اھل بیت علیھم السلامحدیثموضوعی احادیث

فضائل اہل بیت علیھم السلام

1۔حدثنا أحمد بن الحسن القطان قال حدثناالعباس بن الفضل المقري قال حدثنا محمد بن علي بن منصور قال حدثناعمرو بن عون قال حدثناخالد عن الحسن بن عبيد الله عن أبي الضحي عن زيد بن أرقم قال” قال رسول الله صلی اللہ علیہ و الہ وسلم” إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي أهل بيتي فإنهما لن يفترقا حتي يردا علي الحوض”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے اندر دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کتاب خدا اور اپنی عترت اہل بیؑت۔یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتی کہ میرے پاس حوض کوثر میں آپہنچے۔
(کمال الدین و تمام النعمہ ج١،ص٢٣۵)


٢۔قال الامام ابو جعفر علیہ السلام
"آلُ مْحَمَّدٍھْم حَبْلُ اللہِ الَّذِیْ اَمَرَ بِالْاِعْتِصَامِ بِہِ۔”
"آل محمدؐ ہی وہ حَبْل اللہ ہیں جن سے متمسک ہونے کا حکم (قرآن میں) آیا ہے۔”
(بحار الانوار ج۲۴،ص۸۵)


٣۔قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم” أَنَا أَوَّلُ وَافِدٍ عَلَی الْعَزِیزِ الْجَبَّارِ- یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ کِتَابُهُ وَ أَهْلُ بَیْتِی ثُمَّ أُمَّتِی ثُمَّ أَسْأَلُهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِکِتَابِ اللَّهِ وَ بِأَهْلِ بَیْتِی”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” میں سب سے پہلے قیامت کے دن اللہ تعالی کے بارگاہ میں حاضر ہوں گا،پھر کتاب خدا اور اہل بیؑت آئیں گے اور پھر میری امت حاضر ہوگی۔اس کے بعد میں اپنی امت سے سوال کروں گا کہ تم نے کتاب خدا اور اہل بیؑت کے ساتھ کیا کیا۔”
(الکافی،ج٢،ص۵٩٩)


۴۔مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَالِبٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ- یَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ قَالَ الْمُسْلِمُونَ یَا رَسُولَ اللَّهِ أَ لَسْتَ إِمَامَ النَّاسِ کُلِّهِمْ أَجْمَعِینَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم أَنَا رَسُولُ اللَّهِ إِلَی النَّاسِ أَجْمَعِینَ وَ لَکِنْ سَیَکُونُ مِنْ بَعْدِی أَئِمَّةٌ عَلَی النَّاسِ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَهْلِ بَیْتِی یَقُومُونَ فِی النَّاسِ فَیُکَذَّبُونَ وَ یَظْلِمُهُمْ أَئِمَّةُ الْکُفْرِ وَ الضَّلَالِ وَ أَشْیَاعُهُمْ فَمَنْ وَالاهُمْ وَ اتَّبَعَهُمْ وَ صَدَّقَهُمْ فَهُوَ مِنِّی وَ مَعِی وَ سَیَلْقَانِی أَلَا وَ مَنْ ظَلَمَهُمْ وَ کَذَّبَهُمْ فَلَیْسَ مِنِّی وَ لَا مَعِی وَ أَنَا مِنْهُ بَرِی ءٌ
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی اس روز ہم ہر گروہ کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے تو مسلمانوں نے کہا ، یارسول اللہ ص کیا آپ سب لوگوں کے امام نہیں ہیں؟ فرمایا میں اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں تمام لوگوں کی طرف اور میرے بعد امام ہونگے میری اہل بیت سے وہ لوگوں کے درمیان رہیں گے پس لوگ ان کو جھٹلائیں گے اور آئمہ کفر ان پر ظلم کریں گے اور آئمہ علیھم السلام ضلال اور ان کے تابعین بھی ستائیں گے پس وہ لوگ جنھوں نے ان سے محبت کی اور ان کا اتباع کیا اور ان کی تصدیق کی کہ وہ مجھ سے ہیں اور میرے ساتھ ہیں اور عنقریب مجھ سے ملاقات کریں گے اور جنھوں نے ان پر ظلم کیا اور ان کو جھٹلایا وہ مجھ سے نہیں ہیں میں ان سے بَری ہوں۔
(الکافی،ج١،ص٢١۵)


۵۔أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْخَشَّابِ قَالَ حَدَّثَنَا بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ خَيْثَمَةَ قَالَ” قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏” يَا خَيْثَمَةُ نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ وَ بَيْتُ الرَّحْمَةِ وَ مَفَاتِيحُ الْحِكْمَةِ وَ مَعْدِنُ الْعِلْمِ وَ مَوْضِعُ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ وَ مَوْضِعُ سِرِّ اللَّهِ وَ نَحْنُ وَدِيعَةُ اللَّهِ فِي عِبَادِهِ وَ نَحْنُ حَرَمُ اللَّهِ الْأَكْبَرُ وَ نَحْنُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَ نَحْنُ عَهْدُ اللَّهِ فَمَنْ وَفَى بِعَهْدِنَا فَقَدْ وَفَى بِعَهْدِ اللَّهِ وَ مَنْ خَفَرَهَا فَقَدْ خَفَرَ ذِمَّةَ اللَّهِ وَ عَهْدَهُ.”
خیثمہ نے بیان کیا ہے کہ امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا: اے خیثمہ ہم نبوت کے درخت، رحمت کا گھر، حکمت کی چابیاں، مرکز علم، محل رسالت، ملائکہ کے آنے جانے کا مقام اور خداوند کے اسرار کی جگہ ہیں، ہم بندوں کے درمیان خداوند کی امانت اور حرم الٰہی ہیں، ہم خداوند کی امان اور اسکا وعدہ ہیں، پس جس نے ہمارے عہد کو پورا کیا اس نے خدا کے عہد کو پورا کیا اور جس نے اسے توڑا اس نے اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کو توڑا۔”
(الکافی،ج١،ص٢٢١)


٦۔عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم "الْإِسْلَامُ عُرْیَانٌ فَلِبَاسُهُ الْحَیَاءُ وَ زِینَتُهُ الْوَقَارُ وَ مُرُوءَتُهُ الْعَمَلُ الصَّالِحُ وَ عِمَادُهُ الْوَرَعُ وَ لِکُلِّ شَیْ ءٍ أَسَاسٌ وَ أَسَاسُ الْإِسْلَامِ حُبُّنَا أَهْلَ الْبَیْتِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام عریان ہے،لھذا اس کا لباس حیاء ہے،اس کی زینت جاہ و جلالہے،اس کی مروت عمل صالح ہے،ورع اس کا ستون ہے۔ہر چیز کیلئے اساس ہوتا ہے اور اسلام کا اساس ہم اہل بیؑت کی محبت ہے۔”
(الکافی،ج٢،ص۴٦)


٧۔عن أبيه عن أبي عبد الله ع عن آبائه عن علي ع قال” قال رسول الله صلی اللہ علیہ و الہ وسلم” اثنا عشر من أهل بيتي أعطاهم الله فهمي وعلمي وحكمتي وخلقهم من طينتي فويل للمنكرين”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "بارہ امام ہمارے اہل بیؑت سے ہوں گے۔اللہ تعالی نے ان کو میری فہم،علم اور حکمت دی ہے اور میری طینت سے ان کو خلق کیا ہے۔ ان کے منکرین کیلئے ویل ہو۔”
( کمال الدین و اتمام النعمۃ، ص 164) ( الاختصاص ،ص 208) (عیون اخبار الرضا،٦۵)


٨۔قال رسول الله صلی اللہ علیہ و الہ وسلم”من أحبنا أهل البيت حشره الله تعالي آمنا يوم القيامة”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” جس نے ہم اہل بیؑت سے محبت کی اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو امان کی حالت میں اٹھائے گا۔”
(عیون اخبار الرضا،ج:2، ص: 59)


٩۔عن علي علیہ السلام : قال نحن أهل البيت لايقاس بنا أحد فينا نزل القرآن وفينا معدن الرسالة
مولا علیؑ نے فرمایا ” ہم اہل بیؑت ہیں ہمارے ساتھ کسی کو بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا ہمارے درمیان ہی قرآن نازل ہوا اور ہمارے پاس ہی رسالت کے خزانے ہیں۔”
(عیون اخبار الرضا،ص٦٣)


١٠۔قال الامام علی علیہ السلام: "اُنْظُرُوْۤا اَهْلَ بَیْتِ نَبِیِّكُمْ فَالْزَمُوْا سَمْتَهُمْ، وَ اتَّبِعُوْۤا اَثَرَهُمْ فَلَنْ یُّخْرِجُوْكُمْ مِنْ هُدًی، وَ لَنْ یُّعِیْدُوْكُمْ فِیْ رَدًی، فَاِنْ لَّبَدُوْا فَالْبُدُوْا، وَ اِنْ نَّهَضُوْا فَانْهَضُوْا، وَ لَا تَسْبِقُوْهُمْ فَتَضِلُّوْا، وَ لَا تَتَاَخَّرُوْا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوْا”
امام علیؑ نے فرمایا”:اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت علیھم السلام کو دیکھو، ان کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ وہ تمہیں ہدایت سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور نہ انہیں چھوڑ کر پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔”
(نہج البلاغہ۔خطبہ نمبر٩۵)


11۔قال الامام علی علیہ السلام: "تَاللهِ! لَقَدْ عَلِمْتُ تَبْلِیْـغَ الرِّسَالَاتِ، وَ اِتْمَامَ الْعِدَاتِ، وَ تَمَامَ الْكَلِمَاتَ. وَ عِنْدَنَا ـ اَهْلَ الْبَیْتِ ـ اَبْوَابُ الْحِكَمِ وَ ضِیَآءُ الْاَمْر”
خدا کی قسم! مجھے پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کے پورا کرنے اور آیتوں کی صحیح تاویل بیان کرنے کا خوب علم ہے اور ہم اہل بیتؑ نبوت کے پاس علم و معرفت کے دروازے اور شریعت کی روشن راہیں ہیں۔
(نہج البلاغہ خطبہ نمبر١٨٨)


12۔قال الامام علی علیہ السلام:”اَلَا وَ اِنَّ مَنْ اَدْرَكَهَا مِنَّا یَسْرِیْ فِیْهَا بِسِرَاجٍ مُّنِیْرٍ، وَ یَحْذُوْ فِیْهَا عَلٰی مِثَالِ الصَّالِحِیْنَ، لِیَحُلَّ فِیْهَا رِبْقًا، وَ یُعْتِقَ رِقًّا، وَ یَصْدَعَ شَعْبًا، وَ یَشْعَبَ صَدْعًا”
فرمایا”دیکھو! ہم (اہل بیؑت میں سے) جو ان( فتنوں کا دور) پائے گا وہ اس میں( ہدایت کا) چراغ لے کر بڑھے گا اور نیک لوگوں کی راہ و روش پر قدم اٹھائے گا، تاکہ بندھی ہوئی گرہوں کو کھولے اور بندوں کو آزاد کرے اور حسب ضرورت جڑے ہوئے کو توڑے اور ٹوٹے ہوئے کو جوڑے۔”
(نہج البلاغہ خطبہ نمبر١۴٨)


13۔قال الامام علی علیہ السلام”:فَاِنَّهٗ مَنْ مَّاتَ مِنْكُمْ عَلٰی فِرَاشِهٖ وَ هُوَ عَلٰی مَعْرِفَةِ حَقِّ رَبِّهٖ وَ حَقِّ رَسُوْلِهٖ وَ اَهْلِ بَیْتِهٖ مَاتَ شَهِیْدًا، وَ ﴿وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَی اللّٰهِ ؕ ﴾ "
فرمایا: "بلاشبہ تم میں سے جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ اور ان کے اہل بیتؑ کے حق کو پہچانتے ہوئے بستر پر بھی دم توڑے وہ شہید مرتا ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے "۔(نہج البلاغہ خطبہ نمبر١٨٨)


14۔قال الامام علی علیہ السلام :وَ اِنَّا لَاُمَرَآءُ الْكَلَامِ، وَ فِیْنَا تَنَشَّبَتْ عُرُوْقُهٗ، وَ عَلَیْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُوْنُهٗ
فرمایا”اور ہم اہل بیؑت اقلیم سخن کے فرمانروا ہیں۔ وہ ہمارے رگ و پے میں سمایا ہوا ہے اور اس کی شاخیں ہم پر جھکی ہوئی ہیں۔”
(نہج البلاغہ خطبہ نمبر٢٣٠)


15۔قال الامام علی علیہ السلام ":نَحْنُ النُّمْرُقَةُ الْوُسْطٰى، بِهَا یَلْحَقُ التَّالِیْ، وَ اِلَیْهَا یَرْجِـعُ الْغَالِیْ”
فرمایا”ہم اہلبیؑت ہی وہ نقطۂ اعتدال ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے کو اس سے آ کر ملنا ہے اور آگے بڑھ جانے والے کو اس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔”
(نہج البلاغہ،حکمت نمبر١٠٩)


16 ۔قال الامام علی علیہ السلام: "مَنْ اَحَبَّنَاۤ اَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَسْتَعِدَّ لِلْفَقْرِ جِلْبَابًا”
فرمایا”جو ہم اہل بیتؑ سے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کیلئے آمادہ رہنا چاہیے۔”
(نہج البلاغہ،حکمت نمبر ١١٢)


17۔عن أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه و آله یَقُولُ لِعَلِیٍّ علیه السلام أَ لَا أُبَشِّرُکَ یَا عَلِیُّ قَالَ بَلَی بِأَبِی وَ أُمِّی یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ” أَنَا وَ أَنْتَ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ علیهم السلام خُلِقْنَا مِنْ طِینَةٍ وَاحِدَةٍ وَ فَضَلَتْ مِنْهَا فَضْلَةٌ فَجَعَلَ مِنْهَا شِیعَتَنَا وَ مُحِبِّینَا فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ دُعِیَ النَّاسُ بِأَسْمَائِهِمْ وَ أَسْمَاءِ أُمَّهَاتِهِمْ مَا خَلَا نَحْنُ وَ شِیعَتَنَا وَ مُحِبِّینَا فَإِنَّهُمْ یُدْعَوْنَ بِأَسْمَائِهِمْ وَ أَسْمَاءِ آبَائِهِمْ”
ابوھریرہ نقل کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علیؑ سے فرمایا!ائے علؑی کیا میں آپ کو بشارت نہ دوں؟مولا علیؑ نے جواب دیا!جی میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو یارسول اللہ ؐ۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!میں،آپؑ،فاطمہؑ،حسنؑ و حسیؑن کو ایک ہی طینت سے خلق کیا گیا اور جو مٹی بچ گئی اس سے ہمارے شیعوں اور ہم سے محبت کرنے والوں کو خلق فرمایا۔جب قیامت کا دن ہوگا تو لوگوں کو ان کے ناموں اور ان کے ماؤوں کے ناموں سے پکارا جائے گا سوائے ہم،ہمارے شیعہ اور ہم سے محبت کرنے والوں کے۔انہیں اپنے نام اور ان کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔”
(بحار الانوار،ج٧،ص٢۴١)


18۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صلی الله علیه و آله عَنِ الْکَلِمَاتِ الَّتِی تَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّهِ فَتَابَ عَلَیْهِ قَالَ سَأَلَهُ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِیٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ إِلَّا تُبْتَ عَلَیَّ فَتَابَ عَلَیْهِ
ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کلمات سے متعلق پوچھا کہ وہ کون سے کلمات تھے کہ آدؑم نے اپنے پروردگار سے سیکھے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ آدم نے محمد علی فاطمہ حسن اور حسین علیھم السلام کا واسطہ دے کر سوال کیا کہ میری توبہ قبول کی جائے۔ چنانچہ ان کی توبہ قبول ہوئی ۔”
(بحار الانوار ج١١،ص١٧٧)


19۔عن عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِيسَى سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ : لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ ، فَقَالَ : أَلَا أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : بَلَى فَأَهْدِهَا لِي ، فَقَالَ : سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكُمْ ، قَالَ : قُولُوا : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ”
عبد اللہ بن عیسی سے روایت ہے کہ انہوں نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کیوں نہ تمہیں( حدیث کا ) ایک تحفہ پہنچا دوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا۔ میں نے عرض کیا جی ہاں مجھے یہ تحفہ ضرور عنایت فرمائیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم آپ اہل بیؑت پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سکھا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو
اللهم صل على محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلى آل محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنك حميد مجيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم بارك على محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلى آل محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كما باركت على إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلى آل إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنك حميد مجيد‏
اے اللہ! اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیؑم پر اور آل ابراہیمؑ پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے۔
(صحیح بخاری ،حدیث نمبر٣٣٧٠)


20۔عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي .”
ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہا ہے، اوراللہ کی محبت کی خاطر مجھ سے محبت کرو، اور میری محبت کی خاطر میرے اہل بیت سے محبت کرو“۔
(جامع ترمذی،حدیث نمبر٣٧٨٩)


21۔عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَّلَ عَلَى الْحَسَنِ،‏‏‏‏ وَالْحُسَيْنِ،‏‏‏‏ وَعَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَفَاطِمَةَ كِسَاءً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَخَاصَّتِي أَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ،‏‏‏‏ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ وَأَنَا مَعَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏
جناب ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن، حسین، علی اور فاطمہ علیھم السلام کو ایک چادر سے ڈھانپ کر فرمایا:
‏‏‏‏”اللهم هؤلاء أهل بيتي وخاصتي أذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا”
اے اللہ! یہ میرے اہل بیتؑ اور میرے خاص الخاص لوگ ہیں، تو ان سے گندگی کو دور فرما دے، اور انہیں اچھی طرح سے پاک کر دے تو ام سلمہ رضی الله عنہا بولیں: کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں یا رسول اللہؐ؟آپؐ نے فرمایاتو خیر پر ہے۔( یعنی بے شک تو خیر پر ہے مگر مذکورہ فضیلت میں شامل نہیں)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں جو حدیثیں مروی ہیں ان میں سب سے اچھی ہے، ۲- اس باب میں عمر بن ابی سلمہ، انس بن مالک، ابوالحمراء، معقل بن یسار، اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(جامع الترمذی،حدیث نمبر٣٨٧١)


22۔
‏عَنْ عَلِيٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدَّهْرِ إِلَّا يَوْمٌ لَبَعَثَ اللَّهُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَمْلَؤُهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا "
امام علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر زمانہ سے ایک ہی دن باقی رہ جائے گا تو بھی اللہ تعالیٰ میرے اہل بیتؑ میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو زمانے کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح یہ ظلم و جور سے بھرا ہوگا۔”
(سنن ابو داود،حدیث نمبر۴٢٨٣)


23۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ إِذْ أَقْبَلَ فِتْيَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ،‏‏‏‏ فَلَمَّا رَآهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ وَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا نَزَالُ نَرَى فِي وَجْهِكَ شَيْئًا نَكْرَهُهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ،‏‏‏‏ اخْتَارَ اللَّهُ لَنَا الْآخِرَةَ عَلَى الدُّنْيَا،‏‏‏‏ وَإِنَّ أَهْلَ بَيْتِي سَيَلْقَوْنَ بَعْدِي بَلَاءً وَتَشْرِيدًا وَتَطْرِيدًا،‏‏‏‏ حَتَّى يَأْتِيَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَعَهُمْ رَايَاتٌ سُودٌ،‏‏‏‏ فَيَسْأَلُونَ الْخَيْرَ فَلَا يُعْطَوْنَهُ،‏‏‏‏ فَيُقَاتِلُونَ فَيُنْصَرُونَ،‏‏‏‏ فَيُعْطَوْنَ مَا سَأَلُوا،‏‏‏‏ فَلَا يَقْبَلُونَهُ حَتَّى يَدْفَعُوهَا إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَيَمْلَؤُهَا قِسْطًا كَمَا مَلَئُوهَا جَوْرًا،‏‏‏‏ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَلْيَأْتِهِمْ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ
عبد اللہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں بنی ہاشم کے چند نوجوان آئے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھا، تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں، اور آپ کا رنگ بدل گیا، میں نے عرض کیا: ہم آپ کے چہرے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور دیکھتے ہیں جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے( یعنی آپ کے رنج سے ہمیشہ صدمہ ہوتا ہے ) ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم اس گھرانے والے ہیں جن کے لیے اللہ نے دنیا کے مقابلے آخرت پسند کی ہے، میرے بعد بہت جلد ہی میرے اہل بیتؑ مصیبت، سختی، اخراج اور جلا وطنی میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ آئیں گے، جن کے ساتھ سیاہ جھنڈے ہوں گے، وہ خیر ( خزانہ )طلب کریں گے، لوگ انہیں نہ دیں گے تو وہ لوگوں سے جنگ کریں گے، اور( اللہ کی طرف سے) ان کی مدد ہو گی، پھر وہ جو مانگتے تھے وہ انہیں دیا جائے گا( یعنی لوگ ان کی حکومت پر راضی ہو جائیں گے اور خزانہ سونپ دیں گے ) ، یہ لوگ اس وقت اپنے لیے حکومت قبول نہ کریں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو یہ خزانہ اور حکومت سونپ دیں گے، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح لوگوں نے اسے ظلم سے بھر دیا تھا، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس زمانہ کو پائے وہ ان لوگوں کے ساتھ (لشکر میں )شریک ہو، اگرچہ اسے گھٹنوں کے بل برف پر کیوں نہ چلنا پڑے۔ ”
(سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر۴٠٨٢)


24۔ عَنْ أَبِي سَعِيْد الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه! لَا يُبْغِضُنَا أَهَل الْبَيْت أَحَد إِلَّا أَدْخَلَه اللهُ النَّار”
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےہم اہل بیت سے کوئی آدمی نفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے دوزخ میں ڈال دیتا ہے۔”
(الصحيح البخاری ، 15 / 435، الرقم : 6978)


25۔عَنْ عَطَائِ بْنِ أَ بِی رَبَاحٍ قَالَ: حَدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ أُمَّ سَلَمَۃَ، تَذْکُرُ أَ نَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ فِی بَیْتِہَا فَأَ تَتْہُ فَاطِمَۃُ بِبُرْمَۃٍ فِیہَا خَزِیرَۃٌ فَدَخَلَتْ بِہَا عَلَیْہِ فَقَالَ لَہَا اُدْعِیْ زَوْجَکِ وَابْنَیْکِ۔ قَالَتْ: فَجَائَ عَلِیٌّ وَالْحُسَیْنُ وَالْحَسَنُ فَدَخَلُوْا عَلَیْہِ فَجَلَسُوْا یَأْکُلُونَ مِنْ تِلْکَ الْخَزِیرَۃِ، وَہُوَ عَلٰی مَنَامَۃٍ لَہُ عَلٰی دُکَّانٍ تَحْتَہُ کِسَائٌ لَہُ خَیْبَرِیٌّ، قَالَتْ: وَأَ نَا أُصَلِّی فِی الْحُجْرَۃِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ
إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَ ہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا
قَالَتْ فَأَ خَذَ فَضْلَ الْکِسَائِ فَغَشَّاہُمْ بِہِ ثُمَّ أَ خْرَجَ یَدَہُ فَأَ لْوٰی بِہَا إِلَی السَّمَائِ ثُمَّ قَالَ اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَ ہْلُ بَیْتِی وَخَاصَّتِی فَأَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا، اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَہْلُ بَیْتِی وَخَاصَّتِی فَأَ ذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا قَالَتْ: فَأَ دْخَلْتُ رَأْسِی الْبَیْتَ فَقُلْتُ وَأَ نَا مَعَکُمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ إِنَّکِ إِلٰی خَیْرٍ إِنَّکِ إِلٰی خَیْرٍ”
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے، سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا ایک ہنڈیا لے کرآئیں، جس میں گوشت سے تیار شدہ خزیرہ ایک کھانا جوقیمہ اور آٹے سے تیار کیا جاتا ہے) تھا، جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس داخل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے خاوند اور اپنے دونوں بیٹوں کو بلا کر لاؤ۔ اتنے میں امام علی، امام حسن اور امام حسین علیھم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور وہ سارے خزیرہ کھانے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دکان نما جگہ پر تھے، جو آپ کی خواب گاہ تھی، نیچے خیبر کی بنی ہوئی چادر بچھا رکھی تھی۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں حجرے میں نماز پڑھ رہی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت اتاری
إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَ ہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا
اللہ تعالیٰ تو صرف یہ ارادہ کرتا ہے کہ اے اہل بیؑت ! تم سے پلیدی دور کر دیں اور تمہیں مکمل طور پر پاک کر دیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زائد چادر کے حصہ کو لیا اور انہیں ڈھانپ لیا، پھر اپنا ہاتھ آسمان کی جانب بلند کیا اور فرمایا: اے میرے اللہ! یہ میرے گھر والے اور میرے خاص ہیں، ان سے پلیدی دور کر دے اور انہیں پاک کردے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ میں نے اس چادر کے اندر اپنا سر داخل کیا اور کہا:اے اللہ کے رسول! میں بھی تمہارے ساتھ شامل ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک تم خیر پر ہو، بلاشبہ تم خیر پر ہو۔
(مسند احمد بن حنبل،حدیث نمبر٨٧١٠)


26۔وَعَنْہُ اَیْ اِبْنِ مَسْعُوْدٍ بِلَفْظٍ آخَرَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَا تَنْقَضِی الْاَیَّامُ، وَلَایَذْھَبُ الدَّھْرُ حَتّٰی یَمْلِکَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ بَیْتِیْ، اِسْمُہٗ یُوَاطِیئُ اِسْمِیْ "
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ ایام اور یہ زمانہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگا،جب تک میرے اہل بیؑت کا ایک ایسا آدمی عرب کی سرزمین کا حکمران نہیں بنے گا، جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا۔”
(مسند احمد بن حنبل،حدیث نمبر ١٢٩١٩)


27۔وَعَن ابی ذرٍ أَنَّهُ قَالَ وَهُوَ آخِذٌ بِبَابِ الْكَعْبَةِ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَلَا إِنَّ مِثْلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مِثْلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هلك”
حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : اس حال میں کہ وہ کعبہ کے دروازے کو پکڑے ہوئے تھے ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : سن لو ! تم میں میرے اہل بیؑت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے ، جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا ”
(مشکوة المصابیح،حدیث نمبر٦١٨٣)


28۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : قَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَوْمًا فِيْنَا خَطِيْبًا. بِمَاءٍ يُدْعَي خُمًّا. بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةِ. فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَي عَلَيْهِ، وَ وَعَظَ وَذَکَّرَ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ . أَلَا أَيُّهَاالنَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِکُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيْبُ، وَأَنَا تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقَلَيْنِ : أَوَّلُهُمَا : کِتَابُ اللهِ فِيْهِ الْهُدَي وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللهِ. وَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ. فَحَثَّ عَلَي کِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ : وَأَهْلُ بَيْتِي. أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَکِّرُکُمْ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي.رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتہ اجل) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ نے کتاب اللہ (کی تعلیمات پر عمل کرنے پر) ابھارا اور اس کی ترغیب دی پھر فرمایا : اور (دوسرے) میرے اہل بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں. میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘ اسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
(صحیح مسلم، جلد 3، ص:1873، حدیث: 2408، مسند احمد بن حنبل، ج:4، ص:366، حدیث؛19265)


29۔قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم:” لجہنم باب لا یدخل منہ الامن اخفرنی فی اہل بیتی واراق دمائہم بعدی”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” جہنم کا ایک دروازہ ایسا ہے جس میں صرف وہی لوگ داخل ہوں گے جنہوں نے میرے اہل بیت کے حق میں مجھے اذیت دی (عہد شکنی کی)اور میرے بعد ان کے خون بہائے۔”
(تفسیر الدر المنثور ،ج۴،ص١٨٦)


30۔قال رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم:” ان اہل بیتی سیلقون من بعدی من امتی قتلا و تشریداً وان اشد قوماً لنا بغضا بنو امیہ و بنو المغیرہ و بنو مخزوم "
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:میرے بعد میرے اہل بیت کو قتل اور جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے خلاف سب سے زیادہ بغض رکھنے والی قوم بنی امیہ، بنی مغیرہ اور بنی مخزوم ہوں گے۔
(کنز العمال حدیث نمبر ۳۱۰۷۴)


31۔قال الامام ابو جعفر علیہ السلام: "اما انہ من احبنا فی اللہ نفعہ اللہ بحبنا، و من احبنا لغیر اللہ فان اللہ یقضی فی الامور ما یشآء، انما حبنا اھل البیت شیء یکتبہ اللہ فی قلب العبد، فمن کتبہ اللہ فی قلبہ لم یستطع احد ان یمحوہ اما سمعت اللہ یقول: اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ” فحبنا اھل البیت من اصل الایمان۔”
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:”جو شخص ہم سے برائے خدا محبت کرتا ہے تو اللہ اسے ہماری محبت کا فائدہ دے گا اور جو شخص غیر اللہ کی خاطر ہم سے محبت کرتا ہے تو جس قدر اللہ چاہے اس کے بھی کچھ امور حل ہو جائیں گے۔ ہم اہل بیتؑ کی محبت ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ بندے کے دل میں ثبت فرماتا ہے۔ پس جس کے دل میں اللہ(محبت اہل بیت ؑ) ثبت کرے اس کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔ کیا تو نے اللہ کے اس کلام کو نہیں سنا جس میں فرماتا ہے: یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کیا ہے اور اللہ نے اپنی طرف سے ایک روح سے اس کی تائید کی ہے۔ پس ہم اہل بیت ؑ کی محبت ایمان کی بنیاد ہے۔
(شواہد التنزیل ۲: ۳۳۰)


32۔عن ابو سعید خدری قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:اما و اللّٰہ لا یحب اھل بیتی عبد الا اعطاہ اللّٰہ عز و جل نوراً حتی یرد علی الحوض۔ و لا یبغض اھل بیتی عبد الا احتجب اللّٰہ عنہ یوم القیمۃ”
رسول اللہ ص نے فرمایا "آگاہ رہو! قسم بخدا! کوئی بھی بندہ میرے اہل بیت سے محبت کرتا ہے تو اللہ عز و جل اسے ایک نور عطا کرے گا جس سے وہ میرے پاس حوض تک پہنچ جائے اور جو بندہ میرے اہل بیت سے بغض رکھے گا تو قیامت کے دن اس کے اور اللہ کے درمیان حجاب رہے گا۔”
(شواہد التنزیل ذیل آیت 28سورة الحدید ،ج٢،ص٣١٠)


33۔حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے آیۂ " وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ "کی تلاوت فرما کر فرمایا
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عقب ابراہیم و نحن اہل البیت عقب ابراہیم و عقب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابراہیؑم کی نسل اور ہم اہل بیؑت ابراہؑیم کی نسل اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل ہیں۔
(تاویل الایات ص ۵۴۰)


34۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
لا یزول قدم عبد یوم القیامۃ حتی یسئل عن اربعۃ عن عمر فیما افناہ و عن شبابہ فیما ابلاہ و عن مالہ من این اکتسبہ و فیھا انفقہ و عن حبنا اہل البیت”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:”قیامت کے دن انسان کا کوئی قدم آگے نہیں بڑھے گا جب تک چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ ہو۔ اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیزیں میں گزاری۔ اس کے جوانی کے بارے میں کہ اسے کس چیز میں ختم کیا۔ اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور ہم اہل بیؑت کی محبت کے بارے میں۔”
(بحارالانوار،ج۲۷، ص۳۱۱)


35۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم؛”الصَّلَاةُ عَلَیَّ وَ عَلَی اَھْلِ بَیْتِی تَذْھَبُ بِالنِّفَاقِ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا : "مجھ پر اور میرے اہل بیؑت پر درود نفاق کو دور کر دیتا ہے۔ ”
(الکافی ج،۲ص،۴۹۲)


36۔قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنِّي وأياكِ وَهَذَيْنِ، وَهَذَا الرَّاقِدَ، يَعْنِي عَلِيًّا، يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي مَكَانٍ وَاحِدٍ . یعنی فاطمة وولديها: الحسن والحسين”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں ، تم اور یہ دونوں اور یہ سونے والا یعنی علیؑ قیامت کے دن ایک مکان میں ہوں گے۔ یعنی فاطمؑہ اور اس کے دو بیٹے: حسؑن اور حسیؑن۔
(السلسلة الصحیحة،حدیث نمبر٣۴۵٧)


37۔عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: لَمَّا نزلت هَذِه الْآيَة "ندْعُ أبناءنا وأبناءكم”
دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ و َسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أهل بَيْتِي
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، جب یہ آیت نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَ اَبْنَاءَ کُمْ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیھم السلام کو بلایا اور فرمایا :’’ اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔
(مشکوة المصابیح،حدیث نمبر ٦١٣۵)


38۔قال رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّمَ :”النجوم أمانٌ لأهل السماء وأهل بيتي أمان لأمّتي،”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ستارے آسمان میں رہنے والوں کیلئے امان ہیں اور میرے اہل بیؑت میری امت کیلئے امان ہیں۔
(فضائل آل رسول من صواعق المحرقہ،ص۴۵)


39۔ابن مردویہ نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت” اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ " نازل ہوئی تو رسول اللہ ؐنے فرمایا:
:من احب اللّٰہ تعالیٰ و رسولہ و احب اہل بیتی صادقاً غیر کاذب و احب المؤمنین شاھداً الا بذکر اللّٰہ یتحابون”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جو اللہ اور اس کے رسول اور میرے اہل بیؑت سے سچی محبت کریں اور غیبت و حضور میں تمام مؤمنین سے بھی محبت کریں۔ دیکھو اللہ ہی کے ذکر کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے محبت کریں گے۔
(الدرالمنثور ،ج۴ ،ص۵۸)


40۔قال رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّمَ: استوصوا بأهل بيتي خيراً فإني أخاصمكم عنهم غداً "
"اہل بیؑت سے متعلق میری وصیت پر اچھی طرح عمل کرو۔بیشک کل قیامت کے دن میں ان سے متعلق تم سے پوچھوں گا۔”
(فضائل آل رسول من صواعق المحرقہ،ص۴٢)


41۔قال رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّمَ:” أنا وأهل بيتي شجرة في الجنة، وأغصانها في الدنيا، فمن تمسك بنا اتخذ إلى ربه سبيلا”
میں اور میرے اہل بیتؑ جنت میں ایک درخت کی طرح ہیں کہ جس کی شاخیں دنیا میں ہے۔پس جس نے ہم سے تمسک کیا اس نے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کیا۔”
(ذخائر العقبى للطبري: ص 16، الصواعق المحرقة لابن حجر: ص 150)


42۔قال رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّمَ: "وإنما مثل أهل بيتي فيكم مثل باب حطّة في بني إسرائيل من دخله غُفر له”
تمہارے درمیان میرے اہل بیؑت کی مثال بنی اسرائیل کے درمیان باب حطہ کی مانند ہے، جو اس دروازے سے داخل ہوا اس کو بخش دیا گیا”
(فضائل آل رسول من صواعق المحرقہ،ص۴۵)


43۔قال رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّمَ:”لا يحبنا أهل البيت إلا مؤمن تقي ولا يبغضنا إلا منافق شقي۔”
ہم اہل بیؑت سے سوائے پرہیز گار مومن کے کوئی محبت نہیں رکھے گا اور سوائے شقی منافق کے کوئی بغض نہیں رکھے گا۔
(فضائل آل رسول من صواعق المحرقہ،ص٦۵)


44۔قال رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّمَ”:من أبغض أحداً من أهل بيتي فقد حرم شفاعتي۔”
"جس کسی نے میرے اہل بیؑت سے بغض رکھا وہ میری شفاعت سے محروم ہوا”
(فضائل آل رسول من صواعق المحرقہ،ص٦۵)


45۔قال رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّمَ :”والذي نفسي بيده لا يبغضنا أهل البيت أحد إلاّ أدخله الله النار”
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو بھی ہم اہل بیؑت سے بغض رکھے گا اللہ تعالی اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔
(فضائل آل رسول من صواعق المحرقہ،ص٦۵)


46۔قال رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّمَ :”حرمت الجنّة علي من ظلمني في أهل بيتي وآذاني في عترتي”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس شخص پر جنت حرام قرار دی گئی ہے جس نے میرے اہل بیت کی نسبت مجھ پر ظلم کیا اور جس نے میری عترت کی نسبت مجھے اذیت دی۔”
(فضائل آل رسول من صواعق المحرقہ،ص٦٨)


47۔قال رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّمَ: ألزموا مودَّتنا أهل البيت فإنه من لقي الله وهو يودنا دخل الجنة بشفاعتنا والذي نفسي بيده لا ينفع أحداً عمله إلا بمعرفة حقنا
"ہم اہل بیؑت کی مودت کو اپنے اوپر لازمی قرار دو کیونکہ جو اس حال میں اللہ تعالی سے ملاقات کرے کہ وہ ہم سے مودت رکھتا ہوتو اسے ہماری شفاعت کی وجہ سے جنت میں داخل کیا جائے گا۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ہمارے حق کی معرفت کے بغیر کسی کو بھی اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا ”
(فضائل آل رسول من صواعق المحرقہ،ص١٢٠)


48۔أن الحسن كرم الله وجهه قال في خطبته: إنّا من أهل البيت الذين افترض الله مودّتهم علي كل مسلم، فقالاللہ تعالیٰ لنبيّنا قل لا أسألكم عليه اجراً إلا المودّة في القربي ومن يقترف حسنة نزد له فيها حسناً "واقتراف الحسنة مودّتنا أهل البيت
امام حسنؑ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم اہل بیؑت میں سے ہیں جن کی مودت ہر مسلمان پر اللہ تعالی نے فرض قرار دیا ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ "کہد دو
میں اس تبلیغ رسالت پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے اور جو کوئی نیکی کمائے ہم اس کے لیے اس نیکی میں اچھا اضافہ کرتے ہیں” اور نیکی کمانا ہم اہل بیؑت کی مودت ہے۔”
(فضائل آل رسول من صواعق المحرقہ،ص١١۵)


49۔قال الامام الصادق علیہ السلام فی تفسیر الآیة کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُهٰا ثٰابِتٌ وَ فَرْعُهٰا فِی السَّمٰاءِ ، "رسول اللّه أصلها و امیر المؤمنین فرعها، و الائمّة من ذرّیتهما أغصانها، و علم الائمّة ثمرها، و شیعتهم المؤمنون ورقها۔”
امام صادق علیہ السلام نے آیت” کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ ،اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء” کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس درخت کی جڑ ہیں،امیر المومنین علیؑ ابن ابی طالؑب اس کی شاخ ہیں،وہ آئمؑہ کہ جو ان دونوں کی ذریت سے ہیں وہ اس کی ٹہنیاں ہیں،آئمؑہ کا علم اس درخت کا پھل ہےاور ان کے صاحب ایمان شیعہ اس کے پتے ہیں۔”
(نور الثقلین ج ٢،ص۵٣۵)


50۔قال الامام الصادق علیہ السلام :”الشجرة الطیّبة رسول اللّه و علی و فاطمة و بنوها، و الشجرة الخبیثة بنو امیّة”
حضرت امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ شجرہ طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،علیؑ، فاطمؑہ اور ان کے بیٹے(حسن و حسین علیھما السلام) ہیں اور شجرہ خبیثہ بنو امیہ ہیں۔”
( نور الثقلین،ج٢،ص۵٣۵)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button