احادیث امام مہدی علیہ السلاماھل بیت علیھم السلامحدیثسلائیڈرموضوعی احادیث

امام مھدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ سے متعلق احادیث

 زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں رہتی :
1۔عن على علیه السلام قال:” اللّهم انه لابدَّ لارضك من حجّة لك على خلقك، یهدیهم الى دینك و یعلّمهم علمك لئلا تبطل حجّتك و لا یضلّ أتباع اولیائك بعد اذ هدیتهم به اما ظاهر لیس بالمطاع او مكتتم مترقّب، ان غاب عن النّاس شخصُهُ فى حال هدایتهم فانّ علمه و آدابه فى قلوب المؤمنین مثبتة، فهم بها عاملون "
امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام بارگاہ الہی میں دست بدعا ہو کر فرماتے ہیں: بارخدایا! تیری زمین کے لئے ہر وقت ضرورت ہے کہ روئے زمین پر تیرے بندوں کے اوپر تیری حجت ہو جو لوگوں کو تیرے دین کی طرف ہدایت و راہنمائی فراہم کردے اور لوگوں کو تیرے علم کی تعلیم دیا کرے تا کہ تیری حجت باطل نہ ہو اور تیرے اولیاء کے پیروکار تیری طرف سے ہدایت پانے کے بعد گمراہی اور ضلالت سے بچے رہیں. تیری حجت یا تو ظاہر و آشکار ہے جبکہ لوگ اس کی اطاعت نہیں کرتے یا پھر آنکھوں سے اوجھل ہے اور لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں. اگر لوگوں کی ہدایت کی حالت میں ان کا وجود غائب ہوجائے تب بھی ان کا علم اور ان کے آداب مؤمنین کے قلوب میں برقرار اور استوار ہوتے ہیں اور وہ اس علم اور ان آداب پر عمل کرتے ہیں۔
( کمال‏الدینن و اتمام النعمۃ، ج 1ص 302ح .11)


2۔ عن على علیه السلام قال "اللّهم بلى لا تخلو الارض من قائم لِلّه بحجّةٍ: امّا ظاهراً مشهوراً و امّا خائفاً مَغموراً لئلا تبطُلَ حجج اللّه و بیناته و كم ذا و أین؟ اولئك واللّهِ الاقلّون عدداً و الاعظمون عنداللّه قدراً یحفظُ اللّه بهم حُججه و بیناته… اولئك خلفاء اللّه فى ارضهِ و الدعاةِ الى دینهِ.”
بارخدایا! بےشک ایسا ہی ہے، زمین حق کے لئے قیام کرنے والے امام سے خالی نہیں رہتی؛ وہ یا تو آشکار و ظاہر اور معروف و مشہور ہوتا ہے یا خائف اور نہاں؛ تا کہ خدا کی روشن حجتیں اور دلیلیں (یعنی دین کے اصول و احکام اور انبیاء کی تعلیمات) نیست و نابود نہ ہوں. اور یہ کہ ان کی تعداد کتنی ہے اور وہ کہاں ہیں؟ خدا کی قسم ان کی تعداد بہت کم ہے مگر ان کی قدر و منزلت خدا کے نزدیک بہت عظیم ہے؛ خدا ان کے ذریعے اپنی حجتوں اور روشن دلیلوں کی حفاظت کرتا ہے. وہ روئے زمین پر خدا کے جانشین اور نمائندے ہیں اور لوگوں کو دین اور خدا کے احکام و قوانین کی طرف بلاتے ہیں ”
(الغارات، ج۱، ص91)


 امام مھدی عج کا نسب
3۔ عن ابى جعفر محمد بن على علیه السلام قال: خطب امیرالمؤمنین على بن ابی طالب علیه السلام بالكوفة بعد منصرفه من النهروان… فحمد اللّه و اثنى علیه و صلىّ على رسول اللّه ‏صلى الله علیه و آله و ذكر ما انعم اللّه على نبیه و علیه ثم قال: …و مِنْ وُلدى مهدىُّ هذِهِ الاُمّة "
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: امیرالمؤمنین عل ابن ابی طالب علیہ السلام جنگ نہروان کے بعد کوفہ لوٹے تو آپ نے (ع) نے لوگوں کے لئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا… اس خطبے میں آپ (ع) نے سب سے پہلے خداوند متعال کی حمد و ثناء ادا کی اور رسول اللہ (ص) پر دورد و سلام بھیجا اور ان نعمتوں کو یاد کیا جو خداوند متعال نے رسول اللہ (ص) اور خود آپ (ع) پر عنایت کی، اس کے بعد فرمایا کہ اس امت کے مہدی میری اولاد میں سے ہونگے ۔
(معانى‏الاخبار، ج 1ص 138باب 28ح 9ط دار الکتب)


4۔ عن على بن موسى الرضاعلیه السلام عن ابیه… عن ابیه امیرالمؤمنین على بن ابی طالب علیه السلام انه قال: التّاسِعُ مِنْ وُلْدِك یا حُسَینُ هُوَ القائِمُ بالحق”
حضرت امام رضا(ع) اپنے والد بزرگوار امام موسی بن جعفر (ع) سے اور وہ بھی اپنے والد سے… اور امام سجاد (ع) اپنے والد ماجد حضرت امام حسین (ع) سے اور امام حسین (ع) امیرالمؤمنین على بن ابیطالب‌(علیہما السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے (امام حسین (ع) سے مخاطب ہوکر) فرمایا: میرے فرزند حسین! تمہاری اولاد میں سے «نواں» قائم بر حقّ (مہدی)(ع ) ہونگے.”
(کمال الدین، ج 1ص 304 اثباةآلهداة، ج 6ص 395)


احوال ولادت امام مھدی عج
5۔ عن موسى ابن محمد بن القاسم قال: حدثتني حكيمة بنت محمد ابن علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام قالت: بعث إلي أبو محمد الحسن بن علي عليهما السلام فقال: يا عمة اجعلي إفطارك الليلة عندنا فإنها ليلة النصف من شعبان فان الله تبارك وتعالى سيظهر في هذه الليلة الحجة وهو حجته في أرضه قالت: فقلت له: ومن أمه؟ قال لي: نرجس. قلت له: والله جعلني الله فداك ما بها أثر؟ فقال: هو ما أقول لك قالت: فجئت فلما سلمت وجلست جاءت تنزع خفي وقالت لي: يا سيدتي كيف أمسيت؟ فقلت:
بل أنت سيدتي وسيدة أهلي قالت: فأنكرت قولي وقالت: ما هذا يا عمه؟ قالت:
فقلت لها: يا بنية إن الله تبارك وتعالى سيهب لك في ليلتك هذه غلاما سيدا في الدنيا والآخرة قالت: فجلست واستحيت فلما أن فرغت من صلاة العشاء الآخرة وأفطرت وأخذت مضجعي فرقدت فلما أن كان جوف الليل قمت إلى الصلاة ففرغت من صلاتي وهي نائمة ليس بها حادث ثم جلست معقبة ثم اضطجعت ثم انتبهت فزعة وهي راقدة ثم قامت فصلت. قالت حكيمة: فدخلتني الشكوك فصاح بي أبو محمد عليه السلام من المجلس فقال:
لا تعجلي يا عمة فان الامر قد قرب قالت: فقرأت ألم السجدة ويس فبينما أنا كذلك إذا انتبهت فزعة فوثبت إليها فقلت: اسم الله عليك ثم قلت لها: تحسين شيئا؟ قالت: نعم يا عمة، فقلت لها: اجمعي نفسك واجمعي قلبك فهو ما قلت لك.
قالت حكيمة: ثم أخذتني فترة وأخذتها فطرة فانتبهت بحس سيدي عليه السلام فكشفت الثوب عنه فإذا أنا به عليه السلام ساجدا يتلقى الأرض بمساجده فضممته إلي فإذا أنا به نظيف منظف فصاح بي أبو محمد عليه السلام هلمي إلي ابني يا عمة فجئت به إليه فوضع يديه تحت أليتيه وظهره ووضع قدميه على صدره ثم أدلى لسانه في فيه وأمر يده على عينيه وسمعه ومفاصله ثم قال: تكلم يا بني فقال: أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له. وأشهد أن محمدا رسول الله صلى الله عليه وآله ثم صلى على أمير المؤمنين عليه السلام وعلى الأئمة إلى أن وقف على أبيه ثم أحجم.
قال أبو محمد عليه السلام: يا عمة اذهبي به إلى أمه ليسلم عليها وائتني به فذهبت به فسلم عليها ورددته ووضعته في المجلس ثم قال: يا عمة إذا كان يوم السابع فائتينا.
قالت حكيمة: فلما أصبحت جئت لأسلم على أبي محمد عليه السلام فكشفت الستر لأفتقد سيدي عليه السلام فلم أره فقلت له: جعلت فداك ما فعل سيدي؟ فقال: يا عمه استودعناه الذي استودعته أم موسى عليه السلام.
قالت حكيمة: فلما كان في اليوم السابع جئت وسلمت وجلست فقال: هلمي إلي ابني فجئت بسيدي في الخرقة ففعل به كفعلته الأولى ثم أدلى لسانه في فيه.
كأنه يغذيه لبنا أو عسلا ثم قال: تكلم يا بني فقال عليه السلام: أشهد أن لا إله إلا الله وثنى بالصلاة على محمد وعلى أمير المؤمنين والأئمة صلوات الله عليهم أجمعين حتى وقف على أبيه عليه السلام ثم تلا هذه الآية ” بسم الله الرحمن الرحيم ونريد أن نمن على الذين استضعفوا في الأرض ونجعلهم أئمة ونجعلهم الوارثين * ونمكن لهم فيأرض ونري فرعون وهامان وجنودهما منهم ما كانوا يحذرون۔”
حضرت حکیمہ سے روایت ہے کہ جب والدہ قائم ؑ حاملہ ہوئیں تو امام حسن عسکری نے اپنی زوجہ سے فرمایا تم سے ایک بیٹا پیدا ہو گا جس کا نام محمد ہو گا اور میرے بعد وہ قائم رہے گا ۔یہ سن کر حکیمہ ہمشیرہ امام علی نقی نے امام حسن عسکری سے سوال کیا: اس فرزند ارجمند کی والدہ ماجدہ کا نام کیا ہے َ؟
آپ ؑ نے فرمایا نرجس، جناب حکیمہ کچھ دیر خاموش رہیں پھر فرمایا نرجس خاتون میں تو کوئی آثار حمل نہیں پاتی۔
امام نے فرمایا: میں نے جو کچھ کہا ہے وہ حقیقت ہے۔
حکیمہ سلام کر کے بیٹھ گئی اتنے میں نرجس خاتون آئیں اور کہا اے سیدہ! میرا آپ پر سلام ہو۔ جناب حکیمہ نے فرمایا نہیں سیدہ تم ہو کیونکہ تم سے ایک ایسا فرزند پیدا ہونے والا ہے جو دنیا و آخرت پر بزرگ تر ہے نرجس خاتون شرماتی ہوئی ایک طرف بیٹھ گئیں ۔نماز مغربین اور افطار سے فراغت کے بعد ،میں بھی سو گئی پھر نصف شب میں بیدار ہوئی مگر کوئی آثار ولادت نظر نہیں آئی۔ میں صبح کی نماز سے فارغ ہوئی تو دیکھا نرجس خاتون بھی مصروف نماز ہیں میرے دل میں کچھ شک سا ہوا ، اتنے میں امام نے آواز دی، پھوپھی جان! جلدی نہ فرمائے وقت قریب ہے۔
میں نے سورہ آلم سجدہ اور سورہ یسین پڑھنا شروع کیا اور نرجس خاتون سے پوچھا کچھ آثار پاتی ہو ؟کہا ہاں میں نے کہا مبارک ہو یہ وہی آثار ہیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا تھا ۔کچھ دیر نہ گذری تھی کہ نرجس خاتون سے ایک نومولود کی ولادت ہوئی میں نے فورا چادر اٹھا کر دیکھا بچہ ساتوں اعضاء سجدہ زمین پر رکھ کر مصروف سجدہ ہے۔میں نے اٹھا کر سینے سے لگایا بچہ ہر آلودگی سے صاف و پاک تھا ۔پھر امام نے آواز دی: پھوپھی جان! بچہ کو میرے پاس لے آئے۔ امام نے بچہ کو آغوش میں لیا ،اپنی زبان اس کے منہ میں دے دی اور چشم و گوش و پیشانی پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور فرماتے تھے بیٹا کچھ گفتگو کیجیے۔ نومولود نے بآواز بلند و فصیح انداز میں کہا: ” اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ” ۔اسکے بعد امیر المومنین تا امام حسن عسکری سب پر درودبھیجا۔ امام ؑ نے فرمایا :ان کو ان کی والدہ کے پاس لے جاؤ تاکہ ان کو سلام کریں میں بچہ کو ماں کے پاس لے گئی، بچہ نے اپنی والدہ نرجس خا تون کو سلام کیا۔
امام نے مجھ سے فرمایا کہ اب ساتویں روز میرے پاس ان کو لانا۔ جب میں صبح وہاں گئی تو میں نے دیکھا بچہ نہیں ہے۔ میں نے حیران ہو کر امام سے کہا :ہمارا سید کہاں ہے؟ امام نے فرمایا :میں نے اس کے سپرد کر دیا جس کے سپرد مادر موسی نے موسی کو کیا تھا۔ جناب حکیمہ فرماتی ہیں کہ میں ساتویں روز پہونچی مام نے فرمایا : پھوپھی جان!میرے بچہ کو مجھے لا کر دے دو میں نے بچہ کو لا کر دیا امام نے اپنی زبان بچہ کے دہن میں دی گویا اس کو دودھ اور شہد سے سیر اب فرما رہے تھے، پھر فرمایا بیٹا! کچھ باتیں کرو۔ بچہ نے پھر شھادتین پڑھی اور محمد اور آل محمد پر درود بھیجا اور اس آیہ مجیدہ کی تلاوت فرمائی :” و نرید انمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوارثین و نمکن لھم فی الارض و نری فرعون و ھامن و جنودھما منھم ما کانو یحزرون ” اور ہم تو چاہتے ہیں کہ جو لوگ روئے زمین میں کمزور کر دئے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہی کو لوگوں کا پیشوا بنائیں اور انہیں کو زمین کا مالک بنائیں اور انہیں کو روئے زمیں پر پوری قدرت عطا کریں اور فرعون و ہامان اور ان کے دونوں لشکروں کو انہی کمزوروں کے ہاتھ وہ چیزیں دکھائیں جس سے یہ لوگ ڈرتے تھے ۔”
(بحار الانوار ج 51 ص2 )


 اسماء امام مھدی عج
6۔ قال الامام الباقر علیہ السلام فی قولہ تعالی ” ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا فلا یسرف فی القتل انہ کان منصورا ” سمی اللہ المہدی المنصور کما سمی احمدؐ و محمؐد و محمود و کما سمی عیسی المسیح ؑ
ترجمہ؛ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ تعالی کے اس قول میں ” جو شخص مظلوم مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص ) کا حق دیا ہے اسے چاہئے کہ قتل میں زیادتی نہ کرے اور نصرت اسی کی ہوگی” حضرت مہدیؑ کا نام منصور رکھا ہے جس طرح آنحضرت ؐ کا نام اللہ تعالی نے احمد محمد محمود رکھا ہے یا جس طرح حضرت عیسیٰ ؑ کا نام مسیح رکھا ہےِ۔”
(منتخب میزا ن الحکمت ،ج 1، ص 157)


7۔ لما سئل الامام الصادق علیہ السلام عن علۃ تسمیۃ القائم بالمہدی، قال ” لانہ یھدی الی کل امر خفی”
ترجمہ: جب امام صادق ؑ سے سوال کیا گیا کہ امام مہدیؑ کو مہدی کیوں کہا جاتا ہے تو امامؑ نے فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام مخفی اور پوشیدہ امور کی رہنمائی کرے گا (جن سے کوئی بھی مطلع نہیں ہو گا) ”
(کنزالعمال ،ح 34208)


8۔ عن جابر بن یزید الجعفى قال: سمعت ابا جعفرعلیه السلام یقول: سأل عمرلامیرالمؤمنین علیه السلام عن المهدىّ فقال: یا ابن ابى طالب اخبرنى عن المهدىّ ما اسمُهُ؟ قال علیه السلام: امّا اسمُهُ فلا، انّ حبیبى و خلیلى عَهِدَ اِلىَّ ان لا اُحدِّث باسمِهِ حتّى یبعثه اللَّه عزّوجلّ و هو ممّا استودع اللَّه عزّوجلّ رسوله فى علمه۔”
جابربن یزید جعفی کہتے ہیں: میں نے امام محمد باقر (ع) کو فرماتے ہوئے سنا کہ: ایک روز عمر بن خطاب نے امیرالمؤمنین (ع) سے استفسار کیا: اے فرزند ابوطالب! مجھے مہدی عج سے متعلق کچھ بتا دیجیے؟ مجھے ان کا نام بتائیں.
علی (ع) نے فرمایا: میں ان کا نام زبان پر نہیں لاتا کیونکہ میرے حبیب و خلیل (حضرت محمد (ص)) نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ میں ان کا نام کسی کے سامنے بیان نہ کروں حتی کہ خداوند متعال انہیں مبعوث فرمائے اور یہ ان امور میں سے ہے جو خداوند عز و جل نے اپنے نبی (ص) کے پاس امانت و ودیعت کے طور پر رکھا ہے”.
(کمال الدین و اتمام النعمۃ، ج 2باب 56ص 648)


امام زمانہ عج کی امامت پر نص
9۔ ” عن الامام العسکری ؑ وقد سئل عن الحجۃ و الامام بعدہ، فقال : ابنی محمد وھو الامام و الحجۃ بعدی من مات و لم یعرفہ مات میتۃ جاھلیۃ اما ان لہ غیبۃ یحار فیھا الجاھلون و یھلک فیھا المبطلون و یکذب فیھا وقاتون ثم یخرج فکانی انظر الی الاعلام البیض تخفق فوق رآسہ بنجف الکوفۃ”
امام حسن عسکری ؑ سے ایک سوال کیا گیا کہ آپؑ کے بعد حجت خدا کون ہو گا آپؑ نے فرمایا میرا بیٹا محمد اور وہ میرے بعد امام اور حجت خدا ہو گا جو شخص اس کی معرفت کے بغیر مرے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا اس کو غیبت نصیب ہو گی جس میں جاہل لوگ حیران ہو جائیں گے اور جھٹلانے والوں کے لئے ہلاکت ہو گی، وقت ظہور کی تعیین کرنے والے جھوٹ بولیں گے پھر وہ ظہور کرے گا گویا اس وقت بھی میں دیکھ رہا ہوں کہ نجف کوفہ میں اس کے سر پر سفید علم لہرا رہا ہے۔
(بحار الانوار ج 51 ص 140 ح7 )


امام مہدی عج کی بشارت
10۔ "قال رسول اللہؐ آبشری یا فاطمہ فان المہدی منک "
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے فاطمہ! آپ کو بشارت ہو کہ مہدی آپ ہی (نسل) سے ہوں گے ۔
(منتخب المیزان الحکمۃ،ج 1 ص 158)


قائم آل محمد عج کی دو غیبتیں
11۔ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍع يَقُولُ‏ لِلْقَائِمِ غَيْبَتَانِ إِحْدَاهُمَا طَوِيلَةٌ وَ الْأُخْرَى قَصِيرَةٌ فَالْأُولَى يَعْلَمُ بِمَكَانِهِ فِيهَا خَاصَّةٌ مِنْ شِيعَتِهِ وَ الْأُخْرَى لَا يَعْلَمُ بِمَكَانِهِ فِيهَا إِلَّا خَاصَّةُ مَوَالِيهِ فِي دِينِهِ”
ترجمہ : "حضرت قائم کی دو غیبتیں ہوں گی جن میں سے ایک طولانی ہو گی اور دوسری مختصر۔ پہلی غیبت میں ان کی رہائش گاہ کا خاص خاص شیعوں کو علم ہو گا اور دوسری غیبت میں ان کے مکان کو کوئی نہیں جانتا ہو گا سوائے ان کے دین کے چند خاص محبیین و اولیاء کے۔”
(منتخب المیزان الحکمۃ ج 1 ص 158)


12۔ قال الامام الصادق علیہ السلام: ” ان لصاحب ھذا الامر غیبۃ المتمسک فیھا بدینہ کالخارط لشوک القتاد بیدہ ثم ابرق ملیا ثم قال ان لصاحب ھذا الامر غیبۃ فلیتق اللہ عبدا و لیتمسک بدینہ "
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں؛ ” حضرت صاحب الامر کی غیبت کے زمانے میں اپنے دین کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے والا ایسا ہو گا جیسے اپنے ہاتھ سے خاردار ٹہنی کو کھینچ رہا ہو کہ اس طرح پھر غائب ہو جائیں گے لہذا انسان کو چاہئے کہ ان کی غیبت کے دور میں تقوی اختیار کرے اور اپنے دین کو مضبوطی سے تھامے رکھے "۔
"اصول كافی، ج 1، ص 335”


13۔ عن امیرالمؤمنین علیه السلام قال: للقائم منّا غیبة امدها طویل كانّى بالشیعة یجولون جولان النّعم فى غیبته یطلبون المرعى فلا یجدونه، ألا فمن ثبت منهم على دینه و لم یقْسُ قلْبُهُ لطول امد غیبة امامه فهو معى فى درجتى یوم القیامة.
امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: ہمارے قائم کے لئے ایک غیبت ہے جس کی مدت بہت طویل ہوگی. میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے شیعیان اس زمانے میں بِن مالک ریوڑ کی مانند دشت و صحرا میں منتشر ہوکر چراگاہ و مرتع کی تلاش میں ہیں، مگر ان کی یہ تلاش بےسود ہے. [یعنی امام کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں مگر آپ (ع) تک نہیں پہنچ پاتے].
آگاہ رہو! اس دور میں ان (شیعیان) میں سے جو بھی اپنے دین اور عقیدے پر استوار رہے اور اپنے امام کی طویل غیبت کی وجہ سے سنگدلی اور قساوت قلبی کا شکار نہ ہو، وہ روز قیامت میرے پاس اسی مقام پر ہوگا جہاں میں ہونگا.
( کمال الدین، ج1 ص 303)


قائم آل محمد عج کے زمانہ غیبت کی دعا
14۔ عن زاره قال: سمعت ابا عبدالله ـ علیه السّلام ـ …. اذا ادركتَ هذا الزمان فادع بهذا الدعاء اللهمَّ عَرِّفنی نفسَكَ فانَّك اِن لم تُعرِّفْنی نفسَك لم اعرِف نَبیَّكَ، اللهمَّ عرَّفْنی عرفنی نبیک فانک ان لم تعرفنی نبیک لم اعرف حجتک اللھم عرفنی حجتک انک ان لم تعرفنی حجتک ذللت عن دینی ۔”
زارہ بن اعین کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیه السّلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ: اگر تو غیبت کے دور کو درک کرے تو یہ دعا پڑھتے رہا کریں: خداوندا! تو مجھے اپنی ذات باری کی شناخت عطا فرما کیونکہ جب تک تو مجھے اپنی شناخت نہیں کرائے گا میں تیرے نبی (ص) کو نہیں پہچان سکوں گا؛ خدایا! تو مجھے اپنے نبی (ص) کی معرفت و شناخت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے نبی (ص) کی معرفت عطا نہیں کرے گا تو میں تیرے حجت (امام زمانہ (عج)) کو نہیں پہچان سکوں گا؛ خداوندا! مجھے اپنے حجت کی شناخت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنے حجت کی شناخت و معرفت عطا نہیں فرمائے گا تو میں اپنے دن سے گمراہ ہوجاؤں گاَ
(اصول كافی، ج 1، ص 337)


ظہور حجت آخر کا انتظار
15۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ” افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اللہ عز وجل "
” رسول خداﷺ کا فرمان ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے فرج (ظہور حجت آخر) کا انتظار میری امت کا افضل ترین عمل ہے ”
(البحار: 52 / 122 / 2)


16۔ عن محمد بن مسلم عن ابى عبداللَّه عليه السلام قال: …قال على عليه السلام: …انتظروا الفرج و لا تيأسوا من روح اللَّه، فانّ احبَّ الاعمال الى اللَّه عزّوجلّ انتظار الفرج… و المنتظر لأمرنا كالمُتَشَحِّطِ بدمه فى سبيل اللَّه”
محمد بن مسلم امام صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے اپنے آباء طاہرین سے نقل کیا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: [امام زمانہ (ع)] کے فَرَج [و فراخی کے ایام] کا انتظار کرو اور خدا کی عنایات و توجہات سے ناامید مت ہوں. بے شک خداوند متعال کی بارگاہ میں بہترین و برترین عمل [امام زمانہ (ع)] کے فَرَج [و فراخی کے ایام] کا انتظار ہے.حضرت امیر علیہ السلام نے انتظار کی فضیلت بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا: جو شخص ہمارے امر [امام زمانہ (ع) کے فَرَج] کا انتظار کرے گا، اس مجاہد کی مانند ہوگا جو راہ حق میں اپنے خون میں رنگا ہؤا ہو [یعنی اس کا اجر شہید کے برابر ہوگا].
(الخصال، ج 2ص 740حدیث اربعمأة، ط انتشارات علمیه اسلامیه.)


غیبت امام زمان عج کے اسباب و علل
17۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "لابد للغلام من غیبۃ فقیل لہ ولم یا رسول اللہ ؐ قال یخاف القتل "
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "اس جوان کے لئے غیبت ضروری ہے سوال کیا گیا یا رسول اللہ ﷺکس لئے ؟ فرمایا قتل کے خوف سے (کہ ظالم و جابر لوگ اس آخری حجت کو بھی شہید نہ کر دے) ۔”
(بحارالانوار، ج 52، ص 90)


18۔ الإمامُ الصّادقُ ع وقد سُئلَ عن علّةِ الغَيبةِ: لِأمرٍ لَم يُؤذنْ لنا في كَشفِهِ لكُم ۔ قلتُ عبدالله بن الفضل : فما وجْهُ الحِكمةِ في غَيبتهِ ؟ قال : وجْهُ الحِكمةِ في غَيبتهِ وجهُ الحكمةِ في غَيباتِ مَن تقدّمَهُ مِن حُجَجِ الله تعالى ذِكرُهُ ، إنّ وجهَ الحكمةِ في ذلكَ لا يَنكشِفُ إلاّ بعدَ ظهورِهِ ۔۔۔ إنّ هذا الأمرَ أمرٌ مِن (أمرِ) الله تعالى ، وسِرٌّ مِن سرِّ الله ، وغيبٌ مِن غَيبِ الله ،ومتى عَلِمنَا أَنّهُ عز و جل حكيمٌ صدّقْنا بأنّ أفعالَهُ كلَّها حِكمةٌ ،وإنْ كانَ وجهُها غيرَ مُنكَشِفٍ "
حضرت امام جعفر صادق سے قائم آل محمد کی غیبت کا سبب پوچھا گیا آپ نے فرمایا اس کا سبب ایک ایسا امر ہے جس کو تمہارے لئے بیان کرنے کی ہمیں اجازت نہیں ہے ۔راوی عبد اللہ بن مضل ہاشمی نے پوچھا تو پھر ان کی غیبت میں حکمت کیا ہے فرمایا وہی جو اس سے پہلے خدا کی حجتوں کی غیبت کی وجوہات ہیں البتہ قائم آل محمد کی غیبت کی حکمت ان کے ظہور کے بعد واضح ہو گی یہ بات امور خدائی میں سے ایک ہے اسرار الہی میں سے ایک رازہے اور خدائی غیبوں میں سے ایک غیب ہے جب ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ خدا وند تبارک و تعالی حکیم ہے تو ہم کو اس بار کی بھی تصدیق کرنا پڑے گی کہ اس کے تمام کے تمام افعال حکمت پر مبنی ہیں خواہ اس کے اسباب ہم پر وواضح نہ بھی ہوں۔
(منتخب المیزان ج 1 ص 159, (كمال الدين : ۴۸۲ / ۱۱)


19۔ قال امیر المومنین علی علیہ السلام: "اِنّ القائم منّا اذا قام لم یكن لاحد فى عنقه بیعة فلذلك تخفى ولادته و یغیب شخصه.”
امام علی ع فرماتے ہیں: بتحقیق ہمارے قائم جب قیام کریں گے تو کسی کی بیعت ان کی گردن پر نہ ہوگی؛ اسی وجہ سے ان کی ولادت مخفی ہوگی اور خود بھی لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجائیں گے.
(بحار الانوار، ج 51ص 109و 110ح 1)


20۔ عن ابی عبد اللہ قال: ان اميرالمؤمنين عليه السلام قال عَلى منبر الكوفة…: واعلموا ان الارض لا تخلو من حجة للّه و لكن اللّه سيعمى خلقه منها بظلمهم و جورهم و اسرافهم على انفسهم”
مفضل‏بن عمر نے امام صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: ایک روز امیرالمؤمنین (ع) نے مسجد کوفہ کے منبر پر رونق افروز ہوکر فرمایا: … لوگو! جان لو کہ زمین کبھی بھی حجت خدا (امام معصوم) سے خالی نہ رہےگی؛ لیکن خداوند متعال بہت جلد لوگوں کو ظلم و ستم اور اپنے اوپر اسراف کی وجہ سے اپنی حجت کے دیدار سے محروم فرمائے گا. [یعنی لوگ اپنے ہی اعمال کی وجہ سے مستقبل میں امام معصوم (ع) کی ملاقات سے محروم ہوجائیں گے].
( بحار الانوار، ج 51ص 112و 113ح 8)


امام زمان عج لوگوں کو کس طرح فائدہ پہنچاتے ہیں؟
21۔ قال سلیمان: فقلت للصادق ـ علیه السّلام ـ : فكیف ینتفع الناس بالحجه الغائب المستور؟ قال: كما ینتفعون بالشمس اذا سترها السحاب۔”
سلیمان کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السّلام سے عرض کیا: لوگون کی نظروں سے اوجھل غائب حجت سے کیسے فیض اٹھائیں گے؟۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: بالکل اسی طرح جس طرح وہ بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج کی روشنی سے استفادہ کرتے ہیں۔
(بحارالانوار، ج 52، ص 92 )


22۔ عن الإمامُ المهديُّ ع: أمّا وَجهُ الانْتِفاعِ بي في غَيبَتي فكالانْتِفاعِ بالشَّمسِ إذا غَيَّبها عَنِ الأبصارِ السَّحابُ ، وإنّي لَأمانٌ لأهلِ الأرضِ كما أنّ النُّجومَ أمانٌ لأهلِ السَّماءِ”
امام مہدی ع خود فرماتے ہیں:رہا میری غیبت کے زمانے میں مجھ سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ تو وہ ایسے ہے جیسے بادلوں کی اوٹ میں آنکھوں سے اوجھل سورج سے فائدہ اٹھایا جاتاہے۔اور میں زمین والوں کے لئے اسی طرح امان ہوں جس طرح آسمان والوں کے لئے ستارے امان ہوتے ہیں۔
(بحارالانوار : ۵۲ / ۹۲ / ۷ )


اصحاب امام مہدی عج
23۔ قال اميرالمؤمنين عليه السلام: …ثم اذا قام تجتمع اليه اصحابه على عدّة اهل بدر و اصحاب طالوت و هم ثلثمأة و ثلاثة عشر رجلا، كلّهم ليوث قد خرجوا من غاباتهم مثل زبر الحديد لو انّهم همّوا بازالة الجبال الرّواسى لازالوها عن مواضعها فهم الذين وحّدوا اللّه به حق توحيده، لهم بالليل اصوات كاصوات الثواكل خوفا من خشية اللّه تعالى، قوّام الليل، صوّام النهار، و كانّما ربّاهم أبٌ واحدةٌ قلوبهم مجتمعة بالمحبة و النصيحة.”
امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں: … پھر جب وہ قیام کریں تو ان کے اصحاب ان کے گرد جمع ہونگے اوران کی تعداد اصحاب بدر اور اصحاب طالوت جتنی اور 313 ہوگی.وہ سب اپنی کمینگاہوں سے نکلے ہوئے شیروں کی مانند ہیں؛لوہے کے ٹکڑوں کی مانند،اگر وہ سخت اور مضبوط پہاڑوں کو کو اکھاڑنے کا ارادہ کریں تو یقیناً انہیں اکھاڑ دیں گے.پس یہی وہ لوگ ہیں جو مہدی (ع) کے ذریعے خدا کی یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں اوریکتا پرستی کا حق ادا کرتے ہیں؛راتوں کو ان کی صدائیں ان عورتوں کی مانند ہیں جن کا جوان فرزند مرگیا ہو، خشیت الٰہی سے بلند ہوتی ہیں۔ وہ رات کو قیام کرنے والے (رات میں عبادت بجا لانے والے) اوردن کو روزہ رکھنے والے ہونگے ؛گویا ایک باپ نےان کی پرورش کی ہو؛محبت اور نصیحت و خیرخواہی کے سلسلے میں ان کے دل ایک اور متحد ہونگے۔
(نوائب الدھور فی علائم الظہور ج 2 ص 114)


ظہور امام زمان عج کے بعد کے احوال:
24۔ قال رسولُ الله (ص) : "يَخرُجُ في آخرِ اُمّتي المَهديُّ ، يَسْقيهِ اللهُ الغَيْثَ ، وتُخرِجُ الأرضُ نَباتَها ، ويُعطى المالُ صِحاحا ، وتَكْثُرُ الماشِيَةُ ، وتَعْظُمُ الاُمّهُ.”
رسول اللہ (ص) نے فرمایا :”میری امت کے آخری(زمانہ)میں حضرت مہدی ع ظاہر ہوں گے جنہیں خداوندعالم بارش سے سیراب کرے گا اور زمین اپنی نباتات کو کماحقہٗ ظاہر کردے گی۔وہ صحیح طور پر مال عطا کریں گے، مال مویشی بکثرت ہوں گے اور امت عظیم ہوگی۔”
(كنز العمّال :ح: ۳۸۷۰۰)


25۔ قال على علیه السلام: …لو قد قام قائمنا لَذَهبَتِ الشحناء من قلوب العباد و اصطلحتْ السباع و البهائم حتى تمشى المرأة بین العراق الى الشام… على رأسها زینتها لا یهیجُها سبعٌ و لا تخافه۔”
امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں: … جب ہمارے قائم قیام کریں گے،بغض و کینہ بندگان خدا کے قلوب سے چلتا بنے گا، حتی وحشی حیوانات اور درندے بھی ایک دوسری کے ساتھ سازگار ہوں گے؛امن و امان کا حال یہ ہوگا کہ ایک اکیلی عورت عراق سے شام کا سفر اختیار کرسکے گی؛ جس کے سر پر اس کا زیورات اور اسباب زینت ہونگے مگر وہ کسی قسم کے خوف و ہراس کا سامنا نہیں کرے گی.
(بشارۃ الاسلام ص 236)


26۔ قال امیر المومنین علیہ السلام: يعطف الهوى على الهدى اذا عطفوا الهُدى على الهوى و يعْطِفُ الرأىَ على القرآنِ اذا عطفوا القرآنَ على الرّأىِ … فَيريكُمْ كيف عدلُ السيرةِ، و يحيىِ مَيتَ الكتابِ و السّنةِ.”
[امام زمانہ (ع) جب ظہور کریں گے]نفسانی خواہشات کو ہدایت اور رستگاری کی طرف لوٹائیں گے ـ جب لوگ ہدایت الہی اور تقوی و پارسائی کو نفسانی خواہشات کی پیروی میں تبدیل کرچکے ہونگے ـلوگوں کے آراء و افکار کو قرآن کے تابع کردیں گے ـ جبکہ لوگ قرآن کو اپنے آراء و افکار کا تابع بنا چکے ہونگے ـ‌ وہ تمہیں دکھا دیں گے کہ مملکت داری اور حکمرانی میں عدل کس طرح لاگو ہوتا ہے؟ اسی طرح
قرآن و سنت کے فراموش ہونے والی تعلیمات کو زندہ کریں گے.
(نہج البلاغہ خطبہ نمبر 134)


27۔ قال الإمامُ زينُ العابدينَ ع: "إذا قامَ قائمُنا أذْهَبَ اللهُ عن شِيعتِنا العاهَةَ ، وجَعلَ قلوبَهُم كَزُبَرِ الحديدِ ، وجَعلَ قُوّةَ الرّجُلِ مِنهُم قُوّةَ أربَعينَ رجُلاً ، ويكونونَ حُكّامَ الأرضِ وسَنامَها۔”
امام زین العابدین ع نے فرمایا:جب ہمارا قائم ظہور فرمائے گا تو خداوندعالم ہمارے شیعوں سے آفات کو دور کردے گا،ان کے دلوں کو فولاد کے ٹکڑوں کی مانند مضبوط بنادے گا،ان میں سے ہر ایک کی طاقت کو چالیس آدمیوں کے برابر فرمادے گااور وہ اس وقت زمین کے حکمرانوں اور سرکردہ افراد میں ہونگے۔
(مشكاة الأنوار : ۷۹ )


 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button