شراکت کے احکام

مسئلہ (۲۱۵۲)دوآدمی اگرباہم طے کریں کہ اپنے مشترک مال سے تجارت کرکےجو کچھ نفع کمائیں گے اسے آپس میں تقسیم کرلیں گے اور وہ عربی یا کسی اورزبان میں شراکت کاصیغہ پڑھیں یاکوئی ایساکام کریں جس سے ظاہرہوتاہوکہ وہ ایک دوسرے کے شریک بنناچاہتے ہیں توان کی شراکت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۵۳)اگرچنداشخاص اس مزدوری میں جووہ اپنی محنت سے حاصل کرتے ہوں ایک دوسرے کے ساتھ شراکت کریں مثلاً چنددلاک(حمام میں بدن کی مالش کرنے اور میل نکالنے والے) آپس میں طے کریں کہ جواجرت حاصل ہوگی اسے آپس میں تقسیم کرلیں گے توان کی شراکت صحیح نہیں ہے۔لیکن اگرباہم طے کرلیں کہ مثلاًہرایک کی آدھی مزدوری معین مدت تک کے لئے دوسرے کی آدھی مزدوری کے بدلے میں ہوگی تومعاملہ صحیح ہے اوران میں سے ہرایک دوسرے کی مزدوری میں شریک ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۵۴)اگردواشخاص آپس میں اس طرح شراکت کریں کہ ان میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری پرجنس خریدے اوراس کی قیمت کی ادائگی کابھی خودمقروض ہو لیکن جوجنس انہوں نے خریدی ہواس کے نفع میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوں تو ایسی شراکت صحیح نہیں ، البتہ اگران میں سے ہر ایک دوسرے کواپناوکیل بنائے کہ جوکچھ وہ ادھارلے رہاہے اس میں اسے شریک کرلے یعنی جنس کو اپنے اوراپنے حصہ دارکےلئے خریدے جس کی بناپردونوں مقروض ہوجائیں تودونوں میں سے ہرایک جنس میں شریک ہو جائے گا۔
مسئلہ (۲۱۵۵)جواشخاص شراکت کے ذریعے ایک دوسرے کے شریک کاربن جائیں ان کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اورعاقل ہوں نیزیہ کہ ارادے اور اختیارکے ساتھ شراکت کریں اوریہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مال میں تصرف کرسکتے ہوں لہٰذا چونکہ سفیہ(جواپنامال احمقانہ اورفضول کاموں پرخرچ کرتاہے) اپنے مال میں تصرف کاحق نہیں رکھتااگروہ کسی کے ساتھ شراکت کرے توصحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۵۶)اگرشراکت کے معاہدے میں یہ شرط لگائی جائے کہ جوشخص کام کرے گایاجودوسرے شریک سے زیادہ کام کرے گایاجس کے کام کی دوسرے کے کام کے مقابلے میں زیادہ اہمیت ہے اسے منافع میں زیادہ حصہ ملے گاتوضروری ہے کہ جیسا طے کیاگیاہومتعلقہ شخص کواس کے مطابق دیں اوراسی طرح اگرشرط لگائی جائے کہ جو شخص کام نہیں کرے گایازیادہ کام نہیں کرے گایاجس کے کام کی دوسرے کے کام کے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں ہے اسے منافع کازیادہ حصہ ملے گاتب بھی شرط صحیح ہے اور جیساطے کیاگیاہومتعلقہ شخص کواس کے مطابق دیں ۔
مسئلہ (۲۱۵۷)اگرشرکاء طے کریں کہ سارامنافع کسی ایک شخص کاہوگایاسارا نقصان کسی ایک کوبرداشت کرناہوگاتوشراکت صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۱۵۸)اگرشرکاء یہ طے نہ کریں کہ کسی ایک شریک کوزیادہ منافع ملے گاتو اگران میں سے ہر ایک کاسرمایہ برابرہوتونفع نقصان بھی ان کے مابین برابر تقسیم ہوگا اوران کاسرمایہ برابربرابرنہ ہوتو ضروری ہے کہ نفع نقصان سرمائے کی نسبت سے تقسیم کریں مثلاًاگردوافراد شراکت کریں اورایک کا سرمایہ دوسرے کے سرمائے سے دگنا ہو تو نفع نقصان میں بھی اس کاحصہ دوسرے سے دگناہوگاخواہ دونوں ایک جتناکام کریں یا ایک تھوڑاکام کرے یابالکل کام نہ کرے۔
مسئلہ (۲۱۵۹)اگرشراکت کے معاہدے میں یہ طے کیاجائے کہ دونوں شریک مل کرخریدوفروخت کریں گے یاہرایک انفرادی طورپرلین دین کرنے کامجازہوگایاان میں سے فقط ایک شخص لین دین کرے گایاتیسرےشخص کو اجرت پرمعاملہ کےلئے قرار دےگاتوضروری ہے کہ اس معاہدے پرعمل کریں ۔
مسئلہ (۲۱۶۰)شرکت کی دو قسمیں ہیں :(۱)شرکت اذنی: اس کو کہتے ہیں جب مال تجارت کی مقدار شرکاء کے درمیان معین نہ ہو اور پہلے سے کسی کے لئے کچھ مقدار طے بھی نہ ہو۔(۲)شرکت عوضی: یعنی جب دوشریک اپنے اپنے مال شرکت کےلئے اکٹھا کریں تاکہ آخر میں ہر ایک اپنے اپنے حصہ کا نصف مال سے شریک کے نصف مال سے عوض کرلیں ۔ لہٰذا اگردونوں میں کسی ایک کا بھی معین نہ کیا ہو کہ کس مال سے خریدوفروخت ہوگی شرکت اذنی میں کوئی شریک اپنے ساتھی شریک کی اجازت کے بغیر اس مال سے تجارت نہیں کرسکتا لیکن شریک عوضی میں ہر شریک کو حق ہے کہ شرکت کی منفعت کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملہ کرسکتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۱۶۱)جوشریک شراکت کے سرمائے پراختیار رکھتاہواس کے لئے ضروری ہے کہ شراکت کے معاہدے پرعمل کرے مثلاً اگراس سے طے کیاگیاہوکہ ادھار خریدے گا یانقد بیچے گایا کسی خاص جگہ سے خریدے گاتوجومعاہدہ طے پایاہے اس کے مطابق عمل کرناضروری ہے اوراگراس کے ساتھ کچھ طے نہ ہواہوتوضروری ہے کہ معمول کے مطابق لین دین کرے تاکہ شراکت کونقصان نہ ہو۔
مسئلہ (۲۱۶۲)جوشریک شراکت کے سرمائے سے سودے کرتاہواگرجوکچھ اس کے ساتھ طے کیاگیاہو اس کے برخلاف خریدوفروخت کرے یااگرکچھ طے نہ کیاگیاہو اور معمول کے خلاف سوداکرے توان دونوں صورتوں میں اگرچہ( اقویٰ قول کی بناپر) معاملہ صحیح ہے لیکن اگرمعاملہ نقصان دہ ہویاشراکت کے مال میں سے کچھ مال ضائع ہوجائے تو جس شریک نے معاہدے یاعام روش کے خلاف عمل کیاہووہ ضامن ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۶۳)جوشریک شراکت کے سرمائے سے کاروبارکرتاہواگروہ فضول خرچی نہ کرے اور سرمائے کی نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ کرے اورپھراتفاقاً اس سرمائے کی کچھ مقداریاسارے کاسارا سرمایہ تلف ہوجائے تووہ ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۶۴)جوشریک شراکت کے سرمائے سے کاروبارکرتاہواگروہ کہے کہ سرمایہ تلف ہوگیاہے تو اگروہ دوسرے شرکاء کے نزدیک معتبرشخص ہوتوضروری ہے کہ اس کا کہامان لیں اوراگردوسرے شرکاء کے نزدیک وہ معتبرشخص نہ ہوتوشرکاء حاکم شرع کے پاس اس کے خلاف دعویٰ کرسکتے ہیں تاکہ حاکم شرع قضاوت کے اصولوں کے مطابق تنازع کافیصلہ کرے۔
مسئلہ (۲۱۶۵)اگرتمام شریک اس اجازت سے جوانہوں نے ایک دوسرے کو مال میں تصرف کے لئے دے رکھی ہوپھرجائیں توان میں سے کوئی بھی شراکت کے مال میں تصرف نہیں کرسکتااوراگران میں سے ایک اپنی دی ہوئی اجازت سے پھرجائے تو دوسرے شرکاء کوتصرف کاکوئی حق نہیں لیکن جوشخص اپنی دی ہوئی اجازت سے پھرگیاہو وہ شراکت کے مال میں تصرف کرسکتاہے اور تمام صورتوں میں سرمایہ میں سب کی شراکت اپنی حالت پر باقی رہے گی۔
مسئلہ (۲۱۶۶)جب شرکاء میں سے کوئی ایک تقاضاکرے کہ شراکت کاسرمایہ تقسیم کردیاجائے تواگرچہ شراکت کی معینہ مدت میں ابھی کچھ وقت باقی ہودوسروں کواس کا کہنا مان لیناضروری ہے مگریہ کہ انہوں نے پہلے ہی (معاہدہ کرتے وقت) سرمائے کی تقسیم کوردکردیاہو(یعنی بعض شریک کی طرف سے تقسیم مال کی ضرورت ہو) یامال کی تقسیم شرکاء کے لئے قابل ذکرنقصان کا موجب ہو (تواس کی بات قبول نہیں کرنی چاہئے)۔
مسئلہ (۲۱۶۷)اگرشرکاء میں سے کوئی مرجائے یادیوانہ یابے حواس ہوجائے تو دوسرے شرکاء شراکت کے مال میں تصرف نہیں کرسکتے اوراگران میں سے کوئی سفیہ ہو جائے یعنی اپنامال احمقانہ اور فضول کاموں میں خرچ کرے تواس کابھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۱۶۸)اگرشریک اپنے لئے کوئی چیزادھار خریدے تواس نفع نقصان کاوہ خود ذمہ دارہے لیکن اگرشراکت کے لئے خریدے اور شراکت کے معاہدے میں ادھار معاملہ کرنابھی شامل ہوتوپھرنفع نقصان میں دونوں شریک ہوں گے۔
مسئلہ (۲۱۶۹)اگرشراکت کے سرمائے سے کوئی معاملہ کیاجائے اوربعدمیں معلوم ہو کہ شراکت باطل تھی تو اگرصورت یہ ہوکہ معاملہ کرنے کی اجازت میں شراکت کے صحیح ہونے کی قیدنہ تھی یعنی اگرشرکاء جانتے ہوتے کہ شراکت درست نہیں ہے تب بھی وہ ایک دوسرے کے مال میں تصرف پرراضی ہوتے تومعاملہ صحیح ہے اورجوکچھ اس معاملے سے حاصل ہووہ ان سب کامال ہے اوراگرصورت یہ نہ ہوتوجولوگ دوسروں کے تصرف پر راضی نہ ہوں اگروہ یہ کہہ دیں کہ ہم اس معاملے پرراضی ہیں تو معاملہ صحیح ہے ورنہ باطل ہے۔ دونوں صورتوں میں ان میں سے جس نے بھی شراکت کے لئے کام کیاہواگراس نے بلا معاوضہ کام کرنے کے ارادے سے نہ کیاہوتووہ اپنی محنت کامعاوضہ معمول کے مطابق دوسرے شرکاء سے ان کے مفاد کاخیال رکھتے ہوئے لے سکتاہے۔لیکن اگرکام کرنے کامعاوضہ اس فائدہ کی مقدار سے زیادہ ہوجووہ شراکت صحیح ہونے کی صورت میں لیتاتووہ بس اسی قدرفائدہ لے سکتاہے۔




