خطبہ فدکیہ کی روشنی میں غصب خلافت کے اسباب

تحریر:ڈاکٹر محمد حسین چمن آبادی
مقدمہ
خطبہ فدکیہ کے مطالعے سے بخوبی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضرت زہراء مرضیہ سلام اللہ علیہانےصرف فدک کے حصول یا اپنے باپ کے ارث ثابت کرنے کےلیے مسجد نبوی جاکر اتنا لمبا چوڑا خطبہ ارشاد نہیں فرمایا بلکہ اس بی بی سلام اللہ علیہا کی اس تحریک کے پیچھے ایک عظیم مقصد پوشیدہ تھا، اور اس وقت کے حالات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے خاتون جنت حضرت زہراءسلام اللہ علیہاکے سوا دوسرا شخص ایسا خطبہ بیان ہی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ کسی صحابی کو امیر المومنینؑ کےدفاع میں ایک لفظ بولنے کی جرات نہیں ہو رہی تھی،ایسے میں بی بی دوعالم سلام اللہ علیہا نے ایسا شاندار اور للکارنےوالا خطبہ ارشاد فرمایا کیونکہ پیغمبر خداﷺ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکے احترام کی ایسی مثال قائم کی تھی کہ رہتی دنیا تک لوگ اسےبھول نہ سکے اور ان کی شان میں ایسی احادیث بیان کی کہ پھر کسی کو ان کی عظمت سے انکار کی ہمت ہی نہ ہو۔ حضرت زہراءسلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ امیر المومنینؑ تمام تر کمالات اور ان کی شان میں رسول خداﷺ کےبیان کردہ فضائل ومناقب کے باوجود اپنے حق کے دفاع میں تنہا رہ گئےہیں، تو وصی رسولﷺ کے غصب شدہ حق کے حصول کے لیے حضرت نے عملی جد وجہد کے ساتھ مسجد نبویؐ میں ایسا جامع اور پُر مغز خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس میں ابتداء خلقت سے لیکر قیامت تک کے حالات، انسان اور خدا کے درمیان تعلق، واجبات ومحرمات، شیطان لعین کی چالبازیوں،خواہشات نفسانی کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کیا،ساتھ امت کی ذمہ داریوں کو نہایت ہی خوبصوت انداز میں ذکر کیا، اور رسول خداﷺ کی رحلت اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کو بیان کرتے امیر المومنینؑ کی خلافت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی وصیت کا تذکرہ کیا،غصب خلافت کے اسباب و علل کو سب کے سامنے عیاں کیا، ہم ذیل میں ان اسباب کو بیان کریں گے جسے حضرت زہراءسلام اللہ علیہانے اپنے خطبے میں بیان فرمایا:
1. نفاق اور دین سے دوری
حضرت زہراءسلام اللہ علیہا نفاق کوغصب خلافت کی سب سے پہلی دلیل قرار دیتے ہوئےفرماتی ہیں «فَلَمَّا اخْتارَ اللّهُ لِنَبِيِّهِ دارَ أَنْبِيائِهِ وَ مَأوی أَصْفِيائِهِ ظَهَرَ فيكُمْ حَسْكَةُ النِّفاقِ وَ سَمَلَ جِلْبابُ الدِّينِ»جب خدا نے اپنے نبی کو انبیاءؑ کی منزل اوربرگزیدہ لوگوں کی پناہ گاہ کے لیے چنا تو تم میں نفاق کا کانٹاظاہر ہوا، جسکے کے دو معانی بیان کیے ہیں:
1۔دشمنی ، یعنی دلوں میں پوشیدہ دشمنی ظاہر ہوئی۔
2۔تین شاخوں والا کانٹا۔
اگر مقصود کانٹا ہو تویہاں بطور استعارہ استعمال ہوا ہے، جس طرح کانٹے انسان کو چھبتے ہیں اسی طرح نفاق بھی اہل حق کے لیے آزار اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔
اور اہل لغت نے نفاق کی تعریف یوں کی ہیں:«النِّفاق إذا ظهرَ ما كانوا يُخفونه»(تہذيب اللغة ؛ ازهرى، محمد بن احمد ج8، 140 ص : 139)چھپائی ہوئی چیز کا ظاہر ہو جانے کو نفاق کہتے ہیں،جبکہ ابن درید(جمهرة اللغة، ابن دريد، محمد بن حسن ج2 ؛ ص967: سمي المنافق منافقا لخروجه عن الدين، و الاسم النِّفاق)کے مطابق نفاق کا معنی دین سے خارج ہونا ہے۔ ازہری کے مطابق اہل سقیفہ نے اپنے اندرکفر کو چھپا رکھا ہوا تھا، اور اسلام کوصرف ظاہری طور پر قبول کیا تھا۔ حقیقت میں مسلمان نہیں ہوئے تھے، جونہی رسول خدا رحلت کرگئے ،ان کے دلوں میں پوشیدہ کفر ظاہر ہوا اور رسول خداﷺ کی وصیت کو پائمال کرتے ہوئے خلافت پر غاصبانہ قبضہ جمالیا۔
ابن درید کے مطابق وہ لوگ رسول خدا کے بعد دین سے پھر گئے، ابتداء اسلام میں دین کو قبول کیا تھا، اور پیغمبر خدا ﷺ پر ایمان لے آئے تھےلیکن جونہی آپؐ دنیا سے رخصت ہو گئے،اہل سقیفہ بھی دین سے خارج ہوگئے،جس کی وجہ سے انھوں نے بیک وقت خلافت اور فدک دونوں پر قبضہ کر لیا۔
اور حضرت زہراءسلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرمؐ کے بعد دین کا لباس کہنہ اور پرانا ہوگیا۔اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب کسی شخص کا لباس کہنہ ہوجاتا ہے تو وہ اسے اتار پھینکتا ہے اور اس کے بدلے نیا کپڑا سلواتا ہے،بالکل اسی طرح حبیب خداؐ کے بعد بعض صحابہ نے دین کی عبا اتار پھینکی، اور نئی بدعت ایجاد کرتے ہوئے پیغمبرؐکی وصیت کو پس پشت ڈال دیا اور خلافت کا جامہ اپنے تن پہ سجا لیا۔ «وَ نَطَقَ كاظِمُ الْغاوِينِ» اور گمراہوں کی زبان حرکت میں آگئی،حالانکہ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں یہ لوگ بات بھی نہیں کر سکتے تھے۔«وَ نَبَغَ خامِلُ الآفِلينَ»اور گمنامی کی زندگی کرنے والے میدان میں ظاہر ہوگئے۔ «وَ هَدَرَ فَنيقُ الْمُبْطِلينَ» باطل گروہ کی صدا بلند ہوئی۔ «فَخَطَرَ فی عَرَصاتِكُمْ» انہی لوگوں نے تمہیں حرکت دی، اور تم ان کی باتوں میں آکر حقدار سے حق سلب کرنے کے لیے متفق ہوگئے ۔
2. شیطان کی پیروی
حضرت زہراءسلام اللہ علیہا مسجد نبویؐ میں کھڑی ہو کر اپنے باباؐ کے اصحاب کو مورد خطاب قرار دیا، اور غصب خلافت کا دوسرا سبب یوں بیان کی: «وَ أَطْلَعَ الشَّیْطَانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرَزِهِ».اور شیطان نے اپنے خول سے سر باہر نکال لیا۔اس جملے میں حضرت نے شیطان کو کچھوے سے تشبیہ دی ہے، اور اسے حذف کر کے اس کے لوازم میں خول کو ذکر کیا ۔ اس قسم کی تشبیہ کو علم بلاغت میں استعارہ مکنیہ کہا جاتا ہے۔ شیطان کو کچھوے سے تشبیہ اس لیے دی چونکہ کچھوا اپنے خول میں چھپا ہوتا ہے، اور آہستہ آہستہ سر نکال کر باہر دیکھتا ہے ،اگر کوئی خطرہ نہیں تو آہستہ سے پورا سر باہر نکال کر حرکت کرنے لگتا ہے ، اسی طرح شیطان نے بھی رسول خداؐ کی رحلت کے بعد سر باہر نکال کے دیکھا تو اسے کہیں سے خطرہ نظر نہیں آیا تو «هَاتِفاً بِکُمْ» تمہیں آواز دینے لگا، «فَأَلْفَاکُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجِیبُونَ لِهُتَافِ الشَّیْطَانِ الْغَوِیِّ» پس اس شیطان گمراہ نے دیکھا کہ تم اس کی دعوت پہ لبیک کہنے والے ہیں۔ «وَ لِلْعِزَّةِ فيهِ مُلاحِظينَ» اور تم دنیوی مفاد کی خاطر اس کی طرف رخ کرنے والے ہیں، یعنی شیطان نے دیکھا کہ حکومت تک پہنچنے کے لیے تم اس کے دھوکے میں آگئے ہیں، جب تک پیغمبر زندہ تھے معیار مسؤلیت تقویٰ اور پرہیزگاری تھی لیکن ان کی رحلت کے بعد اصحاب منصب ومقام کے دلدادہ ہوگئے۔«ثُمَّ اسْتَنْهَضَكُمْ فَوَجَدَكُمْ خِفافاً» پھر شیطان نے تمہیں اکسانا چاہا تو اسے پتہ چلا کہ تمہاری شخصیت ہلکی ہے، یعنی تفکر و تعقل کے لحاظ سے بہت ضعیف اور شہوت کے اسیر پایا۔ «وَ اَحْمَشَكُمْ فَأَلْفاكُمْ غِضاباً»اور شیطان نے تمہیں اکسایا تو تم غضب کا شکار ہوگئے، جب شیطان نے تم لوگوں کو حضرت علیؑ کےخلاف بغض و کینے میں مبتلا کر دیا تو «فَوَسَمْتُمْ غَيْرَ إبِلِكُمْ» تم نے اپنے اونٹ کو چھوڑ کر دوسرے کے اونٹ کو داغنا شروع کردیا، یعنی تم نے ایسے امور میں مداخلت شروع کی جس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں تھا، اور اپنے حریم کو زیر پا کرتے ہوئے دوسروں کے حدود میں داخل ہوگئے۔ «وَ وَرَدْتُمْ غَيْرَ مَشْرِبِكُمْ»اور تم اپنے غیر کے گھاٹ سے پانی پینے لگے، حضرت یہاں یہ سمجھانا چاہتی ہیں کہ خلیفہ بنانا تمہارا کام نہیں تھا بلکہ رسالت و امامت الہٰی منصب ہے اوراس پر خدا ہی کسی کو معین کرتا ہے، شیطان نے تمہیں کینہ پرور اور عقل سے خالی پاکر اپنا مطیع بنالیا ۔«هذا وَ الْعَهْدُ قَريبٌ» حالانکہ یہ کام ایسے وقت میں انجام پارہا ہے کہ غدیر خم کےعہد و پیمان کا زمانہ بالکل قریب ہے۔غدیر میں رسول خداؐ نے سب سے «مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ هذا عَلی مَوْلاه»(اصول الكافي : ترجمه مصطفوى ج2 ص 42؛ شرح؛ ص : 42)کا وعدہ لیا ، اور تم نے بخّ بخّ کہہ کر ہدیہ تبریک پیش کیاتھا، اس کے باوجود آج خلافت کی قمیص کو اپنے تن پر سجا چکے ہو۔
3. بہانہ تراشی
حضرت زہراءسلام اللہ علیہانے غصب خلافت پر احتجاج کرتے ہوئے قرآن کریم کی مختلف آیات سے تمسک کیا، ان آیات میں سے ایک یہ ہے:«زَعَمْتُمْ خَوْفَ الْفِتْنَةِ «أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَ إِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكافِرِينَ»( سوره توبه، آيت 49) تم نے فتنے کے خوف کا سہارا لیا« آگاہ ہو جاؤ یہ واقعًا فتنہ کے گرداب میں غرق ہو چکے اور جہنم تو کافرین کو ہر طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہیں»۔اہل سقیفہ نے یہ بہانا تراشا کہ اگر بروقت خلیفہ کا انتخاب نہ ہوتا تو امّت میں انتشار اور خانہ جنگی کا خطرہ تھا کیونکہ انصار اور مہاجر آپس میں دست وگریباں ہونے کے قریب پہنچ چکےتھے۔ حضرت زہراسلام اللہ علیہا نے ان کے خود ساختہ کہانی کے اوپر سے نفاق کا پردہ چاک کیا اور ان کے دلوں میں چھپے خباثت کو بے نقاب کیا، اور ان کے استدلال کو قرآن کی آیت کے ذریعے سے باطل کیا اور فرمایا : یہ لوگ فتنے کو ختم کرنے کا بہانا بنا کر خود فتنے میں کود پڑے اور انھوں اپنے لیے جہنم کی دہکتی آگ تیار کر لی ۔
4. قرآن سے دوری
حضرت زہراءسلام اللہ علیہا نے اپنے خطبے میں امیرالمومنین علیؑ کو خلافت سے دور رکھنے کے عوامل کو ایک ایک کرکے بیان کیا ہے، ان میں سے ایک سبب قرآن سے دوری ہے۔رسول خداؐ نے امّت کو دو چیزوں سے متمسک رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا تھا: «انّي تاركٌ فيكم الثقلين، كتاب اللَّه و عترتي»(كلينى، محمد بن يعقوب، أصول الكافي؛ ج6؛ ص651 : ترجمه كمرهاى – ايران ؛ قم، چاپ: سوم، 1375 ش)میں تم میں دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہوں، اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت یعنی اہل بیتؑ۔ امت نے عترت کو بالکل ہی بھلا دیا جبکہ قرآن کے ظاہری تلاوت کو اپنا وطیرہ بنا لیا لیکن حکم قرآن سے دوری اختیار کرلی، اسی لی حضرت نے فرمایا:
«فَهَيْهاتَ مِنْكُمْ؟ »یہ کام آپ اصحاب سے بعید تھا، انصار ومہاجرین سے یہ توقع نہیں تھا کہ ایسا برا فعل انجام دینے سے نہیں شرمائیں گے، شیطان صفت لوگوں کے دھوکے میں آکر اہل بیت پیغمبر سے ان کاحق چھین لیا،«وَ كَيْفَ بِكُمْ؟» تمہیں کیا ہوا ہے؟، «أَنَّی تُؤْفَکُونَ» ؟کس طرف جارہے ہو؟ «کِتَابُ اللهِ بَیْنَ أَظْهُرِکُمْ»کیوں قرآن کو پس پشت ڈال رہے ہو، قرآن کریم کو رفع نزاع کے لیے اپنے درمیان فصل خطاب قرار دو، اور دیکھو قرآن کیا کہہ رہا ہے۔ اگر قرآن کوتحکیم قرار دیتے تو تم ہرگز اہل بیتؑ کو آزار نہ دیتے اور علیؑ سے ان کا حق نہ چھینتے، حالانکہ «زَوَاجِرُهُ لائِحَةٌ، وَ أَوَامِرُهُ وَاضِحَةٌ» قرآن کے نواہی واضح اور اس کے اوامر روشن ہیں۔قَدْ خَلَّفْتُمُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ، أَ رَغْبَةً عَنْهُ تُرِيدُونَ ..؟، أَمْ بِغَيْرِهِ تَحْكُمُونَ؟(بحارالانوار، ج29، ص 223؛ احتجاج، ج1، ص 100)تم نے قرآن کو پس پشت ڈال دیاہے۔کیا قرآن سے منہ موڑنے کا ارادہ رکھتےہو؟ یا اس کو چھوڑ کر کسی اور چیز سے فیصلےکرتے ہو؟اگر قرآن کو اپنا سر مشق قرار دیتے تو خود بخود پیغمبر ص کی وصیت ؐ پر عمل ہو جاتا ، اہل بیتؑ کا حق دینے میں کوتاہی نہ کرتے، قرآن سے دوری کی وجہ سے انہوں نے خلافت پر غاصبانہ قبضہ کیا۔
5. تقویٰ سے دوری
حضرت زہراءسلام اللہ علیہا نے غصب خلافت کے اسباب بیان کرتے ہوئے سب پہلے جس چیز کی طرف اشارہ کیا وہ تقوی ہے، اگر کوئی شخص تقویٰ وپارسائی کو اپنی زندگی کا حصہ قرار دے تو وہ کسی ظلم وستم کا مرتکب نہیں ہوتا، اگر کسی نے معصیت و نافرمانی کا راستہ اختیار کیا ہے تو اس شخص سے خیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے، پھر اس کے ہاتھ سے ہر قسم کا فعل سرزد ہوسکتا ہے، کیونکہ تقویٰ گناہ کے مقابلے میں ایک سپر ہے، اور انسان کو ہر قسم کے انحراف ، پستی، ظلم اور نافرمانی سے بچاتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ رسول خداؐ کے بعد آپؐ کی امّت کے اکثر لوگوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کے خوبصورت جامے کواپنے تن بدن سے اتار پھینکا ہے،اسی لیے آپؑ نےاصحاب کو تقویٰ پیشہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: «یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ»(سوره آل عمران،1۰2)ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے،اور خبردار! اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ۔
قرآن کریم میں«إِتَّقُوا الله» بہت زیادہ آیا ہے، لیکن «حَقَّ تُقاتِهِ» ہر جگہ نہیں آیا،یعنی تقویٰ ایسا اختیار کرو کہ اس کا حق ادا ہو جائے کیونکہ محکم اور راسخ تقویٰ انسان کودوسروں کے حق چھیننے اور حدود الہٰی کو پامال کرنے نہیں دیتا، اگر اصحاب سقیفہ تقویٰ اختیار کرتے تو ہرگز خلافت کو غصب نہ کرتے، باغ فدک کو اپنے تحویل میں نہ لیتے، حرمت پیغمبرؐ کا خیال کرتے۔
اس آیت کریمہ کے دو حصے ہیں ایک حصہ فعل امر اور دوسرا ٹکڑا فعل نہی پر مشتمل ہے۔حضرت زہراءسلام اللہ علیہا نے دوسرے حصے « وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ» میں اس واقعے میں ملوث یا اس کے بعد خاموشی اختیار کرنے والوں کو مورد خطاب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تم میں نہ تقویٰ ہے اور نہ ہی مسلمانیت، کیونکہ جو شخص مسلمان ہوتا ہے وہ کسی دوسرے مسلمان کو اذیت نہیں دیتا ،کیونکہ رسول خداؐ کا فرمان ہے:«الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَ يَدِه»(كلينى، محمد بن يعقوب، الكافي :ج2 ؛ ص234)مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے۔اگر کسی کے ہاتھ یا زبان سے دوسرے مسلمان خصوصاً اہل بیت پیغمبرؐ محفوظ نہ رہے اس کے اسلام میں شک ہے۔
6. جاہلی تعصب
قرآن کریم نے جاہلی عصبیت کی شدت سے مذمت کی ہے۔اسی طرح امام سجاد علیہ السلام سے عصبیت کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا:« الْعَصَبِیَّةُ الَّتِی یَأْثَمُ عَلَیْهَا صَاحِبُهَا أَنْ یَرَی الرَّجُلُ شِرَارَ قَوْمِهِ خَیْراً مِنْ خِیَارِ قَوْمٍ آخَرِینَ وَ لَیْسَ مِنَ الْعَصَبِیَّةِ أَنْ یُحِبُّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ وَ لَکِنْ مِنَ الْعَصَبِیَّةِ أَنْ یُعِینَ قَوْمَهُ عَلَی الظُّلْمِ»(کافی، ج2، ص 308)عصبیت یہ ہے کہ تعصب کرنے والا گناہ میں مبتلا ہوتا ہے چونکہ وہ اپنی قوم کے برے انسان کو دوسری قوم کے اچھے لوگوں پر فوقیت دیتا ہے۔تعصب یہ نہیں کہ اپنی قوم کے انسان سے پیار کرے بلکہ تعصب یہ ہے کہ وہ ظلم کرنے میں اپنی قوم کی مدد کرے۔بالکل یہی بات حضرت زہراءسلام اللہ علیہا مسجد نبویؐ میں کہتی ہیں اور قرآن کریم کی آیت سے استدلال کرتی ہیں: «أَفَحُکْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ»(سورہ مائده،50)کیا یہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں جبکہ صاحبانِ یقین کے لئے اللہ کے فیصلہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔عرب اپنےلوگوں کو بلا سبب دوسروں پر ترجیح دیتے تھے،اسی لیے حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کہنا چاہتی ہیں کہ جو لوگ مسجد میں جمع ہیں انہوں نے علیؑ کو چھوڑ کر خود کو مسلمانوں کا خلیفہ بنایا کیونکہ انہوں نے جاہلیت کی سنّت پر عمل کیا ، اور فرمایا:«أَفَحُکْمَ الْجاهِلِیَّةِ یَبْغُونَ» کیا یہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں یعنی انہوں نے خود ملکر خلیفہ بنایا اور حدیث گھڑ لی : «النُّبُوَّةُ و الامامَة لا تَجْتَمِعانِ فی بَیْت واحد» نبوت اور امامت ایک ہی گھر میں جمع نہیں ہوسکتی، یہ نظریہ اسلام کا تو نہیں ہوسکتا بلکہ زمانہ جاہلیت کی بوسیدہ فکر کا شاخسانہ ہے۔
7. آسائش طلبی
قوموں کےعروج وزوال میں راحت طلبی اور عیش پرستی کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ جس قوم میں جد وجہد اور ایثار و قربانی کا جذبہ مردہ ہوجائے،زوال وپستی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا اپنے خطبے میں اصحاب پیغمبرؐ سے خطاب کرتے ہوئے اس اصول اور سنّت کی طرف صریح الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا اور فرمایا: «أَلا وَ قَدْ أَری أَنْ قَدْ أَخْلَدْتُمْ إِلَی الْخَفْضِ» «خبردار ہو جاؤ! میں دیکھ رہی ہوں کہ تم عیش پرستی اور راحت طلبی کا شکار ہو چکے ہو » یعنی اب تم میں وہ جذبہ اور ہمت نہیں رہی جو رسول خداؐ کی رحلت سے پہلے میں ہوا کرتی تھی، دین اسلام کے بیان کردہ راہ کو چھوڑ کر انحراف کے راستے پر چل پڑے ہو۔
«وَ خَلَوْتُمْ بِالدِّعَةِ وَ نَجَوْتُمْ مِنَ الضِّيقِ بِالسَّعَةِ» «تم نے راحت طلبی کو اپنا پیشہ بنا لیا ، اور اپنے آپ کو تنگی اور سختی سے نجات دے کر آسائش و رفاہ کو اپنا لیا ہے»۔ یعنی تم نے راحت طلبی کو اپنا شیوہ بناکر اسلام کے ساتھ خیانت کی ہے،حق کی طرفداری میں مشقت اور سختی دیکھ کر عیش وعشرت کا دلدادہ بن چکے ہو۔
«فَمَحَجْتُمُ الَّذی وَعَيْتُمْ وَ دَسَعْتُمُ الَّذی تَسَوَّغْتُمْ» «پس جس چیز کی حفاظت کرنی تھی اسے پَرےپھینک دی ہے، اور جسے تم نے مزے دار غذا کی طرح حلق سے نیچے اتار لیے تھے اُلٹی کرچکے ہو» یعنی دین اسلام کو زبانی حد تک قبول کیا تھا اور صحیح طریقے سے تمہارے جسم وجان حصہ کا نہیں بنا تھا،اس مزے دار کھانے کی طرح ابتدا میں ہڑپ تو کیا تھا لیکن ہضم ہو کر خون میں داخل نہیں ہوا تھا، ختمی مرتبتؐ کی رحلت کے فوراً بعد قے کر کے باہر نکال دیا۔ حضرت نے واقعہ غدیر کی طرف اشارہ کیا کہ اعلان ولایت کے وقت سب نے مل کر تبریک وتہنیت کہا، اور بظاہراسے قبول بھی کیا لیکن اعلان کرنے والے کی رحلت کے ساتھ ہی الٹی کردی اور اپنی مرضی کا خلیفہ بنالیا کیونکہ انہوں نے اس حکم کو دل وجان سے قبول ہی نہیں کیاتھا، زبان سے تو اقرار کر لیا لیکن قلب وروح میں اسے ہضم نہیں کیا۔پہلے روز ہی سے انہوں نے عزم کر رکھاتھا کہ رسولؐ کی رحلت کا انتظار کیا جائے،جونہی آپؐ کا سایہ دنیا سے اٹھ جائے، خود ان کا جانشین بن بیٹھیں گے۔
8. کوتاہ فکری وبے بصیرتی
خلیفہ اول اور دوم نے رحلت پیغمبرؐ کے موقع کو غنیمت جان کر خلافت اور فدک دونوں کو اپنے قبضے میں لیا، اور آٹے میں نمک کے برابر مفاد پرست لوگ فدک وخلافت جیسی اہم ترین چیزوں کو ہتھیالینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کہیں سے ادنیٰ سی آواز بھی بلند نہیں ہوتی۔اس حالت کو دیکھ کر رسول خداؐ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام علیہا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے،اور اصحاب میں سے اکثریت کی کوتاہ فکری اور بے بصیرتی پر ان کی توبیخ کرتے ہوئے فرماتی ہیں: «تَتَرَبِّصُونَ بِنَا الدَّوائِرَ»«تم لوگ ہم پر مصیبت آنے کے منتظر تھے» یعنی تم میں سے بعض تو منافق تھے،ظاہری طور پر آداب واحترام کا خیال کرتے تھےلیکن در حقیقت تم اس انتظار میں تھے کہ کب اہل بیتؑ کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے،تاکہ تم اپنی حقیقت ظاہر کرئے۔ «وَ تَتَوَكَّفُونَ الْأَخْبار» خبروں کے منتظر تھے، «وَ تَنْكُصُونَ عِنْدَ النِّزالِ»«اور مشکل گھڑی میں پیچھے ہٹ جاتے ہو ««وَ تَفِرُّونَ مِنَ الْقِتالِ»( بحار الانوار (ط – بيروت)، ج 29،ص 225 )« اور جنگ کے وقت فرار کرتے ہو»جب خلیفہ کی بیعت کا وقت آیا تو تم نے خود ساختہ خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر لیا اور رسول خدا کے حقیقی جانشین کو ترک کرکے خود خلیفہ تراشی میں لگ گئے۔
منابع ومصادر
1. الذريعة الىٰ تصانيف الشيعة: آقا بزرگ طهرانى؛ ناشر: اسماعيليان؛قم.
2. زندگانى حضرت زهرا عليها السلام؛ ترجمه؛ علامه مجلسى؛ مترجم محمد روحانى علىآبادى؛ ناشر: مهام ؛تهران؛ ط:1379 ش
3. زندگانى دوازده امام عليهم السلام ؛ ترجمه: هاشم معروف الحسنى؛مترجم محمد مقدس؛ ناشر: امير كبير: تهران؛ ط: 1382 ش
4. سيره معصومان؛ ترجمه:سيد محسن امين عاملى؛مترجم على حجتى كرمانى؛ ناشر: سروش؛ تهران؛ ط:1376 ش
5. عوالم العلوم و المعارف، مستدرك- حضرت زهرا تا امام جواد عليهم السلام: شيخ عبد الله بحرانى اصفهانى؛ ناشر: مؤسسة الإمام المهدي عجّل الله تعالى فرجه الشريف؛ قم.
6. فاطمه زهرا عليها السلام شادمانى دل پيامبر ؛ ترجمه؛ احمد رحمانى همدانى؛مترجم سيد حسن افتخارزاده؛ ناشر: دفتر تحقيقات و انتشارات بدر؛ تهران
7. كشف الغمة :ترجمه و شرح: محدث اربلى : مترجم على بن حسين زوارهاى؛ ناشر: اسلامية؛ تهران؛ ط: 1382 ش
8. معجم ما كتب عن الرسول و أهل بيته: عبد الجبار رفاعى: ناشر: وزارت ارشاد: تهران ؛ط: 1371 ش
9. الموسوعة الكبرى عن فاطمة الزهراء سلام الله عليها: اسماعيل انصارى زنجانى خوئينى؛ ناشر: دليل ما؛ قم؛ 1428 ق