سیرتسیرت امام جعفر صادقؑ

حضرت امام جعفر صادقؑ کی علمی خدمات

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

بنی نوع انسان کو  کتاب و حکمت کی تعلیم دینا رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقاصد بعثت میں سے ایک اہم مقصد ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :” هوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ، وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۔”
یعنی وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔
(سورہ جمعہ آیت : 2)
واضح رہے کہ انسان دنیا میں تعلیم سے لیس اور آراستہ ہو کر نہیں آتا بلکہ یہاں آ کر سیکھتا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار معلم و مربی انبیاء ومرسلین کی شکل میں بھیجے، چنانچہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں یعنی آپ پر نبوت و رسالت کا خاتمہ ہوا، لہذا آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا، یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں سے انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو ہر آن اور ہر لمحہ ہدایت و رہبری کی ضرورت ہے اگر کہیں اس کی ہدایت کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو وہ گمراہی کی راہوں میں بھٹک جائے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے سب سے پہلے فرد کو ہادی و رہنما بنا کر بھیجا ہے لہذا جب تک دنیا میں انسان باقی ہے ہادی و رہنما بھی رہے گا۔
چنانچہ ہمارے عقیدے کے مطابق اللہ تعالی نے صرف نبوت و رسالت کے سلسلے کو ختم کیا ہے ہدایت کے سلسلے کو موقوف نہیں کیا بلکہ اسے امامت کی صورت میں جاری رکھا، قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں نبوت و رسالت کے سلسلے کو ختم کرنے کا اعلان فرمایا ہے ہدایت و رہبری کے سلسلے کو ختم کرنے کا اعلان نہیں فرمایا، اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد آئمہ اہل بیت علیہم السلام کو امت کی ہدایت و رہبری کے لیے معین کیا تاکہ قیامت تک آنے والے لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم ملتی رہے، دوسرے لفظوں میں کتاب و حکمت کی تعلیم کے تسلسل کا نام امامت ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ امام وحی کے علاوہ باقی تمام صفات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ شریک ہوتا ہے، لہذا وہ اللہ کی طرف سے منتخب شدہ، گناہوں سے پاک، اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے زیادہ جاننے والا اور سب سے زیادہ شجاع و بہادر ہوتا ہے، چنانچہ ہمارے نزدیک آئمہ اہل بیت علیہم السلام پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی جانشین اور خلیفہ ہیں، اگرچہ دنیا پرست لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول لیے ان معصوم ہستیوں کو کھل کر لوگوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینے اور امامت کے فیوض و برکات کو دنیا والوں تک پہنچانے کا موقع نہیں دیا لیکن اس کے باوجود ان ہستیوں نے جب بھی موقع ملا اپنے علمی فیوضات سے دنیا کو مستفید کیا، یعنی ہر امام نے جس قدر ممکن ہوسکا ظلم و ستم اور قید و بند کی فضاؤں میں بھی فرائض امامت کو انجام دیا ہے، البتہ اس حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام کو اپنے دور امامت میں ایسا موقع میسر آیا کہ جس میں آپ نے کسی حد تک کھل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقصد حیات یعنی کتاب و حکمت کی تعلیم کو فروغ دیا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کو اپنی 65 سالہ زندگی میں سے تقریباً 12 سال اپنے دادا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور 19 سال اپنے والد ماجد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے زیر سایہ گزارنے کا موقع ملا اور اس کے بعد اپنی امامت کے 34 سال میسر آئے، اس دوران کچھ عرصہ آپ نے اپنے علمی فیوضات سے دنیا کو مستفید کیا کیوں کہ اس دوران بنی امیہ اپنے زوال کے دن گزار رہے تھے لہذا وہ اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر میں لگے ہوئے تھے اور بنی عباس اپنے عروج کے دن گزار رہے تھے لہذا وہ اپنے اقتدار کو مظبوط کرنے میں لگے ہوئے تھے، چنانچہ ان دونوں خاندانوں کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام کو قدرے آذادی ملی ، آپ نے اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مکتب اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت کا اہتمام کیا، چنانچہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور کوفہ میں مسجد کوفہ کو درس گاہ میں تبدیل کر دیا جس میں دنیا بھر سے تشنگان علم و حکمت اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے آگئے، یوں لگ بھگ چار ہزار شاگردوں نے امام عالی مقام سے کسب فیض کیا، جن میں غیر مسلم بھی شامل تھے۔
تاریخ و سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی یعنی دنیا کے کسی بھی اْستاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا، آپ کا علم نسل در نسل آپ کے سینے میں منتقل ہوا جس سے ثابت ہوا کہ امام صادق علیہ السلام نے جس علم کی روشنی دنیا میں بکھیری وہ دراصل عِلمِ مصطفوی و مرتضوی ہی ہے، چار ہزار سے زائد شاگردوں نے بیک وقت اور ایک ہی دور میں آپ کی بارگاہ سے کسب فیض کیا۔
چنانچہ جن علوم کی تعلیم آپ کی درسگاہ میں دی جاتی ان میں فقہ کے علاوہ ریاضی، فلکیات، فزکس، کیمسٹری سمیت تمام جدید علوم شامل تھے، آپ کی درسگاہ کے فیض سے جہاں قدیم علوم کا احیاء ہوا وہاں جدید علوم کی بھی بنیاد رکھی گئی، جس سے مسلمانوں میں نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں، حقیقت میں سب سے پہلے جس ہستی نے اسلامی دنیا میں عقلی و فکری مدارس کی بنیاد رکھی، وہ آپ تھے آپ کے شاگردوں کا حلقہ فقط فقہی مذاہب کی تاسیس تک محدود نہیں تھا بلکہ علوم عقلی کے طلاب بھی آپ کے شاگرد تھے جو دنیا میں گوشہ و کنار سے آپ کی خمدمت میں حصول علم کے لیے آئے تھے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے گراں قدر بیانات و فرمودات اور ارشادات نے جہالت، گمراہی اور ضلالت کے پردوں کو چاک کر دیا، آپ نے پیغمبر اسلام کے الہامی و آفاقی دستور حیات کو لوگوں کے سامنے اس طرح پیش فرمایا کہ لوگ جوق در جوق آپ کے حلقہ درس میں شریک ہوتے گئے چنانچہ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم ، ابان بن تغلب ، ہشام بن سالم ، مفصل بن عمر اور جابر ابن حیان کا نام خاص طور سے لیا جا سکتا ہے، ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیدا کیا، مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اور جابر بن حیان نے بہت ساری کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں، جابر بن حیان بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں، الجبرا کے بانی ابو موسی الخوارزمی نے بھی بالواسطہ امام جعفر صادق کی تعلیمات سے فیض حاصل کیا۔
اہل سنت کے چاروں مکاتب فکر کے امام بلا واسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر ابو حنیفہ نے تقریباً دو سال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا، چنانچہ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے ابو حنیفہ کہتے ہیں : میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ عالم کسی اور شخص نہیں دیکھا، ایک اور مقام پر ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا : لولا سنتان، لھلک النعمان، یعنی اگر امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی میں گزارے گئے دو سال نہ ہوتے تو نعمان ( ابو حنیفہ ) ہلاک ہو جاتا۔
مالک بن انس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں ایک مدت تک جعفر ابن محمد کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کیا کرتا تھا آپ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے ہمیشہ آپ کے لبوں پر تبسم رہتا تھا، میں نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث بیان کی ہو اور وضو سے نہ ہوں، میں جب تک ان کے پاس آیا جایا کرتا تھا میں نے نہیں دیکھا کہ وہ ان تین حالتوں سے خارج ہوں: یا وہ نماز پڑھتے رہتے تھے، یا قرآن کی تلاوت کر رہے ہوتے تھے یا پھر روزے سے ہوتے تھے، وہ مزید کہتے ہیں کہ کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں خیال آیا کہ کوئی جعفر ابن محمد علیہما السلام سے بھی افضل ہو سکتا ہے، امام مالک کے حضرت کے امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظمت کے بارے میں ان خیالات نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا۔
شواہد النبوۃ میں ملا جامی لکھتے ہیں: امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس علمی تحریک کی بنیاد رکھی اس کی وجہ سے اسلامی دنیا علم کا گہواہ بن گئی، فلکیات ریاضی کیمسٹری فزکس تمام سائنسی علوم میں مسلمانوں نے قابل رشک ترقی کی، لیکن جب مسلمانوں نے علم سے اپنا ناطہ توڑا تو آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ مسلمان ذلت و رسوائی کی گہرائیوں میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
بہرحال علمی میدان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمات ناقابل انکار ہیں، فقہ، کلام اور دیگر علوم میں سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے نقل ہونے کی وجہ سے مکتب اہل بیت کو مذہب جعفری بھی کہا جاتا ہے، یعنی موجودہ دور میں امام صادق علیہ السلام مذہب جعفری کے بانی اور مؤسس کے طور پر مشہور ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مکتب اہل بیت سے متعلق معصومین علیہم السلام سے منسوب احادیث کا ایک بڑا حصہ امام عالی مقام سے نقل ہوا کیونکہ آپ کو اپنے علمی فیوضات سے دنیا کو مستفید کرنے کا تھوڑا سا موقع میسر آیا، بہر کیف امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی خدمات کا مکمل احاطہ ناممکن ہے، ویسے بھی آپ کا اسم گرامی جعفر ہے، جس کے معنی نہر کے ہیں، گویا قدرت کی طرف سے اشارہ ہے کہ آپ کے علم و کمالات سے دنیا سیراب ہو جائیگی۔
آخر میں ایک اہم نکتہ بیان کرکے موضوع سمیٹ لیتے ہیں وہ یہ کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو امامت کے فیوض و برکات سے دنیا والوں کو مستفید کرنے کا تھوڑا سا موقع میسر آیا جس کی وجہ سے آپ نے اپنے علوم کو لوگوں کے سامنے ظاہر کیا اور ان کی نشر و اشاعت کی چنانچہ آپ نے فقہ، کلام اور دیگر علوم کو اتنا پھیلایا کہ آج کی علمی ترقی کے تمام تانے بانے آپ سے جاکر ملتے ہیں، لیکن اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد تمام آئمہ معصومین علیہم السلام کو اپنے عملی فیوضات سے دنیا کو مستفید کرنے کا موقع ملتا تو نہ جانے آج علمی ترقی کا کیا عالم ہوتا کیونکہ ان معصوم ہستیوں کا علم، علم لدنی ہے یہ الہامی علم ہے جس کی بنیاد تزکیہ نفس، روحانیت اور معارف الہیہ ہیں۔
ہمیں آئمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت و کردار پر بہت ذیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان معصوم ہستیوں کی زندگی کا ہر قدم ہمارے لئے مشعل راہ اور ان کی زندگی کا ہر پہلو صحیفہ رُشد و ہدایت ہے، ان حضرات نے اپنی زندگی اطاعت خدا و رسول کے لیے وقف کر رکھی تھی اور وحی الہی اور سنت نبوی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا، نیز امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی خدمات کو وضح کرکے دنیا والوں تک پہنچانے کے لیے بھی انتھک محنت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ امام عالی مقام کی سیرت و کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ بشریت کی وہ قد آور شخصیت تھے جس نے انسانیت کو فیض بخشا ہے اس کا اندازہ امام عالی مقام سے متعلق ان آراء سے ہوتا ہے جن کا اظہار دنیا کے بڑے بڑے مفکرین نے مختلف مواقع پر کیا ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button