سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

اسلامی علوم و فنون کی ترقی میں امام علیؑ کا کردار

مقالہ نگار: ثاقب علی

 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
کلیدی الفاظ:علمی مقام،علوم اسلامی،علم تفسیر،علوم القرآن،فقہ،علم اصول،علم الکلام،علوم العربی،علم اخلاق،مستشرقین،مآخذ اسلامی۔
مقدمہ
موضوع تحقیق کا تعارف
تمام تعریفیں عالمین کے پروردگار کیلئے ہیں ۔پاک ہے وہ ذات کہ جس نے انسان کو تمام مخلوقات پر فوقیت دی اور اپنی بندگی کیلئے خلق فرمایا۔درود و سلام ہو محمد و آل محمد ؐ پر کہ جن کو اللہ تعالی نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی سے دور کیا۔شکر ہے اس ذات پاک کا کہ جنہوں نے ہمارے دلوں کو محبت اہل بیت ؑسے منور کیا۔ہمیں ان ہستیوں کی پیروی کی توفیق دی کہ جن کا انتخاب تمام مخلوقات میں سے خالق کائنات نے اپنے لیے کیا۔
ان غظیم ہستیوں میں سے ایک ہستی حضرت امام علی ابن طالبؑ ہیں کہ جن کو اللہ تعالی نے بے شمار فضائل سے نوازا،مومنین و متقین کا امام بنایا اور اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیؐ کا خلیفہ بلا فصل منتخب فرمایا۔حضرت امام علی کو خداوند تبارک و تعالی نے جو بے شماراوصاف و فضائل عطا فرمائے ہیں ان میں سے ایک علم ہے۔علم کے میدان میں عالم اسلام میں سلف و خلف میں کوئی علی جیسا پیدا نہیں ہوا بلکہ امام علیؑ کے علم سے متعلق خود سرور کائنات کا فرمان ہے کہ جو تواتر کے ساتھ شیعہ و اہل سنت محدثین نے نقل کیا ہے،اور اسی فرمان کو امام حسنؑ نے ایک خطبے میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:ایھا الناس سمعت جدی رسول اللہ یقول انا مدینۃ العلم و علی بابھا و ھل تدخل المدینۃ الا من بابھا(1) (اے لوگو:میں نے اپنے جد بزرگوار رسول اللہؐ سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔اور کیا شہر میں اس کے دروازے سے داخل ہوئے بغیر بندہ داخل ہوسکتا ہے؟)
اس مقالے کا موضوع اسلامی علوم و فنون کی ترقی میں امام علیؑ کا کردار ہے۔ اگر مولا علی ؑکی رہنمائی اور آپ کے ارشادات نہ ہوتے تو مسلمان علم کے میدان میں بالعموم اور بالخصوص علوم اسلامی میں وہ کامیابیاں حاصل نہ کرتے جو آج حاصل کرچکے ہیں۔ہماری کوشش ہوگی کہ نہایت اختصار کے ساتھ یہ بیان کرسکیں کہ علوم اسلامی کی ترقی میں امام علی کا کیا کردار رہا ہے اور امام علیؑ سے مروی کلام میں امام علیؑ نے کہاں کس علم کا اجمالا یا تفصیلا ذکر کیا ہے اور اس علم کے مختلف قواعد بیان کئے ہیں۔
موضوع کی اہمیت
یہ موضوع اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام علیؑ نے اسلامی علوم و فنون کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے۔اس موضوع پر کام کرنے سے ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ مستشرقین کا یہ اعتراض بالکل بے بنیاد ہے کہ اسلامی ماخذ و علوم آغاز اسلام کے کئی سو سال وجود میں آئے ہیں اور یہ حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آجائے گی اسلامی ماخذ اور علوم کی بنیاد خود آغاز اسلام میں رسول اللہ ،آپؐ کے اہل بیتؑ نے ہی رکھ دی تھی صرف یہ ہے کہ بعد میں آنے والے مسلمان علماء نے ان علوم کی توضیح کی ۔جب ہم حضرت امام علیؑ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ حقیقت آیاں ہوجاتی ہے کہ آپؑ نے بہت سارے اسلامی علوم جیسے علم کلام،علم تفسیر و علوم القرآن،علم فقہ و اصول اور علوم الحدیث کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے۔
مقاصد تحقیق
موضوع تحقیق کے مقاصد درج ذیل ہیں:
1.امام علیؑ کے علمی مقام کا جائزہ لینا
2.امام علیؑ کے علمی خدمات کا جائزہ لینا
3.اسلامی علوم و فنون کی ترقی میں امام علیؑ کے بنیادی کردار کا جائزہ لینا
امام علی علیہ السلام کا علمی مقام
امام علیؑ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جن کو علم کے میدان میں ایک بے نظیر مقام حاصل ہے۔ خود حضرت محمد مصطفیؐ نے اپنے ارشادات میں جہاں امام علیؑ کے باقی فضائل بیان فرمائے ہیں وہاں امام علی ؑکے علم کا بھی تذکرہ کیا ہے بلکہ رسول اللہؐ نے علیؑ کو اپنے علم کا دروازہ قرار دیا اور اس حدیث کو شیعہ و اہل سنت محدثین نے رسول اللہؐ سے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے کہ آپؐ نے علیؑ کے بارے میں فرمایا :
أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا،فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ، فَلْيَأْتِ الْبَابَ(2) (میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہے جو اس شہر کی طرف آنے کا ارادہ کرے وہ اسی دروازے سے آئے۔)حضرت امام صادقؑ سے مروی ہے کہ:یَا أَبَا مُحَمَّدٍ عَلَّمَ رَسُولُ اللّٰهِ عَلِیّاً أَلْفَ بَابٍ یُفْتَحُ مِنْ کُلِّ بَابٍ أَلْفُ بَابٍ(3)(ائے ابا محمد:رسول اللہؐ نے علیؑ کو ایک ہزار علم کے باب سیکھائے اور علی کیلئے ہر باب سے ایک ہزار علم کے اور باب نکلے۔)
ابن عباس کہتے ہیں کہ:فعلم النبي من اللّٰه، وعلم علي من النبي وعلمي من علم علي وعلم أصحاب محمدكلهم في علم علي كالقطرة الواحدة في سبعة أبحر۔(4) (رسول اللہؐ کا علم اللہ کی طرف سے تھا،علیؑ کا علم رسول اللہ کی طرف سے تھا یعنی رسول اللہؐ نے انہیں عطا کیا ہے،میرا علم علیؑ کی طرف سے ہے،اور تمام اصحاب محمدؐ کا علم علی ؑکے علم کے مقابلے میں ایسا ہے جیسا کہ ایک قطرہ سات سمندروں کے مقابلے میں۔)
امام علیؑ کے علمی مقام کے نہ صرف مسلمان علماء و محققین قائل ہیں بلکہ غیر مسلم بھی آپؑ کے علمی مقام کے قائل ہیں۔ایک عیسائی مؤلف جارد جرداق لکھتے ہیں کہ:
امام علی ابن ابی طالب قوت ادراک میں یگانہ روزگار تھے۔علوم اسلامی آپ کے فکر و نظر کے گرد گھومتے ہیں،آپ عربی معلومات کا سرچشمہ تھے،عرب کے اندر کوئی ایسا علم نہیں ہے کہ جس کو آپ نے وضع نہ کیا ہو یا اس کے وضع میں حصہ نہ لیا ہو۔(5)
اسلامی علوم و فنون کی ترقی میں امام علیؑ کا کردار
امام علی ؑسے منقول کلام کا جب انسان مطالعہ کرتا ہے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مولا علیؑ نے اس دور میں تقریبا تمام علوم اسلامی اور دیگر کئی سارے علوم کا اجمالا یا تفصیلا ذکر کیا ہے اور مسلمانوں کو واضح الفاظ میں ان علوم کی طرف متوجہ کیا ہے۔ہماری کوشش ہوگی کہ ان اسلامی علوم کا اختصار کے ساتھ ذکر کریں کہ جن کی ترقی میں آپؑ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
علم کلام
علم کلام علوم اسلامی کی ایک شاخ ہے جس میں اسلامی عقاید سے بحث کی جاتی ہے۔علم کلام اپنے مسائل کے اثبات اور مخاطب کو قانع کرنے کے لئے منطق کی مختلف روشوں جیسے قیاس، تمثیل و جدل سے استفادہ کرتا ہے۔ امام علیؑ کے خطبات و ارشادات میں علم کلام کے تقریبا 70فیصد سے زیادہ مسائل کا بیان موجود ہے کہ جن میں سے بعض کا بطور مثال ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔
الہیات
الہیات وہ علم ہے کہ جس میں خدا کے وجود،اس کے صفات اور ان امور سے متعلق بحث کی جاتی ہے کہ جو ذات الہی سے متعلق ہوتے ہیں۔ امام علی نے وجود صانع،ان کی معرفت،توحید،اور خلقت صانع کو بہت شاندار انداز میں بیان کیا ہے۔
وجود صانع،توحیدو معرفت خدا کا بیان
امام علیؑ وجود صانع،توحید اور معرفت باری تعالی کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:دین کی ابتدا اس کی معرفت ہے، کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے، کمالِ تصدیق توحید ہے، کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمالِ تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے، کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے۔لہٰذا جس نے ذاتِ الٰہی کے علاوہ صفات مانے اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا اس نے دوئی پیدا کی اور جس نے دوئی پیدا کی اس نے اس کیلئے جز بنا ڈالا اور جو اس کیلئے اجزا کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا ۔(6)
صفات ثبوتیہ و صفات سلبیہ کا بیان
اللہ تعالی کے صفات ثبوتیہ اور صفات سلبیہ سے متعلق بھی آپؑ کا کلام کئی خطبات میں موجود ہے ایک مقام پر آپؑ فرماتے ہیں کہ:
تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے کہ جو خلق (کائنات سے) اپنے وجود کا اور پیدا شدہ مخلوقات سے اپنے قدیم و ازلی ہونے کا اور ان کی باہمی شباہت سے اپنے بے نظیر ہونے کا پتہ دینے والا ہے۔ نہ حواس اسے چھو سکتے ہیں اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔ چونکہ بنانے والے اور بننے والے، گھیرنے والے اور گھرنے والے، پالنے والے اور پرورش پانے والے میں فرق ہوتا ہے۔وہ ایک ہے لیکن نہ ویسا کہ جو شمار میں آئے، وہ پیدا کرنے والا ہے لیکن نہ اس معنی سے کہ اسے حرکت کرنا اور تعب اٹھانا پڑے، وہ سننے والا ہے لیکن نہ کسی عضو کے ذریعہ سے اور دیکھنے والا ہے، لیکن نہ اس طرح کہ آنکھیں پھیلائے، وہ حاضر ہے لیکن نہ اس طرح کہ چھوا جا سکے، وہ جدا ہے نہ اس طرح کہ بیچ میں فاصلہ کی دوری ہو۔ وہ ظاہر بظاہر ہے مگر آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ذاتا پوشیدہ ہے نہ لطافت جسمانی کی بنا پر ۔(7)
ایک اور مقام پر مولا ارشاد فرماتے ہیں:خداوند عالم کو ایک حالت دوسری حالت سے سد راہ نہیں ہوتی، نہ زمانہ اس میں تبدیلی پیدا کر تا ہے، نہ کوئی جگہ اسے گھیرتی ہے اور نہ زبان اس کا وصف کر سکتی ہے۔(8)
اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ:ہم تیری عظمت و بزرگی کی حقیقت کو نہیں جانتے، مگر اتنا کہ تو زندہ و کار ساز (عالم) ہے، نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے، نہ تارِ نظر تجھ تک پہنچ سکتا ہے اور نہ نگاہیں تجھے دیکھ سکتی ہیں۔(9)
خلقت صانع کا بیان
اللہ تعالی نے کائنات ،زمین و آسمان اور اس کائنات میں موجود مخلوقات کو کیسے خلق فرمایا اس کے بعد انسان کو کیسے خلق کیا اس بارے میں امام علیؑ نے کئی خطبات میں تفصیل سے بیان کیا ہے جیسے کہ ایک مقام پر امام علیؑ خلقت صانع یعنی اللہ تعالی نے مخلوقات کو کیسے پیدا کیا اس بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:اس نے پہلے پہل خلق کو ایجاد کیا بغیر کسی فکر کی جولانی کے اور بغیر کسی تجربہ کے جس سے فائدہ اٹھانے کی اسے ضرورت پڑی ہو اور بغیر کسی حرکت کے جسے اس نے پیدا کیا ہو اور بغیر کسی ولولہ اور جوش کے جس سے وہ بیتاب ہوا ہو۔ ہر چیز کو اس کے وقت کے حوالے کیا، بے جوڑ چیزوں میں توازن و ہم آہنگی پیدا کی، ہر چیز کو جداگانہ طبیعت اور مزاج کا حامل بنایا اور ان طبیعتوں کیلئے مناسب صورتیں ضروری قرار دیں۔(10)
نبوت
جس طرح خالق کائنات اور اس کے صفات کا ذکر امام علیؑ کے کلام میں موجود ہے اسی طرح اللہ تعالی کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کیلئے بھیجے گئے انبیاء و نبوت کا ذکر بھی موجود ہے اور مولا نے بعض انبیاء کے بارے میں تفصیلات بھی بیان فرمائیے ہیں۔ایک مقام پر امام علیؑ فرماتے ہیں:
اللہ نے اپنی مخلوق کو بغیر کسی فرستادہ پیغمبرؑ یا آسمانی کتاب یا دلیلِ قطعی یا طریق روشن کے کبھی یونہی نہیں چھوڑا۔ ایسے رسولؑ، جنہیں تعداد کی کمی اور جھٹلانے والوں کی کثرت درماندہ و عاجز نہیں کرتی تھی، ان میں کوئی سابق تھا جس نے بعد میں آنے والے کا نام و نشان بتایا، کوئی بعد میں آیا جسے پہلا پہچنوا چکا تھا۔(11)
ختم نبوت کا بیان
آپؑ نے نہ صرف انبیاء سے متعلق تفصیلات دئیے بلکہ آپؑ نے آخری نبی حضرت محمدؐ کی سیرت کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور آپؐ کی خاتمیت اور ختم نبوت سے متعلق بھی آپ کا واضح طور پر تفصیل سے کلام موجود ہے جو کہ مسلمانوں کا مسلمہ عقیدہ ہے۔امام علیؑ رسول اللہ کی نبوت اور خاتم النبیین ہونے سے متعلق فرماتے ہیں کہ:اسی طرح مدتیں گزر گئیں، زمانے بیت گئے، باپ داداؤں کی جگہ پر ان کی اولادیں بس گئیں۔یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد و اِتمام نبوت کیلئے محمد ؐ کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد و پیمان لیا جا چکا تھا، جن کے علاماتِ (ظہور) مشہور، محل ولادت مبارک و مسعود تھا۔(12)
امامت
امام علی ؑنے نبوت کے ساتھ ساتھ امامت کو بھی بیان کیا ہے۔اپنی امامت پر دلائل،آئمہ کے نام،الآئمة من قریش کی وضاحت،علم آئمہ کا بیان،امام مھدی کا ظہور اور ان کے آنے سے پہلے پیش آنے والے حالات و واقعات اور امام کے فرائض منصبی ان تمام چیزوں کا ذکر امام علیؑ کے کلام میں موجود ہے۔ایک مقام پر طلحہ کے جواب میں آپؑ نے فرمایا کہ:جن آئمہ کی اطاعت کا اللہ تعالی نے قیامت تک کیلئے حکم دیا تھا ،رسول اللہؐ نےان کے نام بتائے تھے۔رسول اللہؐ نے پہلا نام میرا لیا تھا،پھر میرے بیٹے حسن ؑکا،پھر حسینؑ کا،پھر حسینؑ کے نو فرزندوں کا نام لیا۔(13)
معاد
امام علی ؑکے کلام میں ایک اور موضوع کہ جس کا ذکر کافی زیادہ ملتا ہے وہ معادہے۔آپ ؑ نے قبر،عالم برزخ،قیامت،قیامت کے دن سزا و جزاء،روز قیامت پیش آنے والے حالات،شفاعت،گواہان اور جنت و جہنم ان تمام تر چیزوں کا ذکر اپنے کلام میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ جن کی بحث معاد کے ذیل میں کی جاتی ہے۔جیسا کہ ایک مقام پر امامؑ فرماتے ہیں کہ:نزع کے وقت ان(بندوں)کی روحیں قبض کر لی جاتی ہیں اور قبروں میں رکھ دیئے جاتے ہیں، (جہاں) یہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور (پھر) قبروں سے اکیلے اٹھائے جائیں گے اور عملوں کے مطابق جزا پائیں گے اور سب کو الگ الگ حساب دینا ہو گا۔(14)
ایک اور مقام پر مولا ارشاد فرماتے ہیں کہ:جب قیامت کا ہنگامہ آ جائے گا تو اللہ سب کو قبر کے گوشوں،پرندوں کے گھونسلوں، درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت گاہوں سے نکالے گا، گروہ در گروہ، صامت و ساکت، ایستادہ و صف بستہ امر الٰہی کی طرف بڑھتے ہوئے اور اپنی جائے بازگشت کی جانب دوڑتے ہوئے، نگاهِ قدرت ان پر حاوی اور پکارنے والے کی آواز ان سب کے کان میں آتی ہوئی ہو گی۔(15)
علم تفسیر
علوم اسلامی میں سے ایک علم علم تفسیر ہے ،علم تفسیر سے مراد وہ علم ہے کہ جس میں آیات الہی میں بیان شدہ مراد خداوندی کو سمجھنے کیلئے کوشش کی جاتی ہے۔امام علیؑ کا قرآن مجید اورتفسیر کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے کہ جسے رسول اللہؐ نے خود اپنے ارشادات میں بھی بیان فرمایا ہے،رسول اللہ فرماتے ہیں کہ:علی مع القرآن و القرآن مع العلی لن تفترقا حتی یرد علی الحوض۔(16) (علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہیں،یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں۔)
اصحاب اور بعد کے مفسرین میں سے قرآن کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے علی ابن ابی طالبؑ ہیں،آپؑ سے منقول ایک روایت میں ہے کہ:سلونی عن کتاب اللّٰہ فواللّٰہ ما من آیة الا و انا اعلم بھا نزلت بلیلة ام بنہار ام فی سہل ام فی جمل(17) (مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں پوچھیں،اللہ کی قسم کوئی ایسی آیت نہیں جس سے متعلق مجھے علم نہ ہو،خوا وہ دن میں نازل ہوئی ہو یا رات میں،کسی صحرا میں نازل ہوئی ہو یا کسی پہاڑ پر۔)سب سے پہلے جس ہستی نے تفسیر پر کام کیا بلکہ پوری تفسیر لکھ لی وہ امام علیؑ ہیں۔مولا نے فقط متن قرآن جمع نہیں کیا تھا بلکہ پورے قرآن کی تفسیر لکھ لی اور یہ تفسیر آئمہ اہل بیتؑ کے پاس موجود رہی۔خود امام علیؑ نے اپنی تفسیر کے بارے میں طلحہ کو جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ:آئے طلحہ:ہر وہ آیت جس کو اللہ تعالی نے رسول اللہؐ پر نازل کیا،میرے پاس رسول اللہؐ کی لکھوائی ہوئی موجود ہے۔ہر حلال و حرام،حدو حکم یا ہر وہ چیز جس کی امت کو ضرورت ہے میرے پاس اللہ کے رسولؐ سے لکھوائی ہوئی موجود ہے،خط میرا ہے حتی کہ اس میں خراش تک کا تاوان موجود ہے۔(18)
علوم القرآن
قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے علوم القرآن کا سیکھنا ضروری ہے۔علوم القرآن سے مراد وہ تمام علوم ہیں کہ جو قرآن مجید سے متعلق ہیں۔ ان میں سے کئی سارے علوم ایسے ہیں کہ جن کا ذکر خود مولا علی ؑکے کلام میں بطور مستقل علم کے موجود ہے اور مولا نے انہیں ایک مستقل علم کے طور پر متعارف فرمایا ہے۔ہم اختصار کے ساتھ ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں۔
جمع و تدوین قرآن
علوم القرآن کے ذیل میں ایک اہم بحث جمع و تدوین قرآن ہے۔کب اور کیسے کل قرآن کو جمع کیا گیا،اور کن شخصیات نے اس حوالے سے اقدامات کیں۔سب سے پہلے جس شخصیت نے قرآن مجید کے جمع و تدوین کے حوالے سے اقدام کیا وہ امام علیؑ ہیں۔آپؑ سے مروی ہے کہ:
الیت ان لا ارتدی بردائی الا الی الصلوة حتی اجمع القرآن۔(19) (میں نماز کے علاوہ عبا نہیں پہنوں گا یہاں تک کہ قرآن مجید کو جمع کرلوں۔)
قد ورد عن علی انہ جمع القرآن علی ترتیب النزول عقب موت النبی۔(20) (حضرت علیؑ سے مروی ہے کہ انہوں نے ترتیب نزول کے مطابق رسول اللہؐ کے بعد قرآن مجید کو جمع کیا۔)
علم تجوید
علم تجوید سے مراد وہ علم ہے کہ جو حروف کا اپنے مخارج سے صحیح طریقے سے ادئیگی،حروف کے صفات لازمہ و عارضہ اور توقف کی درستگی کے بارے میں بحث کرتا ہے۔سب سے پہلے علم تجوید کی تعریف مولا علیؑ نے کی اور امت مسلمہ کے سامنے یہ علم متعارف کیا۔آپؑ سے مروی ہے کہ:أن أمیر المؤمنین علیه السلام سئل عن ترتیل القرآن فقال: هو حفظ الوقوف و بیان الحروف(21) (امیر المومنینؑ سے ترتیل قرآن کے بارے میں جب پوچھا گیا تو آپؑ نے جواب دیا کہ وقوف کی حفاظت کرنا اور حروف کو صحیح ادا کرنا۔)
قرائت قرآن
علوم قرآنی کے اہم ابحاث میں سے ایک بحث خود قرائت قرآن و قراء کا ہے۔قرآن مجید کی کس آیت کی قرائت کیسے کی جائے یہ جاننا ضروری ہے کیونکہ معنی میں اختلاف آجاتا ہے،اور ایک زمانے میں بہت زیادہ قسم کی قرائتیں رائج تھیں کہ بعد میں فقط سات قرائتوں کو متواتر سمجھا گیا اور ان میں سے بھی قرائت عاصم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ پوری امت کی تواتر اسی قرائت پر ہے۔جتنے بھی قراء ہیں اگر چہ اختلافی موارد شاید انکے اپنے اجتہادات ہیں لیکن قرائت قرآن میں ان سب کا سلسلہ امام علیؑ تک منتہی ہوتا ہے۔اس حوالے سے ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ:
إذا رجعت إلی کتب القراءات وجدت أئمة القراء کلهم یرجعون إلیه کأبی عمرو بن العلاء و عاصم بن أبی النجود و غیرهما لأنّهم یرجعون إلی أبی عبد الرحمن السلمی القارئ و أبو عبد الرحمن کان تلمیذه و عنه أخذ القرآن فقد صار هذا الفن من الفنون التی تنتهی إلیه أیضا۔(22)
ذھبی اپنی کتاب میں خود ابو عبد الرحمن سےنقل کرتے ہیں کہ:أخذت القراءة عن علي(23) (میں نے قرائت علی ؑسے لی ہے۔)
نقاط واعراب قرآن
جس دور میں قرآن مجید نازل ہوا اس دور میں خط عربی ابتدائی مراحل سے گزررہا تھا،اس وقت عربی حروف پر نہ تو نقاط تھے اور نہ اعراب کا رواج تھا۔عجم کی ایک بڑی تعداد اسلام کے دائرے میں داخل ہوچکی تھی کہ جو قرآن مجید کی تلاوت میں کبھی کبھار غلطی کرجاتے کیونکہ وہ عربی سے آشنا نہ تھے بلکہ یہاں تک کہ عجم کا اثر عرب پر اس حد تک ہوچکا تھا کہ بعض عرب ادباء کے کلام میں بھی غلطیاں نظر آنے لگیں۔لھذا اس دور میں نقاط و اعراب قرآن کی تعلیم حضرت علیؑ نے ابوالاسود دئلی کو دے کر قرآن مجید کی ایک بے مثال خدمت انجام دی۔ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ:من وضع العربیة و نقط المصاحف ابو الاسود و سئل عمن نہج لہ الطریق فقال تلقیتہ عن علی ابن ابی طالب۔(24) (جس نے عربی علوم کو وضع کیا اور قرآن پر نقطے لگائے وہ ابو الاسود ہیں اور جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ طریقہ کس نے آپ کو سیکھایا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ علی ابن ابی طالبؑ نے۔)
ذھبی لکھتے ہیں کہ:أخذ أبو الأسود عن علي العربية.فسمع قارئا يقرأ ( أن اللّٰه بريء من المشركين ورسوله) فقال:ما ظننت أمر الناس قد صار إلى هذافقال لزياد الأمير:ابغني كاتبا لقنا فأتى به فقال له أبو الأسود:إذا رأيتني قد فتحت فمي بالحرف فانقط نقطة أعلاه، وإذا رأيتني قد ضممت فمي،  فانقط نقطة بين يدي الحرف،  وإن كسرت،  فانقط نقطة تحت الحرف،  فإذا أتبعت شيئا من ذلك غنة فاجعل مكان النقطة نقطتين.فهذا نقط أبي الأسود .(25)
ناسخ و منسوخ،عام و خاص،مطلق و مقید کا بیان
علوم القرآن کے ذیل میں چند اور اہم عناوین ہیں کہ جن سے بحث کی جاتی ہے اور وہ ناسخ و منسوخ،عام و خاص،مطلق و مقید اور محکم و متشابہ ہیں۔یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن کا فہم قرآن میں گہرا اثر ہے ان کو سمجھے بغیر ہم قرآن مجید کو نہیں سمجھ سکتے۔امام علیؑ کے کلام میں قرآنی آیات کی یہ تقسیم ہمیں ملتی ہے کہ مولا نے مطالب و مفاہیم کے اعتبار سے قرآن آیات کی ایک بے مثال تقسیم بندی کی ہے کہ جسے سمجھنے کے بعد قرآنی آیات کا سمجھنا اور آسان ہوجاتا ہے اور جہاں کہیں آیات کے درمیان اگر ظاہری تضاد نظر آتا ہے تو وہ بھی حل ہوجاتا ہے اس حوالے سے مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ:پیغمبر ؐنے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے۔ اس حالت میں کہ انہوں نے کتاب کے حلال و حرام، واجبات و مستحبات، ناسخ و منسوخ، رخص و عزائم، خاص و عام، عبر و امثال، مقید و مطلق، محکم و متشابہ کو واضح طور سے بیان کر دیا، مجمل آیتوں کی تفسیر کر دی، اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔اس میں کچھ آیتیں وہ ہیں جن کے جاننے کی پابندی عائد کی گئی ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے ناواقف رہیں تو مضائقہ نہیں۔ کچھ احکام ایسے ہیں جن کا وجوب کتاب سے ثابت ہے اور حدیث سے ان کے منسوخ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور کچھ احکام ایسے ہیں جن پر عمل کرنا حدیث کی رُو سے واجب ہے لیکن کتاب میں ان کے ترک کی اجازت ہے۔ اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہ آئندہ میں ان کا وجوب برطرف ہو جاتا ہے۔(26)
تحریف قرآن
علوم القرآن کے ابحاث میں سے ایک معارکۃ الآراء بحث تحریف قرآن کا ہے۔تشیع اوپر ایک تاریخی اعتراض ہے کہ تشیع تحریف قرآن کے قائل ہیں حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ امت کے پاس جو قرآن ہے اور سب سے مشہور و متواتر جو قرائت ہے یعنی قرآئت عاصم کوفی یہ تشیع کا علمی ورثہ ہے کیونکہ عاصم شیعہ ہیں اور ابو عبد الرحمن کے شاگرد ہیں اور ابو عبد الرحمن السلمی امام علیؑ کے شاگرد ہیں۔قرآن مجید میں عدم تحریف کے حوالے سے طلحہ کے جواب میں امام علیؑ فرماتے ہیں کہ:آئے طلحہ:وہ تمام کا تمام قرآن ہے جو کچھ اس میں ہےاگر اس پر عمل کرو گےتو دوزخ سے نجات پاؤگے۔(27)
علوم الحدیث
علوم الحدیث سے مراد وہ تمام علوم ہیں کہ جو کسی نہ کسی جہت سے احادیث رسول اللہؐ سے متعلق سندا یا متنابحث کرتے ہیں۔علوم الحدیث کی بنیادی جو دو بڑی قسمیں ہیں وہ علم روایت و علم درایت ہیں،ان دو کے علاوہ علم رجال،علم جرح و تعدیل،علم مختلف الحدیث،علل الحدیث،غریب الحدیث و ناسخ و منسوخ فی الاحادیث وغیرہ یہ تمام علوم درحقیقت انہیں دو بڑی قسموں میں سے کسی نہ کسی کے ذیل میں آتے ہیں۔امام علیؑ نے علوم الحدیث کی طرف بھی امت مسلمہ کو متوجہ کیا اور اپنی کلام میں ان علوم کی اجمالا یا بعض مقامات پر تفصیلات ذکر کیں اور ان کی بنیاد ڈال دی۔
تدوین حدیث
علوم الحدیث کے تحت ایک مقدماتی بحث خود تدوین حدیث اور علوم حدیث کا ارتقاء ہے۔تدوین حدیث اور علوم حدیث کے ارتقاء میں جو بنیادی کردار امام علیؑ کا ہے وہ کسی اور کا نہیں ہے۔ مولا علیؑ کے پاس خود بھی اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک حدیثی مجموعہ موجود تھا کہ جو بعد میں آئمہ اہل بیتؑ کے پاس رہا۔اس مجموعے کے بارے میں امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ:یا ابا محمد و ان عندنا الجامعۃ و ما یدریھم ما الجامعۃ؟قال:قلت،جعلت فداک،و ما الجامعۃ،قال:صحیفۃ طولھا سبعون ذراعا بذراع رسول اللّٰہ و املائہ من فلق فیہ و خط علی بیمینہ فیھا کل حلال و حرام،و کل شئ یحتاج الناس الیہ حتی الارش فی الخدش۔(28) (اے ابا محمد ہمارے پاس جامعہ ہے اور وہ نہیں جانتے کہ جامعہ کیا ہے؟میں نے پوچھا کہ مولا جامعہ کیا ہے؟امام نے جواب دیا کہ جامعہ ایک کتاب ہے کہ جو 70 ذراع طویل ہے،رسول اللہؑ کے زراع کے مطابق اور آپؐ کا املا ہے کہ جو علیؑ نے لکھا ہے۔اس میں تمام حلال و حرام کا بیان ہے اور ہر اس چیز کا بیان ہے کہ لوگوں کو جس کی ضرورت ہے حتی کہ خراش کے ارش کا بھی۔)
علم روایت و درایت
علوم الحدیث کی دو بڑی قسمیں علم روایت و درایت ہے۔علم روایت سے مراد قول،فعل یا تقریر معصوم کو سند کے ساتھ نقل کرنا،جبکہ علم درایت سے مراد وہ علم ہے کہ جو ایسے قواعد پر مشتمل ہے کہ جن کی بنیاد پر کسی حدیث کو قبول یا رد کیا جاتا ہے۔اب امت مسلمہ میں سے سب سے پہلے یہ طریقہ امام علیؑ نے سیکھایا کہ حدیث کو سند کے ساتھ نقل کیا کرو اور ہر حدیث کو قبول نہ کرو بلکہ عقل اور قرآن پر اس حدیث کو پیش کرو اگر عقل اس کی تائید کرے یا قرآن کے مطابق ہو تو تب اس حدیث کو قبول کرو۔اس بارے میں امام علی ؑسے مروی ہے کہ:
إِذَا حَدَّثْتُمْ بِحَدِیثٍ فَأَسْنِدُوهُ إِلَی الَّذِی حَدَّثَکُمْ فَإِنْ کَانَ حَقّاً فَلَکُمْ وَ إِنْ کَانَ کَذِباً فَعَلَیْهِ.(29) (جب تم کسی حدیث کو بیان کرتے ہو تواس کی طرف اسناد دے کر بیان کیا کرو جس سے تم نے لیا ہے،اگر وہ حق ہو تو تیرے لئے ہوجائے گا اور اگر جھوٹ ہو تو اس پر اس کا وبال ہوگا۔)
اسی طرح کسی حدیث کے رد کرنے یا اسے قبول کرنے کے حوالے سے مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ:جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو، صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو۔ کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور و فکر کرنے والے کم ہیں۔(30)
علم رجال ،تنویع حدیث و تعارض فی الاحادیث کے وجوہات کا بیان
علم رجال وہ علم ہے کہ جس میں راویوں کے حالات و اوصاف سے بحث کی جاتی ہے،اس جہت سے کہ اس کی روایت قابل قبول ہے یا رد کی جائے یعنی فلاں راوی متصف بہ صدق ہے یا متصف بہ کذب ہے۔امام علیؑ سے جب منگھڑت احادیث اور احادیث میں اختلاف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؑ نے جواب میں راویین کے صفات،اختلاف فی الاحادیث کی وجوہات اور تنویع حدیث کے بارے میں مکمل خطبہ دیا کہ جو علم رجال کی بنیاد قرار پایا۔امام علیؑ سے منقول ایک طویل خطبہ اس حوالے سے کچھ یوں ہے کہ:ایک شخص نے آپؑ سے منگھڑت اور متعارض حدیثوں کے متعلق دریافت کیا جو لوگوں کے ہاتھوں میں پائی جاتی ہیں تو آپؑ نے فرمایا کہ:لوگوں کے ہاتھوں میں حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، ناسخ اور منسوخ، عام اور خاص، واضح اور مبہم، صحیح او رغلط، سب ہی کچھ ہے۔۔۔۔تمہارے پاس چار طرح کے لوگ حدیث لانے والے ہیں کہ جن کا پانچواں نہیں ۔ایک تو وہ جس کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ، وہ ایمان کی نمائش کرتا ہے اور مسلمانوں کی سی وضع قطع بنا لیتا ہے، نہ گناہ کرنے سے گھبراتا ہے اور نہ کسی افتاد میں پڑنے سے جھجکتا ہے۔وہ جان بوجھ کر رسول اللہ ؐ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ اگر لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ یہ منافق اور جھوٹا ہے تو اس سے نہ کوئی حدیث قبول کرتے اور نہ اس کی بات کی تصدیق کرتے، لیکن وہ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ؐ کا صحابی ہے، اس نے آنحضرت ؐ کو دیکھا بھی ہے اور ان سے حدیثیں بھی سنی ہیں اور آپؐ سے تحصیل علم بھی کی ہے۔۔۔۔اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے (تھوڑا بہت) رسول اللہ ؐسے سنا، لیکن جوں کا توں اسے یاد نہ رکھ سکا او راس میں اسے سہو ہو گیا۔ یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا، یہی کچھ اس کے دسترس میں ہے، اسے ہی دوسروں سے بیان کرتا ہے اور اسی پر خود بھی عمل پیرا ہوتا ہے اور کہتا بھی یہی ہے کہ: میں نے رسول ؐ سے سنا ہے۔ اگر مسلمانوں کو یہ خبر ہو جاتی کہ اس کی یادداشت میں بھول چوک ہو گئی ہے تو وہ اس کی بات کو نہ مانتے اور اگر خود بھی اسے اس کا علم ہو جاتا تو اسے چھوڑ دیتا۔
تیسرا شخص وہ ہے کہ جس نے رسول اللہ ؐ کی زبان سے سنا کہ آپؐ نے ایک چیز کے بجا لانے کا حکم دیا ہے، پھر پیغمبر ؐنے تو اس سے روک دیا، لیکن یہ اسے معلوم نہ ہو سکا، یا یوں کہ اس نے پیغمبر ؐ کو ایک چیز سے منع کرتے ہوئے سنا پھر آپؐ نے اس کی اجازت دے دی، لیکن اس کے علم میں یہ چیز نہ آسکی۔ اس نے (قول) منسوخ کو یاد رکھا اور (حدیث) ناسخ کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ اگر اسے خود معلوم ہو جاتا کہ یہ منسوخ ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا اور مسلمانوں کو بھی اگر اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر ہوتی تو وہ بھی اسے نظر انداز کر دیتے۔
اور چوتھا شخص وہ ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول ؐپر جھوٹ نہیں باندھتا۔ وہ خوف خدا اور عظمت رسول اللہ ؐکے پیش نظر کذب سے نفرت کرتا ہے۔ اس کی یاد داشت میں غلطی واقع نہیں ہوتی، بلکہ جس طرح سنا اسی طرح اسے یاد رکھا اور اسی طرح اسے بیان کیا، نہ اس میں کچھ بڑھایا، نہ اس میں سے کچھ گھٹایا، حدیث ناسخ کو یاد رکھا تو اس پر عمل بھی کیا، حدیث منسوخ کو بھی اپنی نظر میں رکھا اور اس سے اجتناب برتا، وہ اس حدیث کو بھی جانتا ہے جس کا دائرہ محدود اور اسے بھی جو ہمہ گیر اور سب کو شامل ہے اور ہر حدیث کو اس کے محل و مقام پر رکھتا ہے اور یوں ہی واضح اور مبہم حدیثوں کو پہچانتا ہے۔
کبھی رسول اللہؐ  کا کلام دو رخ لئے ہو تا تھا: کچھ کلام وہ جو کسی وقت یا افراد سے مخصوص ہوتا تھا اور کچھ وہ جو تمام اوقات اور تمام افراد کو شامل ہوتا تھا اور ایسے افراد بھی سن لیا کرتے تھے کہ جو سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ اللہ نے اس سے کیا مراد لیا ہے اور پیغمبر ؐ کا اس سے مقصد کیا ہے، تو یہ سننے والے اسے سن تو لیتے تھے ۔۔۔۔یہ ہیں لوگوں کے احادیث و روایات میں اختلاف کے وجوہ و اسباب۔)(31)
اس خطبے میں واضح طور پر مولاؑ نے بیان کیا ہے کہ راوی اگر عادل و موثق نہ ہو بلکہ منافق ہو یا ضبط اس کی قوی نہ ہو تو اس کی حدیث قبول نہ کی جائے۔اسی طرح احادیث کئی قسم کی ہیں فقط روایت حدیث کافی نہیں بلکہ فہم حدیث بھی ضروری ہے۔
علم اصول و فقہ
علم اصول سے مراد وہ علم ہے کہ جس میں ان قواعد سے بحث کی جاتی ہے کہ جن کی بنیاد پر ادلہ کے ذریعے سے حکم شرعی پر استدلال و استنباط کیا جاتا ہے۔اور علم فقہ سے مراد وہ علم ہے کہ جس کے ذریعے سے مکلف پر اللہ تعالی کی طرف سے جو احکام عائد کئے جاتے ہیں ادلہ تفصیلیہ کے ذریعے سے ان احکام کو ثابت کیا جاتا ہے۔امام علیؑ نے اس دور میں ادلہ شرعیہ،اصول عملیہ اور کئی سارے کلیات فقہ بیان کرکے درحقیقت اس علم کی بنیاد ڈال دی۔اس دور میں امام علیؑ نے بیان فرمایا کہ ہر طرح کے چیز سے استدلال نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہر طرح کے مفتی کے فتوی کو قبول کیا جاسکتا ہے ۔اسی طرح جہاں قرآن و حدیث کی تلاش کے باوجود رسائی ممکن نہ ہو یا کوئی حکم قرآن و حدیث میں آپ کو بظاہر نظر نہ آئے وہاں مکلف کی کیا ذمہ داری ہے۔
قرآن و حدیث کی حجیت کا بیان
حجیت قرآن و حدیث کو بیان کرتے ہوئے مولا فرماتے ہیں کہ:قرآن (اچھائیوں کا )حکم دینے والا، برائیوں سے روکنے والا، (بظاہر) خاموش اور (بباطن) گویا اور مخلوقات پر اللہ کی حجت ہے کہ جس پر (عمل کرنے کا) اس نے بندوں سے عہد لیا ہے اور ان کے نفسوں کو اس کا پابند بنایا ہے، اس کے نور کو کامل اور اس کے ذریعہ سے دین کو مکمل کیا ہے اور نبی ؐ کو اس حالت میں دنیا سے اٹھایا کہ وہ لوگوں کو ایسے احکام قرآن کی تبلیغ کر کے فارغ ہو چکے تھے کہ جو ہدایت و رستگاری کا سبب ہیں۔)(32)
حجیت حدیث سے متعلق ایک مقام پر آپؑ نے فرمایا کہ:
تم ان سے قرآن کی رو سے بحث نہ کرنا، کیونکہ قرآن بہت سے معانی کا حامل ہوتا ہے اور بہت سی وجہیں رکھتا ہے، تم اپنی کہتے رہو گے، وہ اپنی کہتے رہیں گے، بلکہ تم حدیث سے ان کے سامنے استدلال کرنا، وہ اس سے گریز کی کوئی راہ نہ پا سکیں گے۔
اصول علمیہ و کلیات فقہ کا بیان
اسی طرح اصول عملیہ و کلیات فقہ کا بیان بھی آپ کے کلام میں بہت زیادہ نظر آتا ہے۔
استصحاب کو بیان کرتے ہوئے مولا بیان کرتے ہیں کہ:
جو یقین پر ہے اس کے بعد اگر شک کرے تو یقین کو باقی رکھے،کیونکہ شک یقین کو نقض نہیں کرسکتا۔(34)
برائت کو بیان کرتے ہوئے مولا بیان فرماتے ہیں کہ:
اللہ نے چند فرائض تم پر عائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو اور تمہارے حدودِ کار مقرر کر دیے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔ اس نے چند چیزوں سے تمہیں منع کیا ہے اس کی خلاف ورزی نہ کرو اور جن چند چیزوں کا اس نے حکم بیان نہیں کیا انہیں بھولے سے نہیں چھوڑ دیا۔ لہٰذا خواہ مخواہ انہیں جاننے کی کوشش نہ کرو۔(35)
احتیاط کو بیان کرتے ہوئے مولا بیان فرماتے ہیں کہ:
ياكميل أخوك دينك فاحتط لدينك بما شئت۔(36) (آئے کمیل:تیرا بھائی دین ہے اور جتنا ہوسکے دین میں احتیاط کیا کرو۔)
قیاس کہ جسے امام ابو حنیفہ نے اختیار کیا اور فقہ حنفی کا خاصہ قیاس و استحسان ہے۔قیاس و استحسان میں کوئی خاص فرق نہیں بلکہ یہی کہ اگر قیاس جلی ہو تو اسے قیاس کہتے ہیں اور اگر قیاس خفی ہو تو اسے استحسان کہتے ہیں۔امام علیؑ قیاس کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
عَلِّمُوا صِبْیَانَکُمْ (مِنْ عِلْمِنَا) مَا یَنْفَعُهُمُ اللَّهُ بِهِ لَا تَغْلِبُ عَلَیْهِمُ الْمُرْجِئَةُ بِرَأْیِهَا وَ لَا تَقِیسُوا الدِّینَ فَإِنَّ مِنَ الدِّینِ مَا لَا یُقَاسُ وَ سَیَأْتِی أَقْوَامٌ یَقِیسُونَ فَهُمْ أَعْدَاءُ الدِّینِ وَ أَوَّلُ مَنْ قَاسَ إِبْلِیسُ إِیَّاکُمْ وَ الْجِدَالَ فَإِنَّهُ یُورِثُ الشَّکَّ وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنَّا هَلَکَ۔(37)
کلیات فقہ کا بیان بھی امام علیؑ کے کلام میں بہت زیادہ ہے ان میں سے بعض کو اختصار کے پیش نظر فقط بطور مثال لیکر آتے ہیں۔
ایک مقام پر امام علیؑ طہارت و نجاست کے حوالے سےفرماتے ہیں کہ:
مَا أُبَالِی أَ بَوْلٌ أَصَابَنِی أَوْ مَاءٌ إِذَا لَمْ أَعْلَم۔(38) (مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ مجھے پیشاب لگاہے یا پانی جب مجھے علم نہ ہو ۔)
ایک اور مقام پر امام علیؑ غسل جنابت سے متعلق فرماتے ہیں کہ:
إِنَّمَا الْغُسْلُ مِنَ الْمَاءِ الْأَکْبَرِ فَإِذَا رَأَی فِی مَنَامِهِ وَ لَمْ یَرَ الْمَاءَ الْأَکْبَرَ فَلَیْسَ عَلَیْهِ غُسْلٌ.(39) (غسل تب واجب ہوتا ہے جب حدث اکبر خارج ہو،اگر بندہ خواب دیکھے اور پانی نہ دیکھےتو اس پر غسل نہیں ہے۔)
ایک اور مقام پر مولا علیؑ روئیت ہلال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
صم لرؤيته و أفطر لرؤيته و إياك و الشك و الظن فإن خفي عليكم فأتموا الشهر الأول ثلاثين۔(40) (جب (رمضان کا)چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب(شوال کا) چاند دیکھو تو افطار کرو،شک اور ظن سے دور رہو،اگر تمہارے اوپر چاند ظاہر نہ ہو تو اس مہینے کے تیس دن پورے کرو۔)
علم اخلاق
علم اخلاق سے مراد وہ علم ہے کہ جو انسان کے عادات و اطوار،اوصاف حسنہ و سیئہ و آداب معاشرت سےبحث کرتا ہے۔اسلام نے عقائد و احکام کے ساتھ ساتھ اخلاق کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی ہے،بلکہ عقائد و احکام کے بعد تیسرے مرحلے پر اخلاق کا بیان ہوتا ہے۔بالخصوص قرآن مجید نے اخلاق پر بہت زور دیا ہے اورآیات الاحکام سے زیادہ آیات اخلاقی ہیں۔اسی طرح آپؑ کے خطبات و فرمودات بھی ہمیں اخلاقیات سے پر نظر آتے ہیں۔
ایک مقام پر اخلاق حسنہ کے بارے میں مولا فرماتے ہیں کہ:مُقَارَبَةُ النَّاسِ فِیْۤ اَخْلَاقِهِمْ اَمْنٌ مِّنْ غَوَآئِلِهِمْ.(لوگوں سے ان کے اخلاق و اطوار میں ہم رنگ ہونا ان کے شر سے محفوظ ہو جانا ہے۔)(41) تقوی کے بیان میں مولا بیان فرماتے ہیں کہ:تقویٰ، تمام خصلتوں کا سرتاج ہے۔(42)
اسی طرح متقین کے اوصاف پر مشتمل ایک بے مثال خطبہ امام علیؑ کے کلام میں ہمیں ملتا ہے کہ جس کا نام خطبۃ المتقین ہے۔(43)
زہد کے بارے میں مولا بیان فرماتے ہیں کہ:زہد کی مکمل تعریف قرآن کے دو جملوں میں ہے: ارشاد الٰہی ہے: ’’جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے اس پر رنج نہ کرو، اور جو چیز خدا تمہیں دے اس پر اتراؤ نہیں‘‘۔ لہٰذا جو شخص جانے والی چیز پر افسوس نہیں کرتا اور آنے والی چیز پر اتراتا نہیں، اس نے زہد کو دونوں سمتوں سے سمیٹ لیا۔(44)
حیاء کے بارے میں مولا بیان فرماتے ہیں کہ
جو زیادہ بولے گا وہ زیادہ لغزشیں کرے گا، اور جس کی لغزشیں زیادہ ہوں اس کی حیا کم ہو جائے گی، اور جس میں حیا کم ہو اس میں تقویٰ کم ہو گا، اور جس میں تقویٰ کم ہو گا اس کا دل مردہ ہو جائے گا، اور جس کا دل مردہ ہو گیا وہ دوزخ میں جا پڑا۔(45)
حلم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:حلم و تحمل ڈھانکنے والا پردہ اور عقل کاٹنے والی تلوار ہے۔ لہٰذا اپنے اخلاق کے کمزور پہلو کو حلم و بردباری سے چھپاؤ اور اپنی عقل سے خواہشِ نفسانی کا مقابلہ کرو۔(46)
صبر کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:صبر دو طرح کا ہوتا ہے: ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر۔(47)
قناعت کو بیان کرتے ہوئے امام فرماتے ہیں کہ:قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا۔(48)
علوم العربی
امام علیؑ کے علمی خدمات میں سے ایک اہم اور نمایاں خدمت یہ ہے کہ امام علیؑ نے علوم عربی کی بنیاد رکھی۔فتوحات کےبعد عجمیوں کے مسلمان ہونے اور اہل عرب کے ساتھ رہنے کی وجہ سے خود اہل عرب کے کلام میں غلطیاں نظر آنے لگیں بلکہ بعض ادباء اس چیز کے شکار ہوئے۔آپؑ کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ اگر عربی زبان کی حفاظت نہ کی گئی تو شاید قرآن بھی محفوظ نہ رہے اور بعض لوگ اس دور میں قرآن کی تلاوت میں غلطیوں کاشکار ہوچکے تھے لھذا اس کے بعد آپؑ نے ابو الاسود دوئلی ؒ کو متوجہ کیا اور ان کو چند قواعد سیکھائے اور فرمایا کہ انج ھذا النحوہ(یعنی تم یہ طریقہ اختیار کرو۔)(49) اور یہیں سے علم النحو کی باقاعدہ طور پر بنیاد پڑ گئی اور علم النحو کو نحو کہا گیا۔علوم العربی جو کہ کل بارہ ١٢ ہیں نحو و صرف و بلاغت وغیرہ جتنے بھی ہیں ان میں سے ہر علم کلمہ، کلام یا ان دونوں سے کسی نہ کسی جہت سے بحث کرتا ہے ،سب سے پہلے کلام،کلمہ،کلمے کی اقسام اور اس طرح باقی کئی اہم چیزیں امام علیؑ نے اپنے شاگرد ابو الاسود الدئلی کو سیکھائیں اور وہیں سے اس فن کی بنیاد پڑ گئی۔
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ:اول من وضع العربیة و نقط المصاحف ابو الاسود و قد سئل عمن نہج لہ الطریق فقال تلقیتہ عن علی ابن ابی طالب۔(50) (سب سے پہلے جنہوں نے علوم عربی وضع کئے اور مصاحف پر نقطے لگائے وہ ابو الاسود ہیں اور جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ طریقہ آپ کو کس نے سیکھایا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ مجھے علی ابن ابی طالبؑ نے سیکھایا ہے۔)
ذھبی ابو الاسود دوئلی کے قول کو نقل کرتے ہیں کہ:دخلت على علي فرأيته مطرقا،فقلت:فيم تتفكر يا أمير المؤمنين؟قال:سمعت ببلدكم لحنا فأردت أن أضع كتابا في أصول العربية.فقلت:إن فعلت هذا،أحييتنا.فأتيته بعد أيام، فألقى إلي صحيفة فيها۔الكلام كله اسم،وفعل،وحرف،فالاسم ما أنبأ عن المسمى،والفعل ما أنبأ عن حركة المسمى،والحرف ما أنبأ عن معنى ليس باسم ولا فعل،ثم قال لي:زده وتتبعه،فجمعت أشياء ثم عرضتها عليه.(51) ( میں حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا،تو دیکھا کہ آپؑ سر جھکائے خاموش بیٹھے ہیں،میں نے کہا کہ یا امیر المومنینؑ آپ کیوں فکر مند ہیں؟انہوں نے جواب دیا کہ میں نے تمہارے شہر میں دیکھا کہ لوگ زبان میں غلطی کے شکار ہوچکے ہیں،میں چاہتا ہوں کہ اصول عربیہ پر مشتمل ایک کتاب تحریر کروں۔میں نے کہا کہ اگر آپؑ یہ کرلیں تو ہمارے لئے عربی زبان کو زندہ کرلیں گے۔چند دن بعد انہوں نے مجھے ایک صحیفہ دیا کہ جس پر تحریر تھا۔کلام کی تین قسمیں ہیں اسم،فعل اور حرف۔اسم وہ ہے کہ جو کسی مسمی کا پتہ دے اور فعل وہ ہے کہ جو مسمی کے عمل و حرکت کا پتہ دے اور حرف وہ ہے کہ جس میں نہ اسم کا معنی ہو اور نہ فعل کا معنی ہو۔)
پس معلوم ہوا کہ علوم العربی کو وضع کرنے اور ان کی ترقی میں امام علیؑ کا بنیادی کردار ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی قواعد ہیں کہ جو امام علیؑ نے ہی ابوالاسودؒ کو سیکھائےہیں یا مختلف قواعد وضع کرنے اور حروف کی تقسیم بندی میں ان کی رہنمائی کی ہے لیکن اختصار کے پیش نظر ہم فی الحال اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔

 

حوالہ جات
1:صدوق،محمد بن علی بن بابویہ،امالی الصدوق(مؤسسۃ البعثہ،1434 ھ)ص 483
2:حاکم نیشاپوری،ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ،المستدرک علی الصحیحین،باب ذکر بیعۃ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب رضوان اللہ علیہ(شام،دار المنہاج القویم للنشر و التوزیع،1439ھ)رقم حدیث 4687
3:کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،باب فیہ ذکر الصحیفۃ و الجفر و الجامعۃ و مصحف فاطمۃ(قم،مؤسسہ دار الحدیث العلمیہ و الثقافیہ،1435ھ)رقم حدیث1
4:طوسی،محمد بن حسن،امالی الطوسی(تہران،مؤسسہ البعثہ،1385ق)ص 15
5: جار ج سمعان جرداق،مترجم محمد باقر نقوی ،نفس رسول(ندائے عدالت انسانی)(بہار،اصلاح پریس کجھوا)6/56
6:رضی،سید محمد بن الحسین،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ(معراج کمپنی،لاہور،2003ء)ص69
7: رضی،سید محمد بن الحسین،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ(معراج کمپنی،لاہور،2003ء )ص351
8: ایضا-ص411
9: ایضا-ص369
10: ایضا-ص69
11:ایضا-ص73
12: رضی،سید محمد بن الحسین،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ(معراج کمپنی،لاہور،2003ء )ص74
13:سلیم،سلیم ابن قیس ہلالی،مترجم ملک محمد شریف،کتاب سلیم ابن قیس ہلالی(ملتان،العمران بکڈپو)ص101
14: رضی،سید محمد بن الحسین،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ(معراج کمپنی،لاہور،2003ء )ص208
15: ایضا-ص207
16: حاکم نیشاپوری،ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ،المستدرک علی الصحیحین،باب ذکر بیعۃ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب رضوان اللہ علیہ(شام،دار المنہاج القویم للنشر و التوزیع،1439ھ)رقم حدیث 4628
17:سیوطی،جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر،الاتقان فی علوم القرآن(بیروت،دار الکتاب العربی،1421ھ)ص
18: سلیم،سلیم ابن قیس ہلالی،مترجم ملک محمد شریف،کتاب سلیم ابن قیس ہلالی(ملتان،العمران بکڈپو)ص100
19:سیوطی،جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر،تاریخ الخلفاء(مکتبۃ نزار مصطفی الباز،2004ء)ص142
20:سیوطی،جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر،الاتقان فی علوم القرآن(بیروت،دار الکتب العربی)1/248
21:فیض کاشانی،محمد بن شاہ مرتضی،تفسیر الصافی(تہران،مکتبۃ الصدر،1415ق،1)/71
22:ابن ابی الحدید،عبد الحمید بن ھبۃ اللہ،شرح نہج البلاغہ(ایران،کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی،1404ھ)1/28
23: ذھبی،محمد بن احمد،سیر اعلام النبلاء(مکتبة الاسلامیہ،2001ء)4/269
24:ابن حجر عسقلانی،ابو الفضل احمد بن علی،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(بیروت،دار الکتب العلمیۃ،1415ھ)3/456
25:ذھبی،محمد بن احمد،سیر اعلام النبلاء(مکتبة الاسلامیہ2001ء)4/83
26: رضی،سید محمد بن الحسین،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ،معراج کمپنی،لاہور،2003ء،ص74
27:سلیم،سلیم ابن قیس ہلالی،مترجم ملک محمد شریف،کتاب سلیم ابن قیس ہلالی(ملتان،العمران بکڈپو)ص103
28:کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،باب فیہ ذکر الصحیفۃ و الجفر و الجامعۃ و مصحف فاطمۃ(قم،موسسہ دار الحدیث العلمیہ و الثقافہ،1430ھ)رقم حدیث:1
29: کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،باب روایۃ الکتب و الحدیث و فضل الکتابۃ(قم،موسسہ دار الحدیث العلمیہ و الثقافہ،1430ھ)رقم حدیث:7
30: رضی،سید محمد بن الحسین،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ،معراج کمپنی،لاہور،2003ء،ص721
31: رضی،سید محمد بن الحسین،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ،معراج کمپنی،لاہور،2003ء،ص509
32: ایضا-ص426
33: ایضا-ص695
34:صدوق،محمد بن علی بن بابویہ،الخصال،باب مما یصلح للمسلم فی دینہ و دنیاہ(اصفہان،مرکز تحقیقات رایانہ،1398ھ)رقم حدیث 10
35: رضی،سید محمد بن الحسین،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ،معراج کمپنی،لاہور،2003ء،ص723
36:مفید،محمد بن محمد بن نعمان،امالی الشیخ مفید(قم،مؤسسۃ عمران مساجد،1361ھ)ص246
37:حر عاملی،محمد بن حسن،وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ،باب عدم جواز القضاء و الحکم بالرای و الاجتہاد و المقاییس و نحوھا من الاستنباطات الظنیۃ فی نفس الاحکام الشرعیۃ(بیروت،دار احیاء التراث العربی،1389ھ) رقم حدیث 33170
38:صدوق،محمد بن علی بن بابویہ،من لا یحضرہ الفقیہ،باب ما ینجس الثوب و الجسد(تہران،دار الکتب الاسلامیہ،1390ھ)رقم حدیث17
39:کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،باب احتلام الرجل و المراۃ(قم،موسسۃ دار الحدیث العلمیہ و الثقافیہ،1430ھ)رقم حدیث 231
40:فیض کاشانی،محمد بن مرتضی،الوافی،باب علامۃ دخول الشہر و ان الصوم للرؤیۃ و الفطر للرؤیۃ(اصفہان،عطر عترت،1430ھ)رقم حدیث10528
41: رضی،سید محمد بن الحسین،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ،معراج کمپنی،لاہور،2003ء،ص807
42: ایضا-ص809
43:ایضا -ص 474
44:ایضا -ص 698
45: ایضا-ص 394
46:ایضا ص 813
47: ایضا-ص712
48: ایضا -ص712
49:مفتی، جعفر حسین،سیرت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ(لاہور،امامیہ پبلیکیشنز،2000ء)ص310
50: ابن حجر عسقلانی،ابو الفضل احمد بن علی،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(بیروت،دار الکتب العلمیۃ،1415ھ)3/456
51: ذھبی،شمس الدین محمد بن احمد،سیر اعلام النبلاء(مکتبة الاسلامیۃ،2001ء)4/84

 

فہرست مصادر و مراجع

1:فیض کاشانی،محمد بن شاہ مرتضی،تفسیر الصافی،تہران،مکتبۃ الصدر،1415ق ذھبی،محمد بن احمد،سیر اعلام النبلاء(مکتبۃ الاسلامیہ2001ء)
2:کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی (قم،مؤسسہ دار الحدیث العلمیہ و الثقافیہ،1435ھ)
3:صدوق،محمد بن علی بن بابویہ،امالی الصدوق(مؤسسۃ البعثہ،1434 ھ)
4:حاکم نیشاپوری،ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ،المستدرک علی الصحیحین (شام،دار المنہاج القویم للنشر و التوزیع،1439ھ)
5:طوسی،محمد بن حسن،امالی الطوسی(تہران،مؤسسہ البعثہ،1385ق)
6:ابن شہر آشوب،محمد بن علی،نخب المناقب لال ابی طالب ؑ(قم،مکتبہ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی ؒ،الخزانۃ العالمیہ للمخطوطات الاسلامیہ،1433ق،)
7:رضی،سید محمد بن الحسین،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ(معراج کمپنی،لاہور،2003ء)
8:صدوق،محمد بن علی بن بابویہ،الخصال،باب مما یصلح للمسلم فی دینہ و دنیاہ(اصفہان،مرکز تحقیقات رایانہ،1398ھ)
9:ابن ابی الحدید،عبد الحمید بن ھبۃ اللہ،شرح نہج البلاغہ(ایران،کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی،1404ھ)
10:نقاش،محمد بن حسن موصلی،شفاء الصدور فی تفسیر القرآن العظیم(مکتبۃ المحقق الطباطبائی)
11:جار ج سمعان جرداق،مترجم محمد باقر نقوی ،نفس رسول(ندائے عدالت انسانی)(بہار،اصلاح پریس کجھوا)
12:سلیم،سلیم ابن قیس ہلالی،مترجم ملک محمد شریف،کتاب سلیم ابن قیس ہلالی(ملتان،العمران بکڈپو)
13:مفید،محمد بن محمد بن نعمان،امالی الشیخ مفید(قم،مؤسسۃ عمران مساجد،1361ھ)
14:حر عاملی،محمد بن حسن،وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ (بیروت،دار احیاء التراث العربی،1389ھ)
15:ابن ابی الحدید،عبد الحمید بن ھبۃ اللہ،شرح نہج البلاغہ(ایران،کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی،1404ھ)
16:مفتی، جعفر حسین،سیرت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ(لاہور،امامیہ پبلیکیشنز،2000ء)
17:سیوطی،جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر،الاتقان فی علوم القرآن(بیروت،دار الکتاب العربی،1421ھ)
18:سیوطی،جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر،تاریخ الخلفاء(مکتبۃ نزار مصطفی الباز،2004ء)
19:ذھبی،شمس الدین محمد بن احمد،سیر اعلام النبلاء(مکتبۃ الاسلامیۃ،2001ء)
20:ابن حجر عسقلانی،ابو الفضل احمد بن علی،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(بیروت،دار الکتب العلمیۃ،1415ھ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button