احکاماحکام خمس و زکات

زکوٰۃ کےمصارف

مسئلہ (۱۹۴۰)زکوٰۃ کامال آٹھ جگہوں پر خرچ ہوسکتاہے :
۱:)فقیر : وہ شخص جس کے پاس اپنے اوراپنے اہل وعیال کے لئے سال بھرکے اخراجات نہ ہوں فقیرہے لیکن جس شخص کے پاس کوئی ہنریاجائداد یا سرمایہ ہوجس سے وہ اپنے سال بھرکے اخراجات پورے کرسکتاہووہ فقیرنہیں ہے۔
۲:)مسکین : وہ شخص جوفقیرسے زیادہ تنگدست ہو،مسکین ہے۔
۳:)وہ شخص جوامام علیہ السلام یانائب امام علیہ السلام کی جانب سے اس کام پر مامور ہو کہ زکوٰۃ جمع کرے، اس کی نگہداشت کرے، حساب کی جانچ پڑتال کرے اورجمع کیاہوامال امام علیہ السلام یا نائب امام علیہ السلام یا فقراء (ومساکین) کوپہنچائے۔
۴:)وہ کفارجنہیں زکوٰۃ دی جائے تووہ دین اسلام کی جانب مائل ہوں یا جنگ میں یاجنگ کے علاوہ مسلمانوں کی مددکریں ۔اسی طرح وہ مسلمان جن کاایمان ان بعض چیزوں پرجوپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لائے ہیں کمزورہولیکن اگران کو زکوٰۃ دی جائے توان کے ایمان کی تقویت کاسبب بن جائے یا جو مسلمان شہنشاہ ولایت امام علی علیہ السلام کی ولایت پر ایمان نہیں رکھتے لیکن اگران کو زکوٰۃ دی جائے تووہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت (کبریٰ) کی طرف مائل ہوں اوراس پرایمان لے آئیں ۔
۵:)غلاموں کوخریدکرانہیں آزادکرنا: جس کی تفصیل اس کے باب میں بیان ہوئی ہے۔
۶:)وہ مقروض جواپناقرض ادانہ کرسکتاہو۔
۷:)فی سبیل اللہ یعنی وہ کام جن کافائدہ تمام مسلمانوں کوپہنچتاہومثلاً مسجدبنانا، ایسا مدرسہ تعمیرکرناجہاں دینی تعلیم دی جاتی ہو،شہرکی صفائی کرنانیزسڑکوں کوپختہ بنانااورانہیں چوڑاکرنااورانھی جیسے دوسرے کام کرنا۔
۸:)ابن السبیل: یعنی وہ مسافرجوسفرمیں ناچارہوگیاہو۔
یہ وہ مقامات ہیں جہاں زکوٰۃ خرچ ہوتی ہے۔ لیکن مالک زکوٰۃ کو امام ؑ یانائب امام کی اجازت کے بغیرنمبر(۳)اورمدنمبر(۴) میں خرچ نہیں کرسکتااوراسی طرح( احتیاط لازم) کی بناپرنمبر(۷) میں حاکم شرع کی اجازت ضروری نہیں ہے اورمذکورہ مدوں کے احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔

مسئلہ (۱۹۴۱)احتیاط واجب یہ ہے کہ فقیراورمسکین اپنے اوراپنے اہل وعیال کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ زکوٰۃ نہ لے اوراگراس کے پاس کچھ رقم یاجنس ہوتو فقط اتنی زکوٰۃ لے جتنی رقم یاجنس اس کے سال بھرکے اخراجات کے لئے کم پڑتی ہو۔

مسئلہ (۱۹۴۲)جس شخص کے پاس پورے سال کا خرچ ہواگروہ اس کاکچھ حصہ استعمال کرلے اور بعدمیں شک کرے کہ جوکچھ باقی بچاہے وہ اس کے سال بھرکے اخراجات کے لئے کافی ہے یانہیں تووہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔

مسئلہ (۱۹۴۳)جس ہنرمندیاصاحب جائداد یاتاجرکی آمدنی اس کے سال بھرکے اخراجات سے کم ہووہ اپنے اخراجات کی کمی پوری کرنے کے لئے زکوٰۃ لے سکتاہے اور لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے کام کے اوزاریا جائدار یاسرمایہ اپنے اخراجات کے مصرف میں لے آئے۔

مسئلہ (۱۹۴۴)جس فقیر کے پاس اپنے اوراپنے اہل وعیال کے لئے سال بھر کا خرچ نہ ہولیکن ایک گھر کامالک ہوجس میں وہ رہتاہویاسواری کی چیزرکھتاہو اوران کے بغیرگذربسرنہ کرسکتاہوخواہ یہ صورت اپنی عزت رکھنے کے لئے ہی ہووہ زکوٰۃ لے سکتاہے اور گھرکے سامان، برتنوں اور گرمی وسردی کے کپڑوں اورجن چیزوں کی اسے ضرورت ہو ان کے لئے بھی یہی حکم ہے اورجوفقیریہ چیزیں نہ رکھتاہواگراسے ان کی ضرورت ہوتو وہ زکوٰۃ سے خریدسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۴۵)وہ فقیر جو کام کرسکتا ہو اور اپنے اور اپنےاہل و عیال کا خرچ مہیاکرسکتا ہو لیکن کاہلی کی بناء پر یہ کام نہ کرے تو اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے اور وہ فقیر طالب علم جس کےلئے کام کرنا حصول علم کی راہ میں رکاوٹ بنے وہ کسی بھی صورت میں فقراء کے حصے کی زکوٰۃ نہیں لے سکتا سوائے اس صورت کے کہ جب علم کا حاصل کرنا اس پر واجب عینی ہوگیا ہو، او ر فی سبیل اللہ کے حصے کی زکوٰۃ اس صورت میں حاکم شرع کی اجازت کے ساتھ (احتیاط لازم کی بناء پر) لیناجائز ہےجب کہ اس کا علم حاصل کرنا عام منفعت کےلئے ہو اور وہ فقیر جس کے لئے کام سیکھنا مشکل نہ ہو( احتیاط واجب کی بناء پر) زکوٰۃ کے ذریعہ زندگی بسر نہ کرے لیکن جب تک ہنر کے سیکھنے میں مصروف یا مشغول ہے زکوٰۃ لے سکتا ہے۔

مسئلہ (۱۹۴۶)جوشخص پہلے فقیررہاہواوروہ کہتاہوکہ میں فقیرہوں تواگرچہ اس کے کہنے پرانسان کواطمینان نہ ہو پھربھی اسے زکوٰۃ دے سکتاہے۔لیکن جس شخص کے بارے میں معلوم نہ ہوکہ وہ پہلے فقیررہاہے یانہیں تو (احتیاط کی بناپر)جب تک اس کے فقیرہونے کا اطمینان نہ کرلے،اس کوزکوٰۃ نہیں دے سکتا۔

مسئلہ (۱۹۴۷)جوشخص کہے کہ میں فقیرہوں اورپہلے فقیرنہ رہاہواگراس کے کہنے سے اطمینان نہ ہوتاہوتو اسے زکوٰۃ نہ دی جائے۔

مسئلہ (۱۹۴۸)جس شخص پرزکوٰۃ واجب ہواگرکوئی فقیراس کامقروض ہوتووہ زکوٰۃ دیتے ہوئے اپناقرض اس میں سے حساب کرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۴۹)اگرفقیرمرجائے اوراس کامال اتنانہ ہوجتنااس نے قرضہ دیناہو تو قرض خواہ قرضے کوزکوٰۃ میں شمار کرسکتاہے بلکہ اگرمتوفی کامال اس پرواجب الاداقرضے کے برابرہواوراس کے ورثااس کاقرضہ ادانہ کریں یاکسی اوروجہ سے قرض خواہ اپناقرضہ واپس نہ لے سکتاہوتب بھی وہ اپناقرضہ زکوٰۃ میں شمارکرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۵۰)یہ ضروری نہیں کہ کوئی شخص جوچیزفقیرکوبطورزکوٰۃ دے اس کے بارے میں اسے بتائے کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ اگرفقیرزکوٰۃ لینے میں شرمندگی محسوس کرتاہو تو مستحب ہے کہ اسے مال توزکوٰۃ کی نیت سے دیاجائے لیکن اس کازکوٰۃ ہونااس پرظاہر نہ کیاجائے۔

مسئلہ (۱۹۵۱)اگرکوئی شخص یہ خیال کرتے ہوئے کسی کوزکوٰۃ دے کہ وہ فقیرہے اور بعدمیں اسے پتا چلے کہ وہ فقیرنہ تھایامسئلے سے ناواقف ہونے کی بناپرکسی ایسے شخص کو زکوٰۃ دےدے جس کے متعلق اسے علم ہوکہ وہ فقیرنہیں ہے تویہ کافی نہیں ہے لہٰذااس نے جو چیزاس شخص کوبطورزکوٰۃ دی تھی اگروہ باقی ہوتوضروری ہے کہ اس شخص سے واپس لے کرمستحق کودے اوراگرختم ہوگئی ہوتواگرلینے والے کوعلم تھاکہ وہ مال زکوٰۃ ہے توانسان اس کا عوض اس سے لے کرمستحق کودے سکتاہے اوراگرلینے والے کویہ علم نہ تھاکہ وہ مال زکوٰۃ ہے تواس سے کچھ نہیں لے سکتااورانسان کواپنے مال سے زکوٰۃ کاعوض مستحق کو دینا ضروری ہے یہاں تک کہ فقیر کی شناخت کےلئے تحقیق کی ہو یا شرعی دلیلوں کی بنا پر دیا ہو تب بھی احتیاط واجب کی بنیاد پر یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۱۹۵۲)جوشخص مقروض ہواور قرضہ ادانہ کرسکتاہواگراس کے پاس اپنا سال بھر کاخرچ بھی ہوتب بھی اپناقرضہ اداکرنے کے لئے زکوٰۃ لے سکتاہے لیکن ضروری ہے کہ اس نے جومال بطورقرض لیاہواسے کسی گناہ کے کام میں خرچ نہ کیاہو۔

مسئلہ (۱۹۵۳)اگرانسان ایک ایسے شخص کوزکوٰۃ دے جو مقروض ہواوراپناقرضہ ادا نہ کرسکتاہواوربعد میں اسے پتا چلے کہ اس شخص نے جوقرضہ لیاتھاوہ گناہ کے کام پرخرچ کیا تھاتواگروہ مقروض فقیرہوتو انسان نے جوکچھ اسے دیاہواسے سہم فقراء میں شمار کر سکتا ہے۔

مسئلہ (۱۹۵۴)جوشخص مقروض ہواوراپناقرضہ ادانہ کرسکتاہواگرچہ وہ فقیر نہ ہوتب بھی قرض خواہ قرضے کوجواسے مقروض سے وصول کرناہے زکوٰۃ میں شمارکرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۵۵)جس مسافر کازادراہ ختم ہوجائے یااس کی سواری قابل استعمال نہ رہے اگراس کاسفرگناہ کی غرض سے نہ ہواوروہ قرض لے کریااپنی کوئی چیزبیچ کرمنزل مقصود تک نہ پہنچ سکتاہوتواگرچہ وہ اپنے وطن میں فقیرنہ بھی ہوزکوٰۃ لے سکتاہے لیکن اگر وہ کسی دوسری جگہ سے قرض لے کریااپنی کوئی چیزبیچ کر سفرکے اخراجات حاصل کرسکتا ہو تو وہ فقط اتنی مقدار میں زکوٰۃ لے سکتاہے جس کے ذریعے وہ اپنی منزل تک پہنچ جائےاور (احتیاط واجب کی بناء پر) اپنے وطن میں کسی مال کو بیچ کریا کرائے پر دے کر زادراہ مہیا کرسکتا ہو تو وہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔

مسئلہ (۱۹۵۶)جومسافر سفرمیں ناچارہوجائے اورزکوٰۃ لے اگراس کے وطن پہنچ جانے کے بعدزکوٰۃ میں سے کچھ بچ جائے اسے زکوٰۃ دینے والے کوواپس نہ پہنچاسکتاہو توضروری ہے کہ وہ زائدمال حاکم شرع کوپہنچادے اوراسے بتادے کہ یہ مال زکوٰۃہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button