احکامجدید فقہی احکام

 انشورنس (بیمہ) کا معاہدہ

انشورنس کےمعاہدوں کےمطابق انشورنس کرنے والا، ماہانہ، سالانہ یا ایک مشت ایک رقم بیمہ کرنے والی کمپنی کو دینے کاپابند ہوتا ہے جس کے عوض انشورنس کرنے والی کمپنی انشورنس لینےوالے یا تیسرے شخص کو انشورنس کی شرائط کے مطابق وعدہ کرتی ہے کہ ایک خاص رقم یا دوسرے مالی معاوضات،حادثہ ہونے کی صورت میں یا وہ نقصانات جو انشورنس میں واضح طور پر مندرج ہیں ادا کرے گی۔

مسئلہ (۲۸۲۸)انشورنس کی مختلف قسمیں ہیں من جملہ:
(۱) لوگوں کا انشورنس موت کے مقابل میں ، بیماری یا دوسرے حادثات۔

(۲) سرمایہ کا انشورنس جیسے گاڑیاں ، ہوائی جہاز ،کشتی میں آگ لگنے کے خطرات کے مقابل ، ڈوبنے ،چوری وغیرہ وغیرہ۔انشورنس کی ایک اور رقم ہے جس کا شرعی حکم دوسرے مذکورہ مقامات سے الگ نہیں ہے اس لئے ان کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۸۲۹)انشورنس کے معاہدہ کے کئی ارکان ہیں :
( ۱۔۲ )ایجاب وقبول جو انشورنس حاصل کرنےوالے افراد اور کمپنی کے درمیان ہوتا ہے جس میں معاملات سے متعلق گفتگو ، دستاویز اور اسی طرح کی دوسری چیزیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں ، کافی ہے۔
(۳) انشورنس سے متعلق چیزوں کا معین ہونا خواہ افراد ہوں یامال ہو۔
(۴)انشورنس شروع کرنے اور ختم ہونے کا وقت۔

مسئلہ (۲۸۳۰)انشورنس کے معاہدہ میں خطرات کے اسباب و نقصانات جیسے آگ لگنا، چوری ،ڈوبنا ، بیماری موت وغیرہ اور اسی طرح ماہانہ یا سالانہ انشورنس کی قسطیں ، اس صورت میں جب قسطوں میں ادائگی ہو ضروری ہےکہ واضح ہو۔

مسئلہ (۲۸۳۱)انشورنس کے معاہدہ میں طرفین ، بالغ ، عاقل ہوں اور قصد ، اختیار رکھتے ہوں اور استعمال مال سے روکا نہ گیا ہو( بیوقوفی یا قرض میں ڈوبے ہونے وغیرہ کی وجہ سے) شرط ہے اور اس صورت میں کہ طرفین یا ان میں سے کوئی ایک ایسا ہو جو نابالغ ، دیوانہ مجبور یاجس کو روکا گیاہو، یااپنے ارادہ میں سنجیدہ نہ ہو، تو معاہدہ صحیح نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۸۳۲)انشورنس کامعاہدہ عقدلازم میں شمار ہوتا ہے اور یہ طرفین کی رضایت کے بغیر فسخ نہیں کیاجاسکتا ہے۔

البتہ اگر معاہدہ میں شرط رکھیں کہ انشورنس لینے والا یا انشورنس کی کمپنی یا دونوں معاہدہ توڑنے کا حق رکھتے ہیں تواس شرط کےمطابق معاہدہ فسخ کرناجائز ہے۔

مسئلہ (۲۸۳۳) اس صورت میں کہ انشورنس کمپنی اپنے معاہدہ کے مطابق عمل نہ کرے انشورنس لینے والا (حاکم شرع یا دوسرے سےرجوع کرکے) انشورنس کمپنی کو معاہدہ کے مطابق عمل کرنے کا پابند بناسکتا ہے اور اسی طرح معاہدہ کو فسخ بھی کرسکتا ہے اور دی گئی رقم کو انشورنس کے حق کے عنوان سے واپس لینے کامطالبہ بھی کرسکتا ہے۔

مسئلہ (۲۸۳۴)اس صورت میں کہ انشورنس کے معاہدہ میں یہ معین ہوا ہو کہ انشورنس لینے والا ایک خاص رقم کو انشورنس کےحق کے عنوان سے قسطوں میں ادا کرے اور وہ اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرے خواہ رقم کی مقدار یا وقت پر ادائگی کے لحاظ سے ہو، تو انشورنس کی کمپنی پرواجب نہیں ہےکہ اپنے معاہدہ کےمطابق معین رقم ادا کرنے میں کسی حادثہ یاخاص نقصان ہونے پر عمل کرے۔ اور انشورنس کرنے والا بھی انشورنس کے حق کو لینے کامطالبہ نہیں کرسکتا ہے۔

مسئلہ (۲۸۳۵)انشورنس میں کسی مخصوص مدت کی شرط نہیں ہے بلکہ معاہدہ طرفین کی رضایت کاتابع ہوگا۔

مسئلہ (۲۸۳۶)اگر چند لوگ اپنے اس سرمایہ سے جو مشترکہ طورپر فراہم کیا ہو، کوئی کمپنی بنائیں اور ان میں سے ہر ایک کمپنی کے معاہدہ کے ضمن میں دوسرے پر یہ شرط لگائیں کہ ان پر یا ان کے سرمایہ پر کوئی حادثہ ہونے کی صورت میں ( کہ اس کی قسم کو شرط کے ضمن میں معین کردیں ) کمپنی سرمایہ یا اس کے فائدہ سے نقصانات کی بھرپائی کرے گی جب تک کہ وہ معاہدہ باقی ہے اس شرط کے مطابق عمل کرنا واجب ہوگا۔

سرقفلی (پگڑی)
تاجروں اورکاریگروں کےدرمیان ایک معاملہ رائج ہےجسےپگڑی (یا ٹوکن منی) کہتے ہیں اور اس سےمراد یہ ہےکہ کرایہ دار نےجس جگہ کو اپنے لئے کرایہ پر لیا ہے اور جسے زیر استعمال قرار دے گا اس کے مقابل ایک خاص رقم پر آپس میں موافقت ہوتی ہے جسے وہ دوسرے فریق کو دے دیتا ہے اور یا مالک مخصوص رقم حاصل کرنے کےمقابل میں اجارہ کی مدت ختم ہوجانے کے بعد اس جگہ سےکرایہ دار کوباہر کرنے یا کرایہ بڑھانے کا اختیار نہیں رکھتا ہے۔

مسئلہ (۲۸۳۷)کسی دکان وغیرہ کو کرایہ پر لے لینے سے کرایہ دار کےلئے اس میں کوئی حق حاصل نہیں ہوتا اور وہ اجارہ کی مدت ختم ہونے کے بعد مالک کو اپنی ملکیت میں تصرف کرنے اور اسےخالی کرانے یا گذشتہ کرایہ بڑھانے میں بھی روک نہیں سکتاہے اور اس طرح کا فی مدت تک کرایہ دار کا اس جگہ میں رہنا اس کے کام کے مشہور ہوجانے کے بعد اور اس جگہ کی اہمیت بڑھ جانے اور کاروبار کے زیادہ مواقع فراہم ہوجانے میں اس میں باقی رہنے کا کوئی حق نہیں بن جاتا۔ او رکرایہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کے لئے واجب ہےکہ اس جگہ کو خالی کرکے اس کے مالک کے حوالے کردے۔

اور اس صورت میں کہ کرایہ دار کسی سرکاری قانون ( جو مالک کو اس جگہ سے کرایہ دار کو زبردستی خالی کرانے یا کرایہ کی رقم بڑھانے کو منع کرتا ہے) سے استفادہ کرتے ہوئے اس جگہ کے خالی کرنے یا کرایہ میں اضافہ کرنے سے منع کرے تو اس کا یہ کام حرام ہے اوراس جگہ کو مالک کی اجازت کےبغیر استعمال کرنا غصبی ہے اور اگر اس جگہ کےخالی کرنے کےلئے کوئی رقم لے تو حرام ہے۔

مسئلہ (۲۸۳۸)اگر مالک کسی جگہ کو مثلاً ایک سال کےلئے دس ہزار روپیہ کرایہ پردے اور اس کے علاوہ پچاس ہزار کی رقم اس سے لے لے اور معاہدہ کے ضمن میں شرط رکھے کہ سالانہ اسی رقم کے ذریعہ بغیر کسی اضافہ کے اس کے کرایہ کے معاہدہ کو تجدید کرے گا اور یا اسی رقم پر دوسرے شخص کو اس جگہ پر رہنے کےلئے کرایہ پر دے گا اور اس طرح تیسرے کرایہ دار وغیرہ کو بھی اس صورت میں کہ کرایہ دار نے جس رقم کو لیا ہے اس کے مقابل میں مساوی رقم یا زیادہ یا اس سےکم جوکچھ مالک کو بطور نقد اداکیا ہے اس حق کے رضایت کے مطابق جواس طرح کی شرط سے حاصل کیا ہے دوسرے کو دے دے گا۔

مسئلہ (۲۸۳۹)اگر مالک کسی جگہ کو ایک معین مدت کےلئے کسی شخص کو کرایہ پر دے اور معاہدہ کے ضمن میں اپنے اوپر یہ شرط رکھے ( اس رقم کے مقابل یا اس کے بغیر) کہ مدت ختم ہونے کے بعد اس کے کرایہ کو اس رقم پر جس پر پہلے سال موافقت ہوئی ہے یا عام عرفی اعتبار سے ہر سال تجدید کرے گا اور کسی وجہ سے دوسرا شخص اس کرایہ دار کوکوئی رقم دے تاکہ وہ اس کرایہ کی جگہ کو خالی کردے ( اس شکل میں کہ پھر اس جگہ رہنے کاحق نہ رہے اور مالک جگہ کے خالی ہوجانے کے بعد جس طرح چاہے اس جگہ کو کرایہ پردے) اس صورت میں کرایہ دار کے لئے جائز ہے کہ وہ اس معاہدہ کی رقم کو لے لے اور یہ پگڑی صرف جگہ کو خالی کرنے کےلئے ہوگی نایہ کہ اس کرایہ دار کی طرف سے دوسرے شخص کو تصرف کا حق منتقل کرنے کے مقابل قرار پائے گی۔

مسئلہ (۲۸۴۰)مالک پر واجب ہےکہ اس نے معاہدہ کے ضمن میں اپنے اوپر جن شرطوں کو قرار دیا ہے ان پر عمل کرے لہٰذا مسئلہ نمبر(۲۸۳۸) کے اعتبار سے مالک پر واجب ہےکہ کرایہ دار یا اس شخص کو جس کے فائدہ کےلئے وہ کرایہ دار ہٹ گیا ہے ،کرایہ کی رقم بڑھائے بغیر اس جگہ کو کرایہ پر دے دے اسی طرح مسئلہ (۲۸۳۹) کے مطابق مالک پر واجب ہےکہ اجارہ کی مدت کو جب تک کرایہ دار اس جگہ پر اپنے رہنے کا خواہش مند ہے اس وقت تک گذشتہ اجارہ کی رقم کے مطابق یا جو عرف میں رائج ہو ( جس طرح بھی شرط قرار دی گئی ہو) تجدید کرے۔

اس صورت میں کہ مالک اپنے شرط کے مطابق عمل نہ کرے او رکرایہ کے معاہدہ کی تجدید نہ کرے توکرایہ دار کےلئے (حاکم شرع یا دوسرے کسی سے رجوع ہو کر) اسے شرط کے مطابق عمل کرنے کےلئے پابند بناسکتاہے لیکن اگر کسی بھی وجہ سے اسے شرط کے مطابق عمل کرنے سے پابند نہ بناسکے تو مالک کی رضایت کے بغیر کرایہ کی جگہ کا استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔

مسئلہ (۲۸۴۱)جو صورتیں مسئلہ (۲۸۳۸) اور( ۲۸۳۹) میں فرض کی گئی ہیں اگر ان میں سودے میں طےشدہ شرط( شرط بطور نتیجہ ہو)۔نا کہ شرط بطور فعل ہو یعنی شرط برائے تجدید معاہدہ( ہمارے بیان کردہ فرض کے مطابق)ہو وہ اس طرح کہ کرایہ دار مالک سے شرط کرے کہ وہ یا جسے وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ معین کرے اس جگہ پر تصرف کا حق اور اس جگہ سے فائدہ اٹھانے کاحق رکھتا ہے جو ہر سال معین رقم ادا کرنے یا عرف میں جو ہر سال کرایہ کی قیمت ہو اس کے مقابل میں ہے۔ اس حالت میں کرایہ دار (یا وہ شخص جس کو کرایہ دار نے معین کیا ہو) اس جگہ سے فائدہ اٹھانے کا حق یہاں تک کہ مالک کی اجازت کےبغیر بھی رکھتا ہے اور مالک صرف یہ حق رکھتا ہے کہ معاہدہ میں طے پانے والی رقم کا مطالبہ کرے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button