شیعہ اثنا عشری عقائد کا مختصر تعارف

عصر حاضر میں شیعہ اثنا عشری فرقہ مسلمانوں کاایک بڑافرقہ ہے ، جس کی کل تعداد مسلمانوں کے تقریباً ایک چوتھائی ہے ۔ اور اس فرقہ کی تاریخی جڑیں صدر اسلام کے اس دن سے شروع ہوتی ہیں جس دن سورہ بینہ کی یہ آیت نازل ہوئی تھی: [1]
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وہی بہترین مخلوق ہیں۔
چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ھاتھ علی کے شانہ پر رکھا اس وقت اصحاب بھی وہاں موجود تھے، اور آپ نے فرمایا : ” یٰا عَلِیُّ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ همْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ “؛ اے علی! آپ اور آپ کے شیعہ بہترین مخلوق ہیں ۔ تفسیر طبری ( جامع البیان )
اسی وجہ سے یہ فرقہ ، جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی فقہ میں ان کا پیرو ہونے کی بنا پر ان کی طرف منسوب ہے، شیعہ فرقہ کے نام سے مشہورہوا ۔
شیعوں کا محل سکونت
شیعہ فرقہ کثیر تعداد میں ایران ، عراق ، پاکستان اور ہندوستان میں زندگی بسرکرتاہے، اسی طرح اس کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک، ترکی، سوریا (شام )، لبنان، روس اور اس سے جدا ہونے والے جدید ممالک میں موجود ہے، نیز یہ فرقہ یورپی ممالک جیسے انگلینڈ ، جرمن، فرانس اور امریکہ، اسی طرح افریقی ممالک، اور مشرقی ایشیا میں بھی پھیلا ہوا ہے، ان مقامات پر ان کی اپنی مسجدیں اور علمی، ثقافتی اور سماجی مراکز بھی ہیں ۔
شیعوں کی ساخت و ساز
اس فرقہ کے افراد اگرچہ مختلف ممالک،قوموں اور متعدد رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ بڑے پیار و محبت سے رہتے ہیں، اور تمام آسان یا مشکل میدانوں میں سچے دل ا ور اخلاص کے ساتھ ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں،ا ور یہ سب اس فرمان خدا پر عمل کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں: [2]مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں“۔
شیعوں کااسلامی خدمات کا علمبردار ہونا
پوری تاریخ اسلام میں دین خدا اور ملت اسلامیہ کے دفاع کے سلسلہ میں اس فرقہ کا ایک اہم اورواضح کردار رہا ہے، جیسے اس کی حکومتوں اور ریاستوں نے اسلامی ثقافت اور تمدن کی ہمیشہ خدمت کی ہے، نیز اس فرقہ کے علماء اور دانشوروں نے اسلامی میراث کو غنی بنانے اور بچانے کے سلسلے میں مختلف علمی اور تجربی میدانوں میں جیسے تفسیر، حدیث، عقائد، فقہ، اصول، اخلاق، درایہ، رجال، فلسفہ، موعظہ، حکومت،سماجیاتت، زبان و ادب،بلکہ طب اورفیزیکس کیمیا، ریاضیات، نجوم،اوراس کے علاوہ متعددحیاتیاتی علوم کے بارے میں لاکھوں کتابیں تحریر کرکے اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، بلکہ بہت سے علوم کے موجد دانشور تو اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں.[3]
شیعوں کاعقیدہ توحید
شیعہ فرقہ معتقد ہے کہ خدااحدو صمد ہے، اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد، اور نہ اس کا کوئی کفو ہے اور نہ ہمسر ، اور اس سے جسمانیت، مکان، زمان، جہت، تغیر ، حرکت، صعود و نزول وغیرہ جیسی صفات جو اس کی صفات کمال وجمال و جلال کے شایان شان نہیں ہیں،ان کی نفی کرتا ہے۔ اور شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خالق حقیقی کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور حکم اور تشریع (شریعت کاقانون بنانا ) صرف اسی کا کام ہے، اور ہر طرح کا شرک چاہے وہ خفی ہو یا جلی ایک عظیم ظلم اور ناقابل بخشش گناہ ہے۔
اورشیعوں نے یہ عقائد،عقل محکم (سالم) سے اخذ کئے ہیں، جن کی تائید و تصدیق کتاب خدا اور سنت شریفہ سے بھی ہوتی ہے
اور شیعوں نے اپنے عقائد کے میدان میں ان احادیث پر تکیہ نہیں کیا ہے جن میں اسرائیلیات (جعلی توریت اور انجیل) اور مجوسیت کی گڑھی ہوئی باتوں کی آمیزش ہے، جنہوں نے اللہ کو بشر کے مانند ماناہے، اوروہ اس کی تشبیہ مخلوق سے دیتے ہیں، یا پھر اس کی طرف ظلم و جور، اور لغو و بیہودہ جیسے کاموں کی نسبت دیتے ہیں ،حالانکہ اللہ کی ذات اقدس ان تمام باتوں سے بالکل پاک و پاکیزہ ہے۔
شیعوں کا عقیدہ عدل الٰہی
شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا عادل اور حکیم ہے ،اور اس نے عدل و حکمت سے خلق کیا ، چاہے وہ انسان ہو یا حیوان،جماد ات ہوںیا نباتات، زمین ہو یاآسمان ، اس نے کوئی شے عبث خلق نہیں کی ہے،کیونکہ عبث (فضول یا بیکار ہونا) نہ صرف اس کے عدل و حکمت کے مخالف ہے بلکہ اس کی اس الوہویت کے بھی مخالف ہے جس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند متعال کے لئے تمام کمالات کا اثبات کیا جائے ، اور اس سے ہر قسم کے نقص کی نفی کی جائے ۔
شیعوں کاعقیدہ نبوت
شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا وند متعال نے عدل و حکمت کے ساتھ ابتدائے خلقت سے ہی اس کی طرف انبیاء و مرسلین کو معصوم بنا کر بھیجا ، اور پھر انہیں وسیع علم سے آراستہ کیاجو وحی کے ذریعہ اللہ کی جانب سے انہیں عطا کیا گیا ،اور یہ سب کچھ نوع بشر کی ھدایت اور اسے اس کے گمشدہ کمال تک پہنچانے کیلئے تھا تاکہ اس کے ذریعہ اسے ایسی اطاعت کی طرف بھی راہنمائی ھوجائے جو اسے جنتی بنانے کے ساتھ ساتھ پروردگار کی خوشنودی اور اس کی رحمت کا مستحق قراردے۔
شیعوں کاعقیدہ اطاعت الٰہی اور نتائج
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ جو شخص اللہ کی اطاعت کرے ، اس کے احکام کو نافذ کرے ، اور زندگی کے ہر شعبہ میں اس کے قوانین پر عمل کرے وہ نجات یافتہ اور کامیاب ہے ، اور وہی مستحق مدح و ثواب ہے ، اور جس نے خدا کی نافرمانی کی ، وہ مستحق مذمت اور ھلاک ہونے اور گھاٹاا ٹھانے والوں میں سے ہے ۔
شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ثواب و عقاب ملنے کی جگہ روز قیامت ہے جس دن حساب و کتاب ، میزان اور جنت و دوزخ سب کے سامنے ہوں گی، اور یہ مرحلہ برزخ اور عالم قبر کے بعد ہوگا ۔
شیعوں کاعقیدہ خاتمیت اور امتیازات
شیعہ عقیدہ رکھتےہیں کہ انبیاء ومرسلین کی آخری فرد اور ان سب سے افضل نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہیں[4] جنہیں خداوند متعال نے ہر خطا اور لغزش سے محفوظ رکھا اور ہر گناہ صغیرہ و کبیرہ سے معصوم قرار دیا چاہے وہ قبل بعثت ہویا بعد بعثت ،چاہے تبلیغ کا مرحلہ ہو یاتبلیغ کے علاوہ کوئی اور کام ہو ،اور ان پر قرآن کریم نازل کیا ، تاکہ وہ حیات بشری کیلئے ایک دائمی دستور العمل قرار پائے ، پس رسول اسلام نے رسالت کی تبلیغ کی اور صداقت و اخلاص کے ساتھ لوگوں تک امانت کو پہنچا دیا ۔
شیعوں کے عقیدہ امامت کی بنیاد
شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب حضرت محمد مصطفی کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آ پ نے حضرت علیؑ کو تمام مسلمانوں کی رہبری کیلئے اپنا خلیفہ اور لوگوں کے لئے امام منصوب کیا ، تاکہ امام علی (ع)ان کی سیاسی قیادت اورفکری راہنمائی اور ان کی مشکلوں کو حل کریں ، نیزان کے نفوس کا تزکیہ اور ان کی تربیت کریں،اور یہ سب خدا کے حکم سے مقام غدیر خم میں رسول خدا کی حیات کے آخری حج کے بعد،ان مسلمان حاجیوں کے جم غفیر کے درمیان انجام پایاجو آپ کے ساتھ حج کرکے واپس آرھے تھے ، جن کی تعداد بعض روایات ایک لاکھ بتاتی ہيں ، اور اس مناسبت سے متعدد آیتیں نازل ہوئیں ۔
اس کے بعد آنخضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ؑکے ہاتھوں پر لوگوں سے بیعت طلب کی، چنانچہ تمام لوگوں نےامام علی کی بیعت کی اور ان بیعت کرنے والوں میں سب سے آگے مھاجرین و انصار کے بزرگ اور مشہور صحابہ تھے، مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: کتاب” الغدیر“جس میں علامہ امینی نے مسلمانوں کے تفسیری اور تاریخی منابع و مآخذ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
شیعوں کاعقیدہ وظائف امامت
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدامام کی ذمہ داری وہی ہے جو نبی کی ہوتی ہے جیسے امت کی قیادت و ہدایت ، تعلیم و تربیت ، احکام کی وضاحت اوران کی سخت فکری مشکلات کا حل کرنا ، نیز سماجی اہم امور کا حل کرنا،لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امام اور خلیفہ ایسا ہونا چاہئے کہ لو گ اس پر بھروسہ اور اعتبار کرتے ہوں ، تاکہ وہ امت کو امن و امان کے ساحل تک پہنچا سکے ، پس امام تمام صلاحیتوں اور صفات میں نبی جیسا ہونا چاہئے، (جیسے عصمت اور وسیع علم) کیونکہ وحی اور نبوت کے علاوہ امام کے فرائض بھی نبی کی طرح ہوتے ہیں، کیونکہ حضرت محمد بن عبداللہ (ص)پر نبوت ختم ہوگئی، آپ ہی خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں ، نیز آپ کا دین خاتم الادیان ، اور آپ کی شریعت خاتم الشرائع اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ہے ، شیعوں کے پاس اس سلسلہ میں بھی متعدداور متنوع ضخیم اور فکری واستدلالی کتابیں موجود ہیں۔
شیعوں کے بارہ امام ہونے کے اعتقاد کی حکمت
شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفی (ص)نے اسی سبب اور اسی بلند حکمت کی بنا پر اللہ کے حکم کی بنا پر امام علیؑ کے بعد گیارہ امام معین فرمائے،لہٰذا حضرت امام علی کو ملاکر کل بارہ امام ہیں ، جیساکہ ان کی تعداد کے بارے میں نبی اکرم کی حدیثوں میں اشارہ ہے کہ ان سب کا تعلق قبیلہ قریش سے ہوگا،جیساکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مختلف الفاظ کے ساتھ اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،البتہ ان کے اسماء اور خصوصیات کا تذکرہ نہیں ہے۔
”…عن رسول اللّٰه (ص)؛ان الدین لایزال ماضیاً، قائماً، عزیزاً،منیعاًماکان فیهم اثناعشرامیراًاوخلیفةً،کلهم من قریش“
بخاری اور مسلم دونوں نے رسول خدا سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : بیشک دین اسلام اس وقت تک غالب، قائم اور مضبوط رہے گا جب تک اس میں بارہ امیر یا بارہ خلیفہ رہیں گے ، یہ سب قریش سےہوں گے۔
( بعض نسخوں میں بنی ہاشم بھی آیا ہے ،اور صحاح ستہ کے علاوہ دوسری کتب فضائل و مناقب و شعر و ادب میں ان حضرات کے اسماء بھی مذکور ہیں)
یہ احادیث اگر چہ ائمہ اثنا عشر( جوکہ علی علیہ السلام اوران کی گیارہ اولاد علیہم السلام ہیں ) کے بارے میں نص نہیں ہیں لیکن یہ تعداد شیعوں کے عقیدہ پر منطبق ہوتی ہے ،اور اس کی کوئی تفسیر نہیں ہوسکتی مگر صرف وہی جو شیعہ کہتے ہیں ، ( خلفاء النبی، موٴلفہ حائری بحرانی )
شیعوں کے بارہ اماموں کے اسمائے گرامی
شیعوں کا جعفری فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ائمہ اثنا عشر( بارہ اماموں) سے مراد حضرت علی ابن ابیطالب(ع) جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کی بیٹی فاطمہ زہرا (ع)کے شوہر ہیں۔
اور امام حسن ؑاورامام حسینؑ ہیں( جوامام علی و فاطمہ علیہما السلام کے بیٹے اورسبط رسول اسلام ہیں)
امام زین العابدین علی بن الحسینؑ (السجاد)۔
ان کے بعد :
امام محمد بن علیؑ ( الباقر)
امام جعفربن محمدؑ (الصادق)
امام موسی بن جعفرؑ(الکاظم)
امام علی بن موسیؑ(الرضا)
امام محمدبن علیؑ (الجواد التقی)
امام علی بن محمدؑ (الھادی)
امام حسن بن علیؑ( العسکری)
امام محمد بن الحسنؑ ( المھدی الموعود المنتظر) ہیں۔
یہی وہ اہل بیت(ع) ہیں جنھیں رسول خدا نے بحکم خدا، امت اسلام کاقائد قرار دیا،کیونکہ یہ حضرات تمام خطاوٴں اور گناہوں سے پاک اور معصوم ہیں ، یھی حضرات اپنے جدکے وسیع علم کے وارث ہیں، ان کی مودت اورپیروی کا حکم دیا گیاہے ، جیساکہ خدا نے ارشاد فرمایا :[5]اے رسول !آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو “۔
یٰااَیُّهاالَّذِیْنَ آمَنُوْااتَّقُوْااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ [6]اے ایماندارو! تقوی اختیار کروا ور سچوں کے ساتھ ہوجاوٴ “۔
(دیکھیے : کتب حدیث و تفسیر، اور فضائل میں فریقین کے نزدیک جو صحیح اوردوسری کتابیں ہیں)
شیعوں کاعقیدہ عصمت ائمہ اور اس کے آثار
شیعہ جعفری فرقہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ ائمہ اطھار وہ ہیں جن کے دامن پر تاریخ نہ کوئی لغزش لکھ سکی اور نہ کسی خطا کو ثابت کر پائی ، نہ قول میں اور نہ عمل میں، انہوں نے اپنے وافر علوم کے ذریعہ امت مسلمہ کی خدمت کی ہے ، اور اپنی عمیق معرفت، سالم اور عمیق فکر کے ذریعہ ،عقیدہ و شریعت ، اخلاق و آداب ، تفسیرو تاریخ اور مستقبل کے لائحہ عمل کو صحیح جہت عطا کی ہے ، اور ہر میدان میں اسلامی ثقافت کو محفوظ کردیا ہے جیسے انہوں نے اپنے قول اور عمل کے ذریعہ، چندایسے منفردا ور ممتاز ، نیک سیرت اورپاک کردارمردوںاور عورتوں کی تربیت کی ہے ، جن کے فضل و علم ، اور حسن سیرت کے سبھی قائل ہیں۔
اور شیعہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگرچہ ( یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ ) امت اسلامیہ نے ان کو سیاسی قیادت سے دور رکھا، لیکن انہوں نے پھر بھی عقائد کے اصول اور شریعت کے قواعد و احکام کی حفاظت کرکے اپنی فکری اور اجتماعی ذمہ داری بہترین طور سے ادا کی ہے ۔
چنانچہ ملت مسلمہ اگر انہیں سیاسی قیادت کا موقع دیتی جسے رسول اسلام نے خدا کے حکم سے ان کو سونپا تھا ، تو یقیناً اسلامی امت سعادت و عزت اور مکمل عظمت حاصل کرتی،اور یہ امت متحد و متفق اور یگانہ رہتی،اور کسی طرح کا شقاق ، اختلاف ، نزاع ، لڑائی، جھگڑا ، قتل و غارت اور ذلت و رسوائی نہ دیکھنا پڑتی ۔[7]
شیعوں کے عقیدہ مہدویت کے اسباب
جعفری شیعہ،امام مہدی منتظرعلیہ السلام کے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ،کیونکہ اس بارے میں رسول اسلامسے کثیر روایات نقل ہوئی ہیں کہ وہ اولاد فاطمہ سے ہوں گے، اور امام حسین (ع)کے نویں فرزند، کیونکہ امام حسینؑ کے آٹھویں فرزند (آٹھویں پشت سے) امام حسن عسکریؑ ہیں جن کی وفات ۲۶۰ھ میں ہوئی، اور آپ کو خدا نے صرف ایک بیٹا عنایت کیا تھا جس کا نام( محمد) تھا چنانچہ آپ ہی امام مہدی علیہ السلام ہیں جن کی کنیت ابو القاسم ہے۔[8]
والحمد للّٰہ رب العالمین
————
منابع
[1] آیت نمبر ۷.
[2] سورہ حجرات،آیت۱۰.
[3] ۔(دیکھیے: سیدحسن صدر کی کتاب تاسیس الشیعة لعلوم الاسلام)
[4] شیعہ امامیہ اس بات کے پابند ہیں کہ جب پیغمبر(ص) کا ذکر ہوتو درود و سلام کے وقت ان کی آل کا بھی ذکر کرتے ہیں، چونکہ اس بات کا حکم پیغمبرنے دیا ہے جیسا کہ بعض صحاح ستہ اور دوسری کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔
[5] سورہ ٴشوری ، آیت ۲۳
[6] سورہ ٴتوبہ ، آیت ۱۱۹
[7] اس سلسلہ میں دیکھیے: اسد حیدر صاحب کی کتاب ”الامام الصادق والمذاهبالاربعة “ )
[8] صحاح اور ان کے علاوہ فریقین کی دوسری کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی اکرم(ص) نے فرمایا: ”سیظهرفی آخرالزمان رجل من ذریتی اسمه اسمی، وکنیته کنیتی،یملاٴ الارض عدلاًوقسطاً کماملئت ظلماًوجوراً“ ۔
https://erfan.ir/urdu/81908.html

