محافلمناقب رسول خدا صمناقب و فضائل

رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کا اجمالی تعارف

سید حسن رضا رضوی (متعلم حوزہ علمیہ نجف اشرف)
آپ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت:
عیسائیت نے انسانی معاشرہ میں نہ تو نفوذ ہی پیدا کیا تھا اور نہ ہی اس کے ایسے کارنامے ہیں کہ جن کا ذکر کیا جاسکے اس کے نتیجہ میں دنیا میں گمراہی و انحراف پھیل گیا تھا لوگ حیرتوں اور فتنوں کی گمراہیوں میں مبتلا ہو چکے تھے جاہلوں کی جاہلیت نے ان کوبے وقعت کر دیاتھا، روم کی حالت بھی اپنے حریف ملک ایران کی حالت سے کچھ کم بدتر نہیں تھی اور جزیرة العرب کی حالت ان دونوں سے بہتر نہیں تھی ہر ایک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا تھا۔
اس وقت کی انسانی حیات کے ایک المناک گوشہ کو قرآن مجید نے نہایت ہی فصیح و بلیغ انداز میں بیان کیا ہے اور اسی طرح اہل بیت نبوت کے سید و سردار علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے متعدد خطبوں میں ان کی افسوسناک حالت کو بیان فرمایا ہے۔ جس معاشرہ میں نبی صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تھا اس کی حالت کو آپؑ نے اس طرح بیان فرمایا ہے :
ارسلہ علیٰؑ حین فترة من الرسل و طول ھجعة من الامم و اعتزام من الفتن و انتشار من الامور و تلظّ من الحروب و الدنیا کاسفة النور، ظاہرة الغرور علیٰؑ حین اصفرار من و رقھا و ایاس من ثمرھا و اغورار من مائھا، قد د رست منائر الھدیٰ و ظھرت اعلام الردیٰ فھی متجھمة لاھلھا، عابسة فی وجہ طالبھا ثمرھا الفتنة و طعامھا الجیفة و شعارھا الخوف و دثارھا السیف۔
اللہ نے اپنے رسول صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا، امتیں عرصۂ دراز سے خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں فتنے سر اٹھا رہے تھے، تمام چیزوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، دنیا کی رونق ختم ہو چکی تھی ، اس کی فریب کاریاں کھلی ہوئی تھیں، اس کے پتے زرد ہو گئے تھے اور پھلوں سے نا امیدی ہو چکی تھی، پانی زمین میں تہ نشیں ہو چکا تھا۔ ہدایت کے نشان مٹ گئے تھے، ہلاکت و پستی کے پرچم کھلے ہوئے تھے، دنیا اپنے باشندوں کے سامنے تیور چڑھائے ہوئے کھڑی تھی، اس کا پھل فتنہ تھا، اس کی خوراک مردار تھی اس کے اندر کا لباس خوف اور ظاہری لباس تلوار تھی۔
بشریت ایسے ہی سخت و دشوار حالات سے دو چار تھی کہ نور الٰہی چمکا اور خدا کے بندوں اور روئے زمین پر بسنے والوں کو بہترین زندگی اور ابدی سعادت کی بشارت دی اور سر زمین حجاز یکم عام الفیل مطابق 570ء کو ماہ ربیع الاوّل میں بابرکت ہو گئی، جیسا کہ اکثر مورخین و محدثین نے لکھا ہے۔
آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 17 ربیع الاول بروز جمعہ طلوع فجر کے بعد ولادت پائی۔
مذہب امامیہ کے درمیان یہی قول مشہور ہے لیکن عامہ کا نظریہ یہ ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت 12 ربیع الاول دو شنبہ کے روز ہوئی۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پرورش اور بچپنا:
مؤرخ ذاکرحسین لکھتے ہیں کہ بروایت آپ ؐ کے پیداہونے سے پہلے اوربروایت آپ ؐدوماہ کے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ آپ ؐکے والد "عبداللہ” کاانتقال بمقام مدینہ ہوگیاکیونکہ وہیں تجارت کےلئے گئے تھے انھوں نے سوائے پانچ اونٹ ،چند بھیڑوں اورایک حبشی کنیز برکت (ام ایمن) کے اورکچھ ورثہ میں نہ چھوڑا۔ حضرت آمنہ ؑکوحضرت عبداللہؑ کی وفات کااتناصدمہ ہواکہ دودھ خشک ہوگیا۔ چونکہ مکہ کی آب وہوابچوں کے چنداں موافق نہ تھی اس واسطے نواح کی بدوعورتوں میں سے دودھ پلانے کے واسطے تلاش کی گئی ان کے دستیاب ہونے تک ابولہب کی کنیز ثوبیہ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کوتین چارمہینے تک دودھ پلایا، اقوام بدوکی عادت تھی کہ سال میں دومرتبہ بہاراورموسم خزاں میں دودھ پلانے اوربچے پالنے کی نوکری کی تلاش میں آیاکرتی تھیں آخرحلیمہ سعدیہ کے نصیبہ نے زورکیا اوروہ آپ کواپنے گھرلے گئیں اورآپ حلیمہ کے پاس پرورش پانے لگے۔
(مجھے اس تحریر سے کہ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کوثوبیہ اورحلیمہ نے دودھ پلایا، اتفاق نہیں ہے۔)
مؤرخین کابیان ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نموکی قوت اپنے سن کے اعتبارسے بہت زیادہ تھی جب تین ماہ کے ہوئے توکھڑے ہونے لگے اورجب سات ماہ کے ہوئے توچلنے لگے، آٹھویں مہینے اچھی طرح بولنے لگے ،نویں مہینے اس فصاحت سے کلام کرنے لگے کہ سننے والوں کی حیرت ہوتی تھی۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سایہ رحمت مادری سے محرومی:
آپ ؐکی عمرجب چھ سال کی ہوئی توسایہ مادر سے محروم ہوگئے آپ ؐ کی والدہ جناب آمنہ بنت وہب حضرت عبداللہؑ کی قبرکی زیارت کے لئے مدینہ گئی تھیں وہاں انھوں نے ایک ماہ قیام کیا، جب واپس آنے لگیں توبمقام ابواء (جوکہ مدینہ سے ۲۲ میل دورمکہ کی جانب واقع ہے) انتقال فرماگئیں اوروہیں دفن ہوئیں اور پھر آپ ؐ کی خادمہ ام ایمن ، آپ کولے کرمکہ آئیں۔
جب آپ ؐ کی عمر ۸ سال کی ہوئی تو آپ ؐ کے دادا”عبدالمطلب” کا ۱۲۰ سال کی عمرمیں انتقال ہوگیا۔ حضرت عبدالمطلب ؑکی وفات کے بعد آپ ؐکے بڑے چچاجناب ابوطالبؑؑ اورآپ ؐکی چچی جناب فاطمہ بنت اسدنے فرائض تربیت اپنے اوپرعائدکئے ۔اوراس شان سے تربیت کی کہ دنیانے آپکی ہمدردی اورخلوص کالوہامان لیا عبدالمطلب کے بعدابوطالبؑؑ بھی خانہ کعبہ کے محافظ اورمتولی اورسردارقریش تھے حضرت علیؑؑ فرماتے ہیں کہ کوئی غریب اس شان کاسردارنہیں ہواجس شان وشوکت کی سرداری میرے پدرمحترم کوخدانے دی تھی۔
بحیرہ راہب کاواقعہ:
حضرت ابوطالبؑ جوتجارتی سفرمیں اکثرجایاکرتے تھے جب ایک دن روانہ ہونے لگے، توآنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کوجن کی عمراس وقت بروایت طبری وابن اثیر ۹ سال اوربروایت ابوالفداء وابن خلدون ۱۳ سال کی تھی، اپنے بال بچوں میں چھوڑدیا۔ اورچاہاکہ روانہ ہوجائیں یہ دیکھ کرآنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصرارکیاکہ مجھے اپنے ہمراہ لیتے چلئے آپ نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ میرابھتیجہ یتیم ہے انہیں اپنے ہمراہ لے لیا اورچلتے چلتے جب شہربصرہ کے قریہ کفرپہنچے جوکہ شام کی سرحدپر ۶ میل کے فاصلہ پرواقع ہے جواس وقت بہت بڑی منڈی تھی اوروہاں نسطوری عیسائی رہتے تھے وہاں ان کے ایک نسطوری راہبوں کے معبدکے پاس قیام کیا راہبوں نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم اورابوطالبؑ کی بڑی خاطرداری کی پھران میں سے ایک نے جس کانام جرجیس اورکنیت "ابوعداس”اورلقب بحیراراہب” تھا آپ ؐ کے چہرہ مبارک سے آثارعظمت وجلالت اوراعلیؑ درجے کے کمالات عقلی اورمحامداخلاق نمایاں دیکھ کر اوران صفات سے موصوف پاکرجواس نے توریت اورانجیل اوردیگرکتب سماوی میں پڑھی تھیں، پہچان لیاکہ یہی پیغمبرآخرالزمان ہیں، ابھی اس نے اظہارخیال نہ کیاتھاکہ ناگاہ لکئہ ابرکوسایہ فگنی کرتے ہوئے دیکھا، پھرشانہ کھلواکر مہرنبوت پرنگاہ کی، اس کے بعدفورا مہرنبوت کابوسہ لیااورنبوت کی تصدیق کرکے ابوطالبؑ سے کہاکہ اس فرزندارجمند کادین تمام عرب وعجم میں پھیلے گا اوریہ دنیاکے بہت سے حصے کامالک بن جائے گا یہ اپنے ملک کوآزادکرائے گااوراپنے اہل وطن کونجات دلائے گا ائے ابوطالبؑ اس کی بڑی حفاظت کرنااوراس کواعداء کے شرسے بچانے کی پوری کوشش کرنا، دیکھوکہیں ایسانہ ہوکہ یہ یہودیوں کے ہاتھ لگ جائے پھراس نے کہاکہ میری رائے یہ ہے کہ تم شام نہ جاؤ اوراپنامال یہیں فروخت کرکے مکہ واپس چلے جاؤ چنانچہ ابوطالبؑ نے اپنامال باہرنکالاوہ حضرت کی برکت سے آنافانا بہت زیادہ نفع پرفروخت ہوگیا اورحضرت ابوطالبؑ واپس مکہ چلے گئے۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شادی خانہ آبادی:
جب آپ ؐ کی عم پچیس سال کی ہوئی اورآپ ؐکے حسن سیرت،آپ ؐ کی راستبازی، صدق اوردیانت کی عام شہرت ہوگئی اورآپ ؐکوصادق وامین کاخطاب دیا جاچکاتوجناب خدیجہ بنت خویلد نے جوانتہائی پاکیزہ نفس، خوش اخلاق اورخاندان قریش میں سب سے زیادہ دولت مندتھیں ایسے حال میں اپنی شادی کا پیغام پہنچایاجب کہ ان کی عمرچالیس سال کی تھی پیغام عقدمنظورہوااورحضرت ابوطالبؑ نے نکاح پڑھا۔
مورخ ابن واضح المتوفی ۲۹۲ ء کابیان ہے کہ حضرت ابوطالبؑ نے جوخطبہ نکاح پڑھاتھا اس کی ابتداء اس طرح تھی:
الحمدللہ الذی جعلنامن زرع ابراہیم وذریتہ اسماعیل الخ
تمام تعرفیں اس خدائے واحدکے لئے ہیں جس نے ہمیں نسل ابراہیم اورذریت اسماعیل سے قراردیاہے ۔
مؤرخین کابیان ہے کہ حضرت خدیجہ ؑ کامہربارہ اونس سونا اور ۲۵ اونٹ مقررہوا جسے حضرت ابوطالبؑ نے اسی وقت اداکردیا
تواریخ میں ہے کہ جناب خدیجہ ؑ کی طرف سے عقدپڑھنے والے ان کے چچاعمروابن اسداورحضرت رسول خداکی طرف سے جناب ابوطالبؑ تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ شادی کے وقت جناب خدیجہ باکرہ تھیں یہ واقعہ نکاح ۵۹۵ کاہے ۔ مناقب ابن شہرآشوب میں ہے کہ رسول خداکے ساتھ خدیجہ کایہ پہلاعقدتھا ۔سیرت ابن ہشام میں ہے کہ جب تک جناب خدیجہ زندہ رہیں رسول کریم ؐنے کوئی عقدنہیں کیا۔
کوہ حرامیں آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عبادت گذاری:
تواریخ میں ہے کہ آپ ؐ نے ۳۸ سال کی عمرمیں” کوہ حرا” جسے جبل ثوربھی کہتے ہیں کواپنی عبادت گذاری کی منزل قراردیااوراس کے ایک غارمیں بیٹھ کر جس کی لمبائی چارہاتھ اورچوڑائی ڈیڑھ ہاتھ تھی عبادت کرتے تھے اورخانہ کعبہ کودیکھ کرلذت محسوس کرتے تھے یوں تودو دو، چارچارشبانہ روزوہاں رہاکرتے تھے لیکن ماہ رمضان سارے کاساراوہیں گزارتے تھے۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت:
مورخین کابیان ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی عالم تنہائی میں مشغول عبادت تھے کہ آپ ؐکے کانوں میں آوازآئی "یامحمد” آپ ؐ نے ادھرادھر دیکھا کوئی دکھائی نہ دیا۔ پھرآوازآئی پھرآپ ؐ نے ادھرادھردیکھا ناگاہ آپ ؐ کی نظرایک نورانی مخلوق پرپڑی وہ جناب جبرائیل ؑ تھے انہوں نے کہا کہ "اقرا” پڑھو، حضورؐنے ارشاد فرمایا”مااقراء-” کیاپڑھوں انہوں نے عرض کی کہ ” اقراء باسم ربک الذی خلق الخ” پھرآپ ؐنے سب کچھ پڑھ دیا۔
کیونکہ آپ ؐکوعلم قرآن پہلے سے حاصل تھا جبرئیل کے اس تحریک اقراء کامقصدیہ تھا کہ نزول قرآن کی ابتداء ہوجائے اس وقت آ پ ؐ کی عمرچالیس سال ایک یوم تھی اس کے بعدجبرئیل نے وضواورنمازکی طرف اشارہ کیااوراس کی تعدادرکعات کی طرف بھی حضورکومتوجہ کیاچنانچہ حضوروالانے وضوکیااورنمازپڑھی آپ ؐنے سب سے پہلے جونمازپڑھی وہ ظہرکی تھی پھرحضرت وہاں سے اپنے گھرتشریف لائے اورخدیجة الکبریؑ اورعلیؑ ابن ابی طالب سے واقعہ بیان فرمایا۔ ان دونوں نے اظہارایمان کیااورنمازعصران دونوں نے باجماعت اداکی یہ اسلام کی پہلی نمازجماعت تھی جس میں رسول کریم امام اورخدیجہ اورعلیؑ ماموم تھے۔
آپ ؐ درجہ نبوت پر پہلے سے فائزتھے، ۲۷ رجب کومبعوث برسالت ہوئے اور اسی تاریخ کونزول قرآن کی ابتداء ہوئی۔
دعوت ذوالعشیرہ اوراعلان رسالت و وزارت:
بعثت کے بعد آپ ؐ نے تین سال تک نہایت رازداری اورپوشیدگی کے ساتھ فرائض کی ادائیگی فرمائی اس کے بعد کھلے بندوں تبلیغ کاحکم آگیا”فاصدع بماتومر” جوحکم دیاگیاہے اس کی تکمیل کرومیں اس مقام پر” تاریخ ابوالفداء کے اس ترجمہ کی لفظ بہ لفظ عبارت نقل کرتاہوں جسے مولاناکریم الدین حنفی انسپکٹر مدارس پنجاب نے ۱۸۴۶ ءء میں کیاتھا۔
"واضح ہوکہ تین برس تک پیغمبر اکرم ؐدعوت اسلام خفیہ کرتے رہے مگر جب کہ یہ آیت نازل ہوئی ” وانذرعشیرتک الاقربین” یعنی ڈرا اپنے کنبے والوں کوجوقریب رشتہ کے ہیں” اس وقت حضرت نے بموجب حکم خداکے علی الاعلان دعوت شروع کیا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبرخدا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علیؑ سے ارشاد فرمایاکہ” ائے علیؑ ایک پیمانہ کھانے کامیرے واسطے تیارکرواورایک بکری کاپیراس پرچھوالے اورایک بڑاکانسہ دودھ کامیرے واسطے لااورعبدالمطلب کی اولادکومیرے پاس بلاکرلا تاکہ میں اس سے کلام کروں اورسناؤں ان کووہ حکم کہ جس پرجناب باری سے مامورہواہوں چنانچہ حضرت علیؑ کرم اللہ وجہہ نے وہ کھانا ایک پیمانہ بموجب حکم تیارکرکے اولادعبدالمطلب کوجوقریب چالیس آدمی کے تھے بلایا، ان آدمیوں میں حضرت کے چچا ابوطالبؑ اورحضرت حمزہ اورحضرت عباس بھی تھے اس وقت جضرت علیؑ نے وہ کھانا جوتیارکیاتھالاکرحاضرکیا۔
سب کھاپی کرسیرہوگئے حضرت علیؑ نے ارشاد کیاکہ جوکھانا ان سب آدمیوں نے کھایاہے وہ ایک آدمی کی بھوک کے موافق تھا اس اثناء میں حضرت چاہتے تھے کہ کچھ ارشاد کریں کہ ابولہب جلدبول اٹھااوریہ کہاکہ محمد ؐنے بڑاجادوکیا یہ سنتے ہی تمام آدمی الگ الگ ہوگئے تھے ، چلے گئے پیغمبرخدا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ کہنے نہ پائے تھے یہ حال دیکھ کر جناب رسالتماب صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد کیاکہ اے علیؑ دیکھاتونے اس شخص نے کیسی سبقت کی مجھ کوبولنے ہی نہ دیااب پھرکل کوتیارکر جیساکہ آج کیاتھا اورپھران کوبلاکرجمع کرچنانچہ حضرت علیؑ نے دوسرے روزپھرموافق ارشاد آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وہ کھاناتیارکرکے سب لوگوں کوجمع کیا، جب وہ کھانے سے فراغت پاچکے اس وقت رسول اللہ نے ارشادکیاکہ "تم لوگوں کی بہت اچھی قسمت اورنصیب ہے کیونکہ ایسی چیزمیں اللہ کی طرف سے لایاہوں کہ اس سے تم کوفضیلت حاصل ہوتی ہے اورلے آیاہوں تمہارے پاس دنیاوآخرت میں اچھا۔ خداتعالی نے مجھ کوتمہاری ہدایت کاحکم فرمایاہے کوئی شخص تم میں سے اس امرکااقتداء کرکے میرابھائی اوروصی اورخلیفہ بنناچاہتاہے اس وقت سب موجودتھے لیکن حضرت علیؑ نے عرض کیاکہ یارسول اللہ میں آپ کے دشمنوں کونیزہ ماروں گااور ان کی آنکھیں پھوڑوں گا اورپیٹ چیروں گا اورٹانگیں کاٹوں گااورآپ کاوزیرہوں گا حضرت نے اس وقت علیؑ مرتضی کی گردن پرہاتھ مبارک رکھ کر ارشادکیاکہ یہ میرابھائی ہے اورمیراوصی ہے اورمیراخلیفہ ہے تمہارے درمیان اس کی سنواوراطاعت قبول کرو۔ یہ سن کرسب قوم کے لوگ ازروئے تمسخرہنس کرکھڑے ہوگئے اورابوطالبؑ سے کہنے لگے کہ اپنے بیٹے کی بات سن اوراطاعت کریہ تجھے حکم ہواہے۔
حضرت رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم شعب ابی طالبؑ میں :
مورخین کابیان ہے کہ جب کفارقریش نے دیکھاکہ اسلام روزافزوں ترقی کرتاچلاجارہاہے توسخت مضطرب ہوئے پہلے توچندقریش دشمن تھے اب سب کے سب مخالف ہوگئے اوربروایت ابن ہشام وابن اثیروطبری ابوجہل بن ہشام، شیبة، عتبہ بن ربیعة، نصربن حارث، عاص بن وائل اورعقبہ بن ابی معیط ایک گروہ کے ساتھ رسول خدا ؐکے قتل پرکمرباندھ کرحضرت ابوطالبؑ کے پاس آئے اورصاف لفظوں میں کہاکہ محمدنے ایک نئے مذہب کااختراع کیاہے اوروہ ہمارے خداوں کوہمیشہ برابھلاکہاکرتے ہیں لہذا انہیں ہمارے حوالے کردوہم انہیں قتل کردیں یاپھرآمادہ جنگ ہوجاؤ حضرت ابوطالبؑ نے اس وقت انھیں ٹال دیا اوروہ لوگ واپس چلے گئے رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم اپناکام برابرکرتے رہے چنددنوں کے بعددشمن پھرآئے اورانھوں نے آکرشکایت کی اورحضرت کے قتل پراصرارکیا حضرت ابوطالبؑ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم سے واقعہ بیان کیاانہوں نے فرمایاکہ اے چچامیں جوکہتاہوں ،کہتارہوں گا میں کسی کی دھمکی سے مرعوب نہیں ہوسکتا اورنہ کسی لالچ میں پھنس سکتاہوں اگرمیرے ایک ہاتھ پرآفتاب اوردوسے پرماہتاب رکھ دیاجائے جب بھی میں تعمیل حکم خداوندی سے بازنہ آوں گا میں جوکرتاہوں حکم خداسے کرتاہوں، وہ میرامحافظ ہے یہ سن کرحضرت ابوطالبؑ نے فرمایاکہ ” بیٹاتم جوکرتے ہوکرتے رہو، میں جب تک زندہ ہوں تمہاری طرف کوئی نظراٹھاکرنہیں دیکھ سکتا تھوڑے عرصہ کے بعدبروایت ابن ہشام وابن ا ثیر، کفارنے ابوطالبؑ سے کہا کہ تم اپنے بھتیجے کوہمارے حوالے کردو ہم اسے قتل کردیں اوراس کے بدلے میں ایک نوجوان ہم سے بنی مخزوم میں سے لے لو حضرت ابوطالبؑ نے فرمایاکہ تم بعیدازعقل باتیں کرتے ہو، یہ کبھی نہیں ہوسکتا یہ کیونکہ ممکن ہے کہ میں تمہارے لڑکے کولے کراس کی پرورش کروں اورتم ہمارے بیٹے کولے کرقتل کردو۔ یہ سن کر ان کی آتش غضب اوربرافروختہ ہوگئی اوروہ ان کے ستانے پربھرپورتل گئے حضرت ابوطالبؑ نے اس کے ردعمل میں بنی ہاشم اوربنی مطلب سے امدادچاہی اوردشمنوں سے کہلابھیجاکہ کعبہ وحرم کی قسم اگرمحمد ؐکے پاؤں میں تمہاری طرف سے کانٹابھی چبھاتومیں سب کوہلاک کردوں گا حضرت ابوطالبؑ کے اس کہنے پردشمن کے دلوں میں آگ لگ گئی اوروہ آنحضرتﷺ کے قتل پرپوری طاقت سے تیارہوگئے۔حضرت ابوطالبؑ نے جب آنحضرتﷺ کی جان کوغیرمحفوظ دیکھاتوفورا ان لوگوں کولے کر جنہوں نے حمایت کاوعدہ کیاتھا جن کی تعدادبروایت حیات القلوب چالیس تھی۔ محرم ۷بعثت میں "شعب ابی طالب” کے اندرچلے گئے اوراس کے اطراف کو محفوظ کردیا۔کفارقریش نے ابوطالبؑ اس عمل سے متاثرہوکرایک عہدنامہ مرتب کیاجس میں بنی ہاشم اوربنی مطلب سے مکمل بائیکاٹ کافیصلہ تھا طبری میں ہے کہ اس عہدنامہ کومنصوربن عکرمہ بن ہاشم نے لکھاتھاجس کے بعدہی اس کاہاتھ شل ہوگیاتھا۔
تواریخ میں ہے کہ دشمنوں نے شعب کاچاروں طرف سے بھرپورمحاصرہ کرلیاتھا اورانھیں مکمل قیدمیں مقیدکردیاتھا اس قیدنے اہل شعب پربڑی مصیبت ڈالی جسمانی اورروحانی تکلیف کے علاوہ رزق کی تنگی نے انہیں تباہی کے کنارے پرپہنچادیااورنوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ دینداردرختوں کے پتے کھانے لگے ناتے اورکنبے والے اگرچوری چھپے کچھ کھانے پینے کی چیزپہنچادیتے اورانہیں معلوم ہوجاتاتوسخت سزائیں دیتے اسی حالت میں تین سال گزرگئے ایک روایت میں ہے کہ جب اہل شعب کے بچے بھوک سے بے چین ہوکرچیختے اورچلاتے تھے توپڑسیوں کی نیندحرام ہوجاتی تھی اس حالت میں بھی آپ پروحی نازل ہوتی رہی ، اورآپ کاررسالت انجام دیتے رہے۔
تین سال کے بعد ہشام بن عمربن حرث کے دل میں یہ خیال آیاکہ ہم اورہمارے بچے کھاتے پیتے اورعیش کرتے ہیں اوربنی ہاشم اوران کے بچے فاقہ کشی کررہے ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے پھراس نے اورچندآدمیوں کوہم خیال بناکرقریش کے اجتماع میں اس سوال کواٹھایا۔ ابوجہل اورا سکی بیوی "ام جمیل” جسے بزبان قرآن "حمالة الحطب”کہاجاتاہے نے مخالفت کی لیکن عوام کے دل پسیج اٹھے اسی دوران میں حضرت ابوطالبؑ آگئے اورانہوں نے کہاکہ "محمدؐ” نے بتایاہے کہ تم نے جوعہدنامہ لکھاہے اسے دیمک چرگئی ہے اورکاغذ کے اس حصہ کے سواجس پراللہ کانام ہے سب ختم ہوگیاہے اے قریش بس ظلم کی حدہوچکی تم اپنے عہدنامہ کودیکھواگرمحمد ؐکا کہناسچ ہوتوانصاف کرواوراگر جھوٹ ہوتوجوچاہے کرو۔
حضرت ابوطالبؑ کے اس کہنے پرعہدنامہ منگوایاگیااورحضرت رسول کریم ؐ کا ارشاداس کے بارے میں من وعن صحیح ثابت ہواجس کے بعدقریش شرمندہ ہوگئے اورشعب کاحصارٹوٹ گیا۔اس کے بعدہشام بن عمربن حرث اوراس کے چارساتھی ،زبیربن ابی امیہ مخزومی اورمطعم بن عدی ابوالبختری بن ہشام، زمعہ بن الاسودبن المطلب بن اسدشعب ابی طالب میں گئے اوران تمام لوگوں کوجواس میں محصورتھے ان کے گھروں میں پہنچادیا۔
مورخ ابن واضح المتوفی ۲۹۲ ء کابیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد” اسلم یومئذخلق من الناس عظیم” بہت سے کافرمسلم ہوگئے۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کامعجزہ شق القمر:
ابن عباس، ابن مسعود،انس بن مالک، حذیفہ بن عمر، حبیربن مطعم کابیان ہے کہ شق القمرکامعجزہ کوہ ابوقبیس پرظاہرہواتھا، جب کہ ابوجھل نے بہت سے یہودیوں کوہمراہ لاکرحضرت سے چاندکودوٹکڑے کرنے کی خواہش ظاہرکی تھی یہ واقعہ چودھویں رات کوہواتھاجبکہ آپ ؐکوموسم حج میں شعب ابی طالب سے نکلنے کی اجازت مل گئی تھی اہل سیرلکھتے ہیں کہ یہ واقعہ ۹ ء بعثت کاہے، اس معجزہ کاذکر”تاریخ فرشتہ میں بھی ہے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "وجب اعتقادوقوعہ” اس معجزہ کے واقع ہونے پرایمان واجب ہے۔
آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی معراج جسمانی :
۲۷ رجب ۱۲ بعثت کی رات کوخداوندعالم نے جبرئیل کوبھیج کربراق کے ذریعہ آنحضرت ؐکو”قاب قوسین” کی منزل پربلایا اوروہاں علیؑ بن ابی طالب کی خلافت وامامت کے متعلق ہدایات دیں اسی مبارک سفراورعروج کو”معراج” کہاجاتاہے یہ سفرام ہانی کے گھرسے شروع ہواتھاپہلے آپ بیت المقدس تشریف لے گئے پھروہاں سے آسمان پرروانہ ہوئے منازل آسمانی کوطے کرتے ہوئے ایک ایسی منزل پرپہنچے جس کے آگے جبرئیل کاجاناممکن نہ ہوا جبرئیل نے عرض کی حضور لودنوت لیلة لاحترقت” اب اگرایک انگل بھی آگے بڑہوں گاتوجل جاؤں گا ۔
پھرآپ ؐبراق پرسوارآگے بڑھے ایک منزل پربراق رک گیااورآپ "رفرف” پربیٹھ کرآگے روانہ ہوگئے یہ ایک نوری تخت تھاجونورکے دریامیں جارہاتھا یہاں تک کہ منزل مقصودپرآپ ؐ پہنچ گئے آپ ؐجسم سمیت گئے اورفوراواپس آئے قرآن مجید میں "اسری بعبدہ” آیاہے عبدکالفظ اطلاق جسم اورروح دونوں پرہوتاہے وہ لوگ جومعرادج روحانی کے قائل ہیں وہ غلطی پرہیں معراج کااقراراوراس کااعتقادضروریات دین میں سے ہے حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جومعراج کامنکرہواس کاہم سے کوئی تعلق نہیں
ایک روایت میں ہے کہ پہلے صرف دونمازیں واجب تھیں معراج کے بعدپانچ وقت کی نمازیں مقررہوئیں۔
بیعت عقبہ اولی:
اسی ۱۲ بعثت کے موسم حج میں ان چھ آدمیوں میں سے جوسال گذشتہ مسلمان ہوکرمدینہ واپس گئے تھے پانچ آدمیوں کے ساتھ سات آدمی مدینہ والوں میں سےاورآکرمشرف بااسلام ہوئے حضرت کی حمایت کاعہدکیایہ بیعت بھی اسی مکان عقبہ میں ہوئی جومکہ سے تھوڑے فاصلہ پرشمال کی جانب واقع ہے، مورخ ابوالفداء لکھتاہے کہ اس عہدپربعیت ہوئی کہ خداکاکوئی شریک نہ کرو چوری نہ کرو،زنانہ کرو، اپنی اولادکوقتل نہ کرو، جب وہ بیعت کرچکے توحضرت نے مصعب بن عمیربن ہاشم بن عبدمناف ابن عبدالعلاء کوتعلیؑم قرآن اورطریقہ اسلام بتانے کے لیے مامورفرمایا ۔
بیعت عقبہ ثانیہ :
۱۳ بعثت کے ماہ ذی الحجہ میں مصعب بن عمیر، ۷۳ مرداوردوعورتوں کومدینہ سے لے کرمکہ آئے اورانہوں نے مقام عقبہ پررسول کریمؐ کی خدمت میں ان لوگوں کوپیش کیاوہ مسلمان ہوچکے تھے انہوں نے بھی حضرت کی حمایت کاعہدکیااورآپ ؐکے دست مبارک پربیعت کی، ان میں اوس اورخزرج دونوں کے افراد شامل تھے۔
ہجرت مدینہ:
۱۴ بعثت مطابق ۲۲۶ میں حکم رسول کے مطابق مسلمان چوری چھپے مدینہ کی طرف جانے لگے اوروہاں پہنچ کرانہوں نے اچھی منزل حاصل کرلی قریش کوجب معلوم ہواکہ مدینہ میں اسلام زورپکڑرہاہے تو”دارالندوہ” میں جمع ہوکریہ سوچنے لگے کہ اب کیاکرنا چاہئے کسی نے کہاکہ محمدؐکویہیں قتل کردیاجائے تاکہ ان کادین ہی ختم ہوجائے کسی نے کہاکہ جلاوطن کردیاجائے ابوجہل نے رائے دی کہ مختلف قبائل کے لوگ جمع ہوکربیک ساعت ان پرحملہ کرکے انہیں قتل کردیں تاکہ قریش خون بہانہ لے سکیں اسی رائے پربات ٹہرگئی، سب نے مل کرآنحضرت ؐکے مکان کامحاصرہ کرلیاپروردگارکی ہدایت کے مطابق جوحضرت جبرئیل کے ذریعہ پہنچی آپ ؐنے حضرت علیؑ کواپنے بسترپرلٹادیااورایک مٹی دھول لے کرگھرسے باہرنکلے اوران کی آنکھوں میں جھونکتے ہوئے اس طرح نکل گئے جیسے کفرسے ایمان نکل جائے علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ یہ سخت خطرہ کاموقعہ تھا جناب امیرکومعلوم ہوچکاتھا کہ قریش آپ ؐ کے قتل کاارادہ کرچکے ہیں اورآج رسول اللہ کابسترخواب گاہ قتل کی زمین ہے لیکن فاتح خیبرکے لیئے قتل گاہ فرش گل تھا ۔
صبح ہوتے ہوتے دشمن دروازہ توڑکرداخل خانہ ہوئے توعلیؑ کوسوتاہواپایا پوچھامحمد ؐکہاں ہیں؟ جواب دیاجہاں ہیں خداکی امان ہیں طبری میں ہے کہ علیؑ تلوارسونت کرکھڑے ہوگئے اورسب گھرسے نکل بھاگے احیاء العلوم غزالی میں ہے کہ علیؑ کی حفاظت کے لئے خدانے جبرئیل اورمیکائیل کوبھیج دیاتھا یہ دونوں ساری رات علیؑ کی خواب گاہ کاپہرہ دیتے رہے حضرت علیؑ کافرماناہے کہ مجھے شب ہجرت جیسی نیند ساری عمرنہ آئی تھی ۔ تفاسیرمیں ہے کہ اس موقع کے لئے آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ مرضات اللہ” نازل ہوئی ہے الغرض آنحضرتﷺ کے روانہ ہوتے ہی حضرت ابوبکرنے ان کاپیچھاکیا آپ ؐنے رات کے اندھیرے میں یہ سمجھ کر کوئی دشمن آرہاہے اپنے قدم تیزکردئیے پاؤں میں ٹھوکرلگی خون جاری ہوگیاپھرآپ ؐ نے محسوس کیا کہ ابن ابی قحافہ آرہے ہیں آپ کھڑے ہوگئے صحیح بخاری میں ہے کہ رسول خدانے ابوبکربن ابی قحافہ سے ناقہ خریدا۔ اورمدارج النبوت میں ہے کہ حضرت ابوبکرنے دوسودرہم کی خریدی ہوئی اونٹنی آنحضرتﷺ کے ہاتھ نوسودرہم کی فروخت کی اس کے بعدیہ دونوں غارثورتک پہنچے یہ غارمدینہ کی طرف مکہ سے ایک گھنٹہ کی راہ پرڈھائی یاتین میل جنوب کی طرف واقع ہے اس پہاڑکی چوٹی تقریباایک میل بلندہے سمندروں وہاں سے دکھائی دیتاہے۔
یہ حضرات غارمیں داخل ہوگئے خدانے ایساکیاکہ غارکے منہ پرببول کادرخت اگادیامکڑی نے جالاتناکبوترنے انڈادیا، اورغارمیں داخلہ کاشبہ نہ رہا، جب دشمن اس غارپرپہنچے تووہ یہی سب کچھ دیکھ کرواپس ہوگئے ،عجائب القصص میں ہے کہ اسی موقع پرحضرت نے کبوترکوخانہ کعبہ پرآکربسنے کی اجازت دی۔ اس سے قبل دیگر پرندوں کی طرح کبوتربھی اوپرسے گذرنہیں سکتاتھا۔
مختصریہ کہ یکم ربیع الاول ۱۴ ء بعثت یوم پنجشنبہ بوقت شب قریش نے آنحضرت ؐ کے گھرکامحاصرہ کیاتھاصبح سے کچھ پہلے ۲ ربیع الاول یوم جمعہ کوغارثورمیں پہنچے یوم یکشنبہ ۴ ربیع الاول تک غارمیں رہے حضرت علیؑ آپ لوگوں کے لئے رات میں کھاناپہنچاتے رہے اوریہ چاروں اشخاص معمولی راستہ چھوڑکربحیرئہ قلزم کے کنارے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے کفارمکہ نے انعام مقررکردیاتھاکہ جوشخص آپ ؐکوزندہ پکڑکرلائے گایاآپ ؐ کاسرکاٹ کرلائے گاتوسواونٹ انعام میں دئیے جائیں گے اس پرسراقہ بن مالک آپ کی کھوج لکاتاہواغارتک پہنچااسے دیکھ کرحضرت ابوبکررونے لگے ۔ توحضرت نے فرمایاروتے کیوں ہو” خدا ہمارے ساتھ ہے ” سراقہ قریب پہنچاہی تھاکہ اس کاگھوڑابابزانوزمین میں دھنس گیااس وقت حضرت روانگی کے لیے برآمدہوچکے تھے اس نے معافی مانگی حضرت نے معافی دیدی گھوڑازمین سے نکل آیاوہ جان بچاکربھاگا اورکافروں سے کہہ دیاکہ میں نے بہت تلاش کیامگرمحمدؐکاسراغ نہیں ملتا اب دوہی صورتیں ہیں۔”یازمین میں سماگئے یاآسمان پراڑگئے۔”

تحویل کعبہ:
ماہ شعبان ۲ ہجری میں بیت المقدس کی طرف سے قبلہ کارخ کعبہ کی طرف موڑدیاگیا قبلہ چونکہ عالم نمازمیں بدلاگیااس لئے آنحضرت ؐ کاساتھ حضرت علیؑ کے علاوہ اورکسی نے نہیں دیا کیونکہ وہ آنحضرت ؐکے ہرفعل وقول کوحکم خداسمجھتے تھے اسی لیے آپ ؐ مقام فخرمیں فرمایاکرتے تھے انامصلی القبلتین میں ہی وہ ہو جس نے ایک نمازبیک وقت دوقبلوں کی طرف پڑھی۔
تبلیغی خطوط:
حضرت ؐ کوابھی صلح حدبیہ کے ذریعہ سے سکون نصیب ہواہی تھا کہ آپ ؐ نے ۷ ہجری میں ایک مہربنوائی جس پر”محمد رسول اللہ” کندہ کرایا اس کے بعد شاہان عالم کوخطوط لکھے ۔
ان دنوں عرب کے اردگردچاربڑی سلطنتیں قائم تھیں :
۱ ۔ حکومت ایران جس کااثروسط ایشیاسے عراق تک پھیلاہواتھا۔
۲ ۔ حکومت روم جس میں ایشیائے کوچک ،فلسطین،شام اوریورپ کے بعض حصے شامل تھے۔
۳ ۔ مصر۔
۴ ۔ حکومت حبش جومصری حکومت کے جنوب سے لے کر بحیرئہ قلزم کے مغربی علاقوں پرتھا۔ حضرت نے بادشاہ حبش نجاشی ، شاہ روم قیصرہرقل، گورنرمصرجریح ابن میناقبطی عرف مقوقش ، بادشاہ ایران خسروپرویزاورگورنریمن باذان، والی دمشق حارث وغیرہ کے نام خطوط روانہ فرمائے۔
آپ ؐ کے خطوط کامختلف بادشاہوں پرمختلف اثرہوا، نجاشی نے اسلام قبول کرلیا، شاہ ایران نے آپ کاخط پڑھ کرغیظ وغضب کے تحت خط کے ٹکڑے اڑا دے قاصد کونکال دیا ، اورگورنریمن نے لکھاکہ مدینہ کے دیوانہ (آنحضرتؐ) کوگرفتارکرکے میرے پاس بھیج دے اس نے دوسپاہی مدینہ بھیجے تاکہ حضورکوگرفتار کریں حضرت نے فرمایا، جاؤتم کیاگرفتارکروگے تمہیں خبربھی ہے کہ تمہارابادشاہ انتقال کرگیا، سپاہی جویمن پہنچے توسناکہ شاہ ایران داعی اجل کولبیک کہہ چکاہے آپ کی اس خبردہی سے بہت سے کافرمسلمان ہوگئے۔ قیصرروم نے آپ کے خط کی تعظیم کی گورنرمصرنے آپ ؐ کے قاصدکی بڑی مدارات کی اوربہت سے تحفوں سمیت اسے واپس کردیا۔ ان تحفوں میں ماریہ قبطیہ(زوجہ آنحضرت ؐ)اوران کی ہمشیرہ شیریں (زوجہ حسان بن ثابت) ایک دلدل نامی جانوربرائے حضرت علیؑ، یعفورنامی درازگوش مابورنامی خواجہ سراشامل تھے۔
حضرت علیؑ کی خلافت کااعلان:
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خلاق عالم نے انتخاب خلافت کواپنے لیے مخصوص رکھاہے اوراس میں لوگوں کادسترس نہیں ہونے دیا۔ارشاد ہوتاہے :
ربک یخلق مایشاء ویختارماکان لہم الخیرة سبحان اللہ تعالی عمایشرکون ۔
تمہارارب ہی پیداکرتاہے اورجس کوچاہتاہے(نبوت وخلافت) کے لیے منتخب کرتاہے یادرہے کہ انسان کونہ انتخاب کاکوئی حق ہے اورنہ وہ اس میں خداکے شریک ہوسکتے ہیں
یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے تمام خلفاء آدم سے خاتم تک خود مقررکئے ہیں اوران کااعلان اپنے نبیوں کے ذریعہ سےکرایاہے۔(روضة الصفا، تاریخ کامل، تاریخ ابن الوری، عرائس ثعلبی وغیرہ) اوراس میں تمام انبیاء ؑکے کردارکی موافقت کااتنالحاظ رکھاہے کہ تاریخ اعلان تک میں فرق نہیں آنے دیا۔ علامہ مجلسی وعلامہ بہائی لکھتے ہیں کہ تمام انبیاء نے خلافت کااعلان ۱۸ذی الحجہ کوکیاہے(جامع عباسی واختیارات مجلسی) مورخین کااتفاق ہے کے آنحضرت ؐنے حجة الوداع کے موقع پر ۱۸ ذی الحجہ کوبمقام غدیرخم حکم خداسے حضرت علیؑ کے جانشین ہونے کااعلان فرمایاہے۔
حجة الوداع:
حضرت رسول کریم ؐ ۲۵ ذی قعدہ ۱۰ ء ہجری کوحج آخرکے ارادہ سے روانہ ہوکر ۴ ذی الحجہ کومکہ معظمہ پہنچے آپ ؐکے ہمراہ آپ ؐ کی تمام بیبیاں اورحضرت سیدہ سلام اللہ علیہاتھیں روانگی کے وقت ہزاروں صحابہ کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزارہوگئی حضرت علیؑ یمن سے مکہ پہنچے حضور ؐنے فرمایاکہ تم قربانی اورمناسک حج میں میرے شریک ہو۔ اس حج کے موقع پرلوگوں نے اپنی آنکھوں سے آنحضرت ؐ کومناسک حج اداکرتے ہوئے دیکھااورمعرکة الاراء خطبے سنے جن میں بعض باتیں یہ تھیں ۔
۱ ۔ جاہلیت کے زمانہ کے دستورکچل ڈالنے کے قابل ہیں۔
۲ ۔ عربی کوعجمی اورعجمی کوعربی پرکوئی فضیلت نہیں۔
۳ ۔ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
۴ ۔ غلاموں کاخیال ضروری ہے۔
۵ ۔ جاہلیت کے تمام خون معاف کردئیے گئے۔
۶ ۔جاہلیت کے تمام واجب الاداسود باطل کردئیے گئے۔
غرضکہ حج سے فراغت کے بعدآپ ؐ مدینہ کے ارادہ سے ۱۴ ذی الحجہ کوروانہ ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزاراصحاب آپ ؐ کے ہمراہ تھے جحفہ کے قریب مقام غدیر پرپہنچتے ہی آیہ بلغ کانزول ہوا آپ ؐ نے پالان اشترکامنبربنایااوربلاکوحکم دیاکہ "حی علیؑ خیرالعمل” کہہ کرآوازیں دیں مجمع سمٹ کرنقطہ اعتدال پرآگیا آپ ؐنے ایک فصیح وبلیغ خطبہ فرمایاجس میں حمدوثناکے بعداپنی افضلیت کااقرارلیااورفرمایاکہ:
میں تم میں دوگرانقدرچیزیں چھوڑے جاتاہوں ایک قرآن اوردوسرے میرے اہلبیت ۔
اس کے بعد علیؑ کواپنے نزدیک بلاکردونوں ہاتھوں سے اٹھایااوراتنابلندکیاکہ سفیدی زیربغل ظاہرہوگئی پھرفرمایا:
"من کنت مولاہ فہذاعلیؑ مولاہ
جس کامیں مولا ہوں اس کے یہ علیؑ مولاہیں خدایاعلیؑ جدھرمڑیں حق کواسی طرف موڑدینا پھرعلیؑ کے سرپرسیاہ عمامہ باندھالوگوں نے مبارکبادیاں دینی شروع کیں سب آپ کی جانشینی سے مسرورہوئے حضرت عمرنے بھی نمایاں الفاظ میں مبارکباددی جبرئیل نے بھی بزبان قرآن اکمال دین اوراتمام نعمت کامژدہ سنایا۔
سیرہ حلبیہ میں ہے کہ یہ جانشینی ۱۸ذی الحجہ کوواقع ہوئی ہے نورالابصار میں ہے کہ ایک شخص حارث بن نعمان فہری نے حضرت کے عمل غدیرخم پراعتراض کیاتواسی وقت آسمان سے اس پرایک پتھرگراوروہ مرگیا۔
واضح ہوکہ اس واقعہ غدیرکوامام المحدثین حافظ ابن عبدہ نے ایک سوصحابہ سے اس حدیث غدیرکی روایت کی ہے امام جزری وشافعی نے اسی صحابیوں سے امام احمدبن حنبل نے تیس صحابیوں سے اورطبری نے پچھترصحابیوں سے روایت کی ہے علاوہ اس کے تمام اکابراسلام مثلا ذہبی صنعائی اورعلیؑ القاری وغیرہ اسے مشہوراورمتواترمانتے ہیں ۔
واقعہ مباہلہ:
نجران یمن میں ایک مقام ہے وہاں عیسائی رہتے تھے اورہاں ایک بڑاکلیساتھا آنحضرت ؐنے انہیں بھی دعوت اسلام بھیجی، انھوں نے تحقیق حالات کے لئے ایک وفدزیرقیادت عبدالمسیح عاقب مدینہ بھیجا وہ وفدمسجدنبوی کے صحن میں آکرٹھراحضرت سے مباحثہ ہوامگروہ قائل نہ ہوئے حکم خدانازل ہوا "فقل تعالوا ندع انباء نا ” الخ
اے پیغمبران سے کہدوکہ دونوں اپنے بیٹوں اپنی عورتوں اوراپنے نفسوں کولاکرمباہلہ کریں ۔
چنانچہ فیصلہ ہوگیا اور ۲۴ ذی الحجہ ۱۰ھ کوپنجتن پاک جھوٹوں پرلعنت کرنے کے لئے نکلے نصاری کے سردارنے جونہی ان کی شکلیں دیکھیں کانپنے لگا اورمباہلہ سے بازآیا۔ خراج دینامنظور کیا جزیہ دے کررعایابنناقبول کرلیا۔
سرورکائنات صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات:
حجة الوداع سے واپسی کے بعد آپ ؐ کی وہ علالت جوبروایت مشکواة خیبرمیں دئیے ہوئے زہرکے کروٹ لینے سے ابھراکرتی تھی مستمرہوگئی آپ ؐ علیل رہنے لگے بیماری کی خبرکے عام ہوتے ہی جھوٹے مدعی نبوت پیداہونے لگے جن میں مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی، طلیحہ، سجاح زیادہ نمایاں تھے لیکن خدانے انہیں ذلیل کیا اسی دوران میں آپ ؐ کواطلاع ملی کہ حکومت روم مسلمانوں کوتباہ کرنے کامنصوبہ تیارکررہی ہے آپ ؐنے اس خطرہ کے پیش نظرکہ کہیں وہ حملہ نہ کردیں اسامہ بن زیدکی سرکردگی میں ایک لشکربھیجنے کافیصلہ کیا اورحکم دیاکہ علیؑ کے علاوہ اعیان مہاجروانصارمیں سے کوئی بھی مدینہ میں نہ رہے اوراس روانگی پراتنا زور دیاکہ یہ تک فرمایا”لعن اللہ من تخلف عنہا” جواس جنگ میں نہ جائے گااس پرخداکی لعنت ہوگی اس کے بعدآنحضرت ؐنے اسامہ کواپنے ہاتھوں سے تیار کرکے روانہ کیا انہوں نے تین میل کے فاصلہ پرمقام جرف میں کیمپ لگایااوراعیان صحابہ کاانتظارکرنے لگے لیکن وہ لوگ نہ آئے ۔ مدارج النبوت ،تاریخ کامل اورطبری میں ہے کہ نہ جانے والوں میں حضرت ابوبکروحضرت عمربھی تھے ۔
مدارج النبوت میں ہے کہ آخرصفرمیں جب کہ آپ ؐ کوشدیددردسرتھا آپ ؐ رات کے وقت اہل بقیع کے لئے دعاکی خاطر تشریف لے گئے حضرت عائشہ نے سمجھاکہ میری باری میں کسی اوربیوی کے وہاں چلے گئے ہیں ۔ اس پروہ تلاش کے لیے نکلیں توآپ ؐ کوبقیع میں محودعاپایا۔ اسی سلسہ میں آپ ؐ نے فرمایاکیااچھاہوتا اے عائشہ کہ تم مجھ سے پہلے مرجاتیں اورمیں تمہاری اچھی طرح تجہیزوتکفین کرتا انہوں نے جواب دیاکہ آپ چاہتے ہیں میں مرجاؤں توآپ دوسری شادی کرلیں۔ اسی کتاب میں ہے کہ آنحضرتؐ کی تیمارداری آپ ؐ کے اہل بیت کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ اہل بیت کوتیمارداری میں پیچھے رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
واقعہ قرطاس:
حجة الوداع سے واپسی پربمقام غدیرخم اپنی جانشینی کااعلان کرچکے تھے اب آخری وقت میں آپ ؐ نے یہ ضروری سمجھتے ہوئے کہ اسے دستاویزی شکل دیدوں اصحاب سے کہاکہ مجھے قلم ودوات اورکاغذ دیدو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جوتمہیں گمراہی سے ہمیشہ ہمیشہ بچانے کے لیے کافی ہو یہ سن کر اصحاب میں باہمی چہ می گوئیاں ہونے لگیں لوگوں کے رحجانات قلم ودوات دے دینے کی طرف دیکھ کر حضرت عمرنے کہا: "ان الرجل لیھجرحسبناکتاب اللہ”
یہ مرد ہذیان بک رہاہے ہمارے لیے کتاب خداکافی ہے “
علامہ شبلی لکھتے ہیں روایت میں ہجرکالفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں
حضرت عمرنے آنحضرت ؐ کے اس ارشادکو ہذیان سے تعبیرکیاتھا۔ لغت میں ہذیان کے معنی بیہودہ گفتن یعنی بکواس کے ہیں۔
شمس العلماء مولوی نذیراحمددہلوی لکھتے ہیں "جن کے دل میں تمنائے خلافت چٹکیاں لے رہی تھی انہوں نے تودھینگامستی سے منصوبہ ہی چٹکیوں میں اڑادیا اورمزاحمت کی یہ تاویل کی کہ ہمارے ہدایت کے لیے قرآن بس کرتاہے اورچونکہ اس وقت پیغمبرصاحب کے حواس برجانہیں ہیں۔ کاغذ،قلم ودوات کالانا کچھ ضروری نہیں خداجانے کیاکیالکھوادیں گے ۔
اس واقعہ سے آنحضرت ؐ کوسخت صدمہ ہوا اورآپ نے جھنجلاکر فرمایا: قومواعنی ” میرے پاس سے ہٹ اٹھ کرچلے جاؤ ”
نبی کے روبروشوروغل انسانی ادب نہیں ہے علامہ طریحی لکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں پانچ افراد نے حضرت ابوبکر،حضرت عمر،ابوعبیدہ ،عبدالرحمن ،سالم غلام حذیفہ نے متفقہ عہدوپیمان کیاتھا کہ "لانودہذہ الامرفی بنی ہاشم”
پیغمبرکے بعدخلافت بنی ہاشم میں نہ جانے دیں گے

وصیت اوراحتضار:
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آخری وقت آپ ؐنے فرمایامیرے حبیب کوبلاؤ میں نے اپنے باپ ابوبکرپھرعمرکوبلایا انہوں نے پھریہی فرمایاتومیں نے علیؑ کوبلا بھیجا آپ نے علیؑ کوچادرمیں لے لیااورآخر تک سینے سے لپٹائے رہے ۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ جناب سیدہ اورحسنین کوطلب فرمایا اورحضرت علیؑ کوبلاکروصیت کی اکرہاجیش اسامہ کے لیے میں نے فلاں یہودی سے قرض لیاتھا اسے اداکردینا اوراے علیؑ تمہیں میرے بعدسخت صدمات پہنچیں گے تم صبرکرنا اوردیکھوجب اہل دنیادنیاپرستی کریں توتم دین اختیارکئے رہنا۔
رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت:
حضرت علیؑ علیہ السلام سے وصیت فرمانے کے بعد آپ ؐ کی حالت متغیر ہوگئی حضرت فاطمہؑ جن کے زانو پرسرمبارک رسالت مآب تھا فرماتی ہیں کہ ہم لوگ انتہائی پریشانی میں تھے کہ ناگاہ ایک شخص نے اذن حضوری چاہا میں نے داخلہ سے منع کردیا، اورکہااے شخص یہ وقت ملاقات نہیں ہے اس وقت واپس چلاجا اس نے کہامیری واپسی ناممکن ہے مجھے اجازت دیجئے کہ میں حاضرہوجاؤں آنحضرت ؐ کوجوقدرے افاقہ ہواتو آپ نے فرمایااے فاطمہ ؑ اجازت دے دو یہ ملک الموت ہیں فاطمہ ؑ نے اجازت دیدی اوروہ داخل خانہ ہوئے پیغمبرؐکی خدمت میں پہنچ کرعرض کی مولایہ پہلادروازہ ہے جس پرمیں نے اجازت مانگی ہے اوراب آپ کے بعدکسی کے دروازے پراجازت طلب نہ کروں گا ۔
الغرض ملک الموت نے اپناکام شروع کیااورحضوررسول کریم ؐنے بتاریخ ۲۸ صفر ۱۱ ہجری یوم دوشنبہ بوقت دوپہرظاہری خلعت حیات اتاردیا۔
حضرت علیؑ نے غسل وکفن کابندوبست کیاحضرت علیؑ غسل دینے میں ،فضل ابن عباس حضرت کاپیراہن اونچاکرنے میں، عباس اورقثم کروٹ بدلوانے میں اوراسامہ وشقران پانی ڈالنے میں مصروف ہوگئے اورانہیں چھ آدمیوں نے نمازجنازہ پڑھی اوراسی حجرہ میں آپ کے جسم اطہرکودفن کردیاگیا جہاں آپ نے وفات پائی تھی ابوطلحہ نے قبرکھودی ۔
حضرت ابوبکروحضرت عمرآپ کے غسل وکفن اورنمازمیں شریک نہ ہوئے کیونکہ جب یہ حضرات سقیفہ سے واپس آئے توآنحضرتﷺ کی لاش مطہر سپردخاک کی جاچکی تھی ۔
وفات کے وقت آپ ؐ کی عمر ۶۳ سال کی تھی ۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کااثر:
سرورکائنات کی رحلت کااثریوں توتمام لوگوں پرہوا ،اصحاب بھی روئے اورحضرت عائشہ نے بھی ماتم کیا ۔ لیکن جوصدمہ حضرت فاطمہ کوپہنچا اس میں وہ منفردتھیں تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی رحلت سے عالم علوی اورعالم سفلی بھی متاثرہوئے اوران میں جوچیزیں ہیں ان میں بھی اثرات ہویداہوئے علامہ زمخشری کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت ؐنے ام معبدکے وہاں قیام فرمایا آپ ؐکے وضوکے پانی سے ایک درخت اگا،جوبہترین پھل لاتارہا، ایک دن میں نے دیکھاکہ اس کے پتے جھڑ ہوئے ہیں اورمیوے گرے ہوئے ہیں میں حیران ہوئی کہ ناگاہ خبررحلت سرورعالم پہنچی پھرتیس سال بعد دیکھا گیا کہ اس میں تمام کانٹے اگ آئے تھے بعدمیں معلوم ہواکہ حضرت علیؑ نے شہادت پائی پھرمدت مدیدکے بعداس کی جڑسے خون تازہ ابلتاہوادیکھاگیا بعدمیں معلوم ہواکہ حضرت امام حسین نے شہادت پائی ہے اس کے بعد وہ خشک ہوگیا۔
ازواج:
چندکنیزوں کے علاوہ جنہیں ماریہ اورریحانہ بھی شامل تھیں آپ کے گیارہ بیویاں تھیں جن میں سے حضرت خدیجة اورزینب بنت خزیمہ نے آپ کی زندگی میں وفات پائی تھی اورنوبیویوں نے آپ کی رحلت کے بعدانتقال فرمایا آنحضرتﷺ کی بیویوں کے نام درج ذیل ہیں:
۱ ۔ خدیجة الکبری ۲ ۔ ام سلمہ ۳ ۔ عائشہ ۴ ۔ حفصہ ۵ ۔ زینب بنت خزیمہ
۶ ۔سودہ ۷ ۔ زینب بنت جحش ۸ ۔ جزیریہ بنت حارث ۹۔ ام حبیبہ ۱۰ ۔ صفیہ ۱۱ ۔میمونہ
اولاد:
آپ کے تین بیٹے تھے اورایک بیٹی تھی جناب ابراہیم کے علاوہ جوماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے سب بچے حضرت خدیجة کے بطن سے تھے حضورکی اولادکے نام حسب ذیل ہیں:
۱ ۔ حضرت قاسم طیب : آپ بعثت سے قبل مکہ میں پیداہوئے اوردوسال کی عمرمیں وفات پاگئے۔
۲ ۔ جناب عبداللہ : جوطاہرکے نام سے مشہورتھے بعثت سے قبل مکہ میں پیداہوئے اوربچپن ہی میں انتقال کرگئے۔
۳ ۔ جناب ابراہیم : ۸ ہجری میں پیداہوئے اور ۱۰ ہجری میں انتقال کرگئے۔
۴ ۔ حضرت فاطمةالزہراؑ :آپ پیغمبراسلام کی اکلوتی بیٹی تھیں آپ کے شوہرحضرت علیؑ اوربیٹے حضرت امام حسن اورامام حسین تھے آپ کی نسل سے گیارہ امام پیداہوئے اوران ہی کے ذریعہ سے رسول خداکی نسل بڑھی اورآپ کی اولادکوسیادت کاشرف نصیب ہوااوروہ قیامت تک "سید” کہی جائے گی۔
حضرت رسول کریم ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت میں میرے سلسہ نسب کے علاوہ سارے سلسلے ٹوٹ جائیں گے اورکسی کارشتہ کسی کے کام نہ آئے گا
علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ تمام انبیاء کی اولادہمیشہ قابل تعظیم سمجھی جاتی رہی ہے ،ہمارے نبی اس سلسلہ میں سب سے زیادہ حق دارہیں ۔
علامہ جلال الدین فرماتے ہیں کہ حضرات حسنین کی اولادکے لیے سیادت مخصوص ہے مردہویاعورت جوبھی ان کی نسل سے ہے وہ قیامت تک "سید” رہے گا "ویحبب علیؑ اجمع الخلق تعظیمہم ابدا”
اورساری کائنات پرواجب ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ ان کی تعظیم کرتی رہے ۔
منابع و مآخذ
1. قرآن مجید
2. حیات القلوب، علامہ مجلسی،الشیخ محمد باقر
3. سفینۃ البحار، ثقۃ المحدثین حاج شیخ عباس قمی
4. کنزالعمال، علاء الدین علی المتقی حسام الدین الھندی
5. لوامع التنزیل، ابوالقاسم بن حسین رضوی قمی
6. شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ھبۃ اللہ بن ابی الحدید
7. صحیح البخاری، محمد بن اسماعیل بخاری
8. مؤدۃ القربی، میر سید علی ہمدانی
9. مسند احمد حنبل، الامام احمد بن حنبل الشیبانی
10. روضۃ الشہداء، ملا حسین واعظ الکاشفی
11. صواعق المحرقہ، ابن حجر الحیتمی، احمد بن محمد بن محمد بن علی
12. فتح الباری، الحافظ ابن حجر العسقلانی
13. المرتضیٰ، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
14. تاریخ بغداد، الخطیب البغدادی، الحافظ ابی بکر احمد بن علی
15. امہات الامۃ، ڈپٹی نذیر احمد
16. تاریخ ابوالفداء، علامہ اسماعیل بن علی
17. تاریخ طبری، ابو جعفر محمد بن جریر طبری
18. تاریخ کامل، عز الدین علی ابن اثیر
19. تفسیر بیضاوی، ابو سعید عبداللہ بن عمر بن شیرازی البیضاوی
20. منہج الوصول، نواب صدیق حسن خان
21. عجائب القصص، علامہ عبدالواحد بن محمد المفتی
22. شرح عقائد نسفی، ٍابو حفص عمر بن محمد نسفی
23. سیرت ابن ہشام، ابو محمد عبدالملک بن ہشام بن ایوب حمیری
24. تاریخ اسلام، شاہ معین الدین احمد ندوی
25. الفاروق، مولانا شبلی نعمانی
26. تلخیص سیرۃالنبی، مولانا شبلی نعمانی
27. الیعقوبی، احمد بن ابی یعقوب الکاتب عباسی
28. روضۃ الاحباب، امیر جلال الدین محدث شیرازی

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button