شہادت مظلومانہ حضرت سکینہ بنت الحسینؑ
بیٹیاں اپنے باپ سے محبت کو سننا اور محسوس کرنا چاہتی ہیں، بیٹیاں باپ کی محبت کو چاہتی ہیں ، اس محبت کی کمی کو ماں پورا نہیں کر سکتی۔ ماں بچی کو تحفظ دیتی ہے ،باپ ان کو خود اعتمادی دیتا ہے۔ باپ اور بیٹی میں محبت کا ایک خاص تعلق ہوتا ہے۔ دن میں چند گھنٹے ایسے ضرور ہوتے ہیں کہ بیٹیاں اپنے باپ کی غیر موجودگی کو محسوس کرتی ہیں۔باپ اپنی بیٹیوں کیلئے ایک تناور درخت کی طرح ہوتا ہے جس کے سائے میں وہ پرورش پاتی ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کو بھی اپنی اولاد خصوصاً اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ سکینہ سلام اللہ علیہا سے ایسی ہی محبت تھی،حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ سکینہ میری نمازِ شب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
واقعہ کربلا میں جہاں خانوادہ امام حسین علیہ السلام کے ہر فرد نے امام عالیمقام کی قیادت میں اس جہاد میں حصہ لیا ، وہاں خواتین اور بچے، بچیوں نے بھی امام حسینؑ کی پیروی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی، امام حسین علیہ السلام کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ سکینہ کی سرکردگی میں میدان کربلا میں موجود طفلان نے جس استقامت اور صبر کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔
جب امام حسینؑ جہاد کے لیے کربلا جا رہے تھے تو آپ ذوالجناح کے سموں سے لپٹ گئیں۔ امام حسینؑ نے سبب پوچھا تو عرض کیا:
میں آپ کے روئے مبارک پر ایک نظر ڈال کر اپنے سفر الم ناک کے لیے اس چہرے کے تصور کو زاد راہ بنانا چاہتی ہوں، تا کہ اس صابر چہرے کا تصور میرے لیے مصیبت انگیز سفر میں سرمایۂ تسکین بن سکے۔
حضرت سید الشہد اء امام حسین علیہ السلام کی سب سے لاڈلی بیٹی حضرت سکینہ،آپ واقعہ کربلا کی عینی شاہد ہیں اور آپ کو خاندان عصمت کے ساتھ اسیری کی حالت میں کوفہ اور شام لے جایا گیا اور بعد ازاں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ماہ صفر المظفر کو زندان شام میں شہید ہو گئیں۔
کربلا کا ذکر ہو اور بی بی سکینہ کا ذکر نہ ہو، یہ نہیں ہو سکتا۔ ہمارے لاکھوں سلام اس معصومہ پر جو عاشورا کے دن ڈھلنے تک اپنے سے چھوٹے بچوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتی رہی کہ ابھی عمو عباس پانی لائیں گے۔ معصوم کو کیا خبر تھی کہ اس کے عمو تو آج نہر کے کنارے اپنے بازو کٹائیں گے ۔
عصرِ عاشورا سے پہلے جنابِ عباسؑ کی شہادت کے بعد سکینہ خاموش ہو گئی اور پھر موت کے وقت تک پانی نہ مانگا کیونکہ سکینہ کو آس تھی کہ چچا عباس ہی پانی لائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہادتِ جنابِ عباس علمدارؑ کے بعد العطش العطش (ہائے پیاس ہائے پیاس) کی صدائیں نہیں آئیں۔ مقتل میں لکھا ہے کہ جب 11 محرم 61 ہجری کو آلِ اطہار کو پابندِ سلاسل کر کے بازاروں سے گزارا گیا تو اس معصوم کو سب سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی، کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام اور پھر زندانِ شام کہ آخری آرامگاہ بھی وہی قید خانہ بن گیا۔
سکینہ بنت الحسینؑ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور والد گرامی کی شہادت کے بعد اسراء کربلا کے ساتھ آپ کوفہ اور شام اسیر بنا کر لے جائی گئی۔ آپ نے اپنے باپ سے روایت بھی نقل کی ہے۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق سکینہ بعض عرب شاعروں کے اشعار کی اصلاح کرتی تھی اور حضرت امام حسینؑ کے لیے بعض مرثیے بھی آپ نے پڑھے ہیں۔
آپ کی جائے دفن کو مدینہ، مصر اور دمشق لکھا گیا ہے۔ بعض منابع میں غزل خوانی اور شاعری کی نسبت آپ کی طرف دی ہے البتہ ایسی نسبت کو جعلی اور دشمن اہل بیت کی طرف سے لگائے گئے الزامات قرار دیا ہے اور اسی طرح سے آپ اور سکینہ بنت خالد کے درمیان اشتباہ کو ایسے الزام کا باعث قرار دیا ہے۔
حالاتِ زندگی:
سکینہ بنت امام حسینؑ ،رباب بنت امرؤ القیس سے تھی۔ آپ کا نام آمنہ، امینہ اور امیمہ ذکر ہوا ہے اور کہا گیا ہے کہ سکون،آرامی اور وقار کی مالک تھیں، اس لیے ماں نے انہیں سکینہ کا لقب دیا تھا۔
تاریخی کتابوں میں آپ کی تاریخ ولادت معین نہیں ہے لیکن انہیں اپنی بہن فاطمہ سے چھوٹی ہونے کا کہا گیا ہے۔
حضرت امام حسینؑ سکینہ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے بعض مآخذ میں ان کی اس محبت کی عکاسی کرتے ہوئے منقول ہے کہ امامؑ نے حضرت سکینہ کی محبت میں درج ذیل اشعار کہے ہیں:
لعمرک انّنی لاُحبّ داراً تکون بها سکینه و الرّباب
أحبّهما و أبذل جلّ مالی و لیس لعاتب عندی عتاب
ترجمہ:تمہاری جان کی قسم ! میں اس گھر کو زیادہ چاہتا ہوں جس میں سکینہ اور رباب ہوں، ان دونوں کو چاہتا ہوں اور اپنے مال کو اس راستے پر خرچ کرتا ہوں اور کوئی اس میں میری سرزنش نہیں کر سکتا۔
کربلا میں موجودگی:
مقاتل کی کتابوں کے مطابق سکینہ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور انہی منابع کے مطابق روز عاشورا، حضرت امام حسینؑ میدان جنگ سے آخری مرتبہ خدا حافظی کیلئے آئے اور ان سے وداع کیا پھر سکینہ کے پاس گئے جو خیمہ کے ایک کونے میں گریہ کر رہی تھیں، آپ نے ان سے صبر کرنے کا کہا اور گود میں لیا ان کی آنکھوں سے آنسوں صاف کیے اور یہ اشعار پڑھے:
سیطول بعدی یا سکینة فاعلمی منک البکاء اذا الحمام دهانی
لا تحرقی قلبی بدمعک حسرة مادام منی الروح فی جثمانی
فاذا قتلت فانت اولی بالذی تبکینه یا خیرة النسوان
ترجمہ:اے سکینہ ! جان لو کہ میرے بعد تمہارا گریہ زیادہ طولانی ہو گا۔ پس جب تک تمہارے باپ کے جسم میں جان ہے، اپنی ان حسرت بھری آنکھوں کے آنسوؤں سے ان کا دل مت جلاؤ۔ اے خیر النساء ! میرے مرنے کے بعد اب رونا تمہارے لیے صحیح ہے۔
اسیری کے ایام:
واقعۂ عاشورا کے بعد حضرت سکینہ بھی دیگر اسرائے آل محمد کے ساتھ اسیر ہو کر کربلا سے کوفہ اور شام گئیں۔ صحابی پیغمبر اسلام سہل ابن سعد ساعدی سے روایت ہوئی ہے کہ:جب اسراء شام میں باب الساعات پر پہنچے تو ایک بچی کو دیکھا جو بے کجاوہ اونٹ پر سوار تھی، اس نے اپنا سکینہ بنت الحسین کے نام سے تعارف کرایا اور مجھے کہا کہ کسی طرح سے خاندان رسالت کی حرمت کی پاسداری کے لیے کچھ کروں تا کہ شہدائے کربلا کے سروں کو نیزوں پر اٹھائے ہوئے نیزہ بردار، اسراء سے کچھ دور چلے جائیں۔ سہل کہتا ہے کہ میں نے کچھ دینار دیکر ان کو کچھ دور کر دیا۔
بعض منابع میں سکینہ سے دمشق میں ایک خواب نقل ہوا ہے کہ جس میں پیغمبر اکرمؐ بعض دیگر انبیاء کے ہمراہ اور فاطمہ زہرا کچھ بہشتی خواتین کے ہمراہ امام حسین کا خونی قمیص ہاتھ میں لیے ہوئے کربلا جا رہے ہیں۔
سماجی، علمی اور معنوی خصوصیات:
حضرت سکینہ کو اپنے زمانے کی سب سے نیک، عاقل، خوبصورت، متقی، عقلمند، خوش اخلاق بچی شمار کیا جاتا تھا۔
فضل و کمال میں اس حد تک پہنچی ہوئیں تھیں کہ امام حسینؑ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا:
وہ اکثر ذات حق میں غرق رہتی ہے ۔
سکینہ اور ان کی بہن فاطمہ دونوں انکے والد گرامی امام حسینؑ سے روایت نقل کرنے والے راویوں میں سے شمار ہوتی ہیں۔اور عبید اللہ ابن ابی ارفع، فائد مدنی، سکینہ دختر اسماعیل ابن ابی خالد اور سکینہ دختر قاضی ابی ذر نے آپ سے روایت کو نقل کیا ہے۔
اسی طرح عربی ادب اور اشعار پر بھی آپ کو کمال کا عبور حاصل تھا اور گزارشات میں آیا ہے کہ آپ نے واقعہ کربلا کو شعر کے قالب میں اور امام حسین کے بارے میں مرثیے آپ کے مشہور ہیں اور مندرجہ ذیل اشعار بھی انہی اشعار میں سے ہیں:
لا تعذلیه فهم قاطع طرقه فغینه بدموع ذرف غدفه
ان الحسین غداة الطف یرشقه ریب المنون فما ان یخطی الحدقه
بکف شر عبادالله کلهم نسل البغایا و جیش المرق الفسقه
یا امة السوء هاتوا ما احتجاجکم غذا و جلکم بالسیف قد صفقه
ترجمہ:جو راستے سے بھٹک گیا ہے، اس کی مذمت نہ کرنا، کیونکہ آنکھوں سے اشک بہت جاری ہوتے ہیں۔ عاشورا کے دن ایک تیر امام حسین کی جانب چلا جو کبھی خطا نہ کر جاتا اور امام سجاد کی انکھوں سے کبھی دور نہیں ہوتا۔ یہ کام ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پایا جو بد ترین لوگ، حرامزادے اور دین سے خارج تھے۔ اے بد ترین لوگ قیامت میں دلیل قائم کرو جبکہ تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ تم سب نے تلوار سے اسے قتل کیا ہے۔
بعض اہل سنت کی کتابوں میں سکینہ بن الحسینؑ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں نسبت دی گئی ہیں کہ دوسری طرف کے مورخین انہیں رد کرتے ہیں۔
ابو الفرج اصفہانی نے ان ناروا نسبتوں کو زبیر ابن بکار کے توسط سے نقل کیا ہے جو بنی ہاشم سے دشمنی میں مشہور تھا۔
اسی طرح اس روایت کی سلسلہ سند میں عم سخت عداوت رکھتا تھا۔ نقل ہوا ہے کہ متوکل کے زمانے میں جب لوگوں نے اہل بیت سے متعلق اس طرح کی جھوٹی حکایتیں منسوب کرنے والے کو قتل کرنا چاہا تو وہ مکہ سے فرار ہو کر بغداد میں چلا گیا۔ اس کے علاوہ ان روایات کے سلسلۂ سند میں عمر ابن ابی بکر مؤملی بھی موجود ہے کہ جو روایات نقل کرنے میں اس حد تک ضعیف ہے کہ بعض اہل سنت علماء بھی اسکی روایات قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔یہاں تک کہ اسے فتنوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کی طرف نسبت دیئے جانے والے بہت سے اشعار حقیقت میں سکینہ بنت خالد ابن مصعب زبیری کے ہیں۔ جس کی عمر ابن ابی ربیعہ سے ملاقتیں اور بلوائے عام میں شعر و شاعری کا چرچا مشہور و معروف ہے۔ یوں صرف نام ایک جیسا ہونے کی وجہ سے بعض نے غلطی یا جان بوجھ کر بہت سے اشعار آپ کی جانب منسوب کر دیئے گئے ہیں، حالانکہ وہ حقیقت میں سکینہ بنت خالد ابن مصعب زبیری کے تھے۔
اسی طرح بہت سارے عمومی اجتماعات جن کی نسبت آپ کی طرف دی گئی ہے وہ بھی حقیقت میں مصعب ابن زبیر کی بیوی عائشہ بنت طلحہ ابن عبید اللہ کی سرپرستی میں برقرار ہوتی تھیں کہ جو عمر ابن ربیعہ کے ہمراہ شعر و شاعری اور غزل سرائی میں شہرت رکھتی تھی۔
https://valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1772