مناقب امام علی نقی عمناقب و فضائل

امام علی نقی علیہ السلام کی شخصیت کا اجمالی تعارف

تحریر:محسن اقبال، متعلم جامعۃ الکوثر
تاریخ ولادت :
امام ہادی ؑ کی تاریخ ولادت کے دن ، مہینہ اور سال میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔سال کے حوالے سے سنہ 212 ھ ہے
(اعلام الوریٰ، ص،536)
جبکہ 213ھ اور 214 ھ کے بارے میں بھی روایات ملتی ہیں ۔
(اصول کافی، ج، 1 ،ص، 498)
دن اور مہینہ کے حوالے سے 2 رجب ، 3 رجب ،5رجب اور 13 رجب کے بارے میں بھی روایات ملتی ہیں
(چودہ ستارے ،ص، 500)
اسی طرح 15 ذالحجہ ، 27 ذالحجہ ، آخری ذالحجہ اور یوم عرفہ کے بارے میں بھی روایات ملتی ہیں ۔ ثقۃ المحدثین شیخ عباس قمی ؒ نے 15 ذالحجہ سنہ 212 ھ والی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ روایت زیادہ مشہور ہے ۔
(احسن المقال، ج، 2 ،ص، 227)
اسی طرح شیخ مفید ؒ نے بھی اپنی کتاب الارشاد میں صرف 15 ذالحجہ سنہ 212 ھ والی روایت کو نقل کیا ہے ۔
(الارشاد، ص، 179)
ماہ جب المرجب میں ولادت کے بارے جوروایات آئی ہیں ان کے تائید دو روایتوں سے ہوتی ہے ۔ ایک روایت جو اما م حسن عسکری علیہ السلام کی طرف منسوب ہے ، دوسری وہ جس میں آیا ہے ” اللّهمّ! إنّی أسألک بالمولودین فی رجب: محمّد بن علیّ الثانی، و ابنه علیّ بن محمّد المنتجب، و أتقرّب بهما إلیک خیر القرب… "
(مفاتیح الجنان ماہ رجب کی چھٹی دعا/زیارت ناحیہ)
جائے ولادت:
آپؑ کی ولادت صریا نامی گاؤں میں ہوئی جو مدینہ سے تقریبا تین میل کے فاصلے پر وقع تھا ۔
زوجہ اور اولاد:
امام ہادی علیہ السلام کی زوجہ مکرمہ کا نام سلیل خاتون تھا ۔
(ہمارے آئمہ، ص، 519)
وہ ام ولد تھیں((ام ولد اس کنیز کو کہا جاتا ہے جو اپنے مالک سے صاحب اولاد ہوئی ہو۔ ام ولد سے پیدا ہونے والا بچہ آزاد شمار ہو گا اور اس کی ماں کی غلامی اس پر اثر انداز نہیں ہوگی۔)) اور ان کا تعلق "نوبہ سے تھا ((نوبہ افریقہ کا ایک علاقہ ہے جو دریائے نیل کے کنار واقع ہے؛ جنوب سے شمالی سوڈان میں اور شمال سے جنوبی مصر میں واقع ہواہے۔نوبہ کا نصف حصہ سوڈان اور نصف حصہ مصر میں واقع ہے۔)) اور وہی امام حسن عسکری علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں۔اکثر شیعہ علماء کے مطابق آؑپ کی چار بیٹے اوربیٹیاں ہیں لیکن آؑپ کی بیٹیوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ خصیبی کے قول کے مطابق آؑپ کےچار فرزندامام حسن عسکری، محمد، حسین اورجعفر ہیں۔ مؤخر الذکر نے امامت کا جھوٹا دعوی کیا چنانچہ جعفر کذاب کے نام سے مشہورہوا۔شیخ مفید آپ کے فرزندوں کے بارے میں لکھتے ہیں: امام ہادؑی کے جانشین حضرت ابو محمدحسن ہیں جو آؑپ کے بعدگیارہویں امام ہیں، اورحسین، محمد اور جعفر اور ایک بیٹی بنام عائشہ ۔
(الارشاد، ص، 183)
جبکہ ابن شہرآشوب کا کہنا ہے کہ آؑپ کی دوسری بیٹی کا نام علیہ ہے۔البتہ قرائن اور نشانیوں کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ آؑپ کی ایک ہی بیٹی تھیں جن کے کئی نام تھے۔علمائے اہل سنت کی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آؑپ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی، ہیں۔
خلفاء وقت اور امام علی نقی علیہ السلام
ہم عصر عباسی خلفاء:
امام ہادی اپنی امامت کی مدت میں بنی عباس کے کئی ایک خلفاء کے ساتھ ہم عصر تھے جن کےنام حسب ذیل ہیں
1۔معتصم، جو مامون کا بھائی تھا(دوران حکومت: 218 سے 227 ہجری تک)۔
2۔واثق، جو معتصم عباسی کا بیٹا تھا۔ (دوران حکومت 227 سے 232 ہجری تک)
3۔متوکل عباسی، جو واثق عباسی کا بھائی تھا۔(دوران حکومت 232 سے 248 ہجری تک
4۔منتصر، جو متوکل کا بیٹا تھا۔ (مدت حکومت6 مہینے)۔
5۔مستعین، منتصر عباسی کا چچا زاد بھائی تھا۔ (دوران حکومت 248 سے 252 ہجریتک)
6۔معتز عباسی، متوکل کا دوسرا بیٹا تھا۔(دوران حکومت 252 سے 255 ہجری تک)۔
(موسوعہ امام ہادی، ج، 1 ،ص، 453)
امام علی نقی علیہ السلام اور متوکل :
متوکل کے بر سر اقتدارآنے سے پہلے عباسی خلفاء کی روش مامون ہی کی روش تھی۔ یہ روش اہل حدیث کے مقابلےمیں معتزلیوں کا تحفظ کررہی تھی اور اس روش نے علویوں کے لئے مساعد و مناسب سیاسی ماحول پیدا کردیا تھا۔متوکل کے آتے ہی تنگ نظریوں کا آغاز ہوا۔ متوکل نے اہل حدیث کی حمایت کی اور انہیں معتزلہ اور شیعہ کےخلاف اکسایا اور یوں معتزلہ اور شیعہ کی سرکوبی شروع کردی اور یہ سلسلہ شدت کےساتھ جاری رہا۔ابو الفرج اصفہانی نے طالبیون کے ساتھ متوکل کے نفرت انگيز طرز سلوک کی طرف اشارہ کرتےہوئے لکھا ہے کہ متوکل کا وزیر عبید اللہ بن یحیی بن خاقان بھی متوکل کی طرح خاندان علوی کا شدید دشمن تھا۔ طالبیوں کے ساتھ متوکل عباسی کے ناخوش آيند روشوں کے نمونے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے زمین کربلا اور بالخصوص مرقد منور کے گرد کے علاقے ـ کو ہموار کروایا اور وہاں ہل چلوایا اور وہاں کھیتی کا انتظام کیااور زائرین امام حسین کے ساتھ سخت گیرانہ رویہ اختیار کیا اور ان کے لئے شدیداور ہولناک سزائیں مقرر کردیں۔(( مقاتل الطالبین، ص، 478 ))اس صورتحال کا صرف ایک ہی سبب تھا کہ کربلا میںواقع حرم حسینی شیعہ طرز فکر اور مکتب آئمؑہ کے ساتھ عوام کا پیوند و تعلق استوار کرسکتا تھا۔
سامرا میں طلب کیا جانا:
متوکل نے سنہ 233ہجری میں اماؑم کو مدینہ سے سامرا طلب کیا۔
ابن جوزی :نےخاندان رسالؐت کےدشمنوں کی طرف سےمتوکل کے ہاں اماؑم کی بدگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:متوکل نے بدگمانیوں پرمبنی خبروں کی بنیاد پر ،جو اماؑم کی طرف عوام کے رجحان و میلان پر مبنی تھیں، امام ہادؑی کو سامرا طلب کیا۔
(تذکرۃ الخواص، ج، 2 ، ص، 493)
شیخ مفید لکھتے ہیں: امام علی نقؑی نے متوکل کو ایک خط کے ضمن میں بدخواہوں کی شکایات اور بدگوئیوں کی تردید کی اور متوکل نے جواب میں احترام آمیز انداز اپنا کر ایک خط لکھا اور آؑپ کو سامرا آنے کی دعوت دی۔
(الارشاد، ص، 644)
کلینی نیز شیخ مفید نے متوکل کے خط کا متن بھی نقل کیا ہے۔
متوکل نےاماؑم کی مدینہ سے سامرا کا منصوبہ اس انداز سے ترتیب دیا تھا کہ لوگ مشتعل نہ ہوں اور اماؑم کی جبری منتقلی کی خبر حکومت کے لئے ناخوشگوار صورت حال کے اسباب فراہم نہ کرے تاہم مدنیہ کے عوام ابتدا ہی سے اس حقیقت حال کو بھانپ گئے تھے۔
ابن جوزی اس سلسلے میں یحیی بن ہرثمہ سے نقل کرتے ہیں: میں مدینہ چلا گیا اور شہر میں داخل ہوا تو وہاں کی عوام کے درمیان غم وغصے کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے بعض غیر متوقع مگر پرامن اور ملائم اقدامات عمل میں لا کر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ رفتہ رفتہ عوامی رد عمل اس حد تک پہنچا کہ اعلانیہ طور پر آہ و فریاد کرنے لگے اور اس سلسلے میں اس قدر زیادہ روی کی کہ مدینہ نے اس سے قبل کبھی اس قسم کی صورت حال نہیں دیکھی تھی۔
(تذکرۃ الخواص، ج، 2 ،ص، 492)
خطیب بغدادی (متوفی 463 ہجری) نے لکھا ہے:متوکل عباسی نے امام ہادؑی کو مدینہ سے بغداد اور وہاں سے سرمن رأٰی منتقل کیا اور آؑپ 20 سال اور 9 مہینے کی مدت تک وہیں قیام پذیر رہے اور معتز کے دور حکومت میں وفات پاکر وہیں مدفون ہوئے۔
(تا ریخ بغداد، ج، 12 ،ص، 56)
متوکل کا رویہ:
سامرا پہنچنے پر امام ہادؑی کا عوامی سطح پر بہت زیادہ خیر مقدم کیا گیا اور آؑپ کو خزیمہ بن حازم کے گھر میں بسایا گیا۔
(اثبات الوصیہ، ص، 200)
شیخ مفید کہتے ہیں: سامرا میں پہنچنے کے پہلے روز متوکل نے حکم دیا کہ آؑپ کو تین دن تک "َخاِن الصَعاِليِك” یا دار الصَعاِليِك” میں رکھا اور بعدازاں آؑپ کو اس مکان میں منتقل کیا گیا جو آؑپ کی سکونت کے لئے معین کیا گیا تھا۔ صالح بن سعید کی رائے کے مطابق متوکل نے یہ اقدامات اماؑم کی تحقیر کی غرض سے کیا تھا۔
(الارشاد، ص، 648)
اماؑم آخر عمر تک اسی شہر میں مقیم رہے۔ شیخ مفید سامرا میں اماؑم کے جبری قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خلیفہ بظاہر امام کی تعظیم و تکریم کرتا تھا لیکن درپردہ آؑپ کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا تھا گو کہ وہ کبھی بھی ان سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکا۔اماؑم سامرا میں اس قدر صاحب عظمت و رأفت تھے کہ سب آؑپ کے سامنے سر تعظیم خم کرتے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی آؑپ کے سامنےمنکسرالمزاجی کا اظہار کرتے اور آؑپ کا احترام کرتے تھے۔امام علی نقی سامرا میں جبری اقامت 20 سال اور 9 ماہ کی مدت کے دوران ظاہری طور پر آرام کی زندگی گزار رہے تھے مگر متوکل انہیں اپنے درباریوں میں لانا چاہتا تھا تا کہ اس طرح وہ امام کی مکمل نگرانی و جاسوسی کر سکے نیز لوگوں کے درمیان امام کے مقام کو گرا دے۔
(اعلام الوریٰ۔ ج، 2 ، ص، 126)
متوکل کو خبر دی گئی کہ امام کے گھر میں جنگی اسلحہ اور شیعوں کی جانب سے امام کو لکھے گئے خطوط موجود ہیں۔ اس نے ایک گروہ کو امام کے گھر پر غافل گیرانہ حملے کا حکم دیا۔ حکم پر عمل کیا گیا جب اس کے کارندے امام کے گھر داخل ہوئے تو انہوں نے اس گھر میں امام کے ایسے کمرے میں اکیلا پایا جس کا دروازہ بند تھا اور اس کے فرش پر صرف ریت اور ماسہ موجود تھا۔ امام پشم کا لباس زیب تن کئے اور سر پر ایک رومال لئے قرآنی آیات زمزمہ کررہے تھے۔ امام کو اسی حالت میں متوکل کے حضور لایا گیا ۔ جب امام متوکل کے پاس حاضر ہوئے تو متوکل کے ہاتھ میں ایک کاسہء شراب تھا۔ اس نے امام کو اپنے پاس جگہ دی اور شراب کا پیالہ امام کو پیش کیا۔ امام نے جواب دیا میں میرا گوشت و پوست شراب سے ابھی تک آلودہ نہیں ہوا ہے۔ اس نے امام سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے لئے اشعار پڑھیں جو اسے وجد میں لے آئیں امام نے جواب دیا میں اشعار کم کہتا ہوں ۔متوکل کے اصرار پر امام نے درج ذیل اشعار کہے
باتوا علی قُلُلِ الأجبال تحرسهم غُلُبُ الرجال فما أغنتهُم
"انہوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر رات بسر کی تا کہ وہ ان کی محافظت کریں| لیکن ان چوٹیوں نےان کا خیال نہ رکھا”
واستنزلوا بعد عّز عن معاقلهم فأودعواُحَفرًا، یا بئس ما نزلوا
’’عزت و جلال کے دور کے بعد انہیں نیچے کھینچ لیا گیاانہیں گڑھوں میں جگہ دی گئی اور کتنی ناپسند جگہ اترے ہیں۔‘‘
اشعار ختم ہوئے تو متوکل سمیت تمام حاضرین سخت متاثر ہوئے یہاں تک کہ متوکل کا چہر آنسؤوں سے بھیگ گیا اور اس نے بساط مےنوشی لپیٹنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ اماؑم کو اکرام و احترام کے ساتھ گھر چھوڑآئیں۔
زمانہ منتصر:
متوکل کے بعد اس کا بیٹا منتصر اقتدار پر قابض ہوا جس کی وجہ سے امام علی نقؑی سمیت علویوں پر عباسی حکمرانوں کا دباؤ کم ہوگیاگو کہ دوسرے علاقوں میں عباسی کارگزاروں کا دباؤ شیعیان اہل بیت پر بدستور جاری تھا۔ گذشتہ ادوار کی نسبت گھٹن کی کسی حد تک کمی کے بدولت مختلف علاقوں میں شیعیان اہلبیت کی تنظیم کو تقویت ملی۔ جب بھی کسی شہر میں اماؑم کا کوئی وکیل گرفتار کیا جاتا تھا، آؑپ دوسرا وکیل مقرر کر دیتے تھے۔
آغاز دور امامت:
امام ہادیؑ سنہ 220 ہجری میں اپنے والد امام جوادؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ ظاہر ہے کہ امام کی کمسنی کا مسئلہ امام جوادؑ کی امامت کے آغاز پر حل ہوچکا تھا چنانچہ اکابرین شیعہ کے لئے امامت کے وقت یہ مسئلہ حل شدہ تھا اور کسی کو کوئی شک و تردد پیش نہ آیا۔ شیخ مفید کے بقول چند معدودافراد کے سوا امام جوادؑ کے پیروکاروں نے امام ہادیؑ کی امامت کو تسلیم کیا۔ متذکرہ معدود افراد کچھ عرصے کے لئے قم میں مدفون موسی بن محمد (متوفی  296ہجری ) المعروف بہ موسی مبرقع کی امامت کے قائل ہوئے؛ لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی امامت کے عقیدے سے پلٹ گئے اور انھوں نے امام ہادیؑ کی امامت کو قبول کیا۔  سعد بن عبد اللہ کہتے ہیں: یہ افراد اس لئے امام ہادیؑ کی امامت کی طرف پلٹ آئے کہ موسی مبرقع نے ان سے بیزاری اور برائت کا اظہار کیا اور انہیں بھگا دیا۔
( الارشاد، ص، 189)
امام علیہ السلام کی شہادت:
آخر کار، امام ہادی علیہ السلام کو امامت کے ٣٣ سال اور اکتالیس سال اور چند ماہ کی عمر میں شہید کردیا گیا، وایت کے مطابق 25 جمادی الثانی سن 254 ھجری میں معتز عباسی کی خلافت کے دور میں خلیفہ کے بھائی معتمد عباسی کے ہاتھوں زہر دے کر آپ کوشہید کردیا گیا۔
( کشف الغمہ ، ج، 4 ،ص، 7 )
شیخ مفیداور دوسرے محدثین کی روایت کے مطابق آپؑ رجب سنہ 254 ہجری کو سامرا میں 20 سال اور 9 مہینے تک قیام کرنے کے بعد شہید ہوئے۔زہر کا اثر جب پورے بدن میں پھیل چکا تو آپ سمت قبلہ ہوکر تلاوت قرآن میں مشغول ہوئے اور امام حسن علیہ السلام کی امامت کی وصیت فرمائی اور اپنے تجہیز و تکفین کے لئے ان کو مقرر فرمایا اس کے بعد آپ نے انکھیں بند کردی۔ اس وقت آپ کے پاس صرف آپ کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السّلام موجود تھے- آپ ہی نے اپنے والد بزرگوار کی تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ کے فرائض انجام دیئےآپ علیہ السلام نے اپنے والد کے جنازے میں سر برہنہ شرکت فرمائی، معتز کے حکم سے احمد بن متوکل نے آپ پر نماز جنازہ پڑھی گو کہ اس سے پہلے امام حسن عسکری یہ فرائض انجام دے چکے تھے اس کے بعد آپ علیہ السلام کو اسی مکان میں جس میں حضرت علیہ السّلام کا قیام تھا- ایوان خاص میں آپ کو دفن کر دیا، دفن کرتے وقت امام حسن عسکری قبر مبارک میں اترے جبکہ آپ کے چہرہ مبارک پر اشک رواں تھے،اب وہیں آپ کا روضہ بنا ہوا ہے اور عقیدت مند زیارت سے شرف یاب ہوتے ہیں۔
( الارشاد، ص، 649 )

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button