محافلمناقب امام جعفر صادق عمناقب و فضائل

ایک زندیق شخص کا امام جعفر صادق علیہ السلام سے ربوبیت کے بارے میں مناظرہ

زاہد حسین محمدی مشھدی
بَابُ حُدُوثِ الْعَالَمِ‏ وَ إِثْبَاتِ الْمُحْدِثِ‏
أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ: قَالَ لِي هِشَامُ بْنُ الْحَكَمِ كَانَ بِمِصْرَ زِنْدِيقٌ تَبْلُغُهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَشْيَاءُ فَخَرَجَ إِلَى الْمَدِينَةِ لِيُنَاظِرَهُ فَلَمْ يُصَادِفْهُ بِهَا وَ قِيلَ لَهُ إِنَّهُ خَارِجٌ بِمَكَّةَ فَخَرَجَ إِلَى مَكَّةَ وَ نَحْنُ مَعَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ فَصَادَفَنَا وَ نَحْنُ مَعَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي الطَّوَافِ وَ كَانَ اسْمُهُ عَبْدَ الْمَلِكِ وَ كُنْيَتُهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ‏ فَضَرَبَ كَتِفَهُ كَتِفَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع مَا اسْمُكَ فَقَالَ اسْمِي عَبْدُ الْمَلِكِ 
علی بن منصور سے مروی ہے کہ ہشام بن الحکم نے بیان کیا کہ مصر میں ایک زندیق (دہریہ) تھا اس نے اما م جعفر صادق ع کی کچھ احادیث سنیں، وہ حضرت سے مناظرہ کرنے مدینہ آیا لیکن ملاقات نہ ہوئی لوگوں نے کہا کہ حضرت مکہ تشریف لے گئے ہیں وہ مکہ آیا ہم طواف میں حضرت کےساتھ تھے اس زندیق کا نام عبد الملک تھا اور کنیت ابو عبد اللہ اس نے حضرت کے شانہ سے شانہ رگڑا۔
امام ع نے فرمایا: تیرا نام کیا ہے؟
اس نے کہا: میرا نام عبد الملک ہے.
حضرت نے فرمایا: تیری کنیت کیا ہے؟
اس نے کہا: ابو عبد اللہ.
حضرت نے فرمایا: یہ کون ملک ہے جس کا تو بندہ ہے آیا یہ زمین کے بادشاہوں میں سے ہے یا آسمان کےاور مجھے اپنے بیٹے عبد اللہ کے متعلق بتا یہ آسمان کے اللہ کا بندہ ہے یا زمین کے اللہ کا ان دونوں شقوں میں سے جو بھی بتائے گا ملزم قرار پائے گا۔
ہشام ابن الحکم نے اس دہریہ سے کہا تو حضرت کی بات کا جواب کیوں نہیں دیتا، اس کو میرا کہنا برا معلوم ہوا۔
امام ع نے فرمایا: ۔ جب میں طواف سے فارغ ہوں تو میرے پس آنا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو زندیق آیا اور آپ ع کے پاس بیٹھ گیا ہم سب بھی حضرت کے پاس جمع تھے.
آپ ع نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ زمین کے لئے تحت وفوق ہے
اس نے کہا: ہاں.
آپ ع نے فرمایا: کیا تم زمین کے نیچے گئے ہو؟
اس نے کہا: نہیں.
حضرت نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اس زمین میں کیا ہے؟
اس نے کہا: کہ مجھے علم نہیں، میرا گمان یہ ہے کہ اس کے نیچے کچھ نہیں۔
حضرت ع نے فرمایا: تم آسمان پر چڑھے ہو؟
اس نے کہا: نہیں.
حضرت نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اس آسمان میں کیا ہے؟
اس نے کہا: نہیں۔
حضرت نے فرمایا: کیسی عجیب بات ہے کہ تم نہ مشرق میں گئے نہ مغرب میں نہ زمین کے اندر گئے نہ آسمان کے اوپر اور جب تم وہاں سے نہیں گزرے اور تم کوپتہ نہیں کہ کیا کیا وہاں پیدا کیا گیا ہے تو اس صورت میں ان چیزوں سے تمہارا نام کسی عقلمند کے لئے کیسے جائز ہے کہ جس کو نہیں جانتا اس سے انکار کر دے۔
زندیق نے کہا: آپ کے سوا اور کسی نے ایسا کلام مجھ سے نہیں کیا۔
حضرت نے فرمایا: کہ اس معاملہ میں تمہیں شک ہے کہ شاید آسمان و زمین میں کچھ ہو یا نہ ہو۔
زندیق نے کہا: کہ ہاں ایسا ہی ہے.
حضرت نے فرمایا: اے شخص جو کوئی نہیں جانتا وہ جاننے والے پر حجت تمام نہیں کرتا جاہل کے لئے تو حجت ہی نہیں۔
اے مصری بھائی مجھ سے سمجھ ہم کبھی اللہ کے بارے میں شک نہیں کرتے کیا تم سورج اور چاند اور رات اور دن کو نہیں دیکھتے کہ وہ آتے جاتے ہیں، ان کی مقررہ حالت میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا۔ وہ جاتے ہیں اورپھر پلٹ آتے ہیں یہ ان کی اضطراری حالت ہے جو ان کی معین جگہ ہے اس سے ہٹ نہیں سکتے انھیں اس پر قدرت نہیں کہ جا کر واپس نہ آئیں۔ اگر غیر مضطر ہوتے تو رات دن نہ بنتی اور دن رات نہ ہوتا۔
اے مصری بھائی یہ دونوں ہمیشہ سے مضطر ہیں پس جس نے انھیں مضطر بنایا ہے وہ ان سے زیادہ طاقتور اور بڑا ہے۔
زندیق نے کہا: آپ نے سچ فرمایا:
پھر ابو عبد اللہ نے کہااے مصری بھائی لوگ جس طرف جا رہے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ وہ دہر ہے اگر دہران کو لے جاتا ہے تو دہران کو لوٹاتا کیوں نہیں اور اگر لوٹاتا ہے تو پھر ان کو مارتا کیوں ہے باقی کیوں نہیں رکھتا (حرکت تو اس کی ایک جیسی ہے پھر یہ دو متضاد باتیں کیسی)
اے مصری بھائی لوگ مضطر ہیں۔ کیوں آسمان کو بلند کیا، کیوں زمین کو بچھایا۔
آسمان زمین پر کیوں نہیں گر پڑتا ( اگر اس کا کوئی مدبر و منتظم نہیں) اور زمین اپنے طبقات کو لے کر کیوں دھنس نہیں جاتی اگر کوئی مدبر حکیم نہ ہوتا تو یہ زمین و آسمان قائم نہ رہتے اور زمین پر لوگ چل نہ سکتے۔
زندیق نے کہا: اللہ دونوں کا رب ان کو روکے ہوئے ہے اور ان کو مضبوط بنایا ہے
پس زندیق حضرت امام جعفر صادق ع کے ہاتھ پر ایمان لے آیا۔
حمران نے کہا آپ ع پر فدا ہوں زنادقہ آپ ع کے ہاتھ پر ایمان لائے اور کفار آپ ع کے پدر بزرگوار کے ہاتھ پر۔
اس مومن نے جو حضرت کے ہاتھ پر ایمان لایا تھا حضرت سے کہا: مجھے آپ ع اپنے شاگردوں میں بنا لیجئے.
حضرت نے ہشام بن الحکم سے فرمایا: ان کو اپنے ساتھ رکھو پس ہشام نے تعلیم دی اور پھر اس نے اہل شام اور اہل مصر کو ایمان کی تعلیم اور اس کی پاکیزگی نفس سے حضرت خوش ہوئے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 سيرة الأئمة المعصومين عليهم السلام
Source: http://sirateaimamasoomin.blogfa.com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button