اولاد معصومینؑشخصیات

روزِ جوان کی مناسبت سے علی اکبر علیہ السلام کا پیغام، جوانوں کے نام

مولانا فداحسین ساجدی
حضرت علی اکبرؑ کی شان و منزلت اور ان کے فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ اس پر قلم اٹھانا مجھ جیسے ناچیز کی بس کی بات نہیں لہٰذاعلی اکبرؑ کی زندگی، سیرت اور نورانی کلمات سے درس لیتے ہوئے جوانوں کے لئے کچھ پیغام بیان کریں گے۔
1.نیک اخلاق
علی اکبرؑ کے بارے میں امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اشبہ الناس خَلقاوخُلقاومنطقابرسولک (مقتل لہوف،سید ابن طاووس)۔ آپ اخلاق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے سب سے زیادہ شبیہ تھے۔ معصوم کی باتوں میں مبالغہ نہیں ہوتااور حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی اکبرؑ کا اخلاق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کی مانند تھا جبکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے اخلاق کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے ۔و انّك لعلٰى خُلُقٌ عظيم(القلم،4)آپ اخلاق عظیم مرتبت پرفائزہے۔
ہمارے جوانوں کو حضرت علی اکبرؑ کی سیرت سے درس لیتے ہوئے نیک اخلاق کا مالک ہونا چاہیے۔
2.بصیرت
بصیرت کا مطلب حق اور باطل میں پہچان کی قوت ہے اور صحیح معنوں میں درک و معرفت کے معنی میں بھی آیا ہے۔اس ظلم و بربریت،فساد و ناانصافی کے اندھیرے اور غبار آلود دور میں دین حق پر ثابت رہنے کا واحد ذریعہ بصیرت ہے۔
دین مخالف عناصر کی طرف سے ہونے والے شبہات کے مقابلے میں اگر ہمارے جوانوں کے پاس بصیرت کی قوت نہ ہو تو ان کا دین، اخلاق اور ایمان بچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
حضرت علی اکبرؑ کی زندگی سے جو درس جوانوں کو ملتا ہے وہ بصیرت کا درس ہے۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ بنی مقاتل کے مقام پر حضرت امام حسینؑ کی آنکھ لگ گئی۔ کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو آپ انّا لله و انّا الیه راجعون و الحمد لله ربّ العالمین کی تکرار کرتے ہوئے بیدار ہوئے تو حضرت علی اکبرؑ نے اس کا سبب دریافت کیا تو امامؑ نے جواب میں ارشاد فرمایا:
"اے بیٹے! مجھے اونگھ آ گئی تو میں نے ایک سوار کی صدا سنی وہ کہہ رہا تھا:یہ قوم سفر کر رہی ہے اور موت ان کے پیچھے پیچھے ہے۔ اس کی اس بات سے میں سمجھ گیا کہ موت ہمیں پا لے گی۔علی اکبرؑ نے سوال کیا: اللہ آپ کو ہر بدی سے بچائے! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ امامؑ نے جواب دیا: حق اسی کے ساتھ ہے جس کی طرف سب بندگان خدا کو جانا ہے۔علی اکبرؑ نے کہا: جب حق پر قائم ہیں تو ہمیں موت سے کوئی باک نہیں ہے۔امامؑ نے یہ جواب سن کر علی اکبرؑ کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: خدا وند کریم باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کو بہترین اجر عطا فرمائے”۔(الارشاد،شیخ مفید،ج 2)
3.صبر اور استقامت
عام حالات میں دیندار اور مذہبی افراد کی تعداد میں کمی نہیں ہوتی۔جب سخت اور کٹھن مرحلہ آتا ہے اور کسی سخت آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے تو گنے چنے افراد ہی راہ حق پر گامزن اور ثابت قدم رہ سکتے ہیں۔
حضرت علی اکبرؑ کی زندگی کا سب سے بڑا پیغام صبر اور استقامت ہے۔آپ نے اپنی مختصر زندگی میں صبر و استقامت کا ایسا جوہر دکھایا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ نے اپنی جان اسی راہ میں نچھاور کرنے کے ساتھ ساتھ تیرو تلوار کی بارش میں آپ نے دشمن کو تہس نہس کرنے کے علاوہ اپنے رجز کے ذریعے لوگوں کو حق شناسی کا بھی درس دیا۔
اگر چہ ہمارے جوان جنگی محاذ پر نہیں ہے لیکن ثقافتی یلغار ،فکری و ذہنی شبہات، نفسیاتی اور اخلاقی تنزلی کے اعتبار سے شدید حملہ کے زد میں ہیں۔لہذا اس میدان میں علی اکبرؑ کی سیرت سے درس لیتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیےاور صبر سے دشمنوں کو شکست دینے کی ضرورت ہے۔
4- شجاعت اور بہادری
شجاعت اور بہادری صرف لڑائی میں کامیابی کا نام نہیں بلکہ شجاعت اور بہادری کا بہترین نمونہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور شیطان کے مقابلے میں جیت سکے۔حضرت علی اکبرؑ نے ظاہری طور پر جام شہادت نوش کیا لیکن کربلا کے میدان میں نفس امارہ، شیطان اور شیطان صفت انسان نما درندوں کو ایسی فاش شکست دی کہ رہتی دنیا تک یہ عظیم کار نامہ تمام انسانوں کے لئے نمونہ عمل بن سکتا ہے۔
اس وقت بھی ہمارے جوانوں کی تربیت اور اصلاح میں کامیابی کے لئے ان کو شجاع اور بہادر ہونے کی ضرورت ہے۔نفس اور شیطان کے مقابل میں شجاعت وبہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرنے اور اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر جوان حضرت علی اکبرؑ کی مذکورہ سیرت وکردار کی جانب توجہ دے تو وہ بھی ایک صالح اور بابصیرت انسان بن سکتے ہیں اور معاشرے میں اپناتعمیری واصلاحی کردار ادا کرتے ہوئے دنیا وآخرت دونوں کی سعادت وکامیابی حاصل کرسکیں گے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button