سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

امام حسین علیہ السلام کے سیرت کا اخلاقی پہلو

علامہ محمد حسین نجفی
جودوسخا و عرفان منزلت:
امام عالی مقام کے عظیم عملی کے عظیم عملی کارناموں سے صفحات تاریخ چھلک رہے ہیں یہاں صرف نمونہ بعض واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اخلاقی فضائل میں سے سخاوت ایک بڑی اچھی خصلت ہے اس کی افراط سے اسراف اور تفریط سے بخل جنم لیتے ہیں لہذا سخاوت میں محل و بے محل اور اہل و نااہل کا خیال کرنا بھی ضروری ہوتا ہے خاندان نبوت سے بہتر اس کے صحیح مقام کو اور کون پہچان سکتا ہے۔وہ سخاوت کرتے وقت یہ معلوم کر لیتے تھے کہ کون کس قدر مروت و احسان کا حقدار ہے؟ پھر اس کے استحقاق کے مطابق اس کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے۔
(1)ایک مرتبہ ایک آدمی نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: یابن رسول اللہ! میں نے کامل دیت کی ضمانت دی ہے اوراس کی ادائیگی سے قاصر ہوں میں نے خیال کیا کہ کسی کریم اورسخی ترین آدمی سے سوال کروں اورجب سوچا تو خاندان نبوت سے زیادہ کریم وشفیق کسی کو نہیں پایا۔ اس لیے آپ سے مستدعی ہوں کہ اس کی ادائیگی کا کوئی بندوبست کردیجئے۔آنجناب نے فرمایا: میں تم سے تین مسئلے دریافت کرتا ہوں اگر ایک مسئلے کا جواب دیا تو ایک تہائی دیت اگر دو کا جواب دیا تو دو تہائی اور اگر تینوں کا صحیح جواب دیا تو پھرپوری دیت ادا کروں گا۔ اعرابی نے یہ سن کر عرض کی : یابن رسول اللہ! آپ جیسا صاحب علم و فضل سوال کرے میری کیا مجال کہ میں جواب دے سکوں۔ آپ نے فرمایا: میں نے اپنے جد نامدار سے سناہے کہ
المعروف بقدر المعرفۃ
معرفت کے مطابق حسن سلوک کرنا چاہیے۔ اعرابی نے عرض کیا اچھا پوچھیے اگر جواب معلوم ہوا تو عرض کروں گا ورنہ جناب سے استفادہ کروں گا ولاحول ولا قوۃ الا باللہ
امام علی مقام نے فرمایا:
ای الاعمال افضل؟
افضل ترین عمل کون سا ہے؟اعرابی نے کہا:
الایمان باللہ
اللہ پر ایمان رکھنا۔ امام نے فرمایا:
فما النجاۃ من المھلکۃ؟
ہلاکت سے بچنے کا زریعہ کیاہے؟ اعرابی نے کہا
الثقۃ باللہ
خدا پر بھروسہ رکھنا پھر آنجنابؑ نے فرمایا:
فما یزین الرجل ؟
انسان کے لیے باعث زینت کیا ہے؟ اعرابی نے کہا:
علم معہ حلم
وہ علم جس کے ساتھ بردباری ہو۔ امام نے فرمایا اگر یہ موجود نہ ہو تو پھر؟
اس نے عرض کیا: فقر معہ صبر
پھر وہ فقر ہو جس کے ساتھ صبر و شکر ہو۔
امام نے فرمایا اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر؟ اعرابی نے کہا:
فصاعقۃ تنزل من السماء فتحرقہ فانہ اھل لذلک!
پھر آسمان سے بجلی گرے جو اسے جلا کر راکھ کردے کیونکہ اس صورت میں وہ اسی بات کا مستحق ہے۔ اعرابی کا یہ جواب سن کر امام مسکرائے اورہزار دینار کی تھیلی اسے مرحمت فرمائی اور مزید برآں اسے ایک انگوٹھی عطا کی جس کے نگینہ کی قیمت دو سو درہم تھی اورفرمایا:
یا اعرابی اعط الذھب الی غرمائک واصرف الخاتم فی نفقتک!
اے اعرابی! یہ سونا تو اپنے طلبگاروں کو دے اور یہ انگوٹھی اپنی ضروریات پر صرف کر۔
اعرابی نے یہ آیت پڑھتے ہوئے کہا کہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ وہ تھیلی اور انگوٹھی لی اور چلتا بنا۔
(2)عبدالرحمن سلمی نے آنجنابؑ کے کسی شہزادے کو سورہ حمد پڑھائی امام نے سنی اور سن کر بہت خوش ہوئےمعلم کو ایک ہزار دینار ، ایک ہزار کپڑوں کا جوڑا مرحمت فرمایا اور اس کا منہ موتیوں سے بھر دیا۔ کسی نے عرض کیا مختصر سے کام کے عوض اس قدرعطائے کثیر؟ آپ نے فرمایا: این یقع ھذا من عطائہ جو کچھ اس نے عطا کیا ہے(سورہ حمد یاد کرائی ہے)اس سے میری عطا کو کیا نسبت ہے اس کے بعد یہ اشعار پڑھے۔
اذا جادت الدنیا علیک فجدبھا
علی الناس طرا قبل ان تتفلت
فلا الجود یفنیھا اذا ھی اقبلت
ولاالبخل یبقیھا اذا ما تولت
تواضع و بخشش:
فروتنی و انکساری جس کی ضد تکبرت ہے دیگر اخلاقی فضائل کی طرح ایک بہت بڑی عمدہ صفت ہے ۔ دوسری صفات جلیلہ کی طرح یہ صفت بھی ائمہ اطہار علیہم السلام میں بدرجہ اتم و اکمل پائی جاتی تھی۔ وہ آیت مبارکہ
تِلۡکَ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ نَجۡعَلُھا لِلَّذِیۡنَ لَا یُرِیۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ
کے صحیح مصداق تھے۔ نیز
اذلۃ علی المومنین و اعزۃ علی الکافرین
انہی کی شان میں وارد تھا ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی تواضع پسندی اور غرباء و مساکین پر شفقت مشہور عالم تھی۔
(1)ایک بار آپ چند مساکین کے پاس سے گزرے جو ایک چادر پر کچھ روٹیوں کے ٹکڑے پھیلائے بیٹھےتھے۔ آپ نے ان پر سلام کیا انہوں نے جواب سلام کے بعد آپ کو دعوت شرکت دی ۔ آپ ان کے ہمراہ دو زانو ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا:
لولا انہ صدقۃ لاکلت معکم
اگر یہ روٹیان صدقہ نہ ہوتیں ( جو کہ ہم ہر حرام ہے) تو ضرور میں تمہارے ساتھ کھانے میں شریک ہوجاتا۔ اس کے بعد ان سے فرمایا:
میرے گھر چلو چناچہ ان کوگھر لے جا کرعمدہ کھانا کھلایا، کپڑے پہنائے اور چن ددرہم بھی عطا فرمائے۔
(2)روز عاشور حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت عظمیٰ کے بعد ان کی پشت اقدس پر گھٹوں کے کچھ نشان دیکھے گئے۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اس کا سبب پوچھا گیا آپؑ نے فرمایا:
ھذا مما کان ینقل الجراب علی ظھرہ الی منازل الارامل والیتامیٰ والمساکین
کہ آنجنابؑ بیواؤں ،یتیموں ،غریبوں اور مسکینوں کے گھروں میں ضروریات زندگی اپنی پشت پر اٹھا کر لے جاتے تھے یہ اسی باربرداری کےآثار ہیں۔
ہمدردی خلائق
یہ صفت درحققت امام عالی مقام کی صفات حسنہ بخشش و کرم کی شاخ کی طرح ہے، کولنکہ جب بھی کوئی انسان بلند اور اعلیٰ صفات کا حامل ہوتا ہے تو وہ دوسروں سے مہربانی اور محبت سے پشا آتا ہے، جس طرح بادل زمن پر اور سورج دیگر ستاروں پر محبت و مہربانی کرتا ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد آپ کے کاندھے پر ایک گہرا زخم مشاہدہ کاس گای، ظاہراً یوں لگتا تھا کہ یہ تلواروں کا زخم ہے، جنہوں نے اس زخم کو بغور دیکھا، وہ سمجھ گا کہ یہ عام زخم نہں ہے۔ امام سجاد علیہ السلام سے اس زخم کے بارے مں پوچھا گاک تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ نشان زخم ان بوریوں کا ہے، جو امام حسنی علہ السلام راتوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر بو اؤں،یموی ں اور مسکنووں تک پہنچاتے تھے۔دوستوں کے ساتھ مراعات اور سلوک کرنا ایک معتدل فطرت انسان کا خاصہ ہوتا ہے اور یہ کوئی غر معمولی امر نہںر ہے، لکنہ دشمنوں کے ساتھ احسان کرنا اور ان لوگوں کے ساتھ نکل سلوک کرنا جو جنگ کرنے کے لےل آئے ہوں اور اپنے خون کے پاوسوں کے کام آنا ہر ایک کا کام نہیں، بلکہ یہ اعلیٰ انسانی صفت امام حسن علہو السلام کے کردار مں ملتی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کا قافلہ جب منزل شراف پر پہنچا تو امام ؑ نے حکم دیا کہ پانی بھر لو، مشکںہ اور چھاگں، پُر کر لو۔ اس منزل سے قافلہ جب آگے بڑھا تو ذوحسم کے مقام پر حر کے لشکر سے سامنا ہوا۔ امام اپنے اصحاب سمتر عمامے سروں پر رکھے تلواریں حمائل کے کھڑے تھے کہ دشمن کے ہانپتے گھوڑے اور سوار سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ پا س کی شدت سے ان کا برا حال تھا۔ امام حسنا علہ السلام ایک حساس دِل رکھتے تھے، جس مںٓ انسانی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آپ کے لے دشمن یہ حالت ناقابل برداشت تھی۔ آپ نے اپنے نوجوانوں کو حکم دیا کہ مشکزنوں کے منہ کھول دیئے جائں اور تمام فوج کو پوری طرح سر اب کال جائے۔ حکم کی دیر تھی کہ اطاعت امام پر کمربستہ جوان کھڑے ہوگئے اور سب کو سرےاب کا ۔
علی بن طفان محاربی حر کا ایک ساتھی تھا، وہ کہتا ہے کہ پائس کے مارے مر ا بُرا حال تھا اور مںن سب سے آخر مںر پہنچا۔ جب امام حسنہ علہل السلام نے مریی اور مروے گھوڑے کی پا س کو دیکھا تو فرمایا: روایہ (یینم شتر آبکش کو) بٹھا لو، مریی زبان مںت راویہ مشک کو کہتے تھے، اس لےہ مں اس کے معنی نہ سمجھا۔ حضرت نے فرمایا: جمل یینا اونٹ کو بٹھا لو مںر نے اونٹ کو بٹھایا، حضرت نے فرمایا، اب پانی پوے مگر مںس اتنا بدحواس تھا کہ جتنا پنےس کی کوشش کرتا، پانی زمنم پر بہتا اور منہ مںھ نہ جاتا۔ امامؑ خود اٹھے اور مراے پاس آکر مشک کے دہانے کو ٹھک کرکے مجھے دیا، مںے نے خود بھی پانی پان اور گھوڑے کو سرباب کا ۔
یہ امام حسنک علہا السلام کی اعلیٰ ظرفی اور بلند اخلاقی کا بنت ثبوت ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے مقابلے پر جو افراد تھے، وہ انتہائی پست فطرت اور ذللی تھے۔ انہوں نے امام ؑ کے اعلیٰ اخلاق کا جواب ان پر اور ان کے اہل و عابل پر پانی بند کر دینے سے دیا۔
شفقت علی الخلق وہ جلیل القدر صفت ہے کہ جس سے انسان کی انسانیت کا جوہر کھلتا ہے ۔ حدیث نبویؐ میں وارد ہے
خیر الناس من نفع الناس
بہترین خلائق وہ آدمی ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچائے ۔ جس شخص میں انسانی ہمدردی نہیں وہ فی الحقیقت جوہر انسانیت سے عاری ہے۔
عبادت بجز خدمت خلق نیست
بتسبیح و سجادہ و دلق نیست
دیگر صفات جلیلہ کی طرح اس صفت میں بھی ائمہ اہل بیت علیہم السلام بے نظیر نظر آتے ہیں وہ کسی ستم رسیدہ انسان کی تکلیف گوارا نہ کر سکتے تھے اور اس کی تکلیف رفع کرنے میں مقدور بھر سعی بلیغ فرماتے ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شفقت علی الخلق زبان زدخاص و عام ہے ۔ذیل میں میں ایک دو واقعات بطور تبرک ذکر کئے جاتے ہیں۔
(1)ایک مرتبہ آپؑ اسامہ بن زید کی بیماری میں اس کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے ۔ اسامہ نے کہا : واغماہ ہائے غم ۔ آنجنابؑ نے دریافت کیا اے بھائی تجھے کیا غم ہے؟ اسامہ نے عرض کی ساٹھ ہزار درہم کا مقروض ہوں ۔ امام نے فرمایا غم نہ کر و قرض میں ادا کردوں گا اسامہ نے کہا : کہیں اس کی ادائیگی سے قبل میں مر نہ جاؤں ؟ آنجنابؑ نے فرمایا: مطمئن رہو ۔ تمہاری وفاتسے پہلے ادا کردوں گاچنانچہ ان کی وفات سےپہلے اس کا تمام قرضہ ادا کردیا آنجناب فرمایا کرتے تھے بادشاہوں میں تین خصلتیں بہت بری ہیں
طاقتور دشمنوں سے بزدلی، کمزور لوگوں پر ظلم و ستم ، عطا وبخشش کے وقت بخل۔
(2)حضرت امام حسین علیہ السلام بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ایک غلام کو دیکھا کہ وہ کتے کو روٹی کھلا رہا ہےمیں نے اس کا سبب دریافت کیا اس نے کہا میں غمزدہ ہوں اس کتے کو خوش کرکے اپنی خوشی کا بندوبست کررہا ہوں کیونکہ (میں مسلمان ہوں)اور میرا مالک یہودی ہے جس سے میں علیحدگی چاہتا ہوں امام فرماتے ہیں میرے نزدیک میرے جد نامدار کا یہ فرمان ثابت تھا کہ
افضل الاعمال بعد الصلوۃ ادخال السرور فی قلب المومنین بما لا اثم فیہ
نماز کے بعد بہترین عمل یہ ہے کہ بغیر گنا ہ کا ارتکاب کئے اہل ایمان کو خوش کیا جائے۔
چناچہ میں اس کی قیمت 200 دینار لے کر اس کے مالک یہودی کے پاس گیا اور اپنا مدعیٰ بیان کیا ۔ یہودی نے کہا:
الغلام فداہ لخطاک و ھذا البستان لہ و رددت علیک المال
غلام آپ کے قدموں کا صدقہ ہے یہ آپ کا مال ہے اور یہ باغ بھی اس کا ہے اور اس کی رقم بھی واپس کرتا ہوں میں نے کہا:
وانا قد وھبت لک المال
میں یہ رقم تمہیں ہبہ کرتا ہوں۔
یہودی نے کہا:قبلت المال ووھبتہ للغلام
میں اسے قبول کرکے غلام کو ہبہ کرتا ہوں ۔ امام ؑ نے فرمایا:
اعتقت الغلام ووھبت لہ جمیعا
اور میں اس غلام کوآزاد کرکے یہ سب مال و منال اسے بخشتا ہوں یہ مظاہر دیکھ اس غلام کی بیوی نے کہا:
قد اسلمت و وھبت زوجی مھری
میں اسلام قبول کرتی ہوں اور اپنا حق مہر بھی اسے معاف کرتی ہوں۔ یہ منظر دیکھ کر یہودی نے کہا:
وانا ایضا اسلمت و اعطیتھا ھذا الدار
میں بھی اسلام لاتا ہوں اور یہ گھر بھی اس عورت کو عطا کرتا ہوں۔
کتاب(سعادت الدارین فی مقتل الحسین علیہ السلام ) سے اقتباس

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button