نقد اور ادھار کے احکام

مسئلہ (۲۱۱۴)اگرکسی جنس کونقدبیچاجائے توسوداطے پاجانے کے بعدخریدار اور بیچنے والاایک دوسرے سے جنس اوررقم کامطالبہ کرسکتے ہیں اوراسے اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں ۔منقولہ چیزوں مثلاًقالین اورلباس کوقبضے میں دینے اورغیرمنقولہ چیزوں مثلاً گھر اورزمین کوقبضے میں دینے سے مرادیہ ہے کہ ان چیزوں سے دست بردار ہوجائے اور انہیں فریق ثانی کی تحویل میں اس طرح دےدے کہ جب وہ چاہے اس میں تصرف کر سکے اورواضح رہے کہ مختلف چیزوں میں تصرف مختلف طریقے سے ہوتاہے۔
مسئلہ (۲۱۱۵)ادھار کے معاملے میں ضروری ہے کہ مدت ٹھیک ٹھیک معلوم ہو۔ لہٰذااگرایک شخص کوئی چیزاس وعدے پربیچے کہ وہ اس کی قیمت فصل اٹھنے پرلے گاتو چونکہ اس کی مدت ٹھیک ٹھیک معین نہیں ہوئی اس لئے سوداباطل ہے۔
مسئلہ (۲۱۱۶)اگرکوئی شخص اپنامال ادھار بیچے توجومدت طے ہوئی ہواس کی میعاد پوری ہونے سے پہلے وہ خریدار سے اس کے عوض کامطالبہ نہیں کرسکتالیکن اگرخریدار مر جائے اوراس کااپناکوئی مال ہوتوبیچنے والاطے شدہ میعادپوری ہونے سے پہلے ہی جورقم لینی ہواس کامطالبہ مرنے والے کے ورثاء سے کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۱۷)اگرکوئی شخص ایک چیزادھاربیچے توطے شدہ مدت گزرنے کے بعد وہ خریدار سے اس کے عوض کامطالبہ کرسکتاہے لیکن اگرخریدارادائیگی نہ کرسکتاہوتو ضروری ہے کہ بیچنے والااسے مہلت دے یاسوداختم کردے اوراگروہ چیزجوبیچی ہے موجودہوتو اسے واپس لے لے۔
مسئلہ (۲۱۱۸)اگرکوئی شخص ایک ایسے فرد کوجسے کسی چیزکی قیمت معلوم نہ ہواس کی کچھ مقدار ادھاردے اور اس کی قیمت اسے نہ بتائے توسوداباطل ہے۔لیکن اگرایسے شخص کو جسے جنس کی نقدقیمت معلوم ہوادھار پرمہنگے داموں پربیچے مثلاًکہے کہ: جوجنس میں تمہیں ادھار دے رہاہوں اس کی قیمت سے جس پرمیں نقدبیچتاہوں ایک پیسہ فی روپیہ زیادہ لوں گااورخریدار اس شرط کوقبول کرلے توایسے سودے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۱۹)اگرایک شخص نے کوئی جنس ادھار فروخت کی ہواوراس کی قیمت کی ادائیگی کے لئے مدت مقررکی گئی ہوتواگرمثال کے طورپرآدھی مدت گزرنے کے بعد (فروخت کرنے والا) واجب الادا رقم میں کٹوتی کردے اورباقی ماندہ رقم نقدلے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
معاملہ ٔ سلف اور اس کی شرائط
مسئلہ (۲۱۲۰)معاملہ ٔ سلف (پیشگی سودا) سے مرادیہ ہے کہ کوئی شخص نقدرقم لے کر پورامال جووہ مقررہ مدت کے بعدتحویل میں دے گا،بیچ دے لہٰذااگرخریدارکہے کہ میں یہ رقم دے رہاہوں تاکہ مثلاً چھ مہینے بعدفلاں چیزلے لوں اوربیچنے والاکہے کہ میں نے قبول کیایابیچنے والارقم لے لے اورکہے کہ میں نے فلاں چیزبیچی اوراس کا قبضہ چھ مہینے بعد دوں گاتوسوداصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۲۱)اگرکوئی شخص سونے یاچاندی کے سکے بطورسلف بیچے اوراس کے عوض چاندی یاسونے کے سکے لے توسوداباطل ہے لیکن اگرکوئی ایسی چیز یاسکے جوسونے یاچاندی کے نہ ہوں بیچے اوران کے عوض کوئی دوسری چیزیاسونے یاچاندی کے سکے لے توسودا(اس تفصیل کے مطابق) صحیح ہے جوآئندہ مسئلے کی ساتویں شرط میں بتائی جائے گی اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جومال بیچے اس کے عوض رقم لے، کوئی دوسرامال نہ لے۔
مسئلہ (۲۱۲۲)معاملہ ٔ سلف میں سات شرطیں ہیں:
۱:) ان خصوصیات کوجن کی وجہ سے کسی چیز کی قیمت میں فرق پڑتاہو معین کردیا جائے۔لیکن زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اسی قدرکافی ہے کہ لوگ کہیں کہ اس کی خصوصیات معلوم ہوگئی ہیں ۔
۲:) اس سے پہلے کہ خریدار اوربیچنے والاایک دوسرے سے جداہوجائیں خریدار پوری قیمت بیچنے والے کودے یااگربیچنے والاخریدار کااتنی ہی رقم کا مقروض ہو اور خریدار کو اس سے جو کچھ لیناہو اسے مال کی قیمت میں حساب کرلے اور بیچنے والااس بات کو قبول کرے اوراگرخریدار اس مال کی قیمت کی کچھ مقدار بیچنے والے کو دےدے تو اگر چہ اس مقدار کی نسبت سے سوداصحیح ہے۔ لیکن بیچنے والا سودا فسخ کرسکتاہے۔
۳:) مدت کوٹھیک معین کیاجائے۔ مثلاًاگربیچنے والاکہے کہ فصل کاقبضہ کٹائی پر دوں گا توچونکہ اس سے مدت کا ٹھیک ٹھیک تعین نہیں ہوتااس لئے سوداباطل ہے۔
۴:) جنس کاقبضہ دینےکے لئے ایساوقت معین کیاجائے جس میں بیچنے والاجنس کاقبضہ دے سکے خواہ وہ جنس کمیاب ہویافراوان ہو۔
۵:) جنس کاقبضہ دینے کی جگہ کا تعین( احتیاط واجب کی بناپر)مکمل طور پر کیا جائے ۔ لیکن اگر طرفین کی باتوں سے جگہ کا پتاچل جائے تواس کانام لیناضروری نہیں ۔
۶:) اس جنس کاتول یاناپ یا عدد معین کیاجائے اور جس چیزکاسوداعموماً دیکھ کرکیاجاتا ہے اگر اسے بطورسلف بیچاجائے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مثال کے طورپراخروٹ اور انڈوں کی بعض قسموں میں تعداد کافرق ضروری ہے کہ اتناہوکہ لوگ اسے اہمیت نہ دیں ۔
۷:) جس چیزکوبطورسلف بیچاجائے اگروہ ایسی ہوں جنہیں تول کریاناپ کربیچا جاتا ہےتو اس کا عوض اسی جنس سے نہ ہوبلکہ احتیاط لازم کی بناپردوسری جنس میں سے بھی ایسی چیزنہ ہوجسے تول کریاناپ کربیچاجاتاہے اوراگروہ چیزجسے بیچاجارہاہے ان چیزوں میں سے ہوجنہیں گن کربیچاجاتاہو تو(احتیاط واجب کی بناپر)جائزنہیں ہے کہ اس کاعوض خود اسی کی جنس سے زیادہ مقدارمیں مقررکرے۔
معاملہ سلف کے احکام
مسئلہ (۲۱۲۳)جوجنس کسی نے بطورسلف خریدی ہواسے وہ مدت ختم ہونے سے پہلے بیچنے والے کے سوا کسی اور کے ہاتھ نہیں بیچ سکتااورمدت ختم ہونے کے بعداگرچہ خریدارنے اس کاقبضہ نہ بھی لیاہواسے بیچنے میں کوئی حرج نہیں ۔البتہ پھلوں کے علاوہ جن غلوں مثلاً گیہوں اورجووغیرہ کوتول کریاناپ کرفروخت کیاجاتاہے انہیں اپنے قبضے میں لینے سے پہلے ان کا دوسرےخریدار کوبیچناجائزنہیں ہے ماسوااس کے کہ جس قیمت پراس نے خریدی ہوں اسی قیمت پریااس سے کم قیمت پربیچے۔
مسئلہ (۲۱۲۴)سلف کے لین دین میں اگربیچنے والامدت ختم ہونے پراس چیزکا قبضہ دے جس کاسوداہواہے توخریدارکےلئے قبول کرنا ضروری ہے اور اگر بہتر دے دیا ہوتو قبول کرنا ضروری ہے البتہ منظور شدہ شرط سے بہتر چیز کی نفی کرنا بہتر ہے ۔
مسئلہ (۲۱۲۵)اگربیچنے والاجوجنس دے وہ اس جنس سے گھٹیاہوجس کاسوداہوا ہے تو خریدار اسے قبول کرنے سے انکار کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۲۶)اگربیچنے والااس جنس کے بجائے جس کاسوداہواہے کوئی دوسری جنس دے اورخریدار اسے لینے پرراضی ہوجائے تواشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۲۷)جوچیزبطورسلف بیچی گئی ہواگروہ خریدار کے حوالے کرنے کے لئے طے شدہ وقت پردستیاب نہ ہوسکے توخریدارکواختیارہے کہ انتظار کرے تاکہ بیچنے والا اسے مہیاکردے یاسودافسخ کردے اور جوچیز بیچنے والے کودی ہواسے واپس لے لے اور (احتیاط واجب کی بناپر)وہ چیزبیچنے والے کوزیادہ قیمت پرنہیں بیچ سکتا۔
مسئلہ (۲۱۲۸)اگرایک شخص کوئی چیز بیچے اورمعاہدہ کرے کہ کچھ مدت بعد وہ چیز خریدار کے حوالے کردے گااور اس کی قیمت بھی کچھ مدت بعدلے گاتوایساسوداباطل ہے۔
سونے چاندی کوسونے چاندی کے عوض بیچنا
مسئلہ (۲۱۲۹)اگرسونے کوسونے سے یاچاندی کوچاندی سے بیچاجائے توچاہے وہ سکہ دارہوں یانہ ہوں اگران میں سے ایک کاوزن دوسرے وزن سے زیادہ ہوتوایساسودا حرام اور باطل ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۰)اگرسونے کوچاندی سے یاچاندی کوسونے سے نقد بیچاجائے تو سودا صحیح ہے اور ضروری نہیں کہ دونوں کاوزن برابرہو۔لیکن اگرمعاملے میں مدت معین ہوتو باطل ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۱)اگرسونے یاچاندی کوسونے یاچاندی کے عوض بیچاجائے توضروری ہے کہ بیچنے والااور خریدار ایک دوسرے سے جداہونے سے پہلے جنس اور اس کا عوض ایک دوسرے کے حوالے کردیں اور اگرجس چیزکے بارے میں معاملہ طے ہواہے اس کی کچھ مقدار بھی ایک دوسرے کے حوالے نہ کی جائے تومعاملہ باطل ہے اگر کچھ حصہ بھی دےدیا جائے تو اس کی مقدار کے بقدر معاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۲)اگربیچنے والے یاخریدار میں سے کوئی ایک طے شدہ مال پوراپورا دوسرے کے حوالے کردے لیکن دوسرا (مال کی صرف) کچھ مقدارحوالے کرے اور پھر وہ ایک دوسرے سے جداہوجائیں تو اگرچہ اتنی مقدار کے متعلق معاملہ صحیح ہے لیکن جس کو پورامال نہ ملاہووہ سودافسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۳۳)اگرچاندی کی کان کی مٹی کوخالص چاندی سے اور سونے کی کان کی سونے کی مٹی کوخالص سونے سے بیچاجائے توسوداباطل ہے۔( مگریہ کہ جب جانتے ہوں کہ مثلاً چاندی کی مٹی کی مقدار خالص چاندی کی مقدار کے برابر ہے) لیکن جیسا کہ پہلے کہا جاچکاہے چاندی کی مٹی کوسونے کے عوض اورسونے کی مٹی کوچاندی کے عوض بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ۔
معاملہ فسخ کئے جانے کی صورتیں
مسئلہ (۲۱۳۴)معاملہ فسخ کرنے کے حق کو ’’خیار‘‘ کہتے ہیں اورخریدار اوربیچنے والا گیارہ صورتوں میں معاملہ فسخ کرسکتے ہیں :
۱:) جس نشست میں معاملہ ہواہے وہ برخاست نہ ہوئی ہواگرچہ سوداہوچکاہواسے ’’خیارمجلس‘‘ کہتے ہیں ۔
۲:) خریدوفروخت کے معاملے میں خریداریابیچنے والانیزدوسرے معاملات میں طرفین میں سے کوئی ایک مغبون ہوجائے،اسے ’’خیارغبن‘‘ کہتے ہیں (مغبون سے مراد وہ شخص ہے جس کے ساتھ فراڈکیاگیاہو)خیارکی اس قسم کا منشاعرف عام میں شرط ارتکازی ہوتاہے یعنی ہر معاملے میں فریقین کے ذہن میں یہ شرط موجود ہوتی ہے جو مال حاصل کررہاہے اس کی قیمت مال سے بہت زیادہ کم نہیں جووہ اداکررہاہے اور اگر اس کی قیمت کم ہوتووہ معاملے کوختم کرنے کاحق رکھتاہے لیکن عرف خاص کی چند صورتوں میں ارتکازی شرط دوسری طرح ہومثلاً یہ شرط ہوکہ اگرجومال لیاہووہ بلحاظ قیمت اس مال سے کم ہوجواس نے دیاہے تودونوں (مال) کے درمیان جوکمی بیشی ہوگی اس کا مطالبہ کر سکتاہے اوراگرممکن نہ ہوسکے تومعاملے کوختم کردے اورضروری ہے کہ اس قسم کی صورتوں میں عرف خاص کاخیال رکھاجائے۔
۳:) سوداکرتے وقت یہ طے کیاجائے کہ مقررہ مدت تک فریقین کویاکسی ایک فریق کو سودافسخ کرنے کااختیارہوگا۔اسے ’’خیارشرط‘‘ کہتے ہیں ۔
۴:) فریقین میں سے ایک فریق اپنے مال کواس کی اصلیت سے بہتربتاکرپیش کرے جس کی وجہ سے دوسرافریق اس میں دلچسپی لے یااس کی دلچسپی اس میں بڑھ جائے اسے ’’خیارتدلیس‘‘ کہتے ہیں ۔
۵:) فریقین میں سے ایک فریق دوسرے کے ساتھ شرط کرے کہ وہ فلاں کام انجام دے گااور اس شرط پرعمل نہ ہویاشرط کے بجائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کوایک مخصوص قسم کامعین مال دے گااورجومال دیاجائے اس میں وہ خصوصیت نہ ہو،اس صورت میں شرط لگانے والا فریق معاملے کوفسخ کرسکتاہے۔اسے ’’خیارتخلف شرط‘‘ کہتے ہیں ۔
۶:) دی جانے والی جنس یااس کے عوض میں کوئی عیب ہو۔اسے ’’خیار عیب‘‘ کہتے ہیں ۔
۷:) یہ پتاچلے کہ فریقین نے جس جنس کاسوداکیاہے اس کی کچھ مقدارکسی اورشخص کا مال ہے۔اس صورت میں اگراس مقدارکامالک سودے پرراضی نہ ہوتوخریدنے والا سودا فسخ کرسکتاہے یااگر اتنی مقدار کی ادائیگی کرچکاہوتواسے واپس لے سکتاہے۔اسے ’’خیار شرکت‘‘ کہتے ہیں ۔
۸:) جس معین جنس کودوسرے فریق نے نہ دیکھاہواگراس جنس کامالک اسے اس کی خصوصیات بتائے اوربعدمیں معلوم ہوکہ جوخصوصیات اس نے بتائی تھیں وہ اس میں نہیں ہیں یادوسرے فریق نے پہلے اس جنس کودیکھاتھااوراس کاخیال تھاکہ وہ خصوصیات اب بھی اس میں باقی ہیں لیکن دیکھنے کے بعدمعلوم ہوکہ وہ خصوصیات اب اس میں باقی نہیں ہیں تواس صورت میں دوسرا فریق معاملہ فسخ کرسکتاہے۔ اسے ’’خیار رؤیت‘‘ کہتے ہیں ۔
۹:) خریدارنے جوجنس خریدی ہواگراس کی قیمت تین دن تک نہ دے اور بیچنے والے نے بھی وہ جنس خریدارکے حوالے نہ کی ہوتوبیچنے والاسودے کوختم کرسکتاہے لیکن ایسااس صورت میں ہوسکتاہے جب بیچنے والے نے خریدارکوقیمت اداکرنے کی مہلت دی ہولیکن مدت معین نہ کی ہواور اگراس کوبالکل مہلت نہ دی ہوتوبیچنے والاقیمت کی ادائیگی میں معمولی سی تاخیر سے بھی سوداختم کرسکتا ہے اوراگراسے تین دن سے زیادہ مہلت دی ہوتومدت پوری ہونے سے پہلے سوداختم نہیں کر سکتا۔اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جوجنس بیچی ہے اگروہ بعض ایسے پھلوں یا سبزیوں کی ہو جو تین دن سے پہلے ضائع ہوجاتی ہے تواس کی مہلت کم ہوگی ۔اسے ’’خیارتاخیر‘‘ کہتے ہیں ۔
۱۰:) جس شخص نے کوئی جانورخریداہووہ تین دن تک سودافسخ کرسکتاہے اورجوچیز اس نے بیچی ہواگراس کے عوض میں خریدار نے جانوردیاہوتوجانوربیچنے والابھی تین دن تک سودافسخ کرسکتاہے۔اسے ’’خیارحیوان‘‘ کہتے ہیں ۔
۱۱:) بیچنے والے نے جوچیزبیچی ہواگراس کاقبضہ نہ دے سکے مثلاً جوگھوڑااس نے بیچا ہووہ بھاگ گیاہوتواس صورت میں خریدارسودافسخ کرسکتاہے۔اسے ’’خیار تعذّرتسلیم‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۱۳۵)اگرخریدار کوجنس کی قیمت کاعلم نہ ہویاوہ سوداکرتے وقت غفلت برتے اور اس چیز کو عام قیمت سے مہنگا خریدے اوریہ قیمت خریدبڑی حدتک مہنگی ہوتووہ سوداختم کرسکتاہے بشرطیکہ سوداختم کرتے وقت وہ غبن (فراڈ) باقی ہو ورنہ حق خیار میں اشکال ہےنیز اگربیچنے والے کوجنس کی قیمت کاعلم نہ ہویاسوداکرتے وقت غفلت برتے اوراس جنس کواس کی قیمت سے سستابیچے اور بڑی حد تک سستا بیچے اس صورت میں کہ سستی قیمت عام طور سے قابل توجہ ہو توسابقہ شرط کے مطابق سوداختم کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۶)مشروط خریدوفروخت میں جب کہ مثال کے طورپرایک لاکھ روپے کا مکان پچاس ہزار روپے میں بیچ دیاجائے اورطے کیاجائے کہ اگربیچنے والامقررہ مدت تک رقم واپس کردے توسودافسخ کرسکتاہے تواگرخریدار اوربیچنے والا واقعی خریدوفروخت کی نیت رکھتے ہوں توسوداصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۷)مشروط خریدوفروخت میں اگربیچنے والے کواطمینان ہوکہ خریدار مقررہ مدت میں رقم ادا نہ کرسکنے کی صورت میں مال اسے واپس کردے گا توسودا صحیح ہے لیکن اگروہ مدت ختم ہونے تک رقم ادانہ کرسکے تووہ خریدارسے مال کی واپسی کامطالبہ کرنے کاحق نہیں رکھتااور اگرخریدار مرجائے تواس کے ورثاء سے مال کی واپسی کامطالبہ نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۱۳۸)اگرکوئی شخص عمدہ چائے میں گھٹیاچائے کی ملاوٹ کرکے عمدہ چائے کے طورپربیچے تو خریدارسودافسخ سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۳۹)اگرخریدارکوپتاچلے کہ جومعین مال اس نے خریداہے وہ عیب دار ہے مثلاً ایک جانور خریدے اور (خریدنے کے بعد) اسے پتاچلے کہ اس کی ایک آنکھ نہیں ہے لہٰذا اگریہ عیب مال میں سودے سے پہلے تھااوراسے علم نہیں تھاتووہ سودافسخ کر سکتا ہے اورمال بیچنے والے کوواپس کرسکتاہے اور اگرواپس کرناممکن نہ ہومثلاًاس مال میں کوئی تبدیلی ہوگئی ہویاایساتصرف کرلیاگیاہوجوواپسی میں رکاوٹ بن رہاہوتوجسے اس نے بیچ دیا ہو کرایہ پر دے دیا ہو یا کپڑے کو کاٹ دیا یا سل دیا ہواس صورت میں وہ بے عیب اورعیب دار مال کی قیمت کے فرق کاحساب کرکے بیچنے والے سے (فرق کی) رقم واپس لے لے مثلاً اگراس نے کوئی مال چارروپے میں خریداہواور اسے اس کے عیب دارہونے کاعلم ہوجائے تواگرایساہی بے عیب مال (بازارمیں ) آٹھ روپے کااورعیب دارچھ روپے کاہوتوچونکہ بے عیب اورعیب دارکی قیمت کافرق ایک چوتھائی ہے اس لئے اس نے جتنی رقم دی ہے اس کاایک چوتھائی یعنی ایک روپیہ بیچنے والے سے واپس لے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۰)اگربیچنے والے کوپتاچلے کہ اس نے جس معین عوض کے بدلے اپنا مال بیچاہے اس میں عیب ہے تواگروہ عیب اس عوض میں سودے سے پہلے موجودتھااور اسے علم نہ ہواہووہ سودافسخ کر سکتاہے اوروہ عوض اس کے مالک کوواپس کرسکتاہے لیکن اگر تبدیلی یاتصرف کی وجہ سے واپس نہ کر سکے توبے عیب کی قیمت کافرق اس قاعدے کے مطابق لے سکتاہے جس کاذکرسابقہ مسئلے میں کیاگیاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۱)اگرسوداکرنے کے بعداورقبضہ دینے سے پہلے مال میں کوئی عیب پیداہوجائے توخریدار سودافسخ کرسکتاہے نیزجوچیزمال کے عوض دی جائے اگراس میں سوداکرنے کے بعداورقبضہ دینے سے پہلے کوئی عیب پیداہوجائے توبیچنے والاسودافسخ کر سکتاہے اوراگرفریقین قیمت کافرق لیناچاہیں توواپس کرنا ناممکن ہونے کی صورت میں جائزہے۔
مسئلہ (۲۱۴۲)اگرکسی شخص کومال کے عیب کاعلم سوداکرنے کے بعدہوتواگروہ (سوداختم کرنا) چاہے توضروری ہے کہ فوراً سودے کوختم کردے( اور اختلاف کی صورتوں کو پیش نظررکھتے ہوئے) اگرمعمول سے زیادہ تاخیرکرے تووہ سودے کوختم نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۱۴۳)جب کسی شخص کوکوئی جنس خریدنے کے بعداس کے عیب کاپتاچلے تو خواہ بیچنے والااس پر تیارنہ بھی ہوخریدارسودافسخ کرسکتاہے اور دوسرے خیارات کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۱۴۴)دوصورتوں میں خریدارمال میں عیب ہونے کی بناپرسودافسخ نہیں کر سکتااورنہ ہی قیمت کافرق لے سکتاہے:
۱:) خریدتے وقت مال کے عیب سے واقف ہو۔
۲:)سودے کے وقت بیچنے والاکہے: ’’میں اس مال کوجوعیب بھی اس میں ہے اس کے ساتھ بیچتاہوں ‘‘۔ لیکن اگروہ ایک عیب کاتعین کردے اورکہے: ’’میں اس مال کوفلاں عیب کے ساتھ بیچ رہا ہوں ‘‘ اور بعدمیں معلوم ہوکہ مال میں کوئی دوسراعیب بھی ہے تو جو عیب بیچنے والے نے معین نہ کیاہواس کی بناپرخریداروہ مال واپس کرسکتاہے اور اگرواپس نہ کرسکے توقیمت کافرق لے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۵)اگرخریدار کومعلوم ہوکہ مال میں ایک عیب ہے اوراسے وصول کرنے کے بعداس میں کوئی اورعیب نکل آئے تووہ سودافسخ نہیں کرسکتالیکن بے عیب اور عیب دار مال کافرق لے سکتاہے لیکن اگروہ عیب دارحیوان خریدے اورخیارکی مدت جو تین دن ہے گزرنے سے پہلے اس حیوان میں کسی اورعیب کاپتاچل جائے توگوخریدار نے اپنی تحویل میں لے لیاہوپھربھی وہ اسے واپس کرسکتاہے۔نیزاگرفقط خریدارکوکچھ مدت تک سودافسخ کرنے کاحق حاصل ہواوراس مدت کے دوران مال میں کوئی دوسرا عیب نکل آئے تواگرچہ خریدار نے وہ مال اپنی تحویل میں لے لیاہووہ سودافسخ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۱۴۶)اگرکسی شخص کے پاس ایسامال ہوجسے اس نے بچشم خودنہ دیکھاہواور کسی دوسرے شخص نے مال کی خصوصیات اسے بتائی ہوں اوروہی خصوصیات خریدار کو بتائے اوروہ مال اس کے ہاتھ بیچ دے اوربعدمیں اسے (یعنی مالک کو) پتاچلے کہ وہ مال اس سے بہترخصوصیات کاحامل ہے تووہ سودافسخ کرسکتاہے۔
متفرق مسائل
مسئلہ (۲۱۴۷)اگربیچنے والاخریدارکوکسی جنس کی قیمت خریدبتائے توضروری ہے کہ وہ تمام چیزیں بھی اسے بتائے جن کی وجہ سے مال کی قیمت گھٹتی بڑھتی ہے اگرچہ اسی قیمت پر (جس پرخریداہے) یااس سے بھی کم قیمت پربیچے۔مثلاًاسے بتاناضروری ہے کہ مال نقدخریداہے یاادھارلہٰذااگرمال کی کچھ خصوصیات نہ بتائے اورخریدار کوبعدمیں معلوم ہوتووہ سودافسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۸)اگرانسان کوئی جنس کسی کودے اوراس کی قیمت معین کردے اور کہے: ’’یہ جنس اس قیمت پربیچواوراس سے زیادہ جتنی قیمت وصول کروگے وہ تمہاری محنت کی اجرت ہوگی‘‘تواس صورت میں وہ شخص اس قیمت سے زیادہ جتنی قیمت بھی وصول کرے وہ جنس کے مالک کامال ہوگااوربیچنے والا مالک سے فقط محنتانہ لے سکتاہے لیکن اگر معاہدہ بطورجعالہ (حق العمل) ہواورمال کامالک کہے کہ اگرتونے یہ جنس اس قیمت سے زیادہ پربیچی توفاضل آمدنی تیرامال ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۲۱۴۹)اگرقصاب نرجانورکاگوشت کہہ کرمادہ کاگوشت بیچے تووہ گنہگار ہوگا لہٰذااگروہ اس گوشت کومعین کردے اورکہے کہ میں یہ نرجانورکاگوشت بیچ رہاہوں تو خریدار سودافسخ کرسکتاہے اور اگرقصاب اس گوشت کومعین نہ کرے اورخریدار کوجوگوشت ملاہو (یعنی مادہ کاگوشت) وہ اس پرراضی نہ ہوتوضروری ہے کہ قصاب اسے نرجانورکا گوشت دے۔
مسئلہ (۲۱۵۰)اگرخریداربزازسے کہے کہ مجھے ایساکپڑاچاہئے جس کارنگ کچانہ ہو اور بزازایک ایساکپڑااس کے ہاتھ فروخت کرے جس کارنگ کچاہوتوخریدارسودا فسخ کر سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۵۱)اگر جنس بیچنے والا جنس کو فروخت کرے جسے قبضہ میں نہیں دےسکتا جیسے کسی ایسے گھوڑے کو بیچے جو بھاگ گیا ہو تو اس صورت میں معاملہ باطل ہوجائے گا اور خریدنے والا اپنی رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے۔




