی نشانیوں اور شعائر الہی میں سے ہے اور صاحب قربانی کیلئے خیر و برکت کا سبب ہے۔: وَ الْبُدْن َ جَعَلْنَـَهَا لَکُم مِّن شَعَائرِ اللَّه ِ لَکُم ْ فِیهَا خَیْرٌ (ترجمہ: اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے۔
5. تقرب خدا کا وسیلہ: قربانی خدا کی تقرب کا وسیلہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کیا کیا فوائد ہیں تو ہر سال قربانی کرتے اگرچہ قرض لینا ہی کیوں نہ پڑہے۔( بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸،)

دعائے عرفہ سے اقتباس:
دعائے عرفہ ایک طویل دعا ہے لیکن اس میں سے چند اقتباس پیش کرتے ہیں تاکہ اس دعائے کے چند معارف سے آشنائی ہو سکے:امام حسین علیہ السلام دعائے عرفہ میں فرماتے ہیں:
اَللّهُمَّ اِنّى اَرْغَبُ إِلَيْكَ وَ اَشْهَدُ بِالرُّبُوبِيَّةِ لَكَ
اے اللہ! بے شک میں تیری طرف متوجہ ہوا ہوں تیرے پروردگار ہونے کی گواہی دیتا ہوں
مُقِرّاً بِاَنَّكَ رَبّى وَ اِلَيْكَ مَرَدّى اور مانتا ہوں کہ تو میرا پالنے والا ہے اور تیری طرف لوٹا ہوں
اِبْتَدَاْتَنى بِنِعْمَتِكَ قَبْلَ اَنْ اَكُونَ شَيْئاً مَذْكُورا
کہ تو نے مجھ سے اپنی نعمت کا آغاز کیا اس سے پہلے کہ میں وجود میں آتا
وَخَلَقْتَنى مِنَ التُّرابِ ثُمَّ اَسْكَنْتَنِى الاَصْلابَ
اور تو نے مجھ کو مٹی سے پیدا کیا پھر بڑوں کی پشتوں (اصلاب) میں جگہ دی
آمِناً لِرَيْبِ الْمَنُونِ وَاخْتِلافِ الدُّهُورِ وَالسِّنينَ،
مجھے موت سے اور ماہ وسال میں آنے والی آفات سے امن دیا۔
پھر آگے ایک مقام پہ فرمایا:
اَللّهُمَّ اجْعَلْنى اَخْشاكَ كَانّى أَراكَ اے اللہ! مجھے ایسا ڈرنے والا بنادے گویا تجھے دیکھ رہا ہوں
وَاَسْعِدْنى بِتَقويكَ وَلا تُشْقِنى بِمَعْصِيَتِكَ مجھے پرہیزگاری کی سعادت عطا کر اور نافرمانی کے ساتھ بدبخت نہ بنا
وَخِرْلى فى قَضآئِكَ وَبارِكْ لى فى قَدَرِكَ اپنی قضا میں مجھے نیک بنادے، اور اپنی تقدیر میں مجھے برکت عطا فرما
حَتّى لا احِبَّ تَعْجيلَ ما اَخَّرْتَ یہاں تک کہ جس امر میں تو تاخیر کرے اس میں جلدی نہ چاہوں
وَلا تَاْخيرَ ما عَجَّلْتَ اور جس میں تو جلدی چاہے اس میں تاخیر نہ چاہوں
اَللّهُمَّ اجْعَلْ غِناىَ فى نَفْسى وَالْيَقينَ فى قَلْبى
اے اللہ! پیدا کردے میرے نفس میں بے نیازی میرے دل میں یقین،
وَالاِخْلاصَ فى عَمَلى وَالنُّورَ فى بَصَرى میرے عمل میں خلوص میری نگاہ میں نور
وَالْبَصيرَةَ فى دينى وَمَتِّعْنى بِجَوارِحى میرے دین میں سمجھ اور میرے اعضا میں فائدہ پیدا کردے
وَاجْعَلْ سَمْعى وَبَصَرى اَلْوارِثَيْنِ مِنّى اور میرے کانوں و آنکھوں کو میرا مطیع بنادے
وَانْصُرْنى عَلى مَنْ ظَلَمَنى وَاَرِنى فيهِ ثارى وَمَـارِبى
اور جس نے مجھ پر ظلم کیا اس کے مقابل میری مدد کر مجھے اس سے بدلہ لینے والا بنا
وَاَقِرَّ بِذلِكَ عَيْنى یہ آرزو پوری کر اور اس سے میری آنکھیں ٹھنڈی فرما
اَللَّهُمَّ اكْشِفْ كُرْبَتى وَاسْتُرْ عَوْرَتى
اے اللہ! میری سختی دور کردے میری پردہ پوشی فرما میری خطائیں معاف کردے۔ آمین

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button