محافلمناقب امام محمد باقر عمناقب و فضائل

امام محمد باقر علیہ السلام کے فضائل

الإمامُ الصّادقُ  : كانَ أبي ثكَثيرَ الذِّكرِ لَقَد كُنتُ أمشي مَعَهُ وَإنَّهُ لَيَذكُرُ اللّٰهَ ، وَآكُلُ مَعَهُ الطَّعامَ وَإنَّهُ لَيَذكُرُ اللّٰهَ ، وَلَقد كانَ يُحَدِّثُ القَومَ وَما يَشغَلُهُ ذلك عَن ذِكرِ اللّٰه وَكُنتُ أرى لِسانَهُ لازِقا بِحَنَكِهِ يَقولُ : لا إلِهَ إلاّ اللّٰهَ ، وَكانَ يَجمَعُنا فَيَأمُرُنا بِالذِّكرِ حَتَّى تَطلُعَ الشَّمسُ وَ يَأمُرُ بِالقَرائَةِ مَن كانَ يَقرَأُ مِنّا وَمَن كانَ لا يَقرَأُ مِنّا أمَرَهُ بِالذِّكرِ
(الكافي : ۲ / ۴۹۹ / ۱)
امام جعفرصادق علیہ السلام  فرماتے ہیں کہ:میرے والد بہت ہی ذکر خدا کرتے تھے۔میں آپ کے ساتھ چلتا تھا تو ذکر خدا ہی فرمایا کرتے تھے کھانا کھاتے تھے تو ذکر خدا کرتے تھے۔جب آپ لوگوں سے باتیں کرتے تو بھی ذکر الٰہی سے کوئی چیز انہیں غافل نہیں کرتی تھی۔میں دیکھتا تھا کہ ان کی زبان تالو سے چپک جاتی تھی پھر بھی آپ ’’لا الہ الااللہ‘‘ کہتے رہتے تھے۔آپ ہمیں جمع کرکے ذکر خدا کرنے کا حکم دیتے تھے حتیٰ کہ سورج طلوع ہوجاتاتھا۔تو جوشخص ہم میں سے قرآن پڑھناجانتا تھا اسے قرآن پڑھنے کااور جو نہیں جانتاتھااسے ذکر خدا کرنے کا حکم دیتے تھے۔
عنه : وَكانَ أبو جَعفَرٍ ع أحسَنُ الناسِ صَوتا
(الكافي : ۲ / ۶۱۶ / ۱۱)
امام جعفرصادقؑ:حضرت امام محمد باقرؑ  کی تمام لوگوں کی آواز سے اچھی آواز تھی۔
سُلَيمانُ بنُ قرمٍ : كانَ أبو جَعفَرٍ مُحَمَّدُ بنُ عليٍّ عليهماالسلام يُجيزُنا بِالخَمسمِائَةِ دِرهَمٍ إلى السِّتِمائَةِ إلى الألفِ دِرهَمٍ وَ كانَ لا يَمُلُّ مِن صِلَةِ الإخوانِ وَقاصِديهِ وَمُؤَمِّليهِ وَ راجيهِ
(الإرشاد : ۲۶۶)
سلیمان بن قرم کہتے ہیں: حضرت امام محمد باقرؑ ہمیں پانچ سو سے چھ سو تک بلکہ ایک ہزار درہم تک عطا فرمایا کرتے تھے اور انہیں بھائیوں، قصد کرنے والوں، امید لگانے والوں اور آرزو رکھنے والوں کو یہ عطا اور بخشش، عاجز و درماندہ نہیں کرتی تھی۔
آپؑ کی امامت پر نص
مَرِضَ عليُّ بنُ الحسينِ ثمَرَضَهُ الّذي تُوفّيَ فيهِ ، فجَمَعَ أولادَهُ محمّدا والحسَنَ و عبدَاللّٰه وعُمرَ وزَيدا والحسَينَ ، وأوْصى إلى ابنِهِ محمّدٍ و كَنّاهُ الباقرَ ، وجَعلَ أمرَهُم إلَيهِ
(كفايه الأثر : ۲۳۹)
حضرت امام علی بن الحسین زین العابدین علیہم السلام جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپؑ نے اپنے تمام فرزندوں محمد،حسن،عبداللہ،عمر ،زید اور حسین کو اکٹھا کیا اور اپنے فرزند محمد بن علی علیہ السلام کو وصیت کی،انہیں باقرؑ  کے ساتھ ملقب کیااور تمام امور ان کے سپردفرمائے۔
رسولُ اللّٰه ﷺ : إذا وُلِدَ ابْنِي جعفرُ بنُ محمّدِ ابنِ عليِّ بنِ الحسينِ بنِ عليِّ بنِ أبي طالبٍ فسَمُّوهُ الصّادقَ۔
(الخرائج والجرائح : ۱ / ۲۶۸ / ۱۲)
رسول اللہﷺ :جب میرا بیٹا جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالبؑ پیداہو تو تم اس کانام ’’صادق‘‘رکھنا۔
محمّدُ بنُ مسلمٍ: كنتُ عندَ أبي جعفرٍ محمّدِ ابنِ عليٍّ الباقرِث إذْ دخَلَ جعفرٌ ابنُهُ ، وعلى رأسِهِ ذُؤابةٌ ، وفي يَدهِ عَصا يَلْعبُ بِها ، فأخَذَهُ الباقرُ ع وضمَّهُ إليهِ ضَمّا ، ثُمّ قالَ : بأبي أنتَ واُمّي ، لا تَلْهو ولا تَلْعبُ ۔ ثُمّ قالَ لي : يا محمّد ، هذا إمامُكَ بَعدي ، فاقْتَدِ بهِ ، و اقْتبِسْ مِن عِلمِهِ ، واللّٰه إنّهُ لَهُوَ الصّادقُ الّذي وَصَفهُ لَنَا رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ إنّ شِيعَتَهُ مَنصُورُونَ فِي الدُّنيَا وَالآخِرَةِ
(بحارالانوار : ۴۷ / ۱۵ / ۱۲)
محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو جعفر محمد بن علی(امام محمد باقر) کے پا س موجود تھا کہ اچانک ان کے فرزند ’’جعفر‘‘ اندر آئے۔ ان کے سر پر گیسو تھے اور ہاتھ میں عصاتھا جس سے وہ کھیل رہے تھے۔ امام محمد باقرؑ  نے انہیں پکڑااور سینے ے لگایا۔پھر فرمایا: ’’میرے ماں باپ تم پر قربان۔تم دنیاوی کھیل کود کے لئے نہیں ہو۔‘‘ پھر امام محمد باقرؑ نے مجھ سے فرمایا:’’اے محمد! میرے بعد یہ تمہارے امام ہیں لہٰذا تم ان کی اقتداء کرنا اور ان کے علم سے فیض حاصل کرنا۔ خدا کی قسم!یہ وہی صادق ہیں جن کے اوصاف ہم سے سرکار رسالتمآبﷺ نے بیان فرمائے ہیں اِس میں شک نہیں کہ ان کے شیعوں کو دنیا اور آخرت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نصرت حاصل ہوگی۔
الإمامُ الصّادقُ وقَد سألهُ صَفْوانُ: صاحبُ هذا الأمرِ لا يَلْهو ولا يَلْعبُ ۔ فأقْبَلَ موسى بنُ جعفرٍ وهُو صغيرٌ ومَعهُ عَناقٌ مكّيّه وهُو يقولُ لها : اسجُدي لربِّكِ ، فأخَذَهُ أبو عبدِاللّٰه فضَمَّهُ إلَيهِ وقالَ : بأبي واُمّي ، لا يَلْهو و لا يَلْعبُ
(المناقب لابن شهرآشوب : ۴ / ۳۱۷)
صفوان جمال کہتے ہیں:’’میں نے امام جعفر صادقؑ سے اس امر (امامت)کے مالک کے بارے میں سوال کیا۔آپؑ نے ارشاد فرمایا:’’اس امر(امامت)کا مالک دنیاوی کھیل کود سے بے نیاز ہوتا ہے‘‘ اتنے میں حضرت موسیٰ بن جعفر (کاظم) ظاہر ہوئے۔اس وقت آپ کمسن تھے اور آپؑ کے ہاتھ میں مکہّ کا ایک چھوٹا سا بکری کا بچہ تھااور وہ اسے کہہ رہے تھے:’’اپنے رب کا سجدہ کرو۔‘‘چُنانچہ امام جعفر صادقؑ نے انہیں پکڑ کر اپنے سینے سے لگایااور فرمایا:’’میرے ماں باپ اس پر قربان جو دنیاوی کھیل کود سے بے نیاز ہَے۔‘‘
عبدُ الرّحمانِ بنُ الحَجّاجِ : أوصى أبو الحسنِ مـوسى بـنُ جعفرٍ ث إلى ابنِه عليٍّ ع ، وكتبَ لهُ كِتابا أشْهَدَ فيهِ سِتِّينَ رجُلاً مِن وُجوهِ أهلِ المدينةِ
(بحارالانوار : ۴۹ / ۱۷ / ۱۵)
عبد الرحمٰن بن حجاج کہتے ہیں:’’حضرت ابو الحسن موسیٰ بن جعفر (امام موسیٰ کاظم ) نے اپنے فرزند علی (رضا)کو اپنا وصی قرار دیا اور ان کے لئے ایک وصیت نامہ بھی تحریرفرمایا جس پرمدینہ کے ساٹھ معتبر افراد کو گواہ ٹھہرایا۔‘‘
عبدُ اللّٰه بنُ جعفرٍ : دَخَلتُ على الرِّضا ث أنا وصَفوانُ بنُ يحيى ، وأبو جعفرٍ ث قائمٌ قد أتى لهُ ثلاثُ سِنينَ ، فقُلْنا لَه : جَعَلَنا اللّٰهُ فِداكَ ، إنْ وأعَوذُ باللّٰه حَدَثَ حدَثٌ فَمن يَكونُ بَعدَكَ ؟ قالَ : ابْنِي هذا ، وأومَأَ إليهِ قالَ : فقُلْنا لَه : وهُو في هذا السِّنِّ ؟! قالَ : نَعَمْ ، وهُو في هذا السِّنِّ ، إنَّ اللّٰهَ تبارَكَ وتعالى احْتَجَّ بعيسى ث وهُو ابنُ سنَتَينِ
(بحارالانوار : ۵۰ / ۳۵/ ۲۳)
عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ میں اور صفوان بن یحیٰ حضرت امام رضاؑ  کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ حضرت ابوجعفر محمد بن علی(محمد تقی) کھڑے ہوئے ہیں۔اس وقت ان کی عمر تین برس تھی۔میں نے حضرت رضاؑ سے عرض کیا:’’خدا کرے ہم آپ پر قربان جائیں،اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ رونما ہوجائے تو پھر آپ کے بعد کون امام ہوگا؟‘‘امام نے فرمایا:’’میرا یہ بیٹا !‘‘اور محمدؑ کی طرف اشارہ کیا۔ہم نے تعجب سے پوچھا:’’وہ بھی اسی کمسنی میں؟‘‘ امامؑ نے فرمایا:’’جی ہاں!اسی کمسنی میں!!اللہ تعالیٰ نے تو حضرت عیسیٰؑ کے ذریعہ اتمام حجت کیا جبکہ وہ دو سال کے تھے۔‘‘
يَحيى الصَّنعاني : دَخَلتُ عَلى أبي الحسن الرِّضا ث وَ هُوَ بِمَكَّةَ وَهُوَ يَقشِرُ مَوزا وَيُطعِمُهُ أبا جَعفَرٍ ث فَقُلتُ لَهُ : جُعِلتُ فِداكَ هذا المَولودُ المُبارَكُ ؟ قالَ : نَعَم يا يَحيى هذا المَولودُ الَّذي لَم يولَد في الإسلامِ مِثلُهُ مَولودٌ أعظَمُ بَرَكَةً عَلى شيعَتِنا مِنهُ
(الكافي : ۶ / ۳۶۰ / ۳)
یحیٰ صنعانی کہتے ہیں:کہ میں حضرت ابوالحسن علی بن موسیٰ الرضاؑ  کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت وہ مکہ میں تشریف فرماتھے۔اپنے ہاتھوں سے کیلے کے چھلکے اتارکر حضرت ابوجعفر محمد بن علی(تقی) کو کھلارہے تھے ۔میں نے مولا کی خدمت میں عرض کیا ’’میں آپ کے قربان جاؤں یہی نومولود آپ کے فرزند ہیں خدا مبارک کرے؟ ‘‘امام نے فرمایا: ’’ہاں یحیٰ !یہی نومولود ہے جس کی مثل عالم اسلام میں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا جس سے ہمارے شیعوں کو اس سے بڑھ کر برکت حاصل ہو۔‘‘
الإمامُ الجوادُ ع: إنّ الإمامَ بَعدي ابْنِي عليٌّ ، أمرُهُ أمري ، وقَولُهُ قَولي ، وطاعَتُهُ طاعَتي ، والإمامةُ بعدَهُ في ابنِهِ الحسنِ
(بحارالانوار : ۵۰ / ۱۱۸ / ۱)
امام محمد تقیؑ:’’میرے بعد میرا بیٹا علی نقیؑ امام ہوگا۔اس کا حکم میرا حکم ہے ،اس کا قول میرا قول ہے اور اس کی اطاعت میری اطاعت ہے اس کے بعد امامت اس کے بیٹے حسنؑ کے پاس ہوگی۔‘‘
الإمامُ الهادي ع : الإمامُ بَعدي الحسَنُ ، وبعدَ الحسنِ ابنُه القائمُ ، الّذي يَملأُ الأرضَ قِسْطا وعدلاً كما مُلِئتْ جَورا وظُلما
(بحارالانوار : ۵۰ / ۲۳۹ / ۴)
۵۴۲۔امام علی نقیؑ: ’’میرے بعد حسنؑ (عسکریؑ) امام ہوں گے اور ان کے بعد ان کے فرزند حضرت قائم علیہ السلام ہوں گے،جوزمین کو عدل وانصاف سے ویسے ہی بھردیں گے جیسے وہ ظلم وجورسے بھر چُکی ہوگی۔‘‘
الإمامُ العسكريُّ ع وقد سُئلَ عن الحُجّةِ والإمامِ بعدَهُ: ابْنِي محمّدٌ ، وهُو الإمامُ والحُجّةُ بَعدي ، مَن ماتَ ولَم يَعرفْهُ ماتَ مِيتةً جاهليّةً ۔أمَا إنّ لَه غَيبةً يَحارُ فيها الجاهلونَ ، ويَهْلِكُ فيها المُبطِلونَ ، ويَكْذِبُ فيها الوَقّاتونَ ، ثُمّ يَخرُجُ فكَأنّي أنظُرُ إلى الأعْلامِ البِيضِ تَخْفِقُ فوقَ رأسِهِ بِنَجفِ الكوفةِ
(بحارالانوار : ۵۱ / ۱۶۰ / ۷)
امام حسن عسکریؑ سے ایک سوال کیا گیا کہ : ’’آپ کے بعد حجت خدا اور امام کون ہوگا؟‘‘آپؑ نے فرمایا: ’’میرا بیٹا محمدؑ،اور وہ میرے بعد امام اور حجتِ خدا ہوگا جو شخص اس کی معرفت کے بغیر مرے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔اس کو غیبت نصیب ہوگی جِس میں جاہل لوگ حیران ہو جائیں گے اور جھٹلانے والوں کے لئے ہلاکت ہوگی۔ وقتِ ظہور کی تعیین کرنے والے جھوٹ بولیں گے۔پھر وہ ظہور کرے گا۔ گویا اس وقت بھی میں دیکھ رہاہوں کہ نجف، کوفہ میں اس کے سر پر سفید علم لہرا رہے ہیں۔
علم کو شگافہ کریں گے:
رسولُ اللّٰهﷺ لِجابِرِ بنِ عبدِ اللّٰه الأنصاريّ: يا جابِرُ ، إنّكَ ستَبْقى حتّى تَلْقى وَلَدي محمّدَ بنَ عليِّ بنِ الحسينِ بنِ عليِّ بنِ أبي طالبٍ المعروفَ في التّوراةِ بالباقرِ ، فإذا لَقِيتَهُ فأقْرَئهُ مِنّي السّلام
(بحارالانوار : ۴۶ / ۲۲۳ / ۱)
رسول اللہﷺ نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا: ’’جابر تم اس وقت تک زندہ رہوگے کہ میرے فرزند محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالبؑ کی زیارت کرو جس کا نام تورات میں ’’باقر‘‘مشہور ہے۔ جب تم اس سے ملاقات کروتو اس تک میرا سلام پہنچادینا۔
الإمامُ الباقِرُ : إنَّ الحَقَّ استَصرَخَني وَقَد حَواہُ الباطِلُ في جَوفِهِ، فَبَقَرتُ عَن خاصِرَتِهِ وَ اطَّلَعتُ الحَقَّ عَن حُجُبِهِ حَتَّى ظَهَرَ وَانتَشَرَ ، بَعدَ ما خَفِيَ وَاستَتَرَ
(ربيع الأبرار : ۲ / ۶۰۳ )
امام محمد باقرؑ:حق نے اس وقت مجھ سے فریاد کی جب باطل نے اسے اپنی لپیٹ میں لے کر اسے اپنے پیٹ میں جمع کرلیاتھا۔تو میں نے باطل کا پہلو شگافتہ کیا اور حق کو اس کے پردوں سے باہر نکالا۔یہاں تک کہ حق ظاہر ہوکر ہر طرف پھیل گیا جبکہ اس سے پہلے مخفی اور پوشیدہ ہوچکاتھا۔
عَليُّ بنُ إبراهيمَ عَن أبيهِ : استَأذَنَ عَلى أبي جَعفَرٍث قَومٌ مِن أهلِ النَواحي مِنَ الشّيعَةِ ، فَأذِنَ لَهُم فَدَخَلوا فَسَألوهُ في مَجلسٍ واحِدٍ عَن ثَلاثينَ ألفَ مَسألَةٍ فَأجابَث وَلَهُ عَشرَ سِنينَ
(الكافي : ۱ / ۴۹۶ / ۷)
علی بن ابراہیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :ایک مرتبہ شہر کے اطراف کے شیعوں کے ایک گروہ نے آپ سے ملاقات کی اجازت چاہی آپ نے انہیں اجازت بخشی اور وہ آگئے اور ایک ہی نشست میں آپ سے تیس ہزار سوالات کئے جن کا آپ نے جواب عطافرمایا جبکہ اس وقت آپ کی عمر صرف دس سال کی تھی۔
(ملاحظہ ہو: میزان الحکمۃ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button