اعتکاف کے احکام

مسئلہ (۱۷۱۹)اعتکاف مستحب عبادتوں میں ہے جو نذر عہد اور قسم وغیرہ کی بناء پر واجب ہوجاتا ہے اور شرعاً یہ اعتکاف یہ ہے کہ کوئی شخص قصد قربت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ عبادت کےاعمال جیسے نماز اور دعا کے انجام دینے کی نیت سے قیام کرے۔
مسئلہ (۱۷۲۰)اعتکاف کےلئے کوئی معین وقت نہیں ہے پورے سال کے اس زمانےمیں جب روزہ صحیح ہوں تو اعتکاف بھی صحیح ہے اوراس کا بہترین وقت ماہ مبارک رمضان ہے اور سب سے زیادہ فضیلت ماہ رمضان کے آخری دس دنوں میں ہے۔
مسئلہ (۱۷۲۱)اعتکاف کا سب سے کم وقت درمیانی دوشب کے اضافے کے ساتھ تین دن ہے اور اس سے کم صحیح نہیں ہے لیکن زیادہ کےلئے کوئی حد نہیں ہے اور پہلی شب اور چوتھی شب کو اعتکاف کی نیت میں شامل کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے اس بناء پر اعتکاف تین دن سے زیادہ جائزہے اور اگر کوئی شخص پانچ دن مکمل اعتکاف کررہا ہو تو چھٹے دن ضروری ہے کہ اعتکاف کرے۔
مسئلہ (۱۷۲۲)اعتکاف کے وقت کا آغاز پہلے دن کی اذان صبح سے ہوتا ہے اور احتیاط واجب کی بناء پر اس کا اختتام تیسرے دن کی اذان مغرب پر ہوتا ہے اور اعتکاف کے محقق ہونے میں اگر الگ الگ تین دنوں کو جمع کرکے انجام دیا جائے تو کافی نہیں ہے یعنی کوئی شخص پہلے دن کی اذان صبح کے بعد سےاعتکاف شروع کرے اور اس کمی کو چوتھے دن میں کچھ اضافہ کرکے پورا کرنا چاہے جیسے پہلے دن کی اذان ظہر سے شروع کرے چوتھے دن کی اذان ظہر تک مسجد میں ٹھہرے (تو اس صورت میں اعتکاف کافی نہیں ہے)۔
اعتکاف میں معتبر امور
مسئلہ (۱۷۲۳)اعتکاف میں کچھ امور معتبر ہیں :
(۱:)اعتکاف کرنے والا مسلمان ہو۔
(۲:) اعتکاف کرنے والا عاقل ہو۔
(۳:) اعتکاف قصد قربت سے انجام دیا جائے۔
مسئلہ (۱۷۲۴)اعتکاف کرنے والے کےلئے ضروری ہےکہ اس طرح قصد قربت اختیار کرے جس طرح وضو میں گزراہے اور شروع سےلےکر آخر تک اعتکاف کو معتبر خلوص کی رعایت کے ساتھ قصد قربت سے انجام دے۔
(۴:)اعتکاف کی مدت کم سے کم تین دن ہے۔
مسئلہ (۱۷۲۵)اعتکاف کی مدت کم سےکم تین دن ہے ،تین دن سے کم اعتکاف صحیح نہیں ہے لیکن زیادہ مقدار کی کوئی قید نہیں ہے جیسا کہ مسئلہ (۱۷۲۱ )میں گزرا ہے۔
(۵:)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دنوں میں روزہ رکھے۔
مسئلہ (۱۷۲۶)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دنوں میں روزہ رکھے اس بنا پر جو شخص روزہ نہیں رکھ سکتا جیسے وہ مسافر جو دس دن کے قیام کا ارادہ نہیں رکھتا اور مریض، حائض اور نفساء عورت تو ان لوگوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے اور اعتکاف کے دنوں میں لازم نہیں ہے کہ اعتکاف سے مخصوص روزہ رکھاجائے بلکہ ہر طرح کا روزہ صحیح ہے یہاں تک کہ اجارہ کا روزہ ،مستحبی روزہ اور قضا روزہ بھی کافی ہے۔
مسئلہ (۱۷۲۷)جس زمانے میں اعتکاف کرنے والا روزہ سے ہے یعنی ہر روز اذان صبح سے مغرب تک ہر وہ کام جو روزہ کو باطل کرتا ہے، اعتکاف کے باطل ہوجانے کا سبب بنتا ہے اس بناء پر اعتکاف کرنے والے کےلئے ضروری ہےکہ روزہ کے دوران عمداً روزہ کے مبطلات کے انجام دینے سے پرہیز کرے۔
(۶:)اعتکاف چار مسجدوں یا جامع مسجد میں ہو۔
مسئلہ (۱۷۲۸)اعتکاف مسجد الحرام یا مسجد نبوی یا مسجد کوفہ یا مسجد بصرہ میں صحیح ہے اس طرح اعتکاف ہر شہر کی جامع مسجد میں صحیح ہوگا سوائے یہ کہ اس مسجد کا امام غیر عادل ہو ایسی صورت میں ( احتیاط لازم کی بنا پر) اعتکاف صحیح نہیں ہوگا ۔ جامع مسجد سے مراد وہ مسجد ہے جو کسی محلہ یا خاص علاقے یا مخصوص گروہ سے تعلق نہ رکھتی ہو اور اسی علاقے کے لوگوں اور شہر کے مختلف علاقے کے رہنے والوں کے جمع ہونے اور رفت وآمد کی جگہ ہو۔ اور جامع مسجد کے علاوہ کسی اور مسجد میں اعتکاف کی شرعی حیثیت ثابت نہیں ہے لیکن احتمال مطلوب کےاعتبار سے بجالانے میں اشکال نہیں ہے لیکن اس جگہ اعتکاف جو مسجد نہیں ہے مثلاً امام بارگاہ ہو یا صرف نماز خانہ ہو، صحیح نہیں ہے اورجائز بھی نہیں ہے۔
(۷:)اعتکاف کےلئے لازم ہےکہ ایک ہی مسجد میں انجام دیا جائے۔
مسئلہ (۱۷۲۹)اعتکاف کےلئے لازم ہےکہ ایک ہی مسجد میں انجام دیا جائے اس بنا ء پر ایک اعتکاف کو دو مسجدوں میں انجام نہیں دیا جاسکتا ہے چاہے ایک دوسرے سے جدا ہوں یا ایک دوسرے سے متصل ہوں سوائےیہ کہ اس طرح سے متصل ہوں کہ عرف میں ایک مسجد سمجھی جاتی ہو (تو اعتکاف صحیح ہے)
(۸:) اعتکاف اس شخص کی اجازت سے ہو،جس کی اجازت شرعاً معتبر ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۰)اعتکاف اس شخص کی اجازت سے ہو،جس کی اجازت شرعاً معتبر ہے اس بناء پر اس زمانے میں کہ عورت کا مسجد میں ٹھہرنا حرام ہو مثلاً عورت اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نکلی ہو تو اعتکاف باطل ہے او رایسی صورت میں جب مسجد میں رکنا حرام نہ ہولیکن شوہر کے حق سےاعتکاف ٹکراتا ہوتو اس کے اعتکاف کاصحیح ہونا ایسی صورت میں جب کہ شوہر کی اجازت کے بغیر ہو ،محل اشکال ہے۔ اسی طرح سے ایسی صورت میں جب کہ اعتکاف والدین کےلئے ایذاء اور تکلیف کا سبب ہو اور یہ اذیت ان کی شفقت اور قلبی لگاؤ کی وجہ سےہو تو اولاد کا ان سے اجازت لینا لازمی ہے اگر اذیت کا سبب نہ ہوتو احتیاط مستحب یہ ہےکہ ان سے اجازت لے۔
(۹)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے محرمات کو انجام نہ دے۔
مسئلہ (۱۷۳۱)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی حالت میں ان محرمات اعتکاف سے پرہیز کرے جومندرجہ ذیل ہیں اور ان کا انجام دینا اعتکاف کو باطل کردے گا لیکن ان سب سے پرہیز کا واجب ہونا اس اعتکاف میں جو واجب معین نہیں ہے جماع کے علاوہ بقیہ صورتوں میں احتیاط کی بناء پر ہے:
(۱:) خوشبو سونگھنا ۔
(۲:) بیوی سے ہمبستری کرنا۔
(۳:) استمناء اور شہوت کے ساتھ بدن کا مس کرنا اور بوسہ لینا (احتیاط واجب کی بناء پر) ۔
(۴:) بحث ونزاع کرنا۔
(۵:) خریدوفروخت کرنا۔
مسئلہ (۱۷۳۲)اعتکاف کرنے والے کےلئے ہر طرح کے عطر کو سونگھنا چاہے اس سے لذت محسوس کرے یانہ کرے، جائز نہیں ہے اور خوشبو دار گھاس سونگھنا اس صورت میں جب کہ اس کے سونگھنے سےلذت محسوس کرے جائز نہیں ہے اور اگر اس کے سونگھنے سے لذت محسوس نہ کرے تو اشکال نہیں ہے اس طرح اعتکاف کرنےو الے کےلئے ممکن ہے کہ خوشبودار دھونے والی چیزوں من جملہ سیال یا جامد صابون، شیمپو اور خوشبودار پیسٹ سے استفادہ کرے اور ان مسجدوں میں جن میں اعتکاف پر بیٹھنے والوں کے علاوہ بقیہ لوگ معمولاً عطر لگاتے ہوں ، ایسے عطر کو سونگھنا جائز نہیں ہے لیکن عطرکی بو کا احساس کرنے میں بظاہر کوئی ممانعت نہیں ہے اور لازم نہیں ہے کہ اپنی ناک کو بند کرے۔
مسئلہ (۱۷۳۳) بیوی کے ساتھ جماع اور ہمبستری اعتکاف کی حالت میں جائز نہیں ہے اگر چہ انزال اور منی کے خارج ہونے کا سبب نہ ہو اور عمداً اس کا انجام دینااعتکاف کو باطل کردیتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۴)اعتکاف کرنے والا احتیاط واجب کی بنا پر استمناء سے (اگر چہ حلال صورت میں کیوں نہ ہو)‘ عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے اور اس کا بوسہ لینے سے بھی پرہیز کرے اور اعتکاف کے دنوں میں بیوی کو شہوت کی نظر سے دیکھنا اعتکاف کے باطل ہونے کا سبب نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہےکہ اعتکاف کے دنوں میں اس سے پرہیز کیاجائے۔
مسئلہ (۱۷۳۵)اعتکاف کی حالت میں دنیوی یا دینی مسائل میں جھگڑا کرنا اس صورت میں جب مدمقابل پر غلبہ اور فضیلت و برتری ظاہر کرنے کا ارادہ ہو توحرام ہے لیکن اگر حق کے ظاہر کرنے اور حقیقت کو واضح کرنے اور مدمقابل کی خطا اور اشتباہ کو دور کرنے کےلئے ہو تونہ صرف یہ کہ حرام نہیں ہے بلکہ بہترین عبادتوں میں ہے اس بناء پر معیار اعتکاف کرنے والے کی نیت اور قصد ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۶)اعتکاف کی حالت میں خریدوفروخت اور احتیاط واجب کی بناء پر ہر طرح کا معاملہ جیسے کرایہ پر دینا، مضاربہ کرنا،معاوضہ وغیرہ دینا حرام ہے اگر چہ انجام پانے والا معاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۷)جب کسی اعتکاف پر بیٹھنے والا خوردو نوش کو مہیا کرنے کے لئے یا اعتکاف کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے خریدوفروخت پر مجبور ہو اور اعتکاف کرنے والوں کے علاوہ کوئی غیر شخص جو ان کاموں کو بطور وکالت انجام دے،نہ ملے اور گزشتہ چیزوں کا مہیا کرنا خرید کے علاوہ جیسے ہدیہ یا قرض لینا ممکن نہ ہو تواس صورت میں خریدوفروخت میں ممانعت نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۸)اگر اعتکاف پر بیٹھنے والا اعتکاف کےمحرمات کو عمداً او رحکم شرعی سے آگاہی کے باوجود انجام دے تو اس کا اعتکاف باطل ہوگا۔
مسئلہ (۱۷۳۹)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے محرمات میں سے کسی کو سہواً فراموشی کی بناء پر انجام دے تو مطلقاًاعتکاف باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۷۴۰)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کےمحرمات میں سے کسی کو مسئلہ نہ جاننے کی بناء پر انجام دے اس صورت میں کہ جاہل مقصر تھا تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا اور اگر جاہل قاصر تھا تو اس کااعتکاف صحیح ہے اور فراموشی کا حکم رکھتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۱)اگر اعتکاف کرنے والا گزشتہ مسائل میں بیان شدہ مفسد چیزوں میں سے کسی کو اختیار کرے جس سے اس کا اعتکاف باطل ہوتا ہے تو اگر واجب معین اعتکاف تھا تو احتیاط واجب کی بناء پر اعتکاف کی قضا کرے اور اگر اعتکاف واجب غیر معین تھا جیسےاعتکاف کو کسی معین وقت کے بغیر نذر کیا ہوتو واجب ہےکہ اس اعتکاف کو دوبارہ شروع سے بجالائے اور اگر مستحب اعتکاف تھا تو اگر دوسرا دن ختم ہوجانے کے بعد اعتکاف کو باطل کیا ہو تو احتیاط واجب کی بناء پر اعتکاف کی قضا کرے اور اگر دوسرے دن کے مکمل ہونے سے پہلےمستحب اعتکاف کو باطل کیا ہو تو اس پر کوئی چیز عائد نہیں ہوتی اور قضا نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۰:)اعتکاف کرنے والا،اعتکاف کی جگہ پر ٹھہرا رہے اور اس سے باہر نہ نکلے مگر ان مواقع پر کہ جہاں شرعی طورپر باہرنکلنا جائز ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۲)ان مواقع پر جہاں اعتکاف پر بیٹھنے والے کےلئے مسجد سے باہر جانا جائز ہے اس وقت سے زیادہ جتنا اس کام کے انجام دینے میں ضروری ہے مسجد سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔
اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا
مسئلہ (۱۷۴۳)وہ ضروری کام جسے انجام دئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے جیسے بیت الخلاء جانا توایسی صورت میں اعتکاف کی جگہ سے نکلنا جائز ہے اور غسل جنابت کےلئے مسجدسے باہر جانا جائز بلکہ واجب ہے۔ اسی طرح عورتوں کو غسل استحاضہ کےلئے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے اور وہ مستحاضہ عورت جس پر غسل واجب ہے اگر وہ اپنے واجب غسلوں کو انجام نہ دے تو اس کے اعتکاف کے صحیح ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۴)واجب نماز کو ادا کرنے کےلئے وضو کی خاطر اعتکاف کی جگہ سےباہر نکلنا جائز ہے اگر چہ نماز کا وقت داخل نہ ہوا ہو اور قضا نماز کے وضو کی خاطر اس صورت میں کہ قضا کا وقت وسیع ہوتو اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا محل اشکال ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۵)اگرخود مسجد میں وضو کرنے کےلئے اسباب فراہم ہوں تواعتکاف میں بیٹھنے والا شخص وضو کرنے کےلئے مسجد سےباہر نہیں جاسکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۶)اگر اعتکاف کرنے والے پر غسل واجب ہوجائے اگر وہ ایسے غسلوں میں سے ہوجن کا مسجد میں انجام دینامانع ہو اور جائز نہ ہو جیسے غسل جنابت کہ اس صورت میں حالت جنابت میں مسجد میں ٹھہرنا لازم آتا ہے یا مسجد کے نجس ہونے کا سبب ہوجائے تو ضروری ہے کہ مسجد سے باہر جائے ورنہ اس کااعتکاف باطل ہوجائے گا اور اگر مسجد میں غسل کرنے میں کوئی مانع نہ ہو جیسے غسل مس میت اور غسل کرنا ممکن بھی ہوتو احتیاط واجب کی بناء پر مسجد سے نکلنا جائزنہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۷)مستحب غسلوں کےلئے جیسے غسل جمعہ یا اعمال’’ ام داؤد‘‘ کے لئے غسل اور اسی طرح مستحب وضو کے لئے اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا محل اشکال ہے اور کلی طور سے رجحان رکھنے والے امور کےلئے مسجد سے باہر نکلنا محل اشکال اور احتیاط ہے سوائے ان امور کے جو عرف کےلئے ضروری کاموں میں شمار کئے جاتے ہیں لیکن اعتکاف کرنے والا تجہیز وتکفین اور میت کو غسل دینے نماز ، دفن میت، مریض کی عیادت اور نماز جمعہ کےلئے اعتکاف کی جگہ سےباہر جاسکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۸)اعتکاف کرنے والے کےلئے اس نماز جماعت میں شرکت کرنا احتیاط واجب کی بناء پر جائز نہیں ہے جو اعتکاف کی جگہ سے ہٹ کر ہو سوائے اس شخص کےجو مکۂ مکرمہ میں اعتکاف کےلئےبیٹھا ہے وہ نماز جماعت یا فرادیٰ نماز کےلئے مسجد سے باہر جاسکتا ہے اور مکہ کی کسی بھی جگہ پر جاکر نماز پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۹)اعتکاف کرنے والے کےلئے اپنی ضرورت کی چیزوں کو فراہم کرنے کےلئے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ کوئی دوسرا شخص ان ضرورتوں کو فراہم کرنے کےلئے مامور ہو۔
مسئلہ (۱۷۵۰)اعتکاف کرنے والا امتحانات میں شریک ہونے کےلئے باہر جاسکتا ہے چاہے یہ امتحانات کالج، یونیورسٹی یا حوزۂ علمیہ کے ہو ں البتہ امتحان میں شرکت عرف کے نزدیک ضروری ہو لیکن بہت دیر تک باہر نہ رہے اس طرح کہ اعتکاف کرنے کی صورت باقی نہ رہے مثلاً دو گھنٹے تک کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۵۱)اگر اعتکاف کرنے والا کسی ضروری کام کی خاطر مسجد سے باہر جائے لیکن اس کا باہر جانا بہت طولانی ہوجائے جس سے اعتکاف کی صورت بگڑ جائے تواس کا اعتکاف باطل ہے اگرچہ اس کا باہر جانا مجبوری ،اضطرار یا فراموشی یا کسی دباؤ کی بناء پر ہو۔
مسئلہ (۱۷۵۲)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی جگہ سے عمداً ، اختیاری حالت میں اور حکم شرعی سے باخبر ہونے کے باوجود ضروری اور جائز کاموں کےعلاوہ باہر جاتا ہے تواس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۷۵۳)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی جگہ سے حکم شرعی سےناواقفیت کی بناءپر ضروری اور جائز کاموں کے علاوہ باہر نکلتا ہے تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۷۵۴)اگر اعتکاف کرنے والا بھولے سےمسجد سے باہر نکل جائے تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا اور اگر کسی دباؤ یا مجبوری کی بنا پر مسجد سےباہر نکلے تو اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا سوائے اس صورت میں کہ اس کا باہر جانا اتنی طولانی مدت کے لئے ہو جس سے اعتکاف کی صورت بگڑ جائے اس صورت میں اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۷۵۵)اگراعتکاف کرنے والے پر اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا واجب ہو جیسے وہ قرض جس کی ادائگی اس پر واجب ہے اور اس کی ادائگی کا وقت آچکا ہو اور اس کو ادا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو اور قرض دینے والا مطالبہ بھی کررہا ہو یا کسی دوسرے واجب کو ادا کرنا واجب ہوجس کو انجام دینے کےلئے باہر نکلنا ضروری ہو لیکن اعتکاف کرنے والااپنے وظیفہ کے خلاف عمل کرے اور باہر نہ نکلے تو گنہگار ہوگالیکن اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۷۵۶)اعتکاف کرنے والے کے لئے ضروری ہےکہ ضرورت کی مقدار سے زیادہ مسجد سے باہر نہ ٹھہرے اور مسجد سے باہر ممکن ہونے کی صورت میں ضروری ہےکہ سایہ کے نیچے نہ بیٹھے لیکن اعتکاف کی جگہ سے باہر سایہ میں بیٹھنا اگر کسی ضروری کام اور ضرورت پوری کرنے کے لئے ہوکہ جو سایہ میں بیٹھنے پر موقوف ہوتو کوئی حرج نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بناء پر ضرورت پوری ہونے کے بعد مطلقاً نہ بیٹھے سوائے ضرورت کی صورت میں بیٹھ سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۵۷)اعتکاف کرنے والا مسجد سے باہر سایہ میں راستہ طے کرسکتا ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہےکہ اس کو ترک کردے۔
مسئلہ (۱۷۵۸)اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلتے وقت یا اعتکاف کی جگہ پر پلٹتے وقت نزدیک ترین راستہ کی رعایت کرنا احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے سوائے یہ کہ لمبے راستہ کا انتخاب مسجد سےباہر کم ٹھہرنے کا لازمہ قرار پائے تو ضروری ہے کہ اس راستہ کا انتخاب کرے۔
اعتکاف کے مختلف مسائل
مسئلہ (۱۷۵۹)اعتکاف کرنے والا شخص اعتکاف کی ابتداء میں واجب معین اعتکاف کے علاوہ نیت میں شرط کرسکتا ہے کہ اگر کوئی مشکل پیش آئی تو میں اعتکاف کو چھوڑ دوں گا اس بناءپروہ یہ شرط رکھ کر مشکل کے وقت یا پریشانی کے وقت اعتکاف کو چھوڑ سکتا ہے یہاں تک کہ تیسرے دن بھی چھوڑنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اعتکاف کرنے والا اگر یہ شرط کرے یہ بغیر کسی دشواری او رپریشانی کے میں اپنے اعتکاف کو چھوڑ سکتا ہوں تو اس طرح کی شرط کا صحیح ہونا محل اشکال ہے، یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہےکہ اس طرح کی شرطیں (درمیان میں اعتکاف چھوڑ دینے کی شرط) اعتکاف شروع کرنے کے بعد یاشروع کرنے سے پہلے صحیح نہیں ہے بلکہ ضروری ہےکہ اعتکاف کے زمانے اور اعتکاف کی نیت کے ساتھ ہو۔
مسئلہ (۱۷۶۰)اعتکاف میں بالغ ہونا شرط نہیں ہے ممیز بچے کا اعتکاف بھی صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۱)اگر اعتکاف کرنے والا غصبی فرش یا زمین پر بیٹھے او راس کے غصبی ہونے سے باخبر ہوتو گنہگار ہوگا لیکن اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا اور اگر کسی نے اعتکاف کے لئے پہلے سے کوئی جگہ لے لی ہو اور اعتکاف کرنے والا اس جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرے تو اگر چہ گناہگار ہے مگر اس کا اعتکاف صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۲)اگر واجب اعتکاف کی نیت کے وقت (اعتکاف کے درمیان میں چھوڑنے کی شرط کرے) کہ جس کی تفصیل مسئلہ نمبر( ۱۷۵۹) میں گزر چکی ہے ۔چنانچہ اگر اس نے حرام کاموں میں سے کوئی کام انجام دیا ہوتو اعتکاف کی قضا اور پھر سے اعتکاف کرنے میں سے کوئی کام ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۳)اگر کسی عورت کو جس نے اعتکاف کیا ہے اعتکاف کا دوسرا دن پورا ہونے کے بعد حیض آجائے تو واجب ہے کہ مسجد سے فوراً باہر نکل جائے اور احتیاط واجب کی بناء پر اعتکاف کی قضا کرنا اس پر لازم ہے سوائے اس صورت میں کہ اعتکاف کی ابتداء میں ہی (درمیان میں اعتکاف چھوڑ دینے کی شرط) قرار دی ہوجس کی تفصیل مسئلہ نمبر (۱۷۵۹) میں گزر چکی ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۴)واجب اعتکاف کی قضا بجالانا فوراً واجب نہیں ہے لیکن قضا بجالانے میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ جس سے واجب کی ادائگی میں کاہلی اور سستی شمار کی جائے اورفوراً قضا بجالانا احتیاط مستحب ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۵)وہ اعتکاف جو نذریا قسم یا عھد یا اعتکاف کا دودن گزر جانے کی بناء پر واجب ہوا ہے اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دوران انتقال کرجائے تواس کے ولی (بڑے بیٹے )پر اعتکاف کی قضا واجب نہیں ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہےکہ مرنے والے کے اعتکاف کی قضا بجالائے ہاں اگر اعتکاف کرنے والے نے اس سلسلے میں وصیت کی ہو کہ اس کے ایک تہائی مال سے کسی کو اعتکاف کرنے کےلئے اجیر بنادیا جائےتو اس کی وصیت کے مطابق عمل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۶)اگر اعتکاف کرنے والا واجب اعتکاف کو بیوی سے ہمبستری کرکے عمداً باطل کردے خواہ دن میں ہو یا رات میں تو کفارہ واجب ہوجائے گا اور دوسرے حرام امور میں کفارہ نہیں ہے اگر چہ احتیاط مستحب ہےکہ کفارہ دے او راعتکاف باطل کرنے کا کفارہ ماہ رمضان المبارک کے کفارہ کی طرح ہے کہ انسان ساٹھ روزہ رکھے یا ساٹھ فقیر کو کھانا کھلانے کے درمیان اختیار رکھتا ہے اگر چہ احتیاط مستحب ہے کہ کفارۂ مُرَتّبہ کی رعایت کرے یعنی پہلے ساٹھ دن روزہ رکھے اگر قدرت نہ ہوتو ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے۔
مسئلہ (۱۷۶۷)ایک اعتکاف کو دوسرے اعتکاف میں بدلناجائز نہیں ہے خواہ دونوں واجب ہوں جیسے ایک نذر اور دوسرا قسم کے ذریعہ خود پر واجب کیا ہو یا دونوں مستحب ہوں یا پھر ایک واجب اور دوسرا مستحب ہو یا ایک اپنے لئے اور دوسرا نیابت کے لئے اجیر بنا ہو یا دونوں دوسرے کی نیابت میں ہوں ۔




