خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:140)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 18 مارچ 2022ء بمطابق 14 شعبان 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شب برات، شب نیمہ شعبان:
بعض احادیث کے مطابق پندرہ شعبان کی رات جسے شب برات(گناہوں سے بری ہونے کی رات) بھی کہا جاتا ہے، شب قدر کے بعد افضل ترین راتوں میں شمار ہوتی ہے اور اکثر شیعہ حضرات شب قدر کی مانند اس رات کو بھی شب بیداری اور عبادت کی حالت میں گزارتے ہیں۔ تصوف کے قائل اہل سنت حضرات بھی اس رات کی فضیلت کے قائل ہیں۔
احادیث میں پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین سے پندرہ شعبان کی رات شب بیداری اور عبادت انجام دینے کی بہت زیادہ سفارش ہوئی ہے۔ منجملہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جبرئیل نے پیغمبر اکرمؐ کو پندرہ شعبان کی رات نیند سے بیدار کیا اور نماز پڑھنے، قرآن کی تلاوت کرنے اور دعا و استغفار کی سفارش کی۔ (بحار الانوار ج98 ص413) ایک اور روایت میں آیا ہے کہ: پیغمبر اکرمؐ کی ایک زوجہ نے پندرہ شعبان کی رات آپؐ کے بارے میں خاص عبادتوں جیسے طولانی اور متعدد سجدوں کے انجام دینے کی خبر دی ہے۔امام علیؑ اور امام صادقؑ نے بھی اس رات خاص اعمال کی انجام دہی کی سفارش کی ہے۔
متعدد احادیث میں پندرہ شعبان کے دن اور رات کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے۔ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
• خدا کی خشنودى، بخشش، رزق و روزی اور نیكى کے دروازوں کا کھلنا؛
• انسان کے رزق و روزی کی تقسیم اور موت کا مقرر ہونا؛
• تمام انسانوں کی مغفرت سوائے مشرک، قمار باز (جواری)، قطع رحم كرنے والا، شراب خور اور وہ انسان جو گناه پر اصرار کرتا ہے۔
• شب قدر کے بعد افضل ترین رات؛

احادیث میں اس دن کی اہمیت کی ایک اہم وجہ خدا کی آخری حجت، منجی عالم بشریت حضرت امام مہدی(عج) کی ولادت با سعادت ذکر ہوئی ہے۔اسی مناسبت سے آج ہم عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی گفتگو کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
عصر حاضر کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ جو اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے درمیان خاص اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی کے دور غیبت میں ان کے شیعوں اور چاہنے والوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ہو کر آپ کے ظہور کے لیے زمین ہموار کریں۔ یہاں ہم ان ذمہ داریوں میں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنہیں ہمیں ایک منتظر ہونے کے عنوان سے انجام دینا ضروری ہے ورنہ ہم آپ کے سچے منتظر نہیں سو سکیں گے:
1: امام زمانہ کی معرفت
یہ حقیقت ہے کہ جب تک ہم امام زمانہ علیہ السلام کو نہیں پہچانیں گے، ان کی معرفت حاصل نہیں کریں گے ہر گز ان کے واقعی انتظار کرنے والے نہیں بن سکتے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک دن امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے مجمع میں داخل ہوئے اور خدا کی حمد و ثنا اور پیغمبر اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کے بعد فرمایا:
َ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ‏ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَا سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُهُ.( بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏5، ص: 312)
اے لوگو! خداوند عالم نے بندوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ اس کی معرفت حاصل کریں، جب اس کی معرفت حاصل کر لیں تو اس کی عبادت کریں اور جب اس کی عبادت کریں تو اس کے غیر کی عبادت سے بے نیاز ہو جائیں۔ ایک شخص نے عرض کیا: اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، اللہ کی معرف سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: ہر زمانے کے لوگوں کو اپنے اس امام کی معرفت حاصل کرنا جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔
اسی طرح رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ‏ مِيتَةً جَاهِلِيَّة (بحار الانوار، ج 8، ص 368
جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔
امام زمانہ کے دوران غیبت میں جن دعاوں کو پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ان کے مضامین کی طرف توجہ کرنے سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے ان دعاوں میں سے ایک معروف و مشہور دعا جو شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں نقل کی ہے پڑھتے ہیں:
ِ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي‏ نَفْسَكَ‏ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِيَّكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِي‏
خدایا! تو خود ہمیں اپنی معرفت دلا، اگر تو نے اپنی معرفت نہ دلائی تو ہم تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے، بارالہا! ہمیں اپنے نبی کی معرفت دلا، اگر تو نے اپنے نبی کی معرفت نہ دلائی تو ہم تیری حجت کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ پروردگارا! اپنی حجت کی معرفت دلا اگر تو نے اپنی حجت کی معرفت نہ دلائی تو ہم اپنے دین سے گمراہ ہو جائیں گے۔
2: ولایت اہلبیت علیہم السلام سے تمسک:
عصر غیبت میں امام علیہ السلام کا انتظار کرنے والوں کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ولایت ائمہ معصومین سے متمسک رہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
طُوبَى‏ لِشِيعَتِنَا الْمُتَمَسِّكِينَ بِحَبْلِنَا فِي غَيْبَةِ قَائِمِنَا الثَّابِتِينَ عَلَى مُوَالاتِنَا وَ الْبَرَاءَةِ مِنْ أَعْدَائِنَا (كمال الدين و تمام النعمة، ج‏2، ص: 361)
خوش نصیب ہیں ہمارے وہ شیعہ جو ہمارے قائم کے زمانے میں ہماری رسی سے متمسک رہیں،ہماری ولایت پر ثابت قدم رہیں اور ہمارے دشمنوں سے برات کرتے رہیں۔
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ ثَبَتَ‏ عَلَى‏ مُوَالاتِنَا فِي غَيْبَةِ قَائِمِنَا أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَجْرَ أَلْفِ شَهِيدٍ مِنْ شُهَدَاءِ بَدْرٍ وَ أُحُدٍ.
كمال الدين و تمام النعمة، ج‏1، ص: 323
جو شخص ہمارے قائم کی غیبت کے دور میں ہماری دوستی اور ولایت پر ثابت قدم رہے خداوند عالم ان ہزار شہیدوں کا اجر و ثواب اسے عطا کرے گا جو بدر و احد میں شہید ہوئے ہوں۔
3: انتظار فرج:
عصر غیبت میں مومنین کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اپنے امام کا شدت سے انتظار کریں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
أَفْضَلُ أَعْمَالِ أُمَّتِي انْتِظَارُ الْفَرَج‏
میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
أقْرَبُ مَا يَكُونُ‏ الْعِبَادُ مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَ أَرْضَى مَا يَكُونُ عَنْهُمْ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ جَلَّ وَ عَزَّ وَ لَمْ يَظْهَرْ لَهُمْ وَ لَمْ يَعْلَمُوا مَكَانَهُ وَ هُمْ فِي ذَلِكَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَمْ تَبْطُلْ حُجَّةُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَ لَا مِيثَاقُهُ فَعِنْدَهَا فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ صَبَاحاً وَ مَسَاء(الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏1، ص: 333)
اس وقت بندے اللہ سے نزدیک ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا جب اللہ کی حجت ان کے درمیان سے غائب ہو اور وہ اس کی جگہ کو نہ پہنچانتے ہوں اس کے باوجود وہ یہ یقین رکھتے ہوں کہ خدا کی حجت ہمارے درمیان سے نہیں اٹھی ہے۔ لہذا وہ صبح و شام اس کے ظہور کا انتظار کرتے رہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا:
سَيَأْتِي قَوْمٌ مِنْ بَعْدِكُمْ الرَّجُلُ الْوَاحِدُ مِنْهُمْ لَهُ أَجْرُ خَمْسِينَ‏ مِنْكُمْ‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ كُنَّا مَعَكَ بِبَدْرٍ وَ أُحُدٍ وَ حُنَيْنٍ وَ نَزَلَ فِينَا الْقُرْآنُ فَقَالَ إِنَّكُمْ لَوْ تَحَمَّلُوا لِمَا حُمِّلُوا لَمْ تَصْبِرُوا صَبْرَهُمْ.
( بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏52، ص: 130)
تم لوگوں کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جس میں سے ہر ایک شخص تم میں پچاس افراد کا ثواب کمائے گا۔ کہا: یا رسول اللہ! ہم جنگ بدر و احد اور حنین میں آپ کے ساتھ تھے اور ہمارے درمیان قرآن نازل ہوا ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: جو کچھ وہ تحمل اور برداشت کریں گے اگر تم کرنا چاہو تو ان جیسا صبر نہیں کر پاو گے۔
4: اصلاح نفس
منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ خود کی اصلاح کریں، اخلاق حسنہ اور صفات کمالیہ سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کریں۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
َ مَنْ‏ سَرَّهُ‏ أَنْ‏ يَكُونَ‏ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِر(الغيبة للنعماني، النص، ص: 200)
جو شخص چاہتا ہے کہ امام ہمارے قائم کے اصحاب میں سے ہو، اسے چاہیے کہ انتظار کرے، ورع اور پرہیز گاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپنائے پس ایسا شخص حقیقی منتظر ہو گا۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے ایک اور جگہ فرمایا: إِنَ‏ لِصَاحِبِ‏ هَذَا الْأَمْرِ غَيْبَةً فَلْيَتَّقِ اللَّهَ عَبْدٌ وَ لْيَتَمَسَّكْ بِدِينِهِ
(كمال الدين و تمام النعمة، ج‏2، ص: 343)
بتحقیق صاحب امر کے لیے ایک غیبت کا زمانہ ہو گا لہذا اللہ کے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنا ہو گا اور ان کے دین سے متمسک رہنا ہو گا۔
5: سماجی اصلاح
دوران غیبت میں مومنین کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ سماج اور معاشرے کی اصلاح بھی کریں۔اگر ہر انسان اس ذمہ داری کو سمجھ کر اپنے گھر سے شروع کرے تو یقینا سماج خود بخود سدھر جائے گا، معاشرے سے برائیاں ختم ہو جائیں گی اور نتیجۃ پورا معاشرہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔
امام باقر علیہ السلام نے دوران غیبت شیعوں کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
لِيُعِنْ قَوِيُّكُمْ‏ ضَعِيفَكُمْ‏ وَ لْيَعْطِفْ غَنِيُّكُمْ عَلَى فَقِيرِكُمْ وَ لْيَنْصَحِ الرَّجُلُ أَخَاهُ كَنُصْحِهِ لِنَفْسِه (بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏71، ص: 225)
تم میں سے صاحبان قدرت ضعیفوں کی مدد کریں، غنی اور مالدار فقیروں کی دستگیری کریں اور ہر انسان اپنے بھائی کو مفید نصیحت کرے۔
6-علماء و مبلغین کی ذمہ داری:
مندرجہ ذیل روایت اس سلسلے میں راہنمائی کرتی ہے تا کہ مبلغ اپنے اصلی راستے کو پہچانتے ہوئے زمانہ غیبت میں کامیاب ہوجائے اور "سب سے زیادہ بافضیلت عالم” کے قیمتی مقام تک اللہ کی بارگاہ میں فائز ہوجائے۔
حضرت امام حسن عسکری، حضرت امام علی النقی (علیہما السلام) سے نقل فرماتے ہیں:
لَوْلَا مَنْ‏ يَبْقَى‏ بَعْدَ غَيْبَةِ قَائِمِنَا مِنَ الْعُلَمَاءِ الدَّاعِينَ إِلَيْهِ وَ الدَّالِّينَ عَلَيْهِ وَ الذَّابِّينَ عَنْ دِينِهِ بِحُجَجِ اللَّهِ وَ الْمُنْقِذِينَ لِضُعَفَاءِ عِبَادِ اللَّهِ مِنْ شِبَاكِ إِبْلِيسَ وَ مَرَدَتِهِ وَ مِنْ فِخَاخِ النَّوَاصِبِ الَّذِينَ يُمْسِكُونَ قُلُوبَ ضُعَفَاءِ الشِّيعَةِ كَمَا يُمْسِكُ السَّفِينَةَ سُكَّانُهَا لَمَا بَقِيَ أَحَدٌ إِلَّا ارْتَدَّ عَنْ دِينِ اللَّهِ، أُولَئِكَ هُمُ الْأَفْضَلُونَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ.( الفصول المهمة في أصول الأئمة (تكملة الوسائل)، ج‏1، ص: 604)
"ہمارے قائم کی غیبت کے بعد اگر وہ علما باقی نہ رہیں جو لوگوں کو آنحضرت کی طرف بلائیں اور آنحضرت کی طرف راہنمائی کریں اور آنحضرت کے دین کا خدائی دلائل کے ذریعے دفاع کریں اور اللہ کے کمزور بندوں کو شیطان اور فاسقوں کی چالوں سے اور ناصبیوں کی کمین گاہوں سے نجات دیں، تو ہر کوئی خدا کے دین سے پلٹ جائے گا لیکن یہ علما ہیں جو کمزور شیعوں کے دلوں کی لگام کو مضبوطی سے پکڑ رکھتے ہیں جیسے کشتی کا ملاح، کشتی نشینوں کو مضبوطی سے سمبھالے رکھتا ہے، صرف یہی، اللہ عزوجل کی بارگاہ میں افضل ہیں”۔
امام علیہ السلام اس روایت میں گمراہی سے لوگوں کی نجات اور ہدایت کو علما کی جد و جہد پر منحصر فرماتے ہیں۔ ان علماءکی مندرجہ ذیل صفات ہیں:
۱۔ لوگوں کو امام زمانہ (علیہ السلام) کی طرف بلاتے ہیں: یہ ایسا مسئلہ ہے جو آجکل رفتہ رفتہ معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی بحثوں کی وجہ سے مدھم ہوگیا ہے اور بعض خود، آنحضرت کی یاد سے غافل ہوگئے ہیں، تو لوگوں کو آںحضرت کی طرف پکارنا کجا؟۔ اگر ہم لوگوں کو آںحضرت کی طرف پکاریں اور ان لوگوں کی "منتظر” کے طور پر تربیت کریں تو ہم نے ایسا معیار قائم کردیا ہے کہ ہر آدمی اپنے کردار، گفتگو اور افکار کو اس معیار کے مطابق سلجھا دے گا۔ جو شخص انتظار کی حالت میں زندگی بسر کرے وہ اپنے آپ کو یوں سدھارے گا کہ جب آنحضرت کا ظہور ہو، آسانی سے اپنی تمام خواہشات کو نظرانداز کرتا ہوا آمادہ ہوجائے گا اور عذر و بہانے کے بغیر سپاہی بننے اور جانثاری کے اشتیاق میں پھولے نہیں سمائے گا اور سبکدوش ہوتا ہوا آنحضرت کی طرف پرواز کرکے آپ کی آواز پر لبیک کہے گا۔ اس صفات کے حامل افراد، ہرگز دھوکہ، فریب، حرام خوری، ظلم و ستم، دغابازی، شہوت پسندی اور ہوس پرستی کے جال میں نہیں پھنستے اور مختصر الفاظ میں یوں کہا جائے کہ وہ شیطان کے فرمانبردار غلام نہیں بنتے۔ اس خصوصیت کے ساتھ انتظار کرنا، فائدہ مند ہے اور امت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہترین عمل شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ” أَفْضَلُ أَعْمَالِ أُمَّتِي انْتِظَارُ الْفَرَج "میری امت کا بہترین عمل، اللہ کی طرف سے فرج ہونے کا انتظار کرنا ہے”۔
۲۔ جن لوگوں کو آنحضرت کی معرفت نہیں ہے، یہ افضل علما کی ذمہ داری ہے کہ انہیں آنحضرت کی طرف راہنمائی کریں۔ عالمی سطح پر نجات دینے والے اور اصلاح کرنے والے کا ظہور تمام ادیان کی نظر میں متفقہ مسائل میں سے ہے۔ اسلام میں بھی نجات دینے والے کا ظہور جس کا نام مہدی ہے اور حسن کا فرزند ہے، یقینی حقائق میں سے ہے اور اہلسنت کے بہت سارے مآخذ میں یہ بات واضح طور پر بیان ہوئی ہے اور اگر اسلامی مذاہب کے درمیان کوئی شبہ ہے تو وہ مصداق کے لحاظ سے ہے۔ ہم شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت زندہ ہیں اور زمین پر خدا کی حجت ہیں، لیکن دیگر اسلامی مذاہب آنحضرت کی پیدائش اور قیام کرنے کی انتظار میں ہیں۔ انہی باتوں کو واضح کرنا اور آنحضرت کی شخصیت، آپ کی مدت حیات، آپ کا شیعوں کے اعمال و کردار پر ناظر ہونا اور کائنات پر حجت خدا کے وجود کے اثر وغیرہ کے سلسلے میں گفتگو کرنا، یہ سب لوگوں کی حجت الہی کی طرف راہنمائی ہے۔
۳۔ دین کا دفاع: غیبت کے دور میں آنحضرت کے دین کا دفاع کرنا افضل علما کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ہے۔ وہ خدائی دلائل کے ذریعے اللہ کے دین کا دفاع کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص الہی دلائل کو حاصل کرنا چاہے اور اس ذریعے سے اللہ کے دین کا دفاع کرنا چاہے تو ثقلین کے مکتب میں اسے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
۴۔ شیعوں کو فسادات سے بچانا: وہ علماء زیادہ بافضیلت ہیں جو زمانہ غیبت میں شیعوں کو شیطان اور فاسقوں کی جالوں سے بچانے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اپنی پوری توانائیوں کے ذریعے فسادات اور گناہوں میں ان کے آلودہ ہونے کی روک تھام کرتے ہیں۔ چونکہ ہمدرد علماء آیات قرآن اور روایات کی بنیاد پر، فساد و بھلائی کا اور اسی طرح مفاسد اور مصلحتوں کا فرق سمجھ سکتے ہیں، لہذا شیطان اور اسکے فاسق حامیوں کی صفوں کے مقابلے میں کھڑے ہوسکتے ہیں اور ضلالت و گمراہی کی خطرناک جگہوں سے لوگوں کو آگاہ کرسکتے ہیں تا کہ وہ شیطان کے دھوکے کے جالوں میں پھنس نہ جائیں۔
۵۔ اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمنوں سے مقابلہ: بافضیلت ترین علما کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری، اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کی شرارتوں کے مقابلہ میں کھڑا ہونا ہے۔ اس دور میں وہابیت جو پورے زور کے ساتھ شیعہ کے مقابلہ میں کھڑی ہے، اس کی کوشش ہے کہ عالمی طاقتوں کے مقاصد کے لئے تشیع کو کمزور کردے اور مولویوں کی تعلیمات میں ایک اہم چیز جس پر بہت زور دیا جاتا ہے، شیعہ سے مخالفت ہے۔ ان کے تمام اہل سنت کی نظر میں جو خطرناک اور دھتکارے ہوئے عقائد ہیں، دنیابھر کے مختلف علاقوں میں تیزی کے ساتھ پھیلتے جارہے ہیں اور ان کی تمام تر کوشش اہل سنت کو شیعوں سے الگ کرنا ہے تا کہ وہ ایک تو رفتہ رفتہ تشیع کے برحق معارف سے متاثر نہ ہوتے چلے جائیں اور دوسرا یہ کہ اہل سنت کا شیعوں سے مقابلہ کرنے کا راستہ ہموار ہوجائے۔ اگر کسی زمانے میں اہل سنت شیعوں کے ساتھ امام بارگاہوں میں حضرت سیدالشہدا حسین بن علی (علیہما السلام) کی عزاداری کے لئے اکٹھے ہوتے تھے اور کثرت سے امام کی زیارت کے لئے مشرف ہوتے تھے تو وہابیوں کی مذموم سرگرمیوں کے تحت دو مذاہب کے اجتماع کی ان جگہوں پر حملے ہوئے ہیں اور ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ دن بدن ان کے درمیان تفرقہ بڑھاتے جائیں۔ وہابی تحریکوں کی بیرون ملک سے مسلسل پشت پناہی کی جاتی ہے اور وہابیوں کی طرف سے ان اہل سنت افراد کو جو شیعوں کی مجالس میں آتے ہیں، پہلے دھمکی دی جاتی ہے اور اس کے بعد بے تحاشا تعاون جو اہل سنت کے لئے بالکل سیاسی مقاصد سے بھیجا رہا ہوتا ہے، اسے بند کردیا جاتا ہے۔ اس کشمکش میں شیعہ علماء، اہل بیت (علیہم السلام) کے حتی ان فضائل کو بیان کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جو اہل سنت کی کتب صحاح ستہ میں ذکر ہوئے ہیں اور انہوں نے محروم شیعوں کو اہل بیت (علیہم السلام) کے بے رحم دشمنوں کے سامنے چھوڑ دیا ہے۔افضل علماء ہرگز ایسے حالات کو برداشت نہیں کرتے اور شیعوں کے دلوں کی ہدایت کے لئے، عالمانہ انداز میں، مضبوط تدبیر اور پختہ ارادہ کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ کریں تو سب لوگ اللہ کے دین سے پلٹ جائیں گے۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button