خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:123)

موضوع: معرفت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ
(بتاریخ: جمعۃ المبارک 19 نومبر 2021ء بمطابق 13 ربیع الثانی 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
ہمارے بارہویں آقا حضرت حجت خدا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے غیبت کے زمانے میں ہم پر بہت اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن میں سب سے اہم ذمہ داری معرفت ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب امام جعفر صادق علیہ السلام کے مشہور و معروف صحابی زرارہ نے آپ سے پوچھا کے غیبت کے زمانے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے تو امام علیہ السلام نے انہیں ایک دعا تعلیم دی۔ یہ فقط ایک دعا نہیں بلکہ اس کے اندر بہت اہم پیغام ہے اور وہی زمانہ غیبت میں ہماری سب سے اہم ذمہ داریوں میں سے ہیں۔امام کی تعلیم کردہ دعا یہ ہے:
"اللّهُمَّ عَرِّفنِي نَفسَكَ فَإنَّكَ إنْ لَم تُعَرِّفنِي نَفسَكَ لَم أعرِف نَبِيَّكَ،
اللّهُمَّ عَرِّفنِي رَسولَكَ فَإنَّكَ إنْ لَم تُعَرِّفنِي رَسولَكَ لَم أعرِفْ حُجَّتَكَ،
اللّهُمَّ عَرِّفنِي حُجَّتَكَ فَإنَّكَ إنْ لَم تُعَرِّفنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَن دِينِي”، "
بارالہٰا، مجھے اپنی معرفت دے کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنی معرفت نہ دی تو میں تیرے نبیؐ کو نہیں پہچان سکوں گا، بارالہٰا مجھے اپنے رسولؐ کی معرفت دے کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنے رسولؐ کی معرفت نہ دی تو میں تیری حجت کو نہیں پہچان سکوں گا، بارالہٰا مجھے اپنی حجت کی معرفت دے کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی معرفت نہ دی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہوجاؤں گا”۔ [الکافی، ج۱، ص۳۳۷، ح۵] ہم آج کی گفتگو میں اسی دعا سے ملنے والے مختلف پیغامات و اسباق پہ بات کریں گے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ یہ تین معرفتیں ہر فرد کے لیے بہت ضروری ہیں۔اب چاہے آدمی جتنا بھی بڑا علامہ کہلائے، لوگوں میں خواہ اس کی جتنی بھی زیادہ شہرت ہو، لیکن اگر اس کے پاس اسی مذکورہ ترتیب سے یہ تین معرفتیں نہ ہوں تو وہ گمراہی کا شکار ہے۔ جو شخص دین سے رُخ موڑ کر گمراہی کے راستے پر چل رہا ہو تو وہ لوگوں کی کیسے ہدایت کرسکتا ہے؟ اور کس طرف ہدایت کرے گا؟ جبکہ وہ خود کسی اور طرف جارہا ہے! ہاں وہ لوگوں کو مزید گمراہی کے گڑھے میں گرا سکتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ وہ اپنی ہر بات سے لوگوں کی گمراہی میں اضافہ کرتا جارہا ہے، کیونکہ اس نے یہ تین معرفتیں حاصل نہیں کیں تو وہ لوگوں کو کون سی چیز متعارف کروا رہا ہے؟! کیا اس کے پاس اللہ کی حجت حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کی معرفت ہے اور آنحضرتؑ کو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا بارہواں خلیفہ اور جانشین اور اِس زمانے کا امام سمجھتا ہے؟ کیا وہ برحق مجتہدین کو امامؑ کا نائبِ عام جانتا ہے؟
امام کی تعلیم کردہ دعا سے یہ بھی پیغام ملتا ہے کہ دعا کی بہت زیادہ اہمیت ہے، یہاں تک کہ غیبت کے زمانے میں پھیلائے گئے شکوک و شبہات کے مقابلے میں دعا اثرانداز ہے۔ ان میں سے ایک عظیم اور اہم دعا یہ ہے کہ انسان اللہ سے یہ تین معرفتیں طلب کرے۔
اس حدیث میں تین معرفتوں کا تذکرہ ہوا ہے: اللہ کی معرفت، رسولؐ کی معرفت، حجت کی معرفت۔
اس دعا کے تین حصوں میں سے ہر حصے کی ابتدا میں "اللّھم” کہا گیا ہے۔ اس سے اس دعا کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
تینوں معرفتیں "اللٰہم” کہہ کر، اللہ سے طلب کی جارہی ہیں، لہذا معرفت اور پہچان، اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔
-مذکورہ بالا حدیث، اللہ کی معرفت سے شروع ہوتی ہے اور دین پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ لہذا اللہ کی معرفت کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ انسان کا دین محفوظ رہے۔ دین کی حفاظت کے لئے تینوں معرفتوں کی ضرورت ہے، لہذا اگر تین میں سے ایک معرفت نہ ہو تو آدمی دین سے گمراہ ہوجائے گا۔
۔ دین کی حفاظت اور گمراہی سے بچ جانا براہ راست حجت کی معرفت سے وابستہ ہے، لہذا حجت کی معرفت اس قدر ضروری ہے کہ اگر نہ ہو تو انسان دین سے گمراہ ہوجائے گا۔
۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)سے روایت ہے: "الدّینُ یَعْصِمُ”، "دین (انسان کی) حفاظت کرتا ہے”۔ [غررالحکم، آمدی، ح۱] ۔ انسان اپنے لیے تحفظ اور امن و امان فراہم کرنے کے لئے کتنی محنت، کوشش اور انتظام کرتا ہے، لیکن اس بات سے غافل رہتا ہے کہ صرف دین کے ذریعے حقیقی تحفظ فراہم ہوسکتا ہے اور کیونکہ اللہ کے نزدیک دین، صرف دین اسلام ہے لہذا صرف دین اسلام کو تسلیم کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کے ذریعے انسان کو دنیا و آخرت میں تحفظ ملتا ہے۔
اب اپنے دین کو کیسے محفوظ کرنا چاہیے؟ اللہ کی معرفت اور رسولؐ کی معرفت اور حجت کی معرفت کے ذریعے۔ بنابریں ان تین معرفتوں کو حاصل کرکے جب انسان دین اسلام کی طرف ہدایت یافتہ ہوجائے گا تو اسے دنیا و آخرت میں تحفظ ملے گا۔
تین معرفتوں کا باہمی تعلق
۔ سب سے پہلی معرفت، اللہ کی معرفت اور پہچان ہے اور معرفت کا سلسلہ، اللہ کی معرفت پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ اللہ کی معرفت کے بعد اللہ کے نبیؐ اور اللہ کی حجت کی معرفت حاصل کرنا بھی ضروری ہے، لہذا یہ معرفتوں کا سلسلہ اللہ کی معرفت سے شروع ہوتا ہے اور حجت کی معرفت تک پہنچتا ہے۔
۔ ہر ایک معرفت کا نتیجہ الگ الگ ہے اور ہر معرفت کے نتیجہ کا بھی ایک اور نتیجہ ہے۔ اللہ کے بارے میں عدم معرفت کا نتیجہ نبی اکرمؐ کے بارے میں عدم معرفت ہے، رسول اللہؐ کے بارے میں عدم معرفت کا نتیجہ حجت کے بارے میں عدم معرفت ہے اور حجت کی عدم معرفت کا نتیجہ دین سے گمراہی ہے۔
۳۔ دوسری اور تیسری معرفت میں سے کسی ایک معرفت کے نہ ہونے کا دونوں طرف سے اثر ہے ان سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی۔ یعنی اگر رسولؐ کی معرفت نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہوئی اور ادھر سے حجت کی معرفت بھی حاصل نہیں ہوگی، اور اگر حجت کی معرفت نہ ہو تو اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی معرفت بھی نہیں ہے اور ادھر سے دین سے بھی گمراہی ہوگی۔
نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اَوّلُ الدّینِ مَعْرِفَتہ”، "دین کی ابتدا اللہ کی معرفت ہے”۔لہذا ایسا نہیں ہے کہ آدمی جہاں سے شروع کرےدیندار بن جائے گا، بلکہ اسے اللہ کی معرفت سے شروع کرنا پڑے گا، پھر رسول اللہؐ کی معرفت، پھر حجت کی معرفت۔ جب آدمی یہ تین معرفتیں حاصل کرلے گا تو تب وہ دینداری تک پہنچ سکتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ آدمی کچھ نیک اعمال کرتا رہے اور سمجھ لے کہ دیندار آدمی ہے، بلکہ اسے چاہیے کہ اللہ کی معرفت سے شروع کرکے حجت کی معرفت تک پہنچے، تب وہ دیندار بن سکتا ہے، کیونکہ دین کی ابتدا اللہ کی معرفت ہے۔
معرفت کا وسیلہ کون؟
اس حدیث میں اللہ سے ہی معرفت طلب کی جارہی ہے اور صرف اللہ ہی معرفت عطا کرسکتا ہے، مگر اللہ کاموں کو اسباب و وسائل کے ذریعے جاری کرتا ہے، اسی لیے اللہ معرفت بھی اسباب و وسائل کے ذریعے عطا فرماتا ہے۔ یہ معرفت کن وسیلوں سے انسانوں کو عطا ہوتی ہے؟
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "بِنَا عُبِدَ اللّه ُ وَ بِنا عُرِفَ اللّه ُ وَ بِنا وُحِّدَ اللّه ُ ـ تَبارَكَ وتَعالى”، "ہمارے ہی ذریعے اللہ کی عبادت ہوئی اور ہمارے ہی ذریعے اللہ پہچانا گیا اور ہمارے ہی ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ واحد سمجھا گیا”۔ [الکافی، ج۱، ص۱۴۵، ح۱۰] واضح رہے کہ اللہ سبحانہ ہر چیز اور ہر کسی سے بے نیاز ہے، اسے کسی کی ضرورت نہیں، بلکہ ساری کائنات اس کی محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی اہل بیت (علیہم السلام) کو وسیلہ کے طور پر قرار دیا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت کے تحت ہے، کیونکہ اللہ اگر چاہتا تو براہ راست اور وسیلہ کے بغیر بھی یہ کام کرسکتا تھا، جیسا حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"إِنَّ اللّه َ ـ تَبارَك و تَعالى ـ ، لَو شَاءَ لَعَرَّفَ العِبادَ نَفسَهُ ، وَ لكِنْ جَعَلَنا أبْوابَهُ وَ صِراطَهُ وَ سَبيلَهُ وَ الوَجْهَ الَّذى يُؤتى مِنهُ”، "
یقیناً اللہ تبارک و تعالی، اگر چاہتا تو اپنے آپ کو بندوں کو پہچنوا دیتا، لیکن اس نے ہمیں اپنی (معرفت کے) دروازے اور اپنی صراط اور اپنا راستہ اور چہرہ (رخ) جس سے داخل ہوا جاتا ہے، قرار دیا ہے”۔ [الکافی، ج۱، ص۱۸۴، ح۹] زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) اہل بیت (علیہم السلام) کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
"السَّلام عَلى محالِّ مَعْرِفَةِ اللّه”، "سلام ہو اللہ کی معرفت کی جگہوں پر”۔ [بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۱۲۸] اللہ کی معرفت، اہل بیت (علیہم السلام) کی معرفت پر موقوف ہے، جیسا کہ حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"مَن عَرَفَهُم فَقَد عَرَفَ اللّهَ، وَ مَن جَهَلَهُم فَقَد جَهلَ اللّهَ”، "
جو اُن (اہل بیتؑ) کو پہچانے یقیناً اس نے اللہ کو پہچانا ہے اور جو انہیں نہ پہچانے یقیناً اس نے اللہ کو نہیں پہچانا”۔ [الكافى، ج۴، ص۵۷۹، ح۲] حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"مَن عَرَفَني وعَرَفَ حَقّي فَقَد عَرَفَ رَبَّهُ؛ لِأَنّي وَصِيُّ نَبِيِّهِ في أرضِهِ، وحُجَّتُهُ عَلى خَلقِهِ، لا يُنكِرُ هذا إلّا رادٌّ عَلَى اللّه ِ ورَسولِهِ”، "
جو شخص مجھے پہچانے اور میرے حق کو پہچانے تو یقیناً اس نے اپنے ربّ کو پہچانا، کیونکہ میں اُس کے نبی کا وصی ہوں اُس کی زمین میں اور اس کی حجت ہوں اُس کی مخلوق پر، اس بات کا انکار نہیں کرتا مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کو رد کرنے والا”۔ [بحارالانوار، ج۲۶، ص۲۵۸] حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"نَحْنُ عَلَى اَلْأَعْرَافِ نَعْرِفُ أَنْصَارَنَا بِسِيمَاهُمْ وَ نَحْنُ اَلْأَعْرَافُ اَلَّذِي لاَ يُعْرَفُ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلاَّ بِسَبِيلِ مَعْرِفَتِنَا وَ نَحْنُ اَلْأَعْرَافُ يُعَرِّفُنَا اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ عَلَى اَلصِّرَاطِ فَلاَ يَدْخُلُ اَلْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ عَرَفَنَا وَ عَرَفْنَاهُ وَ لاَ يَدْخُلُ اَلنَّارَ إِلاَّ مَنْ أَنْكَرَنَا وَ أَنْكَرْنَاهُ”،
"ہم اعراف پر ہوں گے، ہم اپنے مددگاروں کو ان کے چہروں سے پہچانیں گے، اور ہم وہ اعراف ہیں کہ اللہ عزّوجل ہماری معرفت کے راستے کے بغیر نہیں پہچانا جاتا، اور ہم اعراف ہیں اللہ عزّوجل قیامت کے دن صراط پر ہمارا تعارف کروائے گا تو جنت میں داخل نہیں ہوگا مگر وہ جو ہمیں پہچانے گا اور ہم اسے پہچانیں گے اور (جہنم کی) آگ میں داخل نہیں ہوگا مگر جو ہمیں نہیں پہچانے گا اور ہم اسے نہیں پہچانیں گے”۔ [الکافی، ج۱، ص۱۸۴، ح۹] آدمی جب کسی کی مدح و تعریف کرتا ہے تو وہ مدح محبت کی وجہ سے ہوتی ہے اور محبت کی علامت فرمانبرداری ہے۔ فرمانبرداری کے بغیر مدح و تعریف کرنا ان الفاظ کو بولنے کی طرح ہے جو بے معنی ہوں۔
اللہ و رسولؐ کا ایک اہم ترین حکم اور فرمان سب انسانوں کےلئے یہ ہے کہ رسول (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بارہ خلیفوں پر ایمان لایا جائے، ان کی معرفت حاصل کی جائے اور ان کے احکام و فرامین پر عمل کیا جائے، لہذا صرف مدح و تعریف کافی نہیں، بلکہ معرفت بھی ضروری ہے۔ اس معرفت کی علامت یہ ہے کہ جتنی معرفت اور پہچان بڑھتی جائے گی اتنی مدح و ثنا اور تعریف بھی بڑھتی جائے گی۔
جو شخص اللہ اور رسولؐ کی مدح و ثنا کرتا ہے، لیکن حجت کو نہیں پہچانتا تو وہ دین سے گمراہ ہے، لہذا وہ مدح و ثنا کسی اور کی کرتا ہے نہ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی، کیونکہ اگر حجت کو نہ پہچانے تو اس نے اللہ اور رسولؐ کو پہچانا ہی نہیں۔
معرفتوں کا یہ سلسلہ اس قدر ایک دوسرے سے وابستہ ہے کہ اس سلسلہ میں انسان کسی ایک معرفت پر رُک نہیں سکتا، یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اللہ کو پہچان لیا تو کافی ہے یا اللہ اور رسولؐ کو پہچان لیا تو کافی ہے، بلکہ حجت تک کو پہچاننا ہوگا اور اگر حجت سے پہلے کسی مرحلے پر رک جائے تو اس نے کسی قسم کی معرفت حاصل نہیں کی، نہ نبیؐ کی اور نہ اللہ کی، کیونکہ ایسا شخص دین سے ہی گمراہ ہوگیا ہے تو کیسے نبیؐ یا اللہ کو پہچانتا ہے؟!
لوگ اللہ تعالیٰ کو اہل بیت (علیہم السلام) کے ذریعے ہی پہچان سکتے ہیں۔ انسانوں کو اللہ کی معرفت، اللہ کی اِن حجتوں کے ذریعے عطا ہوتی ہے۔ حجت جب لوگوں کو اللہ کی معرفت کروانا چاہے تو اللہ کے اذن و اجازت سے پہچنواتی ہے، لہذا حقیقت میں اللہ ہی پہچنوا رہا ہے اور لوگوں کو اپنی معرفت عطا فرما رہا ہے مگر اپنی حجت کے ذریعے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"بِنا عُرِفَ اللّهُ”، "اللہ ہمارے ذریعے پہچانا گیا”۔ [التوحید، ص۱۵۲] اللہ مستخلف عنہ ہے اور زمین پر اس نے اپنے خلیفے بنائے ہیں۔ اگر انسان مستخلف عنہ (جو خلافت دینے والا ہے اس) کو نہ پہچانے تو اس کے خلیفہ کو بھی نہیں پہچان سکتا، اور پھر اس کے بعد والے خلیفوں کو بھی نہیں پہچانے گا۔ اگر انسان اللہ کو نہ پہچانے تو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) جو اللہ کے خلیفے ہیں، انہیں بھی نہیں پہچانے گا اور اگر آنحضرتؐ کو نہ پہچانے تو آنحضرتؐ کے خلیفوں کو جو اللہ کی حجتیں ہیں ان کو بھی نہیں پہچانے گا۔
حضرت امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"مَنْ عَرَفَنِي وَ عَرَفَ حَقِّي فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ لِأَنِّي وَصِيُّ نَبِيِّهِ فِي أَرْضِهِ وَ حُجَّتُهُ عَلَى خَلْقِهِ لاَ يُنْكِرُ هَذَا إِلاَّ رَادٌّ عَلَى اَللَّهِ وَ رَسُولِهِ”، "جو شخص مجھے پہچانے اور میرے حق کو پہچانے تو یقیناً اس نے اپنے ربّ کو پہچانا ہے، کیونکہ میں اس کی زمین میں اس کے نبیؐ کا وصی ہوں اور اس کی مخلوق پر اس کی حجت ہوں، اس (حقیقت) کا انکار نہیں کرتا مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کو ردّ کرنے والا[توحید صدوق، ص۱۶۵، باب ۲۲، ح۲]۔
جو شخص اللہ کو پہچان لیتا ہے وہ یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اللہ کا نبی کیسا ہونا چاہیے، جب اللہ کے رسولؐ کو اللہ کی توحید کی روشنی میں پہچان لے تو تب سمجھ سکتا ہے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی جانشینی کے لئے کیسے افراد ہونے چاہئیں اور ان کے صفات کیا ہوں۔ جب رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے حقیقی جانشین کو پہچان لے تو دین کو پہچان لے گا اور دین کا معتقد ہوگا اور سچا دیندار بنے گا۔ ایسا شخص اللہ کے ولیّ کے خاص نائب اور عام نائب کو پہچان سکتا ہے اور حقیقی ولیّ اور اس کے جانشین کی ولایت سے تولّی کے ذریعے سعادت تک پہنچ سکتا ہے۔
معرفت امام کی کوشش کرنا
امام کو پہچاننے کے لئے کوشش کرنا اس لیے واجب ہے کہ کم از کم یہ احتمال ہے کہ امام ایسی شخصیت ہو کہ جس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر واجب ہو اور امور پر اس کی ولایت ہو اور قرآن کریم کا مفسِّر، احکام کو بیان کرنے والا اور لوگوں کے دین اور دنیا کا راہنما ہو۔
اس احتمال کی بنیاد پر ہماری عقل ہم پر ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ اس سلسلہ میں تحقیق کریں اور اسے پہچانیں اور اگر اس ذمہ داری میں ہم کوتاہی کریں اور ایسی شخصیت موجود ہو اور ہم اسے نہ پہچانیں تو اللہ تعالیٰ کے مواخذہ سے چھٹکارے کے لئے ہمارے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی۔ عقل اور ضمیر انسان کو مجبور کرتا ہے کہ اس احتمال کا تعاقب کرو تاکہ کسی نتیجہ تک پہنچ جاؤ۔
یہی طریقہ پیغمبر اور اللہ کی پہچان کے لئے کوشش کرنے کے بارے میں بھی جاری ہوتا ہے۔ کوئی شخص ایسے مسائل کے سامنے لاپرواہ نہیں ہوسکتا اور اس کے پاس ان سوالات کے لئے جواب ہونا چاہیے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد کے لئے کسی کو راہنما کے طور پر مقرر کیا ہے؟ اور اگر مقرر کیا ہے، مقرر ہونے والا شخص کون ہے؟ اگر انسان کو ان سوالات کی طرف کوئی متوجہ نہ کرے تو خودبخود یہ سوالات اس کے لئے پیش آئیں گے۔
اس کے علاوہ امام کی پہچان کے بارے میں قرآن کریم اور احادیث بھی نشاندہی کرتی ہیں، جیسے سورہ نساءکی آیت ۵۹ میں ارشاد الٰہی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ”، "اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں)”۔
واضح ہے کہ اس آیت کے مطابق، ولی امر کی اطاعت واجب ہے اور اور اطاعت پہنچان کے بغیر ناممکن ہے، لہذا امام کی معرفت واجب ہے، اسی لیے امام کی معرفت حاصل نہ کرنے اور اس بارے میں تحقیق اور چھان بین نہ کرنے کے لئے کسی شخص کے پاس کوئی حجت نہیں ہے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )امامت اور رهبریت کو انسانی معاشرے کےلئےنہایت ہی ضروری قراردیتہهوئےفرما تے ہیں:« ». من مات بغیر امام مات میتة جاهلیة ((مسند الشامیین ،ج ٢،ص ٤٣٨)
جو شخص بغیر کسی امام کے مرے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔دوسری روایت کو ابن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے یوں نقل کیا ہے۔
«من مات ولیس له امام مات میتة جاهلیة» . (مجمع الزوائد ، ج ٥، ص ٢٢٤)
جو شخص مرجائے اور اس کیلئے کوئی امام نہ ہو تو وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرا ہے۔
ان دونوں روایتوں میں امام کے وجود پرزور دیا گیا ہے ۔کوئی امام ہونا چاہئے تاکہ انسان کفر و جاہلیت کی موت سے بچ سکے اور وہ امام بھی ایسا ہونا چاہئے کہ جو اپنے پیرو کار کو کفروجاہلیت کی موت سے بچا سکے تو امام کا سب سے زیادہ عالم ہونا ضرور ی ہے کیونکہ علم ہی کی بناء پر وہ اپنے پیرو کار وں کو اچھائی کا حکم دے گا جو امام خود اچھائی اور برائی ،ہدایت و گمراہی کی تشخیص نہ کرسکے وہ کیسے کسی کو بچا سکے گا ۔یقینا خد ا کسی جاہل اور گمراہ کو امام نہیں بنائے گا۔
دوسری حدیث میں امام کی بیعت کو اہم قرار دیتےہوئےیوں فرمایا:«من مات ولیس فی عنقه بیعة مات میتة جاهلیة» . ((جامع الاصول ،ج ٤،ص ٧٨)
جو شخص مر ے در حالانکہ اس کی گردن پرکسی کی بیعت نہ ہو،وہ جاہلیت کی موت مرا ۔
یہ حدیث بتارہی ہے کہ انسان کی گردن پرکسی کی بیعت ہو وگرنہ وه کفر کی موت مرےگا!۔ یقینا یہ بیعت کسی جاہل ،ظالم او رفاسق کی نہیں ہوسکتی کیونکہ دین نہ صرف کسی ظالم و فاسق کی بیعت کا امرکرتا ہے بلکہ ان سے مقابلہ اور ان کی مخالفت کا حکم دیتا ہے۔ «فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ فقد استَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى‏ لاَ انْفِصامَ لَها
جو شخص بھی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبووط رسی سے متمسک ہو گیا جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے۔
بیعت کسی ایسے شخص کی ہو جو خود گناہوں میں غرق نہ ہو وگرنہ کسی معصیت کار کی بیعت قرآن و سنت کے رو سے باطل ہے ۔
ایک حدیث میں یوں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا :
«من مات ولا بیعة علیه مات میتة جاهلیة». ((طبقات الکبری ،ج ٥،ص ١١٠)
جو شخص مرجائے اور اس پر کوئی بیعت نہ ہو تو (گویا )وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔ایک حدیث میں بیعت کی جگه اطاعت کا ذکر آیا ہے ۔
«من مات و لا طاعة علیه مات میتة جاهلیة ». ((مجمع الزوائد،ج ٥،ص ٢٢٣،)
جو شخص مرجائے اور اس پر کسی کی اطاعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔یقینا یہ شخص کہ جس کی اطاعت کے بغیر انسان کفر کی موت مرتا ہے خدا کا ہی کوئی نمائندہ ہوگا ورنہ کسی گناہگار کی اطاعت ہی واجب نہیں بلکہ اس کی مخالفت واجب ہے ۔جب اس کی اطاعت ہی واجب نه ہوتو اس کی مخالفت کفرکی موت کیونکر بن سکتی ہے ؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اس بارےفرماتے ہیں :«لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق».خدا کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے ۔لهذا ایسا شخص اس حدیث کامصداق نهیں بن سکتا.
در اصل یہ احادیث کچھ پیغام دے رہی ہیں ۔پہلی والی حدیث میں کہا کسی امام کا وجود ضروری ہے دوسری قسم کی حدیث میں کہا کسی کی بیعت ضروری ہے ۔تیسری قسم کی حدیث میں کسی کی اطاعت کا ذکر ہوا اب چوتھی قسم کی حدیث کھل کے امام زمانہ کی معرفت کی طرف دعوت دے رہی ہے :«من مات ولم یعرف اما م زمانه ،مات میتة جاهلیة» . ((ینابیع المودة ،ص ٤٨٣)
جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرتاهے ۔
اس حدیث شریف کی رو سے ہر عاقل اور بالغ انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت اور شناخت حاصل کرے وگرنہ جاہلیت کی موت مرے گا لہٰذا هر انسان پر واجب ہے که وه زمانہ کے امام کو پہچاننے وگرنہ کفر کی موت مر جائے گا۔انسان کےبچنے کا راستہ ایک ہی ہے او ر وہ امام زمانه کی معرفت کا حصول ہے.
اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہمیں پہلے روایت میں موجود الفاظ کی طرف توجہ کرنی ہوگی مثلا یہ کلمہ کہ «میتة جاهلیة» (جھالت کی موت مرنا) اس سے کیا مراد ہے یعنی جاہل مرا ہے یا کچھ اور مراد ہے، اسے سمجھنے کے لیے جب ہم نے روایات کی طرف نظر کی تو ہمیں حضرت امام صادق(علیه السلام) کی ایک روایت ملی کہ جب کسی نے امام (علیہ السلام ) سے سوال کیا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و ٓلہ وسلم) کی اس حدیث میں جھالت کی موت سے کیا مراد ہے تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا:اس روایت میں جاہلیت سے مراد کفر و نفاق اور گمراہی کی موت ہے۔
اور اسی طرح مرحوم کلینی نے بھی اس روایت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جاہلیت سے مراد امام کا منکر ہونا ہے اور منکر ہونا یعنی کفر ہے اور یہ مرحلہ بہت سنگین مرحلہ ہے۔(الکافی ج 2، ص 209 و 208 ح3)
اب آتے ہیں روایت میں موجود اس كلمه «لم یعرف» کی طرف کہ اس سے کیا مراد ہے؟
معرفت سے مراد ظاہری معرفت نہیں ہے بلکہ اعتقاد کی بات ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر ہم بہت سی چیزوں کو نہیں دیکھتے تو کیا ہمیں ان کی معرفت بھی نہیں ہے جیسے ملائکہ اور دوسری موجودات ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ معرفت ظاہری معرفت نہیں بلکہ عقلی معرفت ہے ورنہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے ائمہ علیھم السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا پھر بھی ان کے پاس معرفت نہیں تھی کیونکہ ان کا اعتقاد نہیں تھا اور وہ کفر پر تھے۔
اسی وجہ سے علماء کا کہنا یہ ہے کہ معرفت سے مراد امام علیہ السلام کی امامت اور ولایت الہی پر اعتقاد ہے۔
اہل سنت کے مشھور عالم دین علامہ افندی کا کہنا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس حدیث پر تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے اور اس زمانے کے امام، مہدی صاحب الزمان (عج) ہیں کہ جو شہر سامرا میں متولد ہوئے اور وہ نبی کی وراثت اور وصایت اور امامت کے وارث ہیں اور حکمت الہی یہ ہے کہ یہ امامت کا سلسلہ تا قیامت باقی رہے، اسی لیے انہیں مصلحت کی بنیاد پر مخفی رکھا ہوا ہے ۔»[(من هو المهدى ص 9)
امام صادق (علیہ السلام) نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے روایت نقل کی کہ آپ نے فرمایا: جو بھی غیبت کے زمانے میں میرے فرزند حضرت قائم (عج) کا انکار کرے گا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔(منتخب الاثر فى امام الثانى ص 625)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیبت کے زمانے میں کیسے پہچانیں یہ ہمارے امام ہیں تو اسے سمجھنے کے لیے چند راستے بیان ہوئے ہیں، ہم مختصر طور پر ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1ـ نص: نص یعنى پیغمبر(صلى الله علیه وآله) کا واضح اور روشن اعلان۔
امامتِ امام عصر (عج) اور ان کا نام اور كُنیت اور صفات، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف سے جو ہم تک متواتر طریقے سے پہنچی ہے وہ تقریباً 6000 احادیث ہیں اور اسی طرح امام (عج) کا نام مبارک کہ جو تقریبا ً 145 تاریخی كتب میں ذکر ہوا ہے
2ـ معجزه: دوسرا راستہ معجزہ ہے۔ امام صادق(علیه السلام) سے کسی نے پوچھا کہ معجزہ کیا ہے تو آپ نے فرمایا: ایسا کام یا عمل کہ جسے خدا نے اپنے خاص بندوں کو عطا کیا ہے کہ جس کے ذریعے وہ خود کو خدا کے حقیقی نمائندے کہلوا سکیں اور وہ کام ان ہستیوں کے علاوہ کوئی اور انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔( علل الشرایع، ج 1، ص 122، باب 100)
اور یہ بھی واضح رہے کہ فرقین کی کتب میں امام عصر (عج) کے کئی معجزات نقل ہوئے ہیں۔
اور اس زمانے میں جو چیز ضروری ہے وہ امام (علیہ السلام ) کا وجود ہے کہ جس کی وجہ سے یہ کائنات باقی ہے اور اس پر عقیدہ رکھنا، معرفت کہلاتا ہے اور جو یہ عقیدہ نہ رکھے تو وہ جب مرے گا تو جاہلیت کی موت مرے گا۔( مؤسسه الرسالةج28، ص 88، ح16876)یہی وجہ ہے کہ امام صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا: خدا کے برگزیدہ افراد ہم ہیں اور ہماری اطاعت کرنا واجب ہے۔( المحاسن ج 1، ص 153)
پس ہم میں سے ہر انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنے زمانے کے امام کی معرفت رکھتے ہیں یا نہیں، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کہیں وہی کردار تو نہیں اپنا رہے کہ جو کل کربلا میں مسلمانوں کا کردار تھا وہ ظاہری طور پر تو مسلمان تھے لیکن رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس حدیث کی روشنی میں کافر تھے۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button