سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

اتحاد واختلاف کے رہنما اصول سیرت امیر المؤمنین کی روشنی میں

مقالہ نگار:
عارف حسین

مقدمہ
اللہ تعالی نے تمام مخلوقات میں صرف انسان کو تحصیل علم کی فکر عطا کر کے ارشاد فرمایا: اقرا باسم ربک الذی خلق اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے تجھے پیدا کیا ۔پھر فرمایا:علم الانسان ما لم یعلم اور انسان کو وہ سب کچھ پڑاھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔پھر فرمایا: علمہ البیان اس نے اس کو بیان سیکھایا اور تمام مخلوقات میں صرف انسان کو صاحب رائی بنایا ہے۔ یہ اپنے ارادے میں اختیار رکھتاہے لہذا جب کچھ سنتا ہے یا کوئی فعل دیکھتا ہے تو اس سے اتفاق اور اختلاف کا حق بھی رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں معیار کیا رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے کس کے اسوہ کو اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ یقینا یہ فضیلت اللہ نے اپنے محبوب حضرت محمد کو عطا فرمایا ہے اسی لیے نبی مکرم اسلام نے بھی اپنی حیات طیبہ میں عملی اور کلامی طور پراتحاد کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا آپ کے بعد امام علیؑ  نے رسول اکرمؐ کے حقیقی وارث ہونے کے ناطے اس اہم موضوع کو عملی طور پر زندہ رکھنے کے ساتھ مختلف مواقع پر اس کی ضرورت اور اہمیت کو بھی بیان کیا ہے اور معاشرے میں اختلاف کے نقصانات اور عواقب کی طرف توجہ دلائی ہے۔ لہذا انسانوں میں اتحاد واختلاف کے رہنما اصول سیرت امیرالمومینن کی روشنی ہی میں سمجھے جائیں تو چشم مشیت میں قبولیت کا درجہ پا سکے گا۔
کلیدی کلمات: اتحاد، سیرت علیؑ،  اہل کوفہ ، اختلاف ، خوارج، اسلامی معاشرہ
اہمیت اتحاد حضرت علیؑ کی نگاہ میں
کسی بھی قوم وملت کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے ضروری اور اہم چیز، ان کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کا پایا جانا ہے۔ اتحاد ایک طاقت و قوت نام ہےاور ایسا ہتھیار ہے کہ اگر تمام مسلمان متحد ومتفق ہوجائیں تو کوئی دوسری قوم مسلمانوں سے مقابلہ تودورکی بات آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے تمام ائمہ نے اسکی تاکید کی ہے جسکی بارز مثال مولائے کائنات کی زندگی ہے۔مقالہ ھذا میں حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ان بعض نکات کی طرف اشارہ کیا جارہاہے جس میں آپ نے بنفس نفیس اسلامی اتحاد کا اہتمام کیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
الف: واقعہ سقیفہ کے بعد ابوسفیان امام علی علیہ السلام کی حمایت کے بہانے مسلمین کے درمیان فتنہ برپا کرنا چاہ رہا تھا کہ امام عالی مقام نے اسکے جواب میں فرمایا: ایھا الناس فتنوں کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کر نکل جائو اور منافرت کے راستوں سے الگ رہو، باہمی فخر و مباہات کے تاج کو اتاردو کہ کامیابی اسی کا حصہ ہے جو اٹھے تو بال و پر کے ساتھ اٹھے ورنہ کرسی کو دوسروں کے حوالے کرکے اپنے کو آزاد کرلے۔ یہ پانی بڑا گندہ ہے اور اس لقمہ میں اچھولگ جانے کا خطرہ ہے اور یاد رکھو کہ نا وقت پھل چننے والا ایسا ہی ہے جیسے نامناسب زمین میں زراعت کرنے والا۔(1)
ب: جس وقت چھ افراد پر مشتمل شوری میں عبد الرحمن بن عوف کی جانب سے عثمان خلیفہ نامزد ہوگئے تو آپ نے احتجاجا فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کا حقدار ہوں اور خدا گواہ ہے کہ میں اس وقت تک حالات کا ساتھ دیتا رہوں گا جب تک مسلمانوں کے مسائل ٹھیک رہیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود رہے تاکہ میں اس کا اجرو ثواب حاصل کرسکوں ۔(2)
نکات بالا کو مد نظر رکھتے ہوئے نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت علیؑ نے اس زمانے میں زندگی بسر کی جب دین اور مسلمان خطرہ میں تھا، دوسری طرف آپ کی شجاعت کا چرچہ بھی پورے عرب میں زبان زد عام و خاص تھا مگر اسکے باوجود آپ نے جنگ و جدال کو صرف نظر کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ مصلحتا مل کر اور اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے کام کیا تاکہ تمام مسلمان اصل ہدف تک پہونچ سکے اور وہ اصل ہدف سوائے کمال انسانی کے کچھ نہیں تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اسی وقت کمال مطلوب تک پہونچ سکتا ہے جب مسلمانوں میں آپ میں اتحاد و یکجہتی ہو ورنہ دشمن ان پر غالب آجائیں گے اور اس طرح مسلمان اپنا رعب و دبدبہ کھو دیں گے۔
اتحاد ایک عظیم نعمت
نہج البلاغہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علی علیہ سلام اتحاد کو خدا کی عظیم نعمتوں میں سے قرار دیتے تھے۔ اس لیے آپ نے کوفیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ چونکہ انہوں نے اس الہی نعمت کی قدر نہیں کی تھی اس ضمن میں آپ نے فرمایا : دیکھو تم نے اطاعت کے بندھوں سے اپنے ہاتھ چھڑا لیا اور زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں سے اپنے گرد کھچے ہوئے حصار میں رخنہ ڈال دیا خداوند عالم نے اس امت کے لوگوں پر اس نعمت بےبہا کے ذریعہ سے لطف و احسان فرمایا ہے کہ جس کی قدر و قیمت کو مخلوقات میں سے کوئی نہیں پہچانتا کیونکہ وہ ہر ٹھہرائی ہوئی قیمت سے گراں تر اور ہر شرف و بلندی سے بالاتر ہے۔ اور وہ یہ کہ ان کے درمیان انس و یکجہتی کا رابطہ قائم کیا کہ جس کے سایہ میں وہ منزل کرتے ہیں ، اور جس کے کنار (عاطفت) میں پناہ لیے ہیں”۔ اسی طرح آپ نے وحدت کو خدا کا عظیم احسان قرار دیا ہے اس سلسلے میں آپ نے فرمایا: فَانْظُرُوْۤااِلٰی مَوَاقِعِ نِعَمِ اللّٰهِ عَلَیْهِمْ حِیْنَ بَعَثَ اِلَیْهِمْ رَسُوْلًا، فَعَقَدَ بِمِلَّتِهٖ طَاعَتَهُمْ، وَ جَمَعَ عَلٰی دَعْوَتِهٖۤ اُلْفَتَهُ اسے دیکھو کہ اللہ نے ان پر کتنے احسانات کئے کہ ان میں اپنا رسول بھیجا کہ جس نے اپنی اطاعت کا انہیں پابند بنایا اور انہیں ایک مرکز وحدت پر جمع کردیا ۔(3) امام کی نگاہ میں اتحاد کی اہمیت اس بات سے بھی عیاں ہوتی ہے کی آپ نے امت کی مجموعی مصلحت کی خاطر وفات رسول کے بعد اپنے مسلمہ اور منصوص حقوق کے بارے میں چشم پوشی سے کام لیا جو آج بھی امت کے لیے ایک درس ہے۔ ہم بہت سے جزئی معاملات میں امت کے اہم مصالح کو پامال کرنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں، جو امت کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر رہا ہے۔ آپ اس حوالے سے فرماتے ہیں :پھر جب رسول اکرم ص کی وفات ہو گئی تو ان کے بعد مسلمانوں نے خلافت کے بارے میں کھینچاتانی شروع کردی۔ اس موقع پر بخدا مجھے یہ کبھی تصور بھی نہیں ہوا تھا اور نہ میرے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ پیغمبر اسلام کے بعد عرب خلافت کا رخ ان کے اہل بیت سے موڑیں گے اور نہ یہ کہ ان کے بعد اُسے مجھ سے ہٹا دیں گئے۔ "آپ نے خلافت ظاہری کو دین کی خاطر قبول کیا، چونکہ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے اسلام ہی وحدت اسلامی کا بنیادی عامل ہے اگر ظہور اسلام کے بعد مسلمان ایک پلیٹ فارم پر متفق نظر آئے تھے تو اس کا سبب دین مبین اسلام ہی تھا جس نے ایک ہی صف میں سب کو یکجا کیا۔ آپ اس حوالے سے فرماتے ہیں: فَاَمْسَكْتُ یَدِیْ حَتّٰى رَاَیْتُ رَاجِعَةَ النَّاسِ قَدْ رَجَعَتْ عَنِ الْاِسْلَامِ، یَدْعُوْنَ اِلٰى مَحْقِ دَیْنِ مُحَمَّدٍ ﷺ، فَخَشِیْتُ اِنْ لَّمْ اَنْصُرِ الْاِسْلَامَ وَ اَهْلَهٗ اَنْ اَرٰى فِیْهِ ثَلْمًا اَوْ هَدْمًا، تَكُوْنُ الْمُصِیْبَةُ بِهٖ عَلَیَّ اَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَایَتِكُمُ الَّتِیْۤ اِنَّمَا هِیَ مَتَاعُ اَیَّامٍ قَلَآئِلَ، یَزُوْلُ مِنْهَا مَا كَانَ كَمَا یَزُوْلُ السَّرَابُ، اَوْ كَمَا یَتَقَشَّعُ السَّحَابُ، فَنَهَضْتُ فِیْ تِلْكَ الْاَحْدَاثِ، حَتّٰی زَاحَ الْبَاطِلُ وَ زَهَقَ، وَ اطْمَاَنَّ الدِّیْنُ وَ تَنَهْنَهَ.یہاں تک میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کر محمد کے دین کو مٹا ڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اب میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوئے میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو یہ میرے لیے اس سے بڑھ کر مصیبت ہوگی جتنی یہ مصیبت کہ تمہاری یہ حکومت میرے ہاتھ سے چلی جائے جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے۔ اس میں کی ہر چیز زائل ہو جائے گی۔ اس طرح جیسے سراب بے حقیقت ثابت ہے یا جس طرح بدلی چھٹ جاتی ہے چناچہ میں ان بدعتوں کے ہجوم میں اٹھ کھڑا ہوا یہاں تک کہ باطل دب کر فنا ہو گیا اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ گیا۔”(4)  امام علی کے اس کلام سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ میں اتحاد کی از حد اہمیت تھی انہوں نے سالہا سال تنہائی میں زندگی گزارنے کے بعد امت کی شدید خواہش پر زمان حکومت اسلامی اتحاد کی بنیاد (اسلام) کو محفوظ بنانے کے لیے قبول کی تھی۔آپ نے اسلامی اتحاد کو معاشرے میں عملی شکل دینے کے لیے جزئی معاملات میں آپس میں الجھنے سے مسلمانوں کو منع کیا ہے، چونکہ مسلمانوں کے پاس مشترکات ہی وہ عوامل ہیں جن کو بنیاد بنا کر اتحاد قائم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ امام ان لوگوں کی مذمت کر رہے ہیں جو فرعی اور جزئی احکام میں آپس میں دست گریباں ہوتے ہیں: تَرِدُ عَلٰۤى اَحَدِهِمُ الْقَضِیَّةُ فِیْ حُكْمٍ مِّنَ الْاَحْكَامِ فَیَحْكُمُ فِیْهَا بِرَاْیِهٖ، ثُمَّ تَرِدُ تِلْكَ الْقَضِیَّةُ بِعَیْنِهَا عَلٰى غَیْرِهٖ فَیَحْكُمُ فِیْهَا بِخِلَافِهٖ، ثُمَّ یَجْتَمِـعُ الْقُضَاةُ بِذٰلِكَ عِنْدَ الْاِمَامِ الَّذِی اسْتَقْضَاهُمْ، فَیُصَوِّبُ اٰرَآءَهُمْ جَمِیْعًا، وَ اِلٰهُهُمْ وَاحِدٌ، وَ نَبِیُّهُمْ وَاحِدٌ، وَ كِتَابُهُمْ وَاحِدٌ.جب ان میں سے کسی ایک کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لیے پیش ہوتا ہے تو وہ اپنی رائے سے اس کا حکم لگا دیتا ہے پھر وہی مسئلہ بعینہ دوسرے کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ اس پہلے کے حکم کے خلاف حکم دیتا ہے پھر یہ تمام کے تمام قاضی اپنے اس خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنا رکھا ہے تو یہ وہ سب کی رایوں کو صحیح قرار دیتا ہے حالانکہ ان کا اللہ ایک ، نبی ایک اور کتاب ایک ہے انہیں غور کرنا چاہئے) کیا اللہ نے انہیں اختلاف کا حکم دیا تھا اور یہ اختلاف کر کے اس کا حکم بجالاتے ہیں یا اس نے حقیقتا اختلاف سے منع کیا ہے اور یہ اختلاف کر کے عمداً اس کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں۔”(5)
مشترکات کو بنیاد بنانے کی ضرورت
اسی طرح آپ نے صفین کے حالات کو بیان کرتے ہو ئے ایک مکتوب میں بھی اسلامی اتحاد کی بنیادوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن کی موجودگی میں فرعی اختلافات کو نزاع کا مسئلہ بنایا نہیں جاسکتا ہے: كَانَ بَدْءُ اَمْرِنَاۤ اَنَّا الْتَقَیْنَا وَ الْقَوْمُ مِنْ اَهْلِ الشَّامِ، وَ الظَّاهِرُ اَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ، وَ نَبِیَّنَا وَاحِدٌ، وَ دَعْوَتَنَا فِی الْاِسْلَامِ وَاحِدَةٌ، لَا نَسْتَزِیْدُهُمْ فِی الْاِیْمَانِ بِاللّٰهِ، وَ التَّصْدِیْقِ بِرَسُوْلِهٖ ﷺ،وَ لَا یَسْتَزِیْدُوْنَنَا، الْاَمْرُ وَاحِدٌ، ابتدائی صورتحال یہ تھی کہ ہم اور شام والے آمنے سامنے آئے۔ اس حالت میں کہ ہمارا اللہ ایک ، نبی ایک اور دعوت اسلام ایک تھی، نہ ہم ایمان باللہ اور اس کے رسول کی تصدیق میں ان سے کچھ زیادتی چاہتے تھے ، اور نہ وہ ہم سے اضافہ کے طالب تھے بالکل اتحاد تھا۔ "(6) بنابرایں مذکورہ بالافرمائشات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلامی اتحاد کے لیے مشترکات کو بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔ اُمت کے درمیان اگر کوئی معاشرتی، سیاسی یا فرعی اور جزئی اختلاف پیدا ہو جائے تو مشترکات کو سامنے رکھ کے درمیانی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں امت کے درمیان واضح ترین مشترکات خود خدا کی ذات اقدس ، کلام الہی اور رسول اکرم ص کی سیرت و سنت ہیں، جن کو بنیاد کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم اتحاد کامحور
قرآن کریم کئی جہتوں سے مسلمانوں کے لیے اتحاد کا محور ہے۔ ایک طرف قرآنی تعلیمات تمام انسانوں کے لئے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص باعث ہدایت و اتحاد ہیں ۔ جن سے درس لے کے اتحاد کی رسی کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ اور تمام مسلمان اس بات پر بلاتفریق عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ کلام الہی ہے اور اس کا احترام سب پر فرض ہے۔ نہج البلاغہ میں کئی ایسے موارد ہیں جن میں امام ع نے قرآن کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کیا ہے۔ قبیلہ ربیعہ اور یمن کے درمیان صلح کے موقع پر آپ نے اس الہی منبع کے حوالے سے فرمایا کہ: هٰذَا مَا اجْتَمَعَ عَلَیْهِ اَهْلُ الْیَمَنِ، حَاضِرُهَا وَ بَادِیْهَا، وَ رَبِیْعَةُ، حَاضِرُهَا وَ بَادِیْهَا، اَنَّهُمْ عَلٰى كِتَابِ اللّٰهِ یَدْعُوْنَ اِلَیْهِ، وَ یَاْمُرُوْنَ بِهٖ، وَ یُجِیْبُوْنَ مَنْ‏ دَعَا اِلَیْهِ وَ اَمَرَ بِهٖ، لَا یَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا، وَ لَا یَرْضَوْنَ بِهٖ بَدَلًا، وَ اَنَّهُمْ یَدٌ وَّاحِدَةٌ عَلٰى مَنْ خَالَفَ ذٰلِكَ وَ تَرَكَهٗ، اَنْصَارٌۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ، دَعْوَتُهُمْ وَاحِدَةٌ، لَا یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ لِمَعْتَبَةِ عَاتِبٍ، وَ لَا لِغَضَبِ غَاضِبٍ، وَ لَا لِاسْتِذْلَالِ قَوْمٍ قَوْمًا، وَ لَا لِمَسَبَّةِ قَوْمٍ قَوْمًا، عَلٰى ذٰلِكَ شَاهِدُهُمْ وَ غَآئِبُهُمْ، سَفِیْهُهُمْ وَ عَالِمُهُمْ، وَ حَلِیْمُهُمْ وَ جَاهِلُهُمْ. ثُمَّ اِنَّ عَلَیْهِمْ بِذٰلِكَ عَهْدَ اللّٰهِ وَ مِیْثَاقَهٗ، اِنَّ عَهْدَ اللّٰهِ كَانَ مَسْؤٗلًا.یہ وہ معاہدہ ہے جس پر اہل یمن نے وہ شہری ہوں یا دیہاتی اور قبیلہ ربیعہ نے خواہ وہ شہر میں آباد ہوں یا بادیہ نشین ہوں سب نے اتفاق کیا ہے کہ وہ سب کے سب کتاب اللہ پر ثابت قدم رہیں گے ، اس کی طرف دعوت دیں گے ، اس کے ساتھ حکم دیں گئے اور جو اس کی طرف دعوت دے گا اور اس کی رو سے حکم دے گا اس کی آواز پر لبیک کہیں گے، نہ اس کے عوض کوئی فائدہ چاہیں گے ، اور نہ اس کے کسی بدل پر راضی ہوں گے اور جو کتاب اللہ کے خلاف چلے گا اور اسے چھوڑے گا اس کے مقابلہ میں متحد ہو کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا ئیں گے ۔ "(7)
اس کے علاوہ آپ نے حکمیت کے معاملے میں بھی قرآن کی اہمیت اور ضرورت کی طرف اشارہ فرمایا: اِنَّا لَمْ نُحَكِّمِ الرِّجَالَ، وَ اِنَّمَا حَكَّمْنَا الْقُرْاٰنَ. وَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اِنَّمَا هُوَ خَطٌّ مَّسْتُوْرٌۢ بَیْنَ الدَّفَّتَیْنِ، لَا یَنْطِقُ بِلِسَانٍ، وَ لَا بُدَّ لَهٗ مِنْ تَرْجُمَانٍ، وَ اِنَّمَا یَنْطِقُ عَنْهُ الرِّجَالُ.لَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ اِلٰی اَنْ نُّحَكِّمَ بَیْنَنَا الْقُرْاٰنَ لَمْ نَكُنِ الْفَرِیْقَ الْمُتَوَلِّیَ عَنْ كِتَابِ اللهِ تَعَالٰی، وَ قَدْ قَالَ اللّٰهُ سُبْحَانَهٗ: (فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ)، فَرَدُّهٗۤ اِلَی اللّٰهِ اَنْ نَّحْكُمَ بِكِتَابِهٖ، وَ رَدُّهٗۤ اِلَی الرَّسُوْلِ اَنْ نَّاْخُذَ بِسُنَّتِهٖ، فَاِذَا حُكِمَ بِالصِّدْقِ فِیْ كِتَابِ اللّٰهِ فَنَحْنُ اَحَقُّ النَّاسِ بِهٖ،ہم نے آدمیوں کو نہیں، بلکہ قرآن کو حکم قرار دیا تھا، چونکہ یہ قرآن دو دفتیوں کے درمیان ایک لکھی ہوئی کتاب ہے کہ جو زبان سے بولا نہیں کرتی اس لیے ضرورت تھی کہ اس کے لیے کوئی ترجمان ہو اور وہ آدمی ہی ہوتے ہیں جو اس کی ترجمانی کیا کرتے ہیں۔ جب ان لوگوں نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ ہم اپنے درمیان قرآن کو حکم ٹھہرآئیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منہ پھیرے لیتے۔ جبکہ حق سبحانہ کا ارشاد ہے کہ اگر تم کسی بات میں جھگڑا کرو تو (اس کا فیصلہ نپٹانے کے لیے اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کی کتاب کے مطابق حکم کریں۔”(8)  اسی طرح آپ نے ابو موسی اشعری اور عمرابن عاص کو حکم معین کرنے کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے قرآنی تعلیمات کو زندہ کرنے کو بنیادی ہدف اور سبب قرار دیا:وَاِنَمَّا حُكِّمَ الْحَكَمَانِ لِیُحْیِیَا مَاۤ اَحْیَا الْقُرْاٰنُ، وَ یُمِیْتَا مَاۤ اَمَاتَ الْقُرْاٰنُ، وَ اِحْیَآؤُهُ الْاِجْتِمَاعُ عَلَیْهِ، وَ اِمَاتَتُهُ الْاِفْتَرَاقُ عَنْهُ،اور وہ دونوں (ابو موسیٰ، عمر و ابن عاص) تو صرف اس لیے ثالث مقرر کیے گئے تھے کہ وہ انہی چیزوں کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور انہی چیزوں کو نیست و نابود کریں جنہیں قرآن نے نیست و نابود کیا ہے۔ کسی چیز کے زندہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس پر یکجہتی کے ساتھ متحد ہوا جائے اور اس کے نیست و نابود کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔”(9) اس کے علاوہ بھی ایسے موارد بھی ہیں جہاں امام علی نے قرآن کی اہمیت اور مسلمانوں کے نزدیک اجتماعی طور پر اس کی اقبالیت کو بیان کیا ہے اور لوگوں کو باور کرایا ہے کہ اگر قرآن کی تعلیمات پر غور کیا جائے تو مسلمانوں کی اجتماعی اور سیاسی مسائل کا آسان حل دریافت کیا جاسکتا ہے اور اہل بیت ع کی عظمت اور اسلام کی سیاسی اور مذہبی قیادت کی درست سمت کا بھی تعین ہو سکتا ہے۔
رسالت سر چشمہ اتحاد
رسول اکرم ﷺ کی رسالت اور پیغام رسالت وہ اہم محور ہے جس نے تمام مسلمانوں کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ تمام اسلامی مسالک فرعی اور جزئی اختلافات رکھنے کے باوجود ان میں یہ اجتماعی نظر ہے کہ آپ اسلام کی شخصیت اور آپ کی سیرت وسعت وہ اہم عوامل ہیں جن کو اپنے عقیدے کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی پیغمبر اکرم اسلام کی رسالت اور آپ کی سنت اور سیرت کا سرے سے منکر ہو اور دوسری طرف خود کو مسلمان بھی کہلوائے۔ بنابراین مسلمانوں کو تمام تر فروعی اختلافات کے باوجود جن چیزوں نے اٹوٹ رشتے میں باندھ کر رکھا ہے ان میں سے ایک پیغمبر ص کی رسالت بھی ہے۔ امام علی نے رسول اکرم کی رسالت کی اہمیت اور اس کے تاریخی کردار کو واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے فرمایا: عَلٰى ذٰلِكَ نَسَلَتِ الْقُرُوْنُ، وَ مَضَتِ الدُّهُوْرُ، وَ سَلَفَتِ الْاٰبَآءُ، وَ خَلَفَتِ الْاَبْنَآءُ.اِلٰۤى اَنْۢ بَعَثَ اللهُ سُبْحَانَهٗ مُحَمَّدًا رَّسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لِاِنْجَازِ عِدَتِهٖ وَ تَمَامِ نُبُوَّتِهٖ، مَاْخُوْذًا عَلَى النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقُهٗ، مَشْهُوْرَةً سِمَاتُهٗ، كَرِیْمًا مِیْلَادُهٗ. وَ اَهْلُ الْاَرْضِ یَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُّتَفَرِّقَةٌ، وَ اَهْوَآءٌ مُّنْتَشِرَةٌ، وَ طَرَآئِقُ مُتَشَتِّتَةٌ، بَیْنَ مُشَبِّهٍ لِّلّٰهِ بِخَلْقِهٖ، اسی طرح مدتیں گزر گئیں ، زمانے بیت گئے، باپ داداؤں کی جگہ پر ان کی اولاد میں بس گئیں یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد و اتمام نبوت کے لیے محمد ص کو مبعوث کیا جن کے متعلق نبیوں سے عہد و پیمان لیا جا چکا تھا جن کے علامات ( ظہور) مشہور، محل ولادت مبارک و مسعود تھا۔ اس وقت زمین پر بسنے والوں کے مسلک جداجدا خواہشیں متفرق و پراگندہ اور راہیں الگ الگ تھیں۔(10) اس کے علاوہ آپ نے سرزمین ذی قار میں جو خطبہ دیا اس میں بعثت کے فوائد اور اس کردار کو واضح انداز میں بیان کیا ہے اس سلسلے میں آپ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ، وَلَيْسَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَرَبِ يَقْرَاُ کِتَابًا، وَلَا يَدَّعِیْ نُبُوَّةً، فَسَاقَ النَّاسَ حَتّٰی بَوَّاَهُمْ مَحَلَّتَهُمْ، وَ بَلَّغَهُمْ مَنْجَاتَهُمْ، فَاسْتَقَامَتْ قَنَاتُهُمْ، وَاطْمَاَنَّتْ صَفَاتُهُمْ، اللہ نے محمد ﷺ کو اس وقت بھیجا جب عربوں میں کوئی کتاب (آسمانی) پڑھنے والا کوئی نہیں تھا نہ کوئی نبوت کا دعوے دار۔ آپ نے ان لوگوں کو ان کے صحیح مقام پر اتارا، اور نجات کی منزل پر پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ ان کے سارے خم جاتے رہے اور حالات محکم و استوار ہوگئے۔ "(11)
اسی طرح ایک اور خطبے میں آپ نے بعثت رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں انہیں بیان کیا۔ یقینا یہ تمام چیزیں بعد میں ایک متحد اور منظم معاشرے کے لیے زمینہ ساز واقع ہوئیں اس حوالے سے آپ نے فرمایا: بَعَثَهٗ وَ النَّاسُ ضُلَّاَلٌ فِیْ حَیْرَةٍ، وَ خَابِطُوْنَ فِیْ فِتْنَةٍ، قَدِ اسْتَهْوَتْهُمُ الْاَهْوَآءُ، وَ اسْتَزَلَّتْهُمُ الْكِبْرِیَآءُ، وَ اسْتَخَفَّتْهُمُ الْجَاهِلِیِّةُ الْجَهْلَآءُ حَیَارٰی فِیْ زِلْزَالٍ مِّنَ الْاَمْرِ، وَ بَلَآءٍ مِّنَ الْجَهْلِ، فَبَالَغَ ﷺ فِی النَّصِیْحَةِ، وَ مَضٰی عَلَی الطَّرِیْقَةِ، وَ دَعَا اِلَی الْحِكْمَةِ (وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ).پیغمبر اسلام کو اس وقت میں بھیجا کہ جب لوگ حیرت و پریشانی کے عالم میں گم کردہ راہ تھے اور فتنوں میں ہاتھ پیر مار رہے تھے۔ نفسانی خواہشوں نے انہیں بھٹکا دیا تھا اور غرور نے بہکا دیا تھا اور پھر جاہلیت نے ان کی عقلیں کھو دی تھیں اور حالات کے ڈانواں ڈول ہونے اور جہالت کی بلاوں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے چناچہ نبی اسلام نے انہیں سمجھانے کا پور احق ادا کیا خود سیدھے راستے پر جمے رہے اور حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف انہیں بلاتے رہے۔ "(12) اس طرح آپ نے بعثت رسول اکرم ص کو عرب معاشرے میں جاری کدورتوں کے شعلوں کو بجائے الفت و محبت کے چراغ روشن ہونے کا باعث قرار دیا یہ سب کچھ آنحضرت ص کی بعثت اور آپ کی سعی مسلسل کی وجہ سے کم مدت میں ہی سامنے آئی۔ آپ نے اس حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے :خدا نے ان (آنحضرت) کی وجہ سے فتنے دبا دیئے اور عداوتوں کے شعلے بجا دیئے بھائیوں میں الفت پیدا کی اور جو (کفر میں ) اکٹھے تھے انہیں علیحدہ علیحدہ کر دیا۔”(13)
امام علی کے ان نورانی ارشادات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کے لیے کسی بھی مشکل مرحلے میں بلاتفریق قرآن اور صاحب قرآن رسول کی مودت اور اطاعت کو اپنی زندگی کا شیوہ قرار دینے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی کامیابی کے مستحق قرار پائیں۔ امام کے کلام سے یہ بات بھی واضح ہوئی کی خدا نے انسانوں کو جنگ و جدال اور کفر و جہل کی تاریکیوں سے نکالنے کے لئے قرآن کو اپنے حبیب، نبی ص پر نازل کر کے انہیں مبعوث بہ رسالت کیا۔ اس وقت کا عرب معاشرہ قبائلی اور نسلی اختلافات کا شکار تھا جس کے سبب کئی نسلیں بے مقصد جنگوں اور اختلافات کی نظر ہو گئی تھی لہذا کسی ایسی تبدیلی کے خواہاں تھے جو انہیں وحشت و بربریت سے نکال کر امن و محبت کے راستے پر گامزن کرے۔ اسی دوران رسول اکرم کی بعثت ان کے لیے رحمت و برکت کا باعث ہوئی اور وہ لوگ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ایک دم الفت و محبت کے رشتے میں بندھ گئے۔ یہ معاملہ زمان نزول قرآن تک محدود نہیں۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ آج مسلمانوں میں وہی زمانہ جاہلیت کی خصلتیں آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سنت جاہلی نے آج ہر مسلمان کے گھر بسیرا کر لیا ہے ایسے میں امام علی کے ان فرامین پر غور کر کے صدر اسلام کی طرح مسلمانوں کے درمیان مشترکات کی بنیاد پر دوبارہ اسلامی بھائی چارگی کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس قرآن اور رسول اکرم وہ سرمایہ حیات جن پر ہم متفق ہیں۔لہذا آج اس بات کی اشد ضرورت ہیں کہ ہم قرآنی تعلیمات کے ساتھ رسول اکرم السلام کی سیرت اور سنت کو وحدت کے احیا کے لیے بنیاد بنائیں۔ جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام ایک پر امن اور صلح و آشتی کا مذہب ہے تو اس عقیدہ کا آغاز اپنے ہی گھر سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنےآشیانے کو تفرقے کی آگ سے جلا کے دوسروں کا گھر روشن کرنے کی کوشش کریں تو کوئی ہماری بات پر یقین نہیں کرے گا۔ چونکہ آج کے دور میں معقولات سے محسوسات پر زیادہ بھروسہ کیا جاتا ہے لہذا جو ہم کہتے ہیں وہ عملی طور پر کر دکھانے کی بھی ضرورت ہے۔
حاکم اور رعایا کے فرائض
اس کے علاوہ امام علی نے اتحاد کے تحقق کے لیے ان تمام وسائل سے استفادہ کیا جو مستقیم یا غیر مستقیم طور پر کار گر ثابت ہو سکتے ہیں۔ نیز آپ نے ان تمام اسلامی اقدار کو بھی بیان کیا جو وحدت اسلامی کو معاشرے میں دوام بخشنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اسی ضمن میں آپ نے حاکم اور رعایا کو معاشرے کے دو اہم عناصر کے طور پر متعارف کراتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے دوسرے پر جو حقوق ہیں ان کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا چونکہ معاشرے کے ان دو اہم ستونوں کے درمیان اگر توازن باقی نہ رہے تو ہرج و مرج پیدا ہونے کے قوی امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ اسی سلسلے میں آپ نے فرمایا :سب سے بڑا حق کہ جسے اللہ سبحانہ نے واجب کیا ہے حکمران کا رعیت پر اور رعیت میں سے ہر ایک کے لئےفریضہ بنا کر عائد کیا ہے اور اسے ان میں رابطہ محبت قائم کرنے اور ان کے دین کو سرفرازی بخشنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ رعیت اسی وقت خوش حال رہ سکتی ہے جب حاکم کے طور طریقے درست ہوں اور حاکم اسی وقت صلاح و درستگی سے آراستہ ہو سکتا ہے جب رعیت اس کے احکام کی انجام دہی کے لیے آمادہ ہو۔ "(14)
اسی سلسلے میں آپ ع نے مزید فرمایا: جب رعیت فرمانروا کے حقوق پورے کرے اور فرمانروا رعیت کے حقوق سے عہدہ برآ ہو تو ان میں حق باوقار، دین کی راہ میں استوار اور عدل و انصاف کے نشانات برقرار ہو جائیں گے اور پیغمبر اسلام کی سنتیں اپنے ڈھرے پر چل نکلیں گی اور زمانہ سدھر جائے گا۔ بقائے سلطنت کے توقعات پیدا ہو جائیں گے اور دشمنوں کی حرص و طمع یاس و ناامیدی سے بدل جائے گی اور جب رعیت حاکم پر مسلط ہوجائےیا حاکم رعیت پر ظلم ڈھانے لگے تو اس موقع پر ہر بات میں اختلاف ہوگا، ظلم کے نشانات ابھر آئیں گے ، دین میں مفسدے بڑھ جائیں گے، شریعت کی راہیں متروک ہو جائیں گی ، خواہشوں پر عمل درآمد ہوگا۔ شریعت کے احکام ٹھکرا دیئے جائیں گے، نفسانی بیماریاں بڑھ جائیں گی اور بڑے سے بڑے حق کو ٹھکرا دینے اور بڑے سے بڑے باطل پر عمل پیرا ہونے سے بھی کوئی نہ گھبرائے گا۔ ایسے موقع پر نیکوکار، ذلیل اور بدکار، باعزت ہو جاتے ہیں اور بندوں پر اللہ کی عقوبتیں بڑھ جاتی ہیں۔ لہٰذا اس حق کی ادائیگی میں ایک دوسرے کو سمجھانا بجھانا اور ایک دوسرے سے بخوبی تعاون کرنا تمہارے لئے ضروری ہے اس لیے کہ کوئی شخص بھی اللہ کی اطاعت و بندگی میں اس حد تک نہیں پہنچ سکتا کہ جس کا وہ اہل ہے ، چاہے وہ اس کی خوشنودیوں کو حاصل کرنے کے لیے کتنا ہی حریص ہو، اور اس کی عملی کوششیں بھی بڑھی چڑھی ہوئی ہوں۔ پھر بھی اس نے بندوں پر یہ حق واجب قرار دیاہے کہ وہ مقدور بھر نصیحت کریں اور اپنے درمیان حق کو قائم کے لئے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹھائیں۔”(15) امام علی کے ان فرامین سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ معاشرے میں امن اور اتحاد کے قیام میں حاکم وقت کا طرز عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے اسی ضمن میں رعایا کے حقوق کا خیال رکھنا اور رعایا کی جانب سے بھی اس قسم کا طرز عمل معاشرے میں ثبات اور وحدت کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام علی نے اپنے دور اقتدار میں رعایا کے حقوق کو اولیت دی اور اس معاملے میں کسی سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔
حاکمیت اور اتحاد
معاشرے میں اتحاد ویکجہتی کے قیام میں حاکمیت کا کردار انتہائی اہم ہے جس معاشرے کے اندر حاکمیت نہیں وہ انتشار کا شکار رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی احادیث میں معاشرے میں زمامدار اقتدار کا ہونا معاشرے کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو ۔ کیونکہ اقتدار اور حاکمیت کی موجودگی میں کم از کم معاشر و انتشار سے دوچار نہیں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ امام علی ع نے اپنے منصوص اور مسلم حقوق کی پامالی کے دوران بھی حاکمان وقت کو اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔ آپ کی نگاہ میں معاشرے میں ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے، مشکل وقت میں معاشرے اور دین کو نقصان سے بچانے کے لئے ان سے تعاون اور ہمکاری کرنا ایک معقول اور دانشمندانہ عمل ہے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر کے دور خلافت میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان جنگ قادسیہ وقوع پذیر ہوئی تو آپ نے خلیفہ دوم کو مفید اور کار آمد مشوروں سے نوازا اور اس ضمن میں فرمایا :امور (سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈورے کی جو انہیں سمیٹ کر رکھتا ہے۔ جب دورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے آج عرب والے اگر چہ گنتی میں کم ہیں مگر اسلام کی وجہ سے وہ بہت ہیں اور اتحاد باہمی کے سبب سے (فتح) و غلبہ پانے والے ہیں تم اپنے مقام پر کھوٹنی کی طرح جمے رہو اور عرب کا نظم و نسق برقرار رکھو اور ان ہی کو جنگ کی آگ کا مقابلہ کرنے دو۔”(16)
اسی تناظر میں ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا :تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص بھی امت محمدی کی جماعت بندی اور اتحاد باہمی کا خواہشمند نہیں ہے جس سے میری غرض صرف حسن ثواب اور آخرت کی سرفرازی ہے۔ میں نے جو عہد کیا ہے اسے پورا کر کے رہوں گا ۔ "(17)

اختلاف وتفرقہ بازی سے اجتناب
ہر چیز کے کچھ آفات ہوا کرتی ہے اسی طرح محبت اور انس کے لئے بھی کچھ آفات ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اختلاف و تفرقہ بھی ایک ایسی آفت اور وبا ہے جس سے معاشرے میں انتشار اور دشمنیاں جنم لیتی ہیں۔ جب ہم گزشتہ اقوام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تفرقہ انگیزی کی وجہ سے وہ انتشار سے دوچار رہے۔ لہذا امام بھی اس بات کی تاکید فرما رہے ہیں کہ گزشتہ اقوام سے درس لینے کی ضرورت ہے جو قوم ان چیزوں سے اجتناب کرتی ہے وہ اتحاد اور یکجہتی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہے۔ اسی ضمن میں آپ نے فرمایا: جو تم سے پہلی امتوں پر ان کے بداعمالیوں اور بدکردایوں کی وجہ سے نازل ہوئے اور اپنے اچھے اور برے حالات میں ان کے احوال و واردات کو پیش نظر رکھو اور اس امر سے خائف و ترساں رہو کہ کہیں تم بھی انہی کےجیسے نہ ہو جاو۔ اگر تم نے ان کی دونوں (اچھی، بری) حالتوں پر غور کر لیا تو پھر ہر اس چیز کی پابندی کرو کہ جس کی وجہ سے عزت و برتری نے ہر حال میں ان کا ساتھ دیا اور دشمن ان سے دور دور رہے اور عیش و سکون کے دامن ان پر پھیل گئے اور نعمتیں سرنگوں ہو کر ان کے ساتھ ہو لیں اور عزت و سرفرازی نے اپنے بندھن ان سے جوڑ لیے (وہ کیا چیزیں تھیں (؟) یہ کہ افتراق سے بچے اور اتفاق و یکجہتی پر قائم رہے۔ اس پر ایک دوسرے کو ابھارتے تھے اور اس کی باہم سفارش کرتے تھے اور تم ہر اس امر سے بچے رہو جس نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ ڈالا اور قوت و توانائی کو ضعف سے بدل دیا۔”(18) اسی ضمن میں امام علی نے تفرقہ انگیزی کی وجوہات کو بھی مورد بحث قرار دیا ہے اگرچہ معاشرتی، سیاسی، مذہبی اور ذاتی مفادات کی شکل میں میں مختلف قسم کی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر امام نے پہلی چیز جس کی وجہ سے معاشرے میں لوگوں کے درمیان انتشار، تفرقہ اور بد گمانیاں پھیل جاتی ہیں اسے خبث باطنی اور سوء فکر قرار دیا ہے جنہیں شیطان مختلف اوقات میں اپنے مطیع بندوں کے دلوں پہ القا کرتا ہے۔ امام علی کی نگاہ میں تمام نسلی اور قومی اختلافات کی وجہ شیطان کی پیروی اور اس کے مکر و فریب سے غافل رہنا ہے جس کی پکڑ میں آئے معاشرے میں بہت سے افراد اس قسم کے اختلافات کو ہوا دیتے ہیں اسی لیے کئی موارد میں امام نے لوگوں کو شیطان سے چوکنا رہنے کی تاکید کی ہے۔
اتحاد کے فوائد
اتحاد کے فوائد قدیم الایام سے موجود و دور تک معاشرے میں عموماً بہت سے لوگ معرفت سے عاری ہونے کی وجہ سے اہم ترین مسائل اور موضوعات کی افادیت سے چشم پوشی کرتے رہے ہیں۔ اسی لیے اسلام میں معرفت حاصل کرنے کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے خدا کی معرفت، نفس کی معرفت، دین کی معرفت، رہبر وامام کی معرفت ۔۔۔ غرض گوناگوں معاملات و موضوعات ہیں جن کی معرفت سے ہی انسان ان کی افادیت کو سمجھ سکتا ہے۔ صدر اسلام سے عہد حاضر تک مسلمانوں کے لیے اتحاد اہم موضوعات میں سے رہا ہے تاریخی حقائق بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ مسلمان جب تک متحد رہے ہیں ان کی طاقت اور عظمت پوری دنیا کے سامنے نمایاں رہی ہے۔ اسی لیے امام نے کئی موارد میں اپنی رعایا کی اس لیے مذمت کی ہے کہ ان میں اتحاد کا فقدان رہا ہے اور وہ اس کی افادیت اور تفرقے کے نقصانات سے نا آشنا ہیں۔ امام کئی مواقع پر اتحاد کی افادیت سے لوگوں کو روشناس کراتے رہے ہیں تاکہ لوگوں میں اتحاد کے حوالے سے معرفت جنم لے۔ اس ضمن میں امام نے نعمتوں کی فراوانی اور مادی و معنوی آسودگی کو اتحاد کے فوائد میں سے شمار کیا۔ امام کی نظر میں اتحاد کی نعمت اتنی اہم ہے کہ اگر باطل پر آکر نے والے بھی اپنے باطل پر متحد رہیں تو اس کے فائدے سے وہ بھی بہرہ مند ہونگے۔ اس تناظر میں امام نے پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد اتحاد اور ہم بستگی کے سایہ میں مسلمانوں کو حاصل مادی اور معنوی نعمات الہی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے :دیکھو اللہ نے ان پر کتنے احسانات کیسے کہ ان میں اپنا رسول بھیجا کہ جس نے اپنی اطاعت کا انہیں پابند بنایا اور انہیں ایک مرکز وحدت پر جمع کر دیا اور کیونکہ خوش حالی نے اپنے پر و بال ان پر پھیلا دیئے اور ان کے لیے بخشش و فیضان کی نہریں بہادیں اور شریعت نے انہیں اپنی برکت کے لیے بے بہا فائدوں میں لپیٹ لیا۔ "(19)
اسی طرح امام نے ایک اور موقع پر اتحاد کو نصرت الہی اور امداد حق کا موجب سمجھا ہے۔ آپ نے خوارج کو شر پسندی چھوڑنے اور مسلمانوں کے پر امن طبقے کی صف میں شامل ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:تم اسی راہ پر جمے رہو اور اسی بڑے گروہ کے ساتھ لگ جاؤ چونکہ اللہ کا ہاتھ اتفاق و اتحاد رکھنے والوں پر ہے اور تفرقہ و انتشار سے باز آ جاؤ اس لیے کہ جماعت سے الگ ہو جانے والا شیطان کے حصہ میں چلا جاتا ہے۔(20) اسی طرح امام نے متحد رہنے والوں کو فتح و کامرانی کی نوید سنائی ہے چاہے وہ باطل پر ہی کیوں نہ ہو اسی حوالے سے آپ نے کوفیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ قوم (اہل شام) تم پر غالب آکر رہے گی اس لیے نہیں کہ ان کا حق تم سے فایق ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کی طرف باطل پر ہونے کے باوجود لپکتے ہیں تم میرے حق پر ہونے کے باوجود سستی کرتے ہو۔(21) اسی طرح امام نے اتحاد کے فوائد کو ذکر کرتے ہوئے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ متحد قومیں تاریخ میں فاتح مستحکم اور صاحب اقتدار و عظمت رہی ہیں یہ سنت ابتدائے آفرینش انسان سے جاری رہی ہے اس کی زندہ مثال ظہور اسلام کے بعد ہمارے سامنے آئی۔ ایک بکھری ہوئی قوم کو رسول اکرم نے جس طرح متحد کر کے دنیا کی باعزت اور طاقتور قوم کی شکل میں تبدیل کیا وہ ہر زمانے میں مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔امام جس طرح اپنی رعایا اور قوم کی نااتفاقی کا رونا رو رہے تھے وہی صور تحال بلکہ اگر مبالغہ نہ ہو تو اس سے حد درجہ بدتر صورتحال سے آج کے مسلمان کی ہے۔ ایک طرف آپس کی نا اتفاقی دوسری طرف طاغوت کی یلغار، اسی طرح خوارج صفت عناصر کا ظہور ایک طرف تو دوسری طرف مذہبی عصبیت کی گھناونی شکل نے مسلمانوں کو نا گفتہ بہ صورتحال سے دوچار کیا ہے۔غور کرو کہ جب ان کی جمعیتیں یکجا، خیالات یکسو اور دل یکساں تھے اور ان کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہر سہارا دیتے اور تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں اور ان کی بصیرتیں تیز اور ارادے متحد تھے، تو اس وقت ان کا عالم کیا تھا کیا وہ اطراف زمین فرمانروا اور دنیا والوں کی گردنوں پر حکمران نہ تھے ؟ اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو کہ جب ان میں پھوٹ پڑ گئی، یکجہتی درہم و برہم ہوگئی، ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے، تو ان کی نوبت یہ ہو گئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی آسائشیں ان سے چھین لیں اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے عبرت بن گئی۔”اسی خطبے میں ہی امام علیہ السلام مسلمانوں کو اسلام کے سائے میں وحدت کے ساتھ زندگی گزارنے کے نتیجے میں جو نعمتیں عطا کی تھیں ان کا تزکرہ کرتے ہوئے صدر اسلام کے، مسلمانوں کی عزت، شان و شوکت اور سر بلندی کا خاص حوالہ دے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں امام نے فرمایا: اسلام کی وجہ سے ان کی وحدت کے ساتھ جو زندگی تھی اس) کے تمام شعبے ( نظم و ترتیب سے) قائم ہو گئے اور ان کے حالات ( کی درستگی) نے انہیں غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دی اور ایک مضبوط سلطنت کی سر بلند چوٹیوں میں (دین و دنیا کی) سعادت میں ان پر جھک پڑیں وہ تمام جہان پر حکمران اور زمین کی پہنائیوں میں تخت و تاج کے مالک بن گئے اور جن پابندیوں کی بنا پر دوسروں کے زیردست تھے۔ اب یہ انہیں پابند بنا کر ان پر مسلط ہو گئے اور جن کے زیر فرمان تھے ان کے فرمانروا بن گئے۔ نہ ان کا دم خم ہی نکالا جا سکتا ہے اور نہ ان کا کس بل توڑا جا سکتا ہے۔ "(22)
امام کے ان فرامین سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کی عزت اور شان و شوکت اتحاد کے سائے میں ہی ممکن ہے۔ جس طرح رسول گرامی اسلام کی حیات طیبہ میں مسلمانوں کو اللہ نے اپنی الطاف خاص کا مستحق ٹھہرا کے دنیا کے سامنے سر بلند کیا اور انہیں اجتماعی، سیاسی اور مذہبی طاغوتوں پر غلبہ عطا کیا آج بھی یہ سنت الہی مسلمانوں کے لیے میسر ہے۔ اگر موجودہ دور میں مسلمان دوبارہ اسلام کی حیات بخش تعلیمات کی روشنی میں اپنی روش اور طریقہ زندگی کو بدلنے کا مصمم ارادہ کر لیں تو خدا بھی ان کی حالت کو تبدیل کرے گا یہ خدا کا وعدہ بھی ہے۔ مسلمانوں کی مشکل یہ ہے کہ اپنی کمزوریوں پر غور کیے بغیر دوسروں کو ہی قصور وار ٹھہرانے کی وجہ سے ان میں سوچنے، سمجھنے اور مسائل کا حل نکانے کی ختم ہو گئی ہے۔ اگر مسلمان آج استعماری طاقتوں کی سیاسی، اقتصادی اور ریاستی دہشتگردی کی زد میں ہیں تو اس کے مقابلے میں متحد ہو کے ایک پالیسی اپنانے سے انہیں کس نے روکا ہے؟۔ بنابرایں امام ، امت کو اس اہم خدائی نعمت کی جانب متوجہ کر رہے ہیں کہ اگر دوبارہ اپنی عظمت رفتہ کی بازگشت چاہتے ہو تو لازمی طور پر اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ متحد ہونا ہو گا۔
اختلاف کے نقصانات
موجودہ دور میں مختلف ادیان کے پیروکاروں کے درمیان بد گمانی ، شدید عداوت اور دشمنی پائی جاتی ہے۔ ہر دین کے پیروکار دوسرے دین کو باطل اور ان کے پیروکاروں کو کافر جہنمی اور مبغوض خدا سمجھتے ہیں۔ ان کے ساتھ محبت حرام اور اسے ایمان کی کمزوری کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ تمام ممکنہ ذرائع و وسائل سے دوسرے ادیان کی تخریب اور ان کے پیروکارون کو فاسد کرنے میں سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ان کے اندر اپنے جاسوس اور ایجنٹوں کے ذریعے فتنہ و فساد اور اختلافات کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ لہذا اس قسم کے عناصر سے مسلمانوں کو ہمہ جہت اور ہمہ وقت ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کی باہمی دشمنی اور ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑوں اور اختلافات سے اسلام دشمن خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پوری تاریخ پر محیط مسلمانوں کے مذہبی فسادات اور اختلافات میں کوئی فریق نابود نہیں ہوا۔ البتہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اختلافات کے نتیجے میں مسلمانوں اور اسلامی معاشرے کا بہت نقصان ہوا ہے نیز مسلمانوں کی تہذہبی، ثقافتی، سائنسی اور صنعتی ترقی کو بڑا ضرر پہنچا ہے۔ اس قسم کے نا قابل جبران نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے امام نے اتحاد کے فوائد کے ساتھ تفرقہ کے نقصانات کو بھی بیان کیا ہے اور تفرقہ کو نعمات الہی اور عزت و کرامت کے چھن جانے کا سبب قرار دیا ہے اس ضمن میں فرمایا ہے : جب ان میں پھوٹ پڑ گئی یکجہتی درہم برہم ہو گئی، ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے ، اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور ایک الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے ، تو ان کی نوبت یہ ہو گئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی اسائشیں ان سے چھین لیں اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے عبرت بن کر رہ گئے۔ "(23) امام اختلافات کے عواقب اور نقصانات کے ضمن میں صدر اسلام کے ان ناخوشگوار حالات کا حوالہ دے رہے ہیں جہاں امام کے بقول بہت سے لوگ وفات رسول اکرم کے بعد آپس کی نا اتفاقی کی بدولت ہدایت سے ہاتھ کھینچ رہے تھے۔ اس دور کے حالات کو امام ان الفاظ میں بیان کر رہے تھے :وہ لوگ گمراہی کے راستوں پر لگ کر اور ہدایت کی راہوں کو چھوڑ کر (افراط و تفریط) کے دائیں بائیں راستوں پر ہو لیے ہیں جو بات کہ ہو کر رہنے والی اور محل انتظار میں ہو اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ۔”(24) اس کے علاوہ امام کوفیوں میں سے ایک گروہ کی تفرقہ انگیزی کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی مذمت کر رہے ہیں اور انہیں ہدایت سے نکلے ہوئے لوگوں کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں چونکہ وہ نہروان کی جنگ سے پہلے کوفہ میں اختلافات اور بغاوت کو ہوا دے کر سپاہ خوارج سے پیوستہ ہو گئے تھے ۔ امام ان لوگوں کے بارے میں فرمارہے ہیں :آج تو شیطان نے انہیں تتر بتر کر دیا ہے اور کل ان سے اظہار بیزاری کرتا ہوا ان سے الگ ہو جائے گا ان کا ہدایت سے نکل جانا، گمراہی و ضلالت میں جانا پر ناحق سے منہ پھیر لینا اور ضلالتوں میں منہ زوریاں دکھانا ہی ان کے ( مستحق عذاب) ہونے کے لئے کافی ہے۔(25) اس کے علاوہ امام کی نگاہ میں تفرقہ اور اختلافات شکست ناقابل جبران کا باعث بنتی ہے اسی لیے ان سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ شکست کسی خاص معاملے تک محدود نہیں یہ ہمہ جانب اور ہمہ گیر ہو سکتی ہے اگرچہ امام جنگی شکست کا تزکرہ کر رہے ہیں مگر اس کے عواقب کو دقت کے ساتھ دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس معاملے میں بھی اختلافات نمایاں ہوں وہاں شکست یقینی ہے۔ امام کوفیوں کو تفرقہ انگیزی کے ضمن میں فرمارہے ہیں:تمہاری مثال تو ان اونٹوں کی سی ہے جن کے چرواہے گم ہو گئے ہوں اگر انہیں ایک طرف سے سمیٹا جائے تو دوسری طرف سے تتر بتر ہو جائیں گے ۔ خدا کی قسم تم جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لیے بہت برے ثابت ہوئے ہو تمہارے خلاف سب تدبیریں ہوا کرتی ہیں اور تم دشمنوں کے خلاف کوئی تدبیر نہیں کرتے تمہارے شہروں کے حدود (دن بہ دن کم ہوتے جارہے ہیں مگر تمہیں غصہ نہیں آتا وہ تمہاری طرف سے کبھی غافل نہیں ہوتے اور تم ہو کہ غفلت میں سب کچھ بھولے ہوئے ہو۔ خدا کی قسم ایک دوسرے پر ٹالنے والے ہارا ہی کرتے ہیں، خدا کی قسم میں تمہارے متعلق یہی گمان رکھتا ہوں کہ اگر جنگ زور پکڑلے اور موت کی گرم بازاری ہو تو تم علی ابن ابی طالب سے اس طرح کٹ جاو گے جس طرح بدن سے سر ۔”(26)  بہر حال امام کے ان نورانی فرامین سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قوموں کی عزت و شرافت اتحاد میں مضمر ہے امام اگر چہ اپنی رعایا کی مذمت کرتے ہیں اور انہیں اپنے اختلافات کو بھلا کے اتحاد کی دعوت دے رہے ہیں مگر امام کی یہ ندا اس دور سے زیادہ آج کے مسلمانوں کے لیے شفا بخش دوا کی حیثیت سے کم نہیں۔ اس وقت کے مسلمان اندرونی اختلافات کا شکار تھے جبکہ آج کے مسلمان اندرونی اختلافات کی بھیانک شکل سے دوچار ہیں اور بیرونی محازوں پر دشمن ہر گزرتے لمحے مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کا سامان فراہم کر رہا ہے ایسے کھٹن لمحے میں اسلام کے ان عظیم رہبروں کی ہدایت بخش تعلیمات کو مشعل راہ قرار دے کر امت کی رہنمائی کے۔ و مشعل راہ قرار دے کر امت کی رہنمائی کے لیے ان کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات متنوع اور مختلف ہونے کے ساتھ نہایت پیچیدہ بھی ہیں۔ یہ اختلافات خود بخود ختم ہونے والے نہیں۔ اگر امت اسلامی کا درد اور دینی غیرت رکھنے والے ہو شیاری اور تدبر کے ساتھ روکنے کی کوشش کریں تو ممکن ہے کہ کسی حد تک اس میں کمی آجائے اور اس کے برے اثرات کم ہو جائیں۔ یہ کوشش امت محمد یہ اور اسلامی دنیا کی سب سے بڑی خدمت ہو گی یہی امام علی علیہ السلام کی خواہش بھی ہے اور ان کی سیرت بھی۔

 

حوالہ جات:

1: نہج البلاغہ،خطبہ ۵، ص۴۵، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔

2: نہج البلاغہ، خطبہ۷۴، ص۱۲۵، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔

3: نہج البلاغ، خطبه ۱۹۰، ص ۵۳۱، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم :علامہ مفتی جعفر حسین ، الهامیہ کتب خانہ ، لاہور۔

4: ایضاً، مکتوب ۶۲ ، ص ۷۸۰

5: ایضا، خطبه ۱۸، ص ۱۳۳

6: ایضا، مکتوب ، ۵۸، ص ۷۷۶

7: ایضا، مکتوب ، ۷۴، ص ۷۹۹

8: ایضا، خطبه ۱۲۳، ص ۳۵۰

9: ایضا، خطبه ۱۲۵، ص ۳۵۴ 

10: ایضا، خطبہ ا،ص ۷۲

11: خطبه ۳۳ ،ص ۱۷۱

 12: ایضا، خطبه ۹۳،ص ۲۸۴

13: ایضا، خطبه ۹۴،ص ۲۸۵

14: ایضا، خطبه ۲۱۴، ص ۵۹۲

15: ایضا، خطبه ۲۱۳ ،ص۵۹۲

16: ایضا، خطبه ۱۴۴، ص ۳۸۴

17: ایضا مکتوب ۷۸، ص ۸۰۲

18: ایضا، خطبه ۱۹۰ ص ۵۲۷

19: ایضا، خطبه ۱۹۰، ص ۵۳۰

20: ایضا، خطبہ، ۱۲۵،ص ۳۵۲

21: ایضاخطبہ، ۵۹، ص ۲۸۴

22: ایضا، خطبہ،۱۹۰، ص ۵۲۸

23: ایضا، خطبہ،۱۹۰،ص ۵۲۹

24:ایضا،خطبہ، ۱۴۸ ص ۳۹۲ 

25: ایضا ،خطبہ،۷۹ ا،ص، ۴۷۱

26: ایضا، خطبہ، ۳۴، ص ۱۷۲

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button