رسالاتسلائیڈرمحافلمناقب امام جعفر صادق عمناقب و فضائل

محافظ اسلام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

مولف: آیۃ اللہ حسین مظاہری
حضرت امام صادق علیہ السلام
آپ کا اسم مبارک جعفر علیہ السلام اور مشہور کنیت ابی عبداﷲ اور آپ کا لقب صادق ہے. آپ کی عمر مبارک پینسٹھ سال تھی۔ مشہور یہ ہے کہ آپ17 ربیع الاول ۸۳ ہجری کو جو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا روز ولادت بھی ہے، پیدا ہوئے اور ۱۴۸ہجری ۲۵ شوال المکرم کو منصور دوانقی کے حکم سے زہر کے ذریعے شہید ہوئے. آپ کی مدت امامت ۳۴ سال تھی۔
حضرت صادق علیہ السلام نے ان چونتیس سالوں میں شیعیت کو زندہ کیا تشیع کے لیے آپ کی خدمات اس قدر زیادہ ہیں کہ شیعہ مذہب کو مذہب جعفری کہا جانے لگا۔ یہ آپ کے لیے ایک اہم امتیاز ہے کہ مذہب شیعہ کی اکثر روایات آپ سے منقول ہیں۔
مرحوم محقق علیہ الرحمہ نے معتبرمیں کہا ہے کہ مختلف اسلامی فنون میں حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے اس قدر روایات منقول ہیں کہ عقل حیران ہے۔
شیعہ و سنی بزرگ علماء اقرار کرتے ہیں کہ چار ہزار افراد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے .کشی کہتا ہے کہ ابان بن تغلب نے حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے تیس ہزار روایات نقل کی ہیں۔
نجاشی کہتا ہے کہ” وشا “نے کہا ہے کہ میں نے نو سو افراد کو مسجد نبوی میں دیکھا اور وہ تمام کہہ رہے تھے ۔
حدثنی جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام ۔
مجھ سے بیان کیا حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا عہد ,بنی امیہ کی حکومت کے آخری اور بنی عباس کو حکومت کے ابتدائی ایام کا تھا اور ان دونوں حکومتوں کو مکمل طور پر قدرت و قوت حاصل نہیں تھی۔ بنی امیہ روبہ زوال تھے اور بنی عباس اچھی طرح اقتدار سے چھا نہ سکے تھے۔ لہذا آپ کو موقع ملا اور معارف اسلامی کو عالم اسلام میں درس و تدریس کے ذریعے پھیلا سکے اور اسلامی علوم کے ہزاروں دانشمندوں کی ترییب فرمائی۔
فقہ میں آپ کے شاگردوں میں جمیل بن دراج، عبداﷲ بن مسکان، عبداﷲ بکیر، حماد بن عیسی، حماد بن عثمان، ابان بن عثمان، جیسے عظیم فقہا کو اسلام کے لیے ہدیہ پیش کیا۔ یہ اصحاب اجماع تھے۔ یعنی علماء امامیہ ان کی روایات کو بغیر کسی چھان بین کے بے چون و چرا قبول کرتے ہیں۔
علم کلام میں آپ کے شاگردوں کی فہرست میں ہشام بن حکم اور مغفل جیسے عظیم نام شامل ہیں اور علم تفسیر میں ابی حمزہ ثمالی جیسے مفسر کی ترتیب فرمائی۔ یہ سب کچھ آپ کے ۳۴ سالہ دور میں ہوا اور مذہب تشیع نے رونق پائی۔ لیکن منصور دوانیقی کے عہد میں آپ پر کچھ پابندیاں لگ گئیں اور مختلف بہانوں سے آپ کےساتھ ملاقات اور آپ سے تعلیم حاصل کرنے پر پابندیاں لگا دی گئیں۔
صرف اس پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ آپ کے مقابل میں چند افراد بنا کر کھڑے کئے گئے۔ فقہ میں ابو حنیفہ اور قتادہ وغیرہ کو، ثفیان ثوری کو عرفان اور ابن ابی العوجا کو عقائد میں پیش کیا گیا لیکن ایسے لوگوں کی طاقت کہاں تھی جو آپ کے مقابل میں جم سکتے۔
منقول ہے کہ ایک دفعہ منصور دوانیقی نے ایک محفل منعقد کی اور مجلس میں آپ کی توہین کے علاوہ عملی طور پر دباؤ ڈالنے کے لیے چالیس مشکل ترین مسئلے قتادہ کے ذریعے تیار کئے کہ اس محفل میں امام صادق علیہ السلام سے پوچھے جائیں۔
لیکن جس وقت امام علیہ السلام اس محفل میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین محفل غیر ارادی طور پر اٹھ کھڑے ہوئے اور غیر معمولی احترام کے ساتھ آپ کا استقبال کیا۔ آپ کی ہیبت و جلالت سے سارا مجمع مبہوت ہوگیا اور مکمل طور پر سناٹا چھا گیا یہاں تک کہ خود امام علیہ السلام نے خاموشی کو توڑا اور قتادہ سے پوچھا کیا کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟ قتادہ نے مودب ہو کر کہا یا ابن رسول اﷲ کیا پنیر کھانا جائز ہے آپ علیہ السلام نے تبسم فرمایا اور پوچھا کیا تمہارے سوالات اس طرح کے ہیں؟ قتادہ نے کہا۔ نہیں خدا کی قسم میں نے چالیس مشکل سوالات ترتیب دیے تھے لیکن آپ کی ہیبت و جلالت نے سب کچھ بھلا دیا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا :تم جانتے ہو کہ کس کے سامنے بیٹھے ہو یہ وہی ہے جس کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا ہے۔
فىِ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَ الاَْصَال‏رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تجَِرَةٌ وَ لَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ الله‏
(اس کے نور کے طرف ہدایت پانے والے) ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں اﷲ نے بلند کرنے اور اپنے نام کا ذکر کرنے کی اجازت دی ہے ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اﷲ کی یاد سے غافل نہیں کردیتی ہے۔
سورہ نور ۳۶۔۳۷
یہ سن کر قتادہ نے کہا یا بن رسول اﷲ یہ گھر اینٹ اور گارے کے بنے ہوئے نہیں بلکہ یہ گھر آپ حضرات علیہم السلام کے اجسام مطہر ہیں۔
ابن ابی العوجا کے بارے میں یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ جس طرح حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس مالک اشتر تھے جو دشمنوں کی صفوں میں گھس کر انہیں پائمال کرتے تھے تو حضرت صادق آل محمد علیہ السلام کےپاس ہشام بن حکم تھے جس کے سامنے ابن ابی العوجا شیر کے پنجوں میں گرفتار ایک لومڑی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں کی دشمنان ، آل محمد علیہ السلام کے ساتھ بہت سارے مناظرے تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔
جب بنی عباس نے یہ جان لیا کہ ان کے چوری چھپے حربے کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے تو انہوں نے آپ کو شدید دباؤ میں رکھا آپ کے دروس کو ختم کیا اور آپ کو اپنے گھر میں نظر بند رکھا یہاں تک کہ راوی کہتا ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا۔
الباب عليه خلق والستر مرخی
یعنی دروازہ بند تھا اور اس پر پردہ بھی ڈالا ہوا تھا اور کسی کو آپ سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ کو زہر سے شہید کردیا گیا۔
آپ کے فضائل
آپ کے فضائل بیان کی حدود سے باہر ہیں ایک مشہور جملہ اہلسنت کے امام مالک بن انس کا ہے انہوں نے فرمایا جعفر بن محمد علیہما السلام سے بہتر فرد نہ تو آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ دل میں خیال آیااور امام ابو حنیفہ سے یہ جملہ مشہور ہے کہ آپ نے کہا۔
مارايت افق ه من جعفر بن محمد
یعنی میں نے جعفر بن محمد علیہ السلام سے بڑھ کر کسی کو فقیہہ پایا۔ آپ علیہ السلام کی اپنی زبان سے بھی سنتے ہیں ۔ ضریس کہتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت
كُلُّ شَيْ‏ءٍ هالِكٌ إِلاَّ وَجْهَه
اﷲ کے چہرے کے سوا ہر چیز نے فنا ہونا ہے، کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ۔
نحن وجہ اﷲ الذی یوتی اﷲ منہ
ہم ہی اﷲ کا وہ چہرہ ہیں جس کے ذریعہ اس کی پہچان ہوتی ہے۔ یعنی امام علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ علیہ السلام ذات حق کے لیے آئینہ ہیں۔
آپ علیہ السلام کے ایمان کی منزل
ہم یہاں پر امام صادق علیہ السلام کے اخبار غیبی کے خبر دینے کے چند واقعات بیان کرتے ہیں جس سے آپ کے ایمان پر خود بخود دلالت ہوتی ہے۔
1۔ محمد بن عبداﷲ کہتا ہے کہ ایک شیعہ راوی عبدالحمید زندان میں تھا۔ میں عرفہ کے دن مکہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اور انہوں نے ان کی رہائی کے لیے دعا مانگی اس کے فورا بعد ہی فرمایا“ آپ کا دوست قید سے آزاد ہوا” جب میں نے مکے سے واپس آکر عبدالحمید سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ عبدالحمید کو اسی گھڑی رہائی ملی تھی جس وقت آپ علیہ السلام نے ان کی رہائی کے لیے دعا مانگی تھی۔
2۔کہتا ہے کہ ایک دفعہ امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کے لیے مدینہ چلاگیا وہاں کچھ عرصہ رہا اور ایک مکان کرائے پر لے رکھا تھا۔ کچھ دنوں بعد مالک مکان کی ایک کنیز کی طرف مجھے رغبت ہوئی ایک دن موقع پا کر اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ اسی دن میں امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو امام علیہ السلام نے فرمایا آج تم کہاں تھے؟ میں نے جھوٹ بولا اور کہا صبح کو میں مسجد میں گیا ہوا تھا یہ سن کر آپ نے فرمایا اما تعلم ان ہذا لا ینال الا بالورع کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ولایت کے مقام تک تقوی کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا ۔
3۔ ابی بصیر کہتا ہے کہ ایک دن میں جنب تھا لیکن دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں جارہا ہے تو میں بھی اسی حالت میں چلا گیا مجھےدیکھ کر آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارے گھروں میں جنب کی حالت میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔
۴ ـ شعرانی کہتا ہے ایک دفعہ منصور دوانقی اپنے چند افراد کو انعامات دے رہا تھا میں بھی گھر کے دروازے میں کھڑا تھا اتنے میں امام صادق علیہ السلام تشریف لائے میں آپ علیہ السلام کے سامنے گیا اور عرض کیا کہ منصور سے مجھے بھی کوئی انعام دلوا دیں آپ جب واپس آئے تو میرے لیے بھی کچھ لے آئے تھے ۔ مجھے دے دیا اور فرمایا:
إِنَّ الْحَسَنَ مِنْ كُلِّ أَحَدٍ حَسَنٌ‏ وَ إِنَّهُ مِنْكَ أَحْسَنُ لِمَكَانِكَ مِنَّا
اچھا کام جس سے بھی سرزد ہوا اچھا ہے اور تم سے سرزد ہونا بہت اچھا ہے کیونکہ تمہاری نسبت ہم سے ہے اور برا کام جس کسی سے بھی سرزد ہو جائے برا ہے اور تم سے سرزد ہونا بہت برا ہے کیونکہ تمہاری نسبت ہم سے ہے۔
شقرانی کہتا ہے کہ امام علیہ السلام کا یہ فرمان میری ایک بری حرکت کی طرف اشارہ تھا کیونکہ میں کبھی کبھار مخفی طور پر شراب پیتا تھا۔
آپ علیہ السلام کا علم
آپ علیہ السلام کے علم کی منزلت کو سمجھنے کےلیے آپ کی زبان سے ہی سنتے ہیں۔
۱ ـ علاء بن سبابہ کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا میں اس سے آگاہ ہوں جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے اور جو کچھ جنت اور جہنم میں ہے اس سے بھی آگاہ ہوں میں گذشتہ اور آئندہ یہاں تک کہ قیامت تک کے واقعات سے آگاہ ہوں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا اس علم کو میں قرآن سے جانتا ہوں اور قرآن پر مجھے اس طرح عبور حاصل ہے جسے ہاتھ کی ہتھیلی پر عبور حاصل ہوتا ہے ۔ اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا کہ قرآن تمام چیزوں کا بیان کرنے والا ہے۔
۲ ـ بکیر بن اعین کہتا ہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا میں ان تمام چیزوں سے آگاہ ہوں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے اور اسے بھی جانتا ہوں جو دنیا و آخرت میں ہے۔ یہ کہہ کر آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ کچھ پیچیدگی پیدا ہونے لگی ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اے بکیر! میں نے یہ علم قرآن سے حاصل کیا ہے کیونکہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے۔
وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ
سورہ نحل۸۹
ہم نے تم پر قرآن نازل کیا ہے جو ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے۔
3۔ صفوان بن عیسی کہتا ہے کہ حضرت صادق آل محمد علیہ السلام نے فرمایا میں اولین و آخرین کا علم رکھتا ہوں اور جوکچھ بھی ماں باپ کے رحم و صلب میں ہے اسے بھی جانتا ہوں۔
آپ علیہ السلام کا صبر
جس وقت آپ کے بڑے صاحبزادے اسماعیل وفات پاگئے تو آپ نے تعزیت کے لیے آنے والے افراد کا بڑا خندہ پیشانی کےساتھ استقبال کیا اور بعض لوگ یہ حالت دیکھ کر تعجب کرنے لگے اور اس بارے میں انہوں نے آپ سے پوچھا بھی تو آپ نے فرمایا اﷲ کا حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ ایک اور مصیبت میں آپ نے فرمایا ہم اہل بیت علیہم السلام مصیبت کے وارد ہونے سے پہلے اپنی فعالیتوں کو انجام دیتے ہیں اور جب مصیبت واقع ہوتی ہے تو تقدیر الہی کو تسلیم کرتے ہوئے راضی رہتے ہیں۔
آپ علیہ السلام کا حلم
منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ نے اپنے غلام کو کسی کام سے بھیجا غلام نے دیر کیاتو آپ خود اس کام کے لیے چلے گئے تو راستے میں غلام کو دیکھا جو سویا ہوا تھا آپ نے اسے پتوں سے ہوا کی وہ بیدار ہوا تو فرمایا اچھا یہ ہوتا کہ رات کو سوتے اور دن کو کام کرتے۔
آپ علیہ السلام کا عفو
ایک دفعہ کسی نے آپ کو یہ خبر پہنچا دی کہ آپ کا چچا زاد بھائی عوام کے سامنے آپ کو ناسزا کہتا پھرتا ہے یہ سن کر آپ اٹھے اور دو رکعت نماز ادا کی اور نماز کے بعد کمال رقت کے ساتھ دعا مانگی خداوندا! میں نے اسے اپنا حق معاف کیا تو اکرم الاکرمین ہے اسے کے کردار کی پاداش میں گرفتار نہ فرما۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ قطع رحم کے مواخذے کی شدت اور سرعت کی طرف متوجہ تھے لہذا اس کے لیے معاف کرنے اور دعا کرنے میں جلدی کی۔
آپ علیہ السلام کی سخاوت
ہشام بن سالم کہتا ہے حضرت امام صادق علیہ السلام کا دستور تھا کہ جس وقت رات کا ایک حصہ گزر جاتا تھا تو ایک تھیلے میں بھر کر اشیاء لے کر نکلتے اور مدینہ کے محتاجوں میں تقسیم کرتے تھے اور محتاجوں کو آپ کی خبر تک نہ ہوتی تھی جب آپ کی شہادت واقع ہوئی تب لوگوں کو پتہ چلا کہ کون ان کی مدد کرتا تھا۔
منثعمی کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے ایک دفعہ دینار کی ایک تھیلی دی اور کسی آدمی کو دینے کے لیے کہا اور تاکید کی کہ میں آپ کا نام نہ لوں میں نے وہ تھیلی اس شخص کو دی مگر وہ شخص گلہ کر رہا تھا کہ امام صادق علیہ السلام قدرت رکھنے کے باوجود میرا خیال نہیں رکھتے ہیں۔
آپ علیہ السلام کی عبادت
ابان بن تغلب کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو رکوع و سجود میں ستر دفعہ تسبیح پڑھتے ہوئے سنا۔خراج راوندی میں ہے کہ راوی کہتا ہے میں نے امام صادق علیہ السلام کو مسجد نبوی میں دیکھا ہے نماز میں مشغول ہیں اور تین سو مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہا۔
مالک بن انس کہتا ہے کہ میں نے علم و تقوی میں جعفر بن محمد علیہما السلام سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پایا۔ جب بھی میں نے آپ کو دیکھا آپ یا تو ذکر میں مشغول تھے یا روزے میں تھے۔ یا نماز میں مشغول تھے وہ خدا کے نیک بندوں میں سے تھے بہت بڑے زاہد تھے ہر وقت خوف لاحق رہتا تھا اور مسجد میں شدت خشوع سے گریہ کرتے تھے ۔ میں ایک سال مکہ میں آپ علیہ السلام کے ساتھ تھا جب تلبیہ کہنے کا وقت آیا تو شدت رقت سے تلبیہ نہ کہہ سکے، فرماتے تھے کہ اگر میں کہدوں لبیک اور وہ لا لبیک کہے تو کیا کروں؟
مفضل ایک عظیم شیعہ عالم ہیں کہ کتاب توحید مفضل کے نام سے موجود ہے جس میں خالق اور اس کی صفات کا ذکر ہے۔ مفضل امام علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے کہ “ ایک دفعہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اور قریب ہی ابن ابی العوجا اور اس کے مرید بیٹھے ہوئے کفر آمیز کلمات کہہ رہے تھے مجھ سےرہا نہ گیا میں ان پر برس پڑا یہ دیکھ کر ابن ابی العوجا نے کہا اے شخص اگر تو جعفر صادق علیہ السلام کے پیروکاروں میں سے ہے تو ان کا طریقہ ایسا نہیں ہے ہم ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں ، بحث کرتے، دلیل دیتے تو وہ صبر و سکون کے ساتھ پوری توجہ سے سنتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب بھی سوچ لیا ہے اس کے بعد وہ ہماری ایک ایک دلیل کو رد کرتے ہیں۔
آخر میں ہم خود ابی بصیر کا واقعہ ذکر کرتے ہیں جو بجائے خود ایک معجزہ ہے۔
ابوبصیر کہتا ہے کہ ایک نہایت ہی گناہ گار شخص ہمارا ہمسایہ تھا ہم ہر چند ایسے نصیحت کرتے تھے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ہم اس سے بڑے تنگ تھے ایک دفعہ جب میں مدینہ جانے کی تیاری کررہا تھا تو میرے پاس وہ شخص آیا اور کہا اے ابا بصیر میں گناہوں میں مبتلا ایک شخص ہوں جنہیں ترک کرنا میرے بس میں نہیں۔ مجھے اپنے آپ پر قیاس مت کرو تم نے شیطان سے نجات پائی ہے میری حالت حضرت امام صادق علیہ السلام کے گوش گزار کرو کہ میری کچھ فکر کریں۔ ابو بصیر کہتا ہے میں نے اس واقعہ کا تذکرہ مدینہ پہنچ کر امام کی خدمت میں کیا یہ سن کر آپ علیہ السلام نے فرمایا اے میرا سلام کہنا ساتھ ہی یہ بھی کہنا کہ اگر گناہ ترک کروگے تو میں بہشت کی ضمانت دیتا ہوں جب میں واپس آیا تو وہ شخص مجھ سے ملنے آیا میں نے اسے امام صادق علیہ السلام کا سلام اور پیغام پہنچا دیا وہ شخص یہ سن کر پلٹ گیا اور توبہ کی ایک عرصے کے بعد میں جب اس دیکھنے گیا تو جانکنی کی حالت میں پایا جب میں نزدیک گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا امام صادق علیہ السلام نے اپنے وعدے کو پورا فرمایا۔ وہ شخص مرگیا ایک سال بعد میں امام علیہ السلام کی خدمت میں مدینے گیا تو امام صادق علیہ السلام ے فرمایا ابو بصیر ہم نے اپنے وعدے کو پورا کیا۔
ایک اور ایسا ہی واقعہ ابو بصیر بیان کرتے ہیں جو یوں ہے کہ ایک دفعہ میں بنی امیہ کی حکومت کے ایک کارندے کو امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں لے گیا تاکہ آپ کے ہاتھوں میں توبہ کرے آپ نے اس شخص کو دیکھ کر گلہ کرتے ہوئےفرمایا اگر لوگ بنی امیہ کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو ہمارا حق غصب نہیں کرسکتے تھے اس کے بعد فرمایا کہ میں جو کچھ کہوں گا اس پر عمل کرو گے اس شخص نے کچھ لمحے سکوت اختیار کر کے بعد میں قبول کیا کہ جو کچھ آپ فرمائیں گے انجام دے گا۔
آپ نے فرمایا تمام اموال صدقے میں دے دو تو میں تمہارے لیے بہشت کی ضمانت دیتا ہوں۔
ابو بصیر کہتا ہے کہ چند دنوں کے بعد اس شخص نے اپنی بیٹی کے ذریعے مجھے بلا بھیجا میں اس کے پاس گیا تو دیکھا کہ جو کچھ اموال اس کے پاس تھا صدقہ میں دیا ہے یہاں تک کہ اس کے جسم پر کرتا بھی نہیں ہے۔ میں نے اس کے لیے ایک کرتے کا بندوبست کیا چند دن بعد جب وہ احتضار کی حالت میں تھا میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہا ابو بصیر امام صادق علیہ السلام نے اپنا وعدہ پورا کیا اور جب میں امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا ابھی بیٹھا بھی نہیں تھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا ابو بصیر ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا۔
یہ امام صادق علیہ السلام کے فضائل کے سمندروں میں سے ایک قطرہ تھا جو بیان ہوا اور اگر ہم امام صادق علیہ السلام کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہیں تو صرف اس قدر جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے۔
جہنی کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم مدینے میں اہل بیت علیہم السلام کے فضائل کے بارے میں بات کررہے تھے گفتگو کے دوران ربوبیت کا شبہ پیدا ہونے لگا لہذا ہم نے امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کی اور عرض مدعا کیا تو آپ نے پوچھا یہ بے ہودہ خیال تمہیں کیسے آیا؟ ہم تو وہ لوگ ہیں جن کا ایک پروردگار ہے جو ہمیشہ ہمارا محافظ ہے ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں تم ہمارے بارے میں جو چاہو کہو مگر اس شرط کے ساتھ کہ ہمیں خداوند متعال کی مخلوق جانو۔
یہ جملہ اکثر ائمہ طاہرین علیہم السلام نے ادا فرمایا ہے لہذا ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام ممکن الوجود ہیں، مخلوق بندے ہیں، اور محض احتیاج ہیں اور خود سے کوئی استقلال نہیں رکھتے جب کہ استقلال وجوب وجود، ربوبیت اور خلق و بے نیازی پروردگار عالم کی ذات سے مخصوص ہے لیکن یہ حضرات صرف واسطہ فیض عالم ہیں۔ صفات الہی کے مظہر ہیں اﷲ کے سوا ہر چیز کا علم رکھتے ہیں اور تمام صفات کمال سے آراستہ ہیں بقول امیرالمومنین علیہ السلام : ہمیں خدا نہ کہو باقی جو کچھ چاہو ہمارے بارے میں کہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام کے محافظ سے اقتباس

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button