خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:178)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک02 دسمبر 2022ء بمطابق 07جمادی الاول 1444 ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
صلہ رحمی و قطع رحمی
صِلِۂ رَحِم،یا صلہ رحمی رشتہ داروں سے اسلامی تعلیمات اور اخلاق کے مطابق رابطہ رکھنے، ان کی مدد کرنے اور ان سے ملاقات کرنے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں صلہ رحمی کی بہت تاکید ہوئی ہے۔
آیات وروایات میں صلہ رحمی کو ایمان کے بعد بہترین عمل، مومن کی بہترین صفت اور عمر لمبی ہونے کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ حدیث قدسی کے مطابق صلہ رحمی اللہ کی رحمت ہے اور جو بھی اسے ترک کرے گا وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگا۔ صلہ رحم کبھی واجب ہے اور کبھی مستحب۔ قطع رحم یعنی رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنا گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے یہاں تک کہ وہ رشتہ دار بداخلاق اور گناہگار ہی کیوں نہ ہو،ایک دوسرے سے ملاقات اور ایک دوسرے کے ہاں جانا یہ صلہ رحمی کی ایک مثال ہے۔
آیت:….وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا؛ اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔ [سوره مبارکه نساء آیه ۱] وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ؛ اور جو لوگ اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں منقطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ایسے ہی لوگوں پر لعنت ہے اور ان کے لیے ٹھکانا بھی برا ہو گا۔ [سوره مبارکه رعد آیه ۲۵] حدیث: پیغمبراکرم صلّی الله علیه و آله وسلّم: اِنَّ القَومَ لَيَكونونَ فَجَرَةً وَ لا يَكونونَ بَرَرَةً فَيَصِلونَ اَرحامَهُم فَتَنمى اَموالُهُم وَ تَطولُ اَعمارُهُم فَكَيفَ اِذا كانوا اَبرارا بَرَرَةً!؛ وہ لوگ جو گنہگار ہیں ، اور اچھے بھی نہیں ہیں،صلۂ رحم کی وجہ سےانکی جائداد زیادہ اوروہ لمبی عمر پاتے ہیں، کیا ہو اگر وہ نیک اور اچھے بھی ہوجائیں؟[كافى(ط-الاسلامیه)جلد2صفحه155]
امام على عليه السّلام: صِلَةُ الرَّحِمِ توجِبُ المَحَبَّةَ وَتَكبِتُ العَدُوَّ؛ صلۂ رحم، محبت میں زیادتی کا باعث اور دشمن کو خوار و ذلیل بناتا ہے۔[شرح آقا جمال الدین خوانساری بر غررالحکم ودررالکلم جلد صفحه209 حدیث 5825] امام صادق علیه السّلام: مَن زَارَ أخاهُ فِی اللهِ قالَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ إیّایَ زُرتَ وَ ثَوَابُکَ عَلَیَّ وَ لَستُ أرضَی لَکَ ثَوَاباً دونَ الجَنَّة.؛ جو شخص خدا کی خاطر اپنے بھائی کی زیارت کرتا ہے ، خدا اس کے لیے فرماتا ہے: تم میری زیارت پر آئے ہو اور تمہارا اجر مجھ پر ہے ، اور میں تیرے لیے جنت کے سوا کسی اور اجر سے مطمئن نہیں ہوں۔[کافی(ط-الاسلامیه)جلد2 صفحه 176]
واقعہ:
امام صادق (ع) کے چچازاد لڑکےحسین ابن علی کا شمار بہت بہادر اور طاقتور افراد میں ہوتا تھا، جنھیں رمحال ابوطالب (ابو طالب کے خاندان کا نیزہ) کہا جاتا تھا؛ ناک کی ہڈّی بلند ہونے کی وجہ سےحسن افطس کے نام سے شہرت تھی،عباسی خلیفہ، منصور داونقی کے خلاف، عبد اللہ محض( حضرت امام حسن (ع) کے پوتے )کی جنگ میں فوج کا پرچم انہی کے ہاتھ میں تھا؛کچھ جنگی وجوہات کی بنا پر امام صادق(ع) کے ساتھ اَن بَن تھی ،کچھ اس حد تک کہ ایک بار قتل کی نیت سےامام(ع) پر حملہ بھی کردیا؛ ان سب باتوں کے باوجود امام کی کنیز سالمہ کا بیان ہے کہ: میں امام جعفر صادق(ع)کی وفات کے وقت ان کے پاس تھی کہ ایک دفعہ حضرت پر غش کی حالت طاری ہوئی جب افاقہ ہوا تو فرمایاکہ حسن ابن علی ابن حسین افطس کو ستراشرفی دو اور فلاں فلاں کو اتنی مقدار دو۔ میں نے کہا: کیا آپ ایسے انسان پر عطا و بخشش کرینگے جس نے آپ پر خنجر سے حملہ کیا؟ اور آپ کو قتل کرنا چاہتا تھا؟ فرمایا: تو چاہتی ہے کہ میں ان لوگوں میں سے نہ بنوں جن کی خدا نے صلہ رحمی کے ساتھ مدح کی ہے اور ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ ” جو لوگ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں جن کے ساتھ خدانے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور برے حساب سے ڈرتے ہیں” پھرحضرت- نے فرمایا:” اے سالمہ خدا نے بہشت کو پیدا کیا اور اسے معطر کیا اور اس کی خوشبو دو ہزار سال کی راہ تک پہنچی ہے لیکن یہ خوشبو عاقِ والدین اور قطع رحمی کرنے والا نہیں سونگھے گا”۔[یکصد موضوع 500 داستان علی اکبرصداقت]
دین میں صلہ رحمی
دین اسلام نے رشتے اور خاندان کے تعلقات و روابط میں استحکام پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور اسی بنیاد پر صلہ رحم کو الہی اور دینی اقدار کا حصہ قرار دیا ہے ، قران کریم میں خداوند متعال نے صلہ رحم کو اپنی اطاعت و عبادت کے ہم پلہ بتاتے ہوئے کہا کہ «وَ اعبُدوا اللهَ وَ لاتُشرکوا بِهِ شَیْئاً وَ بالوالِدینِ احساناً و بِذِی القُربی ؛ اور اللہ کی عبادت کرو اورکسی شے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اور قرابتداروں کے ساتھ . . . » ۔ (سورہ نساء، آیہ 36)
اور ایک دوسرے مقام یوں فرمایا کہ «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِيراً وَنِسَاءً و اتَّقوا اللهَ الَّذی تَسائَلونَ بِهِ و الاَرحامَ انَّ اللهَ کانَ عَلیکمْ رَقیباً اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔» ۔ (سورہ نساء، آیه 1)
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے صلہ رحم کی اہمیت کے سلسلہ میں فرمایا کہ میں حاضرین و غائبین نیز قیامت تک مردوں کے صلب اور عورتوں کے رحم میں موجود اپنی امت کو نصیحت اور تاکید کرتا ہوں کہ صلہ رحم کرتے رہیں چاہے اس کا راستہ طے کرنے میں ایک سال لگ جائے کیوں کہ صلہ رحم اسلام کے اہم مسائل میں سے ہے۔ (بحارالانوار، ج 74، ص 105)
صلہ رحم کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی بلکہ اس کے ذریعہ دشمن بھی انسان سے قریب ہوجاتا ہے، جو قطع رحم کرتا ہے اس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: « صِلْ مَنْ قَطَعَكَ؛ جس نے قطع رحم کیا ہے اس کے ساتھ صلہ رحم کرو»[بحار الانوار، ج۱۶، ص۹۹]، اس حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح اور روشن ہے کہ اگر کسی نے تمھارے ساتھ قطع رحم کیا ہے تو تم اس کے ساتھ صلہ رحم کرو اور اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ شروع کرو اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ ایثار اور قربانی کے بلند مرتب پر فائز ہوتا ہے۔
صلہ رحم میں اجتماعی، نفسیاتی اور اخلاقی نتائج و ثمرات کے علاوہ معنوی اور اخروی ثمرات بھی پائے جاتے ہیں، دینی تعلیمات میں قطع رحم (رشتہ داروں سے تعلق ختم کرنے) کو بُرا سمجھا جاتا ہے اور اس سے پرہیز کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اسی بنا پر ہمیں معصومین(علیہم السلام) کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا چاہئے تاکہ ہم اس کے دنیاوی اور اخروی اثرات سے بھرہ مند ہوسکیں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) صلہ رحم کے بارے میں فرمارہے ہیں: «صِلَةُ الرَّحِمِ توجِبُ المَحَبَّةَ وَتَكبِتُ العَدُوَّ؛ صلہ رحم محبت کو لیکر آتی ہے اور دشمن کو ذلیل کرتی ہے»[مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج۱۵، ص۲۰۵]۔
امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے صلہ رحم کے سلسلہ میں اپنے فرزند کو نصیحت کرتے فرمایا : «اَکرم عَشیرتَک، فَاِنَّهم جَناحُک الّذی بهِ تَطیرُ، وَ اَصْلُک الّذی اِلیهِ تَصیرُ، وَ یَدُک الَّتی بِها تَصوُلُ ؛ [نھج البلاغہ ، خط ۳۱ ] اپنے رشتہ داروں کا احترام اور ان کی قدر کرو کیوں کہ وہ تمھارے بازو اور تمھارا پر پرواز ہیں جس کے ذریعہ تم پرواز کروگے ، وہ تمھاری اصل اور تمھاری بنیاد ہیں جن کی جانب تمھاری بازگشت ہوتی ہے ، وہ تھارے دست و بازو ہیں جن کی مدد سے تم اپنے دشمن پر حملہ کر کے کامیاب اور پیروز ہوگے اور تمھیں فتح حاصل ہوگی ۔ »
قران کریم اور احادیث میں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحم کرنے کی حد سے زیادہ تاکید ، اس کی اھمیت کو اجاگر اور بیان کرتی ہے ، شیعہ منابع نے صلہ رحم کو ہر حال میں واجب قرار دیا ہے چاہے رشتہ دار مرتد یا کافر ہی کیوں نہ ہوں ۔
دوسروں لفظوں میں یوں کہا جائے کہ کفر اور شرک رشتہ ختم نہیں کرسکتا بلکہ ایسے موقع پر صلہ رحم پسندید اور محبوب عمل شمار کیا جاتا ہے اور ممکن ہے یہ عمل غیر مسلمانان یا غیر شیعہ افراد کی ھدایت و گمراہی اور نجات کا سبب قرار پائے ، روای کا کہتا ہے کہ ہم میں چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے وہ رشتہ دار جو میرے ہم عقیدہ اور ہم مذھب نہیں ہیں کیا ان کا کوئی مجھ پر حق ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! رشتہ دار کا حق ھرگز ختم نہیں ہوتا اور ھرگز رشتہ نہیں ٹوٹتا کہ اگر وہ تمھارے ہم عقیدہ ہوں تو تم پر ان کا دو حق ہے ، ایک رشتہ داری کا حق اور دوسرے اسلام کا حق ۔( بحار الانوار ، ج ۷۴ ، ص ۱۳۱)
امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : « أنه تعالی یَصل مَن وصلِها و یَقطَعُ مَن قَطَعها و یَكرَم مَن أكرَمَها ؛ » [غرر الحكم، ص ۴۰۶، ح ۹۲۹۰] جو لوگ صلہ رحم کرتے ہیں خداوند متعال ان پر توجہ کرتا ہے ، اور جو لوگ اپنے رشتہ داروں سے قطع رابطہ کرلیتے ہیں خداوند متعال ان پر سے اپنی توجہ ہٹا لیتا ہے ۔
امام چھارم حضرت زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ « ما مِنْ خُطْوَهٍ أحبُّ الی اللهِ من خُطْوَتین: خُطْوَهٌ یُسَرُّ بِها صفَّا فی سبیلِ الله تعالی وَ خُطوَهٌ الی ذی رَحم قاطعٍ ؛ » [بحار الانوار ، ج ۷۴، ص ۸۷]. ؛ خداوند متعال کے نزدیک دوقدم محبوب اور پسندیدہ ترین قدم ہے ، ایک قدم وہ جو خدا کی راہ میں لشکر اسلام یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کیلئے اٹھے اور دوسرا قدم جو قطع رحم کئے ہوئے رشتہ داروں کی سے ملنے کے لئے اٹھے ۔
رسول اسلام کا اس سلسلہ میں مزید ارشاد ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : « اَلصّدَقَهُ بِعَشرَهٍ و القَرضُ بثَمانیهَ عَشَرَ و صلَهُ الرَّحم بأربعهٍ و عِشْرین وَ صلهُ الِاخوان بِعِشْرینِ ؛ [بحار الانوار ، ج ۷۴، ص ۳۱] خدا کی راہ میں صدقہ دینے کا ثواب دس برابر ہے اور اس کی راہ میں قرض دینے کا ثواب اٹھارہ برابر ہے ، رشتہ داروں اور اقرباء سے صلہ رحم کرنے کا ثواب چوبیس برابر ہے اور دینی بھائیوں سے نیکی کرنے کا ثواب بیس برابر ہے ۔
صلہ رحمی کے طریقے:
صلہ رحم یعنی رشتہ داروں اور اعزاء و اقرباء کی امداد کے مختلف و متعدد طریقے اور راستے ہیں جس کے وسیلہ ان کی دلجوئی کی جاسکتی ہے اور ان سے بہتر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے ۔
قران کریم نے صلہ رحم کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا : « وَ اعبُدوا اللهَ وَ لاتُشرکوا بِهِ شَیْئاً وَ بالوالِدینِ احساناً و بِذِی القُربی ۔۔۔ ؛ اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اور قرابتداروں کے ساتھ ۔۔۔۔ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔( سورہ نساء، ایت 36)
اور ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا: «و اتَّقوا اللهَ الَّذی تَسائَلونَ بِهِ و الاَرحامَ انَّ اللهَ کانَ عَلیکمْ رَقیباً ؛ اور قرابتداروں کی بے تعلقی سے بھی- اللہ تم سب کے اعمال کا نگراں ہے » ۔ (سورہ نساء، ایت 1)
1: جسم و جان کے وسیلہ مدد
صلہ رحم کا بزرگترین اور سب اعلی مرتبہ یہ ہے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی جسم و جان کے وسیلہ حمایت کرے ، یعنی اگر کسی جگہ اور مقام پر رشتہ داروں میں سے کسی ایک کی جان کو خطرہ لاحق ہو تو شریعت کے دائرہ میں جان کی حد تک اس کا دفاع کرے اور اس کے ساتھ کھڑا رہے تاکہ اس سے خطرہ ٹل جائے ۔
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا : جان و مال کے وسیلہ صلہ رحم کرنے والے کو خداوند متعال ۱۰۰ شھید کا اجر عنایت کرے گا ۔( وسائل الشیعه، ج 6، ص 286)
2: مالی امداد
اگر رشتہ داروں میں ضرورتمند افراد موجود ہوں تو ان کی رسیدگی اور ان کی ضرورتوں کا پورا کرنا لازم و ضروری ہے ، دین مبین اسلام نے اس چیز پر حد سے زیادہ تاکید کی ہے اور قران کریم نے اپنی ایات میں رشتہ داروں کی مدد کو لازم و ضروری جانا ہے جیسا کہ سورہ اسراء کی 26 ویں ایت شریفہ میں ارشاد فرمایا : «و آتِ ذَالقربی حقَّهُ و المِسکینَ. . . » (نهج البلاغه ، خطبہ 142) اور دیکھو قرابتداروں کو اور مسکین کو اس کا حق دے دو اور خبردار اسراف سے کام نہ لینا ۔
امیرمؤمنین علی ابن طالب علیه السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :« فَمَنْ اَتاهُ اللهُ مالاً فَلْیَصِله بِه قَرابَتَهُ » جسے خداوند متعال نے مال و ثروت عطا کیا ہے وہ اپنے رشتہ داروں کی دستگیری کرے ۔

 

3: فکری امداد
اگر رشتہ داروں میں سے کوئی فرد ہدایت اور راہنمائی کی نیازمند ہو تو اس کی فکری مدد کرنا قابل تحسین عمل ہے ، مثال کے طور پر اگر رشتہ داروں میں سے کوئی فرد اہل نماز و روزہ نہ ہو تو اس پاس جاکر نماز و روزہ کی اہمیت و فضلیت کو بیان کرے ، اسے نماز و روزہ چھوڑنے کے نتائج اور عذاب الھی سے باخبر کرے ، یہ عمل انسان کی فکری امداد کا حصہ ہے ۔
قطع رحم کی مذمت
قطع رحم، رشتہ داروں اور اعزاء و اقرباء سے قطع تعلق کی اسلام نے شدید مذمت کی ہے لہذا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے کہ اس سے پرھیز کرے ، خداوند متعال نے قران کریم نے قطع رحم کرنے والوں اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والوں کی تین مقام پر لعنت و ملامت کی ہے ۔
قران کریم نے سورہ محمد کی ۲۲ ویں اور ۲۳ ویں ایت شریفہ میں ارشاد فرمایا :
« فَهَلْ عَسَیتُمْ إِنْ تَوَلَّیتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحامَکمْ – أُولئِک الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمی أَبْصارَهُمْ »
پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔
اسی طرح سورہ بقرہ کی ۲۷ ویں آیت میں ارچاد فرمایا : وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں ۔
اور حضرت امام جعفر صادق علیه السلام اپنے جد حضرت امام سجاد علیه السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا: «. . . اِیّاک وَ مصاحَبَهَ القاطِعِ لرَحِمِهِ فَانَّهُ وَجَدتُهُ مَلْعوناً فی کتابِ اللهِ فی ثَلاثِ مَواضعَ ؛ جس نے اپنے رشتہ داوں سے قطع رابطہ کر رکھا ہے اس کی ہمنشینی سے پرھیز کرو کیوں کہ قران کریم نے ایسے انسان کی تین جگہ پر لعنت و ملامت فرمائی ہے » (سفینه البحار، ج ۱، ماده رحم) اور حضرت علیہ السلام ایک دوسرے مقام پر یوں فرماتے ہیں کہ ” خدا سے پناہ مانگتا ہوں ایسی گناہوں کے سلسلہ میں جس سے نابودی بہت قریب ہوجاتی ہے ، موت نزدیک اجاتی ہے اور شھر ابادی سے خالی ہوجاتے ہیں ، وہ گناہیں قطع رحم ، ماں اور باپ کو تکلیف پہنچانا اور ان کے ساتھ نیکی نہ کرنا ہے ۔( اصول کافی، ج ۲ ، ص ۴۴۸)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صلہ رحمی و قطع رحمی کے قرآنی اصولوں میں عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تاریخی مناسبت: ولادت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا
سیدہ زینب بنت علی ؑ کی ولادت 5 جمادی الاول 5ھجری یا 6 ھجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
آپ سلام الله علیها کی ولادت کے وقت، پیغمبر خدا صلی الله علیه و آله سفر پر تھے، امیرالمؤمنین علیه السلام نے آپ کی نامگذاری کے لیے فرمایا:میں پیغمبر پر سبقت نہیں کرسکتا،یہاں تک کہ آنحضرت (ص) تشریف لائے اور وحی کے منتظر ہوئے، جبرئيل نازل ہوئے اور عرض کیا:اللہ آپ کو سلام کہتا ہےاور ارشاد فرماتا ہے کہ: اس دختر کا نام "زینب” رکھیئے ، کیونکہ اس نام کو ہم نے لوح محفوظ میں تحریر کیا ہے۔
پیغمبر(ص) نے حضرت زینب سلام الله علیها کو طلب کیا اوربوسہ لیا ،پھر فرمایا:میں حاضرین و غائبیں کو وصیت کرتا ہوں کہ اس مولود کا میری خاطر پاس و لحاظ رکھیں،بیشک یہ خدیجۂ کبری کی طرح ہے۔(خصائص الزینبیه ص60) رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے اس فرمان سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جس طرح جناب خدیجہ(سلام اللہ علیہا) نے اپنے مال سے اسلام کی حفاظت کی، اسی طرح جناب زینب(سلام اللہ علیہا) نے خود کو اسلام پر وقف کرتے ہوئے اس کا دفاع کیا۔
آپ کی ماں کا نام حضرت فاطمۃ الزھراء اور والد گرامی کا نام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیھم السلام ہے ۔آپ کی مدت زندگی اپنی ماں کے ساتھ تقریباً ۵ یا ۶ سال لکھی گئی ہے ۔۳ جمادی الثانی ۱۱ھجری کو اپنی مظلومہ ماں کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا۔آپ کے شوھر کا نام عبداللہ بن جعفر تھا جو کہ آپ کے چچا کے بیٹے تھے ۔عبد اللہ بن جعفر تاریخ اسلام کے سخاوتمند اورمشھور انسان تھے ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے بہت سے القاب اور کنیہ ہیں :
ان میں سے ایک عقیلہ بنی ھاشم ہے ، (یعنی اپنے خاندان بنی ہاشم میں بلند مرتبہ والی عقل مند خاتون )۔اسی طرح روایات میں یہ بھی نقل ہیں ،صدیقہ صغری ، عارفہ ، عالمہ، فاضلہ ، کاملہ،عابدہ آل علی۔حضرت زینب سلام الله علیها جب تک امیر المؤمنین مدینہ میں تھے آپ بھی مدینہ میں رہیں اور جب امیرالمؤمنین کوفہ منتقل ہوئے تو آپ بھی کوفہ چلیں گئی ۔ آپ کوفہ میں کوفہ کی خواتین کو دینی تعلیم دیتی تھیں ۔
حضرت علی علیہ السلام ۴۰ ھجری کو شھر کوفہ میں شھید ہو گئے تب حضرت زینب علیھا السلام کا سن تقریباً۳۵سال تھا اور ۱۰ سال بعد ۵۰ھجری میں امام حسن علیہ السلام شھید ہوگئے ۔
امام حسن علیہ السلام کی شھادت کے بعد ۱۰ سال ہی گزرے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا پہنچی اور اس غمناک اور مظلومانہ واقعہ کو دیکھنا پڑا ، بلکہ یوں کہوں کہ حضرت زینب علیھا السلام کی زندگی میں مصائب ہی مصائب تھے ۔بالخصوص واقعہ کربلا نے تو شہزادی کو ایک دو پہر میں بوڑھاکردیا اپنی آنکھوں کے سامنے بھائی بھتیجے اور بیٹوں کے لاشوں کو خوں میں غلطاں دیکھا،تب آپ کا سن ۵۵ سال تھا ۔
شھیدمطھری فرماتے ہیں کہ صبروتحمل وبردباری کا بہترین نمونہ اگر تاریخ اسلامی میں دیکھا جائے تو وہ سیدہ زینب علیھا السلام کی شخصیت ہے ۔ (حماسہ حسینی ج 2، ص 225) تایخ میں کوئی بھی خاتون ایسی نہیں گزری جو(سیدہ زھراء علیھا السلام کے بعد) جناب زینب سلام اللہ علیھا سے حلم اور بردباری میں بڑھ کر ہو ۔
آپ کی عبادت کی مثال یوں دی جاتی ہے کہ ساری زندگی حتی قید میں بھی آپ کی نماز شب قضا نہیں ہوئی ۔
ریاحین الشریعہ میں لکھا ہے کہ آپ کی عبادت اور شب زندہ داری ایسی تھی حتی ۱۱ محرم کی رات بھی آپ نے نماز شب قضا نہیں کی ۔
شھید مطھری فرماتے ہیں کہ شھزادی فصاحت اور بلاغت میں اس اعلی درجے پر فائز تھیں کہ جو خطبہ یزید کے دربار میں دیا دنیا کا بے نظیر خطبہ تھا ۔جو خطبہ کوفہ کے بازار میں دیا اس کے بارے میں امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں آپ عالمہ غیر معلمہ ہیں ۔
ابن اثیر لکھتا ہے : حضرت زینب فصاحت و بلاغت و زهد و عبادت و فضیلت و شجاعت و سخاوت میں اپنے بابا علی اور ماں فاطمہ علیہما لسلام پر تھیں ۔
جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کی عبادت کی عظمت کو روشن کرنے کے لئے امام حسین(علیہ السلام) کا اپنی بہن سے یہ کہنا کافی ہے کہ "اے بہن زینب مجھے اپنے رات کی نمازوں میں نہ بھولنا”، امام حسین(علیہ السلام) کے اس جملہ سے جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کی عظمت اور معرفت کو سمجھ سکتے ہیں[عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآيات و الأخبار الأقوال، ج:۱۱،ص:۹۵۴]۔
امام سجاد(علیہ السلام) آپ کی عبادت کی عظمت کو بتاتے ہوئے فرمارہے ہیں: «اِنَّ عَمَّتي زَيْنَب کانَتْ تُؤَدّي صَلَواتِها مِنْ قِيام، اَلفَرائِضَ وَ النَّوافِلَ، عِنْدَ مَسيرِنا مِنَ الکُوفَةِ اِلَي الشّامِ، وَ في بَعْضِ المَنازِل تُصَلّي مِنْ جُلُوسٍ… لِشِدَّةِ الجُوعِ وَ الضَّعْفِ مُنْذُ ثَلاثِ لَيالٍ لاَنَّها کانَتْ تَقْسِمُ ما يُصيبُها مِنَ الطَّعامِ عَلَي الاَطْفالِ، لِاَنَّ القَوْمَ کانُوا يَدْفَعُونَ لِکُلِّ واحِدٍ مِنّارغيفاً واحِداً مِنَ الخُبْزِ فِي اليَوْمِ وَ اللَّيلَة؛ یقنا میرے پھوپی زینب(سلام اللہ علیہا) کوفہ سے شام کے تمام راستوں میں نماز کھڑے ہوکر پڑھتی تھیں اور بعض مقامات پرتین رات کی بھوک اور کمزوری کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھتی تھیں کیونکہ وہ اپنے حصے کا کھانا بچوں میں تقسیم کر دیتی تھیں۔وہ ظالم لوگ ہم میں سے ہر ایک کو دن اور رات میں روٹی کا فقط ایک ٹکڑا دیتے تھے۔( عوالم العلوم ج:۱۱،ص:۹۵۴)
جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کے ان مصائب اور پریشانیوں میں اس طرح کی عبادت سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم بھی اپنے آپ کو جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کی اتباع کرتے ہوئے خدا سے عبادت کے ذریعہ خدا سے اپنے رشتہ کو مضبوط کریں تاکہ مشکلات اور پریشانیوں میں خدا سے شکایت کرنے کے بجائے صبر سے کام لیتے ہوئے اس سے رشتہ کو اور مضبوط کریں۔

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button