سیرتسیرت امام موسی کاظمؑ

امام موسی کاظم علیہ السلام کا راہ خدا میں انفاق اور حسن سلوک

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے اقرباء کے ساتھ صلہ رحمی فرماتے تھے فقراء مدینہ کا خیال رکھتے راتوں کو ان کے لیے درہم و دینار ، آٹا اور خرما پہونچاتے تھےاور ان کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا کہ یہ چیزیں ان تک کہاں سے پہنچی ہیں
محمد بن عبد اللہ بکری کا بیان ہے : میں مدینہ گیا کہ کہ کچھ پیسے قرضہ لے سکوں لیکن مجھے ایسا کوئی نہیں ملا جو میری ضرورت پوری کرسکتا ہو۔ میں نے سوچا بہتر ہے کہ حضرت ابوالحسنؑ کی خدمت میں حاضر ہوں شاید وہ میری مشکل ااسان کردیں آپ مدینہ سے باہر اپنی زراعت کی دیکھ بھال میں مصروف تھے میں آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا آپ اپنے غلاموں کے ساتھ میرے پاس آئے۔
غلاموں کے پاس طرح طرح کے ظروف تھے اور اس میں پکے ہوئے گوشت کے ٹکڑے تھے امام موسیٰ کاظم ؑ نے وہ گوشت تناول فرمایا میں نے بھی آپ کے ساتھ کھانا کھایا اور اس کے بعد آپ نے میری حاجت دریافت کی جب میں نے آپ کے سامنے اپنی ضرورت بیان کی تو آپ میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور تھوڑی دیر بعد واپس آئےاور اپنے غلام کو حکم دیا کہ وہاں سے ہٹ جائےاس کے بعد مجھے ایک تھیلی عطا کی جس میں تین سو دینارتھے پھر آپ وہاں سے اٹھ کر چلےگئے میں وہ تھیلی لے کر اپنے مرکب پر سوار ہوا اور واپس آگیا۔
(مناقب آل ابی طالب ج۴، ص۳۴۳)
عیسی بن محمد جن کی عمر ۹۰ سال تھی بیان کرتے ہیں کہ : میں نے ام عظام کےکنوئیں کے پاس ایک کھیت بنایا تھا اس مین تربوز، کھیرے اور لوکی بوئی تھی جب وہ چیزیں تیار ہوگئیں اور انہیں توڑنے کا وقت آیا تو کھیت پر ٹڈیوں نے حملہ کردیا میرا پورا کھیت چٹ کرگئیں جبکہ میں نے اس میں ۱۲۰ دینار اور دو اونٹوں کا کرایہ بھی صرف کیا تھا میرا سب چلا گیا میں بیٹھا اپنےاس عظیم نقصان کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اچانک سے ادھر سے امام موسیٰ کاظمؑ کا گذر ہوا تو انہوں نے مجھ سے خیریت پوچھی میں نے سارا واقعہ بیان کردیا،
آپ نے پوچھا تم نے اس میں کتنا خرچ کیا تھا میں نے عرض کیا ۱۲۰ دینار اور دو اونٹوں کا کرایہ خرچ کیا تھا
امام نے اپنے نمائندے سےفرمایا: ۱۵۰ دینار ابی الغیث کو دےدو۔
اس کے بعد فرمایا: ۳۰ دینار جو زیادہ ہیں تمہارا نفع ہے۔
میں نے عرض کی: اے فرزند رسول میرے لیے دعا فرمادیں خدا برکت عطا فرمائے؛
آپ نےمیرے لیے دعا فرمائی۔
(بحار الانوار ج۴۸، ص۱۱۹)
بعض علماء کا بیان ہے امام موسیٰ کاظمؑ کی عطا و بخشش دو سو سے تین سو دینار کے بیچ میں ہوتی تھی اور آپ ک عطا کی ہوئی دینار کی تھیلیاں مشہور تھیں۔
(کشف الغمہ ج۳ ، ص۱۹)
منصور نے امام موسیٰ کاظمؑ سے درخواست کی کہ عید نوروز میں تشریف رکھیں تاکہ لوگ آپ سے ملاقات کے لئے آئیں۔
آپ نے فرمایا
میں نے اپنے جد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث میں جستجو کی ہے مجھے نوروز کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ملی ہے یہ اہل فارس کی رسموں مین سے ہے اسلام نے اسے ختم کیا ہے میں اسے دوبارہ زندہ نہیں کرنا چاہتا۔
منصور نے عرض کیا
سیاسی طور پر فوج کو ہم آہنگ رکھنے کے لیے نوروز منانا بہت ضروری ہے آپ کو خدا کی قسم تشریف رکھیں آپ نے منصور کی بات قبول کی اور مبارکباد کے لیےبیٹھ گئےفوج کے کمانڈر امراء اور دیگر عہدےدار آپ کے پاس مبارکباد کے لیے آئے اور آپ کی خدمت میں ہدایا پیش کیے منصور کا خادم بھی وہاں موجود تھا جو ہدایا کی نگرانی کررہا تھا نشست کے آکر میں ایک بوڑھا شخص آیا اور کہنے لگا:
اے دختر رسول کے فرزند۔ میں فقیر انسان ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے جو آپ کے لیے ہدیہ لاتا۔
لیکن میرے جد نے تین شعر آپ کے جد مظلوم کے مصائب کے سلسلے میں لکھے ہیں ان کو پیش کرنا چاہتا ہوں اس کے بعد اس نے وہ اشعار پڑھے
امام موسیٰ کاظمؑ نےفرمایا میں نے تمہارا ہدیہ قبول کرلیا ہے اس کےبعد منصور کے خادم سے کہا کہ خلیفہ کے پاس جا کر ہدایا کی فہرست پیش کرو اور اس سے پوچھو ہم ان کا کیا کریں
خادم منصور کے پاس گیا اور واپس آکر عرض کی کہ خلیفہ نے کہاہے کہ یہ تمام اموال ہم نے آپ کو عطا کیے ہیں جہاں آپ مناسب سمجھیں خرچ کردیں
امام موسیٰ کاظم ؑ نےاس بوڑھے شخص سے کہا میں نے سب ہدایا تجھے بخش دیے ہیں
( مناقب آل ابی طالب ج۴، ص۳۴۴)
معتب کا بیان ہے:
جس وقت پھل پک کر تیار ہوتےتھے تو امام موسیٰ کاظمؑ فرماتے تھے:
’’ ان کو بازار میں بیچ دو اور اپنی ضروریات کے لیے دوسرےمسلمانوں کی طرح روزانہ خرید لایا کرو‘‘
(بحار ج۴۸، ص۱۱۷)
کتاب ’’فضیلتوں کے نمونے‘‘ سے اقتباس

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button